• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر من مانی دین ہو سکتا ہے تو شیعوں کے اظہار غم کا طریقہ بھی دین ہو۔

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوم:
انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ سب کچھ خود بخود معلوم ہو گیا تھا یا اللہ تعالیٰ نے ان کو بتایا اور خبر دی تھی۔ خود بخود ان کو علم تھا اس کے تم بھی قائل نہیں ہو اس لئے کہ تم ان کا یہ عطائی علم مانتے ہو ذاتی علم نہیں مانتے لہٰذا شق ثانی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو علم دیا تھا اور اسی پر تم ان کو عالم مافی الارحام عالم ما فی الاصلاب وغیرہ کا نام دیتے ہو تو پھر وہی علم مافی الارحام وعلم مافی الاصلاب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو بتایا پھر انہوں نے تابعین کو بتایا پھر انہوں نے تبع و تابعین کو اور انہوں ائمہ محدثین کو بتایا اور انہوں نے اس علم کو کتب احادیث میں محفوظ کر دیا اور آج ہر اہلحدیث ، دیوبندی، بریلوی مولوی ایسی اطلاعات کو پڑھ کر لوگوں کو بتا رہے ہیں جیسا کہ سعیدی نے یہاں بتایا ہے تو پھر سعیدی استدلال کے مطابق صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کو بھی عالم ما فی الارحام عالم مافی الاصلاب کہنا چاہئے کیونکہ ان سب نے کسی نہ کسی سے یہ علم ما فی الارحام علم ما فی الاصلاب حاصل کیا ہے یعنی جیسے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بقول سعیدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم ما فی الارحام عالم ما فی الاصلاب ہو گئے تو اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے صحابہ کرام عالم ما فی الارحام عالم ما فی الاصلاب ہو گئے صحابہ کرام کے بتانے سے تابعین اور ان کے بتانے سے تبع تابعین عالم مافی الارحام و عالم مافی الاصلاب ہوگئے پھر ان کے بتانے سے ائمہ محدثین عالم ما فی الرحام و عالم ما فی الاصلاب بن گئے اور محدثین کے بیان سے ان کے بعد آنے والے مسلمان جو کتب احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کو ان حقائق کا پتہ لگ رہاہے وہ سارے کے سارے بقول سعیدی عالم ما فی الارحام عالم فی الاصلاب بن گئے۔ نعوذ باللہ من ھذہ الاجتھادات العنکبوتیہ والھفوات۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ربنا وابعث فیہم رسولا منہم

سعیدی (دلیل نمبر۶): ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم آیاتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکیہم (البقرہ آیت:۱۲۹) ترجمہ اے ہمارے رب اور بھیج ان میں ایک رسول ان میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور ان کو خوب ستھرا فرما دے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ نے یہ ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت فرمایا جب آپ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوئے اور بنو جرہم کے لوگ بیت اللہ شریف کو دیکھنے کیلئے آئے تو آپ نے ان کے سامنے ہمارے رسول کریم کی تشریف آوری کا ذکر چھیڑ دیا اور بارگاہ الوہیت میں استدعا کہ اس گھر کے بسانے والے محبوب کو بھیج دے تا کہ وہ اپنی تعلیمات اور تذکیہ سے لوگوں کو نوازیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر میلاد انبیاء کرام کی سنت ہے اور ان کو بھی غیب کا علم تھا کہ محبوب خدا مطلوب دوسرا نے آنا ہے۔ نواب آف غیر مقلد اور تھانوی صاحب عرباض بن ساریہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور خاتم النبین تھا اس وقت آدم اپنی خاک میں خمیر تھے، میں خبر دوں تم کو اس حال کی کہ میں دعوت ہوں، اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی اور بشارت ہوں عیسیٰ علیہ السلام کی اور خواب ہوں اپنی ماں کا۔ انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح دیکھتی ہیں حضرت کی ماں نے وقت وضع کے ایک نور دیکھا جس سے قصور شام نظر آئے (قصور کا معنی محلات ہے) ۔ اخرجہ البزار والطبرانی والحاکم والبیہقی قال ابن حجر صححہ ابن حبان والحاکم ولہ طرق کثیرۃ ۔ صاحب خزائن العرفان اور دیگر علماء کرام فرماتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اپنا میلاد خود بیان فرمایا اور اصحاب کرام نے میلاد کا ذکر سنا لہٰذا آپ کا میلاد بیان کرنا آپ کی سنت ہے اور سننا صحابہ کرام کی سنت ہے (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۶، ۲۵)

محمدی
اول: اس آیت میں دعا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یا اللہ ایسا رسول بھیج جو ان کے خاندان میں سے ہو یعنی یہ بسنے والے بشر و انسان ہیں ان میں آنے والا بھی بشری رسول ہو۔ نوری رسول کیلئے دعا نہیں فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مقبول و منظور فرمائی جیسا کہ حدیث میں ان کی دعا کی قبولیت تذکرہ ہے کہ جس رسول کے آنے کی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی تھی وہ میں ہوں۔ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا علم غیب کیسے ثابت ہوا؟

دوم: اس میں میلاد منانے کی سنت انبیائی کیسے اور کس طرح ثابت ہوئی جبکہ آپ کی بعثت کی دعا کر رہے ہیں جو وابعث کا جملہ واضح کر رہاہے بعثت اور ولادت کے درمیان پورا چالیس سال کا وقفہ اور فاصلہ ہے ، آپ تو بعثت اور ولادت کے فرق کو نہیں سمجھ پائے اور نام رکھ لیا مفتی صاحب۔ بعثت میں ہی تو یتلوعلیہم آیاتک الخ ہوتا ہے ۔ ولادت میں یتلوعلیہم الخ نہیں ہوتا اور نہ ہوا لہٰذا سعیدی کی یہ بات صریح نص قرآنی کے خلاف اور بے جا سعی اور جہالت ہے۔

سوم: اس ابراہیمی دعا میں کسی طور پر بھی علم غیب کی بات ثابت نہیں ہوتی، یہ صرف سعیدی غلو اور بے علمی کا کرشمہ ہے۔

چہارم: بتانا اور بات ہے اور منانا اور بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کو بیان فرمایا ہے، اس سے میلاد منانا کیسے ثابت ہو گیا۔ دجال یاجوج ماجوج کا تذکرہ بھی تو آپ نے فرمایا ہے اگر کسی کے تذکرہ سے اس کا میلاد منانا سمجھا جا سکتا ہے تو پھر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال وغیرہ کا تذکرہ کر کے ان کا بھی میلاد منایا؟ اور صحابہ کرام نے آپ سے ان کا تذکرہ سنا ہے تو کیا دجال و یاجوج و ماجوج قوم کی میلاد کا سننا سنت صحابہ مانو گے اور ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کا بھی میلاد مناؤ گے؟ بریں علم و دانش بباید گریست۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وذکرہم بایام اللہ

سعیدی (دلیل نمبر۷): وذکرہم بایام اللہ۔(ابراہیم آیت: ۵) ترجمہ اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ آیت مندرجہ بالا میں اللہ تعالیٰ کے دن وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام فرمایا اور پہلے گزر چکا ہے کہ تمام نعمتوں کی روح اور جان امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے لہٰذا ان کی تشریف آوری منانا مندرجہ بالا آیت سے ثابت ہوا ۔(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۶)

محمدی
اول: یہ حکم اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ ولم کو نہیں جیسا کہ آگے آنے والی بریلوی نعیم الدین بریلوی نعیم الدین صاحب کی عبارت سے واضح ہے۔

