• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم قرآن یا تفسیرقرآن؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سویلین:
اندرون ملک، قوم کی تربیت واخلاقی حفاظت کے لئے سویلین کا کردار بڑا اہم ہوا کرتا ہے۔جن میں سیاستدان، اینکرز، بیوروکریٹ، سرمایہ دار، زمیندار، ملازم وخادم، مرد وخواتین سبھی وقعت رکھتے ہیں۔ ان میں قرآن کریم کی تعلیم ۔۔۔تلاوت وترجمہ سمیت عام کردی جائے۔

فوجی مجاہد:
جو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے۔ یہ مجاہد تبھی ہے جب جہاد کلمہ حق یعنی اسلام کی سربلندی کے لئے لڑے ۔ مگر اس کے دوسرے ہاتھ میں قرآن ہو تو۔ اس لئے جہاد کے صحیح لطف سے وہی مجاہدہی آشنا ہوسکتا ہے جس نے قرآن کی تعلیم کو اور قرآن کی سربلندی کے جذبہ کو اپنے سینے میں اتارا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ایک سروے:
ہمارا اپنا سروے یہی بتاتا ہے کہ چار فیصد مسلمانوں کا تعلق قرآن مجید کی تلاوت سے ہے۔ لیکن ان میں کتنے ہیں جو اسے سمجھتے ہیں؟۔ایک اور سروے یہ بھی ہے کہ ائمہ وخطباء حضرات کی اکثریت ترجمہ قرآن تک نہیں جانتی۔نتیجۃً چھیانوے فیصد آبادی تلاوت قرآن کو نہیں جانتی۔ہماری یہ لاتعلقی ۔۔۔ دین سے لاتعلقی ہے جس کا نتیجہ لادینیت کا مستقبل ہے اور جس کی زد میں ہماری نسلیں آچکی ہیں۔مزید ہمارا مستقبل کیا ہوسکتا ہے ؟ یہ ہم سب کے سوچنے کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ترجمہ ومفہوم قرآن :
۱۔ معانی قرآن میں غور خوض کرنا بھی تلاوت میں مطلوب ہے۔ عبرت کے ہر مقام پر ذرا ٹھہرنا، غور کرنا اور وعدہ ووعید سے اثر لینا قلبی اصلاح کی علامت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
{اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَطوَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا}(النساء: ۸۲)
کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں لوگ اختلاف پاتے۔

پھر مومن کی یہ صفت ہوجاتی ہے::
{وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوْعًا}۔(الاسراء : ۱۰۹)
وہ قرآن سنتے ہی اپنے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور ان کے خشوع میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۲۔ حق تلاوت کے بعد اس کا لفظی ترجمہ اورتفسیر سیکھنا ضروری ہے۔ عرب اگر رسول اکرم ﷺ کے دور میں اس کے معنی ومفہوم کو سمجھنے کے ضرورتمند تھے تو ہم کیوں نہیں؟ حالانکہ ان کے لئے تبیین تھی مگر پھر بھی انہیں حطۃ کا لفظ دے کر اور ظلم کا مفہوم سمجھاکر واضح کیا گیا کہ تم بھی اس کے ترجمہ ومفہوم اور تفسیر سیکھنے کے محتاج ہو۔

طالب علم کے اس کا سیکھنا بھی بہت ضروری ہے خواہ وہ عرب ہی کیوں نہ ہو۔عربی زبان میں لفظ ترجمہ کا مطلب بیان اور وضاحت کرنا ہے۔اصطلاح میں دوسری زبان کے کلام کی تعبیر اپنی زبان میں کرنا ترجمہ کہلاتا ہے۔اس طرح ترجمہ قرآن سے مراددوسری زبان سے قرآن کے عربی کلمات کی تعبیر کو واضح کرنا ہے۔ یہ ترجمہ دو قسم کا ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۱۔ لفظی ترجمہ :
یعنی ہر حرف کے نیچے اس کا لفظی ترجمہ لکھا ہو۔

۲۔ معنوی ترجمہ:
کلام اللہ کے مفہوم کی تعبیر دوسری زبان میں یوں کرنا کہ الگ الگ لفظ کے معنی اور ترتیب کا اس میں لحاظ نہ رکھا جائے۔یہ ایک گونہ تفسیری ترجمہ ہوجاتا ہے۔

