• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اہل بیت اطہار وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے ہر قسم کی گندگی کو دور کردیا ہے

لفظ طہارت کی تین اقسام ہیں

1) طہارت سے کبھی نجاست عنیہ سے پاکی مراد لی جاتی ہے

2) اور کبھی اعمال خبیثہ کی آلودگی سے پاکی مقصود ہوتی ہے

3) اور کبھی اس چیز سے ازالہ مقصود ہوتا ہے جو عبادت الہی کے لئے مانع ہے

ارشاد باری تعالٰی ہے
مراد یہ ہے کہ اپنے کپڑے پاک رکھا کرو۔ المدثر :4

طہارت کی پہلی قسم کے بارے میں یہ آیت دلیل ہے

اور دوسری قسم کے لیئے یہ آیت دلیل ہے

اے نبی کے اہل بیت اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔ الاحزاب : 33

اور طہارت کی تیسری قسم کے یہ آیت دلیل ہے ارشاد باری تعالٰی ہے

اور اگر تم حالات جنابت میں ہو تو غسل کر لو

اس سے یہ پتہ چلا کہ اہل بیت سرچشمہ مناقب اور منبع فضائل اور اہل بیت عزت و شرف کی اوج ثریا پر فائز ہیں اللہ تعالٰی نے ان کو ہر طرح کی گندگی اور آلودگی سے پاک و صاف بنایا ہے
ہم اور آپ بلکہ ہر فرد پر لازم ہے کہ اپنے علم سے اللہ تعالٰی کی رضا کا خواہاں ہو اور اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی اشاعت کا کام لے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے

" اور جب اللہ نے اپنے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر جب تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے " آل عمران : 81

جب اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہ السلام سے یہ عہد لیا کہ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زمانہ پائیں تو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانا اور ان کی نصرت و حمایت کرنا ضروری امر ہے ان دونوں میں ایک کے ہونے اور دوسرے کے نہ ہونے سے کام نہیں چلے گا اس حکم کی بجاآوری کی ذمہ داری سب سے پہلے اہل بیت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معبوث فرمایا اور اہل بیت کو بلند مقام و مرتبہ پر فائز فرمایا اہل بیت میں بھی ان لوگوں پر اس کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آل و اولاد میں سے ہیں

اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
مطلقا یہ بات کرنا درست نہیں ہے کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم اجمعین اہل بیت سے افضل ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضلیت کی ترتیب وہی ہے جو خلفائے راشدین کی زمانی ترتیب ہے۔
جزاکم اللہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ
اہل بیت اطہار وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی گندگی کو دور کردیا ہے

لفظ طہارت کی تین اقسام ہیں
1) طہارت سے کبھی نجاست عنیہ سے پاکی مراد لی جاتی ہے
2) اور کبھی اعمال خبیثہ کی آلودگی سے پاکی مقصود ہوتی ہے
3) اور کبھی اس چیز سے ازالہ مقصود ہوتا ہے جو عبادت الہی کے لئے مانع ہے
آپ نے اس دعوے کی دلیل پیش نہیں کی۔

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
یہ دعویٰ بھی بغیر دلیل کے ہے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ اگر پوسٹ کو پڑھ لیتے تو یہ بےتکہ سوال نہ کرتے
یہ ہے دعویٰ

اہل بیت اطہار وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی گندگی کو دور کردیا ہے
لفظ طہارت سے کبھی اعمال خبیثہ کی آلودگی سے پاکی مقصود ہوتی ہے
اور اس کی دلیل یہ ہے
اے نبی کے اہل بیت اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔ الاحزاب : 33

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے

یہ ہے اس کی دلیل
اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے
اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
امید ہے اب آپ بغیر پڑھے کوئی اعتراض نہیں فرمائیں گے
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
یہ ہے اس کی دلیل
اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے
اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
امید ہے اب آپ بغیر پڑھے کوئی اعتراض نہیں فرمائیں گے
انتہائی بودی دلیل ہے
اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو پوری کائنات پر فضیلت ہے
اور ان کے بعد دین میں ان سے جو قریبی ہو گا اسکو فضیلت ہو گی
اس لیے نبی ﷺ کے بعد تمام انبیا علیہ السلام آتے ہیں
پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ اگر پوسٹ کو پڑھ لیتے تو یہ بےتکہ سوال نہ کرتے
یہ ہے دعویٰ

