• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کے حفظ کا ایک خاص انداز ہے، جس میں ایک آیت کو حفظ کرکے، آگے منتقل کرنے کے لیے استاد اور شاگرد کا جو اسلوب ہوتا ہے، وہ حدیث یا دنیا میں کسی علم کے طریقۂ روایت میں دیکھانا ممکن نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لیے ایک ایک لفظ کو ایک طالب علم یاد کرنے کے لیے بسا اوقات دو دو گھنٹوں میں بیسیوں دفعہ تکرار کے بعد یاد کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل حدیث کے حفظ کا حلقوں کی صورت میں کوئی اہتمام ہے اورنہ حدیث کو بطور الفاظ یاد کرنے کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے، جس طرح کہ قرآن مجید میں اہتمام کے ساتھ ایک معجزانہ صورت میں یہ موجود ہے۔ قرآن کریم کے طریقۂ ضبط کے حفظ ِحدیث سے فرق سمجھنے کے لیے اگر غور کیا جائے تو مشاہدہ یہ ہے کہ جن طلبہ کے حافظے کمزور ہیں، جب وہ قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں تو حفظ کرتے وقت ان کو عام ذہین بچوں کے بالمقابل ۵۰ کے بجائے دو دو سو بار ایک آیت کو دہرانا پڑتا ہے اورعام طور پر قرآن کا نقش ان کے ذہن پر جب جاگزیں ہوتا ہے تو وہ نقش اس قدر دیرپا ہوتا ہے کہ تیز حافظے والے بچوں کے ذہن پر اِس کا اثر اس قدر قوی نہیں ہوتا۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو بچے قوی حافظے کی بنا پر جلد حفظ کرلیتے ہیں وہ عموما جلد بھول بھی جاتے ہیں۔ عام طور پر وہ لوگ جومختلف انسانی قویٰ میں کسی نہ کسی پہلو سے محرومی رکھتے ہوں، مثلاً نابینا حضرات یاوہ لوگ جو ذہنی طور پر کمزور ہوں، بلکہ مدارس میں تو آج ایسے بچوں کو ہی حفظ کے لیے بھیجا جاتا ہے، یہ لوگ جب قرآن مجید کو حفظ کرتے ہیں تو ان کو حفظ کرنے میں چھ چھ ، آٹھ آٹھ سال کاعرصہ لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حفظ قرآن میں ان کی طبعی کمزوریاں یوں زائل ہوجاتی ہیں کہ شمار تکرار کی وجہ سے قلوب واذہان پر قرآن کریم کانقش زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بس اسی مثال کو اگر سامنے رکھ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ ائمہ قراء میں سے وہ حضرات، جن پرباعتبارحافظہ بعض محدثین نے جرح کی ہے، وہ حدیث میں اپنے حافظے کے کمزور ہونے کے باوجود کس طرح قرآن اور قراء ات قرآنیہ میں قوی ترین حافظہ کے مالک تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے قرآن مجیدکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ ایک ایک امام دن کے چوبیس چوبیس گھنٹوں میں اور زندگی کے پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ سالوں کے دورانیہ میں جس طرح ہزاروں بار قرآن کو دہرا چکا تھااور ان کی ہمہ وقت درس و تدریس میں مشغول تھا اس سے اس کے حافظے کی وہ کمزوری، جو حدیث وغیرہ میں تھی، قرآن مجید کے حفظ اور اس کو آگے منتقل کرنے میں زائل ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ آئمہ جرح وتعدیل نے اس قسم کے تمام آئمہ کے تراجم میں وضاحت کی ہے کہ یہ لوگ حدیث کے میدان میں ضعیف ہونے کے باوجود قرآن کے معاملہ میں ثقاہت اور امامت کے درجہ پر فائز تھے۔ ماہنامہ رشد ’قراء ات نمبر‘ ۳ میں ہم اس موضوع پر ایک مستقل مضمون ہدیہ قارئین کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یاد رہے کہ محدثین کے ہاں فن حدیث میں سییٔ الحفظ راوی کی دو قسمیں ہیں: کچھ رواۃ کا حافظہ پیدائشی طور پر کمزور ہوتا ہے او رکچھ کا مختلف وجوہ کی بنا پر بعد میں ضعیف ہوجاتا ہے۔ پہلے کو سوء الحفظ اصلی اور دوسرے کو سوء الحفظ طاری کہا جاتا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے ضمن میں آئمہ قراء ات میں موجود دونوں قسم کی حافظے کی کمزوری بوجوہ زائل ہوگئی تھی۔ آئمہ قراء ات کے حوالے سے حافظے کی ایسی کمزوری جو پیدائشی وحقیقی ہو اس پر تو اوپر بحث ہوچکی، رہی حافظے کی ایسی کمزوری جو اصلی نہ ہو بلکہ بعد میں مختلف وجوہ سے طاری ہوجائے، تو اہل علم کے ہاں اس کی بعض صورتیں یہ بھی ہیں کہ بسا اوقات کسی شخص کا ایک علم سے اعتناء اور تعلق اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ دیگر امور سے دلچسپی بالکل کھو بیٹھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا حافظہ صحیح ہونے کے باوجود دیگر اُمور میں کام نہیں کرتا، جیسے ایک شخص جو ہر وقت قرآن اور اس کی قراء ات کے علوم میں مشغول رہے، بسا اوقات غالب یا اقبال کے شاعرانہ ذوق سے عدم دلچسپی کی بنا پر اسے اردو کا نہ کوئی شعر سمجھ آتا ہے اور نہ دماغ میں ٹکتا ہے۔ اس ضمن میں ان اہل علم اور مجتہدین کی مثال بھی قرین قیاس ہے جو ہر وقت دین میں غور وفکر کے عادی ہوتے ہیں، اسی وجہ سے حفظ ِحدیث اور دیگر دنیاوی امور میں ان کا حافظہ متاثر ہوجاتا ہے، حالانکہ ان کا حافظہ عمومی طور پر کمزور نہیں ہوتا۔ آئمہ قراء ات میں سے جن بعض حضرات کی باعتبار حافظہ تضعیف کی گئی ہے، ان کے بارے میں واضح رہے کہ بسا اوقات اِس جرح کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اصل ہی کے اعتبار سے ضعیف حافظہ کے مالک ہوتے ہیں یا بعض اوقات قرآن اور علوم قرآن سے سدا بہار تعلق کی وجہ سے دیگر علوم میں ان کا حافظ متاثر ہوجاتا ہے۔ بہرحال صورت جو بھی ہو ان کا وہ حافظ قرآن کریم کے ضمن میں مقبول بلکہ اعلی درجہ کا ہوتا ہے، برخلاف حدیث ودیگر دنیاوی امور کے، وہ اس میں عام طور پر بات کو بھول جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣٥: رسم عثمانی کو صحت ِقراء ۃ کی ایک لازمی شرط قرار دیاجاتاہے، لیکن مصاحف عثمانیہ باہمی طور خود مختلف ہیں کہ ان میں بعض مقام پر کچھ کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں؟ اس پر کچھ تبصرہ کردیجیے۔
جواب: پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ رسم عثمانی کی جو نسبت حضرت عثمان ﷜کی طرف کی گئی ہے وہ بنیادی طور پر مجازا ہے، ورنہ درحقیقت قرآن مجید کا رسم، جسے صحت ِقراء ات کے لیے ایک لازمی شرط قرار دیا گیا ہے، یہ بنیادی طور پر وہ طریقۂ کتابت ہے، جو رسول اللہﷺنے صحابہ کرام﷢ کو خود املاء کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ صحابہ﷢کے پاس متعدد صورتوں میں موجود رہا۔ یہی وجہ کہ علم الرسم کی جمیع کتب میں رسم عثمانی کی تعریف میں ماہرین فن نے بالاتفاق وضاحت کی ہے کہ عثمانی رسم الخط کے معنی یہ ہیں کہ قرآنی کلمات کوحذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا جس پر دور عثمانی میں صحابہ کرام﷢ کا اجماع ہوچکا ہے اور جو تواتر کے ساتھ نبی کریمﷺسے منقول ہے۔ رسول اللہﷺکی وفات کے بعد بعض وجوہات کی بناء پر حضرت ابوبکر﷜نے اس کتابت اور رسم الخط کو حضرت عمر﷜کے مشورے سے حضرت زید بن ثابت﷜کی نگرانی میں ایک جگہ اکٹھا کردیا اور حکومتی حفاظت میں لے لیا، تاکہ وہ طرز کتابت،جو رسول اللہﷺاپنے زمانے میں لکھوا کر محفوظ کروا چکے تھے،غیرمحفوظ ہو کرضائع نہ جائے۔پھر جب حضرت عثمان﷜کے زمانے میں قرآن مجید کے حوالے سے اختلافات ظہور پذیر ہوئے توان اختلافات کو حل کرنے کے لیے حضرت عثمان﷜ نے اُمت کے اندر اللہ کے رسولﷺکے لکھوائے اس رسم کو، جسے حضرت ابوبکر﷜نے یکجا کرلیا تھا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاسے منگوایا اورایک متحقیقی کمیٹی بناکردوبارہ نظرثانی کروا کر لوگوں کے لیے ایک ’معیار‘ کے طور پر قانونی طور پر نافذ کردیا، تاکہ آج کے بعد قرآن کے حوالے سے جو بھی اختلاف رونما ہو، اُس کو اِس ’معیاری رسم الخط‘ پر پیش کرکے دیکھ لیاجائے، اگر یہ رسم اس کو قبول کرے تو اس کوبطور قرآن قبول کرلیاجائے، ورنہ رد کردیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے مختلف حفاظ کے درمیان آج قرآن مجیدکی کسی آیت یا کلمے کے بارے میں جب اختلاف پیدا ہوجاتا ہے تو قرآن مجید کو کھول کر اس کی کتابت سے فیصلہ کرلیاجاتا ہے کہ قرآن مجید میں وہ چیز موجود ہے یا نہیں۔ اگر موجود ہو تو اس کو بطور قرآن قبول کرلیاجاتاہے، ورنہ نہیں۔ عین یہی تدبیر حضرت عثمان﷜نے بھی اپنے عہد سلطنت میں قرآن مجید کے ضمن میں پیدہ شدہ فتنہ واختلاف کو ختم کرنے کے لیے کی تھی۔ اسی وجہ سے بعد ازاں زمانوں میں ہمیشہ کے لیے یہ ضابطہ طے کردیا گیا کہ قیامت تک اگر کبھی قرآن کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہو تو اختلافات کو حل کرنے کے لیے اورکسی بھی شے کو بطور قرآن قبول کرنے کے لیے حضرت عثمان﷜کے تیار کردہ مصاحف سے موافقت ضروری ہے۔ باقی حضرت عثمان﷜نے جو رسم الخط پیش فرمایاتھا،اس کے بارے میں واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ رسم انہوں نے خود اللہ کے رسولﷺسے اخذ فرمایا تھا اور اللہ کے رسولﷺنے اس رسم کو اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کو املاء کروا دیا تھا، جس کے دو مقاصد تھے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) قرآن مجید کی جو روایت الفاظ کی صورت میں بعد ازاں کی جائے تو چونکہ یہ ایک مشکل کام تھا، چنانچہ اس کی حفاظت کے لیے قرآن مجید کو لکھوا دیا گیا، تاکہ کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے لفظی اختلاف کی صورت میں کتابت کے اس ’معیار‘ سے مدد لی جاسکے۔
(٢) امت میں قرآن اور اس کے نقش کے بارے میں کسی وقت بھی پیدا ہونے والے اختلاف کا قبل ازیں ایسا اہتمام کرلیا جائے کہ اس اختلاف کے حل کے لیے خارج میں پہلے سے ایک ایسا معین ’معیار‘ موجود ہو، جو صحیح وغلط کے مابین امتیاز کا کام دے۔
