• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات

حافظ حمزہ مدنی​
زیرنظر مضمون قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے تلمیذ رشید، مدیر کلِّیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ اور مجلس التحقیق الاسلامی کے انچارج ڈاکٹرقاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ کی ان علمی نگارشات پر مشتمل ہے، جو متعدد نشستوں میں طلبہ وفضلاء کلِّیۃ القرآن الکریم کی طرف سے اٹھا ئے گئے سوالات و شبہات کا علمی جواب ہے۔ قاری صاحب کو جہاں اللہ تعالیٰ نے خوش الحانی کی دولت اور عالمی تعارف سے نوازا ہے، وہاں علم تجوید و قراء ات کی علمی مباحث کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی اَساسات اُصول الدین (عقیدہ)، اُصول فقہ، اُصول حدیث اوراُصول تفسیر کے فنی مباحث کابھی اعلیٰ ذوق ودیعت فرمایاہے۔ یاد رہے کہ مضمون ہذا فضلائے قراء ات کے صرف علمی شبہات کے جوابات پر مشتمل ہے، چنانچہ اس میں عام سوالات کے بجائے صرف الجھے ہوئے فنی مسائل ہی پر بحث پیش کی جائے گی۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١): اختلافِ قراء ات کاشرعی مقام کیا ہے اور کیا قرآن کریم میں ثبوت ِقراء ات کی کوئی بنیاد موجود ہے ؟
جواب: بنیادی بات جوہرمسلمان کے پیش نظر رہنی چاہئے اور جو اسلام کا بنیادی تقاضا ہے، وہ وحی کی پابندی ہے۔جو مسلمان وحی کو نہیں مانتا وہ گویا وحی بھیجنے والی ہستی یعنی اللہ کو نہیں مانتا اور جو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے وہ یہ بھی ضرور مانے گا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوبلا مقصد پیدا نہیں فرمایا،بلکہ کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس مقصد کے بیان کی اب دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ خالق خود آکرمخلوق کو مقصد ِتخلیق بتائے، دوسرا یہ کہ وہ کسی کو نمائندہ بنا کر بھیج دے۔ہر دو صورت میں اس نے جو بات کہنی ہے وہ اس کا مطالبہ کہلائے گا۔ اللہ رب العزت اگر اپنا مطالبہ براہ راست بیان کرنے کے بجائے کسی واسطہ سے مخلوق سے کریں تو عموما وحی اس کو کہا جاتا ہے اور یہ بات متعین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بات وحی کے ذریعے سے مخلوق کو بیان کی ہے، چنانچہ عقائد ِ اہل سنت میں یہ بنیادی بات ہے کہ ثابت شدہ وحی میں اگر ایک بات آجائے تومسلمان کو اس سے بہرحال انکار نہیں ہوسکتا۔
وحی کے دو ماخذ ہیں: قرآن اور سنت۔ دونوں قسموں کی وحی کی بنیاد رسول ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ سے اگر ایک بات ثابت ہو جائے تو کسی شے کے شرعی ہونے کے لیے یہی کافی ہے، اگرچہ وہ قرآن کریم میں بظاہر بیان نہ بھی ہوئی ہو۔اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ثبوت ِقراء ات کا مسئلہ دونوں قسموں کی وحی سے ثابت ہے۔
قرآن مجیدمیں قراء ات کی حقیقت کے بارے میں جوبحث موجود ہے ،میرے مطابق وہ قرآن مجید کی اُن آیات میں ہے، جن میں اُمت کے ساتھ آسانی اور مشقت کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ ایسی آیات کافی ساری ہیں۔ چند آیات یوں ہیں، فرمایا:’’ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ‘‘(الحج:۷۸) اور ’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(البقرۃ:۱۸۵) اور اس طرح کی دیگر آیات۔ اب دین میں ’یسر‘کے حوالے سے اورمشقت کے خاتمے کے سلسلہ میں بے شمار قسم کے احکامات موجود ہیں، وہ سارے ’یسر‘ ہی کی تشریحات کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں توہمارے کاروبار میں ’یسر‘ کی رعایت کی گئی ہے، ہمارے معاملات میں ’یسر‘ کی سہولت ہے، نکاح و بیاہ کے معاملات میں’یسر‘ کو مد نظر رکھا گیا ہے، تمام امور دین میں ’یسر‘ کی بحث موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے دین کے اندر اگر کوئی چیز پڑھنے سے متعلق ہے اس میں بھی ’یسر‘ہے۔ دین کا کوئی ایسا عضو نہیں ہے جس میں ’یسر‘نہ ہو ۔ تلاوت ِقرآن بھی دین کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اس میں بھی ’یسر‘ کا پہلو ملحوظ رہنا چاہئے۔ اس پہلو سے اگرچہ متن قرآن میں بظاہر قراء ات کا وجود موجود نہیں ہے، لیکن ’یسر‘ کے عمومات کے تحت لازما موجود ہے۔ اس کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے أقیموا الصلوٰۃ میں ’صلوۃ‘کے عموم میں صلوۃ (دعا) کے ہر قسم کے افراد داخل ہیں۔ صلوۃ (دعا )کی ہزاروں شکلیں ہو سکتی ہیں، آپ لیٹ کر بھی دعا کرتے ہیں، بیٹھ کر بھی دعا کرتے ہیں، کھڑے ہوکر بھی دعا کرتے ہیں، اسی طرح دس منٹ کھڑے ہوکر دعا کرنا، دو منٹ کھڑے ہوکر دعا کرنا، رکوع وسجدہ میں دعا کرنا، تشہد میں دعا کرنا وغیرہ یہ سارے دعا کے ہی افراد ہیں۔ شرعی صلوۃ کی جو بھی کیفیت ہو،وہ بھی دعا ہی ہے، چنانچہ ’’أقیموا الصلوۃ‘‘ (الانعام:۷۲)سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخصوص قسم کی صلوۃ ہے جس کا ذکر کتب حدیث میں کتاب الصلوۃکے ضمن میں ملتا ہے۔ صلوۃ کا سنت سے کوئی ایسا معنی متعین کرناجو بظاہر قرآن کی عبارت سے سامنے نہ آرہا ہو، تو وہ معنی چونکہ قرآن ہی سے اَخذ شدہ ہوگا، کیونکہ بقول امام شافعیؒ آپ ﷺنے کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن مجید ہی سے اخذ کرکے بیان فرمایا ہے، چنانچہ اسے خارج از قرآن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر اللہ کے رسول ’’ أقیموا الصلوۃ ‘‘(الانعام:۷۲) کہہ کردعا کا کوئی فرد متعین کردیں( جیساکہ پرویز اور دیگر منکرین حدیث بھی صلوۃ کا کوئی معنی اس کے عمومات میں سے متعین کرتے ہیں ) تو وہ قرآن کے خلاف نہیں ہوگا۔ اس پہلو سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(البقرۃ:۱۸۵)کہہ کر اللہ کے رسول ﷺ نے اگر ’یسر‘ کا کوئی عملی نظام ہمیں دیاہے تو وہ قرآن مجید سے خارج نہیں ہے۔ جیسے اللہ کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی نماز ’’ أقیموا الصلوۃ ‘‘ (الانعام:۷۲) کے اندر داخل ہے، اسی طرح یسر کے ذیل میں رسول اللہ نے جو قراء تیں ذکر فرمائی ہیں وہ بھی عمومات قرآن میں ہی داخل ہیں۔ میرے خیال میں بحث کا ارتکاز اس نکتہ پر رہنا چاہیے کہ سنت کاکوئی حکم قرآن سے باہر نہیں ہے۔ اگر سنت کا کوئی حکم قرآن سے باہر نہیں ہے تواس کامطلب یہ ہوا کہ قراء ات کے بارے میں وارد شدہ آپ کا فرمان ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) (صحیح البخاري:۴۹۹۲)بھی قرآن مجید ہی میں کسی آیت کے عموم میں موجود ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق وہ ’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(الانعام:۷۲) کے عموم میں داخل ہے، جیسے نماز کا یہ نظام أقیموا الصلوٰۃ کے عموم میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ إسبال الازار (ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا)کی ممانعت قرآن میں کہاں وارد ہوئی ہے؟ تو میں اسے کہوں گا کہ قرآن مجید میں تکبر کی ممانعت کی گئی ہے اور اِسبال ازار بھی تکبر کے قبیل سے ہے۔