اہل بیت اطہار وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی گندگی کو دور کردیا ہے
لفظ طہارت سے کبھی اعمال خبیثہ کی آلودگی سے پاکی مقصود ہوتی ہے
اور اس کی دلیل یہ ہے
اے نبی کے اہل بیت اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔ الاحزاب : 33
اولاً: صحت مند گفت وشنيد کرنے کيلئے شائستہ زبان کا استعمال بہت ضروری ہے۔

ثانياً: آپ کا دعویٰ يہ تھا کہ طہارت کی تين قسمیں ہيں اور اہل بيت تينوں قسموں کے اعتبار سے پاک ہيں۔

پھر جب آپ نے دلیل ذکر کی تو صرف دوسری قسم کی طہارت کی دلیل ذکر کی۔ اہل بیت کے حوالے سے پہلی اور تیسری قسم کی طہارت کی دلیل پیش ہی نہیں کی۔

اور اہل بیت کی دوسری قسم کی طہارت کی جو دلیل آپ نے پیش کی ہے وہ بھی اپنا مقصود ادا نہیں کر رہی۔
کیونکہ آیت کریمہ ﴿ إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ﴾ میں يريد سے مراد اللہ تعالیٰ کا ’ارادۂ شرعیہ‘ (یعنی ایک خواہش کا اظہار) ہے، ’ارادۂ کونیہ‘ (یعنی حتمی فیصلہ) نہیں ہے۔

اور ’ارادۂ شرعیہ‘ کیلئے لازمی نہیں کہ وہ پورا بھی ہو۔ مثلاً فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِ‌يدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا ٢٧ ﴾ ... سورة النساء
یعنی اے امت محمدیہ! اللہ تعالیٰ تو تم پر رجوع فرمانا چاہتے ہیں لیکن جو لوگ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں (یعنی اہل کتاب: یہود ونصاریٰ) وہ تمہیں گمراہ کر دینا چاہتے ہیں۔

اب دیکھئے درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادۂ شرعیہ (اپنی ایک خوشی) ذکر کی ہے کہ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم سب کے گناہ معاف ہو جائیں اور تم سب صحیح راہ پر چلو لیکن تمہارے دشمن تمہیں گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

اس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ارادۂ شرعیہ کا پورا ہونا ضروری نہیں ہے۔

بہرام بھائی! اگر آپ کی دی ہوئی دلیل کو ہی تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پوری امت محمدیہ (بشمول فجار وفساق لوگوں کے) اہل بیت کی طرح پاک ہے کیونکہ فرمانِ باری ہے:

﴿ مَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَ‌جٍ وَلَـٰكِن يُرِ‌يدُ لِيُطَهِّرَ‌كُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ٦ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة

اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ آپ نے اپنے موقف کی دلیل پیش نہیں کی۔

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے

یہ ہے اس کی دلیل
اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے
اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے
میرے عزیز بھائی! یہ بات مسلّم ہے کہ نبی کریمﷺ افضل البشر ہیں، سید الانبیاء والمرسلین ہیں۔ لیکن اسلام میں اصل اہمیت تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے نہ کہ رشتے داری کی۔ ﴿ إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‌ ١٣ ﴾ ... سورة الحجرات
اسی لئے لازمی نہیں کہ نبی کریمﷺ کے بعد سب سے افضل آپ کے اہل بیت ہی ہوں۔ (ویسے بھی نبی کریمﷺ کے اہل بیت میں کفار بھی شامل ہیں، مثلاً آپ کے چچا ابو لہب، ابو طالب وغیرہ)
البتہ اگر نبی کریمﷺ کے رشتے داروں میں کوئی مومن، متقی اور پرہیزگار بھی ہے تو اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے، لیکن علی الاطلاق اسے پوری امت پر فضیلت دینے کیلئے الگ دلیل کی ضرورت ہے۔

