• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ قراء اتِ متواترہ اور حل اِشکالات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی صدی کے آخر تک اُندلس اور بلادِ مغرب میں ان سبعہ قراء ات مشہورہ کا رواج نہ تھا۔ سبعہ قراء ات سب سے پہلے امام ابوعمرطنکی﷫ ، اُن کے بعد امام ابو محمد مکی قیروانی﷫ اور امام العلامہ حافظ ابوعمرو دانی﷫ نے مصر وغیرہ سے پڑھ کر اُندلس میں پہنچائیں۔
اَوائل پانچویں صدی تک قراء اتِ سبعہ اکثر روایات و طرق مشہورہ کے ساتھ پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں چنانچہ علامہ دانی﷫ نے جامع البیان میں پانچ سو رِوایات و طرق بیان کئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رِوایات کے کم ہونے کی وجہ
اس کے بعد ہمتیں اور گھٹ گئیں اور طلباء مزید اختصار کے خواستگار ہونے لگے۔ اس پر علامہ دانی﷫ نے تیسیر لکھی۔ اس کے شروع میں خود کہتے ہیں:
’’آپ صاحبوں نے مجھ سے خواہش کی تھی کہ میں آپ کے لیے قرائِ سبعہ کے مذاہب پر ایک ایسی مختصر کتاب لکھوں جس کاپڑھنا پڑھانا اور یاد کرنا آسان ہو اور اس میں وہ مشہور روایات و طرق بیان کروں جو تھوڑے زمانہ میں حفظ ہوسکیں۔‘‘
پھر کہتے ہیں:
’’پس میں نے آپ کی خواہش کے مطابق یہ کتاب لکھی اور اس میں ہرقاری سے دو دو روایات بیان کی ہیں۔‘‘
تیسیر کے بعد اَئمہ سبعہ کی دیگر روایات کا رول بھی کم ہوگیا اور چھٹی صدی کے آخرمیں امام العلامہ شاطبی﷫ نے تیسیر کو نظم کرکے اس کی روایات و طرق کو چار چاند لگا دیئے اور چار دانگ عالم میں مشہور کردیا۔
جس قراء ات کا رواج کم ہوتا گیا وہ مندرس ہوگئیں۔ قراء اتِ ثلاثہ بھی غائب ہوجاتیں، اگر ابن مہران﷫، ابن غلبون﷫، ابن شیطا﷫، اہوازی قلانسی﷫، حافظ ابوالعلا﷫، اور محقق﷫ وغیرہ اَئمہ ان کو پڑھتے پڑھاتے اور تصنیف و تالیف سے (جن کا اجمالی حال آئندہ فصل میں آئے گا) ان کی حفاظت نہ کرتے اور اہل مصر وغیرہ اُن کی خدمت نہ کرتے۔ اَئمہ سبعہ کی باقی رِوایات کی بھی یہی کیفیت ہے کہ وہ بھی تیسیر کے بعد مندرس ہوگئیں اورجس طرح ان رِوایات کے اَندر اس کاباعث شذوذ نہیں، اسی طرح اُن قراء ات کے اَندر اس کا سبب بھی شذوذ نہیں ہے۔ بلکہ علماء فوت ہوگئے اور علم اُن کے ساتھ چلا گیا۔ آئندہ کوئی جانشین نہ بنا۔ اب اُمت کے پاس سبعہ مشہورہ متواترہ کی دو دو روایات اورقراء اتِ ثلاثہ متواترہ کی دو دو روایات اور چار دیگر قراء ات باقی ہیں۔یہ چاروں بھی صدیاں گزر گئیں پڑھی پڑھائی نہیں جاتیں صرف کتابوں میں بیان ہوتی ہیں۔عشرہ پڑھائی جاتی ہیں۔ غرض پڑھنے والوں نے جب لوگوں کا کسل اور اُن کی ہمتوں میں قصور وفتور دیکھا تو پہلے سبعہ پر اور پھر سبعہ کے ایک قلیل حصہ پر قانع ہوگئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک شبہ کااِزالہ
بعض آدمیوں کو اس سے شبہ پیداہوگا کہ شاید کوئی حرف قرآن کا فوت و مفقود نہ ہوگیا ہو جس سے تمام اُمت آثم ہوئی اورنیز وعدۂ الٰہی میں تخلف ہوگیا۔نعوذ باﷲ من ذٰلک اس کاجواب یہ ہے کہ تمام اختلافات سات قسم کے ہوتے ہیں:
(١) صرف حرکات میں اختلاف ہوتاہے۔معنی اور صورت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔جیسے بِالْبُخْلِ اور بِالْبَخَلِ۔ یَحْسَبُ اور یَحْسِبُ وغیرہ اور اسی صورت میں اصولی اختلافات داخل ہیں۔