دوم: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ آپ اپنی قوم کو ایام اللہ (بڑے بڑے وقائع مراد ہیں۔ خزائن العرفان) یاد دلاؤ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم کو یہ ارشاد (اذکروا نعمۃ اللہ) تذکیر بایام اللہ کی تعمیل ہے (خزائن العرفان بریلوی مراد آبادی ص:۳۶۸، ص:۱۵) تمہارا مراد آبادی ذکرہم بایام اللہ کی تفسیر میں لکھتا ہے ف:۱۴قاموس میں ہے کہ ایام اللہ سے اللہ کی نعمتیں مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس وابی بن کعب ومجاہد و قتادہ نے بھی ایام اللہ کی تفسیر اللہ کی نعمتیں فرمائیں۔ مقاتل کا قول ہے کہ ایام اللہ سے وہ بڑے بڑے وقائع مراد ہیں جو اللہ کے امر سے واقع ہوئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ایام اللہ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللہ نے اپنے بندوں پر انعام کئے ہیں جیسے بنی اسرائیل کیلئے من و سلوی اتارنے کا دن۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کیلئے دریا میں راستہ بنانے کا دن (خازن مدارک مفردات راغب) ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں۔ ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہیں، اسی طرح بزرگوں پر جو اللہ کی نعمتیں ہوئیں یا جن ایام میں واقعات عظیمہ پیش آئے جیسا کہ دسویں محرم کو کربلا کا واقعہ ہائلہ۔ ان کی یادگاریں قائم کرنا بھی تذکیر بایام اللہ میں داخل ہے بعض لوگ میلاد شریف معراج شریف اور ذکر شہادت کو ایام کی تخصیص میں کلام کرتے ہیں انہیں اس آیت سے نصیحت پذیر ہونا چاہئے (خزائن العرفان ص: ۳۶۸) اگر بقول مراد آبادی ایام اللہ سے مراد دسویں محرم کا کربلا کا واقعہ بھی مراد ہے تو پھر وفات نبوی (یکم، دوم، آٹھ، نو ، بارہ ربیع الاول علی حسب اختلاف مورخین) او ر وفات و شہادت عمر بن خطاب اور شہادت عثمان بن عفان شہادت علی وغیرہ وغیرہ بھی تذکیر بایام اللہ میں داخل ہیں تو پھر جیسے شیعہ شہادت حسین وکربلا مناتے ہیں اور تمہارا نعیم الدین بھی اس شہادت کو تذکیر مایام اللہ میں داخل کر رہا ہے اور یادگار قائم کرنے کو بھی شامل کر رہا ہے تو تم میلاد النبی کی طرز پر اور شہادت حسین شیعوں کی طرز پر وفات نبوی ، شہادت فاروق ، شہادت عثمان ، شہادت علی بھی منانا شامل کر لو تا کہ آیت پر مکمل عمل ہو جائے کرو بسم اللہ بدعتی قوم تیار ہے اور تمہارے ساتھ ہے صرف تمہاری انتظار ہے۔

سوم: کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ ذکرہم بایام اللہ سے اس ذات با برکات کا میلاد منانے کا حکم دے رہے ہیں جو ابھی دنیا میں پیدا بھی نہیں ہوئے یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تف ہے ایسی سمجھ اور فقاہت پر۔ خود پیدائش موسیٰ علیہ السلام بھی ایک عجیب واقعہ ہے اور عظیم انعام خداوندی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر فرمایا اور آپ کو دشمن کے گھر اور دشمن کی زیرنگرانی بچپن کا وقت بسر کرا یا تو کیا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ذکرہم بایام اللہ الخ کا حکم دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود اپنا میلاد منایا اور سال بسال اس کی یادگار قائم کی۔ جب خود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے اپنا میلاد منانا نہیں سمجھا تو پھر اس آیت سے میلاد نبوی تم نے کیسے کشید کر لیا ہے اگر یوں کہو کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی ہم کو یہ سمجھ آ گئی ہے تو اور بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دن مقرر کرنا، مندرجہ بالا آیت سے ثابت ہوا

