• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا ابو بکر اور باذوق بھائی!
اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
اللهم اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
ہمارے نزدیک کسی بھی دیوبندی کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ اگر وہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد نہ بھی جانتا ہو تو کم ازکم اتنا ضرور جانتا ہے کہ وہ مقلد ہے اور مقلد پر تقلید واجب ہے۔ تقلید کو واجب سمجھنا اور کہنا شریعت سازی ہے۔ دین میں شریعت سازی کفر ہے۔ ۔
اس استدلال پر مجھے یہ شعر یاد آ گیا:
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دو تاکہ پروانے کا خون نہ ہو کیونکہ مگس باغ میں رس چوسے گی، رس سے شہد بنے گا، شہد کا چھتا ہو گا، چھتے سے موم بنے گا، موم سے موم بتی بنے گی، موم بتی پر پروانے آئیں گے اور خود کو جلائیں گے۔
ایک عالم اذاعۃ القرآن پر کہہ رہے تھے: (مفہوم)
"ہمارے کچھ بھائی دوسروں کا کافر ثابت کرنے کے لیے یوں استدلال کرتے ہیں، تو نماز میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتا، سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی، جس کی نماز نہ ہو وہ تارک الصلاۃ ہے اور تارک الصلاۃ کافر ہے"
والسلام علیکم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نوٹ: علماء کی عزت و احترام اپنی جگہ لیکن قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی کی بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے مجھے ان علماء کے فتاوی جات پر اعتراض ہے جنہیں میں اپنے الفاظوں میں بیان کر رہا ہوں۔
بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے جواز میں ابوبکر بھائی نے چند فتاوی جات کو یہاں پیش کیا۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ان فتاوی جات میں کیا دلائل دئے گئے ہیں۔
سائل: حیاک اللہ یا شیخ! ٹورنٹو، کینیڈا میں جہاں ہم رہتے ہیں وہاں سب سے قریب ترین مسجد تبلیغی جماعت (دیوبندیوں) کی ہے؟

شیخ: تبلیغی جماعت؟

سائل: جی تبلیغی جماعت۔ تو جو بات ہم پوچھنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