لغوی اعتبار سے تکبر کے متعددا فراد ہوسکتے تھے، اس کا ایک فرد اللہ کے رسولﷺ نے متعین کردیاہے۔تو رسول اللہ کا ارشاد (من جرَّ ثوبہ خیلاء لا ینظر اﷲ إلیہ یوم القیٰمۃ ) (صحیح البخاري:۵۳۳۸) قرآن مجید کی تکبر والی آیات کی تشریح وتبیین کے ضمن میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ یہ حکم بھی قرآن کریم سے خارج نہ ہوا، بلکہ اس کے عموم میں داخل ہے۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر اگرقراء ات صرف صحیح حدیثوں سے ثابت ہوجائیں ، تو چونکہ حدیث بھی مثل قرآن وحی ہے،چنانچہ تعدد قراء ات کے شرعی استناد کے لیے صرف یہی کافی ہے۔ (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(صحیح البخاري:۴۹۹۲)اور اس قسم کی دیگر حدیثیں بتاتیں ہیں کہ قرآنِ مجید کی تلاوت میں متنوع اَسالیب تلاوت موجود ہیں۔یہاں اتنا ذکر کرکے بات ختم کرتے ہیں کہ جب میں نے قراء ات کے بارے میں روایات کے حوالے سے تحقیق کی تو قراء ات کے بارے میں کمپیوٹر پر صرف ایک دفعہ کلک کرنے سے ساڑھے سات سو روایات سامنے آگئیں۔ جس مسئلے کے بارے میں ایک سطحی جائزے میں کم از کم ساڑھے سات سو روایات سامنے آگئیں تو اس مسئلہ کے شرعی ہونے کے بارے میں دو رائے کیسے ہوسکتی ہیں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٢): قرآن تمام زمانوں اور تمام اقوا م کے لیے ہدایت ہے، تو قراء توں میں صرف اہل عرب کی رعایت کیوں؟
جواب: یہ بات اُصولی طور پر ٹھیک ہے کہ دین کی آسانیاں قیامت تک کے لوگوں کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں ، لیکن جو آسانی قراء ت(پڑھنے)سے متعلقہ ہے، وہ عربوں کے ساتھ مخصوص اس لئے ہے کیونکہ قرآن مجید کی تلاوت فارسی، اُردو یا انگریزی وغیرہ میں نہیں ہوسکتی،لہٰذا تلاوت میں اقوام عالم کے بجائے اہل عرب کی لسانی مشکلات کی رعایت رکھی گئی ہے۔
تمام اقوامِ عالم کی زبانوں کا ایک عالمی قاعدہ ہے کہ ہر ۳۰ میل بعد زبان کا لہجہ بدل جاتاہے اور اسی طرح بسا اوقات لہجہ کے ساتھ ساتھ ایک بڑی لغت میں متعدد چھوٹی چھوٹی لغات معرض وجود میں آجاتی ہیں۔ یہ ارتقاء تقریبا ہر زبان میںموجود ہے، مثلا اُردو زبان لے لیں یاپنجابی، فارسی لے لیں یا عربی، ہر زبان میں ۳۰ میل بعد لہجہ بدل جاتاہے۔اور اس حقیقت کاکوئی آدمی انکار نہیں کرسکتا۔ ابتداء اً نزولِ قرآن لغت قریش میں ہوا تھا، دیگر زبانوں کی طرح اس وقت عربی زبان بولنے والوں کی مشکل بھی یہی تھی کہ جس طرح آج کی عربی جدید میں ہر۳۰ میل بعد عربوں کے لہجے بدلتے ہیں اُس دور میں بھی بدلتے تھے۔
الغرض عربی زبان ہی کے حوالے سے لوگوں کو یہ مشکل پیدا ہوئی تھی اور یہ مشکل تاقیامت اہل عرب کے لیے ہی باقی ہے ۔اب میرے اور آپ جیسے لوگوں کے لیے تو عربی کا کوئی بھی لہجہ ہو تو وہ ہم نے غیرفطری طور پر ہی سیکھنا ہے۔ اگر عرب شروع سے ہمزہ قطعی میں تسہیل کرتے ہوتے،تو ہم بھی تسہیل سیکھ لیتے،اور اگر وہ شروع میں امالہ صغری کرتے توہم بھی امالہ ہی سیکھتے، چنانچہ ہمارے لیے توکوئی لہجہ بھی مشکل یا آسان نہیںہے، بلکہ تمام لہجے برابر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٣): شریعت میں آسانی جب بھی دی گئی ہے تو اشیاء میں کمی کرکے دی گئی ہے، جبکہ قراء توں کے باب میں اضافہ کرکے آسانی کیسے ہوسکتی ہے۔ اس سے تو بظاہر مزید مشکل پیداہوئی ہے؟
جواب: اس کی دلیل کیاہے کہ آسانی کسی چیز میں کمی کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ دین میں جن مسائل میں آسانی کمی کرکے دی گئی ہے وہاں آسانی اسی طرح سے ہوسکتی تھی، مثلا مسافر کے لیے نماز کو قصر کردیا، لیکن جہاں کمی کرنے سے مشکل پیداہوتی تھی وہاں آسانی زیادتی کرکے پیدا کی گئی ہے، مثلا قرآن مختصر تھا اس کی توضیح کی ضرورت تھی تو آسانی کی خاطر اس کا تفصیلی بیان بھی وحی کی صورت میں بصورت سنت مزید اُتار دیا گیا،حالانکہ آسانی تو یہ تھی کہ قرآن کو اس سے بھی مختصر کر دیا جاتا۔ علم بلاغت میں بحث ہے کہ کلام میں اختصار اور تفصیل مخاطب کے لحاظ سے کی جاتی ہے، بسا اَوقات مختصر کلام بلیغ ہوتا ہے اور بسا اَوقات تفصیل کے ساتھ بیان بلیغ ہوتا ہے۔
اہل عرب کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے لیے ایک ہی لہجہ میں پڑھنا مشکل تھا اور ان کی آسانی یہ تھی کہ وہ مزید اجازت چاہتے تھے کہ دیگر لہجوں میں پڑھنے کی گنجائش دی جائے، چنانچہ آنحضورﷺ نے دعائیں کرکر کے ان لہجوں کی اجازت طلب فرمائی تو قرآن کریم سات لغات میں اتر آیا۔ آسانی کے سلسلہ میں کمی وزیادتی کا تعین نوعیت معاملہ کو دیکھ کر ہوگا کہ جہاں آسانی زیادتی کرنے میں ہو وہاں آسانی زیادتی کرکے دی جائے گی اور جہاں آسانی کمی کرنے میں ہو وہاں کم کرکے دی جائے گی۔
رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو ایک سے زائد حرفوں پر پڑھنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، جیساکہ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا:’’إن أمتی لا تطیق ذلک‘‘ (صحیح مسلم:۸۲۱)
’’میری اُمت ایک حرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قراء ات نازل نہ ہوتیں تو آسانی رہنی تھی۔اصل میں مغالطہ اس لیے پیداہوا ہے کہ ہم نے عرب اور غیر عرب کو سامنے رکھاہوا ہے۔ غیر عرب کے لیے تو ایک ہی حرف کافی تھا۔یہاں اصل میں بات اہل عرب کی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس پہلو سے عرب کو اہمیت دی گئی ہے کہ قرآن ان کی زبان میں اترا ہے۔ اب جو عربی سے متعلقہ پیچیدگیاں ہیں ان میں تو اہل عرب کی رعایت ہے، ہماری کوئی رعایت نہیں۔ اوربسا اوقات ایساہوتا ہے کہ بعض خاص افراد کے اعتبار سے خاص لحاظ رکھ لیے جاتے ہیں،اوران کو سہولت دے دی جاتی ہے، مثلاجب بیماروں کی بات آئے گی تو اس وقت بیماروں کے طبقے کو سہولت دی جائے گی، یہ تو نہیں کہ ہر ایک مکلف کو سہولت مل جائے، جو بیمار ہوگا اسے ہی سہولت ملے گی۔
اگر آپ یہ کہیں کہ آسانی ایسی ہونی چاہئے جو جمیع طبقات کو شامل ہو تو کچھ آسانیاں ایسی بھی ہیں جو جمیع طبقات کو شامل ہیں۔جبکہ کچھ آسانیاں ایسی ہیں جو جمیع طبقات کے بجائے مختلف طبقات کی مشکلات کے لحاظ سے منقسم ہیں۔ المختصر اہل عرب کے لیے آسانی اسی میں ہے کہ ان کو متعدد ومتنوع لہجوں میں پڑھنے کی اجازت دی جائے اور ہمارے لیے یہ گنجائش ہے کہ ہم کوئی ایک حرف پڑھ لیا کریں، ہمیں کون سا پابند کیا گیا ہے کہ ہم ساری ہی قراء ات پڑھیں۔ اگر آپ ایک حرف ولہجہ بھی پڑھ لیں تو ’’کلھن شافٍ کافٍ‘‘(سنن النسائي:۹۴۱)کے بمصداق تلاوت قرآن مجیدکا حق ادا ہوگیا اور قرآن مجید کا اجر پورا مل گیا ، نیز تلاوت کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٤): قراء ات سات نازل ہوئیں، جبکہ قراء کرام کے مطابق دس یا سترہ قراء ات کیسے بن گئیں؟
جواب: قراء ات سات نازل ہوئیں، اصطلاح ِقراء کی رو سے یہ جملہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ اصطلاح قراء میں قراء ات اپنی لغوی معنی میں مستعمل نہیں۔یہ بڑا اہم نقطہ ہے اس پر غور کرنا چاہیے۔ جیسے لغت میں فقہ کا مطلب ہے گہری سمجھ بوجھ، لیکن اصطلاح ِفقہاء میں صرف گہری سمجھ بوجھ کوفقہ نہیں کہتے،بلکہ عمل سے متعلقہ احکامات شرعیہ کی گہری سمجھ بوجھ کو فقہ کہتے ہیں۔ اگر قراء ت اور قرآن کافرق سمجھ لیا جائے تو سوال اورپیش کردہ اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ قراء ات اور قرآن میں کیا فرق ہے؟