سعیدی: دن مقرر کرنا، مندرجہ بالا آیت سے ثابت ہوا کہ دن مقرر کر کے اس میں کوئی خاص کام کرنا اللہ کی سنت ہے۔ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام بھی اس پر عمل پیرا تھے چنانچہ احادیث میں موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیلئے دن مقرر فرما دیا تھا۔ سفر سے واپس گھر آنے کیلئے صبح کا وقت مقرر تھا، مسجدقبا سینچر کے دن تشریف لے جاتے تھے، قبور شہداء احد پر سالانہ تشریف لاتے تھے، اپنا میلاد منانے کیلئے پیر کا دن مقرر کیا، (تو سعیدی صاحب تم اس سنت کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اور سنت نبوی کے برخلاف میلاد کیلئے دوسرے دن کیوں مقرر کرتے ہو۔ آپ نے دن مقرر فرمایا اور تم تاریخ مقرر کرتے ہو خواہ وہ تاریخ اتوار، سوموار، منگل ، بدھ ، جمعرات، جمعہ، ہفتہ میں کیوں نہ آ جاتے پھر تو تم سے زیادہ نافرمان رسول اور کوئی نہیں، دن کی تعین کا ثبوت تو دیتے ہو کہ آپ نے سوموار کے دن کو اپنے میلاد منانے کیلئے مقرر فرمایا ہے۔ مگر جب تم اس میلاد پر خود عمل کرتے ہو تو پھر سوموار کے دن کا ہرگز خیال نہیں کرتے یہ تو ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بریں عقل و دانش بباید گریست ۔ محمدی) ان دلیلوں سے ثابت ہوا کہ نیک کاموں کی تعمیل کیلئے دن مقرر کرنا سنت خدا و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۶)

