• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحرف سبعہ اور ان کا مفہوم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحرف سبعہ اور ان کا مفہوم

قراء ات قرآنیہ کے تناظر میں
پرو فیسر قاری تاج افسر​
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے تعارف اور اپنی صفات کے اظہار کے لئے کائنات کو تخلیق کیا تو اس کی رہنمائی کے اَسباب بھی ساتھ ہی پیدا کر دیئے یہاں تک کہ خلافت اَرضی کے لئے انسان کو نفسانیت اور روحانیت کے حسین اِمتزاج سے پیدا کر کے قدرتِ کاملہ کا اِظہار بھی فرما دیا اور اس کی رہنمائی کے لئے ان ہی میں سے کامل ترین ہستیوں یعنی انبیاء کو منتخب فرمایا اور وحی کا سلسلہ جاری فر ماکر ان کی تربیت کاخصوصی انتظام اپنے دست غیب سے کیا۔
پھر جب اجتماعی عقل انسانی اپنے عروج کو پہنچی تو امام الانبیاءﷺکی بعثت فر ما کر ایسی کتاب کی نعمت سے نوازا جس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا او رخود لینے کا مفہوم قطعاً یہ نہیں کہ فرشتوں کے ذریعے حفاظت کی بلکہ انسانوں میں سے ہی اہل حق نے اس کا ذمہ قبول کیا اورکتاب ایسی جامع کہ قیامت تک آنے والی اِنسانیت اپنے ہر دور میں پیش آنے والے مسائل اور اجتماعی ترقی کا راز اس میں پاسکتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ عنقریب تاریک رات کی طرح فتنے پیدا ہو ں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہﷺان سے کیسے بچا جا سکتا ہے ؟ تو حضورﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ کی کتاب قرآن حکیم کے ذریعے سے، کیونکہ اس میں پہلے لوگوں کے واقعات اورتجربات آئندہ آنے والے حالات کے متعلق پشین گوئیاں اور زمانہ حال کے لوگوں کے لئے راہنمائی کے اَسباب موجود ہیں یہ کتاب مقدس ایک حقیقت ہے جھوٹ اورلغو نہیں ہے جس نے غرور کی بنیاد پر اس کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ اس کی کمر توڑ دے گا اور جس نے اس کے علاوہ کہیں سے ہدایت تلاش کی تو اللہ تعالیٰ اس کو گمراہ کر دے گا اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔(سنن الترمذي باب ما جاء فی فضل القرآن:۸؍۲۱۸،ط :اسلام آباد)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ تعالیٰ کے پیغمبرﷺکے ارشاد کی تصدیق انسانیت کی تاریخ نے کر دی۔ اپنی جگہ یہ موضوع خاصی طوالت رکھتا ہے جس کا یہ محل نہیں البتہ اس کے دو بڑے او راہم ترین اعجازہیں جو ہر دور کے منکرین کو جھنجھوڑتے چلے آئے ہیں اور قیامت تک چیلنج کرتے رہیں گے ایک یہ کہ دنیا جتنی بھی ترقی کر لے اور بلندی کی جن چوٹیوں تک پہنچ جائے قرآن کو وہ رہنما ہی پائے گی ۔ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ
اور دوسرا یہ کہ کلام مقدّس عرب کے جتنے لغات پر اترا ہے ان لغات میں بمع روایات اورطرق آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک یہ قراء ا ت ،روایات اورطرق ایسے ہی محفوظ رہیں گے الایہ کہ جووجوہ حضورﷺکی حیاتِ مطہرہ میں ہی منسوخ ہوچکی تھیں، لیکن چونکہ حق کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہی باطل کی تاریخ بھی چلتی ہے لہٰذا غیر مسلموں نے اس کلام مجید میں شکوک وشبہات ڈالنے کی کوشش کی اور قراء اتِ مختلفہ کوتواتر إلی الرسول کے بجائے اختلاف رسم الخط کا نتیجہ قر ار دیا۔(مذاہب التفسیر الإسلامی از گولڈ زیہر:ص۸،۹)
اپنوں نے بھی ان قراء اتِ متواترہ پر اعتراضات کر کے ان کی تنقیص میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں سے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ اختلاف ِقراء ا ت قاریوں کی خوش الحانیوں کا نتیجہ ہے اور بس۔