اسی لئے تمام مسلمانوں کا (شیعوں کو چھوڑ کر) اتفاق ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد امت محمدیہ میں سب سے افضل سیدنا ابو بکر﷜، پھر سیدنا عمر﷜ اور پھر سیدنا عثمان﷜ ہیں۔
سیدنا ابن عمر﷜ سے مروی ہے: كنا نقولُ ورسولُ اللهِ ﷺ حَيٌّ : أفضلُ أمةِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم بعدَه: أبو بكرٍ، ثم عمرُ، ثم عثمانُ ۔۔۔ صحيح أبي داؤد

یہی موقف سیدنا علی﷜ کا بھی تھا کہ لہٰذا سیدنا محمد بن حنفیہ﷫ سے مروی ہے: قلت لأبي : أي الناس خير بعد رسول اللهِ ﷺ؟ قال: أبو بكر، قال: قلت: ثم من ؟ قال: ثم عمر، قال: ثم خشيت أن أقول : ثم من فيقول : عثمان . فقلت : ثم أنت يا أبة ؟ قال : ما أنا إلا رجل من المسلمين ۔۔۔ سنن أبي داؤد

امید ہے اب آپ بغیر پڑھے کوئی اعتراض نہیں فرمائیں گے
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرً‌ا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ١٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الحجرات
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عن عائشة رضي الله عنها أن قريشا أهمهم شأن المرأة المخزومية التي سرقت فقالوا ومن يکلم فيها رسول الله صلی الله عليه وسلم فقالوا ومن يجترئ عليه إلا أسامة بن زيد حب رسول الله صلی الله عليه وسلم فکلمه أسامة فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أتشفع في حد من حدود الله ثم قام فاختطب ثم قال إنما أهلک الذين قبلکم أنهم کانوا إذا سرق فيهم الشريف ترکوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ (امرائے) قریش ایک مخزومی عورت کے معاملہ میں بہت ہی فکر مند تھے جس نے چوری کی تھی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا) وہ لوگ کہنے لگے کہ اس سارقہ کے واقعہ کے متعلق کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت کرے بعض لوگوں نے کہا اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے ہیں اگر کچھ کہہ سکتے ہیں تو وہی کہہ سکتے ہیں ان لوگوں نے مشورہ کر کے اسامہ بن زید کو اس بات پر مجبور کیا چنانچہ اسامہ نے جرات کر کے اس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہیتے اسامہ سے کہا کہ تم خدا کی قائم کردہ سزاؤں میں سے ایک حد کے قیام کے سفارشی ہو یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ ان میں جب کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور سزا نہ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے قسم ہے خدا کی! اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں۔

اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصددراصل یہ ہے کہ جس دین اسلام کے ہم ماننے والے ہیں وہ ہم ایک تقاضا کرتا ہے وہ یہ کے ہمیں اس میں پورا پورا داخل ہونا ہے۔۔۔ یہاں پر کوئی نسبت کسی کے کام نہیں آئے گی۔۔۔ اگر نسبتیں ہی نجات کا سبب بنتی تو یہ مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ ارشاد فرماتے۔۔۔

بسنتي وسنة الخلفا المهديين الراشدين تمسکوا
تم میری سنت اور خلفائے راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو

اگر فضیلت اتنی ہی ہوتی جتنی زور دے کر بیان کی جارہی ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟؟؟۔۔۔ میں تو بس اتنا ہی کہوں گا کے محرم الحرام کی تیاری میں ہوم ورک شروع ہوگیا ہے اس لئے نصیحت ہے کے غلو کی غلاظت سے بچیں کیوں یہ صرف گمراہی اور ہلاکت ہے۔۔۔

یاد رکھیں۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے۔۔۔ہجرت کے وقت اور جب منافقین نے تہمت لگائی تھی۔۔۔ فضیلت اسے کہتے ہیں۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اولاً: صحت مند گفت وشنيد کرنے کيلئے شائستہ زبان کا استعمال بہت ضروری ہے۔

ثانياً: آپ کا دعویٰ يہ تھا کہ طہارت کی تين قسمیں ہيں اور اہل بيت تينوں قسموں کے اعتبار سے پاک ہيں۔

