• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَ‌بُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ ﴿١٢٤﴾
(اور یہ شکر گزاری باعث نصرت و امداد ہو) جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے، کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کر اللہ تعالٰی کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہو گا۔

بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُ‌وا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِ‌هِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَ‌بُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴿١٢٥﴾
کیوں نہیں، بلکہ اگر تم صبر کرو پرہیزگاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آ جائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا (١) جو نشاندار ہوں گے۔ (٢)
١٢٥۔١ مسلمان بدر کی جانب محض قافلہ قریش سے جو تقریباً نہتا تھا چھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکر جرار پورے غیظ و غضب اور جوش و خروش کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا رد عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا و فریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبر و تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین اسی حالت غیظ و غضب میں آدھمکے تو فرشتوں کی یہ تعداد پانچ ہزار کر دی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین کا جوش و غضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لیے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آ سکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔
١٢٥۔٢ یعنی پہچان کے لیے ان کی مخصوص علامت ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ إِلَّا بُشْرَ‌ىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ‌ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿١٢٦﴾
اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمنان قلب کے لیے ہے، ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔

لِيَقْطَعَ طَرَ‌فًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنقَلِبُوا خَائِبِينَ ﴿١٢٧﴾
(اس امداد الٰہی کا مقصد یہ تھا کہ اللہ) کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر ڈالے اور (سارے کے سارے) نامراد ہو کر واپس چلے جائیں (١)
١٢٧۔١ یہ اللہ غالب و کارفرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے۔ سورۂ انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے۔ ﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ﴾ (الانفال: 9) ”جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا“، ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتاً ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لیے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لیے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور وہ اپنی مدد کے لیے فرشتوں کا یا کسی اور کا محتاج ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ (ایسر التفاسیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ‌ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ﴿١٢٨﴾
اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، (١) اللہ تعالٰی چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے (٢) یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
١٢٨۔١ یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک بھی شہید ہو گئے اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہو گی جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا“، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہدایت سے ناامیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کفار کے لیے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لیے بددعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کا سلسلہ بند فرما دیا۔ (ابن کثیر و فتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل قرار دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی راستے کی طرف بلانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔
١٢٨۔٢ یہ قبیلے جن کے لیے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہو گئے۔ جن سے معلوم ہوا مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالٰی ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ يَغْفِرُ‌ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٢٩﴾
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے، وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے، اللہ تعالٰی بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّ‌بَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٣٠﴾
اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ، (١) اللہ تعالٰی سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے۔
١٣٠۔١ چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور مال دنیا کے لالچ کے سبب ہوئی تھی اس لیے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کیشی کی تاکید کی جا رہی ہےاور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ کا یہ مطلب نہیں بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے۔ بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب، مطلقاً حرام ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہ قید نہی (حرمت) کے لیے بطور شرط نہیں ہے بلکہ واقعے کی رعایت کے طور پر یعنی سود کی اس وقت جو صورتحال تھی، اس کا بیان و اظہار ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کا یہ رواج عام تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آ جاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مزید مدت میں اضافے کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا جس کی وجہ سے تھوڑی سی رقم بڑھ چڑھ کر کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لیے اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل حرام تمہیں کفر تک پہنچا سکتا ہے، کیونکہ یہ اللہ و رسول سے محاربہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَاتَّقُوا النَّارَ‌ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٣١﴾
اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿١٣٢﴾
اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

وَسَارِ‌عُوا إِلَىٰ مَغْفِرَ‌ةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْ‌ضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾
اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو (١) جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
١٣٣۔١ مال و دولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کی بجائے، اللہ و رسول کی اطاعت اور اللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لیے اللہ نے تیار کیا ہے۔ چنانچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّ‌اءِ وَالضَّرَّ‌اءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾
جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقعہ پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، (١) غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، (٢) اللہ نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔
١٣٤۔١ یعنی محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر حال اور ہر موقعے پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
١٣٤۔٢ یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کر دیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُ‌وا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُ‌وا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ‌ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّ‌وا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾
جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، (١) فی الواقع اللہ تعالٰی کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔
١٣٥۔١ یعنی جب ان سے بہ تقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو فوراً توبہ و استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ‌ الْعَامِلِينَ ﴿١٣٦﴾
انہی کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے۔

قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَانظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴿١٣٧﴾
تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں، سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ (آسمانی تعلیم کے) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ (١)
١٣٧۔١ جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا، جس میں سے تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبد اللہ ابن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کر دی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست، تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا۔ لیکن جب مسلمان فتح یاب ہو گئے اور مال و اسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہو گیا۔ کچھ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا کہ جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا، لیکن جب یہ جنگ ختم ہو گئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال و اسباب جمع کرنا شروع کر دیا اور وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطاعت میں صرف دس آدمی باقی رہ گئے۔ جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا جس سے مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی اور وہ غیر متوقع حملے سے سخت سراسیمہ ہو گئے جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی و بربادی اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر بنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٨﴾
عام لوگوں کے لیے تو یہ (قرآن) بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت و نصیحت ہے۔

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾
تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایمان دار ہو۔
١٣٩۔١ گزشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب و کامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی بنیاد واضح کر دی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْ‌حٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْ‌حٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿١٤٠﴾
اگر تم زخمی ہوئے ہو تو تمہارے مخالف لوگ بھی تو ایسے ہی زخمی ہو چکے ہیں، ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ (١) (شکست احد) اس لیے تھی کہ اللہ تعالٰی ایمان والوں کو ظاہر کر دے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے، اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔
١٤٠۔١ ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں تو کیا ہوا؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتدا میں اسی طرح زخمی ہو چکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح و شکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کر دیتا ہے۔
 
Top