لہٰذاضروری تھا کہ اس موضوع کو اُجاگر کر کے ان شبہات کا اِزالہ کر دیاجائے تاکہ لِیَہْلَکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ ہو جائے اس کے لئے اس تحریر کوچند مباحث میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی بحث:قراء ا تِ متواترہ کے بارے میں اَحادیث اور ان کی اِسنادی حیثیت
(١) صحیحین یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’ مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن پڑھایا میں مسلسل اس میں تخفیف کامطالبہ کرتارہا یہاں تک کہ سات اَحرف پر بات ختم ہو گئی۔‘‘(صحیح البخاري،باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف:۱۹؍۲۷،۲۸،صحیح مسلم:۱؍۲۷۳)
(٢) صحیحین ہی کی دوسری روایت حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ہے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ ان کی قراء ت میری حضورعلیہ السلام کی سکھائی ہوئی قراء ت سے مختلف تھی تو میں نے ان کوپکڑنا چاہا، لیکن تھوڑی مہلت دی یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو گئے۔میں نے انہیں چادر سے کھینچا اور حضورﷺکے پاس لے آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺیہ سورۃ الفرقان کی تلاوت کسی اور طرح سے کر رہا ہے جب کہ مجھے آپ نے دوسری طرح سے پڑھائی ہے۔ حضورﷺنے فرمایا اس کو چھوڑ دو کہ کچھ سنائے تو انہوں نے اسی طرح سنادی پھر مجھ سے سنی میں نے اپنے اندازسے سنا دی حضورﷺنے دونوں کوفرمایا کہ قرآن اسی طرح نازل ہوا ہے پھر فرمایا کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے جو تمہیں آسان لگے پڑھ لو۔ (صحیح مسلم ،باب بیان القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف:۸؍۲۱۸)
(٣) صحیح مسلم کی روایت کے راوی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا۔ ایک شخص آیا اور نماز میں قراء ت ایسی کرنے لگا جو مجھے ناگوارگزری پھر ایک اور شخص آیا اس نے پہلے سے بھی زیادہ اختلاف سے قرا ء ت کی جب ہم نماز سے فارغ ہوچکے تو سب حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔میں نے سارا واقعہ آپﷺکو سنایا۔ حضورﷺنے دونوں سے سنانے کا مطالبہ کیا اور سن کر دونوں کی تصحیح کر دی تومجھے وہ شرمندگی ہوئی جو جاہلیت میں بھی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ حضورﷺنے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تواپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا میرے پسینے نکل گئے اور میں گویا اللہ تعالیٰ کو سامنے دیکھ رہا ہوں۔پھر فرمایااے ابی رضی اللہ عنہ!میری طرف یہ پیغام بھیجا گیا کہ میں قرآن کو ایک حرف پر پڑھوں تومیں نے دعاکی کہ میر ی اُمت کے ساتھ نرمی کی جائے تو مجھے دو حرف پڑھنے کی اِجازت دے دی گئی پھر میں نے اُمت کے ساتھ نرمی کی درخواست کی تو مجھے سات حروف پر تلاوت کی اجازت دے دی گئی اورتینوں دفعہ مجھے ایک زائد دعا کا اختیار بھی مل گیا جس میں سے دو دفعہ میں نے اپنی اُمت کے لئے مغفرت کی دعا مانگی اورتیسری قیامت کے لئے محفوظ کر لی جس دن تمام لوگ انبیاء کرام یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھی آئیں گے۔ (صحیح مسلم:۱؍۲۷۲،۲۷۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) سنن الترمذی کی روایت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺکی ملاقات حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ہوئی توآپﷺ نے فرمایا اے جبرائیل علیہ السلام! میں ان پڑھ امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور ان میں عمر رسیدہ بوڑھے، بوڑھیاں اور نو عمر بچے بھی ہیں۔جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ ٰان کو قرآن حکیم سات حروف میں پڑھنے کا حکم دیں۔(سنن التر مذي،باب ماجاء أن القران أنزل علی سبعۃ أحرف:۸؍۲۱۸)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان اَحادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بہت بڑی تعداد سے منقول ہے، جن میں اکیس اَجلاء صحابہ رضی اللہ عنہم کے اسماء بھی ذکر کیے ہیں اور وہ یہ ہیں:ابی بن کعب،انس بن مالک،حذیفہ بن یمان،زید بن ارقم،سمرۃ بن جندب،سلمان بن صرد،ابن عباس،عبد الرحمان بن عوف،عثمان بن عفان،عمر بن خطاب،عمرو بن ابی سلمہ،عمروبن العاص،معاذ بن جبل ،ہشام بن حکیم،ابوبکرہ،ابوجہیم،ابوسعید الخدری،ابوطلحہ الانصاری،ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم۔(الاتقان فی علوم القرآن للامام جلال الدین السیوطی:۱؍۴۵)
ڈاکٹر حسن ضیاء الدین نے ان پر مزید تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اضافہ کیا ہے وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ،عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور اُم ایوب رضی اللہ عنہا ہیں۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں ہو الأحرف السبعۃ ومنزلۃ القراء ا ت منہا للدکتور حسن ضیاء الدین :۱۰۸)
اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ نے ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ سے صراحتاً تواتر نقل کیا ہے۔ (النشر فی القراء ت العشر لابن الجزری:۱؍۳۱)
اور امام ابو یعلی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور قسم دے کر لوگوں سے پوچھا کیا تم میںسے کسی نے حضورﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن سات حروف میں اُتارا گیا ہے تمام کے تمام شافی وکافی ہیں؟ تو صحابہ کے مجمع سے اتنی بڑی جماعت کھڑی ہو گئی کہ جس کا شمار مشکل ہو گیا پھر امیر المؤمنین نے فرمایا میں بھی اس پر گواہ ہوں۔(الاتقان للسیوطی:۱؍۴۵)
فقیہ کبیر ملا علی قاری الہروی رحمہ اللہ نے ان اَحادیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کے تواترکا دعویٰ الفاظ کے متواتر ہونے کا ہے ورنہ تواتر بالمعنی میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔(المرقاۃ شرح مشکوٰۃ لملا علی قاری:۵؍۱۶)
گویا یہ روایت متواتر اللفظ والمعنی ہوئی جوانتہائی نادر ہے۔
مشہور یہودی مستشرق گولڈزیہر کے حسد اور قرآن دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ ان تمام حقائق سے نظر پھیرتے ہوئے ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کی طرف اس حدیث کے ضعف کا قول منسوب کیا ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظ ہو مذاہب التفسیر الاسلامی :۵۴) فلعنۃ اﷲ علی الکاذبین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری بحث:سبعہ احرف کا مفہوم اور اہل علم کا اس میں اختلاف
جب قرآن حکیم کا نزول سبعہ احر ف پر ہونااحادیث متواتر ہ سے ثابت ہو چکا تو پھر ’احر ف‘ سے کیا مراد ہے؟ اور موجودہ قراء ات کی ’احرف سبعہ‘ کے ساتھ کیا نسبت ہے؟
یہ ایک ایسا مشکل مسئلہ ہے جو سلفاً خلفاً مختلف فیہ چلا آر ہا ہے، کیونکہ’ حرف‘ لفظ مشترک ہے جو حافہ، ناحیہ، وجہ ، طرف ،حداد اورٹکڑا کے معنی میں آتا ہے۔
چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس بارے میں اہل علم کے چالیس اَقوال نقل کئے ہیں۔ (الاتقان:۱؍۴۵)
تاہم ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں بلکہ کبھی تو وہ اس حدیث کے مضمون کے مخالف نظر آتے ہیں مثلاً
(١) یہ کہ سبعہ احرف سے مراد یہ سات اشیاء ہیں: مطلق، مقید،عام ،خاص نص، موول، ناسخ ومنسوخ، مجمل ومفسر ، استثناء او راس کی اقسام، اور یہ بعض اُصولیین کا مذہب ہے۔
(٢) یہ کہ اس سے مراد حذف وصلہ، تقدیم وتاخیر، قلب واستعارہ، تکرار وکنایہ، حقیقۃ ومجاز، مجمل ومفسر ظاہر اور غریب ہیں اور یہ بعض اہل لغت کامذہب ہے۔
(٣) یہ کہ سبعہ اَحرف سے مراد تذکیر وتانیث، شرط وجزا، تصریف واِعراب، اقسام اور جواب اقسام جمع وتفریق، تصغیر وتعظیم اور اختلافات ادوات (جس سے معنی میں تبدیلی آرہی ہو یا نہیں)۔یہ بعض نحویوں کا مذہب ہے۔
(٤) یہ کہ اس سے مراد معاملات کی سات اَقسام ہیں اور وہ یہ ہیں: زہد وقناعت، حزم وخدمت، سخاوت واستغناء، مجاہد ومراقبہ،خوف ورجاء، صبر وشکر اور محبت وشوق یہ بعض صوفیاء کا مذہب ہے۔
(٤) یہ کہ سبعہ احرف سے مراد وہ سات علوم ہیں جن پر قرآن حکیم مشتمل ہے او روہ یہ ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) علم الاثبات والایجاد جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ…‘‘(آل عمران:۱۹۰)
(٢) علم التوحید والتنزیہ جیسے : ’’قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ‘‘ (الاخلاص:۱)
(٣) علم صفات الذات جیسے:’’وَﷲِ الْعِزَّۃُ‘‘(المنافقون:۸)’’اَلْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ‘‘(الجمعۃ:۱)
(٤) علم صفات الفعل جیسے: ’’وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا اﷲ‘‘(النساء:۳۶)، ’’وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ‘‘(البقرۃ:۴۳)، ’’لَاتَاکُلُوا الرِّبَا‘‘(آل عمران:۱۳۰)
(٥) علم صفات العفو والعذاب جیسے: ’’نَبِّئْی عِبَادِی اَنِّی اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَاَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْم‘‘ (الغافر:۴۹)
(٦) علم الحشروالحساب جیسے ’’اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ‘‘(الحج:۴۹)، ’’اِقَرَأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبا‘‘(الاسراء:۱۴)
(٧) علم النبوات والامامات جیسے ’’یَاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْ اﷲَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِیْ الأْمْرِ مِنْکُمْ‘‘ (سورۃ النساء:۵۹، البرہان :۱؍۲۲۴، الاتقان:۱؍۴۸)یہ اقوال چند وجوہات کی بنا پر صحیح معلوم نہیں ہوتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَولاً: اِن اقوال کے قائلین اپنے اقوال پر کوئی دلیل شرعی ذکر نہیں کرتے اور نہ کسی بحث علمی کی بنیاد پر یہ بات کہی گئی ہے بلکہ اس سے ہر طبقہ کے اپنے تخصص کی عکاسی ہوتی ہے کوئی نحوی ہے تو اس نے نحوی اُصولوں کو بنیاد بنایا کوئی صوفی ہے تو اس نے اپنے تصوف کی روشنی میں توجیہ کر دی ہے یہی معاملہ فقہاء اوراُصولیین کا بھی ہے۔
ثانیاً: ان میں سے کوئی قول بھی دلالت حدیث کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اس لیے کہ حدیث میں جو اَحرف سبعہ کوموضوع بنایا گیا ہے اس کا تعلق قراء ا ت اور کیفیات نطق کے ساتھ ہے اور اسی بنیاد پر حضرت عمررضی اللہ عنہ کا اختلاف حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہم اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اختلاف دوسرے قاری کے ساتھ ہوا۔جبکہ مذکورہ اَقوال کا تعلق مفاہیم اورعلمی استنباطات سے ہے۔
ثالثاً: سبعہ اَحرف کے یہ مفاہیم قرآن کے سبعہ اَحرف پر نازل ہونے کی حکمتوں کے ساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتے اس لئے کہ وہ حکمت تسہیل اورتیسیر علی الأمۃ تھی تاکہ تمام لوگ قرآن حکیم کی تلاوت کرسکیں اس لیے کہ رسول اللہﷺنے اس کی طلب، تسہیل امت کے لئے کی تھی۔
