• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر من مانی دین ہو سکتا ہے تو شیعوں کے اظہار غم کا طریقہ بھی دین ہو۔

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تو اب سناؤ سعیدی صاحب اور مناؤ ان کے ایام تا کہ قرآنِ مجید پر مکمل عمل ہو جائے۔ ان کے علاوہ جہاں مفسرین نے اذکر یا اذکروا قرآن مجید میں مقدرو محذوف کہا ہے وہ تو ان گنت ہیں کچھ کا تذکرہ تفسیر جلالین سے کیا جاتا ہے۔ احمدرضا صاحب نے بھی اکثر ایسے مقامات میں یاد کرو کے الفاظ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اذکر اذ قالت امرأۃ عمران۔(پ:۳، آل عمران :۳۵، ص:۴۹جلالین درسی ) اس میں عمران کی عورت کی نذر کا بیان ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ کے واسطے مانی تھی کہ اللہ نے مجھے اولاد دی تو میں اسے خالص خداوندی خدمت کیلئے وقف کر دوں گی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ دنیا کا کوئی کام اس کے متعلق نہ ہو گا فقط بیت المقدس کی خدمت کرنا اس کا کام ہو گا(خزائن العرفان ص:۷۸) واذکر اذقالت الملائکۃ یا مریم ان اللہ اصطفاک وطہرک الخ (جلالین ال عمران ص:۴۲، ص:۵۰درسی) اس میں فرشتوں کے کلام کا تذکرہ ہے جو حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے ساتھ کیا تھا۔ اذکر اذقالت الملائکۃ یا مریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ الخ (جلالین ال عمران :۴۵) اس کا ترجمہ احمد رضا یوں کرتا ہے اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا الخ (ترجمہ احمد رضا) واذکر اذ قال اللہ یعیسیٰ انی متوفیک الخ (جلالین ص:۵۲، درسی، ال عمران:۵۵) احمد رضا اس کا ترجمہ یوں لکھتا ہے یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا الخ (ترجمہ احمد رضا) واذکر اذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوا الکتاب الخ (جلالین ص:۶۷درسی) جس کا ترجمہ احمد رضا یوں کرتا ہے اور یاد کرو جب اللہ نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان کر دینا اور نہ چھپانا (ترجمہ احمد رضا) لعمران ص:۱۰۷تختی خورد) واذکر اذ قال اللہ یعیسیٰ بن مریم اذکر نعمتی علیکم الخ (جلالین ص:۱۱۰پ:۷، مائدہ:۱۱۰) اس میں اللہ تعالیٰ کے اس کلام کے ذکر کرنے کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی ان نعمتوں اور احسانوں کا تذکرہ فرمائیں گے جو ان پر اور ان کی والدہ محترمہ پر دنیا میں فرمائے تھے۔ واذکر اذقال اللہ یاعیسیٰ بن مریم ء ا نت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ الخ (جلالین ص:۱۱۱، مائدہ آیت:۱۱۶) اس میں اس گفتگو ذکر کرنے کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قیامت کے دن فرمائیں گے کہ تو نے لوگوں کو اپنے متعلق کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اللہ اور خدا مان لو۔ اذکر یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم الخ(جلالین ص:۱۱۰، انعام:۱۰۹) اس میں اس گفتگو ذکر کرنے کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسولوں سے فرمائے گا۔ واذکر یوم نحشرہم جمیعاً ثم نقول للذین اشرکوا(جلالین ص:۱۱۳، پ:۷، انعام :۲۲) اس میں قیامت کے دن اکٹھے ہونے اور مشرکوں سے اس دن جو گفتگو اللہ تعالیٰ ان کے معبودوں کے متعلق فرمائے گا کہ وہ کہاں ہیں، اس کا بیان اور تذکرہ کرنے کا حکم ہے۔ واذکر اذقال الحواریون یعیسیٰ بن مریم ھل یستطیع ربک (جلالین ص:۱۱۰، پ:۷، مائدہ آیت:۱۱۲) اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی گفتگو جو ان کے ساتھ دنیا میں ہوئی اس کا تذکرہ کرنے کا حکم ہے۔ واذکر اذ قال ابراہیم لابیہ آذر اتتخذ اصناما الھۃً الخ(جلالین ص:۱۱۸، پ:۷انعام :۷۵) اس میں اس گفتگو کا تذکرہ کرنے کا بیان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آذر کے ساتھ بتوں کے معاملہ میں فرمائی تھی۔ اذکر اذ قیل لہم اسکنوا ھذہ القریہ وکلو منھا الخ (جلالین ص:۱۴۳، درسی اعراف آیت:۱۶۱، پ:۹) اس کا ترجمہ احمد رضا یوں کرتا ہے اور یاد کرو جب ان سے فرمایا گیا اس شہر میں بسو اور اس میں جو چاہو کھاؤ پیو(احمد رضا ترجمہ ص:۲۴۵) اس آیت میں بنی اسرائیل کو بستی میں داخل ہونے اور اس میں سکونت کرتے اور کھانے پینے اور گناہوں کی معافی مانگنے اور دروازہ سے گزرتے وقت سجدہ کی کیفیت طاری کرنے کا تذکرہ کرنے کا بیان ہے: واذکر اذنتقنا الجبل فوقہم کانہ ظلۃٌ الخ(جلالین ص:۱۴۴، اعراف :۱۷۱، پ:۹) اس آیت میں بنی اسرائیل کے آدمیوں کا تذکرہ کرنے کا بیان ہے جن پر پہاڑ گرنے والی کیفیت طاری کر کے ان سے تورات پر عمل کرنے کو کہا گیا تھا ۔ واذکر اذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم الخ (جلالین ص:۱۴۴، اعراف: ۱۷۲، پ:۹) اس کا ترجمہ احمد رضا یوں کرتا ہے اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا ، کیا میں تمہارا رب نہیں (ترجمہ احمد رضا ص:۲۴۸، تختی خورد) اس آیت میں بنی آدم سے اللہ تعالیٰ نے میثاق لیا تھا، اس کا تذکرہ کرنے کا بیان ہے، گویا بقول سعیدی، اللہ تعالیٰ نے سب اولاد آدم کا پہلے میلاد منایا پھر ان سے میثاق لیا، اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے پہل سب اولاد و آدم کا میلاد منایا پھر ان کے میثاق کا تذکرہ فرمایا، کیونکہ سعیدی صاحب کے مفسر نعیم الدین بریلوی یوں لکھتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت نکالی اور ان سے عہد لیا الخ (خزائن العرفان ص:۲۴۸تختی خورد) واذکر اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم الخ (جلالین ص:۱۴۸، انفال :۹، پ:۹) اس آیت میں صحابہ کرام کا اپنے رب سے کافروں کے مقابلہ میں مدد طلب کرنے کا تذکرہ کرنے کا بیان ہے۔ واذکر اذ یغشیکم النعاس اَمَنَةً الخ (جلالین ص:۱۴۸، انفال :۱۱) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو انعامات صحابہ کرام پر جنگ کے موقعہ پر فرمائے تھے ان کا تذکرہ فرمانے کو کہا ہے: واذکر اذ زین لہم الشیطان اعمالہم ۔(جلالین ص:۱۵۲، انفال: ۴۸، پ:۱۰) اس آیت میں شیطان کے مکرو فریب کے تذکرہ کرنے کا بیان ہے جو اس نے بنی کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں نمودار ہو کر کیا تھا اور ایک لشکر اور ایک جھنڈا ساتھ لے کر مشرکین سے آ ملا تھا اور کہنے لگا تھا کہ میں تمہارا ذمہ دار ہوں آج تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا الخ (تفسیر خزائن العرفان نعیم الدین ص:۲۶۳تختی خورد) اگر بقول سعیدی کسی کا تذکرہ کرنے کے حکم سے اس کا میلاد کرنا اور منانا سمجھا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں شیطان مرد ود کے تذکرہ کرنے کا حکم دیا ہے تو سعیدی فقاہت اور سعیدی نکتہ کو سامنے رکھ کر سعیدیوں میلادیوں کو میلاد شیطان مردود بھی منانا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے مکرو فریب بیان کرنے کا حکم دیا ہے۔ سعیدی قدم بڑھاؤ، میلادی قوم تمہارے ساتھ ہے۔ واذکر اذیمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک اویخرجوک الخ (جلالین ص:۱۵۰، انفال :۳۰، پ:۹) اس کا ترجمہ احمد رضا یوں کرتا ہے: اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کر لیں یا شہید کر دیں یا نکال دیں اور وہ اپنا سامکر کرتے تھے اور اللہ اپنی تدبیر فرماتا تھا (ترجمہ احمد رضا) اس آیت میں کافروں کے مکر کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قید کرنے قتل کرنے یا دیس نکالا دینے کے صلاح و مشورے کرنے کا تذکرہ ہے اور یوم نجات النبی اور یوم حفاظت النبی ، اس حکم کی تعمیل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا میلاد کی طرح اس یوم کو بھی منانا شروع کرو۔ واذکر اذیریکہم اللہ فی منامک قلیلا الخ ۔(جلالین ص:۱۵۱، درسی انفال :۴۳) اس آیت میں اس احسان و انعام الٰہی کا ذکر کرنے کا حکم ہے جو اس نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بایں صورت فرمایا تھا کہ کافر لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کو تھوڑے نظر آتے تھے تا کہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے۔ سعیدی صاحب یہاں تم اپنی فکر کے مطابق کیا کرو گے اور اس ذکر کرنے کو کیا نام دو گے اور کیا مناؤ گے۔ واذکر اذقال ابراہیم رب اجعل ہذا البلد آمنا واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام الخ (جلالین ص:۲۰۹، ابراہیم :۳۵، پ:۱۳) اس آیت میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا تذکرہ کرنے کا حکم ہے جو انہوں نے اپنے رب کے سامنے فرمائی تھی کہ یا رب اس مکہ شہر کو امن والا شہر بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچا۔ سعیدی صاحب اپنی فکر جدید کے مطابق یہاں کیا جوہر دکھاؤ گے اور اس ذکر کرنے کو کیا نام دو گے۔ بلد الامین کانفرنس، یا اجتناب عن عبادۃ الاصنام کانفرنس۔ اور کیا ایسی کانفرنس تم نے اپنی زندگی میں میلاد کی طرز پر اور اسی ذوق و شوق سے منائی ہے یا ابھی تک آپ کو اس کشید کی رہنمائی نہیں ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
واذکر اذ قال ربک للملائکۃ ان خالق بشرا من صلصال من حما مسنون (جلالین ص:۲۱۲، الحجر:۲۷، پ:۱۴)اس آیت میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور میلاد کو ذکر کرنے اور جو گفتگو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ فرمائی تھی اس کے بیان کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ سعیدی فکر اور سوچ کے مطابق یہاں اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گویا فرمایا ہے کہ آپ آدم علیہ السلام کی میلاد و پیدائش کا تذکرہ کرو یعنی ان کا میلاد مناؤتو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میلاد آدم منایا ، کیا تم نے کبھی میلاد آدم منانے کی طرف توجہ کی ہے۔ واذکر یوم نبعث من کل امۃ شھیدا (جلالین ص:۲۲۴، درسی، نحل آیت:۸۲، پ:۱۴) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علہ وسلم کو ان گواہوں کے تذکرہ کرنے کا حکم دیا ہے جو قیامت کے دن پیش ہو کر اپنی اپنی گواہیاں دیں گے جو ان کی تصدیق و تکذیب اور کفر و ایمان کی گواہی دیں گے یہ گواہ انبیاء علیہم السلام ہوں گے (خزائن الفرقان ص:۳۹۷، تختی خورد) تو سعیدی صاحب کو چاہئے کہ اپنی فقاہت اور قرآن دانی کے جوہر دکھاتے ہوئے اس آیت کی بنا پر یوم میلاد الانبیاء یا یوم میلاد الشھداء منائیں کیونکہ ان کے تذکرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ واذکر یوم تاتی کل نفسی تجادل عن نفسھا الخ (جلالین ص:۲۲۷، نحل:۱۱۱) اس آیت میں قیامت کے دن ہر جان جھگڑنے آئے گی کا تذکرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن ہر ایک نفسی نفسی کہتا ہو گا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہو گی (خزائن العرفان ص:۴۰۲، تختی خورد) تو کیا اس آیت کی بناء پر سعیدی صاحب اپنی قرآن فہمی کو سامنے رکھ کر ، کبھی نفسی نفسی کانفرنس، یا یوم نفسی نفسی منایا ہے؟ واذکر یوم نحشرہم من کل امۃ فوجا ممن یکذب بآیاتنا الخ (جلالین ص:۳۲۴، نمل:۸۴، پ:۲۰) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بات کا تذکرہ فرمانے کا حکم دیا ہے کہ جس دن ہم اٹھائیں گے ہر گروہ میں سے ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے تو ان کے گلے روکے جائیں گے (ترجمہ احمد رضا) سعیدی فقاہت اور سعیدی نکتہ فہمی کے حساب سے کہ جب کسی کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے میلاد کا تذکرہ سمجھا جاتا ہے گویا اس کے میلاد کرنے کا حکم ہوتا ہے تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قوموں کامیلاد منایا ہے اور کیا تم نے آج تک اپنی قرآن دانی کی بنا پر ان قوموں کا میلاد منعقد کیا ہے۔ واذکر قوم نوح… وعاد وثمود واصحاب الرس وقرونا بین ذلک کثیرا (جلالین ص:۳۰۶، فرقان :۳۷، پ:۱۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور دیگر اقوام ماضیہ و گزشتہ کے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ سعیدی فکر اور قرآن فہمی کے مطابق گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سب اقوام کے میلاد منانے کا حکم دیا ہے تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان اقوام کا میلاد منایا ہے کیا کبھی آپ کے احمد سعید کاظمی نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے ان اقوام کا میلاد منایا ہے؟ اگر نہیں منایا تو کیوں۔ کیا یہ وجہ تو نہیں کہ ابھی تک آپ کو اس کشید کی رہنمائی نہیں آئی۔ فیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یوم میلاد پر سلام بھیجے

