• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جس مضمون کا لنک میں نے منسلک کیا ہے۔اس میں تسبیح کے جواز پر جو احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان پر اختلاف ہے۔
جیسے کہ صفیہ بن حیی سے مروی حدیث ، جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف بیان کیا ہے جبکہ دوسری جانب امام حاکم صحیح الاسناد کہا ہے ، اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سکوت فرمایا ہے۔تو ایسی صورت میں تسبیح کے جواز پر جو احادیث پیش کی گئی ہیں ، ان میں سے کس کی رائے اور تحقیق کو تسلیم کریں؟؟؟
کوئی بھائی برائے مہربانی اس کی وضاحت کریں۔
نوٹ
تسبیح بدعت ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے۔
دونوں طرف کے دلائل آپ نے پڑھ لیے ۔ جو بات اقرب الی الحق محسوس ہوتی ہے اس پر عمل کریں ۔
مجھے شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف درست محسوس ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
السلام علیکم

شیخ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حافظہ اللہ کا ایک مضمون تسبیح کہ عنوان پر

آلہ تسبیح کے استعمال کی شرعی حیثیت !
ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کے لیے تسبیح کا استعمال جائز ہے جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إنّہ دخل علی مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی امرأۃ وبین یدیہا نوی أو حصی ، تسبّح بہ ۔
''وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک خاتون کے پاس گئے۔ اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں تھیں جن کے ذریعے وہ تسبیح کر رہی تھی۔''
(سنن ابی داو،د : ١٥٠٠، سنن الترمذی : ٣٥٦٨، مسند سعد : ٨٨، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ''حسن غریب'' اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (٨٣٧)نے ''صحیح'' کہا ہے۔اس کا راوی خزیمہ ''حسن الحدیث'' ہے۔
یہ حدیث آلہ تسبیح کے استعمال کے جواز پر دلیل ہے۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (١٥٨۔٢٣٣ھ)بیان فرماتے ہیں: وکان یحییٰ معہ مسباح ، فیدخل یدہ فی ثیابہ ، فیسبّح ۔ ''ان(امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ ) کے پاس ایک آلہ تسبیح تھا۔ وہ اپنے کپڑے میں ہاتھ داخل کر کے تسبیح کرتے رہتے۔''(تاریخ یحیی بن معین : ٤/٣١٤)
شیخ الاسلام ابن تیمیہa(٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وأمّا التسبیح بما یجعل فی نظام من الخرز ونحوہ ، فمن الناس من کرہہ ومنہم من لم یکرہہ ، وإذا أحسنت فیہ النیّۃ فہو حسن غیر مکروہ ، وأمّا اتّخاذہ من غیر حاجۃ أو إظہارہ للناس مثل تعلیقہ فی العنق أو جعلہ کالسوار فی الید أو نحو ذلک ، فہذا إمّا ریاء للناس أو مظنّۃ المراء اۃ ومشابہۃ المرائین من غیر حاجۃ ، الأول محرّم ، والثانی أقلّ أحوالہ الکراہۃ ۔
''موتیوں وغیرہ کی لڑی کے ساتھ تسبیح کرنے کو بعض لوگوں نے مکروہ جانا ہے اور بعض نے اسے مکروہ نہیں سمجھا۔ جب اس فعل میں نیت اچھی ہو تو یہ اچھا ہی ہو گا، مکروہ نہیں ہو گا۔ ہاں اسے بغیر ضرورت کے یا لوگوں کو دکھانے کے لیے اختیار کرنا ، مثلاً اسے گردن میں لٹکا لینا یا ہاتھ میں کنگن کی طرح پہن لینا وغیرہ ۔۔۔ تو یہ یا تو ریا کاری کے لیے ہو گا یا اس میں ریاکاری کا خدشہ ہو گا اور ریاکاروں سے مشابہت لازم آئے گی۔ پہلی صورت حرام ہے اور دوسری کم از کم مکروہ ضرور ہے۔''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٢٢/٥٠٦)
ابن عابدین شامی حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) لکھتے ہیں :
لا بأس باتّخاذ السبحۃ لغیر ریاء کما بسط فی البحر ۔
''اگر ریاکاری کی نیت نہ ہو تو آلہ تسبیح کے استعمال میں کوئی حرج نہیںجیسا کہ البحرالرائق میں تفصیلی طور پر موجود ہے۔''
(فتاوی شامی : ١/٦٥٠)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ (٩٥٢۔١٠٣١ھ) لکھتے ہیں :
ولم ینقل عن أحد من السلف ولا الخلف کراہتہا ، نعم محلّ ندب اتّخاذہا فیمن یعدّہا للذکر بالجمعیّۃ والحضور ومشارکۃ القلب للسان فی الذکر والمبالغۃ فی إخفاء ذلک ، أمّا ما ألفہ الغفلۃ البطلۃ من إمساک سبحۃ یغلب علی حباتہا الزینۃ وغلوّ الثمن ، ویمسکہا من غیر حضور فی ذلک ولا فکر ویتحدث ویسمع الأخبار ویحکیہا وہو یحرّک حباتہا بیدہ مع اشتغال قلبہ ولسانہ بالأمور الدنیویۃ ، فہو مذموم مکروہ من أقبح القبائح ۔

