• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْ‌سِلُ الْأُخْرَ‌ىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٤٢﴾
اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت (١) اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے (٢) پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے (٣) اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے (٤) غور کرنے والوں کے لئے اس میں یقیناً بہت نشانیاں ہیں (٥)۔
٤٢۔١ یہ وفات کبریٰ ہے کہ روح قبض کرلی جاتی ہے، واپس نہیں آتی۔
٤٢۔٢ یعنی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا، تو سونے کے وقت ان کی روح بھی قبض کر کے انہیں وفات صغریٰ سے دو چار کر دیا جاتا ہے۔
٤٢۔٣ یہ وہی وفات کبریٰ ہے، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں روح روک لی جاتی ہے۔
٤٢۔٤ یعنی جب تک ان کا وقت نہیں آتا، اس وقت تک کے لئے روحیں واپس ہوتی رہتی ہیں، یہ وفات صغریٰ ہے، یہی مضمون سورہ الانعام میں بیان کیا گیا ہے تاہم وہاں وفات صغری کا ذکر پہلے اور وفات کبری کا بعد میں ہے جب کہ یہاں اس کے برعکس ہے۔
٤٢۔٥ یعنی روح کا قبض اور اس کا ارسال، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے اور قیامت والے دن وہ مردوں کو بھی یقینا زندہ فرمائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ ﴿٤٣﴾
کیا ان لوگوں نے اللہ تعالٰی کے سوا (اوروں) کو سفارشی مقرر کر رکھا ہے؟ آپ کہہ دیجئے! کہ گو وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں (١)
٤٣۔١ یعنی شفاعت کا اختیار تو کجا، انہیں تو شفاعت کے معنی و مفہوم کا بھی پتہ نہیں، کیونکہ وہ پتھر ہیں۔ یا بےخبر ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُل لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿٤٤﴾
کہہ دیجئے! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے (١) تمام آسمانوں اور زمین کا راج اسی کے لئے ہے تم سب اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے۔
٤٤۔١ یعنی شفاعت کی تمام اقسام کا مالک صرف اللہ ہی ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش ہی نہیں کر سکے گا، پھر صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کیوں نہ کی جائے تاکہ وہ راضی ہو جائے اور شفاعت کے لئے کوئی سہارا ڈھونڈھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ‌ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُ‌ونَ ﴿٤٥﴾
جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں (١) اور جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا (اور کا) کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں
٤٥۔١ یا کفر اور استکبار، مطلب یہ ہے کہ مشرکین سے جب یہ کہا جائے کہ معبود صرف ایک ہی ہے تو ان کے دل یہ بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔
٤٥۔١ہاں جب یہ کہا جائے کہ فلاں فلاں بھی معبود ہیں یا وہ بھی آخر اللہ کے نیک بندے ہیں وہ بھی کچھ اختیار رکھتے ہیں وہ بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے یہں تو پھر مشرکین بڑے خوش ہوتے ہیں منحرفین کا یہی حال آج بھی ہے جب ان سے کہا جائے کہ صرف یا اللہ مدد کہو کیونکہ اس کے سوا کوئی مدد کرنے پر قادر نہیں ہے تو سیخ پا ہو جاتے ہیں یہ جملہ ان کے لیے سخت ناگوار ہوتا ہے لیکن جب یا علی مدد یا یارسول اللہ مدد کہا جائے اسی طرح دیگر مردوں سے استمداد واستغاثہ کیا جائے مثلا یا شیخ عبد القادر شیئ اللہ وغیرہ تو پھر ان کے دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔ فتشابھت قلوبھم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قُلِ اللَّـهُمَّ فَاطِرَ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿٤٦﴾
آپ کہہ دیجئے! کہ اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے کھلے کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان امور کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ الجھ رہے تھے (١)
٤٦۔١ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے آغاز میں یہ پڑھا کرتے تھے اللھم رب چبریل ومیکائیل واسرفیل فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ ﴿٤٧﴾
اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو روئے زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو، تو بھی بدترین سزا کے بدلے میں قیامت کے دن یہ سب کچھ دے دیں (١) اور ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا گمان بھی انہیں نہ ہوگا۔ (۲)
٤٧۔١ لیکن پھر بھی وہ قبول نہیں ہوگا جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے (فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 3۔ ال عمران:85) ' وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ولا یوخذ منہا عدل وہاں معاوضہ قبول نہیں کیا جائےگا۔
٤٧۔١یعنی عذاب کی شدت اور اس کی ہولناکیاں اور اس کی انواع واقسام ایسی ہوں گی کہ کبھی ان کے گمان میں نہ آئی ہوں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿٤٨﴾
جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کی برائیاں ان پر کھل پڑیں گی (١) اور جس کا وہ مذاق کرتے تھے وہ انہیں آگھیرے گا (٢)
٤٨۔١ یعنی دنیا میں جن محارم و ما ثم کا وہ ارتکاب کرتے رہے تھے، اس کی سزا ان کے سامنے آ جائے گی۔
٤٨۔٢ وہ عذاب انہیں گھیر لے گا جسے وہ دنیا میں ناممکن سمجھتے تھے، اس لئے کہ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ‌ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٤٩﴾
انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے (۱) تو ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے (۲) کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں (۳) بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ (٤)
٤٩۔١یہ انسان کا بہ اعتبار جنس ذکر ہے یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری فقر و فاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔
٤٩۔۲ یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم و ہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔
٤٩۔۳ یعنی بات وہ نہیں ہے جو تو سمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر؟
٤٩۔٤ اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٥٠﴾
ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کاروائی ان کے کچھ کام نہ آئی (١)۔
٥٠۔١ جس طرح قارون نے بھی کہا تھا، لیکن بالاآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فما اغنی میں ما استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی دونوں طرح معنی صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَـٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ ﴿٥١﴾
پھر ان کی تمام برائیاں ان پر آن پڑیں (۱)، اور ان میں سے بھی جو گناہ گار ہیں ان کی کی ہوئی برائیاں بھی اب ان پر آپڑیں گی، یہ (ہمیں) ہرا دینے والے نہیں۔ (۲)
۵۱۔۱برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے ان کو مشاکلت کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے ورنہ برائی کی جزا برائی نہیں ہے جیسے وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا میں ہے فتح القدیر
٤٩۔۲یہ کفار مکہ کو تنبیہ ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط قتل واسارت وغیرہ سے دو چار ہوئے اللہ کی طرف سے آئے ہوئے ان عذابوں کو یہ روک نہیں سکے۔
 
Top