• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا سَنُرَ‌اوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ﴿٦١﴾
انہوں نے کہا ہم اس کے باپ کو اس کی بابت پھسلائیں گے اور پوری کوشش کریں گے (١)۔
٦١۔١ یعنی ہم اپنے باپ کو اس بھائی کو لانے کے لئے پھسلائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِ‌حَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِ‌فُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ ﴿٦٢﴾
اپنے خدمت گاروں سے کہا کہ (١) ان کی پونجی انہی کی بوریوں میں رکھ دو (٢) کہ جب لوٹ کر اپنے اہل و عیال میں جائیں اور پونجیوں کو پہچان لیں تو بہت ممکن ہے کہ پھر لوٹ کر آئیں۔
٦٢۔١ فِتْیَان (نوجوانوں) سے مراد یہاں وہ نوکر چاکر اور خادم و غلام ہیں جو دربار شاہی میں مامور تھے۔
٦٢۔٢ اس سے مراد وہ پونجی ہے جو غلہ خریدنے کے لئے برادران یوسف علیہ السلام ساتھ لائے تھے، پونجی چپکے سے ان کے سامانوں میں اس لئے رکھوا دی کہ ممکن ہے دوبارہ آنے کے لئے ان کے پاس مذید پونجی نہ ہو تو یہی پونجی لے کر آجائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا رَ‌جَعُوا إِلَىٰ أَبِيهِمْ قَالُوا يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْ‌سِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٦٣﴾
جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ ہم سے تو غلہ کا ناپ روک لیا گیا (١) اب آپ ہمارے ساتھ بھائی کو بھیجئے کہ ہم پیمانہ بھر کر لائیں ہم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہیں۔
٦٣۔١ مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لئے غلہ بنیامین کے بھیجنے کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر یہ ساتھ نہیں جائے گا تو غلہ نہیں ملے گا۔ اس لئے اسے ضرور ساتھ بھجیں تاکہ ہم دوبارہ بھی اسی طرح غلہ مل سکے، جس طرح اس دفعہ ملا ہے، اور اس طرح کا اندیشہ نہ کریں جو یوسف علیہ السلام کو بھیجتے ہوئے کیا تھا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّـهُ خَيْرٌ‌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ ﴿٦٤﴾
(یعقوب علیہ السلام نے) کہا مجھے تو اس کی بابت تمہارا بس ویسا ہی اعتبار ہے، جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تھا (١) بس اللہ ہی بہترین محافظ ہے اور وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔۲
٦٤۔١ یعنی تم نے یوسف علیہ السلام کو بھی ساتھ لے جاتے وقت اسی طرح حفاظت کا وعدہ کیا تھا لیکن جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے، اب میں تمہارا کس طرح اعتبار کروں۔
٦٤۔٢ تاہم چونکہ غلے کی شدید ضرورت تھی۔ اس لئے اندیشے کے باوجود بنیامین کو ساتھ بھیجنے سے انکار مناسب نہیں سمجھا اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُ‌دَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَـٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُ‌دَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ‌ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ‌ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ‌ ﴿٦٥﴾
جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو اپنا سرمایا موجود پایا جو ان کی جانب لوٹا دیا گیا تھا کہنے لگے اے ہمارے باپ ہمیں اور کیا چاہیے (١) دیکھئے تو ہمارا سرمایا بھی واپس لوٹا دیا گیا ہے، ہم اپنے خاندان کو رسد لا دیں گے اور اپنے بھائی کی نگرانی رکھیں گے اور ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ زیادہ لائیں گے (١) یہ ناپ تو بہت آسان ہے (۳)۔
٦٥۔١ یعنی بادشاہ کے اس حسن سلوک کے بعد، کہ اس نے ہماری خاطر تواضع بھی خوب کی اور ہماری پونجی بھی واپس کر دی، اور ہمیں کیا چاہیئے۔
٦٥۔٢ کیونکہ فی کس ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا تھا، غلہ دیا جاتا تھا، بنیامین کی وجہ سے ایک اونٹ کے بوجھ بھر غلہ مذید ملتا۔
٦٥۔٣ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ کے لئے ایک بار شتر غلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، آسان ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذٰ لِکَ کا اشارہ اس غلے کی طرف ہے جو ساتھ لائے تھے۔ اور یسیر بمعنی قلیل ہے یعنی جو غلہ ہم ساتھ لائے ہیں قلیل ہے بنیامین کے ساتھ جانے سے ہمیں کچھ غلہ اور مل جائے گا تو اچھی ہی بات ہے ہماری ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہو سکے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ لَنْ أُرْ‌سِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ ﴿٦٦﴾