قراء کے ہاں قراء ات اور قرآن میں وہی فرق ہے جو محدثین کے ہاں حدیث اور سنت میں ہے۔ محدثین کے ہاں سنت کہتے ہیں قرآن کے علاوہ منزل من اللہ وحی کو، جوکہ امت کو آپ سے اقوال، اعمال اور تقریرات کی صورت میں ملی ہے، جبکہ حدیث سنت کی خبر کو کہتے ہیں، جو صحابہ بیان کرتے ہیں۔ اسی لیے محدثین نے حدیث کی تعریف یوں کی ہے: ہو ما أضیف إلی رسول اﷲ ’’حدیث وہ شے ہے جو رسول اللہ کی طرف منسوب کی جائے۔‘‘اس سنت کو بطورِ خبر بیان کرنے والا صحابی ہوتا ہے اورجس چیز کو وہ آگے بیان کرے گا وہ سنت ہوگی۔ ایک مثال سے بات کھولتے ہیں۔رسول اللہ کا ارشاد ہے: (إنما الأعمال بالنیات)(بخاری:۱)جس وقت آپﷺنے یہ اِرشاد فرمایا اس وقت یہ قولی سنت تھی، لیکن جب صحابہ ؓ نے اس کو آگے بیان کیا اس وقت یہ حدیث بن گئی۔ صحابہ کرام جس بات کو بیان کرتے ہیں،اور اللہ کے رسولﷺ کی وہ چیزجس کوبیان کیاجارہاہے دو علیحدہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ اس اعتبار سے محدثین کے ہاں سنت اور حدیث دونوں مترادف ہیں یعنی قریب المعنی ہیں۔ اسی طرح قرآن و قراء ات میں فرق ہے ۔ قرآن کہتے ہیں ان الفاظ وحی کو جو منزل من اللہ ہے اور قراء ات اسی قرآن کی خبر کو کہتے ہیں، جب اس کو آگے روایت کیا جاتاہے۔اب (إنما الاعمال بالنییات) (بخاری:۱)رسول اللہﷺ کی ایک قولی سنت ہے، لیکن اس کی مرویات زیادہ ہوسکتی ہیں۔بعض محدثین نے اس سنت کی روایات ۷۰۰ تک نقل کی ہیں ۔ اسی لیے محدثین جب کہتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ ضعیف حدیثیں یاد ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ کے رسولؐ کے ارشادات یاافعال یا تقریرات سے متعلقہ مجھے اتنی نصوص یاد ہیں، کیونکہ محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ نفس سنن یہ ۳۵ ،۴۰ ہزارسے زیادہ نہیں ہیں، توپھر یہ لاکھوں حدیثیں کیسے بن گئیں؟ در اصل یہ روایات کی زیادتی ہوئی ہے۔ اور یاد رہے کہ روایات کے زیادہ ہونے سے ثبوتِ روایت میں قوت زیادہ آتی ہے۔جتنی روایتیں اور سندیں زیادہ ہوں گی اتنی ہی روایت میں قطعیت پیدا ہوگی۔ حتی کہ اس ضمن میں اگر دو لاکھ ضعیف روایتیں بھی ہوں تو بھی متابعات اور شواہد میں کام دے جاتی ہیں، چنانچہ قوت بڑھانے میں ان کا بھی کردار ہوتا ہے۔منکرین حدیث کی یہ بات فن ِحدیث سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کا انتخاب تین لاکھ حدیثوں سے ہوا، اگر ان میں سے ایک لاکھ صحیح احادیث بھی شمار کریں،تو ساڑھے سات ہزارکا انتخاب یہ بتاتا ہے (جوکہ بارہواں یاتیرھواں حصہ بنتا ہے ) کہ حدیث میں ۱۲ ،۱۳ حصے ظن کا امکان ہوتا ہے اور صرف ایک حصہ امکان صحت کا ہوتا ہے۔ تو ہم جواب میں کہا کرتے ہیں کہ انہیں اتنا بھی نہیں علم کہ روایت اور سنت میں کیافرق ہے؟
اسی طرح جو قرآن مجید آسمانوں سے اترا ہے وہ صرف سات لہجات میں اترا ہے۔جیساکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے: (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) (بخاری:۴۹۹۲)ان سات اسالیب کو آگے نقل کیا گیا تو آگے نقل کرنیوالے اگر ایک لاکھ تھے تو اب ایک لاکھ قراء تیں بنیں گی۔ واضح رہے کہ روایات کی اتنی کثرت دیکھ کر گھبرانے کے بجائے مطمئن ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ تواتر کے لیے روایات کی اتنی کثرت کم ازکم ضرور ہونی چاہئے، کیونکہ متواتر وہی ہوتا ہے، جسے عدد کثیر نقل کرے۔ المختصر اصطلاح قراء میں قراء ات،روایت قرآن کوکہتے ہیں، جیسے حدیث روایت سنت کو کہتے ہیں، چنانچہ آپ اگر قراء ات کی جگہ اخبار لگا دیں تب بھی لفظ صحیح ہے اور اگر قراء ات کی جگہ روایات لگا دیں تب بھی لفظ صحیح ہے۔ ہم عام طور پر بولتے ہیں کہ قراء ات متواترہ ، اور خبر کی دو قسمیں ہیں: خبر متواتر اور خبرآحاد۔ تو اسی طرح قراء ات کی بھی دو قسمیں ہیں: قراء ات آحادہ اور قراء ات متواترہ۔ اسی طرح شذوذ اور عدم شذوذ یہ سب خبر کی بحثیں ہیں اورقراء ات بھی تو خبر ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قراء کے ہاں رائج ایک اور استعمال کے مطابق اگر وہ روایت امام کی ہو تو اس کو قراء ات کہتے ہیں اور اگر وہی روایت امام کے شاگرد کی ہو تو اس کو روایت کہتے ہیں اور اگر امام کے شاگرد کے شاگرد کی ہو تو اس کو طریق کہتے ہیں۔ اب طریق ہو یا روایت ہو یا قراء ات ہو تو تینوں میں خبر کا معنی موجود ہے، چنانچہ ہم معنی لفظ ہیں۔ اسی وجہ سے روایت حفص کو بسااوقات قراء ات حفص بھی کہہ دیتے ہیں اور امام نافع کی بات، اگرچہ قراء ات نافع ہے، لیکن اس کے باوجودوہ روایت ِنافع ہے۔اس پہلو سے قراء ات سات نازل ہوئی ہیں اور روائتیں کرنے والے ہزاروں تھے۔ ان ہزاروں میں سے جو معروف لوگ ہوئے ہیں تووہ دس ہیں یا دس کے آگے ان کے شاگردوں میں بیس ہیں اور پھران بیس کے آگے ان کے ۸۰ شاگرد ہیں۔ اب آپ ان کو۸۰ قراء اتیں کہہ لیں تو سبعہ احرف سے ان کا تضاد نہیں ہوگا، کیونکہ روایت اور مروی میں اس قسم کا فرق فطری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٥): قرآن مجید میں سبعہ احرف کا اختلاف آپ کے بقول روایات میں موجود ہے، سوال یہ ہے کہ یہ اختلاف روایات میں کہاں موجود ہے؟
جواب: اللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے:(أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(بخاری:۴۹۹۲) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم سات حروف پر اترا ہے اور ان میں سے کوئی ایک پڑھ لیں یا ساروں کو ملا کر پڑھ لیں سب طریقے کافی شافی ہیں، کیونکہ مقصد آسانی ہے ۔ اسی لیے اس روایت کے بعض طرق میں مزید یوں ہے کہ: ’’فاقرء وا ماتیسر‘‘ کہ آپ کو جو آسان لگے پڑھ لیں، کیونکہ مقصد تیسیر ہے۔ اب تیسیر کا تقاضا یہ ہے کہ جس کو جو آسان لگتا ہے وہ پڑھ لے۔ اگریوں کہاجاتا ہے کہ بندے کو صرف اتنی گنجائش ہے کہ سات میں سے وہ کسی ایک کو پڑھ لے تو یہ تیسیر کا کامل مفہوم نہ ہوتا، کمالِ تیسیر یہ ہے کہ پڑھنے والے کو ساتوں حروف میں سے ہر طرح سے پڑھنے کی اجازت دی جائے، برابر ہے کہ ساتوں میں سے کوئی ایک پڑھے یا ساتوں ہی میں سے کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے اختیار کرکے پڑھے۔ فاقرء وا ما تیسر کے متعلق ہماری رائے یہی ہے کہ تیسیر کامطلب یہ ہے کہ وہ ساتوں میں سے جو آسان سمجھتا ہے پڑھ لے یعنی ایک حرف یہاں سے آسان سمجھتا ہے یہاں سے پڑھ لے،دوسرا وہاں سے، تیسرا وہاں سے پڑھ لے۔ اس طرح قاری قرآن ایک نشست میں اس شکل پر اگرآدھا پارہ پڑھ لے تو قاری کی تلاوت تمام سبعہ احرف سے اپنے اختیار کردہ ایک نئی ترتیب پر مشتمل ہوگی۔اس طرح مختلف حروف کو ملا جلاکر ایک نیا ترتیب تلاوت بنا لیا جائے تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں، کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’فاقرء وا ما تیسَّر‘‘(مؤطا:۴۶۷)۔ یہ بات صرف ہماری تشریح نہیں بلکہ باقاعدہ روایات میں اس کی وضاحت بھی آئی ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی الجامع الصحیح میں ہشام ابن حکیم بن حزام والی روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ ’’یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ‘‘(بخاری:۴۹۹۲)