سعیدی (دلیل نمبر۹): اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یوم میلاد پر سلام بھیجے ہیں۔ وسلام علیہ یوم ولدویوم یموت ویوم یبعث حیا(مریم آیت:۱۵) ترجمہ اور سلام ہوں اس پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن انہوں نے وصال کیا اور جس دن وہ زندہ اٹھائیں جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ ایام اللہ سے انبیاء کرام کی ولادت اور وصال کے دن ہیں اور ان دنوں میں ان پر سلام پڑھنے ہیں اور ان کی ولادت کی خوشی منانی ہے جب یحییٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کا یہ حال ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم میلاد کا کیا مقام ہو گا پھر اس کی خوشی کیوں نہ جائز ہو گی اور اس دن سلام کو کیوں نہ پڑھنا چاہئے (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۷)

محمدی
اول: جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت و پیدائش کا ذکر فرمایا ہے اور اس پر سلام کا تذکرہ کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی ساتھ ان کی موت کا بھی ذکر فرمایا ہے چنانچہ احمد رضا ص:۴۴۰میں اس کا ترجمہ یوں کرتا ہے اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن وہ اٹھایا جائے گا اور تفسیر خزائن العرفان نعیم الدین ص:۴۴۰تختی خورد میں ہے:۲۲کہ یہ تینوں دن بہت اندیشناک ہیں کہ ان میں آدمی وہ دیکھتا ہے جو اس سے پہلے اس نے نہیں دیکھا اس لئے ان تینوں موقعوں پر نہایت وحشت ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا اکرام فرمایا کہ انہیں ان تینوں موقعوں پر امن و سلامتی عطا کی الخ۔

تو جب ان تینوں موقعوں پر سلام و سلامتی کا ذکر ہے تو پھر سعیدی نے فقط پیدائش و میلاد کا ذکر کیوں کیا اور میلاد پر استدلال کیوں کیا، جب آیت میں میلاد اور وفات دونوں کا ذکر ہے اور دونوں پر سلام و سلامتی کا تذکرہ ہے تو جس طرح تم نے آیت سے میلاد نبوی منانا اورسلام کہنا کشید کیا ہے اسی طرح وفات نبوی منانا اور درود سلام کہنا بھی سعیدی کشید سے خود بخود ثابت ہو اجاتا ہے۔

