• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
امام نووی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے
بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ
امام نووی رح شافعی ہیں. انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق باب باندھا ہے.
ویسے فجر کی سنتوں کے علاوہ اقامت کے وقت نفل شروع کرنا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان احادیث میں لکھا ہے یا آپ امام بخاری اور امام نووی کے اندھے مقلد ہیں؟
جناب! آپ تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے یہ حدیث میں ہے ، اور حدیث کی یہ فہم ان محدثین نے بھی بیان کی ہے؛

معاملہ کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھائی جان کو اب کوئی دلیل نہیں مل پارہی ہے! پہلے تو امام قرطبی سے دو تاویلیں بیان کی، جس کا حوالہ ہنوز مطلوب ہے!
پھر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق ہے، جب ہم نے دوسری تاویل کی دلیل طلب کی ، وہ بھی اب تک نہیں آئی!
جبکہ دوسری تاویل کا بطلان ہم نے احادیث سے پیش بھی کردیا ہے!
اور یہ بھی ثابت کیا کہ امام صاحب کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں!
لیکن جن صاحب کا سنت اور نفل کے تعلق کا یا تو معلوم نہیں، یا پھر اس میں مغالطہ دینے کی سعی کی ہو، تو ۔۔۔۔۔۔
اب کج بحثی کو ترک کر کے پہلے مطلوبہ باتیں پیش کی جائیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کہاں ہے حدیث میں؟ الفاظ دکھائیں۔
میں ان شاء اللہ حدیث سے وہ الفاظ بتلاتا ہوں!
آپ اس وقت تک آپ سے مطلوب باتیں پیش کر دیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں ان شاء اللہ حدیث سے وہ الفاظ بتلاتا ہوں!
آپ اس وقت تک آپ سے مطلوب باتیں پیش کر دیں!
معاملہ کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھائی جان کو اب کوئی دلیل نہیں مل پارہی ہے! پہلے تو امام قرطبی سے دو تاویلیں بیان کی، جس کا حوالہ ہنوز مطلوب ہے!
جس طرح آپ مختلف مقامات پر فرہنگ آصفیہ کا صرف لنک دے کر خود کو بری سمجھتے ہیں اسی طرح میں نے تفسیر قرطبی کا حوالہ دے دیا ہے۔ آپ خود پڑھ لیجیے۔

پھر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق ہے، جب ہم نے دوسری تاویل کی دلیل طلب کی ، وہ بھی اب تک نہیں آئی!
جبکہ دوسری تاویل کا بطلان ہم نے احادیث سے پیش بھی کردیا ہے!اور یہ بھی ثابت کیا کہ امام صاحب کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں!
لیکن جن صاحب کا سنت اور نفل کے تعلق کا یا تو معلوم نہیں، یا پھر اس میں مغالطہ دینے کی سعی کی ہو، تو ۔۔۔۔۔۔
اب کج بحثی کو ترک کر کے پہلے مطلوبہ باتیں پیش کی جائیں!
پہلے آپ وہ کام پورا کر لیں جس پر آپ کی ان سب باتوں کی عمارت کھڑی ہے۔ پھر یہ چیزیں بھی مل جائیں گی۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس طرح آپ مختلف مقامات پر فرہنگ آصفیہ کا صرف لنک دے کر خود کو بری سمجھتے ہیں اسی طرح میں نے تفسیر قرطبی کا حوالہ دے دیا ہے۔ آپ خود پڑھ لیجیے۔
اب جناب کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ لغت کی کتب میں الفاظ بالترتیب حروف ہوتے ہیں! اس واسطے متعلقہ صفحہ بتلانا لازم نہیں ہوتا!
جبکہ تفاسیر میں یہ معاملہ نہیں، تفاسیر سے عبارت پیش کرنا لازم ہے!
اگر آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اپنی غلطی تسلیم کر لیں! اور اگر آپ نے جھوٹ بولا ہے اور فریب و فراڈ سے کام لیا ہے، تو جان لیں، کہ آپ کا فریب و فراڈ ناکام ثابت ہوا ہے!
پہلے آپ وہ کام پورا کر لیں جس پر آپ کی ان سب باتوں کی عمارت کھڑی ہے۔ پھر یہ چیزیں بھی مل جائیں گی۔
ہم اپنا مدعا بادلیل و با حوالہ ثابت کر چکے ہیں!
معلوم ہوتا ہے کہ اشماریہ صاحب، اپنے علماء و فقہاء اہل الرائے کی طرح دلیل سے خالی ہیں، اور اپنے انہیں علماء وفقہاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کوشش میں ہیں!
اشماریہ صاحب! پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!
چلیں ہم آپ کو حدیث کے وہ الفاظ بھی بتلادیتے ہیں کہ یہ حکم صرف نماز صبح کے نوافل یعنی فجر کی دو سنتوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ حکم تمام نمازوں کے لئے عام ہے!
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.
ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)

عقلمند کو تو سمجھ آجائے گی کہ عام اس لئے ہے کہ فرض نماز میں رکعتیں متعین ہیں، اقامت کے بعد کسی اور نماز پڑھنے کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض رکعت میں اضافہ کرنے کے مترادف بتلایا ہے،
نہ ہی فجر کی رکعت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ظہر، عصر، مغرب وعشاء کی رکعت میں!

اور اگر یہ مراسلہ مراقبہ کی حالت میں نہ پڑھا ہوتا تو آپ کے علامہ عینی نے بھی اسے عام ہی کہا ہے، فجر کے ساتھ خاص نہیں کہا، ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
أَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - رأى رجلا وَقد أُقِيمَت الصَّلَاة يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرف رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - لاث بِهِ النَّاس فَقَالَ لَهُ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - آلصبح أَرْبعا آلصبح أَرْبعا) مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله " آلصبح أَرْبعا " حَيْثُ أنكر - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - على الرجل الَّذِي كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت صَلَاة الصُّبْح فَقَالَ " آلصبح أَرْبعا " أَي الصُّبْح تصلى أَرْبعا لِأَنَّهُ إِذا صلى رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت الصَّلَاة ثمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَام رَكْعَتَيْنِ صَلَاة الصُّبْح فَيكون فِي معنى من صلى الصُّبْح أَرْبعا فَدلَّ هَذَا على أَن لَا صَلَاة بعد الْإِقَامَة إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة.
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھ رہے ہو ؟ اس قول کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر انکار کیا جو صبح کی نماز کھڑی ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ یعنی نماز کھڑی ہونے کے بعد جب وہ دو رکعتیں سنت ادا کر کے امام کے ساتھ صبح کی دو رکعت نماز پڑھے گا تو گویا اس نے صبح کی چار رکعتیں ادا کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد کوئی نماز سوائے فرضی نماز کے نہیں ہوتی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 266 - 267 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 182 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الفكر – بيروت
لیکن جیسا میں نے عرض کیا کہ یہ صاحب عقل کو تو سمجھ آجائے گی ، مگر جن کی علم الکلام میں جھک مار مار مت ماری گئی ہو، ان کے لئے مشکل ہے!
اب مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ مطالبہ نہ کردیا جائے کہ صلاة المکتوبہ کو تمام فرض نمازوں کے لئے عام ثابت کرو!

اب جب آپ نے اسی طرز پر گفتگو کرنی ہے تو جناب سنیئے!

فقہ حنفی کی حدیث و سنت سے عداوت کا عالم دیکھئے!
ایک طرف اشماریہ صاحب اس حدیث کو فجر کی نماز کے لئے خاص کرنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں، اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفیہ اسی نماز یعنی فجر کی نماز کے لئے اقامت کے بعد فجر کی سنتیں یعنی کہ نوافل شروع کرنے کا بھی حکم دیتے ہیں، جبکہ دیگر نمازوں میں وہ نوافل شروع کرنے سے منع کرتے ہیں!
جس نماز کا خاص ذکر آیا ہے، اسی نماز میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خاص کر مخالفت کرتے ہیں!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ب جناب کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ لغت کی کتب میں الفاظ بالترتیب حروف ہوتے ہیں! اس واسطے متعلقہ صفحہ بتلانا لازم نہیں ہوتا!
جبکہ تفاسیر میں یہ معاملہ نہیں، تفاسیر سے عبارت پیش کرنا لازم ہے!
اگر آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اپنی غلطی تسلیم کر لیں! اور اگر آپ نے جھوٹ بولا ہے اور فریب و فراڈ سے کام لیا ہے، تو جان لیں، کہ آپ کا فریب و فراڈ ناکام ثابت ہوا ہے!
کاش کہ موجودہ دور کے آپ جیسے اہل حدیث کو یہی معلوم ہوتا کہ تفاسیر میں آیات کے ذیل میں تفسیر لکھی ہوتی ہے اور آیت میں نے تحریر کر دی تھی۔

ہم اپنا مدعا بادلیل و با حوالہ ثابت کر چکے ہیں!
معلوم ہوتا ہے کہ اشماریہ صاحب، اپنے علماء و فقہاء اہل الرائے کی طرح دلیل سے خالی ہیں، اور اپنے انہیں علماء وفقہاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کوشش میں ہیں!
اشماریہ صاحب! پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!
چلیں ہم آپ کو حدیث کے وہ الفاظ بھی بتلادیتے ہیں کہ یہ حکم صرف نماز صبح کے نوافل یعنی فجر کی دو سنتوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ حکم تمام نمازوں کے لئے عام ہے!
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.
ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)

عقلمند کو تو سمجھ آجائے گی کہ عام اس لئے ہے کہ فرض نماز میں رکعتیں متعین ہیں، اقامت کے بعد کسی اور نماز پڑھنے کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض رکعت میں اضافہ کرنے کے مترادف بتلایا ہے،
نہ ہی فجر کی رکعت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ظہر، عصر، مغرب وعشاء کی رکعت میں!
آپ نے میری اس بات کے جواب میں:
ان احادیث میں لکھا ہے یا آپ امام بخاری اور امام نووی کے اندھے مقلد ہیں؟
یہ کہا تھا:
جناب! آپ تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے یہ حدیث میں ہے
اور بات اس کی چل رہی تھی:
جناب ! یہ احادیث اقامت کے بعد نفل نماز کے متعلق ہے
تو اب اپنے آل حدیث علماء کی طرح ڈرامے بازی نہ کریں اور حدیث میں بیان کردہ دکھائیں! آپ کی اپنی فہم کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور علامہ عینی، بخاری یا نووی رحمہم اللہ کے آپ مقلد نہیں ہیں جو ان کی فہمیں بیان کر رہے ہیں۔ اس لیے حدیث میں لکھا دکھائیں جس کا آپ نے دعوی کیا ہے۔ شاباش!

(دیگر اہل حدیث بھائیوں سے معذرت چاہتا ہوں لیکن اگر وہ ابن داؤد صاحب کو اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے تو یہ کڑوا گھونٹ بھی بھر لیں۔)
 
Top