• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اسماء و صفات از شیخ عبید اللہ باقی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :1
✍ : عبيد الله الباقي
أسماء وصفات کی لغوی تعریف
☆ اسم کی لغوی تعریف
▪ لغویوں کے نزدیک :
جو مسمی(ذات) پر دلالت کرتا ہے وہ: اسم ہے۔
▪ نحویوں کے نزدیک :
جو ایسا معنی پر دلالت کرے جس کے ساتھ کوئی زمانہ مقترن نہ ہو وہ: اسم ہے۔

(شرح ابن عقيل:1/15، والتعريفات للجرجاني،ص:28، و المعجم الوسيط:1/452)

☆ صفت کی لغوی تعریف :
• صفت: یہ "صفات" کا مفرد ہے، اس میں "تاء"در اصل "واو" کے عوض میں آیا ہوا ہے، کیونکہ اس کی اصل " وصف" ہے۔
• صفت: یہ ایسا معنی پر دلالت کرتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہو۔
ابن فارس نے کہا:" واو، اور صاد، اور فاء ایک ایسی اصل ہے جس سےکسی چیز کی تزئین کاری مراد ہوتی ہے"۔

(معجم مقاييس اللغة لابن فارس:6/115، و لسان العرب:9/356)۔

☆ نعت کی لغوی تعریف :
نعت سے مراد وصف ہے.
ابن حجر نے کہا:" نعوت نعت کی جمع ہے، کہا جاتا ہے: نعت فلانا نعتا، مثل وصفه وصفا زنة ومعنى".
( فتح الباري لابن حجر: 11/382)

اسم، صفت، اور نعت میں فرق
☆ "صفت" اور "وصف" میں فرق :
1- لفظ" صفت " یہ " وَصَفَ " کا مصدر ہے، جیسے لفظ "وَصْفٌ" کی جمع" اوصاف" ہے، لہذا کہتے ہیں:" وصف، صفةً، وصْفاً" جس کا ایک ہی معنی ہے۔
بنا بریں اللہ کی صفات کے بارے میں کہا جائے گا: وہ صفات بھی ہیں اور اوصاف بھی ہیں ۔

2- " صفت " کسی چیز کی لازمی آرائش کا نام ہے، جبکہ " وصف " تزئین کاری کا نام ہے۔
(لسان العرب لابن منظور: 9/356، والمفردات للراغب الأصفهاني،ص:525)
اس بنا پر " صفت " سے مراد: وہ معنی ہے جو موصوف کے ساتھ قائم ہو.
جبکہ" وصف" سے مراد: بیان کرنے والے کا قول" موصوف کے ساتھ وہ صفت قائم ہے یا نہیں " ہے۔
لہذا اس بنیاد پر اللہ کی صفات پر " اوصاف " کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بسا اوقات " وصف " کا اطلاق باطل بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ مشرکین کو وعید سناتے ہوئے فرمایا:{سيجزيهم وصفهم}[سورة الأنعام:139]

3- " وصف " یہ مطلقا بولا جاتا ہے، جبکہ " صفت " اضافت اور قید کے ساتھ بولا جاتا ہے، جیسے " السمع " یہ وصف ہے، اور " سمع اللہ " یہ صفت ہے۔
♧ صحیح
یہ ہے کہ : دونوں میں سے ہر ایک کا اطلاق کبھی بلا قید و اضافت، اور کبھی اضافت و قید کے ساتھ ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ - فرماتے ہیں کہ :" ......اور محققین کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان دونوں لفظوں سے میں ہر کا اطلاق کبھی قول ہر ہوتا ہے، تو کبھی معنی پر ہوتا ہے، اور قرآن و سنت نے علم، قدرت وغیرھا معانی کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے"۔
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ:6/340- 641)

☆ صفت اور نعت میں فرق :
صفت اور نعت میں کوئی فرق نہیں ہے، ان میں سے ہر کا استعمال ایک دوسرے کی جگہ پر ہوتا ہے، نحویوں کا اسی پر اتفاق ہے، چنانچہ اہل کوفہ " نعت " کہتے ہیں، جبکہ اہل بصرہ " صفت " کہتے ہیں، اور یہ لوگ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔
( الفروق في اللغة للعسكري،ص:22)
اسی لئے آئمہ سلف نے اس لفظ " نعت " کا اطلاق اللہ کی صفات پر کیا ہے، جیسے امام بخاری- رحمہ اللہ- نے اپنی صحیح میں ایک باب " باب مايذكر في الذات و النعوت وأسماء الله " کے نام پر باندھا ہے، اور اسی طرح امام نسائی- رحمہ اللہ- نے اللہ کے أسماء وصفات پر ایک کتاب تصنیف کی، جس کا نام رکھا" النعوت ".

☆ اسم اور صفت میں فرق :
" اسم " ذات پر دلالت کرتا ہے، جبکہ" صفت " اس معنی پر دلالت کرتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
اسم و صفت کے درمیان پایا جانے والا یہ فرق صرف مخلوقات کے ساتھ خاص ہے، اللہ کے أسماء وصفات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ اللہ سارے أسماء، ایک ہی ساتھ أسماء اور صفات ہیں، لہذا وہ اعلام بھی ہیں اور اوصاف بھی ہیں۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریںأدلة صفات الله ووجوه دلالتها وأحكامها، للدكتور محمد بن عبد الرحمن الجهني،ص:16-28، و النفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة لمحمد أزرقي،ص:49- 58 )

صفت کی اصطلاحی تعریف
1- وہ معانی اور نعوت ہیں جو ذات کے ساتھ قائم ہیں، اور یہ اللہ کے حق میں نعوت جلال، و جمال، اور عظمت و کمال ہیں، جیسے قدرت، ارادہ، علم، اور حکمت ہے۔
( الصفات الإلهية ،ص:84)
2- وہ صفات ہیں جو ذات الہیہ کے ساتھ قائم ہیں، جو اسے غیروں سے الگ کر دیں، اور وہ کتاب وسنت کی نصوص میں وارد ہوں۔
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات،ص:31)

توحيد الأسماء والصفات کی تعریف
1- بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ان (تمام أسماء حسنى، اور صفات عليا) پر ايمان ركھنا جن سےاللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود کو متصف کیا ہے، یا اللہ تعالی کو اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے متصف کیا ہے۔
( العقيدة الواسطية،ص:2)
2- ان تمام أسماء حسنى، اور صفات عليا پر ايمان ركھنا جن سےاللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود کو متصف کیا ہے، یا اللہ تعالی کو اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے متصف کیا ہے، اور انہیں اللہ کے لائق طریقے ہی سے ثابت کرنا ہے۔
(أعلام السنة المنشورة،للشيخ حافظ الحكمي،ص:56)
3- اللہ - عز وجل - کو اس کے نام وصفات میں ایک ماننا۔
( القول المفيد،ص:13)

جاری ہے
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :2
✍ عبیدالله الباقي
مسائلِ اسماء وصفات كو بخوبی سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل امور کی معرفت ضروری ہے :
1- مدارسِ عقدیہ کی معرفت۔ 2- مدارسِ عقدیہ کے مصادر و مناهج استدلال کی معرفت۔
3- تاریخِ تدوینِ عقیدہ،اور اس کے مراحل کی معرفت۔
4- علمِ عقيدة میں مناھجِ تصنیف کی معرفت۔
5- مسائلِ عقیدہ کی معرفت۔
6- مسائلِ عقیدہ کے طریقہ حل کی معرفت۔

