• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر کسی نے اپنے میزبان کے ہاں سے چوری کر لی تو ہاتھ نہیں کاٹا جا ے گا

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے بھائی، ہم بھی تو شبہات کی بات کہاں کر رہے ہیں۔
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں شخص نے فلاں شخص کے گھر اس کی اجازت کے بغیر گھس کر اتنی رقم چوری کی، تو اس پر تو حد جاری ہو۔
لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں شخص نے اپنے میزبان کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر اتنی ہی رقم چوری کی، تو اس پر حد کی بجائے تعزیر لگے؟ اس کی کیا دلیل؟

ہاں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب جرم میں ثبوت پکا نہ ہو تو حد کی جگہ تعزیر لگائی جائے گی۔
لیکن ثبوت میں یکسانیت، جرم میں یکسانیت کے باوجود حدود کا انکار؟ یہ سمجھ نہ آنے والی بات ہے۔

وجہ یہ ہے قرآن کریم میں جو سزا یا حد ہے وہ چوری پر ہے اور لفظ سرقہ کا استعمال ہوا ہے۔
اب ہم عرب کی اس زمانے کی لغت کو دیکھیں گے کہ سرقہ کہتے کسے ہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا محفوظ مال چپکے سے چرانا۔
اگر ان تینوں میں سے کوئی شرط بھی نہیں پائی گئی تو وہ سرقہ کے اصل مفہوم پر پورا نہیں اترے گا۔
جب ہم ایک شخص کو اپنے گھر میں لے گئے تو اس کے سامنے رکھی ہوئی چیزیں اس کے لیے محفوظ نہیں رہیں۔ ان کی حفاظت کوئی نہیں کر رہا۔ اگر وہ انہیں اٹھا لیتا ہے تو یہ سرقہ نہیں ہے۔
(لیکن اگر وہ لاکر توڑ کر کچھ نکالے تو لاکر حفاظت کے لیے تھا اس لیے وہ سارق ہوگا۔ یہ میری رائے ہے۔ فتوی کا علم نہیں۔ واللہ اعلم)
اس لیے اس پر قرآن کا سارق کے لیے متعین حکم "حد" ہم کس دلیل کی بنا پر لگا سکتے ہیں؟ یہ تو مکمل طور پر سارق ہے ہی نہیں۔
تعزیر حد سے سخت بھی ہو سکتی ہے۔ قاضی پر موقوف ہے اور ان معاملات میں ہوتی ہے جن میں حد مقرر نہیں۔
جب یہ شخص سارق کے الفاظ سے نکل گیا تو حد اس کے لیے رہی نہیں۔ تعزیر اس پر لگے گی۔
اسی لیے اس کے اور سارق کے جرم میں یکسانیت بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے سامنے رکھی چیز اٹھانا آسان تھا جب کہ سارق کے لیے مشکل۔

باقی اگر ثابت نہ ہو جرم تو تعزیر بھی نہیں لگ سکتی۔ ثابت نہ ہونے پر بھی تعزیر(جو کہ ایک سزا ہے) عقل سے باہر ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
وجہ یہ ہے قرآن کریم میں جو سزا یا حد ہے وہ چوری پر ہے اور لفظ سرقہ کا استعمال ہوا ہے۔
اب ہم عرب کی اس زمانے کی لغت کو دیکھیں گے کہ سرقہ کہتے کسے ہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا محفوظ مال چپکے سے چرانا۔
اگر ان تینوں میں سے کوئی شرط بھی نہیں پائی گئی تو وہ سرقہ کے اصل مفہوم پر پورا نہیں اترے گا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔


جب ہم ایک شخص کو اپنے گھر میں لے گئے تو اس کے سامنے رکھی ہوئی چیزیں اس کے لیے محفوظ نہیں رہیں۔ ان کی حفاظت کوئی نہیں کر رہا۔ اگر وہ انہیں اٹھا لیتا ہے تو یہ سرقہ نہیں ہے۔
مان لیجئے یہ سرقہ نہیں ہے، تو پھر اس کا نام کیا ہے؟
یاد رہے کہ یورپ اور سعودی عرب میں بھی، اکثر دکانوں پر مال ویسے ہی کھلا، غیرمحفوظ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تو کیا جو مال کھلا چھوڑ دیا جائے، اس کو چرانے والا "چور" نہیں کہلائے گا؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
انا للہ وانا الیہ راجعون۔



شاکر بھائی بحث برائے بحث میں نہیں کرتا۔ عاجزانہ عرض ہے کہ میری پوسٹ دوبارہ پڑھ لیجیے کہ میں نے کس وجہ سے کہا ہے کہ یہ سرقہ نہیں ہے۔ اور اگر آپ متفق نہیں ہیں تو مجھے یہ بتادیجیے کہ مال محفوظ کی شرط نہ ہونے کے باوجود یہ سرقہ کیسے ہے؟

