• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
سبحان اللہ، اگر یہ آپ کا ادب ہے تو بے ادبی نا جانے کیا ہوگی!
لگتا ہے آپ اپنا دماغی توازن کھو چکے ہیں۔ ایسی ہی حرکتیں رہی تو بہت جلد فورم سے نکالے جاؤ گے۔
اتنی تفصیل آپ کو اس لئے بتائی جا رہی ہے کہ آپ فورمز کی دنیا میں نئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہاں فیس بک کی طرح کی آوارہ گردی والا ماحول نہیں ہے کہ جو چاہے آپ لکھ ڈالیں۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اگر سنت ہے تو اس کی کوئی حدیث ہوگی، اپنے علماء سے وہ حدیث پوچھیں۔ علماء جو کچھ بھی کہیں، ان کی مانتے جانا عقلمندی نہیں ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ جو عالم قرآن کی آیت یا صحیح یا حسن حدیث سے دلیل دے کر بات کرے اس کی بات مانی جائے اور جو اپنی رائے سے ، فہم اور عقل سے کچھ کہے اس کی بات نہ مانی جائے۔
سیکھنا اور چیز ہے، اس پر بحث جھگڑا اور دادا گری کرنا اور چیز ہے۔
مجھے کہیں کہ تمیز نہیں یہ مولوی کیا لکھے۔ دادا گری پتہ ہے کیا ہوے۔
خضر حیات جناب جی اس مولوی کی بات نہیں پڑھے کہ کیا لکھے۔ ارے فورم سے نکالے کیا دنیا سے نکالے یا دین سے نکالے نبی ہونے کا دعوی کرے ہے۔
ارے بھائی انہوں نے اپنائیت سے ایسا لکھا ہے ، جیسے دوستوں سے بے ساختہ باتیں ہو ویں ۔
آپ ناراض نہ ہوں ۔تم تو ہمارا محترم بھائی ہو وے ،
وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح یا کہ دونوں کی صحیح ہے قرا ن و سنت کی روشنی میں بتائیں۔
وہابی ترجمہ غلط کرے ہے دھوکہ دیوے ہے۔
آپکا مولوی کے پاس آپ نے کتنے برس علم حاصل کیا؟ آپ کے مولوی بس اس طرح جوابات دیتے ہیں ، نہ دلیل نہ سند؟ آپکی طرح کتنے شاگردوں کو اتنے عالی اخلاق کے زیور سے آراستہ کیا ہے؟ سیاہ رنگوں کے کپڑوں میں رہتے ہیں یا سبز؟ ذرا سی تکلیف کریں اور اپنا اور آپکے مولوی کا تعارف پیش کریں ۔
ایک مبہم سا تعلق هے ، غیر متعلق کہنے سے وہ ہلکا سا تعلق بهی ختم ہوجاتا ہے ۔
اپنے مولوی سے کہنا یہاں آجاوے ، سند اور دلیل بهی لاوے ۔ کچہو لے جاوے ۔ آخرت سنوار لے ۔
جلدی جاو ، پیغام پہونچاو ، مولوی کو لے آو ۔
یا وہ مان لیوے یا همارے اہل علم کو منوا لیوے ۔
خالی بات ، ڈبے پیٹنا ! کیا فائدہ هووے هے ۔؟
ہمارا مولوی ٹھیک ہی کہے یہ وہابی لوگ چکر دیویں اصل سوال کا جواب نہ دیویں۔
وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح یا کہ دونوں کی صحیح ہے قرا ن و سنت کی روشنی میں بتائیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ہمارا مولوی ٹھیک ہی کہے یہ وہابی لوگ چکر دیویں اصل سوال کا جواب نہ دیویں۔
بالکل پکے (کاف پر تشدید) نکلے ۔ خود کا مولوی بے سند اور بے دلیل قبول اور دوسروں کی بالدلیل اور بالسند ناپسند اور غیر متعلق ۔
نا کچہو دے پایا نہ کچہو لے پایا
اپنا اپنا حصہ ہے ۔ جس کو اللہ جیسی توفیق دے ۔
برا لگا نا ۔ نہیں لگتا تو غیر متعلق اور ناپسند کلک نہیں کیا ہوتا ۔ جب آپ سے آپ کے انداز میں بات ہو تب سمجہے !! ورنہ ہر درخواست کو ٹهکراتے رہے ۔
اللہ آپ کو بہتر ہدایت دے ۔ اللہ کی رضا تلاش کرنیوالوں میں بنائے ۔ آپ کو صحیح استاذ کی سخت ضرورت ہے ۔
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
بالکل پکے (کاف پر تشدید) نکلے ۔ خود کا مولوی بے سند اور بے دلیل قبول اور دوسروں کی بالدلیل اور بالسند ناپسند اور غیر متعلق ۔
نا کچہو دے پایا نہ کچہو لے پایا
اپنا اپنا حصہ ہے ۔ جس کو اللہ جیسی توفیق دے ۔
برا لگا نا ۔ نہیں لگتا تو غیر متعلق اور ناپسند کلک نہیں کیا ہوتا ۔ جب آپ سے آپ کے انداز میں بات ہو تب سمجہے !! ورنہ ہر درخواست کو ٹهکراتے رہے ۔
اللہ آپ کو بہتر ہدایت دے ۔ اللہ کی رضا تلاش کرنیوالوں میں بنائے ۔ آپ کو صحیح استاذ کی سخت ضرورت ہے ۔
اتنا لکھے مگر میرے سوال کا جواب گول کرے کاہے کو؟ وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح ہووے یا کہ دونوں کی صحیح ہووے ہے قرا ن و سنت کی روشنی میں بتاویں۔
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
بھائی ابن حبیب اللہ صاحب آپ کی عورتیں سینہ پے ہاتھ کیوں باندھتی ہیں اگر یہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے تو؟
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
اسحاق سلفی بھائی یقین جانیں آپ ان بھائی صاحب کی بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں ان کو ان کی زبان میں ہی سمجھا رہے ہیں ہاہاہاہاہا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
اتنا لکھے مگر میرے سوال کا جواب گول کرے کاہے کو؟ وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح ہووے یا کہ دونوں کی صحیح ہووے ہے قرا ن و سنت کی روشنی میں بتاویں۔
اور کتنی بار جواب لیں گے محترم؟
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
لگتا ہے آپ اپنا دماغی توازن کھو چکے ہیں۔
@خضر حیات ان کے علاج کا کوئی فکر نہ ہووے۔