''سلف و خلف میں سے کسی سے بھی اس کا مکروہ ہونا منقول نہیں بلکہ جو شخص آلہ تسبیح کو دلجمعی ، حضور قلبی ، دل کی زبان کے ساتھ ذکر میں شمولیت اور ذکر کو بہت زیادہ مخفی رکھنے کے ساتھ استعمال کرتا ہے ، اس کے لیے یہ مستحب بھی ہے۔ رہے وہ لوگ جو آلہ تسبیح کو استعمال کرنے میں سخت غفلت کا شکار ہیں ، ان کے آلہ تسبیح کے دانوں پر زیب و زینت اور مہنگی قیمت کا رنگ غالب ہے اور وہ اسے بغیر حضور قلبی و ذہنی کے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ باتیں کرتے ، خبریں سنتے اور آگے بیان کرتے وقت بھی اپنے ہاتھ کے ساتھ اس کے دانوں کو حرکت دیتے رہتے ہیں ، ان کے دل اور زبانیں دنیاوی امور میں مشغول ہوتی ہیں، تو ان لوگوں کا یہ فعل قابل مذمت ، اور قبیح ترین مکروہات میں سے ہے۔''
(فیض القدیر للمناوی : ٤/٣٥٥)

عالَمِ عرب کے مشہور عالِمِ دین ، علامہ ، فقیہ ، فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ آلہ تسبیح کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
السبحۃ یرید بہا السائل الخرز التی تنظّم فی سلک بعدد معیّن یحسب بہ الإنسان ما یقولہ من ذکر وتسبیح واستغفار وغیر ذلک ، وہذہ جائزۃ لا بأس بہا لکن بشروط : أوّلاً : ألّا تحمل الفاعل علی الریاء أی علی مراء اۃ الناس کما یفعلہ بعض الناس الذین یجعلون لہم مسابح تبلغ ألف خرزۃ ، ثمّ یضعونہا قلادۃ فی أعناقہم کأنّما یقولوا للناس : انظروا إلینا نسبّح بمقدار ہذۃ السبحۃ ، أو ما أشبہ ذلک ، الشرط الثانی : ألّا یتّخذہا علی وجہ مماثل لأہل البدع الذین ابتدعوا فی دین اللّٰہ مالم یشرعہ من الأذکار القولیّۃ ، أو الاہتزازات الفعلیّۃ لأنّ (( من تشبّہ بقوم فہو منہم )) ، ومع ذلک فإنّنا نقول : إنّ التسبیح بالأصابع أفضل لأنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أرشد إلی ذلک ، فقال : ((اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہن مستنطقات )) ، أی سوف یشہدن یوم القیامۃ بما حصل ، فالأفضل للإنسان أن یسبّح بالأصابع لوجوہ ثلاث : الأوّل أنّ ہذا ہو الذی أرشد إلیہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، الثانی أنّہ أقرب إلی حضور القلب لأنّ الإنسان لابدّ أن یستحضر العدد الذی یعقدہ بأصابعہ بخلاف من کان یسبّح بالسبحۃ ، فإنّہ قد یمرّر یدہ علی ہذہ الخرزات وقلبہ ساہ غافل ، الثالث أنّہ أبعد عن الریاء کما أشرنا إلیہ آنفا ۔
''سائل کی مراد اگر وہ موتی ہیں جو ایک لڑی میں معین مقدار میں پروئے جاتے ہیں اور اس لڑی کے ذریعے انسان اپنے ذکر ، تسبیح ، استغفار وغیرہ کو شمار کرتا رہتا ہے تو یہ جائز ہے لیکن درج ذیل شرطوں کے ساتھ : پہلی شرط تو یہ ہے کہ آلہ تسبیح اپنے استعمال کرنے والے کو ریاکاری پر آمادہ نہ کرے جیسا کہ بعض ان لوگوں کا طریقہ ہے جو ہزار ہزار موتیوں والی لڑیاں لے کر ان کو اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں ، گویا کہ وہ لوگوں کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری طرف دیکھو ، ہم اتنی مقدار میں تسبیح کرتے ہیں۔۔۔دوسری شرط یہ ہے کہ آلہ تسبیح استعمال کرنے والا اسے ان اہل بدعت کی مشابہت میں استعمال نہ کرے جنہوں نے اللہ کے دین میں وہ قولی اذکار یا جھومنے والے افعال ایجاد کر لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیے کیونکہ نبی اکرمeکا فرمان ہے : (( من تشبّہ بقوم فہو منہم )) کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی ، وہ انہی میں سے ہے۔ (سنن ابی داؤدا: ٤٠٣١،و سندہ، حسنٌ)

اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ انگلیوں کے ساتھ تسبیح کرنا افضل ہے کیونکہ نبی اکرمeنے اسی کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہنّ مستنطقات )) کہ تم اپنی انگلیوں کے ساتھ تسبیح شمار کیا کرو کیونکہ یہ انگلیاں بلوائی جائیں گی (سنن ابی داؤد : ١٥٠١، وسندہ، حسنٌ)، یعنی روز ِ قیامت یہ ان اذکار کی گواہی دیں گی جو ان کے ذریعے شمار کیے گئے ہوں گے۔چنانچہ انگلیوں کے ساتھ تسبیح کرنا تین وجوہ سے افضل ہوا : ایک تو اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف رہنمائی فرمائی ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ حضور ِ قلب کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ جس چیز کو انسان اپنی انگلیوں کے ساتھ شمار کرتا ہے ، اس پر اس کا استحضار رہتا ہے جبکہ آلہ تسبیح کے ساتھ اذکار کرنے والا بسا اوقات موتیوں پر اپنے ہاتھ پھیرتا رہتا ہے لیکن اس کا دل غافل ہوتا ہے۔ تیسرے اس لیے کہ اس میں ریاکاری کا خدشہ نہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کر دیا ہے۔''
(فتاوی نور علی الدرب لابن العثیمین ، الاذکار، نقلا عن المکتبۃ الشاملۃ)
الحاصل : آلہ تسبیح پر ذکر کرنا جائز ہے۔ اس کے خلاف نبی اکرمeاور صحابہ و تابعین سے کچھ بھی ثابت نہیں۔ہاں اس سلسلے میں علمائے کرام کی قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کی گئی شرائط کی پابندی لازم ہے۔

مکمل مضمون ادھر سے پڑھ سکتے ہیں۔

http://ircpk.com/tehqeeqi-wa-ilmi-mazameen/5238-tasbe-k-istamal-ki-shari-hasiat.html

http://w.urduvb.com/forum/showthread.php?p=338812
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہنّ مستنطقات )) کہ تم اپنی انگلیوں کے ساتھ تسبیح شمار کیا کرو کیونکہ یہ انگلیاں بلوائی جائیں گی (سنن ابی داؤد : ١٥٠١، وسندہ، حسنٌ)، یعنی روز ِ قیامت یہ ان اذکار کی گواہی دیں گی جو ان کے ذریعے شمار کیے گئے ہوں گے۔
یہ حدیث میں نے ایک تبلیغی خاتون کو سنائی تو انھوں نے کہا کہ تسبیح کے دانے بھی تو انگلیوں سے گھمائے جاتے ہیں ، بس قیامت کے دن گواہی کا سبب تو بن گئی۔۔۔جوابا میں نے ان سے کہا کہ تسبیح کے دانے گھمانے میں دو ہی انگلیاں استعمال میں آتی ہیں، جب کہ ہاتھ پر پڑھنے سے پانچوں ہی ! کیا اچھا نہیں کہ سب انگلیاں گواہی دیں۔۔۔۔!!! وہ خفگی سے خاموش ہو گئیں۔
ابتسامہ
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم

شیخ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حافظہ اللہ کا ایک مضمون تسبیح کہ عنوان پر

آلہ تسبیح کے استعمال کی شرعی حیثیت !
ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کے لیے تسبیح کا استعمال جائز ہے جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إنّہ دخل علی مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی امرأۃ وبین یدیہا نوی أو حصی ، تسبّح بہ ۔
''وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک خاتون کے پاس گئے۔ اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں تھیں جن کے ذریعے وہ تسبیح کر رہی تھی۔''
(سنن ابی داو،د : ١٥٠٠، سنن الترمذی : ٣٥٦٨، مسند سعد : ٨٨، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ''حسن غریب'' اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (٨٣٧)نے ''صحیح'' کہا ہے۔اس کا راوی خزیمہ ''حسن الحدیث'' ہے۔
یہ حدیث آلہ تسبیح کے استعمال کے جواز پر دلیل ہے۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (١٥٨۔٢٣٣ھ)بیان فرماتے ہیں: وکان یحییٰ معہ مسباح ، فیدخل یدہ فی ثیابہ ، فیسبّح ۔ ''ان(امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ ) کے پاس ایک آلہ تسبیح تھا۔ وہ اپنے کپڑے میں ہاتھ داخل کر کے تسبیح کرتے رہتے۔''(تاریخ یحیی بن معین : ٤/٣١٤)
شیخ الاسلام ابن تیمیہa(٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وأمّا التسبیح بما یجعل فی نظام من الخرز ونحوہ ، فمن الناس من کرہہ ومنہم من لم یکرہہ ، وإذا أحسنت فیہ النیّۃ فہو حسن غیر مکروہ ، وأمّا اتّخاذہ من غیر حاجۃ أو إظہارہ للناس مثل تعلیقہ فی العنق أو جعلہ کالسوار فی الید أو نحو ذلک ، فہذا إمّا ریاء للناس أو مظنّۃ المراء اۃ ومشابہۃ المرائین من غیر حاجۃ ، الأول محرّم ، والثانی أقلّ أحوالہ الکراہۃ ۔
''موتیوں وغیرہ کی لڑی کے ساتھ تسبیح کرنے کو بعض لوگوں نے مکروہ جانا ہے اور بعض نے اسے مکروہ نہیں سمجھا۔ جب اس فعل میں نیت اچھی ہو تو یہ اچھا ہی ہو گا، مکروہ نہیں ہو گا۔ ہاں اسے بغیر ضرورت کے یا لوگوں کو دکھانے کے لیے اختیار کرنا ، مثلاً اسے گردن میں لٹکا لینا یا ہاتھ میں کنگن کی طرح پہن لینا وغیرہ ۔۔۔ تو یہ یا تو ریا کاری کے لیے ہو گا یا اس میں ریاکاری کا خدشہ ہو گا اور ریاکاروں سے مشابہت لازم آئے گی۔ پہلی صورت حرام ہے اور دوسری کم از کم مکروہ ضرور ہے۔''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٢٢/٥٠٦)
ابن عابدین شامی حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) لکھتے ہیں :
لا بأس باتّخاذ السبحۃ لغیر ریاء کما بسط فی البحر ۔
''اگر ریاکاری کی نیت نہ ہو تو آلہ تسبیح کے استعمال میں کوئی حرج نہیںجیسا کہ البحرالرائق میں تفصیلی طور پر موجود ہے۔''
(فتاوی شامی : ١/٦٥٠)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ (٩٥٢۔١٠٣١ھ) لکھتے ہیں :
ولم ینقل عن أحد من السلف ولا الخلف کراہتہا ، نعم محلّ ندب اتّخاذہا فیمن یعدّہا للذکر بالجمعیّۃ والحضور ومشارکۃ القلب للسان فی الذکر والمبالغۃ فی إخفاء ذلک ، أمّا ما ألفہ الغفلۃ البطلۃ من إمساک سبحۃ یغلب علی حباتہا الزینۃ وغلوّ الثمن ، ویمسکہا من غیر حضور فی ذلک ولا فکر ویتحدث ویسمع الأخبار ویحکیہا وہو یحرّک حباتہا بیدہ مع اشتغال قلبہ ولسانہ بالأمور الدنیویۃ ، فہو مذموم مکروہ من أقبح القبائح ۔