شیخ: اگر جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کوئی صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد ہوتو پھر تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ لیکن اگر قریب میں ایسی کوئی مسجد نہ ہو تو پھر جماعت سے نماز پڑھنا نہ چھوڑیں (خواہ تبلیغی جماعت کے پیچھے ہو)۔ میں پھر دوہرا دیتا ہوں کہ اگر کوئی مسجد ہو تو ایسے بدعتی عقائد نہیں رکھتے تو پھر تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھیں، لیکن اگر ایسی مسجد نہیں تو پھر (انہی تبلغیوں کے پیچھے پڑھ لیں) باجماعت نماز کو نہ چھوڑیں۔اور آج کے اس دور میں صرف سلفی لوگوں کا ہی صحیح عقیدہ ہوتا ہے۔
غور کیجئے کہ یہاں شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ اہل حدیث صحیح العقیدہ مسلمان کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کے کسی بھی فرد کو امام بنانے سے منع کر رہے ہیں ،پھر آگے چل کر وہ فرماتے ہیں کہ "اگر ایسی مسجد نہیں تو باجماعت نماز نہ چھوڑیں"یہاں پر درمیان میں جو وضاحتی الفاظ میں تبلیغیوں کے پیچھے پڑھ لیں لکھا ہوا ہے یہ ابوبکر بھائی کا اپنا فہم ہے۔شیخ صاحب کی بات کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اہلحدیث کی مسجد نہیں لیکن اہلحدیث ایک سے زیادہ کی تعداد میں رہتے ہیں تو وہ کسی کمرے میں یا کسی کھلی جگہ پر جماعت کراسکتے ہیں۔
سلفیوں کے علاوہ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے عقیدے میں (اگر کفر نہیں تو)کم از کم کوئی نہ کوئی بدعت ضرور ہوتی ہے۔ (ہر جگہ آپ کو سلفی نہیں ملیں گے تو کہاں جائیں گے) لہذا محض عقائد میں بعض بدعات کا پایا جانا تبلیغی جماعت کے پیچھے باجماعت نماز چھوڑنے کا عذر نہیں بن سکتا۔ اور آپ اور میں اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جو بدعات تبلیغی جماعت کے عقائد میں پائی جاتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کے پیچھے باجماعت نماز چھوڑنے کی محض اسے وجہ نہیں بنانا چاہیے۔
ابوبکر بھائی ! شاہد نزیر بھائی نے سابقہ پوسٹس میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ دیوبندیوں کی بدعت صغرہ نہیں بلکہ بدعت مکفرہ ہے اور ان کے عقائد مشرکانہ بھی ہیں۔
ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لو" (ابو داود، دارقطنی) یہ محض ایک حدیث نہیں بلکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے، سمجھے آپ؟
یہاں جو شیخ صاحب نے ابوداود اور دارقطنی کے حوالے سے جو حدیث مبارکہ پیش کی ہے اس کی سند کے بارے میں بتائیں؟
اور یہ بھی بتائیے کہ یہ حدیث مبارکہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کی کیسے دلیل بن سکتی ہے؟
پس ان کے پیچھے نماز پڑھا کریں جو غلطیاں ان کی ہیں وہ انہی کے سر ہیں، اور جو صحیح بات آپ کی ہے وہ آپ کے لیے ہے۔ مگر اسے جماعت چھوڑنے کا عذر نہ بنائیں۔ بایں صورت آپ مجبور کے حکم میں ہے کہ اگر کوئی صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد نہیں تو آپ مجبوراً ان تبلیغی جماعت والوں بدعتیوں کے پیچھے ہی نماز پڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو صحیح العقیدہ لوگ مل جائیں کہ جن کی مسجد میں جماعت ہوتی ہے اگرچہ جماعتیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو آپ انہی کے پیچھے نماز پڑھیں۔
یہ شیخ صاحب کی اپنی رائے ہے،اور غور کریں شیخ صاحب بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ صحیح العقیدہ لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوشش کرو چاہے وہ تھوڑے ہی کیوں نہ ہو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ڈاکٹر عبدالرشید اظہر صاحب
ماضی قریب میں مظلومانہ قتل کی گئی یہ شخصیت اہلحدیث کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
پہلے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے
سوال: اہلحدیث مسجد دور ہونے کی صورت میں قریب بریلوی اور دیوبندی مسجد ہیں کیا وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر وہ نماز وقت پر اور سکون سے پڑھاتے ہیں کہ صحیح طور پر ارکان ادا کرسکیں تو پڑھ سکتے ہیں۔
شیخ صاحب یہاں فرما رہے ہیں کہ وہ وقت پر نماز ادا کریں تو اور ہم جانتے ہیں کہ دیوبندی و بریلوی وقت پر نماز ادا کرنے کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہیں۔فجر ،ظہر،عصر اور عشاء کی نمازوں میں اہلحدیث کی مساجد اور ان احناف کی مساجد کے وقت میں کتنا فرق ہوتا ہے یہ آپ لوگ جانتے ہیں۔
دوسری بات شیخ صاحب نے کہی کہ سکون سے نماز پڑھائیں تو ،یعنی کہنے کا مطلب ہے کہ یہ دیوبندی و بریلوی نماز اجلت میں پڑھاتے ہیں جس کی وجہ سے نماز کے ارکان یعنی رکوع و سجود ٹھیک طریقے سے نہیں ہو پاتے۔
تو اس فتوے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر یہ سنت رسول ﷺ کے مطابق نماز پڑھائیں تو ان کے پیچھے پڑھی جا سکتی ہے۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ سنت رسول ﷺ کے مطابق نماز نہیں پڑھاتے۔
دوسرے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں
سوال: اہلحدیث علماء کرام کی کتب موجود ہیں کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں ان کے عقائد صحیح نہیں؟
جواب: غلطیاں تو ہر ایک میں موجود ہوتی ہیں خود ہم میں بھی کچھ نہ کچھ ہوں گی۔ نماز ہوجاتی ہے ان کے پیچھے۔
شیخ صاحب اگر غلطی چھوٹی سی ہو تو شاید آپ کی بات ٹھیک ہے ،جیسے گالی گلوچ،یا کوئی فسق کا کام ۔لیکن اگر غلطی بڑی ہو جیسے سائل کہہ رہا ہے کہ ان کے عقائد درست نہیں تو یہ غلطی اتنی بڑی ہے کہ تمام اعمال کی بربادی کا سبب ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿48﴾
ترجمہ: اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا (سورۃ النساء،آیت 48)
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا﴿116﴾
ترجمہ: اللہ اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا (سورۃ النساء،آیت 116)
سوال: لیکن شیخ ان کے شرکیہ وحدت الوجود جیسے عقائد ہیں؟
جواب: معلوم ہے ان کے اس قسم کے عقائد ہوتے ہیں بہرحال تاویلات وغیرہ موجود ہوتی ہیں لہذا صریح حکم تو لگانا درست نہیں۔
وحدت الوجود اتنا گندا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھیں وحدت الوجود کے بارے میں محمد اقبال کیلانی صاحب لکھتے ہیں:۔
بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے زریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے ،تصوف کی اصلاح میں اس عقیدہ کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے
مزید لکھتے ہیں:
یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ۔قدیم و جدید صوفیاء نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑی طویل بحثیں کی ہیں ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں۔جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث" ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک "عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کئے ہوئے ہے۔ناقابل فہم ہے،اگریہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے،اگرامر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے ،معبود کون؟ساجد کون ہے مسجود کون؟خالق کون ہے ،خلوق کون؟حاجت مند کون ہے،حاجت روا کون؟مرنےوالا کون ہے ،مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون ہے اور زندہ کرنے والا کون؟گنہگار کون ہے،اور بخشنے والا کون؟روز جزا حساب لینے والا کون ہے۔اور دینے والا کون؟اور پھر جزا یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں،اور بھیجنے والا کون؟اس فلسفے کو تسلیم کرنے کے بعد انسان ،انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں واقعی مسلمانوں کا یہ عقیدہ قابل قبول ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزاء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اللہ تعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھناایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔

اور امام کے بدعقیدہ ہونے سے آپ کے عقیدے پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا وہ تو اس تک ہی محدود ہے۔ آپ کا عقیدہ تو صحیح ہے آپ کی تو نماز بہرحال ہوجائے گی۔
استغفراللہ
کیا کوئی موحد کسی بدعقیدہ شخص کو اپنا امام بنا سکتا ہے؟
بدعقیدگی سے مراد کفر و شرک ہے اور یہ اتنا بڑا جرم ہیں کہ اگر کوئی کفر و شرک سے بغیر توبہ کیے مر گیا تو ہمیشہ کی جہنم ہے۔
اقبال کیلانی صاحب اپنی کتاب "توحید کے مسائل" میں لکھتے ہیں:
قیامت کے روز عقیدہ توحید کی موجودگی میں اعمال کی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی تو ہو سکتی ہے لیکن عقیدے میں بگاڑ (کافرانہ ،مشرکانہ یا توحید میں شرک کی آمیزش) کی صورت میں زمین و آسمان کی وسعتوں کے برابر صالح اعمال بھی بے کارو عبث ثابت ہوں گے۔سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (جس کا مفہوم ہے) ک کافر لوگ اگر روئے زمین کے برابر اگر سونا صدقہ کریں تو ایمان لائے بغیر ان کا یہ صالح عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہو گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمْ كُفَّارٌۭ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ ٱلْأَرْضِ ذَهَبًۭا وَلَوِ ٱفْتَدَىٰ بِهِۦ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ وَمَا لَهُم مِّن نَّٰصِرِينَ﴿91﴾
ترجمہ: جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے وہ اگر (نجات حاصل کرنی چاہیں اور) بدلے میں زمین بھر کر سونا دیں تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا (سورۃ آل عمران،آیت 91)
گویا نہ صرف یہ کہ ان کے نیک اعمال ضائع ہوں گے بلکہ عقیدہ کفر کی وجہ سے انہیں دردناک عذاب بھی دیا جائے گا اور کوئی ان کی مدد یا سفارش بھی نہیں کر سکے گا۔سورہ انعام میں انبیائے کرام علیھم السلام کی مقدس جماعت حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسحق علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام،حضرت داؤد علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام،حضرت ایوب علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسی علیہ السلام،حضرت ہارون علیہ السلام،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت یحیی علیہ السلام،حضرت اسماعیل علیہ السلام،حضرت یسع علیہ السلام،حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر خیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَوْ أَشْرَكُوا۟ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾
ترجمہ: اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے (سورۃ انعام،آیت 88)
شرک کی مذمت میں قرآن مجید کی دیگر آیات ملاحظہ ہوں:
وَلَقَدْ أُوحِىَ إِلَيْكَ وَإِلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ ﴿65﴾
ترجمہ: اور بے شک آپ کی طرف اور ان کی طرف وحی کیا جا چکا ہے جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں کہ اگرتم نے شرک کیا تو ضرور تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے (سورۃ الزمر،آیت 65)
فَلَا تَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ فَتَكُونَ مِنَ ٱلْمُعَذَّبِينَ ﴿213﴾
ترجمہ: سو الله کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار ورنہ تو بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا (سورۃ شعراء،آیت 213)
مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کو مخاطب کر کے بڑے فیصلہ کن اور دو ٹوک انداز میں یہ بات ارشاد فرما دی ہے (جس کا مفہوم ہے) کہ شرک کا ارتکاب اگر تم نے بھی کیا تو نہ صرف یہ کہ تمہارے سارے نیک اعمال ضائع کر دیے جائیں گے بلکہ دوسرے مشرکین کے ساتھ جہنم کا عذاب بھی دیا جائے گا۔
سورہ المائدہ میں ارشاد مبارک ہے:
إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍۢ﴿72﴾
ترجمہ: جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (سورۃ المائدہ،آیت72)
سورہ نساء کی ایک آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا﴿116﴾
ترجمہ: اللہ اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا پس تحقیق دور کی گمراہی میں جا پڑا(سورۃ النساء،آیت116)
ان دونوں آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ الہ تعالیٰ کے ہاں شرک ناقابل معافی گناہ ہے ،شرک کے علاوہ کوئی دوسرا گناہ ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ناقابل معافی قرار دیا ہو یا جس کے ارتکاب پر جنت حرام کر دی ہو۔
سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے حالت شرک میں مرنے والوں کے لیے بخشش کی دعا تک کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ارشاد مبارک ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَن يَسْتَغْفِرُوا۟ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوٓا۟ أُو۟لِى قُرْبَىٰ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَٰبُ ٱلْجَحِيمِ ﴿113﴾
ترجمہ: پیغمبراور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہی (سورۃ التوبہ،آیت 113)
بدعقیدہ شخص کے پیچھے صحیح العقیدہ شخص کی نماز کیسے ہو گی؟اس کی کوئی دلیل ہے؟
یہ فتوی ابوبکر بھائی نے نقل کر کے اُن تمام لوگوں کی باتوں کا بھی رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ کفرو شرک کے مرتکب کے پیچھے نماز نہیں ہوتی البتہ بدعت غیر مکفرہ کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔لیکن ان شیخ صاحب کے نزدیک بدعقیدہ شخص کے پیچھے بھی نماز ہو جاتی ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
سوال: بریلوی مساجد میں واضح شرکیات پر عمل ہورہا ہوتا ہے؟
جواب: ہاں ان کے پیچھے نہ پڑھیں مجبوری میں ان کے بجائے دیوبندیوں کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے۔
بریلویوں اور دیوبندیوں کے مشترکہ عقائد ہیں اس کے لیے توصیف الرحمن راشدی حفظہ اللہ کی درج ذیل بادلائل تقریر ملاحظہ فرمائیں۔