چنانچہ حدیث مذکور میں کہا گیا ہے :یا جبرائیل إنی بعثت إلی أمۃ أمیین منہم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قط قال یا محمد: إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف
جبکہ مذکورہ بالا مفاہیم اس کو اور زیادہ مشکل بنا رہے ہیں۔
رابعاً: ان آراء میں سے اکثر باہم متداخل بھی ہیں یا اس قدر قریب ہیں کہ ان کو مستقل رائے شمار نہیں کیا جا سکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض دوسرے قابل ذکر اقوال
پہلا قول:پہلا قول أبوجعفر بن سعدان النحوی رحمہ اللہ (ابوجعفر محمد بن سعدان النحوی رحمہ اللہ مشہور قراء میں سے ایک ہیں۔قراء ت میں پہلے امام حمزہ کے متبعین میں سے تھے پھر خود ایک قراء ت کی نسبت کے ساتھ مشہور ہوئے ۔۲۱۳ھ میں وفات پائی ۔(أنباہ الرواۃ:۳؍۱۴)) کا ہے کہ سبعہ احرف والی حدیث ان مشکلات میں سے ہے جن کا معنی کوئی بھی نہیں معلوم کرسکتا۔ اس لیے کہ حرف کبھی حروف ہجاء کے ایک حرف پر بھی بولا جاتا ہے اور کبھی کسی پوری غزل یا قصیدے کو بھی حرف کہہ دیتے ہیں اور حرف جہۃ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔(البرہان فی علوم القرآن:۱؍۲۱۳) تو ایسے مشترک لفظ کے مفہوم کی تحدید انتہائی مشکل ہے یہی رائے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی بھی معلوم ہوتی ہے۔چنانچہ سنن نسائی کی شرح زہر الربی :۱؍۱۵۰ میں فرماتے ہیں :
’’إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فی المراد بہ أکثر من ثلاثین قولا حکیتہا فی الاتقان والمختار عندی انہ من المتشابہ الذی لا یدری تاویلہ ‘‘ ( ط: القاہرہ)
لیکن یہ رائے کچھ زیادہ وجیہ معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ نبی اکرمﷺنے حضرت عمررضی اللہ عنہ اورحضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور جن نمازیوں سے ان کاقراء ت میں اختلاف ہوا تھا ان کے درمیان فیصلہ فرماتے ہوئے سب کی قراء ت کوسن کر ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن حکیم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ تو اس بات سے اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کا معنی گو کہ متعین کرنا مشکل ہے لیکن معنی احتمالی کی گنجائش موجود ہے۔
دوسرا یہ کہ اگر ان معانی پر غور کیا جائے تو لغوی اعتبار سے بھی سوائے ایک کے متعین نہیں کیا جا سکتا مثلاً اگر حرف بمعنی کلمہ(کلمہ بمعنی قصیدہ اور غزل کے ہے اوریہ لغت عرب میں مستعمل ہے) لے لیا جائے تویہ محال ہے اس لیے کہ قرآن سات کلمات سے مرکب تو نہیں ہے بلکہ ہزاروں کلمات پر مشتمل ہے۔اگر حروف ہجاء میں سے حرف مرادلیا جائے تو یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ قرآن میں صرف سات حروف ہجاء ہی تو استعمال نہیں ہوئے بلکہ پورے۲۹ حروف ہجاء استعمال ہوئے ہیں۔
اس سے حرف بمعنی جہۃ خود بخود متعین ہو جاتا ہے، البتہ مفہوم او رمراد کا اختلاف رہ جاتا ہے جس کی تفصیل آرہی ہے۔(منہج الفرقان فی علوم القرآن للشیخ محمد علی سلامۃ:ص۲۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا قول:
امام قاضی عیاض رحمہ اللہ کاہے ان کے ہاں ’سبعہ احرف‘ سے مراد آسانی اور سہولت ہے خاص عدد مراد نہیں ہے ان کی دلیل عرب کے استعمالات ہیں کہ وہ سبع بول کر کثرت مراد لیتے ہیں سبعون سے مراد عشرات اورسبع مائۃ سے مراد سینکڑے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں یہی مراد ہے۔
’’اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِائَۃُ حَبَّۃٍ‘‘(البقرۃ:۲۶۱، الاتقان:۱؍۴۶)