محمدی
اول: جو جو دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس کام کیلئے مقرر فرما دئیے ہیں وہی دن ہمارے لئے بھی نمونہ ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں کہ ہم شریعت میں اپنی مرضی سے دن مقرر کرتے جائیں اور ہمارے وہ عمل سنت نبوی پر عمل سمجھا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوم: جب اللہ تعالیٰ نے یہ دن مقرر فرمائے اور ان دنوں میں خاص خاص کام فرمائے، جیسے من و سلویٰ کا اتارنا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کیلئے دریا عبور کرنے کیلئے راستہ بنا دینا اور فرعونیوں کے جادوگروں کی شکست اور موسیٰ علیہ السلام کی فتح کا دن وغیرہ وغیرہ۔تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مذکورہ دنوں کو منانے کیلئے یوم نجات نوح علیہ السلام از طوفان، یوم نجات، موسیٰ علیہ السلام از سمندر۔ یوم غرق فرعونیاں، یوم حیات عزیر علیہ السلام یوم فتح یابی موسیٰ علیہ السلام بمقابلہ جادوگراں۔ یوم نجات ابراہیم علیہ السلام از نار بگلزار، یوم نجات عیسیٰ علیہ السلام از یہود۔ یوم عروج عیسیٰ علیہ السلام الی السماء ، یوم معراج نبی علیہ السلام وغیرہ وغیرہ منعقد فرمائے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن نہیں منائے تو پھر تم نے اس آیت سے یوم میلاد کس طرح کشید کر لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سوم: جن دنوں کو جن کاموں کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مقرر فرمایا یعنی بقول سعیدی اپنے میلاد کیلئے پیر کا دن مقرر فرما دیا تو پھر تم پیر کے دن کو چھوڑ کر دیگر دنوں میں میلاد کیوں مناتے ہو اور سنت خیر الوری کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہو چنانچہ اس سال کا یوم میلاد ۱۲ربیع الاول ۱۴۲۶مطابق اپریل ۲۰۰۵جمعۃ المبارک کے دن کو کیوں منایا ۔ (یہ تاریخ میلاد اس سال کی ہے جب یہ مسودہ تحریر کیا جارہا تھا اب ۱۴۳۱؁ھ کو ۱۲ربیع الاول ہفتہ کے دن منایا گیا ۔محمدی) جبکہ بقول سعیدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا میلاد منانے کیلئے سوموار کا دن مقررفرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چہارم: کہاں لکھا ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبور شھداء احد پر سالانہ تشریف لاتے تھے، یہ نسبت آپ کی طرف غلط اور بالکل غلط ہے بلکہ جنگ احد کے بعد ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ تشریف لے گئے تھے چنانچہ بخاری شریف کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی الشھید جلد اول ص:۱۷۹میں ہے: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج یوما فصلی علی اھل احد صلوتہ علی المیت ثم انصرف الی المنبر الخ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ ۔ پس آپ نے شہداء احد پر جنازہ کی نماز پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے پھر آپ منبر پر تشریف لائے الخ، اس حدیث میں فقط ایک بار شہداء احد کی طرف تشریف لے جانے کا بیان ہے۔ سالانہ کااضافہ بریلوی کشید اور سعیدی بہتان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پنجم: سعیدی صاحب دن مقرر کرنے کی بات اس لئے کر رہے ہیں تا کہ تیجا ساتا۔ جمعرات، قل خوانی برسی وغیرہ کے دن مقرر کرنے کا جواز مل جائے اور پھر ان کی موج ہو، ورنہ سعیدی برادری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ اشیاء میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پہلی دو رکعتیں میں فاتحہ اور سورت اور آخری دو رکعتوں میں صرف فاتحہ مقرر فرما رکھی ہے جو آپ کی سنت ہے :کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ فی الظہر فی الاولیین بام الکتاب وسورتین وفی الرکعتین الاخریین بام الکتاب الخ۔ (مشکوٰۃ ص:۷۹) مگر سعیدی حنفی کا مذہب ہے کہ فرض کی آخری دو رکعتوں میں اگر کوئی کچھ نہ پڑھے چپ سادھ کے کھڑا رہے تو بھی ٹھیک ہے (فقہ حنفی) آج بھی سعیدی حنفی برادری کا عمل اسی پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ اور عیدین کی دونوں رکعتوں میں بالترتیب سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتاک حدیث الغاشیہ کی قراء ت فرمایا کرتے تھے (مشکوٰۃ ص:۸۰) مگر سعیدی برادری کے علماء اور ائمہ مساجد، اس کے پڑھنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین وتروں کی پہلی رکعت میں سبح اسم الخ اور دوسری میں قل یا ایھا الکافرون اور تیسری میں قل ہو اللہ احد پڑھا کرتے تھے۔ (مشکوٰۃ ص:۱۱۲) مگر بریلوی مولوی ان سورتوں کی قرات کو وتروں میں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر ادا کرنے کے بعد تین بار سبحان الملک القدوس پڑھا کرتے تھے (مشکوٰۃ ص:۱۱۲) مگر مجال ہے کہ کسی بریلوی جمعراتی مولوی نے وتروں کے بعد یہ تسبیحات پڑھی اور سکھائی ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد اللہم ربنا لک الحمد الخ بھی پڑھا کرتے تھے (مشکوٰۃ ص:۸۲) مگر مجال ہے کہ کوئی بریلوی مولوی اس پر کبھی عمل کیا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں اللہم اغفرلی ذنبی کلہ دقہ وجلہ واولہ آخرہ الخ پڑھا کرتے تھے۔(مشکوٰۃ ص: ۸۴) مگر مجال ہے کہ کوئی بریلوی مولوی فرائض و سنن و نوافل میں یہ دعا مغفرت پڑھ لے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اللہم اغفرلی وارحمنی واھدنی وعافنی وارزقنی الخ (مشکوٰۃ ص:۸۴) مگر بریلوی مولوی اور مقتدی دونوں اس دعا سے ناآشنا ہیں اس لئے ان کے ہاں دو سجدوں کے درمیان اطمینان کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شکرانہ کا سجدہ فرمایا کرتے تھے۔ اذا جاء امر سرور اویسر بہ خرساجدا شاکر اللہ تعالیٰ۔(مشکوٰۃ ص:۱۳۱) انی سألت ربی وشفعت لامتی فاعطانی ثلث امتی فخررت ساجدا لربی شکرا (مشکوٰۃ ص:۱۳۱) مگر احمد رضا صاحب نے سجدہ شکر کو مکروہ لکھا ہے ۔ فیہ کفایة لمن لہ درایۃ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو انبیاء کرام کے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے : واذکر فی الکتاب ابراہیم