اب ہم آتے ہیں سوال مذکورکے جواب کی طرف کہ کیارسم عثمانی میں اختلاف موجود ہے؟ اس حوالے سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ رسم، چونکہ قرآن مجید کی روایت اور قراء ات یا نفس قرآن کی حفاظت کے طور پر رسول اللہﷺنے اپنی زندگی میں املاء کروا دیا تھا، تو اب چونکہ قرآن مجید میں متعدد لہجوں اور اسلوب ِبلاغت کا بھی اختلاف روزِ اَوّل سے موجود تھا، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺنے جو رسم صحابہ کو لکھوایا تھا، اس رسم میں بعض ایسے کلمات،جو متعدد قراء ات کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے تھے، مثلاً حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے بعض اختلافات، کو خود آپﷺنے مختلف اندازوں سے لکھوا دیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعدازاں جب حضرت عثمان﷜نے لوگوں کے سامنے اس ’معیار‘ کو پیش فرمایاتو اس معیار کو پیش کرتے ہوئے جو مصاحف مختلف شہروں کی طرف روانہ فرمائے، ان کے اندر بھی مختلف فیہ کلمات،جو تقریباً پچاس یاساٹھ کے قریب ہیں، کو پھیلا دیا، مثلاً وہ مصحف جو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ فرمایا تھا، اس میں سورۃ توبہ کے اندر ’’تجری تحتھا الانھار‘‘ میں ’’تحتھا‘‘ سے قبل ’مِنْ‘ کا اضافہ کردیا۔اس طرح مصحف شام اور مصحف مدینہ کے اندر ’’ووصّٰی‘‘کو ’’وأوصی‘‘ لکھوا دیاگیا، تاکہ دونوں قراء ات رسم الخط سے نکل سکیں۔ المختصر حضرت عثمان﷜نے اپنی رائے کے بجائے اللہ کے رسولﷺکے طریقۂ کتابت اور اس میں موجود اختلافات کوہی برقرار رکھتے ہوئے مختلف مصاحف میں منقولہ اختلاف کو اُسی طرح لکھوایا تھا، جس طرح صحف ِابی بکر میں موجود تھا۔ واضح رہے کہ متنوع قراء ات کی مثل رسم الخط کا یہ سارا اختلاف بھی توقیفی اور ثابت عن الرسولﷺ ہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسم عثمانی توقیفی ہے یا اجتہادی؟ اس سلسلہ میں ایک مضمون تورشد ’قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ﷾ کے قلم سے شائع کیا جا چکا ہے اور دوسرا زیر نظر شمارے میں حافظ سمیع اللہ فراز﷾ کے رشحات قلم سے شامل اشاعت ہے، جب کہ عثمانی مصاحف میں رسم الخط کے ضمن میں چند ایک اختلافات موجود تھے، اس پر تفصیلا بحث پچھلے شمارہ میں شائع شدہ قاری محمد ابراہیم میرمحمدی ﷾کے مضمون کے ذیل میں دیکھی جاسکتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣٦: اگر رسم عثمانی اور اس میں موجود اختلاف توقیفی ہے تو حضرت عثمان﷜ کے ارشاد فاکتبوہ بلغۃ قریش کا کیا معنی ہے؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسم عثمانی قریشی انداز ِ کتابت پر مشتمل ہے۔
جواب: اوپر ذکر کردہ جواب سے یہ سوال بدیہی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان﷜نے ایک متفقہ مصحف کی تیاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، جن کے کام پر بعد ازاں بارہ ہزار صحابہ﷢ نے اتفاق کیا،اس کمیٹی کو حضرت عثمان﷜نے یہ ہدایت ارشاد فرمائی تھی، جو صحیح بخاری میں موجود ہے کہ اگر آپ کا کسی بھی شے میں باہمی اختلاف ہوجائے، تو اس صورت میں اس شے کو آپ لغت قریش کے مطابق لکھیں۔ اگر رسم الخط کااختلاف توقیفی ہوتاتو انہیں یوں کہناچاہئے تھا کہ اختلاف کی صورت میں تم ماضی میں موجود اللہ کے رسول1 کے رسم میں سے اسے تالاش کرنا۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کے اس دعوی ہی میں اس بات کا جواب موجود ہے کہ اگر رسم عثمانی کی اَساس صحف ابی بکر اور کتابت نبوی کو نہیں بنایا گیا تو اختلاف کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا۔ سیدھی بات ہے کہ جس طرح سے کلمات کو لکھنے سے قرآن کا تعین ممکن ہوتا ویسے لکھ لینا چاہیے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ تاریخی روایات اس بارے میں بالکل قطعی ہیں کہ حضرت عثمان﷜نے اس کام سے قبل صحف ابی بکر کو منگوایا تھا اور کام کی اساس انہیں کو بنایا تھا۔ اگر لغت قریش میں قرآن کا رسم تیار کرنا اس کمیٹی کاکام ہوتا تو کبھی بھی حضرت عثمانt حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاسے صحف ابی بکر کو نہ منگواتے، کیونکہ اگر لغت قریش پر لکھنا قرآن مجید کا کوئی اجتہادی انداز ہوتا تو صحف حفصہ کااس میں سرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علاوہ ازیں حضرت عثمان﷜کے مذکورہ جملہ میں یہ وضاحت موجو دہے کہ آپ﷜نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمہارا اختلاف نہ بھی ہو تو پھر بھی تم لغت قریش کے مطابق لکھتے چلو، بلکہ فرمایا کہ اگر کسی بھی جگہ پر کسی پہلوسے تمہارے مابین اختلاف پیداہوجائے کہ اس جگہ اس کا رسم کیا اختیار کرناہے تو ایسے اختلاف کی صورت میں تم لغت قریش کو معیار بنانا۔اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اختلاف کے بغیر لکھنے کی قرآن کو لغت قریش کے مطابق لکھنے کی حضرت عثمان﷜نے ہدایت نہیں فرمائی تھی۔
اب رہا یہ سوال کہ حضرت عثمان﷜نے یہ ارشاد کیوں فرمایا تھا؟ تو ہم یہ بات ذکر کرنا چاہیں گے کہ اس کا سبب تاریخی روایات میں بالصراحت موجود ہے کہ صحف ابی بکر کے اندر بعض چیزیں مرور ِزمانہ کے ساتھ مٹ گئیں تھیں یا ان کی سیاہی مدھم پڑ گئی تھی، چنانچہ اس کمیٹی میں بعض کلمات میں اس قبیل سے اختلاف ہوا توحضرت عثمان﷜نے ایک اجتہادی ضابطے کے طور پر فرما دیا کہ ایسے اختلاف کی صورت میں اگر تمہیں پہلے سے موجود کوئی رسم نہیں ملتا، توقرآن مجید چونکہ بنیادی طور پر لغت قریش کے مطابق نازل ہوا تھا اور قریشی لغت کو یک گونہ دیگر لغات پر جو فوقیت دی گئی ہے، اس اعتبار سے ایسے اختلافی مقامات پرقریش کے طریقہ کتابت کو اختیار کرلینا۔ تاریخی روایات میں وضاحتاً یہ بھی موجود ہے کہ ایسا اختلاف صرف ایک کلمہ میں سامنے آیا تھا اور وہ کلمہ ’تابوت‘ کی’تا‘ ہے۔ امام ابن حجررحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے لکھا ہے کہ صحف ِابی بکر میں تابوت کی دوسری تاء بوجوہ مٹ گئی تھی اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کلمہ لمبی تاء کے ساتھ لکھا جائے یا چھوٹی تاء سے، تو ان صحابہ﷢ نے حضرت عثمان﷜کے ارشاد کے مطابق قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق اسے لمبی تاء سے لکھ دیا۔ اب جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’تابوت‘ کی تا کے علاوہ باقی تمام مقامات صحف ابی بکر اور رسمِ نبوی کے قبیل سے ہی ہیں۔ صرف ’تابوت‘ کی تا قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق ہے۔
 
Top