(٢) حرکات و معنی میں اختلاف ہوتاہے صورت میں نہیں جیسے: ’’ ئَادَمُ مِن رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ ‘‘ مرفوع و منصوب اور منصوب و مرفوع ۔
(٣) معنی میں اختلاف ہوتاہے حرکات و صورت میں نہیں ہوتا جیسے تَبْلُوْا اور تَتْلُوْا۔ وغیرہ ۔
(٤) صورت میں اختلاف ہوتاہے حرکات و معنی میں نہیں ہوتا جیسے بَصْطَۃً اور بَسْطَۃً ، صِراط اورسِراطَ وغیرہ ۔
(٥) صورت و معنی دونوں میں اختلاف ہوتاہے، حرکات میں نہیں ہوتا جیسے أَشَدُّ مِنْکُم،أَشَدُّ مِنْھُم۔
(٦) تقدیم و تاخیر جیسے فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ۔
(٧) زیادۃ و نقصان سے جیسے وَوَصّٰی ،وَأَوْصٰی، وَقَالُوْا اور قَالُوْا وغیرہ۔
ان کے سوا اور قسم کا اختلاف ہرگز نہیں ہوتا۔ خواہ قراء اتِ متواتر مروّجہ ہوں یاغیر مروّجہ۔شاذہ ہوں یا ضعیفہ اور یہ تمام اختلافات علی سبیل البدلیت مروی ہیں۔یعنی ان میں سے جو پڑھی جائے وہ ہی کافی ہے اور قرآن ہے اور امت کے ہر فرد پر تمام وجوہ کا پڑھنا واجب و لازم نہیں ہے جس کی بین دلیل ’’ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ ‘‘(المزمل: ۲۰) ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ متعدد قراء ات و روایات و طرق کے اندر اس سے قرآن علی حالہ باقی ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ البتہ تنوع اور طریقۂ ترکیب کا بعض حصہ مندرس ہوگیا۔فافہم و تدبر۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باب ششم : کیا ہم منقول رِوایات و طرق میں خلط کرسکتے ہیں
خلطِ قراء ات کے بارہ میں اَئمہ سے مختلف اَقوال مروی ہیں۔ان میں سے بعض مطلقاً منع کرتے ہیں:
٭ امام ابوالحسن﷫ بخاری جمال القراء میں کہتے ہیں:
’’ بعض قراء ات کا بعض سے ملانا خطا ہے۔‘‘
٭ امام ابوزکریا نووی﷫ تبیان میں کہتے ہیں:
’’جب کوئی شخص قرائِ سبعہ میں سے کسی قاری کی قراء ۃ پڑھے تو اس کو لازم ہے کہ کلام مربوط تک وہ ہی پڑھتاچلا جائے۔ اس کے بعد دوسری قراء ۃ پڑھ سکتا ہے اور اولیٰ یہ ہے کہ ایک مجلس میں ایک ہی قراء ۃ پڑھے۔‘‘
٭ علامہ جعبری﷫ کہتے ہیں :
اگر ایک کلمہ دوسرے سے متعلق ہوتو ترکیب ممنوع ورنہ مکروہ ہے اور بہت سے اَئمہ﷭ نے خلط کو مطلقاً جائز رکھا ہے۔وہ مانعین کوبرسرغلطی کہتے ہیں اور بعض اِعتدال کی جانب گئے ہیں۔چنانچہ؛
محقق﷫ کہتے ہیں: ’’ ہمارے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر ایک قراء ۃ دوسری پر مرتب ہو مثلاً کوئی شخص ’’فَتَلَقَّیٰٓ ئَادَمُ مِن رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ‘‘ (بقرۃ:۳۷) کو ء ادم اور کلمٰت دونوں کے رفع یا دونوں کے نصب سے پڑھے یعنی ایک قراء ت سے ئادم اور دوسری قراء ت سے کلمت کا رفع یا نصب لیوے، یا کوئی شخص ’’ وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ‘‘ (آل عمران: ۳۷) کو تشدید ورفع یا تخفیف ونصب سے تلاوت کرے یا ’’ وَقَدْ أَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ ‘‘ (الحدید:۸) کو بصیغۂ معروف ومرفوع پڑھے۔ چونکہ یہ سب باتیں عربیت اور اس لغت کے خلاف ہیں جس پر قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا ایسی تخلیط بہر صورت حرام ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور اگر ایک قراء ت دوسری پر مرتب نہ ہو تو مقام روایت میں تخلیط ممنوع ہے، کیونکہ اس سے روایت کی تکذیب اور ایک ثقہ امام کی طرف وہ چیز منسوب ہوجاتی ہے جو اس نے نہیں پڑھی، اور اگر تلاوت میں تخلیط ہوجائے تو بلا شبہ جائز ،صحیح اور مقبول ہے کوئی ممانعت وحرج نہیں، کیونکہ ہر وجہ منزل من اللہ اور نبی ﷺ کی تعلیم کردہ اور قرآن ہے پس جو حرف پڑھا جائے وہ ہی کافی ہے۔ طبرانی، معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ سے روایت کرتے ہیں:
