• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَتِ امْرَ‌أَتُ فِرْ‌عَوْنَ قُرَّ‌تُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ ﴿٩﴾
اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، (١) بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں (٢) اور یہ لوگ شعور ہی نہیں رکھتے تھے۔ (٣)
٩۔١ یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لیے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ (ایسر التفاسیر) جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لیے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔
٩۔٢ کیوں کہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔
٩۔٣ کہ یہ بچہ، جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لیے سینکڑوں بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِ‌غًا ۖ إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّ‌بَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٠﴾
موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل بے قرار ہوگیا، (١) قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وہ یقین کرنے والوں میں رہے۔ (٢)
١٠۔١ یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ (خالی) ہو گیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ علیہ السلام کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بے قراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔
١٠۔٢ یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ علیہ السلام کو بخریت واپس لوٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ ۖ فَبَصُرَ‌تْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ ﴿١١﴾
موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے اس کی بہن (١) سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا، تو وہ اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی (٢) اور فرعونیوں کو اس کا علم نہ ہوا۔
١١۔١ خواہر موسیٰ علیہ السلام کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم بنت عمران تھیں۔ نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔
١١۔٢ چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّٰی کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَحَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِ الْمَرَ‌اضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ ﴿١٢﴾
ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا۔ (١) یہ کہنے لگی کہ کیا میں تمہیں (٢) ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لیے پرورش کرے اور ہوں بھی وہ اس بچے کے خیر خواہ۔
١٢۔١ یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کر دیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
١٢۔٢ یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں "ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لے پرورش کرے"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَرَ‌دَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ‌ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
پس ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایا، (١) تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزردہ خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے (٢) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (٣)
١٣۔١ چنانچہ انہوں نے ہمشیرہء موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ، چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔
۱۳۔٢ جب حضرت موسیٰ عليہ السلام نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدۂ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کی صحیح پرورش اور نگہداشت ہو سکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی اپنے گھر لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی ، سبحان اللہ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ عليہ السلام کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ﴿فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ایک مرسل روایت میں ہے ”اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ عليہ السلام کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے“ (مراسیل أبی داود)
۱۳۔٣ یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ”ہو سکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لیے شر کا پہلو ہو“ (البقرۃ: 216) دوسرے مقام پر فرمایا ”ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لیے خیر کثیر پیدا فرما دے“ (النساء: 19) اس لیے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کر لے کہ اسی میں اس کے لیے خیر اور حسن انجام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٤﴾
اور جب (موسٰی علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہو گئے ہم نے انہیں حکمت و علم عطا فرمایا، (١) نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔
١٤۔١ حکم اور علم سے مراد اگر نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل و دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ماحول میں رہ کر سیکھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَ‌جُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾
اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے۔ (١) یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایک تو اس کے رفیق میں سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے، (٢) اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی، جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مکا مارا جس سے وہ مر گیا موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے، (٣) یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے۔ (٤)
١٥۔١ اس سے بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا ہے۔ جب کہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔
١٥۔٢ یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔
١٥۔٣ اسے شیطانی فعل اس لیے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقصد اسے ہرگز قتل کرنا نہیں تھا۔
١٥۔٤ جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے وہ جو جو جتن کرتا ہے، وہ بھی مخفی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ رَ‌بِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ‌ لِي فَغَفَرَ‌ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٦﴾
پھر دعا کرنے لگا کہ اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا، تو مجھے معاف فرما دے، (١) اللہ تعالٰی نے اسے بخش دیا، وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
١٦۔١ یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبائر سے گناہوں سے اللہ تعالٰی اپنے پیغمبروں کی حفاطت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لیے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انہیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انہیں قتل نہ کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ رَ‌بِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرً‌ا لِّلْمُجْرِ‌مِينَ ﴿١٧﴾
کہنے لگے اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا۔ (١)
١٧۔١ یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہو گا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَ‌قَّبُ فَإِذَا الَّذِي اسْتَنصَرَ‌هُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِ‌خُهُ ۚ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُّبِينٌ ﴿١٨﴾
صبح ہی صبح ڈرتے (١) اندیشہ کی حالت میں خبریں لینے شہر میں گئے، کہ اچانک وہی شخص جس نے کل ان سے مدد طلب کی تھی ان سے فریاد کر رہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ اس میں شک نہیں تو تو صریح بےراہ ہے۔ (٢)
١٨۔١ خَائِفًا کے معنی ڈرتے ہوئے يَتَرَقَّبُ، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔
١٨۔٢ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو صریح بے راہ، یعنی جھگڑالو ہے۔
 
Top