• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ (امرائے) قریش ایک مخزومی عورت کے معاملہ میں بہت ہی فکر مند تھے جس نے چوری کی تھی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا) وہ لوگ کہنے لگے کہ اس سارقہ کے واقعہ کے متعلق کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت کرے بعض لوگوں نے کہا اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے ہیں اگر کچھ کہہ سکتے ہیں تو وہی کہہ سکتے ہیں ان لوگوں نے مشورہ کر کے اسامہ بن زید کو اس بات پر مجبور کیا چنانچہ اسامہ نے جرات کر کے اس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہیتے اسامہ سے کہا کہ تم خدا کی قائم کردہ سزاؤں میں سے ایک حد کے قیام کے سفارشی ہو یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ ان میں جب کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور سزا نہ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے قسم ہے خدا کی! اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں۔

اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصددراصل یہ ہے کہ جس دین اسلام کے ہم ماننے والے ہیں وہ ہم ایک تقاضا کرتا ہے وہ یہ کے ہمیں اس میں پورا پورا داخل ہونا ہے۔۔۔ یہاں پر کوئی نسبت کسی کے کام نہیں آئے گی۔۔۔ اگر نسبتیں ہی نجات کا سبب بنتی تو یہ مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ ارشاد فرماتے۔۔۔

یہاں تو اللہ تعالیٰ کے ارادۂ شرعیہ کا پورا ہونا ضروری نہیں ہے
اور آپ پوراکرنا چاھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک فرضی بات پر کہ اگر فاطمہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یاد رکھیں۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے۔۔۔ہجرت کے وقت اور جب منافقین نے تہمت لگائی تھی۔۔۔ فضیلت اسے کہتے ہیں۔۔۔
کیا آپ ان باتوں کو فضیلت نہیں مانتے ۔
صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر: 3706
حدثني محمد بن بشار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا غندر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي ‏"‏ أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ‏"‏‏.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے فضائل اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا بیان
وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فاطمة سيدة نساء أهل الجنة ‏"‏‏.‏
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
حدیث نمبر: 3714
حدثنا أبو الوليد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمرو بن دينار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن المسور بن مخرمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فاطمة بضعة مني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن أغضبها أغضبني ‏"‏‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر: 3751
حدثني يحيى بن معين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالا أخبرنا محمد بن جعفر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن واقد بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال أبو بكر ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته‏.‏
مجھ سے یحییٰ بن معین اور صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں واقد بن محمد نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی خوشنودی) کو آپ کے اہل بیت کے ساتھ (محبت و خدمت کے ذریعہ) تلاش کرو۔​
ابوبکر رضی اللہ عنہ تو فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی ان کی نسبت یعنی اہل بیت میں ہے اور آپ نسبت کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے لگتا ہےکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی رائے سے متفق نہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کیا آپ ان باتوں کو فضیلت نہیں مانتے ۔
صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر: 3706
حدثني محمد بن بشار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا غندر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي ‏"‏ أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ‏"‏‏.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے فضائل اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا بیان
وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فاطمة سيدة نساء أهل الجنة ‏"‏‏.‏
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
حدیث نمبر: 3714
حدثنا أبو الوليد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمرو بن دينار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن المسور بن مخرمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فاطمة بضعة مني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن أغضبها أغضبني ‏"‏‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر: 3751
حدثني يحيى بن معين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالا أخبرنا محمد بن جعفر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن واقد بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال أبو بكر ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته‏.‏
مجھ سے یحییٰ بن معین اور صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں واقد بن محمد نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی خوشنودی) کو آپ کے اہل بیت کے ساتھ (محبت و خدمت کے ذریعہ) تلاش کرو۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ تو فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی ان کی نسبت یعنی اہل بیت میں ہے اور آپ نسبت کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے لگتا ہےکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی رائے سے متفق نہیں۔
ٍٍٍصحیح روایات میں اہل بیت کے جو بھی فضائل بیان ہوئے ہیں، ہم ان کو مانتے ہیں
اور کیا آپ اس کو مانتے ہیں؟


باب مناقب أبي بكر - رضي الله عنه - الفصل الأول

6019 - عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال : ( إن من أمن الناس علي في صحبته وماله أبو بكر - وعند البخاري أبا بكر - ولو كنت متخذا خليلا لا تخذت أبا بكر خليلا ، ولكن أخوة الإسلام ومودته ، لا تبقين في المسجد خوخة إلا خوخة أبي بكر ) .
وفي رواية : ( لو كنت متخذا خليلا غير ربي لاتخذت أبا بكر خليلا ) . متفق عليه .