’’یعنی ہشام بن حکیم کے پڑھنے کے اسلوب میں سبعہ احرف کے کافی سارے حروف شامل تھے۔‘‘
اس بات کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین نے تلاوتِ قرآن میں ان سات حروف کو آپس میں ملا جلا کر پڑھا۔اس ملانے جلانے سے مختلف افراد نے اپنے مختلف انداز تلاوت اختیار کرلیے۔ اب اگر آپ اس طرح کرکے اپنے اپنے ذوق کے موافق پڑھنا شروع کریں توکتنے ہی سیٹ بن سکتے ہیں۔اسی طرح بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سینکڑوں، ہزاروں، بلکہ لاکھوں اندازوں میں سبعہ اَحرف کی تلاوت کی۔الغرض اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ سبعہ احرف میں یہ اختلاط ہواہے۔
معروف بات ہے کہ جب لوگوں کی ہمتیں کم ہو جاتی ہیں اور ممتاز لوگ تھوڑے ہو جاتے ہیں تو کم علم لوگ اساتذہ، اہل علم اور آئمہ پراعتماد کرکے ان کی طرف علوم کی نسبت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مثلا آج ہم قراء ات میں نسبت کرتے ہیں تو اپنے مشائخ قاری محمد ابراہیم میر محمدی، قاری ادریس العاصم اور قاری احمد میاں تھانوی کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ یہ نسبت اس لیے کرتے ہیں کہ ہم ان کو جلیل القدر سمجھتے ہیں، تو اسی طرح قراء ات سمیت تمام علوم وفنون میں لوگوں کی ہمتیں جب کم ہوگئیں تو نئے اسالیب تلاوت کی روایت کاخاتمہ ہوگیا۔یہ تبع تابعین اور ان کے اتباع کے دور کی بات ہے۔ لوگوں نے عموما اس کے بعد جرأت ہی نہیں کی کہ تلاوت قرآن میں نئے ترتیبات ِتلاوت تشکیل دیتے۔نہ کوئی اپنے آپ کو اس قدر فائق سمجھتا تھا کہ ان آئمہ کے اندازوں کی طرح ایک نیا انداز بناتا، بلکہ ان کے اندازوں پر ہی تلاوت کرنے کو سعادت کا باعث سمجھا گیا۔ بعض اہل معرفت نے اگرچہ نئے انداز اختیار کیے بھی، لیکن امت میں آئمہ عشرہ کے علاوہ ان اہل علم کے اختیارات کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ اکثر کو تو محفوظ نہیں کیا گیا اور جو محفوظ کیے گئے وہ قبولیت ِعامہ حاصل نہیں کرسکے۔ تیرہ صدیوں سے اُمت کے علماء وعوام اب آئمہ عشرہ اور ان کے بیس رواۃ کی قراء ات پر بالاتفاق عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔جب لوگوں میں اس قسم کا زمانہ آجاتا ہے تو معروف بات ہے کہ مکاتب فکر اور مدارس فکر وجود میں آجاتے ہیں ، مثلا کوفہ میں فقہ کا مدرسہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ تھے۔ مدرسہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بلڈنگ بنائی ہوئی ہے، بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ ایک شخصیت کے گرد اکٹھ ہوا اور پھر وہی مرکز بن گیا۔ اس طرح سے قراء ات میں بھی مدارس فکر وجود میں آگئی۔ اُس وقت جو شخصیات اس سلسلہ میں نمایاں تھیں وہ دس تھیں۔ بعد میں لوگوں نے ان کے ساتھ ہی التزام کرلیا۔پھر لوگوں نے انہیں کے طے شدہ اندازوں کو اختیارکرلیاجو اب اُمت میں آپ کے سامنے موجودہیں۔یہاں دس ائمہ ہیں، ان کے بھی اختیارات مختلف تھے اور ان کے شاگردوں نے بھی اختیارات میں فرق کیا تھا،لہٰذا شاگردوں میں دو، دو اختیار بن گئے یا اماموں نے دو دو طرح پڑھایا۔ اس کے بعد شاگردوں نے آگے پڑھایا تو چار چار شاگردوں کے اختیارات نیچے بن گئے یا معاملہ یوں تھا کہ اماموں نے آٹھ آٹھ اندازوں سے پڑھایا تھا۔خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس آئمہ، ان کے بیس تلامذہ اور پھر ان کے اسی شاگردوں کے اعتبار سے ۱۰سیٹ (قراء ات)، ۲۰ سیٹ (روایات) اور ۸۰ سیٹ ( طرق)، جو قراء ات عشرہ صغری وکبری کے نام سے موسوم ہیں وجود میں آگئے۔ بعض اَزاں بعض آئمہ نے انہی قراء ات کے بیان میں کتب لکھی، جن کی وجہ سے بعض نئی تقسیمات رو نما ہوئیں۔ مثلا امام دانی رحمہ اللہ اور امام شاطبی رحمہ اللہ نے مذکورہ شخصیات میں سے سات آئمہ اور ان کے چودہ تلامذہ اور پھر ان کے ۴، ۴ شاگردوں میں سے ایک ایک شاگرد لے کر اپنی کتب تصنیف فرمائیں، چنانچہ التیسیر للدانی اور الشاطبیۃ میں سات قراء کی سات متواتر قراء تیں، چودہ روایات اور چودہ طرق موجود ہیں۔ بعد ازاں باقی تین بڑے آئمہ اور چھ رواۃ کی تکمیل دانی وشاطبی کے ہی اسلوب پر کرتے ہوئے حافظ ابن جزری نے التحبیراور الدرۃ تصنیف فرمائی، جس میں قراء ثلاثہ، ان کے چھ رواۃ اور پھر تیسیروشاطبیۃ کی طرز پر ایک ایک شاگرد لیا گیا۔ اس انداز سے کتب تصنیف پانے سے ایک نیا رنگ پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ شاطبیہ اور درّہ وغیرہ میں موجود اختلافات چونکہ تمام معروف اَئمہ اور ان کے تلامذہ کی مرویات پر مشتمل ہیں اس لیے عشرہ قراء ات تو پوری ہوگئیں، لیکن چونکہ ۸۰ طرق میں سے تقریبا ۶۰ باقی تھے اس لیے انہیں عشرہ صغری کہا گیا۔بعدازاں امام جزری وغیرہ نے عشرہ قراء اور بیس رواۃ کے ۲۰ سمیت باقی ماندہ۶۰روایات پر مشتمل کتب لکھیں۔ان کتب میں بیان کردہ قراء ات عشرہ کو پہلی کتب میں بیان کردہ قراء ات عشرہ کے بالمقابل عشرہ کبریٰ کہتے ہیں۔
المختصر یہ ۱۰، ۲۰ یا ۸۰ تمام قراء ات’’ سبعہ احرف ‘‘ سے ماخوذ ہیں یا منزل من اللہ سات اَسالیب تلاوت (سبعہ احرف)خلط ملط ہوکر منتشر انداز میں ۸۰ سیٹوں کی صورت میں موجود ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ سیٹ سبعہ احرف کے منافی نہیں ہیں، ان اسی اندازوں میں جو بھی چیز لی گئی ہے وہ سبعہ احرف سے لی گئی ہے، البتہ جو سیٹ بنے ہیں وہ نئے بنے ہیں۔شایدہی کسی سیٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جاسکے کہ کسی ایک سیٹ میں سبعہ احرف میں سے ایک حرف پورا لیا گیا ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ قراء ا ت میں تمام سبعہ اَحرف خلط ملط صورت میں موجود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٦):کیا یہ دینی رخصت صرف خیر القرون کے ساتھ خاص ہے یا مابعد لوگوں کے لیے بھی اس کی گنجائش ہے؟
