• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلِيُمَحِّصَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٤١﴾
(یہ بھی وجہ تھی) کہ اللہ تعالٰی ایمان والوں کو بالکل الگ کر دے اور کافروں کو مٹا دے۔
١٤١۔١ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی شکست ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی، اس میں بھی مستقبل کے لیے کئی حکمتیں پنہاں تھیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے بیان فرما رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ظاہر کر دے (کیونکہ صبر و استقامت ایمان کا تقاضا ہے) جنگ کی شدتوں اور مصیبتوں میں جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، یقیناً وہ سب مومن ہیں۔ دوسری یہ کہ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ تیسری یہ کہ ایمان والوں کو ان کے گناہوں سے پاک کر دے۔ تَمْحِيصٌ کے ایک معنی اختیار (چن لینا) کے لیے گئے ہیں۔ ایک معنی تطہیر اور ایک معنی تخلیص کے کیے گئے ہیں۔ آخری دونوں کا مطلب گناہوں سے پاکی اور خلاصی ہے۔ (فتح القدیر) مرحوم مترجم نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے۔ چوتھی، یہ کافروں کو ہٹا دے۔ اور اس طرح کہ وقتی فتح یابی سے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہو گا اور یہی چیز ان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بنے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٤٢﴾
کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، (١) حالانکہ اب تک اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ (٢)
١٤٢۔١ یعنی بغیر قتال و شدائد کی آزمائش کے تم جنت میں چلے جاؤ گے؟ نہیں بلکہ جنت ان لوگوں کو ملے گی جو آزمائش میں پورے اتریں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا﴾ (البقرۃ: 214) ”کیا تم نے گمان (کیا کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب ہلائے گئے“ مزید فرمایا ﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ﴾ (العنکبوت:2) ”کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی؟“
١٤٢۔٢ یہ مضمون اس سے پہلے سورۂ بقرۃ میں گزر چکا ہے۔ یہاں موضوع کی مناسبت سے پھر بیان کیا جا رہا ہے کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی، اس کے لیے پہلے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارا اور میدان جہاد میں آزمایا جائے گا وہاں نرغۂ اعدا میں گھر کر تم سرفروشی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہو یا نہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَ‌أَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ ﴿١٤٣﴾
جنگ سے پہلے تم شہادت کی آرزو میں تھے (١) اب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ (۲)
١٤٣۔١ یہ اشارہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف ہے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ایک احساس محرومی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ میدان کار زار گرم ہو تو وہ بھی کافروں کی سرکوبی کر کے جہاد کی فضیلت حاصل کریں۔ انہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ احد میں جوش جہاد سے کام لیتے ہوئے مدینہ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن جب مسلمانوں کی فتح، کافروں کے اچانک حملے سے شکست میں تبدیل ہو گئی (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی) تو یہ پرجوش مجاہدین بھی سراسیمگی کا شکار ہو گئے اور بعض نے راہ فرار اختیار کی۔ (جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی) اور بہت تھوڑے لوگ ہی ثابت قدم رہے۔ (فتح القدیر) اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی آرزو مت کرو اللہ سے عافیت طلب کیا کرو تاہم جب ازخود حالات ایسے بن جائیں کہ تمہیں دشمن سے لڑنا پڑ جائے تو پھر ثابت قدم رہو اور یہ بات جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے (صحیحین بحوالہ ابن کثیر)
١٤٣۔۲ رَأَيْتُمُوهُ اور تَنْظُرُونَ۔ دونوں کے ایک ہی معنی یعنی دیکھنے کے ہیں۔ تاکید اور مبالغے کے لیے دو لفظ لائے گئے ہیں۔ یعنی تلواروں کی چمک، نیزوں کی تیزی، تیروں کی یلغار اور جاں بازوں کی صف آرائی میں تم نے موت کا خوب مشاہدہ کر لیا۔ (ابن كثير و فتح القدير)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِ‌ينَ ﴿١٤٤﴾
(حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف رسول ہی ہیں، (١) ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالٰی کا کچھ نہ بگاڑے گا، (٢) عنقریب اللہ تعالٰی شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا (۳)
١٤٤۔١ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں (یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
١٤٤۔۲ جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہو جانا یا اس پر موت کا وارد ہو جانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیاء عليه السلام بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (بالفرض) اس سے دوچار ہو جائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھر جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی، جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔
١٤٤۔۳ یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِ‌دْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِ‌دْ ثَوَابَ الْآخِرَ‌ةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِ‌ينَ ﴿١٤٥﴾
بغیر اللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے، دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دے دیں گے۔ (١) اور احسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے۔
١٤٥۔١ یہ کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی، پھر بھاگنے یا بزدلی دکھانے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں گی ہی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ آگے مزید حوصلہ افزائی اور نسل کے لیے پچھلےانبیاء، اور ان کے پیروکاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِ‌بِّيُّونَ كَثِيرٌ‌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٤٦﴾
بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر، بہت سے اللہ والے جہاد کر چکے ہیں، انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست رہے اور نہ دبے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو (ہی) چاہتا ہے۔ (١)
١٤٦۔١ یعنی ان کو جو جنگ کی شدتوں میں پست ہمت نہیں ہوتے اور ضعف اور کمزوری نہیں دکھاتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَ‌بَّنَا اغْفِرْ‌ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَ‌افَنَا فِي أَمْرِ‌نَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْ‌نَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٤٧﴾
وہ یہی کہتے رہے کہ اے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر مدد دے۔