دوم: یہاں سلام کہنا مراد نہیں بلکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سلامتی ان کو عطا ہوئی ہے اس سلامتی کا ذکر ہے جیسا کہ نعیم الدین نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ان تینوں موقعوں پر امن و سلامتی عطا کی۔(خزائن الفرقان ص:۴۴۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے یوم ولادت کی خوشی مناتے ہوئے…

سعیدی (دلیل نمبر۱۰): حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے یوم ولادت کی خوشی مناتے ہوئے فرمایا: والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا (مریم آیت:۳۳) ترجمہ اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن پر وصال ہو گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تشریف آوری کے دن نہایت برکت والے ہوتے ہیں کہ ان دنوں میں ان پر سلاموں کی بارش ہوتی ہے (سلاموں کی بارش تو ان کی وفات کے دن بھی ہوتی ہے جیسا کہ یوم اموت الخ سے واضح ہے تو کیا پھر انبیاء کرام کی وفات کا دن بھی نہایت برکت والا ہو گا تو پھر تم آپ کی وفات نبوی کیوں نہیں مناتے اور اس بابرکت محفل میں سلام کیوں نہیں کہتے ۔محمدی) فلہذا امام الانبیاء کے یوم ولادت کی خوشی کرنا اور سلام کرنا اور سلام پڑھنا اور آپ کے میلاد کا تذکرہ کرنا قرآن کے عین مطابق ہے ۔(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۷)

محمدی
فلہذا امام الانبیاء کے یوم وفات پر سلام کرنا اور سلام پڑھنا اور آپ کی وفات کا تذکرہ کرنا قرآن کے عین مطابق ہے کیونکہ سعیدی صاحب نے جس آیت سے میلاد نبوی کشید کیا ہے، اس میں صرف میلاد عیسیٰ پر سلام کا ذکر نہیں بلکہ اس میں وفات عیسیٰ اور دوبارہ حیات اور ان دونوں وقتوں میں سلام کا تذکرہ بھی ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تینوں اوقات سلامتی اور برکت والے ہیں تو پھر ان تینوں میں سے صرف ایک کو ذکر کرنا اور دیگر کو ذکر نہ کرنا گویا سعیدی صاحب کے نزدیک ان اوقات میں سلامتی و برکت نہیں ہے ورنہ وہ دن بھی ضرورذکر کرتے، نیز اگر اس سے میلاد محمدی ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے میلاد عیسیٰ علیہ السلام (میلاد عیسوی) بطریق اولیٰ ثابت ہے لہٰذا پہلے مقیس علیہ کو مناؤ پھر اس پر قیاس شدہ میلاد منانا، ورنہ بات نہیں بنے گی کیونکہ جب تمہاے نزدیک مقیس علیہ قابل عمل نہیں توپھر اس پر قیاس شدہ مسئلہ خود بخود غیر ثابت ہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ذکر الانبیاء من العبادۃ وذکر الصالحین کفارۃٌ
سعیدی :حدیث شریف میں ہے: ذکر الانبیاء من العبادۃ وذکر الصالحین کفارۃٌ۔ ترجمہ نبیوں رسولوں کا ذکر کرنا یعنی ان کے میلاد کے واقعات و فضائل بیان کرنا دراصل اللہ کی عبادت ہے اور اللہ کے ولیوں کا ذکر کرنا گناہوں کا صابن ہے (جامع الصغیر ج:۲، ص:۲۰) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۷، ۲۸)