مسائلِ عقیدہ کے قوانینِ حلول :
1- حقائقِ اقوال پر ترکیز کرنا ۔
☆ کسی بھی مختلف فیہ مسئلہ کو حل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں:
• 1- فلاں مسئلہ میں جہمیہ کا قول یہ ہے.......
اورمعتزلہ کا قول یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
•2- فلاں مسئلہ میں پانچ مختلف اقوال ہیں:
1- تعطيل
2- تشبیہ
3- تفویض
4- تلفیق
5- قول اہل السنہ والجماعہ۔
♧ صحیح :
دوسرا طریقہ ذیادہ بہتر اور انسب ہے۔

2- مخلتف اقوال کے اصولوں کی معرفت ۔
☆ کسی عقدی مسئلہ کو حل کرنے نے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس بات کی معرفت ہو کہ کن اصولوں پر زیر بحث مسئلہ کے مختلف اقوال مبنی ہیں؟۔

3- اصول کلیہ اور ان کے دلائل میں فرق کرنا ۔
☆ یہ بات معلوم ہو کہ اصل اور اس کی دلیل میں بنیادی فرق ہے،کیونکہ ہر عقدی قول تین اساسی امور پر مشتمل ہوتا ہے:
• قول
•اصل
•دلیل
واضح رہے کہ اقوال عقدیہ اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں،لہذا کسی عقدی مسئلہ کو حل کرنے کے وقت اقوال اور دلائل کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ اصولوں کو دیکھتے ہوئے اس پر حکم لگایا جائے گا۔

4- ترتیبِ دلائل کا خیال رکھنا ۔
☆ دلائل اپنی دلالت میں متفاوت ہوتے ہیں، لہذا جب کسی عقدی مسئلہ کو حل کیا جائے تو وصفِ دلائل کا اعتبار نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ایسے میں قوتِ دلائل کا اعتبار ہو گا۔

5- مذہبی اختلافات کو مد نظر رکھنا ۔
☆ کسی عقدی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے فرقوں کے آپسی اختلافات کو سامنے رکھنا بڑا اہم ہے،جیسے: معتزلہ کے دو مدارس ہیں:
• مدرسہ بغدادیہ
•مدرسہ بصریہ
بہت سارے مسائل میں دونوں مدارس کی آراء مخلتف ہیں، لہذا ان کے آپسی اختلافات اور آراء سے آگہی ضروری ہے۔

6- آئمہ فِرق کے شخصی اختلافات کو مد نظر رکھنا ۔
☆جس طرح مدارس عقدیہ کے درمیان اختلافات ہیں، اس طرح آئمہ فرق کے درمیان میں بھی کافی اختلافات ہیں، جیسے رازی، غزالی، اور جوینی وغیرھم کے اقوال۔
لہذا کسی عقدی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ان آئمہ کی آراء اور آپسی اختلافات کی جانکاری ضروری ہے۔

7- اقوال فِرق کے درمیان مؤثر کن فروق کی معرفت ۔
☆ بہت سارے اقوال عقدیہ کے حقائق مشترکہ ہوتے ہیں، مگر ان کے اتجاھات مختلف ہوتے ہیں، جیسے اشاعرہ نے سات صفات( علم، حیاة، قدرة، إرادة، سمع، بصر، كلام) کو ثابت کیا، اور اہل السنہ والجماعہ بھی ثابت کرتے ہیں، حقیقت تو ایک ہے، لیکن اشاعرہ کی اصل اہل السنہ والجماعہ کی اصل سے مختلف ہے۔

8- استعمالِ مصطلحات عقدیہ کی معرفت ۔
☆ ایک ہی مصطلح کا معنی مخلتف فرقوں کے یہاں مختلف ہوتا ہے، جیسے: جسم؛ اسے متکلمین، فلاسفہ، اور بسا اوقات اہل السنہ والجماعہ نے بھی استعمال کیا ہے، لیکن ہر ایک یہاں اس کا معنی و مفہوم مخلتف ہے، لہذا کسی عقدی مسئلہ کو حل کرنے سے قبل مصطلحات عقدیہ کی حقیقت سے واقفیت ضروری ہے۔

9- عقدی مسائل سے متعلق تاریخی حوادث کی معرفت ۔
☆ ایسے بہت سارے حوادث ہیں جو مسائل عقدیہ سے متعلق ہیں، جیسے " فتنہ خلق قرآن " وغیرہ، اس طرح کے حوادث کے استحضار سے زیر بحث مسئلہ کو سمجھنے، اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔

10- مطلوبہ مسئلہ سے متعلق مقالات فِرق کو جمع کرنا ۔
☆ زیر بحث عقدی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کتب فرق کا مطالعہ، اقوال فرق کو جمع کرنا، اور ان کے درمیان موازنہ کرنا وغیرہ امور سے صحیح نتیجہ نکالنے میں آسانی ہوتی ہے۔

11- نصوصِ فِرق کو دلائل کے طور پر پیش کرنا ۔
☆ کسی عقدی مسئلہ کو صحیح نتیجہ تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ نصوص فرق سے مخالفین کی تردید کی جائے، جس کے لئے ان کی امہات کتب اور اصلی مصادر کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔

12- عصر حاضر کے مسائل، اور علماء کبار کی آراء سے واقفیت ۔
☆ آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، ایسے میں ان مسائل کی باریکیوں، اور علماء کبار کے فتاوے، رسائل جامعیہ، محاضرات علمیہ پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

نوٹ : یہ بحث دكتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد ہے.

جاری ہے
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الاسماء والصفات
قسط :3
✍ عبید اللہ الباقي
مسائلِ عقدیہ کے اختلافات میں طریقہ تعامل
● اسماء وصفات کے باب میں جتنے اختلافات رو نما ہوئے، ان کا کوئی نظیر کسی اور باب میں نظر نہیں آتا، عقلی، اور فلسفی اصولوں کی بھیڑ میں اس باب كی اصل حقیقت ہی گم ہو گئی، لیکن آئمہ سلف نے ہر موڑ پر مخالفینِ اہل السنہ والجماعہ کی سخت تردید کی، جن میں امام دارمی، احمد، آجری، لالکائی،طبری، دارقطنی، ابن مندہ، ابن بطہ، صابونی، بخاری، ابن تیمیہ، ابن القیم، شاہ ولی اللہ، ابن باز، ابن عثیمین وغیرھم- رحمہم اللہ - جیسے آئمہ سلف کی تالیفات تردید مخالفین کے باب میں قابل ذکر ہیں. - اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے۔

● صفات الہیہ کے باب میں اختلافات کی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لئے دو باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے:
1- مدارس عقدیہ : جو عقائد کی بناء میں اصول کلیہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
2- فرقہ : جو کسی نے نا کسی عقدی مدرسہ سے نکلتا ہے۔
مذکورہ آئمہ سلف کی مؤلفات کاجائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کسی عقدی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اختلافات کی صحیح تشخیص مقالاتِ فِرق سے نہیں بلکہ مدارسِ عقدیہ کے اصولوں سے ہوتی ہے۔
لہذا کسی بھی عقدی مسئلے کی وجہِ اختلاف کی صحيح معرفت مدارس عقدیہ کے اصولوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