ترجمہ کے بارے میں علماء کی رائے :
اکثرعلماء کا یہی کہنا ہے کہ قرآن کریم کا لفظی ترجمہ ناممکن ہے۔ کیونکہ اس قسم کے ترجمہ کے لئے چند شروط درکارہیں جو ترجمہ میں ہونا ممکن نہیں۔

۱۔کیا وہ قرآنی کلمہ اس زبان میں موجود ہے جس میں ترجمہ کیا جارہا ہے؟ یعنی اس میں خود اتنی اور ایسی ہی جامعیت اور قوت ہے۔ یا اس سے مشابہ ہے؟

۲۔ کیا اس زبان کے جملوں ، صفات اور اضافوں میں ایسی ترتیب باقی رہتی ہے جو قرآن کی زبان میں ہے؟

اس لئے بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ آیت کے کچھ حصے کا لفظی ترجمہ تو ممکن ہے مگر ساری آیت کا نہیں۔نیز اس کے کامل معنی کی ادائیگی دوسری زبان کے لئے ممکن نہیں اور نہ ہی وہ ترجمہ عربی کی طرح نفوس میں اپنی تاثیر رکھتا ہے لہذا لفظی ترجمہ کی ضرورت نہیں۔اس لئے جن حساس کلمات کا لفظی ترجمہ دوسری زبان میں نہ ہو تو پھر شرعاً ایسا کرنا ممنوع ہے۔ مثلاً {استوی علی العرش} کا لفظی ترجمہ۔ دوسری زبان میں ہے ہی نہیں۔ہاں دوسرے آسان کلمات کا ترجمہ محض زبان سمجھانے کے لئے ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رہا قرآن کریم کا معنوی ترجمہ، تو یہ اصلاً جائز ہے کیونکہ اس پر لفظی ترجمے جیسی کوئی پابندی نہیں بلکہ ایسا کرنا فرض ہے ورنہ عربوں اور غیر عربوں تک قرآن کریم کی بات کیسے پہنچے گی؟ کیونکہ ابلاغ قرآن تو واجب ہے۔ مگراس کی بھی کچھ شروط ہیں :

۱۔ اس ترجمہ کو قرآن کا بدل نہ سمجھا جائے کہ اب قرآن پاک عربی میں پڑھنے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ایسی صورت میں صفحات قرآنی پر ترجمہ کو ایک طرف لکھا جاسکتا ہے تاکہ اس کی تفسیر سمجھ آجائے۔

۲۔ مترجم دونوں زبانوں کے عام الفاظ اور شرعی الفاظ کے معانی کو سمجھتا ہو اور ان کے سیاق کو بھی۔صحیح ترجمہ کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ عربی الفاظ کا معنوی ادراک طلبہ کو ہو۔لفظ کا مادہ، اس کی اعرابی حالت، معنوی بلاغت اوراس کا مفہوم اولاً قرآن سے ، پھر سنت نبوی سے اور پھر صحابہ وتابعین کرام سے اجاگر کیا جائے تاکہ اسلاف کے ساتھ مسلمان جڑا رہے۔آخر میں سلائیڈز یا کسی اچھے مجود کی تلاوت بھی بڑی مؤثر ہوسکتی ہے۔

۳۔ ترجمہ وہی قبول کیا جائے جو صحیح العقیدہ مسلمان کا ہو اور دین پر گامزن ہو۔بے دین وبدعمل یا بدعقیدہ کے ترجمہ سے حتی الامکان پرہیز کی جائے۔