فَآتَاهُمُ اللَّـهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَ‌ةِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٤٨﴾
اللہ تعالٰی نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا يَرُ‌دُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِ‌ينَ ﴿١٤٩﴾
اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے پلٹا دیں گے، (یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نامراد ہو جاؤ گے۔

بَلِ اللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ‌ النَّاصِرِ‌ينَ ﴿١٥٠﴾
بلکہ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہ ہی بہترین مددگار ہے۔ (١)
١٥٠۔١ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت و خسران کا باعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت ہی میں ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگارنہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا الرُّ‌عْبَ بِمَا أَشْرَ‌كُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ۖ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ‌ ۚ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ ﴿١٥١﴾
ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے، اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری، (١) ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور ان ظالموں کی بری جگہ ہے۔
١٥١۔١ مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کے بالکلیہ خاتمہ کے لیے بڑا اچھا ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ پھر انہیں اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر) صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہے جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ (نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ) ”دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے“۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کے بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ‌ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَ‌اكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ الْآخِرَ‌ةَ ۚ ثُمَّ صَرَ‌فَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥٢﴾
اللہ تعالٰی نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے۔ (١) یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، (٢) اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، (٣) تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے (٤) اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا (٥) تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے (٦) اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالٰی بڑے فضل والا ہے۔ (٧)
١٥٢۔١ اس وعدے سے بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکورہے تو اس سے مراد فتح و نصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لیے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب و فاتح رہے جس کی طرف ﴿إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ سے اشارہ کیا گیا ہے۔
١٥٢۔٢ اس تنازع اور عصیان سے مراد تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح و غلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔
١٥٢۔٣ اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔
١٥٢۔٤ یعنی مال غنیمت، جس کے لیے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔
١٥٢۔٥ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
١٥٢۔٦ یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔
١٥٢۔٧ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس شرف و فعل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کر کے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لیے معافی کا اعلان کر دیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لیے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لیے طعن و تشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقعے پر ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بعض اعتراضات کیے کہ وہ جنگ بدر میں، بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے، نیز یوم احد میں فرار ہو گئے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو ان کی اہلیہ (بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوۂ احد)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّ‌سُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَ‌اكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١٥٣﴾
جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے (١) اور کسی کی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے، (٢) بس تمہیں غم پر غم پہنچا (٣) تاکہ تم فوت شدہ چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف) پر اداس ہو، (٤) اللہ تعالٰی تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
١٥٣۔١ کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اورمسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی۔ یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ تُصْعِدُونَ إِصْعَادٌ سے ہے جس کے معنی اپنی رو بھاگے جانے یا وادی کی طرف چڑھے جانے یا بھاگنے کے ہیں۔ (طبری)
١٥٣۔٢ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے۔ إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! ”اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ“۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا؟
١٥٣۔٣ فَأَثَابَكُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا غَمًّا بِغَمٍّ بمعنی غَمًّا علی غَمٍّ ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد ہے، مال غنیمت اور کفار پر فتح و ظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔
١٥٣۔٤ یعنی یہ غم پر غم اس لیے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم و حوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔
 
Top