• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ‌ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴿٢١٥﴾
آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لیے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے (١) اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالٰی کو اس کا علم ہے۔
٢١٥۔١ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کیے جا رہے ہیں، یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انفاق کا یہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے، زکوۃ سے متعلق نہیں۔ کیوں کہ ماں باپ پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے۔ حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا "مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا" مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے۔ افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْ‌هٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَ‌هُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ‌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٢١٦﴾
تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو، حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو۔ (١)
٢١٦۔١ جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو، چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے۔ اس لیے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالٰی جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ ہو سکتا ہے، اس میں تمہارے لیے بہتری ہو۔ جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح و غلبہ، عزت و سر بلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے، اسی طرح تم جس کو پسند کرو، (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، یعنی دشمن تم پر غالب آ جائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ‌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَإِخْرَ‌اجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ‌ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ‌ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُ‌دُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْ‌تَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ‌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧﴾
لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ ان میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے، لیکن اللہ کی راہ سے روکنا، اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے، (١) یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں (٢) اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیووی اور اخروی سب غارت ہو جائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے۔ (۳)
٢١٧۔١ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانۂ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے، جن میں قتال و جدال ناپسندیدہ تھا۔ اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہو گیا اور بعض کافر قیدی بنا لیے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہو گیا ہے۔ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقیناً حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے، لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا؟ یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر انہوں نے مجبور کردیا۔ علاوہ ازیں کفر و شرک بجائے خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس لیے اگر مسلمانوں سے غلطی سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہو گیا تو کیا ہوا؟ اس پر واویلا کرنے کے بجائے ان کو اپنا نامۂ سیاہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے۔
٢١٧۔٢ جب یہ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد بنانے کی کوششوں سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقابلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو؟
٢١٧۔٣ جو دین اسلام سے پھر جائے، یعنی مرتد ہو جائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیاوی سزا قتل ہے۔ حدیث میں ہے: [مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ] (صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب لا يعذب بعذاب الله) آیت میں اس کی اخروی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کیے گئے اعمال صالحہ بھی کفر و ارتداد کی وجہ سے کالعدم ہو جائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح کفر و ارتداد سے تمام نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہو گا جب خاتمہ کفر پر ہو گا، اگر موت سے پہلے تائب ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہو گا، یعنی مرتد کی توبہ مقبول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ يَرْ‌جُونَ رَ‌حْمَتَ اللَّـهِ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢١٨﴾
البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالٰی بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ‌ وَالْمَيْسِرِ‌ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ‌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ‌ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٢١٩﴾
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے (١) اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ (٢) ہے۔ آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زیادہ چیز، (٣) اللہ تعالٰی اسی طرح اپنے احکام صاف صاف تمہارے لیے بیان فرما رہا ہے، تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔
٢١٩۔١ یہ گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔
٢١٩۔٢ فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے، مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی و مستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آ جاتی ہے۔ جنسی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کے لیے اس کا استعمال عام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی خرید و فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے، لیکن یہ فائدے ان نقصانات و مفاسد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ "ان کا گناہ، ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے۔" اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام تو قرار نہیں دیا گیا، تاہم اس کے لیے تمہید باندھ دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک بہت اہم اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز میں چاہے وہ کتنی بھی بری ہو، کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور دیگر اس قسم کی ایجادات ہیں اور لوگ ان کے بعض فوائد بیان کر کے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے۔ خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحا ظ سے۔ اگر دینی نقطۂ نظر سے نقصانات و مفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیاوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔
٢١٩۔٣ اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے، یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا، جس پر فرضیت زکٰوۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا، تاہم افضل ضرور ہے، یا اس کے معنی ہیں مَا سَهُلَ وَتَيَسَّرَ وَلَمْ يَشُقْ عَلَى الْقَلْبِ (فتح القدير) ”جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے“ اسلام نے یقیناً انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے۔ لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیر کفالت افراد کی خبر گیری اور ان کی ضروریات کو مقدم رکھنے میں حکم دیا ہے۔ دوسرے، اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہل خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ‌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٢٠﴾
دنیا اور آخرت کے امور کو۔ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، بد نیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، (٢) یقیناً اللہ تعالٰی غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
٢٢٠۔١ جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لیے وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کر دی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی، اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پا جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)
٢٢٠۔٢ یعنی تمہیں بغرض اصلاح و بہتری بھی، ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِ‌كَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ‌ مِّن مُّشْرِ‌كَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِ‌كِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ‌ مِّن مُّشْرِ‌كٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَـٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ‌ ۖ وَاللَّـهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَ‌ةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٢٢١﴾
اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو، (١) ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔ یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان فرما رہا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
٢٢١۔١ مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں۔ کیوں کہ اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہو سکتا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا ہے (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظر انداز کر کے محض حسن و جمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب، حسن و جمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو۔ (صحيح بخاری، كتاب النكاح، باب الأكفاء في الدين۔ وصحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب استحباب نكاح ذات الدين) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے۔ فرمایا: خيرُ متاعِ الدنيا المرأةُ الصالحةُ (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا المرأة الصالحة)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَ‌بُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْ‌نَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْ‌نَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَ‌كُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِ‌ينَ ﴿٢٢٢﴾
آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو (١) اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہو جائیں (٢) تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی (٣) ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
٢٢٢۔١ بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے، اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے، اسے استحاضہ کہتے ہیں، جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔ حیض کے ایام میں عورت کے لیے نماز معاف ہے اور روزے رکھنا ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مرد کے لیے صرف ہم بستری منع ہے، البتہ بوس و کنار جائز ہے۔ اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر گھر کا ہر کام کر سکتی ہے، لیکن یہودیوں میں ان دنوں میں عورت کو بالکل نجس سمجھا جاتا تھا، وہ اس کے ساتھ اختلاط اور کھانا پینا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اس کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو یہ آیت اتری، جس میں صرف جماع کرنے سے روکا گیا۔ علیحدہ رہنے اور قریب نہ جانے کا مطلب صرف جماع سے ممانعت ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ )
٢٢٢۔٢ جب وہ پاک ہو جائیں۔ اس کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں ”ایک خون بند ہو جائے“ یعنی پھر غسل کیے بغیر بھی پاک ہیں، مرد کے لیے ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ ابن حزم اور بعض ائمہ اس کے قائل ہیں۔ علامہ البانی نے بھی اس کی تائید کی ہے (آداب الزفاف ص 47) دوسرے معنی ہیں، خون بند ہونے کے بعد غسل کر کے پاک ہو جائیں۔ اس دوسرے معنی کے اعتبار سے عورت جب تک غسل نہ کر لے، اس سے مباشرت حرام رہے گی۔ امام شوکانی نے اس کو راجح قرار دیا ہے (فتح القدیر) ہمارے نزدیک دونوں مسلک قابل عمل ہیں، لیکن دوسرا قابل ترجیح۔
٢٢٢۔٣ ”جہاں سے اجازت دی ہے“ یعنی شرمگاہ سے۔ کیوں کہ حالت حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب اسی (فرج، شرمگاہ) کی اجازت ہے، نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید صراحت کر دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نِسَاؤُكُمْ حَرْ‌ثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْ‌ثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢٢٣﴾
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو (١) آؤ اور اپنے لیے (نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوش خبری دیجئے۔
٢٢٣۔١ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر (مُدْبِرَةً) مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آ جاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ "اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو، آؤ" اور یہ کھیتی (موضع ولد) صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٢٤﴾
اور اللہ تعالٰی کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیزگاری اور لوگوں کے درمیان کی اصلاح کو چھوڑ بیٹھو (١) اور اللہ تعالٰی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
٢٢٤۔١ یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ میں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا، فلاں سے نہیں بولوں گا، فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لیے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر کھا لو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارۂ قسم کے لیے دیکھیے: سورۃ المائدۃ، آیت89)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ حَلِيمٌ ﴿٢٢٥﴾
اللہ تعالٰی تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں (١) ہاں اس کی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو، اللہ تعالٰی بخشنے والا اور بردبار ہے۔
٢٢٥۔١ یعنی جو غیر ارادی اور عادت کے طور پر ہوں۔ البتہ عمداََ جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔
 
Top