● مدارس عقدیہ منجملہ چار ہیں :
1- مدرسہ فلسفیہ برہانیہ : جس کے سرکردہ کندی، فارابی، اور ابن سینا وغیرھم ہیں۔
2- مدرسہ کلامیہ : جس کے پیش رو معتزلہ، اشاعرہ، اور ماتریدیہ ہیں۔
3- مدرسہ کشفیہ (صوفیہ):جس کی نمائندگی بعض صوفیہ، اور بعض فلاسفہ کرتے ہیں۔
4- مدرسہ اہل السنہ والجماعہ

● ان تمام مدارس سے مختلف فرقے وجود میں آئے، جن کے اصول اور اتجاھات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، مگر کثرت اختلافات کے باوجود سارے فرقے دو امور میں متفق ہیں:
أ- صفاتِ کمال کو اللہ عزوجل کے لئے ثابت کرنا ۔
ب- ہر طرح کے نقائص و عیوب سے اللہ تعالی کی تنزیہ کرنا .
لہذا جنہوں نے سمجھا کہ یہ امر( اللہ کے لئے اثبات کمال، اور عیوب و نقائص سے تنزیہ ) انکارِ صفات كے بغیر متحقق نہیں ہو سکتا ہے، تو وہ تمام اسماء وصفات کا انکار کر بیٹھے،جیسے جہمیہ اور معطلہ نے صفات کے باب میں کیا۔
اور جنہوں نے سمجھا کہ تشبیہ کے بغیر یہ متحقق نہیں ہو سکتا ہے، تو انہوں نے خالق کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے دی، یا مخلوق کو خالق کے ساتھ مشابہ قرار دیا، جیسے مشبہ نے صفات کے باب میں کیا۔

● مقالاتِ فِرق کا استقرائی جائزہ لینے سے منجملہ پانچ قسم کے مقالے سامنے آتے ہیں، جو ترتیب زمانی کے اعتبار سے مندرجہ ذیل ہیں :
1- مقالہ اہل السنہ والجماعہ ؛جس میں نفی و اثبات کو جمع کیا جاتا ہے، لہذا جن صفات کو اللہ یا اس کے رسول -صلی اللہ علیہ وسلم - نے ثابت کیا ہے انہیں بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ثابت کرنا ضروری ہے، اور جن صفات کا انکار کیا ہے ان کا انکار کرنا بھی ضروری ہے ۔
2- مقالہ تعطیل ؛ جس میں اللہ عزوجل کی ذات کے ساتھ قیام ِ صفات یا قیامِ معانیِ صفات کا انکار کیا جاتا ہے۔
3- مقالہ تشبیہ ؛ جس میں صفاتِ خالق كو اس طرح ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ صفاتِ مخلوق کے مشابہ قرار پاتی ہیں۔
4- مقالہ تلفیق ؛ جس میں ایسے اصولوں کو جمع کیا جاتا ہے جن میں سے بعض اصولوں كے ذریعہ چند صفات کو ثابت کیا جاتا ہے، جبکہ بعض اصولوں کے ذریعہ اکثر صفات کا انکار کیا جاتا ہے۔
5- مقالہ تفویض ؛ جس میں اللہ کی ذات کے ساتھ قائم شدہ صفات کے معانی کا انکار کیا جاتا ہے۔

● مذکورہ پانچوں مقالات کو مکمل طور سے ضبط کر نے لئے دس(10) امور کی ضرورت پڑتی ہیں :
1- ان مقالات کی حقیقت کی معرفت۔
2- ان اصولوں کی معرفت جن پر یہ مقالات قائم ہیں۔
3- ان دلائل کی معرفت جن سے ان مقالات پر استدلال کیا گیا ہے۔
4- ان مقالات کی تاریخی نشا و نما کی معرفت۔
5- ان کے مدارس عقدیہ کی معرفت۔
6- ان کے بنیادی افکار و اتجاھات کی معرفت۔
7- ان کے تاریخی تطورات کی معرفت۔
8- ان کے اسبابِ حدوث کی معرفت۔
9- ان کے اسبابِ انتشار، اوران اہم مناطق کی معرفت جہاں انہیں قوت حاصل ہوئی ۔
10- مذکورہ تمام امور سے مستنبط آراء سے مکمل طور پر آگاہی۔

نوٹ :
یہ مبحث دکتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد ہے۔
جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:4
✍ عبید اللہ الباقي
صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج
• صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج " الجمع بین النفي والإثبات " رہا ہے، جس بناء پر وہ ان تمام صفات کو ثابت کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے خود اپنے لئے یا پھر اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم -نے اس کے لئے ثابت کیا ہے، اور ان تمام صفات کا انکار کرتے ہیں جن کا انکار خود اللہ نے یا اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے کیا ہے۔

صفات کے باب میں نفی و اثبات کی توضیح دلائل شرعیہ کی روشنی میں
أ- آيات قرآنيہ
1- اللہ تعالی کا ارشاد گرامی:{ ليس كمثله شيء وهو السميع البصير}[سورة الشورى:11]
•{ليس كمثله شيء} نفی .
•{وهو السميع البصير} إثبات .
2- اللہ تعالی کا فرمان:{ وتوكل على الحي الذي لا يموت}[سورة الفرقان:58]
•{وتوكل على الحي} إثبات .
•{الذي لا يموت} نفي .
ب- احادیث نبویہ
1- نبی کریم کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- کا قول:" ينزل ربنا عزوجل حين بيقى ثلث الليل الآخر إلى السماء الدنيا"(صحيح بخاری:3/229، وصحیح مسلم:1/5221)
یہ حدیث اثبات صفات پر دلالت کرتی ہے۔
2- اللہ کے نبی- صلی اللہ علیہ وسلم- کا قول:"إن الله تعالى ليس بأعور"( صحیح بخاری:13/90، وصحیح مسلم:18/59)
یہ حدیث نفی صفات پر دلالت کرتی ہے۔

ائمہ سلف نے صفات کے باب میں " نفی و إثبات " کے لئےکو چار شرطوں کا التزام کیا ہے:
أ- عدم تحریف
ب- عدم تعطیل
ج- عدم تکییف
د- عدم تمثیل

☆ ائمہ سلف کے اقوال سے ان چاروں شروط کا ثبوت .
• اس باب میں چند آئمہ کرام کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں :
1- امام ابن عبد البر - رحمہ اللہ - نے کہا:" قرآن و سنت میں وارد تمام صفات کے اقرار کرنے، ان پر ایمان رکھنے، مجاز کو چھوڑ کر انہیں صرف حقیقت پر محمول کرنے پر اہل السنہ والجماعہ کا اجماع ہے، ساتھ ہی وہ کسی صفت کی کیفیت بیان نہیں کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"
(التمهيد لابن عبد البر:7/145)

2- امام احمد - رحمہ اللہ - نے کہا:" اللہ کو ان ہی صفات سے موصوف کیا جا سکتا ہے جن سے خود کو موصوف کیا ہے، یا جن صفات سے اس کے رسول نے اسے موصوف کیا ہے، اور ہم قرآن و سنت سے تجاوز نہیں کرتے ہیں"
(لمعة الاعتقاد،ص:9)
3- امام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ - نے کہا:" الله نے جن صفات کو ثابت کیا ہے، ان تمام صفات کو بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ثابت کرنا ہے"
(التدمرية،ص:7)

مذکورہ چاروں( تحریف، تعطیل، تکییف، اور تمثیل) شروط کی توضیح
▪ تحریف کی لغوی و اصطلاحی تعریف
• تحریف کی لغوی تعریف:
" تحریف" کا لغوی معنی: تغییر و تبدیل ہے۔
( معجم مقاییس اللغة،ص:ص255، والقاموس
المحيط،ص:1033)