اوپر شیخ صاحب بدعقیدہ کے پیچھے نماز ہو جانے کے قائل ہیں اور اس سوال میں بریلویوں کی بدعقیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں۔یہ کتنا کھلا تضاد ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مسعود عالم صاحب
سوال:اگر قریب کوئی اہلحدیث مسجد نہ ہو تو کیا ہم قریبی دیوبندی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: دیوبندی بریلوی احناف اہل سنت والجماعت میں سے ہیں
اس فتوے کی رو سے وہ تمام کتابیں ،تقاریر،تحریریں عبث و بے کار ہیں جو بریلویوں اور دیوبندیوں کے خلاف لکھی گئی ہیں،کیونکہ اگر ہم کسی بریلوی کو دعوت توحید و سنت دیں تو ہمیں وہ یہ فتوی بطور سند دکھا سکتا ہے کہ دیکھو جناب ہم اپنے نزدیک ہی نہیں تمہارے معتبر علماء کے نزدیک بھی اہل سنت ہیں۔استغفراللہ
جبکہ علامہ احسان رحمۃ اللہ علیہ صاحب بریلویوں کے بانی احمد رضا خاں کو اصحاب الضلال قرار دیتے ہیں:
خان صاحب بریلوی اس امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں؟
اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال اور گمراہ لوگوں کی امت ہےتو خیر،اور اگر ان کی اس سے مراد علماء و ماہرین حدیث ہے،تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔اور پھر یہ کس نے کہا ہے کہ امت کے کسی حدیث کو قبول کرلینے سے اس کی سند دیکھنی کی حاجت نہیں رہتی؟(بریلویت از علامہ احسان)
جو باتیں ان کی قرآن وحدیث کے خلاف ہیں وہ گمراہیاں ہیں لیکن یہ کافر ومشرک نہیں ہیں۔
ان کی باتیں بھی قرآن و سنت کے خلاف مانتے ہیں ،انہیں گمراہ بھی قرار دیتے ہیں پھر بھی ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔کفر و شرک سے زیادہ اور کیا گمراہی ہو گی؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارشاد الحق اثری صاحب
پہلے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
سوال: ہمارے گھر کے قریب کوئی اہلحدیث مسجد موجود نہیں تو کیا ہم دیوبندی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ اس بارے میں اہلحدیث علماء کرام کی مختلف رسائل پڑھیں ہیں کوئی جائز کہتا ہے توکوئی ناجائز، صحیح مؤقف سے آگاہ فرمائیں؟

جواب: اگر اہلحدیث مسجد موجود نہ ہو تو دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے یہی صحیح مؤقف ہے، جماعت کو کسی طور پر چھوڑنا جائز نہیں۔ اگرچہ بعض سندھ کے اور کچھ پنجاب کے بھی اہلحدیث علماء اس کے مخالف مؤقف رکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑے بدعتی لوگ ہیں کہ ان کے پیچھے نماز بالکل ناجائز ہے۔
یہاں میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ شیخ صاحب کی اپنی رائے ہے اس پر انہوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی بلکہ ساتھ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دیگر علماء اہلحدیث دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہو جانے کے قائل نہیں تو ایسے علماء کا موقف بھی جاننا چاہیے ۔

وحدت الوجود تو تاویل کا مسئلہ ہے اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں لہذا صریح حکم نہیں لگتا ورنہ آپ میاں نذیر حسین دہلوی " پر کیا حکم لگائیں گے وہ بھی تو مولوی بشیرالدین سے مناقشے کے بعد ان کی بتائی ہوئی ایک معقول سی تعریف پر اس نظریے کے قائل ہوگئے تھے
یعنی تاویل کر کے آپ وحدت الوجود جیسے گندے عقیدے کو صحیح ثابت کرنے میں اپنی تمام کوششیں صرف کریں گے۔نعوذباللہ
شیخ صاحب ہمارے لیے نزید حسین دہلوی صاحب حجت نہیں۔ہمیں نزیر حسین دہلوی صاحب کی کسی بھی بات جو کہ قرآن و سنت کے خلاف ہو کو رد کرنا پڑا تو ہم کریں گے۔
سوال: اس کے علاوہ بھی شرکیہ عقائد بیان ہوتے ہیں جیسے عقیدہ حیات النبی e؟
جواب: یہ بھی زیادہ سے زیادہ بدعت ہے کفر نہیں بدعت غیرمکفرہ ہے
رسول اللہ ﷺ کو قبر میں زندہ ماننا ،ان سے دعائیں کرنا،التجائیں کرنا ،مدد مانگنا،پکارنا،شرکیہ وظائف پڑھنا ،قبر میں رہتے ہوئے اُمتی کی ہر بات سننا اور مشکلات و حاجات حل ہونے کا عقیدہ رکھنا آپ کے نزدیک محض ایک معمولی سی بدعت ہے جس کا اثر نماز تک بھی نہیں پڑتا؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ،استغفراللہ
اللہ ہمیں ایسی گمراہی سے بچائے آمین
سوال: اور قبروں سے فیض ملنے کا عقیدہ جیسے المفند میں ہے کہ خواص کو قبروں سے فیض ملتا ہے؟
جواب: ہم تو فیض کے قائل نہیں وہ ہوں تو ہوں ہم نے تو نہیں دیکھا امام کو کہ قبروں سے فیض لیتا ہے تو جائز ہے نماز۔
سبحان اللہ
یعنی وہ تو شرکیہ عقیدے کے حامل ہیں تو ہیں پڑے ہم تو نہیں ہیں لہذا ان کے پیچھے نماز پڑھو۔استغفراللہ،استغفراللہ،استغفراللہ
یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی تمام جنوں اور انسانوں کے شر سے۔آمین
سوال: اور اگر بریلوی ودیوبندی میں سے کسی مسجد کو اختیار کرنا ہو؟
جواب: تو دیوبندیوں کے پیچھے پڑھنا زیادہ بہترہے کہ ظاہر شرکیات موجود نہیں ہوتیں۔
جبکہ ان دونوں فرقوں کے مشرکانہ عقائد ایک جیسے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں شیخ راشدی صاحب کی یہ تقریر۔"علمائے بریلویت و دیوبندیت کے مشترکہ عقائد"
آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ان تینوں صاحبان کے فتووں میں کس قدر تضاد ہے۔
شیخ عبدالرشید اظہر صاحب کے فتوے میں بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔
شیخ مسعود عالم صاحب کے نزدیک بریلوی بھی اہل سنت ہیں۔
شیخ ارشاد اثری صاحب کے نزدیک دیوبندیوں کو بریلویوں پر ترجیح حاصل ہے۔


