سوال نمبر 6: ایک طرف لفظ امام اسے انکار اور صرف حضرت حسین پر اصرار اور دوسری طرف ابن تیمیہ کو نہ صرف امام بلکہ "شیخ الاسلام ابن تیمیہ" تحریر کرنا ابن تیمیہ کی "امام" حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کون سی فوقیت اور دلیل شرعی پر مبنی ہے؟"
جواب نمبر6: افسوس ہے کہ اس سلسلے میں مدیر موصوف نے ہماری گزارشات کو غور سے نہیں پڑھا، اگر وہ ایسا کرلیتے تو ان کے قلم سے اس سطحیت کا اظہار نہ ہوتا جو ان کے سوال سے عیاں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے ہم اپنی وہ وضاحت نقل کردیں جس پر یہ سوال وارد کیا گیا ہے ہم نے لکھا تھا۔
" اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچےسمجھے "اما م حسین علیہ السلام" بولتی ہے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" کا لفظ بولنا اور اسی طرح "رضی اللہ عنہ" کے بجائے "علیہ السلام" کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے "حضرت" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ ہم کبھی "امام ابو بکر صدیق، امام عمر" نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے بعد "رضی اللہ عنہ" لکھتے اور بولتے ہیں۔ اور کبھی "ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضر ت عمر علیہ السلام" نہیں بولتے، لیکن حضرت حسین کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" کے بجائے" علیہ السلام" بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہوگیا ہے اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ "امامت" کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے "امام" کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے "علیہ السلام" لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں "امام معصوم" نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ ٔ کرام کی طرح "حضرت حسین رضی اللہ عنہ " لکھنا اور بولنا چاہیے۔ "امام حسین علیہ السلام" نہیں۔ کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔" (الاعتصام ۱۱ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ)
اتنی صراحت و وضاحت کے بعد بھی مدیر موصوف کا عدم اطمینان ناقابل فہم ہے اگر وہ اس فرق کی کچھ توضیح کردیتے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" نہ لکھنے سے تو ان کی توہین نہیں ہوتی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" نہ لکھنے سے ان کی توہین ہوجاتی ہے۔ تو ہم اپنے موقف پر نظر ثانی کرلیتے۔ یہ عجیب انداز ہے کہ ہمارے دلائل کا کوئی جواب بھی نہیں اور اسی طرح اپنے دلائل کا اظہار بھی نہیں لیکن پھر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کا بچکانہ اعتراض۔ ع
تمہی کہو یہ انداز "تحقیق" کیا ہے؟
باقی رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ابن تیمیہ میں آپ کا عجیب قسم کا موازنہ! تو جواباً عرض ہے کہ حدیث و فقہ کے مسلمہ عالم وفقیہ کو امام لکھنا اگر آپ کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینا ہے جس کے لیے آپ دلیل شرعی کا مطالبہ کررہے ہیں تو ہمارا سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےلیے تو "امام" نہیں لکھتے لیکن ائمہ اربعہ اور سینکڑوں علماء وفقہاء کو امام لکھتے ہیں تو کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ لکھ کر انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے فوقیت دیتے ہیں؟
((ما ھو جوابکم فھو جوابنا))
پھر آپ امام ابو حنیفہ کو "امام اعظم" لکھتے ہیں۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےلیے صرف "امام" اور امام ابو حنیفہ کے لیے"امام اعظم" کیا یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین نہیں؟
اور آگے بڑھئے! آپ تمام صحابہ کرام کے لیے حضرت کا لفظ استعمال کرتےہیں ۔ بلکہ نبی ٔ اکرم ﷺ کےلیے بھی بالعموم یہی لفظ "حضرت یا آنحضرتﷺ" ہی استعمال ہوتا ہےلیکن آپ مولانا احمد رضاخان بریلوی کو "اعلیٰ حضرت" لکھتے اور بولتے ہیں۔ کیا اس طرح صحابہ ٔ کرام کی اور خود ختمی مرتبت ﷺ کی توہین نہیں؟
آخر یہ سوال لکھنے سے قبل اس کی سطحیت پر کچھ تو غور کر لیا ہوتا۔ اس لیے محترم! اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ
علماء وفقہاء کےلیے "امام" کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےلیے بھی اسے اس معنی میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنی میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس معنی میں "امام " نہیں کہا جاتا اگر ایسا ہوتا ابو بکر و عمر و دیگر صحابہ ٔ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ رمز شناس تھے۔
جب کسی بڑے سےبڑے صحابی کے لیے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے، بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے ۔ اس لیے اہل سنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
امید ہے اب تو مدیر موصوف کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی۔ اگر اب بھی اطمینان نہیں تو ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔
یارب! وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور