• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ‌ الْمُقَنطَرَ‌ةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْ‌ثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴿١٤﴾
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزیّن کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، (١) یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالٰی ہی کے پاس ہے۔
١٤۔١ شَهَوَاتٌ سے مراد یہاں مُشْتَهَيَاتٌ ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں۔ اسی لیے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ﴾ (الكهف: 7) ”ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اسے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں“ سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ (مسند احمد) ”عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں“۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک عورت کو ”دنیا کی سب سے بہتر متاع“ قرار دیا ہے: خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ اس لیے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی۔ ورنہ یہی عورت مرد کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجِالِ مِنَ النِّسَاءِ (صحيح بخاري كتاب النكاح، باب ما يتقى من شؤم المرأة) "میرے بعد جو فتنے رونما ہوں گے، ان میں مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔" اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے۔ اگر اس سے مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الْوَلُودَ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، اس لیے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا" اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بَنِينٌ جمع ہے۔ مال و دولت سے بھی مقصود قیام معیشت، صلۂ رحمی، صدقہ و خیرات اور اسے امور خیر میں خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری، دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور باربرداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پرفخر و غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو یہ سب مفید چیزیں اس کے لیے وبال جان ثابت ہوں گی۔ قَنَاطِيرُ قِنْطَارٌ (خزانہ) کی جمع ہے۔ مراد ہے خزانے یعنی سونے چاندی اورمال و دولت کی فراوانی اور کثرت۔ المُسَوَّمَةِ وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑے گئے ہوں۔ یا جہاد کے لیے تیار کیے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لیے کوئی نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ‌ مِّن ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَ‌بِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَ‌ةٌ وَرِ‌ضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ‌ بِالْعِبَادِ ﴿١٥﴾
آپ کہہ دیجئے! کیا میں تمہیں اس سے بہت ہی بہتر چیز نہ بتاؤں؟ تقویٰ والوں کے لیے ان کے رب تعالٰی کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے (١) اور پاکیزہ بیویاں (٢) اور اللہ تعالٰی کی رضا مندی ہے، سب بندے اللہ تعالٰی کی نگاہ میں ہیں۔
١٥۔١ اس آیت میں اہل ایمان کو بتلایا جا رہا ہے کہ دنیا کی مذکورہ چیزوں میں ہی مت کھو جانا، بلکہ ان سے بہتر وہ زندگی اور نعمتیں ہیں جو رب کے پاس ہیں، جن کے مستحق اہل تقویٰ ہی ہوں گے۔ اس لیے تم تقویٰ اختیار کرو۔ اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہو گیا تو یقینا تم دین و دنیا کی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹ لو گے۔
١٥۔٢ پاکیزہ، یعنی وہ دنیاوی میل کچیل، حیض و نفاس اور دیگر آلودگیوں سے پاک ہوں گی اور پاک دامن ہوں گی۔ اس سے اگلی دو آیات میں اہل تقویٰ کی صفات کا تذکرہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ‌ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌ ﴿١٦﴾
جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لا چکے اس لیے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

الصَّابِرِ‌ينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِ‌ينَ بِالْأَسْحَارِ‌ ﴿١٧﴾
جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں۔

شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٨﴾
اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (١) اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
١٨۔١ شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں، یعنی اللہ تعالٰی نے جو کچھ پیدا کیا اور بیان کیا، اس کے ذریعے سے اس نے اپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اور اہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب و سنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿١٩﴾
بے شک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، (١) اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے (٢) اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے (٣) اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔
١٩۔١ اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت و تعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اب اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں توحید و رسالت اور آخرت پر اس طرح یقین و ایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے۔ اب محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کر لینا، یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ہی ملے گی۔ ایمان و اسلام اوردین یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے اور صرف اسی ایک معبود کی عبادت کی جائے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رسالت کا خاتمہ تسلیم کیا جائے اور ایمانیات کے ساتھ ساتھ وہ عقائد و اعمال اختیار کیے جائیں جو قرآن کریم میں یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کیے گئے ہیں۔ اب اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین عند اللہ قبول نہیں ہو گا۔ ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (آل عمران: 85) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پوری انسانیت کے لیے ہے۔ ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الأعراف: 158) ”کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں“۔ ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ (الفرقان: 1) ”برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو“ اور حدیث میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو یہودی یا نصرانی مجھ پرایمان لائے بغیر فوت ہو گیا، وہ جہنمی ہے۔“ (صحیح مسلم) مزید فرمایا بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ”میں احمر و اسود (یعنی تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کربھیجا گیا ہوں“ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کو خطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (صحیحین۔ بحوالہ ابن کثیر)
١٩۔٢ ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں۔ اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں، پھر وہ اختلاف بھی مراد ہے جو اہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا۔ اور جس کی بنا پر یہودی نصرانیوں کو اور نصرانی یہودیوں کو کہا کرتے تھے (تم کسی چیز پر نہیں ہو۔) نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور نبوت عیسیٰ عليه السلام کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے، محض حسد اور بغض و عناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے اور اس کو دین باور کراتے تھے۔ تاکہ ان کی ناک بھی اونچی رہے اور ان کا عوامی حلقۂ ارادت بھی قائم رہے۔ افسوس آج مسلمان علما کی ایک بڑی تعداد ٹھیک انہی غلط مقاصد کے لیے ٹھیک اسی غلط ڈگر پر چل رہی ہے -هَدَاهُمُ اللهُ وَإِيَّانَا-
١٩۔٣ یہاں ان آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّـهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ‌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠﴾
پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالٰی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہے اور اہل کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے (١) کہہ دیجئے! کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہدایت والے ہیں اور اگر یہ روگردانی کریں، تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے۔
٢٠۔١ ان پڑھ لوگوں سے مراد مشرکین عرب ہیں جو اہل کتاب کے مقابلے میں بالعموم ان پڑھ تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُ‌ونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ‌ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُ‌ونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْ‌هُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢١﴾
جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں، (١) تو اے نبی! انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔
٢١۔١ یعنی ان کی سرکشی و بغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیا بلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالا جو عدل و انصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالٰی نے ان کی عظمت و فضیلت بھی واضح کر دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِ‌ينَ ﴿٢٢﴾
ان کے اعمال دنیا و آخرت میں غارت ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔

أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّـهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِ‌يقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٢٣﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا جنہیں ایک حصہ کتاب کا دیا گیا ہے وہ اپنے آپس کے فیصلوں کے لیے اللہ تعالٰی کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں، پھر بھی ایک جماعت ان کی منہ پھیر کر لوٹ جاتی ہے۔
٢٣۔١ ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اور وہ اسلام، مسلمانوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مکر و سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دو قبیلے جلا وطن اور ایک قبیلہ قتل کر دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ‌ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّ‌هُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُ‌ونَ ﴿٢٤﴾
اس کی وجہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں تو گنے چنے چند دن ہی آگ جلائے گی، ان کی گھڑی گھڑائی باتوں نے انہیں ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔
٢٤۔١ یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز و اعتراض کی وجہ کا یہ زعم باطل ہے کہ اول تو وہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں، اور اگر گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لیے جائیں گے۔ اور انہی من گھڑت باتوں نے انہیں دھوکے اور فریب میں ڈال رکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَ‌يْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٢٥﴾
پس کیا حال ہو گا جبکہ ہم انہیں اس دن جمع کریں گے؟ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو اپنا اپنا کیا پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (١)
٢٥۔١ قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بے لاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو، اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا، کسی پر ظلم نہیں ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ‌ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٢٦﴾
آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، (١) بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
٢٦۔١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت و طاقت کا اظہار ہے، شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک وہی ہے الْخَيْرُ بِيَدِكَ کی بجائے بِيَدِكَ الْخَيْرُ (خبر کی تقدیم کے ساتھ) سے مقصود تخصیص ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں۔ ”شر“ کا خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے، شر کا نہیں۔ اس لیے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے، بخلاف شر کے کہ یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اس لیے کہ شر بھی اس کے قضا و قدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے، اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں۔ فَأَفْعَالُهُ كُلُّهَا خَيْرٌ (فتح القدير)
 
Top