• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہلحدیث کہلانے والوں کی قیاسی و عصبی نماز

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وحدثني أبو السائب، حدثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه، فنزلت: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا }
لیس بشي ء
(کتاب القراہ ص ١٤٤)

مرسل الزھری شرمن مرسل غیرہ
(انھاء السکن ص٣٩)
محترم آپ نے تفسیر سے حوالہ مانگا میں نے تفسیر ابن کثیر سے چار حوالہ جات دیئے آپ کے استفسار پر۔ ان میں سے اگر ایک پر نقد (بلا دلیل) ہے تو بقیہ تو صحیح ہی ہیں جو کہ یہ ہیں؛

تفسير ابن كثير
حدثنا أبو كريب، حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم
وقال الترمذي: "هذا حديث حسن". وصححه أبو حاتم الرازي.
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال:
لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
معذرت کے ساتھ آپ کوبہتان باندھنے اور دھوکہ دینے کی عادت اور مہارت ہے۔
مجهے اس پوسٹ پر شدید اعتراض هے ۔
ابن عثمان بهائی اس مراسلہ پر توجہ نہیں دے پائے ۔ اصولا اشتعال دانستہ دلایا جاتا هے اور پیشگی معذرت بهی بهی ہمراہ هوتی هے ۔ یہ عجیب طرز تحریر هے کہ فلاں جو چاہے بک دے لیکن اعتراض نا کیا جائے کہ معذرت کی جا چکی هے !
افسوس کہ رد عمل پر ہی لکہا گیا اور اصل محرک کو خاموش رهنے کی وجہ سے شہ مل گئ۔
جسے پہلے سے اندازہ هو بلکہ یقین هو کہ وہ ایک غلط بات ہی کہنے جا رہا هے وہ ہی اصولا پیشگی معذرت کرتا هے ورنہ مشاہدہ تو یہ بتاتا هے کہ خطاء کی نشاندہی ، پہر اپنی ندامت پر معذرت کی جاتی هے ۔ یہ واقعتا ایک تدریب هے جو اس طرح کے لوگوں کو دی جاتی هے اور باضابطہ فعال بهی کیا جاتا هے انہیں ۔ ۔
۔
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مجهے اس پوسٹ پر شدید اعتراض هے ۔
ابن عثمان بهائی اس مراسلہ پر توجہ نہیں دے پائے ۔ اصولا اشتعال دانستہ دلایا جاتا هے اور پیشگی معذرت بهی بهی ہمراہ هوتی هے ۔ یہ عجیب طرز تحریر هے کہ فلاں جو چاہے بک دے لیکن اعتراض نا کیا جائے کہ معذرت کی جا چکی هے !
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو اچھا ماحول میسر نہیں ۔ آپ اپنا موحول تبدیل کریں اور کسی پر فضا مقام پر چلے جائیں ۔۔۔ ابتسامہ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
محترم آپ نے تفسیر سے حوالہ مانگا میں نے تفسیر ابن کثیر سے چار حوالہ جات دیئے آپ کے استفسار پر۔ ان میں سے اگر ایک پر نقد (بلا دلیل) ہے تو بقیہ تو صحیح ہی ہیں جو کہ یہ ہیں؛

تفسير ابن كثير
حدثنا أبو كريب، حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم
وقال الترمذي: "هذا حديث حسن". وصححه أبو حاتم الرازي.
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال:
لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }

میں نے پہلی روایت کی سند میں محاربی کا سوال کیا تھا اسکا جواب آپ نہ دے سکے

اور دوسرا امام ذھری رح والی روایت پر اسکا بھی آپ دفاع نہ کرسکے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
جن کو آپ صحیح کہ رہے ہو اسی میں المحاربی ہے اور اسی کی تفصیل آپ سے مانگی تھی

اور دوسری روایت مرسل ہے اسکا بھی آپ جواب نہ دے سکے اور صحیح کی رٹ لگا رہے ہو
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم

فانتهى الناس عن القراءة اس جملہ پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے کہ یہ امام زہری رح کا مدرج کیا ہوا ہے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 537)
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
حديث مقطوع

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
فاتحہ خلف الامام
اللہ تعالیٰ نے (امام کی) قراءتِ قرآن کے وقت اسے توجہ سے اور خاموش رہ کر سننے کا حکم (مقتدی کو) دیا

(سورۃ الاعراف)۔
کوئی باسند تفسیر حدیث کا حوالہ دو اتنی آسانی سے فرار نہیں ہوسکتے
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
حدثنا أبو كريب، حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله

تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وحدثني أبو السائب، حدثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه، فنزلت: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا }


تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم


تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 537)
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
لیس بشي ء
(کتاب القراہ ص ١٤٤)
مرسل الزھری شرمن مرسل غیرہ
(انھاء السکن ص٣٩)
محترم آپ نے تفسیر سے حوالہ مانگا میں نے تفسیر ابن کثیر سے چار حوالہ جات دیئے آپ کے استفسار پر۔
میں نے پہلی روایت کی سند میں محاربی کا سوال کیا تھا اسکا جواب آپ نہ دے سکے
اور دوسرا امام ذھری رح والی روایت پر اسکا بھی آپ دفاع نہ کرسکے
جن کو آپ صحیح کہ رہے ہو اسی میں المحاربی ہے اور اسی کی تفصیل آپ سے مانگی تھی
اور دوسری روایت مرسل ہے اسکا بھی آپ جواب نہ دے سکے اور صحیح کی رٹ لگا رہے ہو
فانتهى الناس عن القراءة اس جملہ پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے کہ یہ امام زہری رح کا مدرج کیا ہوا ہے
محترم تفسیر ابن کثیر میں نے نہیں لکھی کہ اس کے مندرجات کی تصدیق میرے ذمہ ہو۔ یہ تفسی آپ کی ڈیمانڈ تھی وہ میں نے پوری کردی۔ رہا مسئلہ اصل موضع کے دلائل کا جو میں نے فراہم کیئے ہیں ان پر بات کریں ان کا میں جواب دہ ہوں۔ شکریہ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
آپ کے دلائل پر ہی جوابات دیئے ہیں جو آپکی نظر میں حرف آخر ہیں جن کو صحیح ثابت کرنے سےآپ قاصر رہے

والسلام
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top