• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِ‌ضُوا لَهُنَّ فَرِ‌يضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُ‌هُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ‌ قَدَرُ‌هُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦﴾
اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔ خوش حال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔ (١)
٢٣٦۔١ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے خلوت صحیحہ یعنی ہم بستری کے بغیر طلاق بھی دے دی تو اسے کچھ نہ کچھ فائدے دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ (متعہ طلاق) ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے۔ خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔ تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے، کسی نے کہا، خادم۔ کسی نے کہا 500 درہم۔ کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ، وغیرہ۔ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے، یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ تلخی، کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر، جو طلاق کا سبب ہوتا ہے، احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی و دلداری کا اہتمام کرنا، مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان و سلوک کے بجائے، مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَ‌ضْتُمْ لَهُنَّ فَرِ‌يضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَ‌ضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٢٣٧﴾
اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے وہ خود معاف کر دیں (١) یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے (٢) تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو یقیناً اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
٢٣٧۔١ یہ دوسری صورت ہے کہ مساس (خلوت صحیحہ) سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا۔ اس صورت میں خاوند کے لیے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے۔ الا یہ کہ عورت اپنا یہ حق معاف کر دے۔ اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔
٢٣٧۔٢ اس سے مراد خاوند ہے، کیوں کہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے، یہ نصف حق مہر معاف کر دے، یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے، اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کر دے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل و احسان کو نہ بھولنے کی تاکید کر کے حق مہر میں بھی اسی فضل و احسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
ملاحظہ: بعض نے (بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ) سے عورت کا ولی مراد لیا ہے کہ عورت معاف کر دے یا اس کا ولی معاف کر دے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ ایک تو عورت کے ولی کے ہاتھ میں عقدۂ نکاح نہیں، دوسرے مہر عورت کا حق اور اس کا مال ہے، اسے معاف کرنے کا حق بھی ولی کو حاصل نہیں۔ اس لیے وہی تفسیر صحیح ہے جو آغاز میں کی گئی ہے (فتح القدیر)
ضروری وضاحت : طلاق یافتہ عورتوں کی چار قسمیں ہیں :
1- جن کا حق مہر بھی مقرر ہے، خاوند نے مجامعت بھی کی ہے ان کو پورا حق مہر دیا جائے گا۔ جیسا کہ آیت میں اس کی تفصیل ہے۔
2- حق مہر بھی مقرر نہیں، مجامعت بھی نہیں کی گئی، ان کو صرف متعہ طلاق دیا جائے گا۔
3- حق مہر مقرر ہے، لیکن مجامعت نہیں کی گئی، ان کو نصف مہر دینا ضروری ہے (ان دونوں کی تفصیل، زیرنظر آیت میں ہے )۔
4- مجامعت کی گئی ہے، لیکن حق مہر مقرر نہیں، ان کے لیے مہر مثل ہے، مہر مثل کا مطلب ہے اس عورت کی قوم میں جو رواج ہے، یا اس جیسی عورت کے لئے بالعموم جتنا مہر مقرر کیا جاتا ہو۔ (نیل الاوطار و عون المعبود)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨﴾
نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی (١) اور اللہ تعالٰی کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو۔
٢٣٨۔١ درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کو اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کر دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صَلاة وُسْطَىٰ قرار دیا۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب الدعاء على المشركين بالهزيمة وصحيح مسلم، كتاب المساجد ، باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِ‌جَالًا أَوْ رُ‌كْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿٢٣٩﴾
اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سواری سہی، ہاں جب امن ہو جائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کے اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے۔ (١)
٢٣٩۔١ یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہے، پیادہ چلتے ہوئے، سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہو جائے تو پھر اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُ‌ونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ‌ إِخْرَ‌اجٍ ۚ فَإِنْ خَرَ‌جْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُ‌وفٍ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٤٠﴾
جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں اور وہ وصیت کر جائیں ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں (١) انہیں کوئی نہ نکالے، ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لیے اچھائی سے کریں، اللہ تعالٰی غالب اور حکیم ہے۔
٢٤٠۔١ یہ آیت گو، ترتیب میں مؤخر ہے، مگر منسوخ ہے، ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے، جس میں عدت وفات چار مہینے دس دن بتلائی گئی۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کر دیا ہے، اس لیے اب خاوند کو عورت کے لیے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، نہ رہائش (سکنی) کی نہ نان و نفقہ کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿٢٤١﴾
طلاق والیوں کو اچھی طرح فائدہ دینا پرہیزگاروں پر لازم ہے۔ (١)
٢٤١۔١ یہ حکم عام ہے جو ہر مطلقہ عورت کو شامل ہے۔ اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک اور تطییب قلوب کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کے بے شمار معاشرتی فوائد ہیں۔ کاش مسلمان اس نہایت اہم نصیحت پر عمل کریں، جسے انہوں نے بالکل فراموش کر رکھا ہے۔ آج کل کے بعض (مجتہدین) نے ”مَتَاعٌ“ اور ”مَتِّعُوهُنَّ“ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مطلقہ کو اپنی جائیداد میں سے باقاعدہ حصہ دو، یا عمر بھر نان و نفقہ دیتے رہو۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں، بھلا جس عورت کو مرد نے نہایت ناپسندیدہ سمجھ کر اپنی زندگی سے ہی خارج کر دیا، وہ ساری عمر کس طرح اس کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے تیار ہو گا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٢٤٢﴾
اللہ تعالٰی اسی طرح اپنی آیتیں تم پر ظاہر فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھو۔

أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ خَرَ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ‌ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّـهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٢٤٣﴾
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالٰی نے انہیں فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا (١) بے شک اللہ تعالٰی لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
٢٤٣۔١ یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے، جس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی۔ تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پیغمبر کا نام، جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرمایا، حزقیل بتلایا گیا ہے۔ یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے، یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کر دیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے اس واقعے کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ، موت و حیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز و فرار کرکے تم ٹال نہیں سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٤٤﴾
اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالٰی سنتا، جانتا ہے۔

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِ‌ضُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَ‌ةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿٢٤٥﴾
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھا قرض (١) دے پس اللہ تعالٰی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
٢٤٥۔١ قَرْضٌ حَسَنٌ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا ہے یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گناہ اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر، کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَقَدْ أُخْرِ‌جْنَا مِن دِيَارِ‌نَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿٢٤٦﴾
کیا آپ نے (حضرت) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا (١) جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے (٢) تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالٰی ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
٢٤٦۔١ مَلأ کسی قوم کے ان اشراف، سردار اور اہل حل و عقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں، جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں، ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفاسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنواسرائیل حضرت موسیٰ عليه السلام کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آ گیا، دین میں بدعات ایجاد کر لیں۔ حتیٰ کہ بتوں کی پوجا شروع کر دی۔ انبیا ان کو روکتے رہے، لیکن یہ معصیت اور شرک سے باز نہیں آئے۔ اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیا، جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لیے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا، ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا، بالآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے، جنہوں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں۔ پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو، لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔
٢٤٦۔٢ نبی کی موجودگی میں بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ، بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا، لیکن اللہ نے اس معاملہ کو رد نہیں فرمایا، بلکہ طالوت کو ان کے لیے بادشاہ مقرر کر دیا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں، بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے۔ مزید دیکھیے: سورۃ المائدۃ، آیت 20 کا حاشیہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّـهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّـهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٤٧﴾
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے تو ہم بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالٰی نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے (١) بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے۔
٢٤٧۔١ حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کا سلسلہ چلا آ رہا تھا۔ یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے، جس پر انہوں نے اعتراض کیا۔ پیغمبر نے کہا کہ یہ میرا انتخاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں قیادت و سیادت کے لیے مال سے زیادہ عقل و علم اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لیے چن لیا ہے۔ وہ واسع الفضل ہے، جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت و عنایات سے نوازتا ہے، علیم ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ بادشاہت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ہے (معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں بتلایا گیا کہ یہ تقرری اللہ کی طرف سے ہے تو اس کے لیے انہوں نے مزید کسی نشانی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ پوری طرح مطمئن ہو جائیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے۔)
 
Top