• اسماء وصفات میں "تحریف" کا مطلب:
اسماء وصفات کی نصوص یا ان کے معانی کو مراد الہی سے پھیر دینا ہے۔
( معتقد اہل السنہ والجماعہ في توحيد الأسماء والصفات،ص:59)

▪ تحریف کے انواع
• تحریف کے دو انواع ہیں:
نوع اول : تحریف لفظی؛ جس میں لفظ کو اصلی صورت سے دوسری صورت میں پھر دیا جاتا ہے ، اور اس کی چار صورتیں ہیں:
1- لفظ میں زیادہ کرنا۔
2- لفظ میں کمی کرنا۔
3- اعرابی حرکت میں تبدیلی کرنا۔
4- غیر اعرابی حرکت میں تبدیلی کرنا۔
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات،ص: 59-60)

• نوع ثانی : تحریف معنوی؛ جس میں لفظ کو اصلی حالت میں رکھتے ہوئے اس کے صحیح معنی کو دوسرے معنی میں بدل دیا جاتا ہے۔
( الصواعق المرسلة:1/201)

▪ تعطيل کی لغوی و اصطلاحی تعریف
•تعطیل کی لغوی تعریف:
" تعطیل" کا لغوی معنی: خالی کرنا، اور چھوڑ دینا ہے۔
ابن فارس نے کہا: عین، اور طاء، اور لال اصل صحیح جو خلو، اور فراغ پر دلالت کرتی ہے۔( معجم مقاييس اللغة،ص:787)

• اسماء و صفات میں تعطیل کا مطلب:
1- تمام نام و صفات کو یا ان میں سے بعض کی نفی کرنا ہے۔۔۔۔
( الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي،ص:153)
2- اللہ کے تمام نام و صفات یا ان میں سے بعض کی نفی کرنا ہے، یا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام صفات کا انکار کرنا ہے۔
( شرح العقيدة الواسطية للهراس،ص:21، مقالة التعطيل للحمد،ص: 18-22)

▪ جن لوگوں نے اسماء و صفات کے باب میں مذھب تعطیل کو اپنایا ہے ان کی دو اصل قسمیں ہیں :
قسم اول : فلاسفہ
اور ان کی دو قسمیں ہیں:
أ- خالص فسلفی۔
ب- باطنی فلسفی؛ ان میں دو قسم کے لوگ ہیں:
• رافضہ
• صوفیہ
قسم ثانی : اہل کلام ، جن کی پانچ قسمیں ہیں:
• جہمیہ
• معتزلہ
•کلابیہ
•اشاعرہ
•ماتریدیہ
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات، ص:63)

▪ تکییف کی لغوی و اصطلاحی تعریف
• تکییف کی لغوی تعریف:
"تکییف" کا لغوی معنی: کسی چیز کی حالت اور اس کی صفت بیان کرنا ہے۔
( الكليات،ص:752، و المعجم الوسيط:2/807)
• اسماء و صفات میں "تکییف" کا مطلب: کسی چیز کو ایک معین ہئیت میں رکھنا ہے ۔
(القواعد المثلى،ص:34، و النفي في باب صفات الله عزوجل،ص:71، معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات،ص:64)

▪ تمثیل کی لغوی و اصطلاحی تعریف
• تمثیل کی لغوی تعریف:
"تمثیل" کا لغوی معنی: کسی چیز کو کسی چیز سے تشبیہ دینا ہے۔
( المعجم الوسيط:2/853)
•اسماء و صفات میں " تمثیل" کا مطلب: اللہ کی صفات کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ مخلوقات کی صفات کی طرح ہیں۔
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات،ص:65)

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط: 5
✍ عبید اللہ الباقي
صفات کے باب میں نفی و اثبات کی حقیقت
• صفات کے باب میں اثبات اصل ہے ، اور نفی فرع ہے، اسی لئے نصوص شرعیہ میں صفات ثبوتیہ کو مفصل بیان کیا گیا ہے، جبکہ صفات منفیہ میں شارع نے طریقہ اجمال اختیار کیا ہے۔

• اثبات مفصل کی دلیل:
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی:{ هو الله الذي لا إله إلا هو عالم الغيب والشهادة هو الرحمن الرحيم..............}[ سورة الحشر:22]
سورہ کی آخری آیت تک صفات الہیہ کو مفصل بیان کیا گیا ہے۔

• بعض نصوص میں اثبات مجمل کا بھی ذکر آیا ہے، مگر یہ بہت کم ہے، جیسے اللہ تعالی کا یہ قول{ ولله المثل الأعلى}[سورة النحل:60]

• نفی مجمل کی دلیل:
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی{ليس كمثله شيء}[ سورة الشورى:11]، اور فرمایا{هل تعلم له سميا}[سورة مريم: 65]

• صفات کے باب میں نفی مجمل اصل ہے ، مگر بعض نصوص میں" نفی مفصل" کا ذکر آیا ہے، جس کے چند اسباب ہیں :
1- جس کا مقصد اللہ کے حق میں دعوی کاذبین کی نفی کرنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ قول:{أن دعوا للرحمن ولدا، وما ينبغي للرحمن أن يتخذ ولدا}[سورة مريم:91-92]
2- جس کا مقصد اللہ کی صفات کمال میں پیدا ہونے والے توھم کو دور کرنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ قول{ وما خلقنا السموات والأرض وما بينهما لعبين}[ سورة الدخان:38]، اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی { وما خلقنا السموات والأرض وما بينهما في ستة أيام وما مسنا من لغوب}[ سورة ق:38]
(تقريب التدمرية، ص:17، رسائل في العقيدة،ص: 205، والمطالب المفيدة في مسائل العقيدة:2/184-185)

• صفات کے باب میں نفی فرع ہے، اس کے چند اسباب ہیں :
1- نفی اگر اصل ہوتی تو اس سے تعطیل محض لازم آتا ہے، اور اس تعطیل محض سے عدم لازم آتا ہے، اور عدم کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
2- علمِ نفی در اصل اثبات کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے، لہذا اثبات اصل ہے نہ کہ نفی۔
3- بغیر علمِ صفات کے نفی کا کوئی فائدہ نہیں، اور علمِ صفات نفی مفصل سے نہیں بلکہ اثبات مفصل سے حاصل ہوتا ہے۔

• صفات کی نفی و اثبات میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج
اس باب میں اہل السنہ والجماعہ کا وہی طریقہ ہے جو انبیاء کرام کا تھا، جو شریعت اسلامیہ کا ہے، اور جو طریقہ سلف صالحین کا ہے، لہذا وہ صفات ثبوتیہ کو تفصیلی بیان کرتے ہیں، اور اس کے متعدد فوائد ہیں :
1- یہ طریقہ مدح کے لئے اکمل ہے، کیونکہ اس سے موصوف کا کمال نمایاں ہوتا ہے۔
2- اس سے اہل التعطیل کے راستے بند ہوں گے، کیونکہ ان کا منہج قرآن و سنت اور اہل السنہ والجماعہ کا مخالف ہے۔
3- اس سے اہل تمثیل کی تردید ہوگی، کیونکہ اس کی وجہ سے صفات الہیہ کی حقیقت واضح ہوگی۔
( القواعد الكلية للبريكان،ص: 155، والمجلى في شرح القواعد المثلى،ص:195، المطالب المفيدة في مسائل العقيدة:2/183-184)