محمدی
اول: ذکر الانبیاء میں صرف میلاد کا ذکر کس محدث کس فقیہ نے کیا ہے کیا اس تشریح پر آپ اپنے امام صاحب کی طرف سے کوئی رہنمائی پیش کر سکتے ہو ورنہ انبیاء کا ذکر تو ان کی توحید بیان کرنا، اس پر ان کو تکالیف ملنا، اور ان کا ثابت قدم رہنا اور صبر کے ساتھ تکالیف کو برداشت کرنا ، ان کے معجزات اور ان کی صداقت، امانت و دیانت اور ان کے دیگر حالات کا بیان کرنا بھی ہوتا ہے۔ ان اصل حقائق کو چھوڑ کر صرف میلاد کے واقعات کو بیان کرنا ایسی سوچ صرف میلادیوں کی تو ہو سکتی ہے ایسی سوچ اور کسی مسلمان کی نہیں ہو سکتی۔

دوم: اگر آپ صرف میلاد کے واقعات وغیرہ بیان کرنے کو ہی اس حدیث پر عمل کرنا گردانتے ہو تو پھر تمہارے لئے صرف میلاد النبی میلاد محمدی نہیں جو آپ ۱۲ربیع الاول کو مناتے ہو بلکہ ہر روز تم کو ایسی مجلسیں برپا کرنی پڑیں گی کیونکہ ہر دن کسی نہ کسی نبی رسول صحابی تابعی تبع تابعی محدث فقیہ امام کی میلاد ضروری ہوئی ہے۔ اور پھر ہر روز صرف ایک کی میلاد نہیں دسیوں ایسے بزرگوں کی میلاد منانی پڑے گی جو اس دن پیدا ہوئے یعنی ہر روز دو دو، تین تین، چار چار میلاد اکٹھے ہو جائیں گے کیونکہ اس دن کسی صحابی کسی تابعی کسی فقیہ یا محدث ولی امام کی ولادت ہو گی لہٰذا سعیدی اب کمربستہ ہو کر روزانہ کی اس عبادت اور روزانہ گناہوں کیلئے صابن والے عمل کو نہ چھوڑئیے اور ایسے تما م میلادوں سے اکتائیے نہیں ورنہ تم وہابی ہو جاؤ گے یا دوسرے لفظوں میں گستاخان انبیاء و تابعین تبع تابعین اور گستاخان فقہاء محدثین و گستاخان اولیاء صلحاء وغیرہ ہو جاؤ گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
احادیث کثیرہ طیبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد کا ذکر موجودہے…؟؟؟

سعیدی: احادیث کثیرہ طیبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد کا ذکر موجود ہے جس کو ہمارے مرشد غزالی زمان رازی دوران امام اہل سنت حضرت علامہ سعید احمد کاظمی… نے اپنے رسالہ میلاد النبی میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے، وہاں دیکھ لیں یا پھر اپنے گھر کی کتاب الشمامۃ العنبریہ من مولد خیر البریہ از نواب آف مقلد (نقل مطابق اصل) یا تھانوی صاحب کی نشر الطیب پڑھ لیں۔ مزاج شریف ٹھکانے لگ جائے گا اور اہل سنت کے دلائل کی حقیقت روشن تر ہو جائے گی مگر کیا کیا جائے ضد ، بغض اور عناد کا کہ انہو ں نے لوگوں کو اندھ اکر دیا ہے اور وہ دلائل کو دیکھنے سمجھنے کی صلاحت سے محروم ہو رہے ہیں۔
دل اندھا زبان اندھی قلم اندھا بیان اندھا اندھوں کو نظر آتا ہے سارا جہاں اندھا
(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۸)

محمدی
میلادی سعیدی صاحب ، ذرا سوچئے میلاد کا ذکر اور چیز ہے اور جشن میلاد منانا اور چیز ہے نواب صاحب اور تھانوی صاحب نے پیدائش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے، انہوں نے جشن میلاد منانے کے دلائل نہیں دئیے اور نہ ذکر کئے۔ سعیدی و محمدی کا اختلاف صرف عید جشن میلاد منانے میں ہے۔ ورنہ میلاد اور پیدائش تو ہم بھی مانتے ہیں ، محمدی کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے میلاد نہیں منایا اور نہ منانے کا حکم دیا ہے نہ تابعین نہ تبع تابعین، نہ فقہاء محدثین نہ شیخ عبد القادر جیلانی نے منایا اور نہ منانے کا حکم دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نواب صدیق خان رحمہ اللہ نے میلاد منانے کو بدعت لکھا ہے۔جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