’’بعض وجوہ کو بعض وجوہ سے ملا کر پڑھنا خطا نہیں۔ یہ خطا ہے کہ قرآن میں وہ چیز ملا کر پڑھی جائے جو قرآن نہیں۔‘‘
اگرچہ ماہر طرق ورِوایات اور عارف اختلاف وقراء ات کے لیے ہم اس کو بھی بایں وجہ عیب سمجھتے ہیں کہ اس سے علماء اور عوام مساوی ہوجاتے ہیں مگر اس وجہ سے نہیں کہ وہ مکروہ یا حرام ہے۔‘‘
اس بارے میں حضرت محقق﷫ کا بہترین فیصلہ ہے۔ خدا تعالیٰ ان کو تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے اور یہی وہ اُصول ہے جس پر صاحب مذاہب اَئمہ﷭ نے قراء ات اختیار کیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باب ہفتم: قراء ات سبعہ تیسیر وشاطبیہ میں منحصر نہیں ہیں
اکثر آدمیوں کا خیال ہے کہ قراء ات سبعہ تیسیر، شاطبیہ وغیرہ میں محصور ہیں۔ یہ بھی تخیل ہے ان مختصرات میں حضرات اَئمہ سے دو دو راوی مذکور ہیں۔
اَئمہ سبعہ نے ۷۵ ؍سال سے ۹۹؍ سال تک عمر پائی اور ہر ایک نے ساٹھ برس سے زیادہ خدمت قرآن میں صرف کیے۔ تذکروں اور طبقات سے معلوم ہوتا ہے کہ روزانہ اَن گنت طلباء شریک درس ہوتے تھے۔ امام نافع﷫ نماز صبح سے قبل پڑھانا شروع کرتے تھے جو عشاء سے بعد تک جاری رہتا تھا اور ہر شخص کے لیے تیس آیتوں کا وقت مقرر تھا بڑی جدوجہد سے سیدنا ورش کو بعد اَز تہجد زیادہ وقت ملا تھا۔ امام ابو حفص﷫ کے گرد طلباء کا اِزدحام دیکھ کر خواجہ حسن بصری نے تعجب سے کہا تھا کہ کیا علماء اَرباب بن گئے؟ امام عاصم﷫ سے پڑھنے کا موقع مشکل سے ملتا تھا۔ امام کسائی﷫ سے عرضاً قراء ت پڑھنا ناممکن ہوگیا تھا بلکہ کثرت طلباء کی بناء پر دور بیٹھنے والوں کو شکل دیکھنی بھی دشوار تھی۔ اسی وجہ سے امام ممدوح ممبر پربیٹھ کر خود پڑھتے تھے اور شائقین آپ کی قراء ۃ اَخذ کرتے جاتے تھے۔ یہی حال دیگر اَئمہ کا تھا۔ خدائے تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ ان سے کتنی مخلوق نے پڑھا اور اِستفاضہ کیا۔ دنیائے اسلام کی کونسی بستی ان کے خوشہ چینوں اور شاگردوں سے خالی تھی۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے راوی یہی دو دو ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابو حیان﷫ کہتے ہیں :
’’ان مختصرات میں امام ابوعمرو﷫ کے ( جن کی قراء ت شام ومصر میں زیادہ مروج ہے) ایک شاگرد یزیدی﷫ اور ان سے دوری﷫ وسوسی﷫ دو راوی درج ہیں اور اہل نقل کے نزدیک ابو عمرو﷫ کے تلامذہ میں سے یزیدی، شجاع، عبدالوارث، ابن سعید، عباس بن فضل، سعید بن اوس، ہارون الاعور) الخفاف، عبید بن عقیل، حسین الجعفی، یونس بن حبیب نحوی، لؤلؤی، محبوب، خارجہ، الجہضمي، عصمہ، اصمعی اور ابو جعفر رواسی﷭۔ سترہ شخص مشہور ہیں۔ پر ابو عمرو ﷫کی قراء ت یزیدی﷫ پر کیسے منحصر ہوسکتی ہے اور باقی روات کو جو تعداد میں کثیر، فقہ، ضابط اور صاحب درایت تھے بلکہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض یزیدی﷫ سے اعلم و اوثق ہوں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔‘‘