• اس کے برعکس صفات منفیہ میں اہل السنہ والجماعہ نے اجمال کا طریقہ اپنایا ہے، کیونکہ نفی محض سے استہزاء وتنقص لازم آتا ہے، اسی لئے آئمہ سلف نے اس سے گزیر کیاہے۔
اس باب میں اہل السنہ والجماعہ کا درہ امتیاز یہ ہے کہ جن صفات كی نفی کتاب و سنت میں مذکور ہے، ان کی نفی کے ساتھ ساتھ " صفات منفیہ " کے ضدِ كمال کو بھی ثابت کرتے ہیں، جیسے اللہ تعالی کا یہ قول{ وما ربك بظلام للعبيد}[سورة فصلت:46]، لہذا اللہ کی ذات کے لئے جس طرح " ظلم " کی نفی کرنا ضروری ہے، اسی طرح " عدل " کو بھی ثابت کرنا ضروری ہے۔
(مواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص: 22)

• ضابطہ نفی صفات :
أ- عدم تحریف
ب- عدم تعطیل
"تحریف و تعطیل" ہی معطلہ کا اصل آلہ کار ہے، جس کی بنیاد پر انہوں نے اسماء و صفات کی نفی کی، لہذا صفات الہیہ کے اثبات کے وقت ان دونوں ضابطوں《 عدم تحریف و عدم تعطیل 》کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے، صفات کے باب میں تحریف لفظی، یا تحریف معنوی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور نہ ہی تعطیل کی کوئی جگہ ہے، بلکہ تمام صفات کو ویسے ہی ثابت کرنا ہے جس طرح اللہ یا اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے ثابت کیا ہے۔

• ضابطہ اثبات صفات :
أ- عدم تکییف
ب- عدم تمثیل
صفات الہیہ کے دوران اثبات کسی کیفیت معینہ یا غیر معینہ کی گنجائش نہیں، بلکہ انہیں قاعدہ《 أمروها كما جاءت بلا كيف 》کے تحت ظاہری طور پر ثابت کرنا ضروری ہے۔

☆ صفات کے باب میں نفی کی دو قسمیں ہیں :
1-ایسی صفات منفیہ جن سے ذات الہیہ کے ساتھ قیام نقص و عیب کی نفی مقصود ہوتی ہے،جیسے: نیند، تعب وغیرہ کی نفی کرنا.
2- ایسی صفات منفیہ جن سے ذات الہیہ کی طرف نسبت نقص و عیب کی نفی مقصود ہوتی ہے، جیسے: اللہ کے لئے اولاد کی نفی کرنا.
نوٹ :
اللہ کی ذات کے لئے جن صفات کی نفی کی گئی ہے، ان کے دو بنیادی مقاصد ہیں:
1- ہر اس نقص وعیب کی نفی کرنا جو کمال صفات کے منافی ہیں.
2- ہر اس چیز کی نفی کرنا جس سے خالق و مخلوق کے درمیان مماثلت لازم آتی ہے.

جاری ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:6
✍ عبید اللہ الباقي
توحید الأسماء والصفات میں اہل السنہ والجماعہ کے مجمل معتقدات
• توحید الأسماء والصفات میں معتقداتِ اہل السنہ والجماعہ کا اجمالا جائزہ لینے سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں:
1- اللہ تعالی نے اپنے لئے یا اس کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم- نے اس کے لئے جن اسماء و صفات کو ثابت کیا ہے، حقیقتاً ان تمام اسماء سے اللہ تعالی مسمی ہے، اور ان تمام صفات سے موصوف ہے۔
2- جن اسماء و صفات کو اللہ یا اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے ثابت کیا ہے، انہیں بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ثابت کرنا ہے۔
3- اللہ تعالی ہر طرح کی صفات کمال سے متصف ہے، اور ہر طرح کے نقائص و عیوب سے منزہ ہے۔
4- مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کا مثیل وشبیہ نہیں ہو سکتا ہے، جو صفات اس کے ساتھ قائم ہیں، ان کی حقیقت و مقتضیات کے ساتھ اللہ تعالٰی مختص ہے۔
5- اللہ کی صفات، ان کے معانی و کیفیات کو ثابت کرنا ہے، مگر کیفیات کا علم کسی کو نہیں۔
6- صفات کے باب میں اثبات مفصل اور نفی مجمل کا التزام کرنا ہے۔

اسماء و صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کے چند بنیادی اصول
• اسماء و صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کے معتقدات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا منہج منجملہ تین (3) بینادی اصولوں پر مرکوز ہے:
1- قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں وارد اللہ تعالٰی کے تمام نام و صفات پر اثباتا ونفیا ایمان رکھنا ہے.
2- اللہ جل و علا اس بات سے منزہ ہے کہ اس کی کوئی صفت مخلوقات کی صفات سے مشابہ ہو۔
3- جن صفات سے اللہ تعالی متصف ہے ان کی کیفیت کی حرص و طمع بے بنیاد ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں منھج و دراسات لآيات الأسماء والصفات،ص:25، و معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات، ص: 71)

▪ مذكورہ تینوں اصولوں کی توضیح :
● اصل اول: اسماء وصفات پر نفیا اثباتا ایمان رکھنا .
اس اصل کے ذریعہ عقیدہ معطلہ سے عقیدہ اہل السنہ کی تمییز ہوجاتی ہے۔
• اہل السنہ والجماعہ :
یہ لوگ اسماء و صفات کی نفی و اثبات میں کتاب وسنت ہی کو اصل مانتے ہیں، اور وہ ان سے کبھی تجاوز نہیں کرتے ہیں، لہذا جو ثابت ہے اسے ثابت کرتے ہیں، اور جن کی نفی آئی ہے، اس کی نفی کرتے ہیں، اور جو نہ ثابت ہے، اور نہ اس کی کوئی نفی آئی ہے تو اس کا استعمال اسماء و صفات کے باب میں صحیح نہیں ہے، جہاں تک باب اخبار کی بات ہے تو کچھ علماء کرام نے اس سے روکا ہے، جبکہ بعض آئمہ کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ پہلے تحقیق کی جائے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس سے مراد حق ہو، جو اللہ کی شایان شان کے عین موافق ہو، تو وہ مقبول ہے، ورنہ نہیں۔

• اہل تعطیل :
انہوں نے عقل ہی کو اپنے علم کی اصل قرار دیا، ان کے نزدیک شبہات عقلیہ ہی اصول کلیہ ہیں، اور وہی معیار اثبات ونفی ہیں، اس بنیاد پر جو نصوص عقل کے موافق ہیں وہ مقبول ورنہ مردود، المہم ان کے نزدیک" تقدیم العقل علی النقل " ہی اصل کسوٹی ہے۔

● اصل ثانی: عدم مماثلت
اس اصل کے ذریعہ ایک طرف عقیدہ اہل تعطیل سے جبکہ دوسری طرف عقیدہ اہل تشبیہ سے عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کی تمییز ہوتی ہے۔
• اہل السنہ والجماعہ :
اہل السنہ والجماعہ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ جن صفات سے اللہ تعالی متصف ہے ان میں کوئی مخلوق مماثل نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ یہی قانون الہی ہے{ ليس كمثله شيء وهو السميع البصير}[ سورة الشورى:11]
لہذا جو صفات نصوص شرعیہ سے ثابت ہیں وہ یقینا غایت درجے کے کمال ہیں، اور صفات مخلوق صفات خالق کے ساتھ مشابہ نہیں ہو سکتی ہیں۔
بنا بریں تمام صفات پر نفیا و اثباتا ایمان رکھنا ضروری ہے۔

• اہل تعطیل :
انہوں نے اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات کو ویسے ہی سمجھا جو مخلوق کے لائق ہیں، پھر اپنے خود ساختہ مفہومات کی بنا پر ان صفات کی نفی۔
معطلہ نے نفی صفات کے لئے پہلے راہِ تمثیل کو اپنایا، پھر ان کے گمان کے مطابق 《 " اثبات صفات" سے " تمثیل" لازم آتی ہے 》، لہذا انہوں نے صفات الہیہ کا انکار کیا۔
اسی لئے " ہر مُعطِّل مُمثِّل ہے، مگر ہر مُمَثِّل مُعطِّل نہیں ہے ".