''سلف و خلف میں سے کسی سے بھی اس کا مکروہ ہونا منقول نہیں بلکہ جو شخص آلہ تسبیح کو دلجمعی ، حضور قلبی ، دل کی زبان کے ساتھ ذکر میں شمولیت اور ذکر کو بہت زیادہ مخفی رکھنے کے ساتھ استعمال کرتا ہے ، اس کے لیے یہ مستحب بھی ہے۔ رہے وہ لوگ جو آلہ تسبیح کو استعمال کرنے میں سخت غفلت کا شکار ہیں ، ان کے آلہ تسبیح کے دانوں پر زیب و زینت اور مہنگی قیمت کا رنگ غالب ہے اور وہ اسے بغیر حضور قلبی و ذہنی کے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ باتیں کرتے ، خبریں سنتے اور آگے بیان کرتے وقت بھی اپنے ہاتھ کے ساتھ اس کے دانوں کو حرکت دیتے رہتے ہیں ، ان کے دل اور زبانیں دنیاوی امور میں مشغول ہوتی ہیں، تو ان لوگوں کا یہ فعل قابل مذمت ، اور قبیح ترین مکروہات میں سے ہے۔''
(فیض القدیر للمناوی : ٤/٣٥٥)

عالَمِ عرب کے مشہور عالِمِ دین ، علامہ ، فقیہ ، فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ آلہ تسبیح کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
السبحۃ یرید بہا السائل الخرز التی تنظّم فی سلک بعدد معیّن یحسب بہ الإنسان ما یقولہ من ذکر وتسبیح واستغفار وغیر ذلک ، وہذہ جائزۃ لا بأس بہا لکن بشروط : أوّلاً : ألّا تحمل الفاعل علی الریاء أی علی مراء اۃ الناس کما یفعلہ بعض الناس الذین یجعلون لہم مسابح تبلغ ألف خرزۃ ، ثمّ یضعونہا قلادۃ فی أعناقہم کأنّما یقولوا للناس : انظروا إلینا نسبّح بمقدار ہذۃ السبحۃ ، أو ما أشبہ ذلک ، الشرط الثانی : ألّا یتّخذہا علی وجہ مماثل لأہل البدع الذین ابتدعوا فی دین اللّٰہ مالم یشرعہ من الأذکار القولیّۃ ، أو الاہتزازات الفعلیّۃ لأنّ (( من تشبّہ بقوم فہو منہم )) ، ومع ذلک فإنّنا نقول : إنّ التسبیح بالأصابع أفضل لأنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أرشد إلی ذلک ، فقال : ((اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہن مستنطقات )) ، أی سوف یشہدن یوم القیامۃ بما حصل ، فالأفضل للإنسان أن یسبّح بالأصابع لوجوہ ثلاث : الأوّل أنّ ہذا ہو الذی أرشد إلیہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، الثانی أنّہ أقرب إلی حضور القلب لأنّ الإنسان لابدّ أن یستحضر العدد الذی یعقدہ بأصابعہ بخلاف من کان یسبّح بالسبحۃ ، فإنّہ قد یمرّر یدہ علی ہذہ الخرزات وقلبہ ساہ غافل ، الثالث أنّہ أبعد عن الریاء کما أشرنا إلیہ آنفا ۔
''سائل کی مراد اگر وہ موتی ہیں جو ایک لڑی میں معین مقدار میں پروئے جاتے ہیں اور اس لڑی کے ذریعے انسان اپنے ذکر ، تسبیح ، استغفار وغیرہ کو شمار کرتا رہتا ہے تو یہ جائز ہے لیکن درج ذیل شرطوں کے ساتھ : پہلی شرط تو یہ ہے کہ آلہ تسبیح اپنے استعمال کرنے والے کو ریاکاری پر آمادہ نہ کرے جیسا کہ بعض ان لوگوں کا طریقہ ہے جو ہزار ہزار موتیوں والی لڑیاں لے کر ان کو اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں ، گویا کہ وہ لوگوں کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری طرف دیکھو ، ہم اتنی مقدار میں تسبیح کرتے ہیں۔۔۔دوسری شرط یہ ہے کہ آلہ تسبیح استعمال کرنے والا اسے ان اہل بدعت کی مشابہت میں استعمال نہ کرے جنہوں نے اللہ کے دین میں وہ قولی اذکار یا جھومنے والے افعال ایجاد کر لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیے کیونکہ نبی اکرمeکا فرمان ہے : (( من تشبّہ بقوم فہو منہم )) کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی ، وہ انہی میں سے ہے۔ (سنن ابی داؤدا: ٤٠٣١،و سندہ، حسنٌ)

اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ انگلیوں کے ساتھ تسبیح کرنا افضل ہے کیونکہ نبی اکرمeنے اسی کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہنّ مستنطقات )) کہ تم اپنی انگلیوں کے ساتھ تسبیح شمار کیا کرو کیونکہ یہ انگلیاں بلوائی جائیں گی (سنن ابی داؤد : ١٥٠١، وسندہ، حسنٌ)، یعنی روز ِ قیامت یہ ان اذکار کی گواہی دیں گی جو ان کے ذریعے شمار کیے گئے ہوں گے۔چنانچہ انگلیوں کے ساتھ تسبیح کرنا تین وجوہ سے افضل ہوا : ایک تو اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف رہنمائی فرمائی ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ حضور ِ قلب کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ جس چیز کو انسان اپنی انگلیوں کے ساتھ شمار کرتا ہے ، اس پر اس کا استحضار رہتا ہے جبکہ آلہ تسبیح کے ساتھ اذکار کرنے والا بسا اوقات موتیوں پر اپنے ہاتھ پھیرتا رہتا ہے لیکن اس کا دل غافل ہوتا ہے۔ تیسرے اس لیے کہ اس میں ریاکاری کا خدشہ نہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کر دیا ہے۔''
(فتاوی نور علی الدرب لابن العثیمین ، الاذکار، نقلا عن المکتبۃ الشاملۃ)
الحاصل : آلہ تسبیح پر ذکر کرنا جائز ہے۔ اس کے خلاف نبی اکرمeاور صحابہ و تابعین سے کچھ بھی ثابت نہیں۔ہاں اس سلسلے میں علمائے کرام کی قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کی گئی شرائط کی پابندی لازم ہے۔

مکمل مضمون ادھر سے پڑھ سکتے ہیں۔

http://ircpk.com/tehqeeqi-wa-ilmi-mazameen/5238-tasbe-k-istamal-ki-shari-hasiat.html

http://w.urduvb.com/forum/showthread.php?p=338812

السلام علیکم ۔،،،،،
جزاک اللہ خير ۔۔۔۔
کل جمعۃ شیخ صاحب کے پیچھے ہی پڑھا تھا۔۔ اور خصوصا اس مسئلے کے بارے میں پوچھا تھا تو شیخ صاحب نے رسالہ 34 کو پڑھنے کا کہا تھاِ میں نے کہا کہ اس میں علت ہے خزیمہ مجہول ہے تو شیخ صاحب نے کہا مجہول نہیں بلکہ الثقات میں نقل ہے اور امام خزیمہ نے ذکر کیا ہے تو جہالت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس بات پر دل مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ فقط ان باتوں سے جہالت کیسے رفع ہو سکتی ہے۔ جب تک کسی نے ثقہ یا تعدیل نہ کی ہو۔ اور امام خزیمہ نے بھی کہاں ذکر کیا ہے یہ بھی ابھی موقوف ہے۔۔۔
باقی آخری ہائی لائٹ شدہ بات مناسب ہے۔۔ اور شیخ نے یہ بھی کہا تھا کہ تسبیح سے ریا کا اور دکھاوے اور غفلت کا خدشہ ہے لیکن یہ انسان کی اپنی کمزوری ہے،۔۔۔واللہ اعلم
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
جزاک اللہ خیرا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اعقدنّ بالأنامل ، فإنّہنّ مستنطقات )) کہ تم اپنی انگلیوں کے ساتھ تسبیح شمار کیا کرو کیونکہ یہ انگلیاں بلوائی جائیں گی (سنن ابی داؤد : ١٥٠١، وسندہ، حسنٌ)، یعنی روز ِ قیامت یہ ان اذکار کی گواہی دیں گی جو ان کے ذریعے شمار کیے گئے ہوں گے۔
یہ حدیث میں نے ایک تبلیغی خاتون کو سنائی تو انھوں نے کہا کہ تسبیح کے دانے بھی تو انگلیوں سے گھمائے جاتے ہیں ، بس قیامت کے دن گواہی کا سبب تو بن گئی۔۔۔جوابا میں نے ان سے کہا کہ تسبیح کے دانے گھمانے میں دو ہی انگلیاں استعمال میں آتی ہیں، جب کہ ہاتھ پر پڑھنے سے پانچوں ہی ! کیا اچھا نہیں کہ سب انگلیاں گواہی دیں۔۔۔۔!!! وہ خفگی سے خاموش ہو گئیں۔
ابتسامہ

