اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
جی. اور لا ایمان لمن لا امانۃ لہلا صلاۃ لمن لم یقرا..... الخ کی طرح؟؟؟
اور لا صلاۃ لجار المسجد..... الخ کی طرح.
جی. اور لا ایمان لمن لا امانۃ لہلا صلاۃ لمن لم یقرا..... الخ کی طرح؟؟؟
امام نووی رح شافعی ہیں. انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق باب باندھا ہے.امام نووی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے
بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ
آپ روایت بمع سند پیش کیجئے!یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ سے ہے۔
جناب! آپ تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے یہ حدیث میں ہے ، اور حدیث کی یہ فہم ان محدثین نے بھی بیان کی ہے؛ان احادیث میں لکھا ہے یا آپ امام بخاری اور امام نووی کے اندھے مقلد ہیں؟
کہاں ہے حدیث میں؟ الفاظ دکھائیں۔جناب! آپ تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے یہ حدیث میں ہے
میں ان شاء اللہ حدیث سے وہ الفاظ بتلاتا ہوں!کہاں ہے حدیث میں؟ الفاظ دکھائیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں ان شاء اللہ حدیث سے وہ الفاظ بتلاتا ہوں!
آپ اس وقت تک آپ سے مطلوب باتیں پیش کر دیں!
جس طرح آپ مختلف مقامات پر فرہنگ آصفیہ کا صرف لنک دے کر خود کو بری سمجھتے ہیں اسی طرح میں نے تفسیر قرطبی کا حوالہ دے دیا ہے۔ آپ خود پڑھ لیجیے۔معاملہ کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھائی جان کو اب کوئی دلیل نہیں مل پارہی ہے! پہلے تو امام قرطبی سے دو تاویلیں بیان کی، جس کا حوالہ ہنوز مطلوب ہے!
پہلے آپ وہ کام پورا کر لیں جس پر آپ کی ان سب باتوں کی عمارت کھڑی ہے۔ پھر یہ چیزیں بھی مل جائیں گی۔پھر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق ہے، جب ہم نے دوسری تاویل کی دلیل طلب کی ، وہ بھی اب تک نہیں آئی!
جبکہ دوسری تاویل کا بطلان ہم نے احادیث سے پیش بھی کردیا ہے!اور یہ بھی ثابت کیا کہ امام صاحب کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں!
لیکن جن صاحب کا سنت اور نفل کے تعلق کا یا تو معلوم نہیں، یا پھر اس میں مغالطہ دینے کی سعی کی ہو، تو ۔۔۔۔۔۔
اب کج بحثی کو ترک کر کے پہلے مطلوبہ باتیں پیش کی جائیں!
اب جناب کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ لغت کی کتب میں الفاظ بالترتیب حروف ہوتے ہیں! اس واسطے متعلقہ صفحہ بتلانا لازم نہیں ہوتا!جس طرح آپ مختلف مقامات پر فرہنگ آصفیہ کا صرف لنک دے کر خود کو بری سمجھتے ہیں اسی طرح میں نے تفسیر قرطبی کا حوالہ دے دیا ہے۔ آپ خود پڑھ لیجیے۔
ہم اپنا مدعا بادلیل و با حوالہ ثابت کر چکے ہیں!پہلے آپ وہ کام پورا کر لیں جس پر آپ کی ان سب باتوں کی عمارت کھڑی ہے۔ پھر یہ چیزیں بھی مل جائیں گی۔
کاش کہ موجودہ دور کے آپ جیسے اہل حدیث کو یہی معلوم ہوتا کہ تفاسیر میں آیات کے ذیل میں تفسیر لکھی ہوتی ہے اور آیت میں نے تحریر کر دی تھی۔ب جناب کو یہ معلوم ہو نا چاہئے کہ لغت کی کتب میں الفاظ بالترتیب حروف ہوتے ہیں! اس واسطے متعلقہ صفحہ بتلانا لازم نہیں ہوتا!
جبکہ تفاسیر میں یہ معاملہ نہیں، تفاسیر سے عبارت پیش کرنا لازم ہے!
اگر آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اپنی غلطی تسلیم کر لیں! اور اگر آپ نے جھوٹ بولا ہے اور فریب و فراڈ سے کام لیا ہے، تو جان لیں، کہ آپ کا فریب و فراڈ ناکام ثابت ہوا ہے!
آپ نے میری اس بات کے جواب میں:ہم اپنا مدعا بادلیل و با حوالہ ثابت کر چکے ہیں!
معلوم ہوتا ہے کہ اشماریہ صاحب، اپنے علماء و فقہاء اہل الرائے کی طرح دلیل سے خالی ہیں، اور اپنے انہیں علماء وفقہاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کوشش میں ہیں!
اشماریہ صاحب! پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!
چلیں ہم آپ کو حدیث کے وہ الفاظ بھی بتلادیتے ہیں کہ یہ حکم صرف نماز صبح کے نوافل یعنی فجر کی دو سنتوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ حکم تمام نمازوں کے لئے عام ہے!
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.
ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)
عقلمند کو تو سمجھ آجائے گی کہ عام اس لئے ہے کہ فرض نماز میں رکعتیں متعین ہیں، اقامت کے بعد کسی اور نماز پڑھنے کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض رکعت میں اضافہ کرنے کے مترادف بتلایا ہے،
نہ ہی فجر کی رکعت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ظہر، عصر، مغرب وعشاء کی رکعت میں!
یہ کہا تھا:ان احادیث میں لکھا ہے یا آپ امام بخاری اور امام نووی کے اندھے مقلد ہیں؟
اور بات اس کی چل رہی تھی:جناب! آپ تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے یہ حدیث میں ہے
تو اب اپنے آل حدیث علماء کی طرح ڈرامے بازی نہ کریں اور حدیث میں بیان کردہ دکھائیں! آپ کی اپنی فہم کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور علامہ عینی، بخاری یا نووی رحمہم اللہ کے آپ مقلد نہیں ہیں جو ان کی فہمیں بیان کر رہے ہیں۔ اس لیے حدیث میں لکھا دکھائیں جس کا آپ نے دعوی کیا ہے۔ شاباش!جناب ! یہ احادیث اقامت کے بعد نفل نماز کے متعلق ہے
یہ کون ہیں ؟آل حدیث علماء