• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلوی مکتبہ فکر کے قراء کرام کی خدمات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بریلوی مکتبہ فکر کے قراء کرام کی خدمات

ڈاکٹر قاری محمد مظفر​
ادارۂ رشد کی خواہش تھی کہ ’’برصغیر پاک و ہند میں تجوید و قراء ات کے آغاز و ارتقاء‘‘ کے حوالے سے فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر رہ کر تمام مکاتب فکر کی ہمہ جہت کوششوں کا ایک جائزہ پیش کیا جائے۔ قراء ات نمبر اول ودوم میں برصغیر میں اہلحدیث اور دیوبندی قراء کرام کی تجوید قراء ات میں خدمات کی تفصیل پیش کی گئی تھی۔ اس ضمن میں بریلوی مکتبہ فکر کے قراء ومجودین کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں۔ زیرنظر تحریر میں جناب ڈاکٹر قاری محمد مظفر نے بریلوی مکتبہ کے کبار قراء کرام کی تجوید وقراء ات میں خدمات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے ۔ جس سے بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں تمام مسالک کی مشترکہ مساعی جمیلہ سے آج یہ علم زندہ وتابندہ ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت قاری محمد طفیل نقشبندی ﷫

ولادت اور بچپن
’’قاری محمد طفیل نقشبندی﷫ ۱۹۶۵ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حاجی عبدالرحمن، حیدرآباد سندھ میں اُن کہ وفات ہوئی اور وہیں مدفون ہوئے۔‘‘
’’اُن کی قبر ہالہ ناکہ حیدر آباد کے احاطے میں ہے۔ قاری صاحب کے دادا کا نام حاجی محمد حسین تھا جو امرتسر کی سبزی منڈی میں بیجوں کی تجارت کیا کرتے تھے اور جن کا گھرانہ دینی اور انسانی خدمت کے حوالے سے امرتسر میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتا تھا۔‘‘
’’جد امجد حاجی اللہ رکھا﷫ ’’جنت المعلّیٰ‘‘ مکہ مکرمہ میں مدفون ہیں۔ قاری صاحب بچپن میں ہی حضرت امیرملت﷫ کے دست ِ اقدس پر بیعت ہوئے۔ ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں قرآن پاک یاد کیا۔ اس وقت قاری صاحب کی عمر دس سال تھی۔ ابتدائی تعلیم قاری کریم بخش شاگرد محمد صدیق شبلی ،قاری خدا بخش اور قاری ظفر علی کے شاگرد ہیں، سے حاصل کی روایت حفص عبدالرزاق لکھنوی سے حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعلیم و تربیت
’’جنگ جرمن (۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۱ء تک) کے عرصے میں قاری صاحب حرمین شریفین میں رہے اور مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺکے مدرس شیخ حسن بن ابراہیم الشاعر سے روایت حفص کی تکمیل کی۔ قاری صاحب اپنے شاگردوں کو روایت امام حفص کی جو سند دیتے تھے وہ انہی کے واسطے سے حضور نبی اکرمﷺتک پہنچتی ہے۔
’’قاری صاحب﷫ نے قراء ات سبعہ، مدرسہ فخریہ عثمانیہ مکہ مکرمہ میں قاری محمد اسحاق سے پڑھیں، قاری مجیب الرحمن سے بھی استفادہ کیا۔ بقول قاری محمد سلیمان اعوان، قاری صاحب نے قراء ات عشرہ کی تکمیل شیخ حسن بن ابراہیم الشاعر سے کی۔‘‘
قاری صاحب نے اُردو خطاطی منشی فیض محمد امرتسری سے اور عربی خطاطی ’’مدرسہ صولتیہ‘‘ مکہ معظمہ کے قاری امین الدین سے سیکھی۔ فیروزسنز کے کاتب منشی عبدالرشید عادل گڑھی کے پاس بھی خط ِ نسخ کی مشق کی۔ حدیث شریف علامہ سید احمد سعید کاظمی﷫ سے پڑھی۔ قاری صاحب اگرچہ کپڑے کی تجارت بھی کرتے رہے، چار پانچ سال آڑھت بھی کی تاہم ان کی توجہ تحصیل علم کی طرف بھی باقاعدہ رہی اور فراغت کے بعد قرآن کریم کی تدریس اور تلاوت میں مصروف رہے اور سینکڑوں حافظ اور قاری تیار کرکے دُنیا سے رخصت ہوئے۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدریس کا آغاز