پھر یزیدی سے دوری، سوسی، ابوحمدون، محمد بن احمد بن جبیر، اوقیہ ابو الفتح، ابوخلاد، جعفر بن حمدان سجادہ، ابن سعدان، احمد بن محمد بن یزیدی اور ابو الحارث ﷭دس شخص مشہور ہیں۔ لہٰذا دوری وسوسی پر کیسے اقتصار کیا جا سکتا ہے۔ اور باقی جماعت کو کس دلیل سے چھوڑا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض دوری وسوسی سے اوثق واضبط ہوں۔
پھر دوری سے ابن فرح (بالحاء المہملۃ) ابن بشار، ابو الزعراء ابن مسعود السراج، الکاغذی، ابن برزہ، احمد بن حرب المععبل اور ابن فرح سے زید بن ابی بلال، عمر بن عبدالصمد، ابو العباس، ابن محریز، ابو محمد قطان اور المطوعی﷭ مشہور ہیں اور ہمارے زمانہ تک ہر طبقہ کا یہی حال ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام نافع﷫کہ (جن کی قراء ت مغرب میں زیادہ مشہور ہے) اور مختصرات میں قالون﷫ وورش﷫ دو رواوی مذکور ہیں اور اہل نقل کے نزدیک قالون، ورش، اسمعیل بن جعفر، ابو خلید ابن جماز، خارجہ اصمعی، کردم اور مسیبی﷭ نو حضرات مشہور ہیں اور باقی اَئمہ سبعہ کے تلامذہ کا بھی یہی حال ہے۔ پس کیسے ممکن ہے کہ ان اَئمہ کے علم کو دودو راویوں میں منحصر سمجھ لیا جائے اور باقی حضرات کی روایت کو معطل کردیا جائے۔ ان دونوں بزرگوں کو باقی اصحاب پر کیا فوقیت تھی جبکہ وہ سب ایک شیخ کے شاگرد ضابط اور ثقہ تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باب ہشتم: اِنکارِ قراء ات کا حکم
التحقیق الذي یؤیدہ الدلیل ہو أن القرائات العشر کلہا متواترۃ وہو رأي المحققین من الأصولیین والقراء کابن السبکي وابن الجزري والنویري بل ہو رأي أبي شامۃ في نقل آخر، صححہ الناقلون عنہ۔ (مناہل العرفان:۴۳۴)
’’تحقیقی بات جس کی تائید دلیل سے ہوتی ہے یہ ہے کہ قراء اتِ عشرہ سب کی سب متواتر ہیں اور یہی محقق اصولیوں اور قراء مثلاً ابن سبکی، ابن جزری اور نویری﷭ کا قول ہے بلکہ ابو شامہ سے یہ قول بھی منقول ہے اور نقل کرنے والوں نے اس قول کو صحیح کہا ہے۔‘‘
لیکن قراء ات کا جو ضابطہ ذکر ہوچکا ہے اس کی رُو سے ان کا تواتر دو مرحلوں میں ہے۔ ایک تواتر وہ ہے جو صاحب اختیار اَئمہ یعنی قراء سبعہ وعشرہ تک پہنچتا ہے اور دوسرا تواتر وہ ہے جو ان قراء عشرہ سے رسول اللہﷺ تک جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا مرحلہ
علامہ سیوطی﷫ علامہ جزری﷫ سے نقل کرتے ہیں کہ قراء ات کی چھ انواع ہیں:
الأول: التواتر وہو ما رواہ مجمع من جمع لا یمکن تواطئہم علی الکذب عن مثلہم، مثالہ ما اتفقت الطرق في نقلہ عن السبعۃ وہذا ہو الغالب في القرائات۔
الثانی: المشہور ہو ما صح سندہ بأن رواہ العادل الضابط مثلہ وہکذا وافق العربیۃ ووافق أحد المصاحف العثمانیۃ سوائا کان عن الأئمۃ السبعۃ أم العشرۃ أم غیرہم من الأئمۃ المقبولین واشتہر عنہ القراء فلم یعدوہ من الغلط ولا من الشذوذ إلا أنہ لم یبلغ درجۃ المتواتر مثالہ ما اختلفت الطرق في نقلہ عن السبعۃ فرواہ بعض الرواۃ عنہم دون بعض وہذان النوعان ہما اللذان یقرأ بہما مع وجوب اعتقادہما ولا یجوز إنکار شيء منہما۔ (مناہل العرفان: ۴۲۳)
پہلی نوع متواتر کی ہے اور یہ وہ ہے کہ جس کو ایک اتنی بڑی جماعت نے اتنی ہی بڑی جماعت سے نقل کیا ہو کہ جس کا جھوٹ پر اتفاق ممکن نہ ہو۔ اس کی مثال قراء ت کا وہ حصہ ہے جس میں تمام طرق متفق ہوں اور قرء ات میں اکثر حصہ ایسا ہی ہے۔
 
Top