جواب : قرآن وسنت کے احکام و تسہیلات قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہیں اور کسی دینی معاملہ کو بغیر دینی خصوصیت کے کسی بھی زمانہ یا شخصیت کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات ٹھیک ہے کہ اس مشقت کے حوالے سے آسانی کی وجہ صحابہ رضی اللہ عنہم بنے،لیکن اب وہ آسانی صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے تما م لوگوں کے لیے ہے۔ دینی مسائل میں سہولت دینے کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات بیمار ایک بندہ ہوتا ہے، وہ اپنا مسئلہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس لے کر آتا ہے۔ اس کی وجہ سے دین کاایک حکم آجاتاہے اور اب وہ حکم اس بیمارکے علاوہ قیامت تک کے تمام بیماروں کے لیے ہوتا ہے۔اسی پہلو کی طرف علمائے اصول نے اس ضابطے کے ساتھ اشارہ کیا ہے کہ العبرۃ لعموم اللفظ لا بخصوص السبب اسی طرح قراء توں کے نزول کی وجہ اہل عرب بنے ہیں، ان کی زبان کی پیچیدگیاں تھیں، لیکن اب قراء ات کے نزول کے بعدیہ رخصت قیامت تک کے لوگوں کے لیے باقی ہے۔ اس پہلو سے اگردیکھا جائے تو ہشام بن حکیم رضی للہ عنہ کا سورۃ الفرقان کو ’حروفِ کثیرہ‘کے ساتھ پڑھنا ہو یا فاقرء وا ماتیسَّرکی روشنی میں صحابہ اور تابعین کا مختلف حروف ِسبعہ کو باہم خلط کرکے پڑھنا، جس طرح متقدمین کے لیے اس کی گنجائش تھی اسی طرح متاخرین کے لیے یہ گنجائش بھی تا قیامت موجود ہے۔ علمائے اُصول کا قاعدہ ہے کہ عذر الماضین حُجَّۃ للباقین ۔اس مسئلہ پرحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں بڑی نفیس بحث فرمائی ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اہل قراء ات کے حوالے سے دو ٹوک فرماتے ہیں کہ اہل قراء ات نے خواہ مخواہ ہی ایک بحث کو پیدا کردیا ہے کہ خلط جائز ہے یا ناجائز؟ حلال وحرام قراء کا میدان بحث نہیں، بلکہ فقہاء کا موضوع ہے، چنانچہ قراء کو اس مسئلہ میں حساسیت کی زیادہ ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ فقہاء کی رائے میں اختلاط قراء ات بالکل جائز ہے اور اس کے ناجائز ہونے کی کوئی بنیاد نہیں ہے،کیونکہ جس بنیاد پر صحابہ کے لیے اختلاط جائز تھا، مابعد والوں کے لیے بھی اسی بنیاد پر یہ جائز ہے۔
اب مسئلہ تو یوں ہی ہے لیکن اس میں کچھ باتیں ملحوظ خاطر رکھ لی جائیں:
(١)پہلی بات یہ ہے کہ خلط کی اجازت ان قراء ات میں ہیں، جہاں اختلاط سے عبارت کی غلطی اور معنوی خرابی لازم نہیں آتی۔ اس قسم کے اختلاط کی حرمت پر تمام علماء متفق ہیں۔ مثلا فتلقی ٰادم من ربہ کلمات(البقرہ:۳۷) میں ایک قرا ء ت میں ٰادم فاعل، دوسری میں مفعول ہے اور کلمات اسی ترتیب سے ایک قراء ات میں فاعل، دوسری میں مفعول ہے۔ اب دونوں کو فاعل یا دونوں کو مفعول بنا دینا ناجائز ہے۔
(٢)دوسری بات یہ کہ اگر آپ نے کسی روایت کا التزام کیا ہے کہ میں اس روایت کے ساتھ پڑھوں گا تو آپ کوخلط نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ورشؒ یا حفصؒ کا نام لے کر دیگر روایات کو پڑھنا غلط ہوگا۔ اس کو اہل فن کے ہاں کذب في الروایۃکہتے ہیں اور یہ چیز بشمول حدیث کے ہر فن میں ناجائز ہے۔ اہل قراء ات میں سے بھی جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ خلط علی سبیل الروایہ ناجائز ہے تو وہ ایسی صورت ہی کے بارے میں ہے کہ جب آپ نے کسی روایت کا التزام کیا ہو۔ مثلا اگر آپ کہیں کہ میں سنن ابوداؤد کی روایت بیان کرنے لگا ہوں اور بیان آپ بخاری کی روایت کر دیں یا کئی مجموعہ ہائے احادیث میں ایک واقعہ سے متعلق متفرق احادیث کو جمع کرکے بیان کردیں۔ اب ایسی روایت اللہ کے رسول کا ارشاد تو ہوگا، لیکن اسے امام ابو داؤدرحمہ اللہ کی نسبت سے بیان کرنا غلط ہوگا۔ عین اسی طرح اگر آپ نے کہا کہ میں امام قالون رحمہ اللہ کی روایت سے ابونشیط رحمہ اللہ کا طریق پڑھوں گا تو آپ کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ آپ اس کے اندر کوئی دوسرا طریق داخل کریں۔
اس بات کو ایک اور مثال سے یوں سمجھیں کہ امام شاطبی رحمہ اللہ اور امام جزری رحمہ اللہ دونوں نے اَئمہ سبعہ اور ان کے چودہ تلامذہ کی مرویات اپنی کتب میں بیان کی ہیں، لیکن ان کی روایت میں فرق یہ ہے کہ جن طرق کا التزام امام شاطبی رحمہ اللہ نے کیا ہے، امام جزری رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ بھی بعض طرق کا التزام کیا ہے۔ اب اگر آپ نے کہا کہ میں طریق شاطبی سے پڑھوں گا توطریق شاطبی میں طریق جزری کا اختلاط جائز نہیں ہوگا، البتہ طریق جزری کے التزام کے صورت میں طریق شاطبی کو اس میں خلط کرکے پڑھ سکتے ہیں، کیونکہ طریق شاطبی خود طریق جزری کا ایک حصہ ہے۔ واضح ہوا کہ جب آپ نے کہا کہ میں روایت ورش پڑھوں گا تو روایت کے ورش کے نیچے جو طرق ہیں ان کو آپ خلط ملط کرسکتے ہیں کیونکہ آپ نے ان کی پابندی کا دعوی نہیں کیا۔
(٣)قراء ات اور حدیث کا دارومدار استاد سے پڑھنے پر ہے اور حدثنا، أخبرنا کتابوں سے نہیں ہوتا۔ ہمارا دین حدثنا،أخبرناکے بغیر مقبول نہیں اور حدثنا،أخبرنا صرف استاد سے ہوتا ہے۔ قرآن کی طرح حدیث کے بارے میں بھی یہی بات ہے۔ اسی لیے محدثین کرام کا مشہور مقولہ ہے: لا تأخذوا الحدیث عن الصُّحفِیِّ ولا تاخذوا المصحف عن المُصْحَفِیِّ یعنی مصحف مصحفی سے نہ لو یعنی جو مصحف سے پڑھ کرقاری بنا بیٹھا ہو اور حدیث اس سے نہ لو جس نے صحیفوں سے پڑھ کر اخذ کر لی ہو۔ ایسے آدمی کا علم اس لیے مقبول نہیں، کیونکہ اس کاعلم محدثین کے ہاں منقطع السند ہے ۔
قراء ات اور قرآن کے اندر ایک خاص چیز جو حدیث سے زیادہ ہے وہ یہ ہے کہ قراء ات کی ادا بالاولیٰ بدون استاد مصحف سے اخذ نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے تلقِّی بڑی ضروری ہے۔ الغرض خلط قراء ات کے ضمن میں دوسری ضروری بات یہ ہے کہ خلط قراء ات عالم کے لیے جائز ہے، جاہل کے لیے نہیں۔ جاہل کے لیے اس وجہ سے ناجائز نہیں کہ وہ خلط کررہا ہے بلکہ اس لیے کہ اس نے پڑھا ہی نہیں۔
ان باتوں کے ساتھ خلط کے خواہشمند حضرات کے سامنے یہ حقیقت بھی رہنی چاہیے کہ قدیم وجدید علماء کے اختلاط قراء ات کو جائز کہنے کے باوجود عملاً تمام لوگوں کے ہاں نیا اختیاربنانے کا حوصلہ افزا رویہ نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمتیں کم ہوگئی اور لوگوں نے علوم کی نسبت آئمہ کی طرف کردی تو بڑوں کے ہی اسالیب تلاوت پر اکتفا کرلیا گیا۔ نیا اختیار بنانے کی ان کو نہ ضرورت پیش آئی اور نہ انہوں بالعموم اس کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اسے ایک طرح کی جرأت سمجھا۔ مسئلہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ فقہ میں آئمہ اربعہ سے نسبت کے بعد روایتی فکر میں تقلید کی پابندی اور نئے اجتہادات کو انتہائی قبیح سمجھا جاتا ہے۔بڑے بڑے اصحاب علم تقلید آئمہ ہی پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ بہت تھوڑے لوگ ہیں جو فقہ کی نسبت آئمہ کی طرف کر دینے کے باوجودنئے ادوار اور نئی ضروریات کے تحت نئے اجتہادات فرماتے ہیں، لیکن آئمہ کے ساتھ تمسک کے سلسلہ میں احتیاط ان کے ہاں بھی ہے۔ اب اپنے اسلاف سے ایسی وابستگی کے حاملین قراء ات کے اندر نیا اختیار بنانے کی حوصلہ افزائی بالعموم کس طرح کریں گے؟ خلاصہ یہ ہے کہ شرعاً خلط قراء ات میں کوئی قباحت نہیں ہے اوراس میں کوئی گناہ والی بات بھی نہیں ہے، اس کے باوجود بارہ صدیوں سے عملاًایسا کیا نہیں جارہا، کیونکہ جس کے سامنے اکابرین کی بات کی کوئی عظمت ہوتی ہے، وہ عام طور پر بڑوں کے ساتھ التزام کرلینے میں زیادہ خیر سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید کے حوالے سے نئے اختیارات اور سیٹ متعین کرنا کرنا پر اعتماد آدمی کا کام ہے، لیکن اپنے اسلاف کے بالمقابل ایسااعتماد بڑے بڑے اساتذہ نہیں رکھتے۔اس کی وجہ علم میں پختگی اور اہل علم کی عقیدت ہے ، لیکن چونکہ جاہل میں یہ اعتماد زیادہ ہوتا ہے، اس لیے بالعموم ایسے مسائل کی حساسیت ان میں زیادہ ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٧): قرآن اور قراء ت میں کیا مناسبت ہے اور کیا یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دو مختلف چیزیں ہیں؟
