محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
ملک کی طاقت کے نظام کی اس ڈگمگاتی ہوئی حالت میں ہماری طاقت دوسروں کے مقابلے میں بالکل ناقابلِ تسخیر ہو گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری طاقت اس وقت تک پس پردہ رہتی ہے جب تک کہ یہ اتنی استعداد حاصل نہ کر لے کہ کسی قسم کی عیاری اور سازش ا س کا بال بیکا نہ کر سکے۔
ان وقتی شیطانی حرکتوں کے نتیجے میں جو ہم موجودہ حالات میں کرنے پر مجبور ہیں ایک مستحکم حکومت کی بھلائی پیدا ہو گی جو قومی زندگی کو ایک ایسا مستقل سیاسی نظام مہیا کرے گی جو گزشتہ دور کی آزاد خیالی کی وجہ سے دم توڑ چکا ہو گا۔ کوئی عمل خواہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو اگر اس کا نتیجہ اچھا برآمد ہوتا ہے تو وہ عمل بھی درست قرار دیا جانا چاہئیے۔ اس لئے ہمیں اپنے منصوبوں کی تکمیل میں صرف اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے کہ ضرورت کا تقاضہ کیا ہے؟ وہ عمل بذاتِ خوداچھا ہے یا اخلاقی اعتبار سے بُرا یا بھلا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئییـ۔ ہمارے پیش نظر ایک جنگی اہمیت کامنصوبہ ہے جس میں ذرا سی غلطی سے صدیوں کی محنت پر پانی پھر جانے کااندیشہ ہے۔
منصوبے کے عملی پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں عوام کی کمینہ خصلت ان کی سہل انگاری، تلون مزاجی اور ان کی اپنی زندگی کے حالات اور اپنے نیک و بد کو سمجھنے کی صلاحیت کے فقدان سے پورافائدہ اٹھانا ہے۔ ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی ہے کہ عوام کی طاقت کور چشم بے شعور اور منطق سے عاری ہوتی ہے اور ہر وقت کسی اشارے کی منتظر۔ اسے جس سمت میں بھی چاہیں موڑا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی نابینا کسی دوسرے نابینا کی قیادت میں چلتا ہے تو اس کے ساتھ خود بھی خندق میں گر جاتا ہی۔ اسی طرح عوام کی کور چشم اور ناعاقبت اندیش ہجوم میں سے جو افراد اوپر ابھر کر آتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں چونکہ ان میں سیاسی شعود اور ادراک نہیں ہوتا وہ اپنے پیچھے چلنے والی پوری قوم کو لے ڈوبتے ہیں۔
صرف وہی فرد جسے بچپن ہی سے آزاد حکمراں بننے کی تربیت دی گئی ہو ان الفاظ کے معنی سمجھ سکتا ہے جن سے سیاسی ایجد کی تدوین ہوتی ہے۔
اگر کسی قوم کی قیادت شروع ہی سے عوام مین سے ابھرنے والے ان کم ظرف اور چھچھورے افراد کے حوالے کر دی جائے تو ان کی آپس کی مخاصمانہ کشمکش، طاقت اور اقتدار کے لئے رسہ کشی اور اس کے نتیجہ میں برآمد ہونے والی بدنظمی اس قوم کو جلد ہی تباہی کے کنارے پر پہنچا دیتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کاانبوہ کثر اطمینان اور سکون کے ساتھ سوچ سمجھ کر اور بغیر چھوٹی چھوٹی رقابتیں درمیان میں لائے ہوئے درست فیصلے کر سکے؟ کیا وہ کسی بیرونی دشمن سے اپنا دفاع کر سکتا ہی؟ کیا اس کااندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس منصوبے کا کیا حشر ہو گا جسے مختلف دماغ اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ایسا منصوبہ یقینا ناقابلِ فہم اور ناقابل عمل ہو گا۔
یہ صرف ایک مطلق العنان حکمراں کے لئے ہی ممکن ہے کہ وہ منصوبوں کو جامع اور واضح انداز میں ان کی جزئیات کے ساتھ اس طرح رو بعمل لائے کہ سیاسی نظام کے کل پرزوں میں اختیارات کی صحیح تقسیم ہو سکے۔ اس سے یہ لا بدی نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی ملک کے لئے بہترین نظامِ حکومت صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں طاقت کا ارتکاز ایک ذمہ دار فراد واحد کے ہاتھ میں ہو۔
