اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,684
- ری ایکشن اسکور
- 751
- پوائنٹ
- 290
میرے بھائی، ہم بھی تو شبہات کی بات کہاں کر رہے ہیں۔
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں شخص نے فلاں شخص کے گھر اس کی اجازت کے بغیر گھس کر اتنی رقم چوری کی، تو اس پر تو حد جاری ہو۔
لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں شخص نے اپنے میزبان کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر اتنی ہی رقم چوری کی، تو اس پر حد کی بجائے تعزیر لگے؟ اس کی کیا دلیل؟
ہاں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب جرم میں ثبوت پکا نہ ہو تو حد کی جگہ تعزیر لگائی جائے گی۔
لیکن ثبوت میں یکسانیت، جرم میں یکسانیت کے باوجود حدود کا انکار؟ یہ سمجھ نہ آنے والی بات ہے۔
وجہ یہ ہے قرآن کریم میں جو سزا یا حد ہے وہ چوری پر ہے اور لفظ سرقہ کا استعمال ہوا ہے۔
اب ہم عرب کی اس زمانے کی لغت کو دیکھیں گے کہ سرقہ کہتے کسے ہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا محفوظ مال چپکے سے چرانا۔
اگر ان تینوں میں سے کوئی شرط بھی نہیں پائی گئی تو وہ سرقہ کے اصل مفہوم پر پورا نہیں اترے گا۔
جب ہم ایک شخص کو اپنے گھر میں لے گئے تو اس کے سامنے رکھی ہوئی چیزیں اس کے لیے محفوظ نہیں رہیں۔ ان کی حفاظت کوئی نہیں کر رہا۔ اگر وہ انہیں اٹھا لیتا ہے تو یہ سرقہ نہیں ہے۔
(لیکن اگر وہ لاکر توڑ کر کچھ نکالے تو لاکر حفاظت کے لیے تھا اس لیے وہ سارق ہوگا۔ یہ میری رائے ہے۔ فتوی کا علم نہیں۔ واللہ اعلم)
اس لیے اس پر قرآن کا سارق کے لیے متعین حکم "حد" ہم کس دلیل کی بنا پر لگا سکتے ہیں؟ یہ تو مکمل طور پر سارق ہے ہی نہیں۔
تعزیر حد سے سخت بھی ہو سکتی ہے۔ قاضی پر موقوف ہے اور ان معاملات میں ہوتی ہے جن میں حد مقرر نہیں۔
جب یہ شخص سارق کے الفاظ سے نکل گیا تو حد اس کے لیے رہی نہیں۔ تعزیر اس پر لگے گی۔
اسی لیے اس کے اور سارق کے جرم میں یکسانیت بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے سامنے رکھی چیز اٹھانا آسان تھا جب کہ سارق کے لیے مشکل۔
باقی اگر ثابت نہ ہو جرم تو تعزیر بھی نہیں لگ سکتی۔ ثابت نہ ہونے پر بھی تعزیر(جو کہ ایک سزا ہے) عقل سے باہر ہے۔