• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ ﴿٧١﴾
انہوں نے ان کی طرف منہ پھیر کر کہا تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے؟
قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ‌ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ ﴿٧٢﴾
جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا۔ اس وعدے کا میں ضامن ہوں (١)
٧٢۔١ یعنی میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کی تفتیش سے قبل ہی جو شخص یہ جام شاہی ہمارے حوالے کر دے گا تو اسے انعام یا اجرت کے طور پر اتنا غلہ دیا جائے گا جو ایک اونٹ اٹھا سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا تَاللَّـهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا كُنَّا سَارِ‌قِينَ ﴿٧٣﴾
انہوں نے کہا اللہ کی قسم! تم کو خوب علم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں۔
٧٣۔١ برداران یوسف علیہ السلام چونکہ اس منصوبے سے بےخبر تھے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے تیار کیا تھا، اس لئے قسم کھا کر انہوں نے اپنے چور ہونے کی اور زمین میں فساد برپا کرنے
کی نفی کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ ﴿٧٤﴾
انہوں نے کہا اچھا چور کی کیا سزا اگر تم جھوٹے ہو؟ (١)
٧٤۔١ یعنی اگر تمہارے سامان میں وہ شاہی پیالہ مل گیا تو پھر اس کی کیا سزا ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا جَزَاؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَ‌حْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ ﴿٧٥﴾
جواب دیا اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے اسباب میں سے پایا جائے وہی اس کا بدلہ ہے (١) ہم تو ایسے ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں (٢)۔
٧٥۔١ یعنی چور کو کچھ عرصے کے لئے اس شخص کے سپرد کر دیا جاتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہوتی تھی۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں سزا تھی، جس کے مطابق یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ سزا تجویز کی۔
٧٥۔٢ یہ قول بھی برادران یوسف علیہ السلام ہی کا ہے، بعض کے نزدیک یہ یوسف علیہ السلام کے مصاحبین کا قول ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ لیکن آیت کا اگلا ٹکڑا کہ ' بادشاہ کے دین میں وہ اپنے بھائی کو پکڑ نہ سکتے تھے ' اس قول کی نفی کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَ‌جَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ نَرْ‌فَعُ دَرَ‌جَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ﴿٧٦﴾
پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا (١) ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی (٢) اس بادشاہ کی قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے جاسکتا تھا (٣) مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیں (٤) ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے (٥)۔
٧٦۔١ پہلے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کا سامان دیکھا تاکہ انہیں شبہ نہ ہو کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔
٧٦۔٢ یعنی ہم نے وحی کے ذریعے سے یوسف علیہ السلام کو یہ تدبیر سمجھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح غرض کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی ظاہری صورت حیلہ کی ہو، جائز ہے بشرطیکہ وہ طریقہ کسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو (فتح القدیر)
٧٦۔٣ یعنی بادشاہ مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا، اس کی روح سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اہل قافلہ سے پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی سزا کیا ہو۔
٧٦۔٤ جس طرح یوسف علیہ السلام کو اپنی عنایات اور مہربانیوں سے بلند مرتبہ عطا کیا۔
٧٦۔٥ یعنی ہر عالم سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی عالم ہوتا ہے اس لئے کوئی صاحب علم اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو کہ میں ہی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب علم کے اوپر ایک علیم یعنی اللہ تعالٰی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا إِن يَسْرِ‌قْ فَقَدْ سَرَ‌قَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّ‌هَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ‌ مَّكَانًا ۖ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ ﴿٧٧﴾
انہوں نے کہا اگر اس نے چوری کی (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) اس کا بھائی بھی پہلے چوری کر چکا ہے (١) یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہ کیا۔ کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو (٢) اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے۔
٧٧۔١ یہ انہوں نے اپنی پاکیزگی و شرافت کے اظہار کے لئے کہا۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین، ان کے سگے اور حقیقی بھائی نہیں تھے، علاتی بھائی تھے، بعض مفسرین نے یوسف علیہ السلام کی چوری کے لئے دو راز کار باتیں نقل کی ہیں جو کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کو تو نہایت با اخلاق اور باکردار باور کرایا اور یوسف علیہ السلام اور بنیامین کو کمزور کردار کا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انہیں چور اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔
٧٧۔٢ حضرت یوسف علیہ السلام کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف چوری کے انتساب میں صریح کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرً‌ا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَ‌اكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٧٨﴾
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! (١) اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں (٢)۔
٧٨۔١ حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف علیہ السلام کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرمانروائے مصر تھا۔
٧٨۔٢ باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف علیہ السلام والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف علیہ السلام کی طرح کہیں گم کر دیا۔ اس لئے یوسف علیہ السلام کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کر دیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ ﴿٧٩﴾
یوسف (علیہ السلام) نے کہا ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے کی گرفتاری کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ایسا کرنے سے تو ہم یقیناً نا انصافی کرنے والے ہوجائیں گے (١)۔
٧٩۔١ یہ جواب اس لئے دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا اصل مقصد تو بنیامین کو روکنا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُ‌هُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّ‌طتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَ‌حَ الْأَرْ‌ضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّـهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ‌ الْحَاكِمِينَ ﴿٨٠﴾
جب یہ اس سے مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے (١) ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں (٢) یا اللہ تعالٰی میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
٨٠۔١ کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟
٨٠۔٢ اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ارْ‌جِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَ‌قَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ ﴿٨١﴾
تم سب والد صاحب کی خدمت میں واپس جاؤ اور کہو کہ ابا جی! آپ کے صاحب زادے نے چوری کی اور ہم نے وہی گواہی دی تھی جو ہم جانتے تھے (١) ہم کچھ غیب کی حفاظت کرنے والے نہ تھے (٢)۔
٨٠۔١ یعنی ہم نے جو عہد کیا تھا کہ ہم بنیامین کو باحفاظت واپس لے آئیں گے، تو یہ ہم نے اپنے علم کے مطابق عہد کیا تھا، بعد میں جو واقعہ پیش آگیا اور جس کی وجہ سے بنیامین کو ہمیں چھوڑنا پڑا، یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے ہم نے چوری کی جو سزا بیان کی تھی چور کو ہی چوری کے بدلے میں رکھ لیا جائے، تو یہ سزا ہم نے اپنے علم کے مطابق ہی تجویز کی تھی۔ اس میں کسی قسم کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔ لیکن یہ اتفاق کی بات تھی کہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو مسروقہ کٹورا بنیامین کے سامان سے نکل آیا۔
٨١۔٢ یعنی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے ہم بےخبر تھے۔
 
Top