جواب :لغوی اعتبار سے قرآن اور قراء ت میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ قرأ یقرأ کا مصدر قرآنا بھی آتا ہے اور قراء ۃً بھی۔ اسی لیے اہل عقیدہ نے مسئلہ ’خلق قرآن‘کے ضمن میں واضح کیا ہے کہ قرآن کا لفظ بول کر بسا اوقات قراء ت ِقرآن مراد ہوتی ہے اور بسااوقات نفس قرآن مراد ہوتا ہے۔ قرآن بول کر مراد تلاوت قرآن کی مثالوں میں امام ابن ابی العز حنفیؒ نے شرح عقیدہ طحاویہ میں قرآن مجید سے آیت: ’’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ إنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا‘‘(الاسراء:۷۸) اور احادیث میں وارد آپ کے ارشاد: ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(بخاری:۴۹۹۲)کو ذکر کیا ہے۔
اس پہلو سے قرآن اور قراء ت میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن جب فنون تدوین پاجاتے ہیں تو بعد میں لفظ اپنے لغوی معنی کے بجائے اصطلاحی معنوں میں رواج پذیرہوتے ہیں۔اسی طرح قراء ات کا لفظ بعد از تدوین فن بعض مخصوص معانی میں بولا جانے لگا۔ اس ضمن میں متاخرین کے ہاں قراء ات کی تین تعریفیں بیان کی جاتی ہیں:
(١) بعض اہل فن علم قراء ت کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ قرآن کے اختلافی کلمات کا وہ اختلاف،جو اللہ کے رسولﷺکی نسبت سے منقول ہو اور عقل و رائے کا اس میں دخل نہ ہو تو ایسا علم، جس میں ان مختلف فیھا کلمات کے بارے میں بحث کی جائے، کو قرء ات کا علم کہا جاتاہے۔
اس تعریف کی رو سے قراء ات سے مراد قرآنِ کریم کے تمام کلمات کے بجائے صرف وہ مختلف فیہ کلمات مراد ہیں، جن میں ایک سے زیادہ پڑھنے کے اسالیب وانداز ہیں۔ چنانچہ اس تعریف کی رو سے الحمدُ ﷲ ربِّ العالمین،الرحمن الرحیم (الفاتحہ:۱،۲)کا تعلق قرآن کریم سے تو ہے، لیکن علم القراء ات سے نہیں، لیکن مٰلک کا تعلق قرآن کے ساتھ ساتھ قراء ا ت سے بھی ہوگا۔ اس تعریف کی رو سے ہر قراء ت کے ہر کلمہ کا تعلق قرآن سے ضرور ہے، لیکن ہر کلمہ ٔ قرآنی کا تعلق علم القراء ات سے نہیں۔ علم القراء ت کی وہ کتابیں، جن میں قراء ات کے متعلق بحث کی گئی ہے، ان میںقراء ات کی یہی تعریف زیر بحث ہے۔ مثلاً قراء ت کی مشہور کتب شاطبیہ، درہ ، طیبہ یا التیسیر وغیرہ ہیں اور ان کتابوں کے اندر وہ چیزیں، جن میں قراء عشرہ کے مابین اختلاف نہیں ہے، زیر بحث نہیں آتے،بلکہ صرف وہ موضوعات زیربحث آتے ہیں جس میں قراء کے مابین اختلاف ہوا ہے۔
(٢) قراء عشرہ کے اختیارات کے قرا ر پاجانے کے بعد علم القراء ات کی جو تعریفیں سامنے آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قراء ات کا تعلق منقولات وخبر کے قبیل سے ہے یعنی قرآن مجید اور قراء ت میں وہی فرق ہے، جو سنت اور حدیث میں فرق کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید وہ شئے ہے جو قراء ت کے اندر روایت کی جاتی ہے، جبکہ قراء ات قرآن کریم کی روایات کا نام ہیں۔ جیسے قرآن کریم الحمدﷲ رب العالمین کو کہا جائے گا ،لیکن جب اس کو آگے نقل کیا جائے تو جس علم میں اس کو بطورروایت نقل کیا جائے گا تو اس علم کو علم قراء ات کہیں گے۔ اسی تعریف کی رو سے عام استعمالات میں قرآن مجید کے حوالے سے متفق کلمات ہوں مختلف فیہ کلمات، ناقلین سے جو کچھ روایت کیا گیا ہے اسے علم القراء ت کہا جاتا ہے۔ مروج قراء ات عشرہ ،جن میں قرآن کریم کو آئمہ عشر نے متفق فیہ اور مختلف فیہ کلمات ہر دو اعتبار سے بیان کیا ہے، کو عام طور قراء ات عشرہ متواترہ کے نام سے بیان کیا جاتاہے اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ تواترکا تعلق علم ِخبر اور علم ِروایت سے ہے، چنانچہ قراء ت عشرہ متواترہ کا مطلب ہے: روایات ِعشرہ متواترہ ۔ الغرض اس تعریف کی رو سے قراء ت، روایت ِقرآن کو کہتے ہیں اور قرآن مروی (نفس قرآن) کوکہتے ہیں، جو اس روایت کے اندر نقل ہورہا ہوتا ہے۔
(٣) دوسری اور تیسری تعریف ایک ہی ہے، لیکن تیسری تعریف میں کچھ مزید تفصیل بھی ہے اور وہ یہ کہ اس تعریف کی رو سے اہل فن کے ہاں قراء ت کا تعلق روایت کی ایک خاص قسم سے ہے۔ علمائے قراء ات کے ہاں قرآن کی روایات تین قسموں پر مشتمل ہیں۔ اگر وہ روایت آئمہ عشر کی نسبت سے بیان کی جائے تواسے ’قراء ت‘، ان آئمہ کے بیس رواۃ کی نسبت سے بیان کی جائے تو ’روایت‘ اور اگر ان کے ذیلی اسی طرق کی نسبت سے بیان کی جائے تو ’طریق‘کہتے ہیں، جیسے کہ امام نافع رحمہ اللہ یا امام عاصم رحمہ اللہ کی مرویات کی بات ہو تو’قراء ت‘ کہلائے گی اور اگر امام ورش رحمہ اللہ یا امام حفص رحمہ اللہ کی بات ہو تو ’روایت‘ کہلائے گی اورجب ان کے شاگرد مثلا ازرق یا اصبہانی کی طرف اختلاف کی نسبت ہو تواس کو’ طریق‘ کہیں گے۔ قراء ت، روایت اور طریق اگرچہ تینوں لغوی اعتبار سے روایت کے ہم معنی ہیں، لیکن اہل فن کی اصطلاحات میں ورشؒ کی روایت کو قراء ت ورش نہیں کہا جائے گا بلکہ روایت ِورش کہا جائے گا اور قالونؒ کی روایت کو قراء ت ِقالون نہیں، بلکہ روایت قالون کہا جائے گا، جبکہ امام نافع کی روایت کو قراء ت ِ نافع کہا جائے گا ۔اسی طرح سیدنا قالونؒ وغیرہ کے نیچے جوطرق ہوں گے اس میں سیدنا ابونشیط رحمہ اللہ کے طریق کو قراء ت ِابن نشیط یا روایت ِ ابی نشیط نہیں کہا جائے گا بلکہ طریق ِابن نشیط کہا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٨): آپ کے بقول قراء ات ’اختیارات ِائمہ‘ ہیں، اس ضمن میں کچھ مزید وضاحت کردیں ؟
جواب: سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اختیارات کا مفہوم واضح کرلیں۔اختیار کا لغوی معنی کسی شے کو چننا اور پسند کرکے اپنے لیے طے کرلینے کے ہیں ہے۔ جیسے کسی آدمی کو اگر دس کھانے والی چیزیں پیش کی جائیں اوروہ اپنے لیے کسی ایک چیز کو پسند کرکے اٹھا لے تو یہ اس کا ماکولات میں اختیار ہوگا۔ اسی طرح محدثین کرام نے بھی اختیارات فرمائے ہیں، جیسے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کے اندرقبولیت حدیث کے معیار سے قطع نظر جو ایک اضافی معیارِ قبولیت اپنی پسند وذوق کے حوالے طے کیا اور اس معیار کے حوالے سے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے تقریباً ساڑھے سات ہزار احادیث پر مشتمل ایک ذخیرہ تیار کرلیا، تو عام بات کے مطابق اس کو اختیارِ بخاری قرار دیا جائے گا۔ مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں قبولیت حدیث کے ضمن میں رواۃ کی ثقاہت کے حوالے سے عام معیارِ ثقاہت سے بڑھ کر اہتمام کیا یا اتصال سند کے حوالے سے صرف دو افراد، جوآپس میں استاد شاگرد ہوں،ان کی معاصرت کو کافی نہ سمجھنا،بلکہ ملاقات کے تحقُّق کو شرط کے طورپرپیش کرنا، جبکہ صحت ِروایت کے عام معیارمیں یہ شرط موجود نہیں ہے۔ تو اس قسم کی خصوصی شرائط کو ملحوظ رکھ کر امام صاحب رحمہ اللہ نے ایک مخصوص ذخیرہ حدیث اپنے اختیار سے ترتیب دیا ۔ اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنا ایک اختیار ترتیب دیاہے، مثلاً امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے لیے جو شرط ذاتی طور پر اختیار کی اور جو محدثین کے معیار ِصحت سے بالعموم اضافی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے مجموعہ احادیث میں صرف ان صحیح حدیثوں کو نقل نہیں فرمائیں گے جو ان کے ہاں صحیح ہوں یا دیگر آئمہ کے ہاں صحیح ہوں، بلکہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنے ذوق کے مطابق ایسا ذخیرہ احادیث تیار کرنے کی خواہش ظاہر کی کہ وہ تمام حدیثیں جو تمام محدثین کے ہاں بالاتفاق صحیح تھیں،امام مسلم رحمہ اللہ نے یہ پسند کیا کہ ایسا ذخیرہ حدیث ترتیب دیا جائے جس میں تمام متفق علی الصحۃ اَحادیث کو اکٹھا کردیا جائے، چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس طرح سے جو ذخیرہ اَحادیث ترتیب دیا اوربعض دیگر شرطیں بھی انہوں نے اپنے پسند اور اختیار سے اپنے مجموعے میں ابتدا ہی سے ملحوظ خاطر رکھیں ان کی روشنی میں جو ذخیرہ حدیث سامنے آتا ہے وہ امام مسلم ؒکا صحیح احادیث میں انکا ذاتی اختیار ہے۔اس کی ایک مثال اور لے لیں، مثلاً آج بھی مصنّفین نئی طے کردہ ایسی شرائط جو صحت حدیث کی شرائط سے متعارض نہ ہوں، متعین کرکے بعض نئے ذخیرہ اَحادیث بھی مرتب کرسکتے ہیں، مثلاً امام ابن حجررحمہ اللہ نے جو متاخرین کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اَحکام کی حدیثوں کو موضوع بناکراپنا ایک اختیار بلوغ المرام کی صورت میں اُمت کے سامنے پیش کیا ہے۔اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے فضائل اعمال یا سلف صالحین کے ہاں زہد و تقویٰ کے حوالے سے جو ایک شوق پایا جاتا تھا،اس کے حوالے سے ایک خاص اختیار ترتیب دے کرریاض الصالحین کی صورت میں پیش کیا ہے۔آج کے دور میں بعض لوگ ایک سوچ اور رکھتے ہیں کہ تمام ذخیرہ حدیث میں سے تمام صحیح احادیث اور تمام ضعیف روایات پر ایک ذخیرہ ترتیب دے دیا جائے تاکہ قرآن کی مثل حدیث سے بھی استفادہ عام آدمی کے لیے آسان ہو۔ اس ضمن مین شیخ البانی رحمہ اللہ کا سلسلہ احادیث صحیحہ اور سلسلہ اَحادیث ضعیفہ ایک مثال کے طور پر موجود ہے۔ اسی طرح ایک سوچ ایک نئے مجموعہ حدیث کی یہ ہو سکتی ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے اہتمام کی مثال سنن اربعہ، موطا، دار قطنی، بیہقی وغیرہ معروف کتب حدیث سے ان اَحادیث کو نکال کر ایک نیا ذخیرہ (اختیار) پیش کرنا چاہیے جو کہ بالاتفاق محدثین ہو۔ امام حاکم کی المستدرک شروط ِبخاری ومسلم کے معیار پر رہ جانے والی احادیث کا نیا مرتب مجموعہ حدیث ہے۔
بالکل اسی طرح قراء ات کے اندر اختیارات کی بحث ہے۔ آئمہ قراء ات نے اللہ کے رسولﷺ کے ارشاد: (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلُّھا شاف کاف فا قرء وا ما تیسَّر) (بخاری:۴۹۹۲)ے پیش نظر اِن منزَّل من اﷲ قراء ات میں سے جس چیز کو آسان سمجھا اوراپنی ذات کے لیے پسند کیا، انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت کے لیے اپنے متعین اَسالیب اختیار کررکھے تھے، اس وجہ سے ائمہ سے قبل صحابہ کی طرف بھی قراء ات کی نسبت ہوئی ، چنانچہ قراء ت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مراد، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا وہ اختیار ہے جو انہوں نے سبعہ احرف کو باہم ملا جلا کر فاقرؤا ماتیسَّر کی روشنی میں شرعی تسہیل کے مطابق اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیا اور اس کے مطابق وہ پڑھا ،پڑھایا کرتے تھے۔ اسی طرح قراء ات ِاُبی بن کعب سے مراد ابی بن کعب کا اختیار ہے۔ اسی طرح بعض دیگر صحابہ کے اختیارات سامنے آتے ہیں اور وہ ہمیں حدیث کی کتابوں میں ان کی قراء ات کے نام سے ملتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بعد کے ادوار میں آئمہ عشرہ نے اپنے اختیارات ترتیب دیئے ۔
آئمہ میں اپنے ذوق تلاوت کے موافق اختیار کی دو صورتیں رائج رہی ہیں:
ایک صورت ان اختیارات کی یہ تھی کہ موجود روایات جو چلتی آرہی ہیں ان میں سے ہوبہو کسی ایک روایت کو بطورِ طبعی ذوق کے اختیارکرلیاجائے، جیسا کہ قراء ات عشرہ میں جو بیس رواۃ موجود ہیں، بعض آئمہ فقہاء نے کسی ایک مکمل روایت کو اپنے اختیار کاحصہ بنا لیا، مثلا امام مالک رحمہ اللہ کا میلان قراء تِ نافع کی طرف تھا، کیونکہ انہوں نے مدینہ میں امام نافع ؒسے براہ راست ان کے اختیار کو اخذ کیا تھا، چنانچہ مغربی وافریقی ممالک، جہاں فقہ مالکی کا رواج ہے، وہاں سیدنا ورش رحمہ اللہ یا سیدنا قالون رحمہ اللہ کا اختیار مقروء ہے۔ کوفہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو امام عاصم سے تلمذ حاصل رہا چنانچہ برصغیر وغیرہ میں ان کی فقہ کے رائج ہونے کے ساتھ ساتھ امام حفص رحمہ اللہ کا اختیار مقبول ومعمول بہ ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کیاجاتاہے کہ وہ سیدنا حمزہ زیات الکوفی رحمہ اللہ کے اختیار کو مدود اور وقفی وجوہ وغیرہ کی وجہ سے اپنی ذاتی پسند کے اعتبار سے زیادہ پسند نہیں فرماتے تھے، جبکہ دیگر بعض روایات کی طرف ان کا ذوق ِذاتی زیادہ تھا۔ بعض لوگ امام احمدرحمہ اللہ کے حوالے سے اس قسم کی باتوں کو قراء ات کے انکار کی بنیاد بناکر پیش کرتے ہیں، حالانکہ وہ ذاتی اختیار کے اعتبار قراء ت حمزہ کی طرف میلان نہیں رکھتے تھے۔ یہ اسی طرح ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی بندہ روایت خلف عن حمزہ کو اپنا معمول ِ تلاوت بنالیتا ہے، تو گویا کہ یہ اس کا اختیار ہے۔ اسی طرح آج کل ماہرین قراء ات، جو تمام قراء ات اور روایات کو ہی جانتے ہیں، ان کے ہاں بسا اوقات اپنی تلاوتوں کے اندر بعض لہجات زیادہ پسندیدہ ہوتے ہیں، مثلاً مروجہ محافل قراء ات میں عام قراء روایت خلف، جبکہ بعض روایت ورش کو زیادہ پڑھتے ہیں۔
اختیار کادوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ مختلف روایات کو ملا جلا اور جمع کرکے ایک نیا اختیار ترتیب دے دیں۔ آئمہ عشرہ نے عام طور پر دوسری قسم کے اسالیب ِتلاوت اختیار فرمائے ہیں، البتہ امام ورش رحمہ اللہ جب امام نافع رحمہ اللہ کے پاس مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے جوقراء ات پہلے سے اپنے وطن مصر میں پڑھ رکھی تھی، وہ امام نافع رحمہ اللہ پر پیش فرمائی۔ چونکہ امام نافع رحمہ اللہ نے اپنے بعض مشائخ سے یہ اختیار پہلے ہی پڑھا ہوا تھا، چنانچہ ان کو اجازت دے دی۔المختصر امام ورش رحمہ اللہ کی جو روایت ہے وہ امام نافعؒ کا نیا ترتیب شدہ اختیار نہیں تھا بلکہ پہلی قسم کا اختیار تھا، جبکہ امام قالون رحمہ اللہ نے امام نافع رحمہ اللہ کا نیا ترتیب شدہ اختیار نقل فرمایا ہے۔
اختیارات کی تعریف واضح ہوجانے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر بحث کرلی جائے کہ ان آئمہ کویہ حق اختیار کس نے دیا اور کیا ہم بھی آئمہ متقدمین کی طرح کوئی نیا اختیار بنا سکتے ہیں؟