سوال: جی انہی علماء نے علماء دیوبند کے غلط عقائد المفند کی تصدیق بھی کی تھی۔۔
جواب: جی، تو آپ ان سے پوچھیں کہ اس وقت بھی تو علماء اہلحدیث حج وعمرہ پر جاتے تھے تووہ انہی کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ بریلوی دیوبندی تو بتاتے ہیں اپنے اکابرکا کہ وہ وہاں پڑھتے تھے ان سے بھی پوچھیں۔ میرا اس پر مقالہ بھی ہے مقالات میں اسے پڑھ لیں۔ اس قسم کا حکم لگانے سے کتنی پریشانی ہوتی ہے کہ ہم سفر میں ہیں کسی دوسرے علاقے میں ہیں اور ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کہ اہلحدیث مسجد کدھر ہے۔ اسکے پیچھے نمازنہیں ہوتی اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
غور کیجئے !یہاں شیخ صاحب نے نہ تو قرآن کی کسی آیت کو دلیل پیش کیا ہے نہ کسی صحیح حدیث مبارکہ کو ،بلکہ اپنی پریشانی کو بطور سند پیش کیا ہے۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ
اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ تعالیٰ ہمیں کتمان حق کے گناہ سے بچائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ابوبکر سلفی بھائی
جی ہاں۔ شوق سے ان پر نفیس رد پیش کیجئے گا۔ کیونکہ اھل الحدیث ہی اصل اھل السنة ہیں اور اھل السنة کا منہج مشہور ہے کہ عقل سے پہلے نقل۔ اس اصول کو یاد رکھتے ہوئے رد کیجئے گا۔
جی بالکل!اوپر کی پوسٹس ملاحظہ فرمائیں۔
مگر اس طرح اس کو جہالت کہنا صحیح نہیں۔
بھائی جان کیا صحیح مسئلہ نہ بتانا جہالت نہیں؟
اسطرح آپ رجوع کرنے کا راستہ بند کردیتے ہیں۔
توبہ کرنے کی توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔
پہلے کسی مسئلہ پر مکمل تحقیق کیجئے اور پھر اس پر کوئی حکم لگایئے میں آپ کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ میں پچھلے چار سال تک اسی موقف کا قائل رہا ہوں کہ اھل البدعة میں فرقہ دیوبندیہ کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
چار سال تک آپ اس موقف کے قائل نہیں رہے پھر چار سال بعد کون سے ایسے دلائل کی روشنی میں آپ نے اپنے موقف کو بدلا ذرا ہمیں بھی بتائیے،اگر وہ دلائل اوپر دئے گئے فتاوی جات ہیں تو گزارش ہے کہ دوبارہ تحقیق کیجئے کیونکہ ان فتاوی جات میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں صرف ذاتی رائے ہے ۔
مگر اھل الحدیث کے روشن منہج کی وجہ سے الحمدللہ حق کو اپنایا ہے
الحمدللہ
اہلحدیث کا منہج روشن ہے،اسی لیے تو میں حیران ہوں کہ اس روشن منہج کے ہوتے ہوئے ایسے فتاوی جات کہاں سے آ گئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہی موقف حق ہے کہ جس کا اسلام ظاہری عمل سے ثابت ہے اسکے پیچھے نماز جائز ہے۔ یہی ایک معتدل موقف ہے۔
آپ اس معتدل موقف کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے دے سکتے ہیں؟
ہم نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے اور اُس قاعدہ کو ہی سب پر منطبق کیا ہے۔
یہ قاعدہ کہاں سے آیا ہے ؟
یہ بات اچھی ہے کہ اھل بدعت کے لئے سختی اپنائی جائے مگر حد سے آگے نہ جایا جائے۔
کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے میں نے کون سی حد پار کی ہے ؟
یہی موقف واضح کیا ہے کہ بریلویوں کی طرح دیوبندیوں کے عقائد بھی صحیح نہیں لہذا ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔کیونکہ نجات عقیدہ کی درستگی پر ہو گی۔ان شاءاللہ
اھل البدعہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انکو حق پر سمجھتے ہیں۔
سبحان اللہ
حق پر بھی نہ سمجھنے کے باوجود آپ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل ہیں،یعنی یہ معلوم ہے کہ میں جس امام کے پیچھے پڑھ رہا ہوں وہ حق پر نہیں ہے بلکہ گمراہ ہے اور میں اسے گمراہ سمجھتے ہوئے بھی اسے اپنا امام بنا رہا ہوں۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ
حالانکہ حق کے بعد تو گمراہی ہے۔
بلکہ اھل البدعة کے پیچھے نماز پڑھ لینا اھل السنة کے عقیدہ میں سے ہے۔
یہ بات آپ نے کیسے کہہ دی بھائی۔اس کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس ؟
اہل بدعت کے پیچھے نماز پڑھنا اہل سنت کے عقیدے میں کب شامل ہو گیا ؟اور جو علماء بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں مثلا شیخ بدیع الدین شاہ راشدی صاحب تو کیا یہ بدعقیدہ ہیں؟
نری الصلاۃ خلف کل اھل القبلۃ برا کان او فاجرا(تمام اہل قبلہ کے پیچھے ہم نماز پڑھنا جا‏ئز سمجھتے ہیں خواہ نیک ہو یا بد)۔
کل من صحت صلاتہ صحت الصلاۃ خلفہ (جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کے پیچھے نماز صحیح ہے)۔
یہ احادیث ہیں یا اقوال ،پہلے اس بات کی وضاحت کریں پھر بات ہو گی۔ان شاءاللہ
اللہ تعالیٰ ہم کو حق بات سمجھنے کی توفیق دے۔ اور توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
آمین ثم آمین
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
20
محترم ومکرمی جناب ارسلان بھائی۔
میں آپ کی خدمت عالیہ میں یہ عرض کر دینا بہتر سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی ہر بات دلائل کی روشنی میں کی تھی۔ آپ نے بلاوجہ میں تکلف کرکے اتنا سب کچھ لکھ ڈالا۔
جناب شاہد نذیر بھائی اور ہم اس بات پر متفق ہیں کہ جس بدعتی کی بدعت اُس کو کفر تک نہ پہنچاتی ہو اُس کے پیچھے نماز جائز ہے۔ تومعلوم ہوا کہ آپ کی مکمل بحث مبنی برجہالت اور منہجِ سلف سے روگردانی کا مظہر ہے﴿بہت معزرت کے ساتھ﴾۔