3655 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خِلِّهِ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ لَخَلِيلُ اللَّهِ». «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ

- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الجَوْهَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، قَالَ: «أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»: «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ»
__________

[حكم الألباني] : حسن

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَيُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَتْ: «أَبُو بَكْرٍ»، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: «عُمَرُ»، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: «ثُمَّ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ»، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: فَسَكَتَتْ: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، وَالأَعْمَشِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَهْبَانَ، وَابْنِ أَبِي لَيْلَى، وَكَثِيرٍ النَّوَّاءِ كُلِّهِمْ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ أَهْلَ الدَّرَجَاتِ العُلَى لَيَرَاهُمْ مَنْ تَحْتَهُمْ كَمَا تَرَوْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ مِنْهُمْ وَأَنْعَمَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ»
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الحَسَنِ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُحْرِزٍ القَوَارِيرِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الأَوْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لِأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلَّا وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِئُهُ اللَّهُ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ»
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي العَلَاءِ المُرَادِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنِّي لَا أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ، فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي» وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ البَزَّارُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ: «هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالمُرْسَلِينَ». هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ فِي الجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ»، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ هَذِهِ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ: «إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَائْتِي أَبَا بَكْرٍ». هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ العَقَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ». وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيهِ وَقَالَ فِيهِ عُمَرُ أَوْ قَالَ ابْنُ الخَطَّابِ فِيهِ - شَكَّ خَارِجَةُ - إِلَّا نَزَلَ فِيهِ القُرْآنُ عَلَى نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ وَفِي البَابِ عَنْ الفَضْلِ بْنِ العَبَّاسِ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا المُقْرِئُ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ» قَالَ. «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ»
__________

[حكم الألباني] : حسن

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ كَأَنِّي أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ»، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ «العِلْمَ». «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ»
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " دَخَلْتُ الجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا القَصْرُ؟ " قَالُوا: لِشَابٍّ مِنْ قُرَيْشٍ، فَظَنَنْتُ أَنِّي أَنَا هُوَ، فَقُلْتُ: «وَمَنْ هُوَ؟» فَقَالُوا: عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ. «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا الحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: خَرَجَ [ص:621] رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ سَالِمًا أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْكَ بِالدُّفِّ وَأَتَغَنَّى، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِي وَإِلَّا فَلَا». فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَأَلْقَتِ الدُّفَّ تَحْتَ اسْتِهَا، ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ، إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ، فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ أَلْقَتِ الدُّفَّ»: " هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ وَفِي البَابِ عَنْ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ كَانَ يَكُونُ فِي الأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَعُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ». هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأخْبَرَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: مُحَدَّثُونَ يَعْنِي: مُفَهَّمُونَ
__________

[حكم الألباني] : حسن صحيح

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى حِرَاءَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّكَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اهْدَأْ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ» وَفِي البَابِ عَنْ عُثْمَانَ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَبُرَيْدَةَ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
__________

[حكم الألباني] : صحيح

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ الرَّمْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ القَاسِمِ، عَنْ كَثِيرٍ، مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: جَاءَ عُثْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَلْفِ دِينَارٍ - قَالَ الحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ: وَكَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِي، فِي كُمِّهِ - حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَنَثَرَهَا فِي حِجْرِهِ. قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَلِّبُهَا فِي حِجْرِهِ وَيَقُولُ: «مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ اليَوْمِ مَرَّتَيْنِ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ»
__________

[حكم الألباني] : حسن

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، فَقَالَ لِي: «يَا أَبَا مُوسَى أَمْلِكْ عَلَيَّ البَابَ فَلَا يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنٍ». فَجَاءَ رَجُلٌ فَضَرَبَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ». فَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالجَنَّةِ، وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ البَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: «افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ». فَفَتَحْتُ البَابَ وَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالجَنَّةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ البَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: «افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ
__________

[حكم الألباني] : صحيح
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آپ کو جواب دینے سے پہلے میں کچھ باتیں چاہ رہا ہوں کے شیئر کی جائیں۔۔۔ تاکہ اس موضوع میں آنے والے قارئین سمجھ سکیں کے اصل میں اس موضوع کو شروع کرنے کی وجہ کیا ہے؟؟؟۔۔۔

اہلسنت والجماعت کے عقائد یا منہج سے واقفیت رکھنے والے مسلمان کبھی بھی اپنی طرف سے کسی بھی صحابی کے فضائل یا مناقب کو اپنی طرف سے بڑھا کر چڑھا کر قطعی طور پر پیش نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ صرف اس غُلو سے بچنا ہے جس بچنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا۔۔۔

اس حکم کی بجاآوری کی ذمہ داری سب سے پہلے اہل بیت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معبوث فرمایا اور اہل بیت کو بلند مقام و مرتبہ پر فائز فرمایا اہل بیت میں بھی ان لوگوں پر اس کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آل و اولاد میں سے ہیں۔
یہ پورا پیراگراف آپ سے دلیل کا تقاضہ کررہا ہے۔۔۔ سوچنے والی بات ہے عہد اللہ وحدہ لاشریک نے انبیاء علیہ السلام سے لیا۔۔۔ تو یہ دوگنی ذمہ داری اہل بیت پر کیوں لاد دی گئی ہے؟؟؟۔۔۔ اس کا کوئی بقول قابل احترام دوست باذوق بھائی کے منطقی جواب پیش کرسکتے ہیں۔۔۔ یقینا نہیں کیونکہ اصول کہتا ہے ہر بات پر دلیل لازمی ہونی چاہئے ورنہ فاسق وفاجر خود کو کہلوانا کوئی بھی گوارہ نہیں کرتا۔۔۔

اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے
یہ بات ہم بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کے اللہ وحدہ لاشریک نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت کی اساس وبنیاد ہیں یا دین اسلام کی؟؟؟۔۔۔ جن کے قلب پر اللہ نے قرآن نازل کیا اور جبریل امین اللہ کے حکم سے وہ قرآن آپ تک پہنچاتے تھے۔۔۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت کی اساس ہوتے تو خود آپ کے چچا جو اپنے آباواجداد کے دین پر فوت ہوئے اُن پر براہ راست آپ یہ الزام لگا رہے ہیں کے وہ اس چیز یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر مبعوث ہونے کے معجزے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔۔۔ ہوش کے ناخن لیں۔۔۔

