• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ ﷺ کیسے تھے؟

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
29: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) برابری کا برتاؤ کرتے


رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں امیر غریب ، چھوٹے اور بڑے ، غلام اور آقا سب برابر تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سب کے ساتھ برابر کا سلوک کیا کرتے تھے۔ آپ جب صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوتے اور کوئی چیز وہاں لائی جاتی تو بغیر کسی امتیاز کے دائیں ، طرف سے اس کو بانٹنا شروع کر دیتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے لئے بھی کسی قسم کا کوئی امتیاز پسند نہ فرماتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتے۔ دوسروں سے ہٹ کر اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ بھی پسند نہ کرتے تھے۔

آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سب کے ساتھ مل جل کر کام کیا کرتے تھے یا ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔
دیکھ لیجئے احزاب کی جنگ کے لئے تیاری ہو رہی ہے ، مدینہ کی حفاطت کے لیے خندق کھودی جارہی ہے۔ تمام صحابہ خندق کھود رہے ہیں اور مٹی لا لا کر پھینک رہے ہیں ، وہ دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب کے ساتھ برابر کے شریک ہیں جسم مبارک گرد سے اَٹا ہوا ہے ۔ 3 دن کا فاقہ ہے مگر پھر بھی مستعدی میں کوئی فرق نہیں ۔ یاد ہوگا کہ مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) مزدوروں کی طرح سب کے ساتھ شریک رہے تھے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
30: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ایثار کے عادی تھے

سخاوت کا سب سے اونچا درجہ ایثار کہلاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ضرورت روک کر دوسرے کی ضرورت پوری کردینا۔ خود بھوکا رہے اور دوسروں کو کھلائے ، خود تکلیف اٹھائے اور دوسروں کو آرام پہنچانے کی کوشش کرے ، اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایک دفعہ ایک مسلمان عورت نے اپنے ہاتھ سے ایک چادر بُن کر حضورآپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کی۔ اس وقت آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو چادر کی سخت
ضرورت تھی۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس تحفہ کو قبول فرمالیا۔ اسی وقت ایک صحابی نے عرض کیا "یا رسول اللہ ! یہ چادر تو بہت خوبصورت ہے ، مجھے عنایت فرمادیں تو بڑا اچھا ہو۔" پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایثار سے کام لیا اور فوراً وہ چادر ان صحابی کو دیدی حالانکہ آپ کو خود ضرورت تھی مگر آپ نے ان کی ضرورت کو مقدم سمجھا۔
ایسی ہی مثالیں ہمارے لئے اندھیرے کا چراغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
31: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے بہادر تھے

انتہائی نرم دل اور رحم دل ہونے کے باوجود نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) بہت ہی نڈر اور بہادر تھے۔ اللہ کے ڈر کے سوا اور کسی کا خوف آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل میں نہ تھا۔ انتہائی بے خوفی کے ساتھ آپ مقابلے کے لیے نکل آتے تھے۔

ایک مرتبہ رات کے وقت مدینہ منورہ میں کچھ شور ہوا۔ مدینہ والے گھبرا گئے۔ سمجھے کہ قریشِ مکہ نے اچانک حملہ کردیا ہے۔ کسی کو ہمت ہی نہ ہوئی کہ باہر نکل کر حالات معلوم کرے، آخر کار کچھ لوگوں نے ہمت کر کے باہر جانے کا ارادہ کیا۔ مگر دیکھتے کیا ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا واپس تشریف لا رہے ہیں اور سب کو تسلی دیتے جاتے ہیں کہ "گھبراؤ نہیں ، میں مدینہ سے باہر جا کر دیکھ آیا ہوں ، کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہے۔"

غزوہ حنین میں جب مشرکین نے چاروں طرف سے گھراؤ کر لیا تھا تو ناقہ سے اتر کر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے حملہ آوروں کا جس بہادری سے مقابلہ کیا تھا اسے دیکھ کر صحابہ دنگ رہ گئے تھے۔

مشرکین عرب کا مشہور پہلوان رکانہ جب اسلام قبول کرنے کی یہ شرط رکھتا ہے کہ "محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کشتی میں مجھے پچھاڑ دیں گے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔" تو دیکھنے والی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ایک دو بار نہیں بلکہ مسلسل 3 دفعہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو شکست دی۔ آخر کار رُکانہ مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
32: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) معاف کردیا کرتے تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حمیدہ میں سے ایک نمایاں صفت صبر کرنا اور معاف کر دینا بھی ہے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں بدلہ نہیں لیا۔"