یہ ضروری نہیں کہ آپ اِس مؤقف سے متفق ہو جائیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ میں آپ کے مؤقف سے متفق ہو جاؤں، مگر ضروری یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے نظریہ کو برداشت کرنے اور اختلاف رائے رکھنے کا سلیقہ سیکھیں۔

آپ نے علماء اھل الحدیث کے فتاویٰ پر واضح دلیل نہ ہونے کی وجہ سے رد کیا مگر کیا آپ لوگ جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے قائل ہیں تو اگر آپ کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو بتانا پسند کرینگے کہ آپ کے پاس کون سی قرآن و حدیث کی واضح دلیل موجود ہے کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؟ بلکہ ہم نے کچھ شواہد آپ کے لئے پیش کیئے تھے جس سے ثابت ہو گیا تھا کہ غیر مکفرہ بدعتی شخص کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔ اب اگر آپ کسی بھی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تو تمام دیوبندیوں کو قادیانیوں کی طرح تکفیر معین یا مطلق کر دیجئے پھر بحث ہی ختم ہو جائیگی۔

میں آپ کے تبصرے کا اقتباس کے ساتھ اس لئے جواب نہیں دے رہا کیوئنکہ میرے نزدیک آپ کی بات میں ایک بھی کام کی بات نہیں۔

اور ہم نے الحمدللہ فہم سلف کے ساتھ یہ مسئلہ واضح کر دیا تھا، اب ہمیں مزید جدجہد کرنے کی ضرورت نہیں طرفین کے دلائل و مؤقف موجود ہیں تحقیق کرنے والوں کو حق حاصل ہے کہ وہ جس کے مؤقف میں مضبوط دلائل پائیں وہ مؤقف اپنا سکتے ہیں۔

اس مکمل بحث میں جو شاہد نذیر بھائی سے ہوئی اِس سے یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ شاہد نذیر بھائی بھی بدعت مکفرہ اور بدعت غیر مکفرہ کی تقسیم کو مانتے ہیں البتا اس کو بدعت کبرا یعنی بدعت مکفرہ اور بدعت صغرہ یعنی بدعت غیر مکفرہ کے نام سے مؤسوم کرتے ہیں، اور اس بات پر بھی ہمارا اتفاق ہو گیاہے کہ وہ بدعتی جو غیر مکفرہ بدعت یا پھر بدعت صغرہ کا ارتکاب کرتا ہو تو اِس کے پیچھے مجبوراً نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ البتا جو بدعت کبرا یعنی بدعت غیر مکفرہ کا مرتکب ہو وہ مسلمان ہی نہیں جب مسلمان ہی نہیں تو نماز کیسی؟ اس لئے اس کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی۔ اس بات پر شاہد بھائی اور میں مکمل طور پر متفق ہیں۔
اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو شخص بظاہر مسلمان معلوم ہو اور اس سے کوئی بھی بدعت کبرا یعنی بدعت مکفرہ سرزد ہوتے ہوئے ہمیں نظر نہ آتی ہو تو ہم اس کو مسلمان سمجھینگے اور اس کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرلینگے۔ بائیں صورت اگر وہ بدعت مکفرہ میں ملوث نظر آئے تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائیگی۔ یہ سب اس کے حال پر منحصر ہے۔