معلوماتی جواب دیا آپ نے - شکریہ
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
السلام علیکم ۔،،،،،
جزاک اللہ خير ۔۔۔۔
کل جمعۃ شیخ صاحب کے پیچھے ہی پڑھا تھا۔۔ اور خصوصا اس مسئلے کے بارے میں پوچھا تھا تو شیخ صاحب نے رسالہ 34 کو پڑھنے کا کہا تھاِ میں نے کہا کہ اس میں علت ہے خزیمہ مجہول ہے تو شیخ صاحب نے کہا مجہول نہیں بلکہ الثقات میں نقل ہے اور امام خزیمہ نے ذکر کیا ہے تو جہالت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس بات پر دل مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ فقط ان باتوں سے جہالت کیسے رفع ہو سکتی ہے۔ جب تک کسی نے ثقہ یا تعدیل نہ کی ہو۔ اور امام خزیمہ نے بھی کہاں ذکر کیا ہے یہ بھی ابھی موقوف ہے۔۔۔
باقی آخری ہائی لائٹ شدہ بات مناسب ہے۔۔ اور شیخ نے یہ بھی کہا تھا کہ تسبیح سے ریا کا اور دکھاوے اور غفلت کا خدشہ ہے لیکن یہ انسان کی اپنی کمزوری ہے،۔۔۔واللہ اعلم
محمد وقاص گل بھائی کیا شیخ محترم کے دروس آن لائین موجود ہیں؟ مجھے تو ایک ہی ملا ہے ابھی تک۔؟؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
محمد وقاص گل بھائی کیا شیخ محترم کے دروس آن لائین موجود ہیں؟ مجھے تو ایک ہی ملا ہے ابھی تک۔؟؟

نہیں بھائی اس چیز کا تو مجھے علم نہیں کہ کوئی مستقل سلسلہ ہو البتہ مختلف پروگراموں کے دروس ہوں تو وہ الگ بات ہے باقی جمعے کی بھی ریکاڈنگ کا کوئی مستقل بندوبست نہیں۔۔۔۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی ومکرمی آپکا موقف یہ ھے کہ سعید عائشہ سے روایت نھیں کرتا بلکے خزیمہ کرتا ہے
یعنی سعید کی اس سے ملاقات ثابت نہیں؟

۲

سعید کے اختلاط کے حوالے سے عرض ھے کے آپ امام ساجی سے امام احمد تک سند ذکر فرمائیں.
جزاک اللہ خیرا.
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
محترمی ومکرمی آپکا موقف یہ ھے کہ سعید عائشہ سے روایت نھیں کرتا بلکے خزیمہ کرتا ہے
یعنی سعید کی اس سے ملاقات ثابت نہیں؟

۲

سعید کے اختلاط کے حوالے سے عرض ھے کے آپ امام ساجی سے امام احمد تک سند ذکر فرمائیں.
جزاک اللہ خیرا.

شیخ صاحب جہاں تک پہلی بات ہے تو اسکا جواب ہے '"جی"'

اور دوسری جو اختلاط والی بات ہے اس کے متعلق عرض ہے کہ امام البانی نے امام ابن حزم سے نقل کیا ہے جسکا حوالہ بھی موجود ہے ، اور امام ساجی کی سند ملنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے سامنے انکی کوئی کتاب موجود نہیں۔۔۔
البتہ امام احمد سے سعید بن ابی ھلال کے بارے میں اختلاط کو انکے شاگرد اثرم نے بھی ذکر کیا ہے۔۔۔
سمعت أبا عبد الله يقول: سعيد بن أبي هلال ما أدري أي شيء حديثه؟! يخلط في الأحاديث. ثم قال: هو أيضا يروي عن أبي الدرداء في السجود، قلت: حديث النجم؟ فقال: نعم(69)

اور حافظ ابن حزم نے تو یحیی بن معین کا بھی کہا ہے کہ انہوں نے بھی اسے مختلط کہا ہے۔دیکھئے الفصل:2،95
 
Top