اہل تمثیل :
ان کا دعوی ہے کہ اللہ عزوجل وجل نے ہمیں اسی سے مخاطب کیا ہے جو ہم سمجھتے ہیں، لہذا اگر اللہ کا " ہاتھ" ثابت ہے، تو اس کا ہاتھ ویسا ہی ہے جیسا ہم سمجھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے صفات خالق کو صفات مخلوق سے مشابہ قرار دیا، اور کہا کہ: اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے وغیرہ - تعالی الله عما يقولون علوا كبيرا -
• اسماء و صفات کے باب میں معطلہ اور ممثلہ کے موقف سے یہ واضح ہو گیا کہ مذہب اہل السنہ والجماعہ ہی صحیح مذہب ہے، کیونکہ یہ لوگ اللہ کی صفات کمال کی تصدیق کرتے ہیں، اس کی تمام صفات کو ثابت کرتے ہیں، مماثلت کی نفی کرتے ہیں، اور تحریف و تعطیل، اور تکلییف و تمثیل سے گریز کرتے ہیں، غرضکہ اہل تعطیل و اہل تمثیل کے مقابلے میں اہل السنہ والجماعہ وسطیت پر گامزن ہیں۔

● اصل ثالث: عدم تکییف
اس اصل کے ذریعہ عقیدہ مشبِّہ سے عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کی تمییز ہوتی ہے۔
• اہل السنہ والجماعہ :
صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کی سب بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالٰی کی صفات، ان کے معانی، اور ان کی کیفیات کو ثابت کرتے ہیں، کیفیتِ صفت کی تعیین نہیں کرتے ہیں، حالانکہ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہر صفت کی کوئی نہ کوئی کیفیت ضرور ہے، مگر حقیقت کیفیت کو اللہ کا سپرد کرتے ہیں، کیونکہ کیفیاتِ صفات کا علم صرف اللہ کو ہے.
لہذا جن چیزوں کا علم انسان کو نہیں ہے، ان پر بات کرنا بڑا جرم ہے، اس بچنا سب کے لئے ضروری ہے۔

• اہل تشبیہ :
انہوں نے صفات الہیہ کی کیفیات کے سلسلے میں کافی عقلی گھوڑے دوڑائے، اور بغیر علم کے اللہ کی ذات و صفات سے متعلق ایسی باتیں کہہ دیں جو بالکل ناروا، اور غیر مناسب ہیں، جیسے کوئی یہ کہے کہ: اللہ کی آنکھ ہماری آنکھوں کی طرح ہے، یا اس کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی یقینا ان کی بے تکی باتوں سے پاک اور مبرا ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں رسالة في العقل والروح:2/46-47، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص:22-27، ومنهج ودراسات لآيات الأسماء والصفات،ص:20-25، و المطالب المفيدة في مسائل العقيدة:1/143-51)

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:7
✍ عبید اللہ الباقي
اصول ثلاثہ《 کتاب وسنت میں وارد تمام صفات پر نفیاً وإثباتاً ایمان رکھنا، عدم مماثلت، اور عدم تکییف》کے چند مستلزمات
▪ پہلی اصل :
کتاب وسنت میں وارد تمام صفات پر نفیاً وإثباتاً ایمان رکھنے کے چند مستلزمات :
• کتاب وسنت میں وارد تمام صفات ثبوتیہ کا اثبات، اور صفات منفیہ کی نفی کرنا ایمان کا ایک جزو ہے، لہذا اس باب میں چند امور کا التزام کرنا ضروری ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
1- کتاب و سنت میں وارد تمام صفات صفات کمال ہیں، جن میں کوئی نقص و عیب نہیں، کیونکہ ان سے جو ذات مقدسہ متصف ہے وہ نقائص و عیوب سے منزَّہ و مبرَّا ہے۔
2- کتاب وسنت میں جن صفات کی نہ تو نفی آئی ہے، اور نہ اثبات آیا ہے، ان کے بارے میں مطلقا کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے، پہلے تحقیق ہو کہ اس سے کیا مقصود ہے؟ حق ہے تو مقبول ورنہ مردود۔
3- اللہ کی تمام صفات کا حکم ایک ہی جیسا ہوگا، ان کے احکام میں تفریق کرنا منہج قرآن و سنت اور طریقہ آئمہ سلف کے مخالف ہے۔
4- اللہ تعالی کی تمام صفات کو ظاہری طور پر ثابت کیا جائے گا،ان میں تحریف و تعطیل، اور تکییف و تمثیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

▪ دوسری اصل :
عدم مماثلت کے چند مستلزمات :
•کتاب وسنت میں ثابت شدہ تمام صفات اللہ تعالی کی ذات اور اس کی شایان شان کے عین موافق ہیں، ان میں سے کوئی بھی صفت کسی مخلوق کی صفات کا مُشابَہ نہیں ہے، لہذا اس باب چند امور کا التزام کرنا ضروری ہے:
1- ہر موصوف کی صفات اسی کے لائق ہوتی ہیں، لہذا اللہ تعالی کی صفات اس کی ذات کے عین مطابق ہیں، جبکہ مخلوقات کی صفات ان کے مناسب ہیں۔
مثال : انسان کا چہرہ اس کے مناسب ہے، جبکہ ہاتھی کا چہرہ اس کے مناسب ہے۔
2- ایک ہی نام کی کسی صفت سے دو موصوف کے درمیان "قدر مشترک" پائی جاتی ہے، لہذا اللہ تعالی نے اپنے لئے ہاتھ کو ثابت کیا ہے، اور انسان کے بھی ہاتھ ہیں، خالق اور مخلوق کے ہاتھ میں" قدر مشترک " ہے جسے ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے۔
مثال : انسان کی آنکھ، اور ہاتھی کی آنکھ، دونوں کی آنکھ آنکھ ہی ہے، مگر دونوں کا فرق واضح ہے۔
3- نام کی مماثلت سے حقیقت میں مماثلت لازم نہیں آتی ہے، لہذا اللہ کی آنکھ اور اور انسان کی آنکھ دونوں کا نام ایک ہی ہے مگر حقیقت مختلف ہے۔
مثال : انسان کا پیر اور ہاتھی کا پیر، دونوں کے پیروں کے نام میں مماثلت تو ہے، مگر حقیقت مختلف ہے۔
4- صفات کے باب میں تشبیہ و تمثیل میں غلو سے ہی تعطیل یا انکار صفات کا دروازہ کھلتا ہے، لہذا اس باب میں تمثیل و تشبیہ اور منہج معطلہ سے دور رہنا ضروری ہے، کیونکہ انہوں نے انکار صفات کے لئے " تمثیل و تشبیہ " ہی کو اپنا ہتھیار بنایا ہے۔
• نوٹ :
ہر فرقہ اللہ کی ذات کا کسی نہ کسی طریقے سے اقرار کرتا ہے، اور ذات و صفات دونوں لازم ملزوم ہیں، اور یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات، صفات، افعال، اسماء، بلکہ ہر چیز میں اکیلا، تنہا، اور یکتا ہے{ قل هو الله أحد}[ سورة الإخلاص:1]، اس کا کوئی مثیل اور شبیہ نہیں{ ليس كمثله شيء وهو السميع البصير}[سورة الشورى:11]، لہذا یہ واجب و ضروری ہے کہ خالق کی تمثیل کسی مخلوق سے نہ دی جائے۔