ان وقتی شیطانی حرکتوں کے نتیجے میں جو ہم موجودہ حالات میں کرنے پر مجبور ہیں ایک مستحکم حکومت کی بھلائی پیدا ہو گی جو قومی زندگی کو ایک ایسا مستقل سیاسی نظام مہیا کرے گی جو گزشتہ دور کی آزاد خیالی کی وجہ سے دم توڑ چکا ہو گا۔ کوئی عمل خواہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو اگر اس کا نتیجہ اچھا برآمد ہوتا ہے تو وہ عمل بھی درست قرار دیا جانا چاہئیے۔ اس لئے ہمیں اپنے منصوبوں کی تکمیل میں صرف اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے کہ ضرورت کا تقاضہ کیا ہے؟ وہ عمل بذاتِ خوداچھا ہے یا اخلاقی اعتبار سے بُرا یا بھلا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئییـ۔ ہمارے پیش نظر ایک جنگی اہمیت کامنصوبہ ہے جس میں ذرا سی غلطی سے صدیوں کی محنت پر پانی پھر جانے کااندیشہ ہے۔
منصوبے کے عملی پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں عوام کی کمینہ خصلت ان کی سہل انگاری، تلون مزاجی اور ان کی اپنی زندگی کے حالات اور اپنے نیک و بد کو سمجھنے کی صلاحیت کے فقدان سے پورافائدہ اٹھانا ہے۔ ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی ہے کہ عوام کی طاقت کور چشم بے شعور اور منطق سے عاری ہوتی ہے اور ہر وقت کسی اشارے کی منتظر۔ اسے جس سمت میں بھی چاہیں موڑا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی نابینا کسی دوسرے نابینا کی قیادت میں چلتا ہے تو اس کے ساتھ خود بھی خندق میں گر جاتا ہی۔ اسی طرح عوام کی کور چشم اور ناعاقبت اندیش ہجوم میں سے جو افراد اوپر ابھر کر آتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں چونکہ ان میں سیاسی شعود اور ادراک نہیں ہوتا وہ اپنے پیچھے چلنے والی پوری قوم کو لے ڈوبتے ہیں۔
صرف وہی فرد جسے بچپن ہی سے آزاد حکمراں بننے کی تربیت دی گئی ہو ان الفاظ کے معنی سمجھ سکتا ہے جن سے سیاسی ایجد کی تدوین ہوتی ہے۔
اگر کسی قوم کی قیادت شروع ہی سے عوام مین سے ابھرنے والے ان کم ظرف اور چھچھورے افراد کے حوالے کر دی جائے تو ان کی آپس کی مخاصمانہ کشمکش، طاقت اور اقتدار کے لئے رسہ کشی اور اس کے نتیجہ میں برآمد ہونے والی بدنظمی اس قوم کو جلد ہی تباہی کے کنارے پر پہنچا دیتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کاانبوہ کثر اطمینان اور سکون کے ساتھ سوچ سمجھ کر اور بغیر چھوٹی چھوٹی رقابتیں درمیان میں لائے ہوئے درست فیصلے کر سکے؟ کیا وہ کسی بیرونی دشمن سے اپنا دفاع کر سکتا ہی؟ کیا اس کااندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس منصوبے کا کیا حشر ہو گا جسے مختلف دماغ اپنے اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ایسا منصوبہ یقینا ناقابلِ فہم اور ناقابل عمل ہو گا۔
یہ صرف ایک مطلق العنان حکمراں کے لئے ہی ممکن ہے کہ وہ منصوبوں کو جامع اور واضح انداز میں ان کی جزئیات کے ساتھ اس طرح رو بعمل لائے کہ سیاسی نظام کے کل پرزوں میں اختیارات کی صحیح تقسیم ہو سکے۔ اس سے یہ لا بدی نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی ملک کے لئے بہترین نظامِ حکومت صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں طاقت کا ارتکاز ایک ذمہ دار فراد واحد کے ہاتھ میں ہو۔