پہلے سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ حق ِاختیار ان کو قرآن مجید اور احادیث رسول نے دیا۔ قرآن مجید کے حوالے سے میں نے یہ بات اس لیے کی کہ پہلے گذر چکا ہے کہ آیت:یرید اﷲ بکم الیسر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی مختلف قراء ات نازل فرمائیں،چنانچہ اَحادیث نبویہ میں اسی پس منظر میں آپ نے ارشاد فرمایا: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلُّھا شاف کاف فاقروا ماتیسَّر(بخاری:۴۹۹۲)۔ اللہ کے رسولﷺکا اپنے صحابہ کو اجازت دی تھی کہ منزل من اللہ حروف وقراء ات میں سے جو صحابی جس طرح چاہئے اپنے سہولت اور ذوق وپسند کے مطابق انداز تلاوت اختیار کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں سینکڑوں ترتیبات ِ تلاوت (اختیارات) وجود میں آچکے تھے۔ تابعین کے دور میں بھی اسی طرح نئے نئے سیٹ (اختیارات) وجود میں آتے رہے، حتیٰ کہ آئمہ عشرہ اور تبع تابعین کا دور آگیا۔ آئمہ عشرہ کے زمانہ میں بھی بے شمار انداز تلاوت موجود تھے، لیکن اس دور میں ہمتیں جب کم ہوگئیں اور لوگوں نے دیگر علوم کی طرح علم قراء ات کو بھی بعض اشخاص کی نسبت سے ہی اخذ کرنا اور پڑھنا شروع کردیا تو بعدازاں آئمہ عشرہ کے اختیارات ہی امت میں رائج ہوگئے اور اب پچھلی بارہ صدیوں سے امت میں یہی اسالیب ِتلاوت رائج ہیں۔
اب سوال کے تیسرے حصے پر بحث کرتے ہیں کہ ہماری رائے کے مطابق یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر آئمہ قراء ات کو حق ِاختیار نصوص شریعت نے دیا تھا تو نصوص ِشریعت چونکہ ابدی ہیں، اس لیے بعد کے زمانوں میں بھی خلط قراء ات کرتے ہوئے نیا اختیار ِقراء ات بنانے کی بہرطور گنجائش ہے، جسے سلف ِ امت سے کسی صورت خاص نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس اجازت کے باوجود ہم عرض کریں گے کہ یہ بات تو روز اَزل سے طے تھی کہ شرعی تسہیلات کو کسی زمانہ سے خاص نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس سوال کے سامنے کی کیا وجوہات ہیں۔ دراصل اس قسم کے سوالات کے پیدا ہونے کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ کہ آئمہ عشرہ کے بعد لوگوں نے بالعموم قراء ات کے اندر وابستگی اور توجہ نہیں رکھی،بلکہ تساہل اور طبعی کسولت کی بنا پر آئمہ قراء ات کی قراء ات پر ہی اکتفاء کرلیا اور یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں اللہ نے قرآن سے وابستگی کے انعام کے طور پر انہی آئمہ کو مقام امامت پر فائز فرماتے ہوئے ان کے اختیارات اور طے کردہ ترتیباتِ تلاوت کو امت میں جاری فرمایا کہ امت پچھلے کئی سو سال سالوں سے بالاتفاق انہی اختیارات پر اکتفا کیے بیٹھی ہے، چنانچہ اگر کوئی آدمی ان آئمہ عشرہ کی طرح قرآن کریم میں کمال پیداکرتاہے اور علم قراء ات کے ساتھ انتہائی وابستگی اختیار کرتاہے تو اس کے لیے کوئی ایسی ممانعت نہیں ہے کہ وہ اپنا نیا اختیار ترتیب نہ دے ، لیکن یہ بات قطعاً مناسب نہیں ہوگی کہ وہ لوگ جو قرآن مجید کے ساتھ ادنیٰ تعلق رکھتے ہوں اور اس کے علوم کے ساتھ ان کی وابستگی انتہائی محدود ہو اور قرآن مجید کی تلاوت واداء اور درس و تدریس میں انہوں نے معمولی حصہ صرف کیا ہو توانہیں بہرحال نیا اختیار بنانے سے بچنا چاہئے،کیونکہ انہیں قرآن مجید کی تلاوت واَداء میں وہ کمال حاصل نہیں کہ جو اس قسم کی تسہیلات سے مستفید ہونے کے لیے بہرحال ایک ضروری امر ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ پہلے سے اختیار شدہ اختیارات کومعمول بنائیں۔
اس بات کی مثال یوں سمجھیں کہ فقہ میں تقلید ِآئمہ کے معمول بن جانے کا ایک پس منظر ہے۔اجتہاد کے حوالے سے یہ بحث کہ کیا اجتہاد کا دروازہ آج بھی کھلا ہوا ہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ متاخرین نے بالعموم متقدمین کے طرح شریعت اور اس کے علوم سے جب وابستگی اختیار نہیں کی تو جمہور اہل علم نے اجتہاد کے دروازے کے بند ہونے کا فتوی جاری کردیا، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں تھاکہ نبوت کی طرح منصب ِاجتہاد کا خاتمہ بھی ان آئمہ فقہاء پر ہوگیا۔یہ علوم چونکہ کسبی ہیں اور ان کا ایک نصاب موجود ہے، چنانچہ جس شے کا نصاب ہو تو کسب کی کمی کا اِزالہ کرتے ہوئے اگر محنت ولگن کے ساتھ متقدمین کی طرح علم میں کمال حاصل کرلیا جائے تو تمام آئمہ کے اجتہاد کرنے کی اجازت ہے۔ بس یہی معاملہ قراء ات کے سلسلہ میں سمجھنا چاہیے۔نیا اختیار بنانا جائز ہے یا نہیں اس پر نظر کرنے کے بجائے اس پر توجہ ہونی چاہیے کہ ہمارا علم قراء ات سے تعلق اور وابستگی کس قدر مضبوط ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(٩): آپ ﷺ اور صحابہ کی قراء ات (اختیارات) کون کون سی تھیں؟ مثلاً عبداللہ بن مسعود، اُبی بن کعب، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ میں بہت بڑے قاری تھے، لیکن یہ کون سی قراء ا ت پڑھا کرتے تھے؟
جواب: صحابہ کی قراء ات، بنیادی طور پر صحابہ کے اختیارات ہیں۔ جس صحابی اور جس امام نے اپنی سہولت اور ذوق کے مطابق جس انداز کو اپنی تلاوت کے لیے اختیار فرمایا، بعدمیں اس کی نسبت اسی کی طرف ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود ، ابی بن کعب ، سعد بن ابی وقاص یا حضرت عائشہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کے ہاں جو جو اندازِ تلاوت رائج تھا، بعد ازاں وہ انہی کی نسبت سے قراء ۃ عبداللہ بن مسعود، قراء ۃ ابی بن کعب، قراء ۃ سعد بن ابی وقاص، قراء ۃ عائشہ اور قراء ۃ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے نام سے معروف ہوا۔ صحابہ کے ان اختیارات کو معلوم کرنے کا ہمارے پاس ذریعہ وہ اَحادیث اور بعض کتب قراء ات ہیں، جن میں بعض صحابہ کی نسبت سے بعض حروف و قراء ات منقول ہیں۔ اُمت میں جو قراء ات متواترہ چلی آرہی ہیں، وہ آئمہ عشرہ کی قراء ات ہی ہیں۔ آئمہ عشرہ کے اختیارات تو درس و تدریس کے اندر معمول بھی ہیں اور معروف بھی ہیں، جبکہ صحابہ، تابعین اور بعض دیگر اصحاب ِ اختیار کے اختیارات آج بھی ان کتب میں موجود ہیں جو صرف لائبریریوں کی زینت ہیں۔ ان میں کافی ساری تصنیفات ایسی بھی ہیں، جو برسہا برس سے تو جہ نہ ملنے کی وجہ سے مخطوطات کی صورت میں محفوظ ہیں۔ان مخطوطات کی حفاظت کا اہتمام بھی عام مکتبات میں موجود نہیں، بلکہ صرف بعض انٹرنیشنل لائبریریوں اور ماہرین ِفن کے ذاتی کتب خانوں میں ملتا ہے۔ان مخطوطات میں نبی کریمﷺ اور بعض قراء صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی اختیار کے بارے میں بھی بعض کتب موجودہیں۔ قراء ات کے مشہور امام ابو عمر حفص الدوری رحمہ اللہ، جن کی روایت سوڈان، صومالیہ وغیرہ میں آج کل بھی رائج ہے، کی تصنیف ِخاص ، جو حال ہی میں مطبوع ہوکر منظر عام پر آئی ہے،میں مؤلف موصوف نے رسول اللہﷺ کے انداز ِتلاوت کو موضوع ِبحث بنا کر آپ کے مجموعہ ہائے اختلافاتِ تلاوت کو حتی المقدور جمع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام دوری رحمہ اللہ نے اس کتاب کا نام جزء فیہ قراء ات النبيﷺ تجویز فرمایا ہے۔ امام دوری رحمہ اللہ نے اس تصنیف ِانیق میں وہ تمام قراء ات جمع فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنی ذاتی سند کے ساتھ، اپنے اساتذہ سے اَخذ کی ہیں۔
 
Top