سعیدی (دلیل نمبر۸): اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو انبیاء کرام کے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے : واذکر فی الکتاب ابراہیم۔(مریم آیت:۴۱) واذکر فی الکتاب موسیٰ (مریم آیت:۵۱) واذکر فی الکتاب اسماعیل (مریم آیت:۵۴) واذکر فی الکتاب ادریس (مریم آیت:۵۶) اللہ تعالیٰ نےفرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ کلیم اللہ۔ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ حضرت ادریس کا ذکر کرو، جب ان کے مطلق ذکر کرنے کا حکم موجود ہے تو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر میلاد پاک کیوں بدعت اور ناجائز ہو گا (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۶، ۲۷)

محمدی
اول: یہ غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو انبیاء کرام کے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطت فرمایا ہے۔ سعیدی مفتی ملا کو اتنا معلوم بھی نہیں کہ اذکر میں کس کو خطاب کیا جا رہا ہے۔ یہ صیغہ واحد مذکر مر مخاطب کا ہے، مسلمانوں کیلئے تو جمع مذکر اور حاضر اذکروا کا صیغہ ہوتا۔

دوم: جن آیتوں سے سعیدی نے میلاد کشید کیا ہے کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم ، موسیٰ، اسماعیل ، ادریس علیہم السلام کا ذکر میلاد اسی انداز سے مجلس منعقد فرما کر کیا ہے ، نہیں ہرگز نہیں تو پھر اے سعیدیو میلادیو اس سے مجلس منعقد کر کے میلاد کرنا کیسے ثابت ہو گیا۔

سوم: اگر ان کے ذکر سے ، میلاد کشید ہو سکتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اذکر فی الکتاب مریم بھی فرمایا ہے اور بقول سعیدی مسلمانوں کو ان کے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے میلاد کے طرز پر مجلس منعقد کر کے حضرت مریم کا ذکر کیا ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چہارم: یہ اذکر یا اذکروا کے جملے دوسری چیزوں کیلئے بھی قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ (احزاب آیت:۳۴) اس آیت میں ازواج مطہرات کو آیات اللہ کے ذکر کرنے کا حکم ہے۔ واذکرو انعمت اللہ علیکم۔(مائدہ آیت:۷، پ:۶) اس میں اسلام والی نعمت ذکر کرنے کا حکم ہے۔ نعیم الدین نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ تمہیں مسلمان کیا (خزائن العرفان ص:۱۵۶) واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد عادٍ (اعراف :۷۴، پ:۸) اس میں ان لوگوں کے خلفاء بننے کو بیان کرنے کا حکم ہے: واذکروا اذکنتم قلیلاً فکثرکم الخ۔(اعراف :۸۶، پ:۸) اس میں مسلمانوں کی قلت کو کثرت میں تبدیل کر دینے کو بیان کرنے کا حکم ہے۔ واذکروا آلاء اللہ ولا تعثوا فی الارض مفسدین۔(اعراف :۷۴، پ:۸) اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ذکر کرنے کا حکم ہے۔ ثم تذکروا نعمت ربکم اذا ستویتم علیہ وتقولوا سبحان الذی سخرلنا ہذا الخ (پ۲۵، زخرف :۱۲) میں اس وقت کی نعمت کو یاد کرنے کا حکم ہے جب آدمی سواری پر سوار ہوتا ہے ، نعمت اسی معنی میں ہے کہ انسان کے قابو میں حیوان بے عقل بے سمجھ کو کر دیا اگر طاقت اور زور آزمائی ان دونوں کی کی جائے تو انسان جانور کے مقابلہ میں لا شئ ہے مگر اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان ہے کہ مثلاً اونٹ جیسے بڑے جانور کو ایک دس سالہ لڑکے کے قابو میں کر دیا ہے جہاں اس کو لے جاتا ہے اور جس طرف کھینچتا ہے وہ اس کی طرف چلا جاتا ہے۔ اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذجاء تکم جنود فارسلنا علیہم ریحاً۔(پ:۲۱، احزاب:۹) اس میں مسلمانوں پر خصوصی انعام کئے جانے کے ذکر کو بیان کرنے کا حکم ہے، جب کافروں کےلشکر مسلمانوں کے مقابلہ میں آ گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دینے کیلئے ہوا بھیج دی اور ان کے قدم اکھیڑ دئیے۔
 
Top