یعقوب علیہ السلام نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول و قرار نہ دو کہ تم اسے میرے پاس پہنچا دو گے، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کر لئے جاؤ (١) جب انہوں نے پکا قول قرار دے دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔
٦٦۔١ یعنی تمہیں اجتماعی مصیبت پیش آجائے یا تم سب ہلاک یا گرفتار ہو جاؤ، جس سے خلاصی پر تم قادر نہ ہو، تو اور بات ہے۔ اس صورت میں تم معذور ہو گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّ‌قَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿٦٧﴾
اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا (١) میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے (٢) میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔
٦٧۔١ جب بنیامین سمیت، گیارہ بھائی مصر جانے لگے، تو یہ ہدایت دی، کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے، جو قد و قامت اور شکل و صورت میں بھی ممتاز ہوں، جب اکٹھے ایک ہی جگہ یا ایک ساتھ کہیں سے گزریں گے تو عموماً انہیں لوگ تعجب یا حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ انہیں نظر بد سے بچانے کے لئے بطور تدبیر یہ حکم دیا ' نظر لگ جانا حق ہے 'جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً ' اَ لْعَیْنُ حَق' نظر کا لگ جانا حق ہے '۔ صحیح بخاری صحیح مسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی امت کو بتالئے ہیں مثلا فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بارک اللہ کہو۔ مؤطا امام مالک جس کی نظر لگے اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا یہ پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو حوالہ مذکورہ اسی طرح ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ پڑھنا قرآن سے ثابت ہے سورہ کہف قل اغوذ برب الفلق اور قل اغوذ برب الناس نظر کے لیے بطور دم پڑھنا چاہیے جامع ترمذی
٦٧۔٢ یعنی یہ تاکید بطور ظاہری اسباب، احتیاط اور تدبیر کے ہے جسے اختیار کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے، تاہم اس سے اللہ تعالٰی کی تقدیر و قضا میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہوگا وہی، جو اس کی قضا کے مطابق اس کا حکم ہوگا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَ‌هُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٦٨﴾
جب وہ انہیں راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا گئے۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وہ اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے۔ مگر یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا جسے اس نے پورا کر لیا (١) بلاشبہ وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (٢)
٦٨۔١ یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب علیہ السلام کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔
٦٨۔٢ یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالٰی کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بےبہرہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٦٩﴾
یہ سب جب یوسف کے پاس پہنچ گئے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس یہ جو کچھ کرتے رہے اس کا کچھ رنج نہ کر (١)۔
٦٩۔١ بعض مفسرین کہتے ہیں دو دو آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں ٹھرایا گیا، یوں بنیامین جو اکیلے رہ گئے تو یوسف علیہ السلام نے انہیں تنہا الگ ایک کمرے میں رکھا اور پھر خلوت میں ان سے باتیں کیں اور انہیں پچھلی باتیں بتلا کر کہا کہ ان بھائیوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، اس پر رنج نہ کر اور بعض کہتے ہیں کہ بنیامین کو روکنے کے لئے جو حیلہ اختیار کرنا تھا، اس سے بھی انہیں آگاہ کر دیا تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَ‌حْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ‌ إِنَّكُمْ لَسَارِ‌قُونَ ﴿٧٠﴾
پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کر کے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ (١) رکھوا دیا پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو! (٢) تم لوگ تو چور ہو (٣)۔
٧٠۔١ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔
٧٠۔٢ الْعیر اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کر لے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔
٧٠۔٣ چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف علیہ السلام کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔
 
Top