پھر جب آپ نے دلیل ذکر کی تو صرف دوسری قسم کی طہارت کی دلیل ذکر کی۔ اہل بیت کے حوالے سے پہلی اور تیسری قسم کی طہارت کی دلیل پیش ہی نہیں کی۔[/ARB]
اے نبی کے اہل بیت اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔ الاحزاب : 33
آپ نے غور نہیں فرمایا کہ یہ دعویٰ میرا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اب ہر قسم کی گندگی کو دورکرکے اللہ اگر اہلبیت اطہار کو پاک صاف کرنا چاہتا ہے تو میں یا آپ اس پر روک لگانے والے کون ہوتے ہیں اور پھر اللہ کے نبی بھی یہی چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہل بیت اطہار سے ہرقسم کی گندگی کو دورکرکے انہیں پاک صاف کردے اب دین کے دونوں معاخذ اس طرح کا ارادہ کرلیں تو پھر مجھ جیسا ناکارہ بندہ اس پر کس طرح سے روک لگا سکتا ہے ۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اہلِ بیت! اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1883، 2424
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اور اہل بیت کی دوسری قسم کی طہارت کی جو دلیل آپ نے پیش کی ہے وہ بھی اپنا مقصود ادا نہیں کر رہی۔
کیونکہ آیت کریمہ ﴿ إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ﴾ میں يريد سے مراد اللہ تعالیٰ کا ’ارادۂ شرعیہ‘ (یعنی ایک خواہش کا اظہار) ہے، ’ارادۂ کونیہ‘ (یعنی حتمی فیصلہ) نہیں ہے۔

اور ’ارادۂ شرعیہ‘ کیلئے لازمی نہیں کہ وہ پورا بھی ہو۔ مثلاً فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِ‌يدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا ٢٧ ﴾ ... سورة النساء
یعنی اے امت محمدیہ! اللہ تعالیٰ تو تم پر رجوع فرمانا چاہتے ہیں لیکن جو لوگ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں (یعنی اہل کتاب: یہود ونصاریٰ) وہ تمہیں گمراہ کر دینا چاہتے ہیں۔

اب دیکھئے درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادۂ شرعیہ (اپنی ایک خوشی) ذکر کی ہے کہ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم سب کے گناہ معاف ہو جائیں اور تم سب صحیح راہ پر چلو لیکن تمہارے دشمن تمہیں گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

اس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ارادۂ شرعیہ کا پورا ہونا ضروری نہیں ہے۔

بہرام بھائی! اگر آپ کی دی ہوئی دلیل کو ہی تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پوری امت محمدیہ (بشمول فجار وفساق لوگوں کے) اہل بیت کی طرح پاک ہے کیونکہ فرمانِ باری ہے:

﴿ مَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَ‌جٍ وَلَـٰكِن يُرِ‌يدُ لِيُطَهِّرَ‌كُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ٦ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة

اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ آپ نے اپنے موقف کی دلیل پیش نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ کا ارادۂ شرعیہ‘ (یعنی ایک خواہش کا اظہار) ضروری نہیں کہ پوری ہو( نعوذباللہ)
اب تو اللہ کی خواہش بھی پوری نہیں ہوسکتی پھر کون ایسا ہے جس کی خواہش پوری ہو ۔

اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤo

اس آیت مبارکہ میں اللہ کی دو خواہشیں بیان ہوئی
١۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے ۔
٢۔ اللہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے ۔
اللہ تعالیٰ کی پہلی خواہش کہ وہ مسلمانوں پر سختی نہیں کرنا چاھتا پوری ہوئی کہ نہیں ہوئی اور اللہ کی اس خواہش کو پورا کون کرے گا ؟
اللہ تعالیٰ کی دوسری خواہش کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو پاک کردے یہاں ہر قسم کی آلودگی سے پاک کرنے کی بات نہیں ہوئی جس طرح اہل بیت کے لئے اور اس آیت مبارکہ میں وضو ، اور تیممم کے احکام بیان ہوئے ہیں جو کہ نماز کے لئے ضروری ہیں پوری آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤo
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top