اور اس رائے کی طرف محمد جمال الدین قاسمی مصری رحمہ اللہ کامیلان بھی معلوم ہوتا ہے۔(محاسن التاویل :۱؍۲۸۷،چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی رائے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: والا ظہر ما ذکرنا من إرادۃ الکثرۃ من السبعۃ لا التحدید فیشمل ما ذکرہ ابن قتیبۃ وغیرہ)لیکن یہ رائے بھی احادیث کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے محل نظر ہے، مثلاً
(ا):حدیث ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہ جس میں رسول اللہﷺنے اللہ تعالیٰ سے معافی اورمغفرت کے واسطہ سے سوال کیا کہ میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی تو پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام تشر یف لائے اورانہوں نے دوحرف پر پڑھنے کو کہا پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی ہوا بعض روایات کے مطابق چوتھی مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حکم لائے کہ آپ کی اُمت کو ’سبعہ احرف‘ پر پڑھنے کی اجازت ہے۔ (اس حدیث کوامام مسلم،امام نسائی، امام ابوداؤد اور امام احمدرحمہم اللہ نے ذکرکیا ہے)
اس بار بار سوال کرنے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے جواب لانے سے حدیث کا سیاق ایک خاص عدد کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
(ب) حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں یہ صراحت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضورﷺکو ایک حرف پر قرآن پڑھایا تو آپ نے زیادہ کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ سات حروف پر بات ختم ہو گئی۔(حدیث درج ذیل ہے۔ عن عبد اﷲ بن عباس أن رسول اﷲ ﷺقال أقرأنی جبرائیل علی حرف فراجعتہ فلم أزل استزیدہ فیزیدنی حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف ،صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن :۹؍۲۷،۲۸، صحیح مسلم:۱؍۲۷۳)
اس حدیث سے بھی سات کے عدد کی صراحت معلوم ہوتی ہے۔ نیز احادیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ اورابن مسعودرضی اللہ عنہ سے بھی یہی مفہوم نکلتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسراقول:
خلیل بن احمد متوفی رحمہ اللہ۱۷۰ھ کا ہے اور وہ یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد سبع قراء ا ت(سات قراء ات) ہیں گویا حرف بمعنی قراء ت ہے۔
اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس قول پر لازم آتا ہے کہ ہر کلمہ قرآنی سات دفعہ نازل ہوا، لیکن یہ محال ہے اس لیے کہ سات دفعہ مختلف انداز سے پڑھنا بہت کم حرف میں ثابت ہے، لیکن اگر ان کے استدلال پر غور کیا جائے اور وہ حدیث عمرtسے ہے جس میں حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں: فقرأ القراء ۃ إلی سبعۃ یقرأ جبکہ یہی حضرت عمررضی اللہ عنہ چند جملے پہلے یہ فرما چکے ہیں یقرأ علی حروف کثیرۃ تو اس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مراد حرف سے قراء ت ہے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ فرماتے ہیں فقرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ اور چند جملے بعد اسی لفظ کو دھرایا اور فرمایا ان ہذا قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہ جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اختلاف حروف میں تھا اس لئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ حضرات حرف سے مراد قراء ت ہی لیتے ہیں اس کلام کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ خلیل بن احمدرحمہ اللہ کی مراد قراء ۃ سے المقرو ، ہے اور مقروء وہی مختلف اوجہ لغات ہیں یہی جمہور کا مسلک ہے کہ’’ احرف‘‘ سے مراد اوجہ لغات ہیں او راگر ان کی مراد کوئی اور ہے تو علی المعترض البیان۔
 
Top