تنبیہ: بدعتی شخص کے پیچھے مجبوراً جائز ہے سلفی امام کے ہوتے ہوئے بدعتی کو منتخب نہیں کرسکتے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
میں سمجھتا ہوں کہ ارسلان بھائی کی معقول باتوں کو یکدم مبنی بر جہالت کہہ کر رد کردینا ظلم عظیم ہے۔ ابوبکر سلفی بھائی یہ درست ہے کہ اس جملہ پر آپ کا اور میرا بظاہر اتفاق ہے۔
جس بدعتی کی بدعت اُس کو کفر تک نہ پہنچاتی ہو اُس کے پیچھے نماز جائز ہے۔
لیکن اس کے اطلاق پر شدید اختلاف ہے۔ کیونکہ آپ کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہو جن دیوبندیوں کو لاعلم کہہ آپ اپنے موقف کے لئے دلیل بناتے ہو وہ دیوبندی حقیقت میں دیوبندی ہیں ہی نہیں بلکہ غیر دیوبندی ہیں خود علمائے دیوبند کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی۔ جس کی تفصیل میں سابقہ پوسٹس میں پیش کرچکا ہوں جس کو آپ نے علم الکلام کہہ کر جان چھڑالی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ کا مضمون جسے آپ فیصلہ کن قراردے رہے ہیں ان میں دئے گئے علماء کے موقف آپس میں نہیں ملتے اور نہ ہی آپ کا موقف اس مضمون کے مطابق ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ آپ کا مضمون اور آپکا موقف تضادات کا مجموعہ ہے۔ اس اجمال کی تفصیل ان شاء اللہ فرصت ملنے پر کروں گا۔

آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اللہ کے واسطے دیوبندیوں کے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے کی نامراد کوشش نہ کریں۔ والسلام
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
20
میں سمجھتا ہوں کہ ارسلان بھائی کی معقول باتوں کو یکدم مبنی بر جہالت کہہ کر رد کردینا ظلم عظیم ہے۔
[/COLOR]
میرے پیارے بھائی شاہد نذیر۔
میں یہ بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ نے بھی انصاف کیئے بغیر محترم محمد ارسلان صاحب کی تحریر کا مطالعہ کیا۔محمد ارسلان اور آپ کی اس تحریر سے مندرجہ ذیل نکات واضح ہوئے کہ
اولاً: آپ لوگوں نے ہمارے مضمون کو شروع سے آخر تک ملاحظہ ہی نہیں کیا کیوئنکہ ہم نے شروع میں ہی اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ کچھ بدعت مکفرہ ہوتی ہیں اور غیر مکفرہ۔ جس پر اب آپ بھی متفق ہیں کہ بدعت مکفرہ کے ارتکاب سے مسلمان اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور غیر مکفرہ سے وہ مسلمان ہی رہتا ہے اس کے باوجود نواقص اسلام والی آیات پیش کر کے یہ ثابت کیا گیاہے کہ ہم بدعت مکفرہ والے کو کافر ہی نہیں سمجھتے۔

ثانیاً: ارسلان صاحب وہی پُرانی باتیں چھیڑ کر موضوع کو منتشر کرنا چاہتے تھے ہم نے اسی لئے اس پر کوئی تبصرہ بھی نہیں کیا۔ کیوئنکہ ہم ان سب باتوں پر متفق ہیں۔ اسی لئے میں نے راقم کے لئے جہالت کا لفظ استعمال کیا کیوئنکہ اگر وہ مکمل ہماری بحث کا مطالعہ کرتے تو اس طرح دوبارہ سے اس موضوع کو نہ چھیڑتے۔

ثالثاًۛ: جبکہ موضوع کافی سمٹ چُکا ہے اس لئے اب اس کو دوبارہ سے اس قابل نہ کریں کہ ایک عام قاری اس مسئلہ کو بنیاد بنا کر منہج سلف سے متنفر ہو۔
اب اس کے بعد آپ اپنے آپ سے ہی پوچھیے کہ یہ ظلم عظیم کیسے ہو گیا؟؟؟؟؟


لیکن اس کے اطلاق پر شدید اختلاف ہے۔ کیونکہ آپ کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہو
١۔ کیا تمام دیوبندی کافر مشرک ہیں؟
۲۔ آپ کا یہ صریح بہتان ہے کہ ہم نے کفریہ و شرکیہ عقیدہ رکھنے والے دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اگر آپ اس بات پر دلیل رکھتے ہیں تو پیش کیجئے ورنہ پھر یہ ثابت کیجئے کہ علماء اھل الحدیث نے فرقہ دیوبندیہ پر مطلق فتویٰ کفر لگایا ہے۔ ورنہ آپ اپنے دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہینگے۔
۳۔ بدعت مکفرہ کے پیچھے نماز نہ پڑھنا اور بدعت غیر مکفرہ کے پیچھے نماز پڑھ لینے کا اطلاق آپ کیسے کرتے ہیں؟ آپ کے پاس کیا اصول ہے؟ سلف کے فہم سے ثابت کریں۔ آپ کی زاتی رائے اور قیاسات کے ہم پابند نہیں۔