یاد رہے کہ یورپ اور سعودی عرب میں بھی، اکثر دکانوں پر مال ویسے ہی کھلا، غیرمحفوظ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تو کیا جو مال کھلا چھوڑ دیا جائے، اس کو چرانے والا "چور" نہیں کہلائے گا؟
وہاں حرز اس جگہ کی سیکیورٹی وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔
مکہ میں میں نے خود دیکھا ہے کہ کپڑا یا جالی ڈال کر جاتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو شٹر ڈالتے ہیں۔
جن جگہوں پر نہیں ڈالتے وہاں سیکیورٹی پر بھروسہ کر کے نہیں ڈالتے۔
اور اگر بغیر کسی سیکیورٹی، دروازہ، کپڑا، تالا وغیرہ لگائے کوئی چلا جائے اور اس کی دکان ایسی جگہ ہو جہاں کسی کی نگرانی یا دیکھ لینے پر بھروسہ کرنے کا بھی امکان نہ ہو اور کوئی کچھ چرائے تو پھر حد نہیں جاری ہوگی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مان لیجئے یہ سرقہ نہیں ہے، تو پھر اس کا نام کیا ہے؟
کچھ بھی نام دے دیں۔ اہل زبان کی مرضی لیکن قرآن کا بیان کیا ہوا سرقہ تو یہ نہیں ہو جائے گا۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
سڑک پر گرے نامعلوم کو اٹھا کر اس میں موجود رقم استعمال کرنے والا ؟

ایک اہم بات یہ ہے دیگر آئمہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں احناف کا مؤقف درست ہے ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سڑک پر گرے نامعلوم کو اٹھا کر اس میں موجود رقم استعمال کرنے والا ؟

حد نہیں لگے گی مندرجہ مسئلہ کی رو سے۔

ایک اہم بات یہ ہے دیگر آئمہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں احناف کا مؤقف درست ہے ؟
لا ادری
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک اہم بات یہ ہے دیگر آئمہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں احناف کا مؤقف درست ہے ؟

مال محرز ہونے کی شرط تمام ائمہ نے لگائی ہے اگر چہ بعض جگہوں پر محرز کی تعریف میں فرق کیا ہے۔

فقہ مالکی کے عالم ابن رشد ابو الولید محمد بن احمد (المتوفی 595ھ) فرماتے ہیں:۔


وأما الشرط الثاني في وجوب هذا الحد فهو الحرز، وذلك أن جميع فقهاء الأمصار الذين تدور عليهم الفتوى وأصحابهم متفقون على اشتراط الحرز في وجوب القطع، وإن كان قد اختلفوا فيما هو حرز مما ليس بحرز. والأشبه أن يقال في حد الحرز: إنه ما شأنه أن تحفظ به الأموال كي يعسر أخذها مثل الأغلاق والحظائر، وما أشبه ذلك. وفي الفعل الذي إذا فعله السارق اتصف بالإخراج من الحرز على ما سنذكره بعد.
وممن ذهب إلى هذا مالك، وأبو حنيفة، والشافعي والثوري وأصحابهم.
بداية المجتهد ونهاية المقتصد 4۔232، دار الحدیث


یہ شرط حرز تمام شہروں کے فقہاء جن پر فتوی کا مدار ہے اور ان کے اصحاب نے لگائی ہے۔ اور یہ مالک، ابو حنیفہ، شافعی، ثوری اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے۔ البتہ اس میں کہ کیا حرز ہے اور کیا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ (ملخصا)

اور الشرح الکبیر میں ہے:۔
(لا) دار ذات (إذن خاص كضيف) أو مرسل لحاجة أو قاصد مسألة فسرق (مما) أي بيت (حجر عليه) في دخوله فلا يقطع وأولى إن أخذ مما لم يحجر عليه (ولو خرج به من جميعه) ؛ لأنه لما دخل بإذن فسرق كان خائنا لا سارقا حقيقة

نہ خاص اجازت والے گھر میں جیسا کہ مہمان یا وہ شخص جو کسی کام کے لیے بھیجا گیا ہو یا کسی مسئلہ کا مقصد کر کے آیا ہو تو اس کمرے سے چوری کرلے جس میں داخلے کی اسے اجازت نہ ہو تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اور (نہ کاٹنا) اولی ہے جب ایسے کمرے سے چوری کرے جس میں داخلے کی پابندی نہ ہو اگر چہ تمام گھر سے اسے نکال لے جائے۔ اس لیے کہ جب اجازت سے داخل ہوا اور چوری کی تو وہ خاین ہے حقیقت میں سارق نہیں ہے۔

اس کے الفاظ میں اگر کوئی ابہام ہو تو دسوقی مالکی نے تفصیل لکھی ہے۔
(قوله: لا دار ذات إذن خاص) أي لا إن سرق من دار ذات إذن خاص أي مختص ببعض الناس.
(قوله: ولو خرج به) أي بالمسروق وقوله: من جميعه أي من جميع الدار.

حاشية الدسوقي على الشرح الكبير 4۔ 342، دار الفکر

واللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
لا ادری
نصف العلم- جزاک اللہ

ایک اہم بات یہ ہے دیگر آئمہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں احناف کا مؤقف درست ہے ؟
میری مراد یہ تھی کہ دھاگے کے موضوع کے بارے میں حنفیہ کے علاوہ علماء کا کیا مؤقف ہے-
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
نصف العلم- جزاک اللہ



میری مراد یہ تھی کہ دھاگے کے موضوع کے بارے میں حنفیہ کے علاوہ علماء کا کیا مؤقف ہے-

شرح الکبیر مالکیہ کی کتاب ہے۔
یہ ان کا موقف پیش کیا گیا ہے۔
 
Top