’’قاری صاحب نے ابتداًء امرتسر میں تجوید و قراء ت کی تعلیم کے لیے مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ قائم کیا۔ ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۶ء تک جامع مسجد وزیرخان، لاہور میں رہے۔ ‘‘
’’قاری صاحب ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۶ء تک جامع مسجد وزیرخان لاہور میں نائب خطیب اور مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس عرصے میں غازئ کشمیر حضرت علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری﷫ اور مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری﷫ سے دینی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ اسی دور میں جامع مسجد عیدگاہ، گڑھی شاہو، لاہور (اب جامعہ نعیمیہ) کے خطیب حضرت مولانا سید امانت علی شاہ﷫ کے ایک ہونہار بچے محمد یوسف کو قاری صاحب کے پاس لائے۔ قاری صاحب نے انہیں قرآن پاک حفظ کرایا اور ساتھ ہی خط ِ نسخ (عربی رسم الخط) کی مشق کرائی۔ یہی بچہ بعد میں حافظ محمد یوسف سدیدی کے نام سے فن کتابت کی دنیا میں بے تاج بادشاہ کے طور پر مشہور ہوا اور کتابت کے فن شریف میں بے مثال شاہکار ثابت ہوا۔ قاری صاحب کے ایک دوسرے شاگرد سردار محمد امرتسری کاتب نے اُردو رسم الخط اور مصوری میں شہرت حاصل کی۔ مولانا عبدالرشید، راولپنڈی کے روزنامہ ’’کوہستان‘‘ اور ’’تعمیر‘‘ میں ہیڈ کاتب کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تلاوتِ قرآن اور نماز تراویح
’’اللہ تعالیٰ نے انہیں (قاری محمد طفیل صاحب کو) سوز و گداز اور لحن داؤدی کی نعمت عطا فرمائی تھی۔ آواز اتنی بلند کہ بڑے سے بڑے اجتماع میں لاؤڈاسپیکر کے بغیر تمام حاضرین تک پہنچ جاتی تھی۔ انہوں نے بے شمار مذہبی اور سیاسی جلسوں میں قرآن پاک کی تلاوت کی۔ کئی سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ آریہ سماج پشم والا بازار، امرتسر میں مسلمانوں اور آریوں میں مناظرے ہوتے۔ آریہ اپنے جلسے کا آغاز ہارمونیم اور طبلہ پر آرتی اُتار کر کرتے، مسلمانوں کے جلسے میں قاری صاحب تلاوت کرتے۔ قرآن کریم کی برکت اور قاری صاحب کی سحر انگیز آواز کا یہ اثر ہوتا کہ بہت سے آریہ مسلمان ہوجاتے۔‘‘
’’ڈپٹی عزیز الدین کے صاحبزادے شیخ عبدالمجید وکیل کی دعوت پر قاری صاحب امرتسر سے لاہور تشریف لائے اور لاہور ریڈیو کے افتتاح کے موقع پر تلاوت کی۔ ۱۹۴۶ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں مسلم لیگ کا آخری جلسہ سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری﷫ کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں بھی قاری صاحب نے تلاوت کی۔ خطیب احرار حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریر تھی۔ شاہ جی نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنا عظیم قاری، اور کپڑے کی دکان پربیٹھا ہوا ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ ان گنت اجلاسوں میں قاری صاحب نے تلاوت کی اور اپنے لحن داؤدی سے حاضرین کو مسحور کیا اور اُن پر وجد کی کیفیت طاری کردی۔‘‘