اس تحریر کی چٹنی بنانا میرا مقصد قطعی طور پر نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ میری اپنی ذاتی رائے صرف یہ ہے کے کسی کی محنت کو خراب نہ کیا جائے لیکن اُصول جو میں نے اپنایا ہے وہ یہ کے ہر وہ بات جو حق اور سچ کے قریب ہو اُسے قبول کیا جائے اور باقی۔۔۔۔۔۔ لہذا ایک مثال پر اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کے عقلمند کہتے ہیں کے نانی کے آگے ننہیال کے قصے نہیں سنائے جاتے۔۔۔ یہ مثال آپ کے لئے نصیحت آمیز ہے۔۔۔ باقی اللہ ہی ہے جو بہتر علم رکھنے والا ہے۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیا آپ ان باتوں کو فضیلت نہیں مانتے ۔
صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر: 3706
حدثني محمد بن بشار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا غندر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت إبراهيم بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي ‏"‏ أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ‏"‏‏.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے فضائل اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا بیان
وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فاطمة سيدة نساء أهل الجنة ‏"‏‏.‏
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
حدیث نمبر: 3714
حدثنا أبو الوليد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمرو بن دينار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن المسور بن مخرمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فاطمة بضعة مني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن أغضبها أغضبني ‏"‏‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر: 3751
حدثني يحيى بن معين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالا أخبرنا محمد بن جعفر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن واقد بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال أبو بكر ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته‏.‏
مجھ سے یحییٰ بن معین اور صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں واقد بن محمد نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی خوشنودی) کو آپ کے اہل بیت کے ساتھ (محبت و خدمت کے ذریعہ) تلاش کرو۔​
ابوبکر رضی اللہ عنہ تو فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی ان کی نسبت یعنی اہل بیت میں ہے اور آپ نسبت کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے لگتا ہےکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی رائے سے متفق نہیں۔
اس بےجا تحریر کا جواب میں آپ کو بہت شاندار انداز میں دے سکتا ہوں۔۔۔
لیکن بات وہی ہے (چٹنی) ۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اے نبی کے اہل بیت اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔ الاحزاب : 33
آپ نے غور نہیں فرمایا کہ یہ دعویٰ میرا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اب ہر قسم کی گندگی کو دورکرکے اللہ اگر اہلبیت اطہار کو پاک صاف کرنا چاہتا ہے تو میں یا آپ اس پر روک لگانے والے کون ہوتے ہیں اور پھر اللہ کے نبی بھی یہی چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہل بیت اطہار سے ہرقسم کی گندگی کو دورکرکے انہیں پاک صاف کردے اب دین کے دونوں معاخذ اس طرح کا ارادہ کرلیں تو پھر مجھ جیسا ناکارہ بندہ اس پر کس طرح سے روک لگا سکتا ہے ۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اہلِ بیت! اللہ تعالٰی یہی چاھتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے ۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1883، 2424
اللہ تعالیٰ کا ارادۂ شرعیہ‘ (یعنی ایک خواہش کا اظہار) ضروری نہیں کہ پوری ہو( نعوذباللہ)
اب تو اللہ کی خواہش بھی پوری نہیں ہوسکتی پھر کون ایسا ہے جس کی خواہش پوری ہو ۔

اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤo

اس آیت مبارکہ میں اللہ کی دو خواہشیں بیان ہوئی
١۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے ۔
٢۔ اللہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے ۔
اللہ تعالیٰ کی پہلی خواہش کہ وہ مسلمانوں پر سختی نہیں کرنا چاھتا پوری ہوئی کہ نہیں ہوئی اور اللہ کی اس خواہش کو پورا کون کرے گا ؟
اللہ تعالیٰ کی دوسری خواہش کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو پاک کردے یہاں ہر قسم کی آلودگی سے پاک کرنے کی بات نہیں ہوئی جس طرح اہل بیت کے لئے اور اس آیت مبارکہ میں وضو ، اور تیممم کے احکام بیان ہوئے ہیں جو کہ نماز کے لئے ضروری ہیں پوری آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
میرا خیال ہے کہ آپ نے بغور اور غیر جانبداری کے ساتھ میری پوسٹ کو نہیں دیکھا، دوبارہ دیکھئے! ان شاء اللہ! آپ کے اشکالات دور ہو جائیں گے۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/سیرت-صحابہ-کرام-رضوان-اللہ-علیہم-اجمعین-112/اہل-بیت-کو-پوری-کائنات-پر-فضیلت-حاصل-ہے-7852/#post52169
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
یار میں نہ مانوں کا کوئی حل نہیں
مناقب اہل بیت کا کس کو انکار ہے ؟ لیکن اگر تم اہل بیت کو انبیا سے بھی بڑھا دو تو یہ ہم قطعا نہیں مان سکتے-
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یار میں نہ مانوں کا کوئی حل نہیں
مناقب اہل بیت کا کس کو انکار ہے ؟ لیکن اگر تم اہل بیت کو انبیا سے بھی بڑھا دو تو یہ ہم قطعا نہیں مان سکتے-
بھائی جان میں نے تو اس تھریڈ میں اپنی طرف سے کچھ بھی تحریر نہیں کیا ساری اقتباسات اس کتاب سے لےکر آپ کے حضور پیش کردیے اگر اس تحریر سے آپ کو لگاکہ اہل بیت کو انبیاسے بڑھا دیا گیا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں اور یہ پراگراف بھی ایسی کتاب سے لیاگیا ہے
اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے​
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top