قریش نے آپ کو گالیاں دیں ، مار ڈالنے کی دھمکی دی ، راستہ میں کانٹے بچھائے ، جسم مبارک پر نجاستیں ڈالیں ، گلے میں پھندا ڈال کر دم گھونٹنے کی کوشش کی ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کیں ، توبہ توبہ ! آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو پاگل ، جادوگر اور شاعر کہا مگر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی اُن کی اِن حرکتوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ معاف فرمادیا۔

اور تو اور طائف والوں نے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ، یہاں تک کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) لہو لہان ہوگئے ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے جوتے خون سے بھر گئے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ اگر تم چاہو تو طائف والوں کو اِن حرکتوں کے بدلہ میں پیس کر رکھ دوں۔
تو یاد ہے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا جواب دیا تھا ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے اور فرمایا تھا "اے اللہ ان کو معاف فرمادے ، یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ انِ کی اولاد اِسلام قبول کر لے۔"
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
33: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بیماروں کی عیادت کرتے تھے

رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کی بیماری کی خبر سنتے تو اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے ، بڑے چھوٹے اور امیر و غریب میں کوئی فرق نہ کرتے۔

آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) مریض کے پاس تشریف لے جاتے ، اس کے سرہانے بیٹھتے ، سر اور نبض پر ہاتھ رکھتے ، حال دریافت فرماتے ، اُسے تسلی دیتے اور پھر صحت کے لئے 7 بار یہ دعا فرماتے:
اسال اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک
"میں بڑائی والے اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے ، سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔"

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شور و غل نہ کرنا سنت ہے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا اور تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ عرض کرےگا" پروردگار! آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں ، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟"۔ اللہ تعالی فرمائے گا:
"میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو تو، نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔" (یعنیٰ تجھے میری خوشنودی اور رحمت حاصل ہوتی)۔۔ (مسلم)
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
34: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) غیر مسلموں کی بھی عیادت کرتے

صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ طرز عمل نہ تھا بلکہ غیر مسلم اور دشمنوں کے ساتھ بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایسا ہی برتاؤ تھا۔

آپ نے پڑھا ہوگا کہ جس راستہ سے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا گزر ہوتا تھا وہیں پر ایک یہودی کا گھر تھا۔ وہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو بہت ستایا کرتا تھا۔ جب آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس راستے سے گزرتے وہ آپ پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا کرتا تھا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے کچھ نہ کہتے تھے۔ کپڑے جھاڑ کر مسکراتے ہوئے گزر جاتے۔ اتفاق کی بات ہے ایک دن اس نے آپ پر کوڑا نہیں پھینکا۔ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کو تعجب ہوا۔ لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ اس نے جو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس برتاؤ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔

ایک یہودی لڑکا حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ بیمار پڑا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی عیادت کے لیے تشریف لئے گئے۔ اس کے سرہانے بیٹھے ، تسلی دی اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کہتے ہوئے واپس آئے:
"خدا کا شکر ہےجس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا۔"
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
35: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بہت عبادت گزار تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوفِ خدا ہر وقت طاری رہتا تھا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے اللہ کو یاد کرتے اور کسی وقت بھی اپنے رب کی یاد سے غافل نہ رہتے۔ رمضان شریف کا مہینہ تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کا موسمِ بہار ہوتا تھا۔

جب بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن شریف پڑھتے یا دوسرے کی زبان سے سنتے تو اللہ کی محبت اور اس کے خوف کے سبب آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔

فرض نمازوں کے علاوہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کثرت سے نوافل ادا کرتے کہ پائے مبارک وَرم کر آتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ "نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور مومنوں کے لیے معراج ہے۔"
آپ راتوں کو سوتے سوتے اٹھتے اور عبادت میں مشغول ہوجاتے۔ نماز میں صفیں سیدھی رکھنے کا بہت اہتمام فرماتے۔

رمضان شریف کے علاوہ بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کثرت سے روزے رکھتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے گھر جا کر کوئی چیز کھانے کے لئے طلب کرتے ، جواب ملتا کوئی چیز نہیں ہے۔" تو آپ فرماتے: "آج ہمارا روزہ رہے گا۔"

جب بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کوئی رقم آتی ، اسے جب تک ضرورتمندوں میں تقسیم نہ کر دیتے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو چین نہ آتا۔ خود فاقہ کر لیتے مگر دوسروں کا پیٹ بھرنا آپ اپنے لیے لازمی سمجھتے تھے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
36: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو تلاوت کا بہت شوق تھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف پڑھنے کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا اس کے علاوہ بھی ہر وقت آپ کی زبانِ مبارک تلاوتِ قرآن سے تر رہتی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، غرض ہر حال میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) تلاوت فرماتے رہتے۔ آپ بڑی پیاری آواز میں تلاوت فرماتے تھے۔ آپ کی ہدایت تھی کہ "قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو ، جو ایسا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ "

آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) دوسروں کی زبان سے بھی قرآن شریف سننے کے بہت شوقین تھے۔ صحابہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانے کا حکم دیا۔ انھوں نے بڑی خوش الحانی سے تلاوت شروع کی۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اتنے متاثر ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

تلاوتِ قرآنِ پاک کے سلسلے میں ہمیں یہ ہدایات ملتی ہیں:۔
1۔ وضو کر کے تلاوت کرنا چاہئے اور جس جگہ بیٹھ کر تلاوت کریں وہ جگہ پاک و صاف ہونا چاہئے۔
2۔ تلاوت کے وقت کعبہ کی طرف منہ کرکے بیٹھنا چاہئے اور دل لگا کر توجہ کے ساتھ تلاوت کرنا چاہئے۔
3۔ تلاوت درمیانی آواز سے کرنا چاہئے۔

36: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو تلاوت کا بہت شوق تھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف پڑھنے کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا اس کے علاوہ بھی ہر وقت آپ کی زبانِ مبارک تلاوتِ قرآن سے تر رہتی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، غرض ہر حال میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) تلاوت فرماتے رہتے۔ آپ بڑی پیاری آواز میں تلاوت فرماتے تھے۔ آپ کی ہدایت تھی کہ "قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو ، جو ایسا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ "

آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) دوسروں کی زبان سے بھی قرآن شریف سننے کے بہت شوقین تھے۔ صحابہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانے کا حکم دیا۔ انھوں نے بڑی خوش الحانی سے تلاوت شروع کی۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اتنے متاثر ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

تلاوتِ قرآنِ پاک کے سلسلے میں ہمیں یہ ہدایات ملتی ہیں:۔
1۔ وضو کر کے تلاوت کرنا چاہئے اور جس جگہ بیٹھ کر تلاوت کریں وہ جگہ پاک و صاف ہونا چاہئے۔
2۔ تلاوت کے وقت کعبہ کی طرف منہ کرکے بیٹھنا چاہئے اور دل لگا کر توجہ کے ساتھ تلاوت کرنا چاہئے۔
3۔ تلاوت درمیانی آواز سے کرنا چاہئے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
37: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے سوتے تھے؟​

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشا کی نماز سے پہلے کبھی نہ سوتے تھے اور نماز کے بعد سونے کی تیاری کرتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) رات میں جلد سوتے اور جلد اٹھتے تھے۔ سونے سے پہلے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بستر اچھی طرح جھاڑ لیتے تھے۔ بستر پر پہنچ کر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور پڑھتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا "جو شخص سونے سے پہلےقرآن کی کوئی سورت پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو جاگنے کے وقت تک اس کی حفاظت کرتا ہے"۔

جب آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سونے کا ارادہ فرماتے تو دایاں ہاتھ اپنے بائیں رخسار کے نیچے رکھ کر دائیں کروٹ پر لیٹتے۔ پَٹ یا بائیں کروٹ پر لیٹنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع کیا اور فرمایا کہ اس طرح لیٹنا اللہ کو نا پسند ہے۔"

سونے سے پہلے آپ یہ دعا پڑھتے:۔
اللھم باسمک اموت واحییٰ۔
"اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے جیوں گا۔"

جب آپ نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:۔
الحمد للہ الذی احیانا بعدما اما تنا والیہ النشور۔
" ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف جانا ہے۔"
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
38: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے تھے

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاؤ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔۔۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)
* ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔
* بہت نرم مزاج تھے اور طبیعت میں سختی نہ تھی۔
* سہولت آسانی کو پسند فرماتے تھے۔
* کبھی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالتے تھے۔
* کسی کے عیب نہیں نکالا کرتے تھے۔
* غرور سے بہت دور رہتے تھے۔
* فضول اور بےکار باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے۔
* نہ کسی کی برائی کرتے تھے اور نہ اسے نیچا سمجھتے تھے۔
* کسی کے چھپے ہوئے عیبوں کو ظاہر کر کے اسے شرمندہ نہیں کرتے تھے۔
* مال و دولت کی لالچ نہیں کرتے تھے۔
اور
* اگر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی چیز پسند نہ آتی تو اسے چھوڑ دیتے۔ نہ اس کی برائی کرتے اور نہ رغبت ظاہر فرماتے۔
کتنے اچھے تھے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!
 
Top