▪ تیسری اصل :
عدم تکییف کے چند مستلزمات :
• کسی ذات کا بغیر صفات کے تصور نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ ذات و صفات دونوں لازم ملزوم ہیں، ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جس طرح ذات و صفات دونوں لازم ملزوم ہیں، اسی طرح صفات و کیفیات دونوں لازم ملزوم ہیں، اسی لئے بغیر کیفیت کے کسی صفت کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا ہے، بنا بریں اللہ کی صفات کے ساتھ کیفیت کو بھی ثابت کرنا ضروری ہے، مگر ان کی کیفیات کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے، اس باب میں بھی چند امور کا التزام کرنا ضروری ہے:
1- اللہ کی صفات کی کیفیت سے عقل قاصر ہے، کیونکہ عقل میں ان ہی چیزوں کا تصور آتا ہے جو قابل مشاہدہ ہوں، اور یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی کی رؤيت دنیاوی زندگی میں ممکن نہیں ہے، نہ تو کسی نے اسے دیکھا، اور نہ ہی اس کے کسی شبیہ کو دیکھا ہے، کیونکہ وہ اکیلا یکتا ہے، اس کا کوئی مثیل یا شبیہ ہے ہی نہیں، لہذا اللہ کی صفات کا معین طور کیفیت بیان کرنا منہج قرآن و سنت، اور طریقہ آئمہ سلف کے مخالف ہے۔
2- کیفیاتِ صفات کے عدم علم سے نہ تو صفات کی نفی ہوگی، اور نہ ہی صفات پر ایمان رکھنے میں کوئی قداحت لازم آئے گی، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں کیفیات کی نہیں بلکہ صفات کی خبر دی ہے، اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، ایسی اور بہت ساری مثالیں موجود ہیں، جیسے روح کی مثال ہے، اس کے وجود کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں مگر اس کی حقیقت اور کیفیت کے بارے میں ہمیں پتہ نہیں ہے، تو کیا اس سے وجود روح کا انکار لازم آئے گا؟ نہیں۔
3- جب اللہ تعالی نے کیفیات صفات کے بارے میں ہمیں خبر نہیں دی ہے، تو اس پر بات کرنا، اس کے بارے میں غور وخوض کرنا اصلاً منع ہے، اس کے باوجود بھی بغیر علم کے اگر کوئی اس مسئلے پر بات کرتا ہے تو یہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے کے مساوی ہے.
4- آئمہ سلف نے اللہ کی صفات کے ساتھ کیفیات کو بھی ثابت کیا ہے مگر تعیین کیفیات کی نفی کی ہے، کیونکہ اللہ نے اس کی خبر نہیں دی ہے، لہذا اگر کوئی ان پر " عدم اثبات کیفیت " کا تہمت لگاتا ہے تو وہ سراسر جھوٹ ہے، جس کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ کتب سلف اس پر شاہد ہیں کہ آئمہ سلف نے اللہ کی صفات کے ساتھ ان کے معانی و کیفیات کو بھی ثابت کیا ہے۔

نوٹ :
یہ مبحث مذکرہ دکتور سعود الخلف سے مستفاد ہے.

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:8
✍ عبید اللہ الباقي
اسماء و صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا مذہب دو اصل الأصول پر قائم ہے :
1- اصل إثبات صفات
2- منہج إثبات صفات

☆ مذکورہ دونوں اصولوں میں فرق :
پہلی اصل سے اسماء و صفات کے باب میں معتقداتِ اہل السنہ والجماعہ کی وضاحت ہوتی ہے، جبکہ دوسری اصل سے ان کا منہج اجاگر ہوتا ہے۔

☆ پہلی اصل کے چند اصول :
پہلی اصل :
وجود خارجی صفات ثبوتیہ اور کیفیات خاصہ سے ہی متحقق ہوتا ہے ۔
اس لئے دنیا میں پایا جانے والا ہر وجود دو چیزوں کا محتاج ہے:
• صفات ثبوتیہ۔
• ان صفات کی خاص کیفیات۔
ان دونوں کے بغیر کسی وجود کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
• بنا بریں اللہ کے وجود کے لئے کتاب وسنت میں ثابت شدہ تمام صفات کو ثابت کرنا، ساتھ ہی ساتھ اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہےکہ ان تمام صفات کی کیفیات بھی ہیں، لیکن ان کیفیات کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔

دوسری اصل :
دو نقیض( مخالف) چیزوں کا جس طرح ایک ساتھ پایا جانا محال ہے، اسی طرح ان کا ایک ساتھ نہ پایا جانا بھی محال ہے ۔
• موجود اور معدوم دونوں ایک دوسرے کے نقیض ہیں، لہذا دونوں نہ تو ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی دونوں ایک ساتھ ختم ہوسکتے ہیں۔
• اس بنیاد پر اگر کوئی وجود الہی کا مقر ہے، تو اللہ کا وجود معدوم نہیں ہو سکتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہو کہ صفات کے بغیر کسی وجود کا تصور نہیں، اور کیفیات کے بغیر صفات کا تصور نہیں ہے، لہذا اللہ کے وجود لئے لئے صفات وکیفیات کو ثابت کرنا ضروری ہے، مگر کیفیات کا علم اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔

تیسری اصل :
کمال صفات میں مخلوق کا خالق سے زیادہ کامل ہونا، یا اس کے مساوی ہونا محال ہے ۔
• دنیا میں وجود دو حال سے خالی نہیں ہے:
أ- خالق
یا
ب- مخلوق
• خالق کے لئے ضروری ہے کہ وہ کامل الصفات ہو، اس کے اندر کسی قسم کا نقص و عیب نہ ہو، اور یہی دو صفتیں( خلق، کامل الصفہ) الوہیت کے متقاضی ہیں، جس کے اندر یہ دو صفتیں ہوں گی، وہی ساری عبادتوں کا لائق و مستحق ہے، ورنہ وہ معبود حقیقی نہیں ہوسکتا ہے۔
• کوئی مخلوق کامل نہیں ہو سکتی ہے، اس کے اندر نقص و عیب کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا کسی بھی مخلوق کے لئے نہ تو عبادت کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی وہ کسی عبادت کے لائق و مستحق ہو سکتی ہے۔
• بنا بریں خالق صفات کمال میں مخلوق سے کامل ترین ہے، کسی بھی صفت کمال میں خالق کے ساتھ کوئی مخلوق نہ تو مشارک ہو سکتی ہے، اور نہ ہی اس کے مساوی ہو سکتی ہے۔

