• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ‌ وَتُولِجُ النَّهَارَ‌ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِ‌جُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْ‌زُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ ﴿٢٧﴾
تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہے، (١) تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے، (٢) تو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے۔
٢٧۔١ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں۔ رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہو جاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کر دیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔
٢٧۔٢ جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکالتا ہے پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان۔ اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی اور پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے کافر پیدا فرماتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم آیت ﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ﴾ (آل عمران) پڑھ کر یہ دعا کرو: رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا تُعْطِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُمَا وَتَمْنَعُ مَنْ تَشَاءُ، ارْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِينِي بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ، اللَّهُمَّ أغْنِنِي مِنَ الْفَقْرِ، وَاقْضِ عَنِّي الدَّيْنَ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تواللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لیے انتظام فرما دے گا۔“ (مجمع الزوائد: 10/186- رجاله ثقات)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِ‌ينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُ‌كُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ‌ ﴿٢٨﴾
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں (١) اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالٰی کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کس طرح بچاؤ مقصود ہو، (٢) اللہ تعالٰی خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالٰی ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
٢٨۔١ اولیا ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اور خصوصی تعلق ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ ﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ( البقرۃ: 257) یعنی ”اللہ اہل ایمان کا ولی ہے“۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت و مصلحت ان سے صلح و معاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر، مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں، ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورۂ ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی و محبت) سے مختلف ہے۔
٢٨۔٢ یہ اجازت ان مسلمانوں کے لیے ہے جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لیے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِ‌كُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٢٩﴾
کہہ دیجئے! کہ خواہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ، خواہ ظاہر کرو اللہ تعالٰی (بہر حال) جانتا ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسے معلوم ہے اور اللہ تعالٰی ہر چیز پر قادر ہے۔