۴۔ آج کل ایسے ترجمہ کی بالخصوص ضرورت ہے جو بغیر کسی تحفظات کے نص اور فکر قرآنی کے مطابق صحیح معنی پیش کرتا ہو۔ اس لئے کہ الفاظ قرآن کے معنی میں خطأ جب محض ثانوی مصادر اور غیر دقیق معلومات کے ذریعے غیروں تک پہنچتی ہے تو ہماری ثقافت اور عقیدہ پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے۔ بعض ترجمے تو بہت ہی حیرت انگیز نمائندگی کرتے ہیں۔ترجمے سے اہم نتائج ماخوذ کرنے میں ناکامی کا سبب شاید دینی معاملات میں علم کی کمی ، عربی لغت سے نابلدی ، یا عربی زبان میں منقول غیروں کی ثقافت میں صحیح معرفت کی کمی ہے جس سے ترجمہ راستی وگہرائی سے ہٹ جاتا ہے۔اور اصل عربی میں واقع عظیم معانی سے وہ شخص محروم ہوجاتا ہے جو اسے جاننے کی خواہش رکھتا ہے۔ غالباً یہی وہ ترجمے ہیں جو اسلام اور اہل اسلام کی صورت کو میڈیا میں بگاڑ رہے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ جرمنی کے بیاسی فیصد باشندے اسلام کو دہشت گرد دین سمجھتے اور خوف اور شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس میں ہمارا اپنا قصور ہے کہ ہم نے اسلامی مصادر کی صحیح ، راسخ اور سمجھ میں آنے والی واضح اورعمدہ زبان میں ترجمانی ہی نہیں کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭…ترجمہ قرآن کے بارے میں صوفی حضرات افراط وتفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ ابن عربی جو صوفیاء کے شیخ اکبر ہیں وحدت الوجود کی جب عینک لگاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے قرآن کا جواب لکھ رہے ہیں اور ہر مشرک انہیں موحد نظر آتا ہے۔ انہی کے معتقد شیخ تلمسانی فصوص الحکم کی شرح کیا کرتے جب فصوص میں وارد خلاف شرعی مسائل پرکوئی اعتراض کرتا تو معترضین پر کم عقلی کا الزام لگاتے اور کبھی کبھی کفریہ بات بھی کر دیا کرتے۔امام ابنؒ تیمیہ لکھتے ہیں:

شیخ کمال الدین ابن المراغی کو ابتداء میں تلمسانی سے بڑی عقیدت تھی وہ ان سے فصوص الحکم پڑھتے۔ایک بار اثناء درس میں کمال الدین نے فصوص کی بعض قابل اعتراض باتوں پر گرفت کی اور کہا کہ قرآن وحدیث کے واضح ارشادات کے خلاف یہ باتیں ہیں تو تلمسانی کو سخت غصہ آگیا اور کہا: بار بار قرآن وحدیث کا کیا حوالہ دیتے ہو انہیں اٹھا کر دروازے سے باہر پھینک دو اور یہاں صاف دل ہوکر آیا کرو تاکہ تمہیں خالص توحید ملے۔بعد میں احساس ہوا کہ میں نے کیا بات کردی تو بدنامی اور شہرت کے ڈر سے خود کمال الدین کے پاس آئے اور ان سے معافی مانگی۔

شیخ کمال الدین ہی کی روایت(امام ابن تیمیہ مصنفہ کورکن عمری: ۳۲۱) ہے:

ایک مرتبہ شیخ تلمسانی نے کہا: قرآن میں توحید ہے کہاں؟ وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا۔شیخ کمال الدین نے ایک مرتبہ اعتراض کیا: اگر عالم کے ساری چیزیں ایک ہیں جیسا کہ آپ کا عقیدہ ہے تو پھر آپ کے نزدیک جورو ،بیٹی اور ایک اجنبی عورت میں کیا فرق ہے؟ تلمسانی نے جواب دیا: ہمارے ہاں تو کوئی فرق نہیں چونکہ ان محجوبوں (اہل شریعت) نے ان کو حرام قرار دیا ہے تو ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ جیزیں تم پر حرام ہیں ورنہ ہم پر کوئی چیز حرام نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دوسرے گروہ کو اس کی تعلیمات واحکام سے کوئی غرض نہیں بلکہ وہ اس کے تعویذ وعملیات بنانے اور محض اس کی تلاوت میں اتنا ثواب حاصل کرنے یا فوت شدہ لوگوں کو بھیجنے میں مصروف ہے جس کا آپ وہم وگمان نہیں کرسکتے۔ مشہور صوفی بشر حافی قرآن کی برکات اور اس کا ثواب اس انداز سے پیش کرتے ہیں:

ایک بار میں نے قبرستان میں مردوں کو دیکھا کہ آپس میں کچھ بانٹ رہے ہیں۔ میں نے دعا کی : الہی! ماجرا کیا ہے؟ حکم ہوا : ان سے پوچھو۔ میں نے پوچھا : کیا بانٹ رہے ہو؟ جواب دیا: آٹھ روز ہوئے ایک اللہ کا بندہ اس طرف سے گذرا، اس نے تین بار قل شریف کا ثواب پڑھ کر ہمیں بخشا۔ اسی کو اب تک بانٹ رہے ہیں جو ابھی ختم نہیں ہوا۔(مقربان حق: ۸۱)

 
Top