آپ کو اس کا جواب دے دیا گیا ہے کہ نماز ناقص ہوگی۔
میرے خیال سے اگر تو وہ ایک عالم ہے اور اپنے اجتہاد کی بنا پر اسے اپنا عمل ہی سنت لگتا ہے تو اس کی نماز بالکل جائز اور درست ہے۔
رضا میاں اور شاکر آپس میں پہلے فیصلہ کر لیویں کہ کون ٹھیک کہے۔

سیکھنا اور چیز ہے، اس پر بحث جھگڑا اور دادا گری کرنا اور چیز ہے۔
ارے بھائی انہوں نے اپنائیت سے ایسا لکھا ہے ، جیسے دوستوں سے بے ساختہ باتیں ہو ویں ۔
رضا میاں مجھے بے ادب کہیں اور اپنا ادب کیسا ہووے کیا نہیں دیکھے ہو؟ اسحاق سلفی دھوکہ ویوے ہے۔

وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح یا کہ دونوں کی صحیح ہے قرا ن و سنت کی روشنی میں بتائیں۔
بھائی ابن حبیب اللہ صاحب آپ کی عورتیں سینہ پے ہاتھ کیوں باندھتی ہیں اگر یہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے تو؟
اور کتنی بار جواب لیں گے محترم؟
یہ تو آپ لوگوں کے جواب ہوویں!
وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح ہووے یا کہ دونوں کی صحیح ہووے قرا ن و سنت کی روشنی میں بتاویں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا چاہیئے ۔
مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں حدیث شریف ہے :
’’ عن قبيصة بن هلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره، ورأيته، قال، يضع هذه على صدره "
جناب ھلب طائی فرماتے ہیں :
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے دائیں اور بائیں جانب ( سلام کے بعد رخ ہماری طرف ) پھیرتے تھے اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے (نماز میں ) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کو سینے کے اوپر رکھا تھا۔‘‘
(( قال السندي: قوله: "ينصرف" أي: بعد الفراغ من الصلاة. "عن يمينه" أي: تارة "وعن يساره" أي: أخرى.))

