• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَ‌كَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُ‌ونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٤٨﴾
ان کے نبی نے پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (١) آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے، فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔ یقیناً یہ تمہارے لیے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔
٢٤٨۔١ صندوق یعنی تابوت، جو توب سے ہے، جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ کیوں کہ بنی اسرائیل تبرک کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے، یہ تابوت بھی ان کے دشمن ان سے چھین کر لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا۔ جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لیے منجانب اللہ کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لیے ایک اعجاز (آیت) اور فتح و سکینت کا سبب قرار دیا۔ سکینت کا مطلب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیر دل بھی کانپ اٹھتے ہیں، اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح و کامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و صالحین کے تبرکات یقینا باذن اللہ اہمیت و افادیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں۔ جس طرح اس تابوت میں یقینا حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں بن جاتی، جس طرح آج کل "تبرکات" کے نام پر کئی جگہوں پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں، جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح خود ساختہ چیزوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو، یا گھروں میں لٹکانے کو، یا مخصوص طریقے سے اس کے استعمال کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لیے اکشیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر و نیاز کی چیزوں کو اور لنگر کو متبرک سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے جو شرک کے دائرے میں آتا ہے، اس کا کھانا قطعاً حرام ہے، قبروں کو غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ قبروں کو غسل دینا بھی خانہ کعبہ کے غسل کی نقل ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ گندا پانی متبرک کیسے ہو سکتا ہے؟ بہرحال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ‌ فَمَن شَرِ‌بَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَ‌فَ غُرْ‌فَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِ‌بُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّـهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَ‌ةً بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿٢٤٩﴾
جب (حضرت) طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالٰی تمہیں ایک نہر (١) سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا (٢) (حضرت) طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔ (٣) لیکن اللہ تعالٰی کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا، بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالٰی صبر والوں کے ساتھ ہے۔
٢٤٩۔١ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے۔ (ابن کثیر)
٢٤٩۔٢ اطاعت امیر ہرحال میں ضروری ہے، تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دوچند، بلکہ صد چند ہو جاتی ہے۔ دوسرے، جنگ میں کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک، پیاس اور دیگر شدائد کو نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کریں۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لیے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہو گی۔ جس نے پانی پی لیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ لیکن اس تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ ان کی تعداد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ اسی طرح نہ پینے والوں کی تعداد بتلائی گئی ہے، جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ اعلم۔
٢٤٩۔٣ ان اہل ایمان نے بھی، ابتداءً جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا، جس پر ان کے علما اور ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والوں نے کہا کہ کامیابی، تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فراوانی پر منحصر نہیں، بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لیے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا بَرَ‌زُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَ‌بَّنَا أَفْرِ‌غْ عَلَيْنَا صَبْرً‌ا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْ‌نَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٥٠﴾
جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔ (١)
٢٥٠۔١ جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈو اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقا کا مقابلہ تھا۔ یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر قوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت کے پیش نظر، عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبر و ثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح و کامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لیے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں، جیسے جنگ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت الحاح و زاری سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّـهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْ‌ضُ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٢٥١﴾
چنانچہ اللہ تعالٰی کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور (حضرت) داود (علیہ اسلام) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا (١) اور اللہ تعالٰی نے داود (علیہ السلام) کو مملکت و حکمت (٢) اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا۔ اگر اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تعالٰی دنیا والوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے۔ (٣)
٢٥١۔١ حضرت داود عليه السلام بھی، جو ابھی پیغمبر تھے نہ بادشاہ، اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے۔ ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور ان تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے سے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔
٢٥١۔٢ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داود عليه السلام کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ حکمت سے بعض نے نبوت، بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی ہے، جو اس موقعہ جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔
٢٥١۔٣ اس میں اللہ کی ایک سنت الٰہی کا بیان ہے کہ وہ انسانوں کے ہی ایک گروہ کے ذریعے سے، دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اور اقتدار کا خاتمہ فرماتا رہتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا اور کسی ایک ہی گروہ کو ہمیشہ قوت و اختیار سے بہرہ ور کیے رکھتا تو یہ زمین ظلم و فساد سے بھر جاتی۔ اس لیے یہ قانون الٰہی اہل دنیا کے لیے فضل الٰہی کا خاص مظہر ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی آیت 38 اور 40 میں بھی فرمایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿٢٥٢﴾
یہ اللہ تعالٰی کی آیاتیں ہیں جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بایقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔
٢٥٢۔١ یہ گزشتہ واقعات، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقینا آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں، نہ کسی سے سنے ہیں۔ جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالٰی آپ پر نازل فرما رہا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پارہ 03
تِلْكَ الرُّ‌سُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖ وَرَ‌فَعَ بَعْضَهُمْ دَرَ‌جَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُ‌وحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَـٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ‌ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يُرِ‌يدُ ﴿٢٥٣﴾
یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، (١) ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔ (٢) اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آ جانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے، (٣) لیکن اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
٢٥٣۔١ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے «وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ» (بنی اسرائیل: 55) ”ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے“ اس لیے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے: لا تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الأَنْبِيَاءِ (صحيح بخاري، كتاب التفسير، سورة الأعراف ، باب135.مسلم، كتاب الفضائل، باب من فضائل موسى) ”تم مجھے انبیا کے درمیان فضیلت مت دو“، تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیا عليہم السلام کی بابت ادب و احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا، جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے سے فضیلت حاصل ہے، پورا علم نہیں ہے۔ اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا کہ اس سے دوسرے انبیا کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں کی بعض پر فضیلت اور تمام پیغمبروں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت واشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے فتح القدیر للشوکانی)
٢٥٣۔٢ مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ عليه السلام کو دیئے گئے تھے، مثلاً احیائے موتی (مردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ۔ جس کی تفصیل سورۂ آل عمران میں آئے گی۔ روح القدس سے مراد حضرت جبریل ہیں، جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔
٢٥٣۔٣ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ مطلب اس کا یہ نہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے۔ یہ اللہ کو سخت ناپسند ہے، اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر نار جہنم سے بچ جائیں۔ اسی لیے اس نے کتابیں اتاریں، انبیا عليہم السلام کا سلسلہ قائم کیا تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفا اور علما و دعاۃ کے ذریعے سے دعوت حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت و تاکید بیان فرمائی گئی۔ کس لیے؟ اسی لیے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں۔ لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے، اس لیے کوئی اس اختیار و آزادی کا صحیح استعمال کرکے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار و آزادی کا غلط استعمال کر کے کافر۔ یہ گویا اس کی حکمت و مشیت ہے، جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُ‌ونَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٥٤﴾
اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت (١) اور کافر ہی ظالم ہیں۔
٢٥٤۔١ یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین اپنے اپنے پیشواؤں یعنی نبیوں، ولیوں، بزرگوں، پیروں، مرشدوں وغیرہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اسے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔ اسی کو وہ شفاعت کہتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے کہ ہماے بزرگ اللہ کے پاس اڑ کر بیٹھ جائیں گے، اور بخشوا کر اٹھیں گے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات و احادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بے شک ہو گی، مگر یہ شفاعت وہی لوگ کر سکیں گے۔ جنہیں اللہ اجازت دے گا۔ اور صرف اسی بندے کے بارے میں کر سکیں گے جس کے لیے اللہ اجازت دے گا۔ اور اللہ صرف اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا۔ یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے، انبیا و رسل بھی، اور شہدا و صالحین بھی۔ مگر اللہ پر ان میں کسی بھی شخصیت کا کوئی دباؤ نہ ہو گا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں و ترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہو گا۔ ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾ (الأنبياء: 28)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْ‌سِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ﴿٢٥٥﴾
اللہ تعالٰی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے، (١) اس کی کرسی کی وسعت (٢) نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔
٢٥٥۔١ یہ آیت الکرسی ہے جس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً یہ آیت قرآن کی اعظم آیت ہے۔ اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے۔ ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے وغیرہ (ابن کثیر) یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جلال، اس کی علو شان اور اس کی قدرت و عظمت پر مبنی نہایت جامع آیت ہے۔
