• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا أَنْ أَرَ‌ادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ يَا مُوسَىٰ أَتُرِ‌يدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِن تُرِ‌يدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارً‌ا فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا تُرِ‌يدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ ﴿١٩﴾
پھر جب اپنے اور اس کے دشمن کو پکڑنا چاہا (١) وہ فریادی کہنے لگا کہ (٢) موسیٰ (علیہ السلام) کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے، تو تو ملک میں ظالم و سرکش ہونا چاہتا ہے اور تیرا ارادہ ہی نہیں کہ ملاپ کرنے والوں میں سے ہو۔
١٩۔ ١ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ قطبی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔
١٩۔٢ فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ علیہ السلام شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسٰی، جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آ گئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ علیہ السلام ہے، اس نے جا کر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا عزم کر لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَجَاءَ رَ‌جُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُ‌ونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُ‌جْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ ﴿٢٠﴾
شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا (١) اور کہنے لگا اے موسٰی! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں، پس تو جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواہ مان
٢٠۔١ یہ آدمی کون تھا؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم کا تھا جو در پردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ علیہ السلام کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَخَرَ‌جَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَ‌قَّبُ ۖ قَالَ رَ‌بِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢١﴾
پس موسیٰ (علیہ السام) وہاں سے خوفزدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے (١) کہنے لگے اے پروردگار! مجھے ظالموں کے گروہ سے بچا لے۔ (۲)
٢١۔١ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آ سکیں۔
٢١۔٢ یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا مشورہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے؟ کیونکہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انہیں راستے کی نشان دہی کی واللہ اعلم (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَ‌بِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿٢٢﴾
اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا (١)
٢٢۔١ چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا وَرَ‌دَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَ‌أَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ‌ الرِّ‌عَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ‌ ﴿٢٣﴾
مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے (١) اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے جانوروں کو روکتی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے (٢) وہ بولیں کہ جب تک یہ چروا ہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں (۳) اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں (٤)
۲۳۔۱ یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے (حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسرالتفاسیر) اور یہی حضرت شعیب علیہ السلام کا مسکن مبعث بھی تھا۔
٢٣۔۲ دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں؟۔ رعاء راع (چرواہا) کی جمع ہے۔
٢٣۔۳ تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔
٢٣۔٤ والد صاحب بوڑھے ہیں اس لئے وہ گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے نہیں آ سکتے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَ‌بِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ‌ فَقِيرٌ‌ ﴿٢٤﴾
پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں (١)
٢٤۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانوروں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آ کر مصروف دعا ہوگئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادت پر، قوت پر اور مال پر (ایسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ‌ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥﴾
اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی (١) کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں (۲) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی (۳)۔
۲۵۔۱ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہں بلانے آ گئی۔ لڑکی کی شرم و حیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیاء و حجاب سے بےنیازی اور بےباکی عورت کے لئے شرعا ناپسندیدہ ہے۔
٢٥۔۲ بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے وضاحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لئے یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب علیہ السلام کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جا کر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی ہمدردی پیدا ہوئی کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔
٢٥۔۳ یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم و ستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْ‌هُ ۖ إِنَّ خَيْرَ‌ مَنِ اسْتَأْجَرْ‌تَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ ﴿٢٦﴾
ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو (١)
٢٦۔١ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایمان دار بھی، جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا اسی طرح جب میں اس کو بلا کر ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشان دہی کے لئے پیچھے سے پتھر کی کنکری مار دیا کر، واللہ اعلم (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ إِنِّي أُرِ‌يدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَ‌نِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرً‌ا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِ‌يدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٢٧﴾
اس بزرگ نے کہا میں اپنی دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح ٰمیں دینا چاہتا ہوں (١) اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں (٢) ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہیں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں (٣) اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر مجھے بھلا آدمی پائیں گے (٤)۔
٢٧۔١ ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔
٢٧۔٢ اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے
٢٧۔٣ یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایزاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔
٢٧۔٤ نہ جھگڑا کرونگا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لونگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ ۖ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۖ وَاللَّـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ ﴿٢٨﴾
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا، خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو (١) ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ (گواہ اور) کارساز ہے (٢)
٢٨۔١ یعنی آٹھ سال بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
٢٨۔٢ یہ بعض کے نزدیک شعیب علیہ السلام یا برادر زادہ شعیب علیہ السلام کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان رشتہ ازدواجی قائم ہوگیا۔ باقی تفصیلات کا اللہ نے ذکر نہیں کیا۔ ویسے تو اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کے لئے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔
 
Top