اور مسند احمد اسی کے ساتھ اس حدیث کو دوسری سند سے یوں بیان کیا :
قال الامام احمد

حدثنا عبد الله حدثني أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن الهلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة، ورأيته ينصرف عن يمينه وعن شماله "
یعنی صحابی ہلب ؓ فرماتے ہیں :کہ میں نے جناب رسوک کریم ﷺ کو نماز میں دایاں ہاتھ ، بائیں ہاتھ پر رکھے دیکھا ،اور آپ (نماز سے فارغ ہو کر )کبھی دائیں جانب سے رخ انور (مقتدیوں کی جانب ) پھیرتے اور کبھی بائیں جانب سے، ‘‘ مسند احمد حدیث نمبر :21968
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر ہم نے اس حدیث کا ترجمہ غلط کیا ہے ،یا غلط مطلب بیان کیا ہے تو آپ اپنے مولوی صاحب سے اس کا صحیح ترجمہ اور مطلب و مفہوم پوچھ کر یہاں بتادیں۔
ہم اپنی اصلاح کرلیں گے ۔
ویسے آپس کی بات ہے آپ کے مولوی صاحب کا کوئی وجود ہے ۔۔یا۔۔آپ ویسے ہی دل لگی کے طور پر اپنے مولوی کا حوالہ دے کر کام چلا رہے ہیں
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا چاہیئے ۔
سوال گندم جواب چنا۔ جناب جی آپ کو بات کیوں سمجھ نہ آوے ہے میں پوچھوں
وہابی سینہ پر ہاتھ باندھےسنی ناف پر ان میں سے کس کی نماز صحیح ہووے یا کہ دونوں کی صحیح ہووے قرآن و سنت کی روشنی میں بتاویں۔
کیا جو ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں ان کی نماز نہ ہووے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا

حدیث نمبر : 740

حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة. قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم. قال إسماعيل ينمى ذلك. ولم يقل ينمي.

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔

تشریح : شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

لم یذکر سہل بن سعد فی حدیثہ محل وضع الیدین من الجسد وہو عندنا علی الصدر لما وردفی ذلک من احادیث صریحۃ قویۃ فمنہا حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسری علی صدرہ اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ذکرہ الحافظ فی بلوغ المرام والدرایۃ والتلخیص وفتح الباری والنووی فی الخلاصۃ وشرح المہذب وشرح مسلم للاحتجاج بہ علی ماذہبت الیہ الشافعیۃ من وضع الیدین علی الصدر وذکرہما ہذاالحدیث فی معرض الاحتجاج بہ وسکوتہما عن الکلام فیہ یدل علی ان حدیث وائل ہذا عندہما صحیح اوحسن قابل للاحتجاج الخ۔

( مرعاۃ المفاتیح )

یعنی حضرت سہل بن سعد نے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیا اور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔

جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔

اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایا ہے۔ اور امام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیا ہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔

اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔

حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماک عن قبیصۃ ابن ہلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ و رایتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواۃ ہذاالحدیث کلہم ثقات و اسنادہ متصل۔

( تحفۃ الاحوذی، ص: 216 )

یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔

تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے:

حدثنا ابوتوبۃ حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبہما علی صدرہ۔ ( حوالہ مذکور )

یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔

امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )

چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ

فصل لربک وانحر کی تفسیر میںروایت کیاہے یعنی ضع یدک الیمنی علی الشمال عندالنحر

یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔

بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔

حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں فرمایاہے :

ورای بعضہم ان یضعہما فوق السرۃ ورای بعضہم ان یضعہما تحت السرۃ وکل ذلک واسعۃ عند

ہم یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین میں بعض نے ناف کے اوپر باندھنا ہاتھ کا اختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔

اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان علیا قال السنۃ وضع الکف علی تحت السرۃ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔

المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قلت فی اسناد ہذا الحدیث عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وعلیہ مدار ہذا الحدیث وہوضعیف لایصلح للاحتجاج

یعنی میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہوحدیث متفق علی تضعیفہ فان عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف بالاتفاق یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔

ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔

اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ “ فتح الغفور فی وضع الایدی علی الصدور ” میں فرماتے ہیں کہ

اس روایت میں یہ تحت السرۃ۔ ( ناف کے نیچے ) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیا ہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرۃ کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائید مسند احمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرۃ والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے:


حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبری عن علقمۃ بن وائل الحضرمی عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ

یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔

دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگر وہاں بھی تحت السرۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار و روایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔

پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اور دلائل کی رو سے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔ جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔ ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔ اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔
 
Last edited:
Top