٢٥٥۔٢ كُرْسِيٌّ سے بعض نے مَوْضِعُ قَدَمَيْنِ (قدم رکھنے کی جگہ)، بعض نے علم، بعض نے قدرت و عظمت، بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے۔ لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کیے، ان پر ایمان رکھا جائے۔ اس لیے یہی ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سے الگ ہے۔ اس کی کیفیت کیا ہے، اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے؟ اس کو ہم بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی حقیقت سے ہم بے خبر ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَا إِكْرَ‌اهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّ‌شْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ‌ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْ‌وَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٥٦﴾
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے، (١) اس لیے جو شخص اللہ تعالٰی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔
٢٥٦۔١ اس کی شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی یا عیسائی ہو گئے تھے، پھر جب یہ انصار مسلمان ہو گئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو یہودی یا عیسائی بن چکے تھے، زبردستی مسلمان بنانا چاہا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول کے اس اعتبار سے بعض مفسرین نے اسے اہل کتاب کے لیے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب، اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں، تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے، یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کر دیا ہے۔ تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لیے جہاد ایک الگ اور جبر و اکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباؤ ختم کرنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں روڑہ بنی ہوئی ہو۔ تاکہ ہر شخص اپنی آزاد مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہو جائے۔ چونکہ روڑہ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے الجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ”جہاد قیامت تک جاری رہے گا“، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (صحيح بخاری- كتاب الإيمان، باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة) ”مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کر لیں“۔ اسی طرح سزائے ارتداد (قتل) سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں)۔ کیونکہ ارتداد کی سزا ۔قتل۔ سے مقصود جبر و اکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بے شک دی جا سکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہو جائے تو پھر اس سے بغاوت و انحراف کی اجازت نہیں دی جا سکتی لہذا وہ خوب سوچ کر اسلام لائے۔ کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہو سکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر، قتل، چوری، زنا، ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ یہ جبر و اکراہ نہیں ہے۔ بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل و غارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے۔ ایک کا مقصد ملک کا نظریاتی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شر و فساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد، ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں۔ آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظر انداز کر کے جن الجھنوں، دشواریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِ‌جُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِ‌جُونَهُم مِّنَ النُّورِ‌ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٥٧﴾
ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالٰی خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیا شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَ‌اهِيمَ فِي رَ‌بِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ فَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِ‌قِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِ‌بِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ‌ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾
کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالٰی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالٰی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ‌ عَلَىٰ قَرْ‌يَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُ‌وشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ‌ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَ‌ابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ‌ إِلَىٰ حِمَارِ‌كَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ‌ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٢٥٩﴾
یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالٰی اسے کس طرح زندہ کرے گا؟ (١) تو اللہ تعالٰی نے اسے مار دیا سو سال کے لیے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، (٢) فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہر چیز پر قادر ہے۔ (٣)
٢٥٩۔١ أَوْ كَالَّذِي کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے (پہلے واقعہ کی طرح) اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا۔۔۔ یہ شخص کون تھا؟ اس کی بابت مختلف اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ زیادہ مشہور حضرت عزیر کا نام ہے جس کے بعض صحابہ و تابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے کے واقعہ (حضرت ابراہیم عليہ السلام و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کر دیا، حتیٰ کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ جب وہ سو سال کے بعد زندہ کر سکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔
٢٥٩۔٢ کہا جاتا ہے کہ جب وہ شخص مذکور مرا تھا، اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی، اس سے اس نے یہ اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اور اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کہ اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔
٢٥٩۔٣ یعنی یقین تو مجھے پہلے بھی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور عمل میں مزید پختگی اور اضافہ ہو گیا ہے۔
 
Top