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ‌ مُّحْضَرً‌ا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُ‌كُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّـهُ رَ‌ءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٣٠﴾
جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پا لے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت سی دوری ہوتی۔ اللہ تعالٰی تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣١﴾
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، (١) خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا (٢) اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
٣١۔١ یہود اور نصاریٰ دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے، بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ و مریم علیہما السلام کی تعظیم و محبت میں جو اتنا غلو کیا کہ انہیں درجۂ الوہیت پر فائز کر دیا، اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا و محبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعوؤں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کا اتباع کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لیے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الٰہی کا طالب اگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، تو پھر تو یقیناً وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے: مَنْ عَمِلَ عَمَلا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ (متفق علیہ) "جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے"۔
٣١۔٢ یعنی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٣٢﴾
کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالٰی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ (١)
٣٢۔١ اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پھر تاکید کرکے واضح کر دیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اوراس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں حجیت حدیث کے منکرین اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گریز کرنے والوں دونوں کے لیے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَ‌اهِيمَ وَآلَ عِمْرَ‌انَ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٣٣﴾
بے شک اللہ تعالٰی نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو، ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرما لیا۔ (١)
٣٣۔١ انبیاء عليہم السلام کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے والد اور دوسرے حضرت مریم علیہا السلام کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ عليه السلام کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا نام مفسرین نے حنَّة بِنْت فَاقُوذ لکھا ہے (تفسیر قرطبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطافرمائی۔ ان میں پہلے حضرت آدم عليه السلام ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی، انہیں مسجود ملائک بنایا، اسما کا علم انہیں عطا کیا اور انہیں جنت میں رہائش پذیر کیا، جس سے پھر انہیں زمین میں بھیج دیا گیا جس میں اس کی بہت سی حکمتیں تھیں۔ دوسرے حضرت نوح عليه السلام ہیں، انہیں اس وقت رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا، انہیں عمر طویل عطا کی گئی، انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی، لیکن چند افراد کے سوا، کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا، دوسرے تمام لوگوں کو غرق کر دیا گیا۔ آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے۔ حتیٰ کہ علی الاطلاق کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل عليه السلام کی نسل سے ہوئے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ذُرِّ‌يَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٣٤﴾
کہ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں (١) اور اللہ تعالٰی سنتا اور جانتا ہے۔
٣٤۔١ یا دوسرے معنی ہیں دین میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِذْ قَالَتِ امْرَ‌أَتُ عِمْرَ‌انَ رَ‌بِّ إِنِّي نَذَرْ‌تُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّ‌رً‌ا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥﴾
جب عمران کی بیوی نے کہا کے اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے (١) کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما! یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔
٣٥۔١ مُحَرّرَا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لیے وقف۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَ‌بِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ‌ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْ‌يَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّ‌يَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ ﴿٣٦﴾
جب بچی کو جنا تو کہنے لگی اے پروردگار! مجھے تو لڑکی ہوئی ہے، اللہ تعالٰی کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں (١) میں نے اس کا نام مریم رکھا (٢) میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں (٣)
٣٦۔١ اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہےاور عذر بھی۔ حسرت، اس طرح کہ میری امید کے برعکس لڑکی ہوئی ہے اور عذر، اس طرح کہ نذرسے مقصود تو تیری رضا کے لیے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اور یہ کام ایک مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہے تو اسے جانتا ہی ہے۔ (فتح القدیر )
٣٦۔٢ حافظ ابن کثیر نے اس سے اور احادیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچے کا نام ولادت کے پہلے روز رکھنا چاہیے اور ساتویں دن نام رکھنے والی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ ابن القیم نے تمام احادیث پر بحث کر کے آخر میں لکھا ہے کہ پہلے روز، تیسرے روز یا ساتویں روز نام رکھا جا سکتا ہے، اس مسئلے میں گنجائش ہے۔ والأَمْرُ فِيهِ وَاسِعٌ ( تحفۃ المودود)
٣٦۔٣ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ چنانچہ حدیث صحیح میں ہے کہ جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا (چھوتا) ہے جس سے وہ چیختا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس شیطان سے حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے عیسیٰ عليه السلام کو محفوظ رکھا ہے۔ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلا مَسَّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّهِ إِيَّاهُ، إِلا مَرْيَمَ وَابْنَهَا ] (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، مسلم، کتاب الفضائل)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَتَقَبَّلَهَا رَ‌بُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِ‌يَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِ‌يَّا الْمِحْرَ‌ابَ وَجَدَ عِندَهَا رِ‌زْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْ‌يَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ إِنَّ اللَّـهَ يَرْ‌زُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ ﴿٣٧﴾
پس اسے اس کے پرورگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اور اسے بہترین پرورش دی۔ اس کی خیر خبر لینے والا زکریا (علیہ السلام) کو بنایا، (١) جب کبھی زکریا (علیہ السلام) ان کے حجرے میں جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے، (٢) وہ پوچھتے اے مریم! یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی؟ وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ تعالٰی کے پاس سے ہے، بے شک اللہ تعالٰی جسے چاہے بے شمار روزی دے۔
٣٧۔١ حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی تھے، اس لیے بھی، علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم علیہا السلام کی مادی ضروریات اور علمی و اخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کر سکتے تھے۔
٣٧۔٢ مِحْرَ‌اب سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم علیہا السلام رہائش پذیر تھیں۔ رزق سے مراد پھل۔ یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے، گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا علیہ السلام یا کوئی اور شخص لا کر دینے والا نہیں تھا۔ اس لیے حضرت زکریا علیہ السلام نے ازراہ تعجب و حیرت پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا اللہ کی طرف سے۔ یہ گویا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت، جب چاہے صادر کر دے۔ اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، جیسا کہ اہل بدعت اولیا کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِ‌يَّا رَ‌بَّهُ ۖ قَالَ رَ‌بِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّ‌يَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٨﴾
اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، کہا کہ اے میرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔

فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَ‌ابِ أَنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُ‌كَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورً‌ا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٣٩﴾
پس فرشتوں نے انہیں آواز دی، جب کہ وہ حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، کہ اللہ تعالٰی تجھے یحییٰ کی یقینی خوشخبری دیتا ہے جو (١) اللہ تعالٰی کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا، (٢) سردار، ضابط نفس اور نبی ہے نیک لوگوں میں سے۔
٣٩۔١ بے موسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالٰی انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چنانچہ بے اختیار دعا کے لیے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اُٹھ گئے، جسے اللہ تعالٰی نے شرف قبولیت سے نوازا۔
٣٩۔٢ اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق ہے گویا حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑے ہوئے۔ دونوں آپس میں خالہ زاد تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ سیداً کے معنی ہیں سردار حصوراََ کے معنی ہیں، گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکتے گویا کہ ان کو ان سے روک دیا گیا ہے۔ یعنی حَصُورٌ بمعنی مَحْصُورٌ، بعض نے اس کے معنی نامرد کے کیے ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔
 
Top