’’انہیں پاک و ہند کے مختلف شہروں مثلاً دہلی، کلکتہ، مدراس، بمبئی، حیدر آباد دکن، بنگلور، میسور، لاہور، ملتان، حیدر آباد اور کراچی میں تراویح پڑھانے کا موقع ملا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری صاحب نے حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری مؤلف ’عظمتوں کے پاسباں‘ کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’فقیر کا ایمان ہے حرمین شریفین کے درو دیوار فقیر کی تلاوت کی گواہی دیں گے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں نمازفجر کے بعد فقیر کے ساتھ کافی لوگ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے جاتے تو ہر مقام پر فقیر کی تلاوتیں گونج رہی ہوتیں، لہٰذا اس پاک سرزمین کے درودیوار بھی فقیر کی سفارش فرما دیں گے۔انشاء اللہ‘‘ (تحریر ۱۴۔اپریل ۱۹۸۴ء، حوالہ: عظمتوں کے پاسباں‘‘ صفحہ نمبر ۱۳۷)
’’قاری صاحب، حضرت مولانا محمد اسماعیل غزنوی امرتسری کے ہمراہ شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے محل میں گئے اور تلاوت کی۔ مدینہ منورہ میں معلّم حیدر الحیدری کے ساتھ گورنر مدینہ کے ہاں گئے اور تلاوت کی۔ اسی طرح شاہ فیصل کے سامنے جمعہ کے دن مسجد عباس، طائف میں تلاوت کی۔‘‘
’’مکہ معظمہ کے معلّم، عمراکبر نے ۱۹۳۰ء میں قاری صاحب کی اقتداء میں امرتسر میں نمازتراویح ادا کی تھی۔ مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پنجاب کے رہنے والے بھی قرآن پاک پڑھنا جانتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری صاحب نے حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری کے نام مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قدیم باشندے فقیر کی تلاوت سن کر فخر کیا کرتے تھے کہ فقیر کی تلاوت عرب سن رہے ہیں، جو کہتے تھے کہ پنجابیوں کو قرآن پڑھنا نہیں آتا۔‘‘ ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ​
(حوالہ ’’عظمتوں کے پاسباں‘‘ صفحہ نمبر ۱۳۷،۱۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دارالعلوم قرآنیہ رحمانیہ کا قیام
’’یہ ادارہ قیام پاکستان سے قبل امرتسر اور لاہور مسجد وزیرخان میں ۱۹۴۶ء تک قائم رہا ۔ قیام پاکستان کے بعد حیدر آباد میں اس ادارے کا قیام عمل میں آیا اور بے سروسامانی کی حالت میں محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے شروع کردیا گیا۔‘‘
’’۱۹۵۰ء میں قاری صاحب مسجد مائی خیر، فقیر کاپڑ، حیدر آباد کے متولی مقرر ہوئے تو دارالعلوم اس مسجد میں منتقل کردیا۔ ۱۹۵۴ء میں قاری صاحب ملتان چلے گئے اور کپڑے کے کاروبار کے ساتھ ساتھ جامع مسجد پتراں والی میں تدریس شروع کردی۔ اسی جگہ استاذ القراء قاری عبدالرحمن بلوچستانی﷫ نے قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر فن تجوید و قراء ت میں کمال حاصل کیا۔ بعد میں پندرہ سال تک انوار العلوم ملتان میں طلبہ کو تجوید پڑھاتے رہے اور رمضان المبارک میں دورۂ تجوید و قراء ت کا اہتمام بھی کرتے رہے۔
’’۱۹۵۸ء میں قاری صاحب پھر حیدر آباد تشریف لے گئے۔ مسجد مائی خیری میں قائم دارالعلوم قرآنیہ رحمانیہ باقاعدہ کام کرتا رہا اور قاری صاحب ہی اس کے مہتمم تھے۔ ۱۹۶۰ء میں محکمہ اوقاف قائم ہوا، جس نے مسجد اور مدرسہ اپنی تحویل میں لے لیا۔ قاری صاحب کو اسٹیشن روڈ، حیدر آباد میں ایک وقف بلڈنگ مل گئی۔ ۵ مارچ ۱۹۶۲ء کو اس میں دارالعلوم قرآنیہ رحمانیہ کا آغاز کردیا۔‘‘