جن دیوبندیوں کو لاعلم کہہ آپ اپنے موقف کے لئے دلیل بناتے ہو وہ دیوبندی حقیقت میں دیوبندی ہیں ہی نہیں بلکہ غیر دیوبندی ہیں خود علمائے دیوبند کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی۔ جس کی تفصیل میں سابقہ پوسٹس میں پیش کرچکا ہوں جس کو آپ نے علم الکلام کہہ کر جان چھڑالی ہے۔
آپ کی اس بات سے کچھ نکات واضح ہوئے کہ
١۔ کوئی بھی شخص جس کے ظاہری حالات مسلمانوں والے ہوں وہ مسلمان ہی کہلائے گا اور اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائیگی؟
۲۔ جو شخص اپنے آپ کو دیوبندی کہے تو کیا آپ صرف دیوبندی ہونے کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھینگے جیسے کہ کوئی مسلمان جب کہے کہ میں قادیانی ہوں تو ہم اس کے پیچھے نماز ترک کردیتے ہیں۔ کیوئنکہ امت مسلمہ نے قادیانوں پر فتویٰ کفر لگایا ہے۔ اگر ہاں تو پھر اپنی بات کو مدلل بنانے کے لئے علماء کا فتویٰ دیجئے کہ انہوں نے دیوبند کو مطلق کافر قرار دیا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ کا مضمون جسے آپ فیصلہ کن قراردے رہے ہیں ان میں دئے گئے علماء کے موقف آپس میں نہیں ملتے
اس طرح کی باتیں کر کے آپ ایک کشادہ نظریہ رکھنے والے قاری کو تحریر سے متنفر نہیں کر سکتے کیوئنکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت آنکھ سے وہ سب کچھ پڑھ سکتے ہیں۔
جبکہ آپ کی پیش کردہ تحریر میں بہت سی جگہ تضاد پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ پچھلی سطور میں بیان ہو چکا ہے۔ کہ آپ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کو اس کی عزت کرنا سمجھتے ہیں مگر خود بھی ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنےکو جائز سمجھتے ہیں جو کافر نہ ہو۔ جبکہ وہ دیوبندی نہ ہو۔ابتسامہ ۔ اسی طرح بہت سی جگہ آپ کی باتوں میں تضاد تھا مگر ہم نے بیان نہیں کیا۔ کیوئنکہ ہم مخالفین کے ساتھ بھی انصاف کرنا جانتے ہیں۔ الحمدللہ
جو طریقہ آپ لوگ اپنی بات کسی دوسرے فریق کو سمجھانے کے لئے اپناتے ہیں اس طرح لوگ آپ کے پاس حق ہونے کے باوجود بھی آپ سے متنفر ہو جائینگے۔

اور نہ ہی آپ کا موقف اس مضمون کے مطابق ہے۔
اس مضمون کا خلاصہ ہے کہ:
جس شخص کا اسلام ثابت ہے اس کے پیچھے نماز جائز ہے اور جس کا کافر ہونا ثابت ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
اور ہمارا مؤقف یہ ہے کہ:
کوئی بھی شخص جس کا اسلام ثابت ہو اس کے پیچھے نماز ہو جائیگی اور جو کافر ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔

جبکہ آپ کا مؤقف ہے کہ:
بدعت مکفرہ کے پیچھے نماز نہیں ہوگی اور بدعت غیر مکفرہ کے پیچھے ہو جائیگی۔ لیکن دیوبندیوں کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔﴿ہم نے پوچھا کیوں نہیں ہوگی﴾ کیوئنکہ انکے عقیدہ شرکیہ اور کفریہ ہیں﴿ ہم نے کہا تمام دیوبندی کافر ہیں﴾ نہیں تمام دیوبندی تو کافر نہیں﴿ تو آپ کیسے یقین کرینگے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر؟﴾ خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا مؤقف بالکل ہمارے مضمون کے مطابق ہے اور بہت زیادہ مدلل ہے الحمدللہ۔ اگر میں اس بات کو یوں بیان کروں تو یہ ناانصافی نہ ہوگی کہ۔۔۔۔۔۔۔ جادو وہ جو سر چڑ کر بولے

نتیجہ یہ ہے کہ آپ کا مضمون اور آپکا موقف تضادات کا مجموعہ ہے۔
اگر اس طرح کے جملوں سے آپ کے دل کو تسلی ہوتی ہو تو آپ ایسا ہی سمجھ لیجئے۔ مگر قارئین منصف مزاجی سے اگر اس مکمل بحث کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ صحیح مؤقف تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔


آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اللہ کے واسطے دیوبندیوں کے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے کی نامراد کوشش نہ کریں۔ والسلام
یہ بھی ایک بہتان ہے۔ ہم نے قطعی طور پر دیوبندیوں کے شرک و کفر کو اسلام نہیں کہا۔ بلکہ ہم تو انکا رد کرتے ہیں۔ اور شرک کو شرک اور کفر کو کفر کہتے ہیں۔ مگر ہمارے سوال کے جوابات آپ نہیں دیتے ہم نے پوچھا تھا کہ جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے اسی طرح کیا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی بھی کافر ہیں؟
ہہم صرف آپ سے اس کی وجہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ یہ لوگ کیوں کافر نہیں جبکہ یہ صاحبان دیوبندیوں اور بریلویوں کے سرخیل امام ہیں۔

اب ہماری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ للہ اگر کہیں اجتہادی مسائل در پیش آجائیں تو اپنے موقف کو پیش کر کے اس پر دلیل قائم کر کے قارئین پر چھوڑ دیں۔ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ الزامات کی بارش نہ کریں۔ بہتان نہ لگائیں۔

ہم اب بھی آپ کو اور اس مؤقف کے حاملین کو دعوت سخن دیتے ہیں کہ سلفی منہج کی روشنی میں آئیں اس موضوع کامطالعہ کرتے ہیں۔

اور محترم و مکرمی محمد ارسلان صاحب،
میں آپ کی بات کا قطعی طور پر بُرا نہیں مانا اور میں نے قطعی طور پر آپ کی بابت کوئی بدزبانی نہیں کی۔ میں نے آپ کی تحریر کو اگر مبنی بر جہالت کہا ہے تو اس کی وجہ بھی اسی پوسٹ میں بیان کی ہے۔ کم از کم میں صرف آپ سے اس موضوع پر مزید بات نہیں کرسکتا۔
شکریہ
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
 
Top