باقی رہے آپ کے مرشد کاظمی (علیہ ما علیہ) کے دلائل تو وہ بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے اس کے شاگرد سعیدی اوچی کے ہیں یوں تو سعیدی اور اس کے مرشد کاظمی اپنے آپ کو حنفی مقلد، اور ہم کو غیر مقلد کہتے ہیں مگر جب بدعات اور رسم و رواج کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو پھر ان کا چھوٹا بڑا اپنے آپ کو مجتہد سمجھتا ہے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا مل ملا کر اپنے دلائل کی بھرمار کر دیتے ہیں، اگر کوئی ان میلادیوں سے پوچھے کہ بھلے مانسو، اگر یہ دلائل میلاد منانے کے ہیں تو بتاؤ ان دلائل کو تمہارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی دیکھا سنا تھا مگر انہوں نے نہ اس پر عمل کیا اور نہ انہوں نے کبھی میلاد منایا بتاؤ وہ اس کشید سے کیوں قاصر رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
جیسے تمہارے دلائل ہیں کاظمی کے دلائل بھی ایسے ہی ہوں گے یعنی کسی نے کہا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں بھوکے نے فوراً کہا چار روٹیاں۔ جہاں تھوڑا سا تذکرہ ولادت اور پیدائش کا آ جائے فوراً یہ میلادی لوگ کہنے لگتے ہیں کہ اس میں میلاد منانے کا ثبوت ہے وغیرہ وغیرہ۔ دیکھو سعیدی تذکرہ تو کرتا ہے دیگر انبیاء کرام کا مگر دلیل بنتی ہے میلاد مصطفیٰ کی واہ سبحان اللہ ، مجتھد مفسر ہوں تو ایسے ہوں۔ ہم مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل المخلوقات افضل البشر، فخر الاولین والاخرین رحمۃ اللعالمین شفیع المذنبین سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور عقیدت ایمان کا جزء اور عین ایمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و شمائل کا ہر وقت تذکرہ افروز باعث رحمت، آپ کی ولادت باسعادت بابرکت، آپ کی سیرت و صورت اخلاق و کردار اقوال و افعال۔ آپ کی حیات طیبہ اور زندگی کے ہر شعبہ کے صحیح صحیح حالات و واقعات اور اسوہ حسنہ ، بلا پابندی رسوم و قیود ہر وقت بیان کرنا موجب رحمت الٰہی، کار ثواب ذریعہ نجات اور سبب شفاعت و نجات روز جزاء ہے، آپ کے محامد و مناقب کا ذکر مبارک دل کا سرور آنکھوں کا نور اور راحت جان مسلم ہے ، ہر آدمی پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مقرب اور محبوب بننے کی کوشش کرے اپنے اعمال صالحہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور محبت کے حصول کیلئے ایک معیار اور ضابطہ مقرر کیا ہے۔ وہ ضابطہ اور معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اور آپ کی اطاعت ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (ال عمران آیت:۳۱) لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (احزاب :۲۱) میں اسی بات کوواضح فرمایا گیا ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ (ترمذی) کہ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ تمام عبادات مالی بدنی، زبانی ، فرائض و نوافل ، ہر اچھے کام اور ہر برے کام کی وضاحت آپ نے فرما دی ہے اور امت کیلئے نمونہ ہوتے ہوئے یہ بھی فرما دیا: لا یؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعالما جئت بہ (مشکوٰۃ ص:۳۰) کہ تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع اور مطابق نہ ہو، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور العمل ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ حرام و حلال، جائز و ناجائز امور کا بیان، نیکی و بدی کی تعیین ثو اب گناہ وغیرہ امور کی تفصیل اور ان کا بیان صرف اللہ و رسول ہی کر سکتے ہیں جب کسی صحابی تک کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور پسند سے نیکی کے کام تجویز کرے کہ وہ جو کام نیکی کا سمجھے وہ نیکی کا ہو جائے تو پھر آج کے کسی اعلیٰ حضرت یا کسی غزالی زمان مفتی دوران کو یہ حق قطعاً نہیں ہے۔

ہم میلاد کیوں مناتے ہیں؟
 
Top