’’مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ اسٹیشن روڈ، حیدر آباد میں دیگر بہت سی مساجد میں فی سبیل اللہ قرآن پاک کی خدمت انجام دیتے رہے جن میں
(١) مسجد مائی خیری فقیر کاپڑ (٢) مسجد فتح محمد شاہ بخاری کھائی روڈ سرے گھاٹ
(٣) مسجد ایک مینار حنفیہ گرونگر تالاب نمبر ۳ اور (٤) مسجد ریلوے پولیس لائن خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔‘‘
’’قاری صاحب اپنے قائم کردہ مدرسہ میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہے تھے، لیکن مولانا مفتی محمد محمود الوری﷫ کی فرمائش پر دارالعلوم رکن الاسلام حیدر آباد میں رہائش اختیار کی اور پچیس تیس سال کا عرصہ اپنے مدرسہ کے ساتھ ساتھ دارالعلوم رکن الاسلام میں بھی پڑھاتے رہے۔ ۱۹۸۴ء میں جناح مسجد، کراچی میں تشریف لے گئے اور تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر قاری محمد سلیمان اعوان آف سروبہ راوی ہیں:
’’استاد گرامی کو خوش نویسی کا ایسا ذوق تھا کہ جب میں ایران کے شہر تہران میں چہار مین دورہ مسابقات بین المللی حفظ و قراء ت کریم میں شریک مقابلہ ہونے جارہا تھا تو آپ جناح مسجد، بزنس روڈ کراچی میں تجوید و قراء ت پڑھاتے تھے، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ ’’ایران میں مشہور خطاط ہیں انہوں نے ’’چہل احادیث‘‘ کتابت کی ہیں، جب تم واپس آؤ تو میرے لیے ایک نسخہ پاکستان لیتے آنا۔‘‘
’’جب حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی﷫ ہالینڈ تشریف لے گئے تو جناح مسجد، بزنس روڈ، کراچی میں تراویح کے لیے اپنے استاد بھائی الحاج قاری محمد طفیل نقشبندی﷫ کو اپنی جگہ پر مقرر فرمایا۔‘‘
قاری صاحب نے ’مسجد نور‘ کراچی، ’رحمانیہ مسجد‘ طارق روڈ کراچی میں بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائیں۔ وفات سے دو ماہ قبل ’الانہ مسجد‘ رام سوامی، نشتر روڈ کراچی میں تدریس شروع کی اور اسی جگہ داعئ اجل کو ’لبیک‘ کہا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وصال مبارک
قاری صاحب کے صاحبزادے چوہدری آفتاب احمد آرائیں کا بیان ہے:
’’عیدالاضحی کا موقع تھا، ہم لوگ ۸ ذوالحجہ کو والد صاحب کو گھر لانے کے لیے ’الانہ مسجد‘ پہنچے تو آپ نے کہا کہ ’کل صبح ۹بجے مجھے آکر لے جانا‘ دوسرے دن آپ نے فجر کی نماز ادا کی، وظائف پڑھے اور کلام پاک کا دور فرمایا۔ اور جب ہم لوگ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی رُوح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
’’استاذ القراء قاری محمد طفیل نقشبندی کی وفات بروز جمعرات بتاریخ ۹ ذوالحجہ ۱۴۰۹ہجری بمطابق ۱۳ جولائی ۱۹۸۹ء بوقت صبح ۹ بجے ہوئی۔ آپ کی میت بروز جمعہ بتاریخ ۱۴ جولائی ۱۹۸۹ء بمطابق ۱۰ ذوالحجہ ۱۴۰۹ہجری یعنی عیدالاضحی کے دن دوپہر ایک بجے مسجد بلال نزد پریڈی پولیس اسٹیشن صدر کراچی سے اٹھائی گئی اور نماز جنازہ ’الانہ مسجد‘ رام سوامی،نشتر روڈ کراچی میں بعد نماز جمعہ ادا کی گئی۔ جس کی امامت قاری محمد علی قصوری صاحب نے فرمائی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت فرمائی۔ آپ کو حسن اسکوائر، سرشاہ محمد سلیمان روڈ، گلشن اقبال، بلاک نمبر ۱۲، سکیم نمبر۲۱ کراچی کے نزد منوگوٹھ قبرستان میں رحمت الٰہیہ کے سپرد کردیا گیا۔‘‘
 
Top