چوتھی اصل :
مخلوق کی ہر وہ صفات کمال جن میں کوئی نقص و عیب نہ ہو خالق ان صفات کمال کا زیادہ مستحق ہے ۔
• چند صفات ایسی ہیں جو خالق اور مخلوق کے لئے کمال ہیں، جیسے: سننا، دیکھنا، بات کرنا وغیرہ جو کمالیت پر دلالت کرتی ہیں، لہذا اس قسم کی صفات کا خالق مخلوق سے زیادہ مستحق ہے۔
• کچھ ایسی صفات ہیں جو خالق کے لئے صفات کمال ہیں، مگر مخلوق کے لئے صفات نقص ہیں، جیسے: تکبر وغیرہ لہذا اس قسم کی صفات صرف خالق کی کمالیت پر دلالت کرتی ہیں، اور وہی ان کے ساتھ مختص ہے۔
• کچھ ایسی بھی صفات ہیں جو مخلوق لئے صفات کمال ہیں مگر خالق کے لئے وہ صفات نقص ہیں، جیسے بیوی، اولاد، لہذا اس قسم کی صفات صرف مخلوق کی کمالیت پر دلالت کرتی ہیں، اور خالق ان سے مبرا ومنزہ ہے۔
• کچھ ایسی بھی صفات ہیں جو مخصوص قید کے ساتھ خالق کے لئے کمال ہیں، جیسے مکر و کید وغیرہ، جب ان صفات کا استعمال مقابلے کے طور ہو تو یقینا اللہ تعالی اس پر احسن طریقے سے قادر ہے، مگر اس قسم کی صفات کو مطلقاً اللہ کی ذات کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
• مذکورہ کلمات سے یہ واضح ہوا کہ" کمال " یہ ایک نسبی امر ہے، جس کا اطلاق حالات اور تقاضے کے تحت ہوتا ہے، جس کی رعایت کرنا ضروری ہے، لہذا جو صفات اللہ کے حق میں کمالیت پر دلالت کرتی ہیں، وہ ان تمام صفات کا حقدار بدرجہ اولی ہے۔

خلاصہ :
اثبات صفات یہ ایک وجودی امر ہے، ہر وجود کے لئے صفات و کیفیات کا ہونا ضروری ہے، لہذا وجود الہی کے لئے بھی " صفات و کیفیات " کو ثابت کرنا ضروری ہے۔
جہاں تک کیفیات کی بات ہے تو علم کیفیت تین امور سے حاصل ہوتا ہے:
• ذات مقصودہ کا مشاہدہ ۔
• یا اس کا مثیل یا شبیہ کا مشاہدہ ۔
• یا کسی صادق و موثوق شخص کی خبر ہو ۔
ذات الہی کو ان تینوں امور کے معیار پر رکھنے سے یہ واضح ہوتا ہے:
• کسی نے اللہ کو نہیں دیکھا، اور یہ دنیاوی زندگی میں ممکن بھی نہیں ہے۔
• اس کا کوئی مثیل یا شبیہ بھی نہیں ہے۔
• اللہ یا اس کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم- سے زیادہ سچا اور کون ہو سکتا ہے؟
مگر نہ تو اللہ نے اور نہ اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے صفات الہیہ کی کیفیات کی خبر دی ہے، لہذا صفات الہیہ کے ثبوت کیفیت پر ضرور اعتقاد رکھیں گے، لیکن اس کی تعیین پر سکوت اختیار کیا جائے گا۔

نوٹ: اس مبحث کا فکرہ دکتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد ہے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:9
✍ عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات
• صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کی اس اصل سے ان کا منہج واضح ہوتا ہے، اور اسی اصل کے ذریعہ عقیدہ اہل تعطیل سے عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کی تمییز ہوتی ہے۔

☆ اس اصل کے چند اصول ہیں :
پہلی اصل :
صفات کا باب توقیفی ہے ۔
اسماء و صفات کی نفی و اثبات میں اصل کتاب اللہ اور سنت نبی- صلی اللہ علیہ وسلم- ہے، لہذا جو اسماء و صفات قرآن و أحاديث صحیحہ میں وارد ہیں ان کو ثابت کرنا ضروری ہے، اور جن کی نفی آئی ہے، ان کی نفی کرنا واجب ہے۔
(رسالة في العقل والروح لشيخ الإسلام ابن تيمية:2/46-47، الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها، ص:40-41)

☆ اس اصل کے دلائل
• آیات قرآنیہ
1- اللہ تعالی کا فرمان:{ اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم }[سورة الأعراف:3]
2- اللہ تعالی کا ارشاد گرامی{واتبع ما یوحى إليك من ربك}[سورة الأحزاب:2]
3- اللہ تعالی کا یہ قول:{ قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفرلكم ذنوبكم والله غفور رحيم}[سورة آل عمران:31]
4- اللہ تعالی کا یہ فرمان:{وماآتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا}[سورة الحشر:7]

• أحاديث نبويہ
1- نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا:" فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه و إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه مااستطعتم"
(صحيح البخاري[7288] وصحيح مسلم [1337] )

☆ اس اصل میں اہل السنہ والجماعہ کا موقف :
اس اصل میں اہل السنہ والجماعہ کا موقف یہ ہے کہ نقل کو عقل پر مقدم کیا جائے لہذا اسماء و صفات کے باب میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، جو صفات کتاب وسنت میں وارد ہیں انہیں بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ثابت کیا جائےگا، اور جن کی نفی آئی ہے ان کی نفی کی جائے گی، ساتھ ہی ساتھ صفات منفیہ کے ضد کمال کو ثابت کیا جائے گا۔
(تفصيل کے لئے رجوع کریں شرح العقيدة الواسطية لابن عثيمين،ص:53، و مواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص: 21-22)

▪ اہل السنہ والجماعہ کے اس موقف پر ائمہ سلف کے چند اقوال :
1- حضرت عمر - رضی اللہ عنہ- نے فرمایا:" قرآن اللہ کا کلام ہے، لہذا اسے اپنی آراء کے مطابق ڈھالنے کوشش نہ کرو"
(الشريعة:1/216)
2- حضرت عمر بن عبدالعزیز - رحمہ اللہ - نے فرمایا:" رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- کی سنت کے ساتھ کسی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں"۔
(الشريعة:1/216)
3- امام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ- منہج اہل السنہ والجماعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" ۔۔۔۔۔۔اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ کا کلام ہی سب سے سچا کلام ہے، اور محمد- صلی اللہ علیہ وسلم- کا راستہ ہی سب سے بہترین راستہ ہے، اور وہ اللہ کے کلام کو مختلف لوگوں کے کلام پر مقدم کرتے ہیں، اور محمد- صلی اللہ علیہ وسلم- کے راستے کو دسروں کے راستے پر مقدم کرتے ہیں"۔
(العقيدة الواسطية،ص:28)

☆ اس اصل میں اہل تعطیل کا موقف :
اس اصل میں اہل تعطیل کا موقف یہ کہ عقل کو نقل پر مقدم کیا جائے ، لہذا انہوں نے اپنے شبہات و اوہام کے مطابق عقلی دلائل مقرر کئے، پھر نصوص شرعیہ کو اپنے خود ساختہ دلائل عقلیہ کے میزان پر رکھا، جو ان کے موافق ہوا وہ مقبول ورنہ مردود۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں الاقتصاد في الاعتقاد،ص:132-133، والمستصفى:2/137-38)

▪ اس اصل میں معطلہ کے موقف پر آئمہ اہل تعطیل کے چند اقوال :
1- قاضی عبد الجبار نے کہا:" دلالت چار قسم کے ہیں: عقل، کتاب، سنت، اور اجماع کی حجت ، اور اللہ کی معرفت صرف حجتِ عقل ہی سے حاصل ہو سکتی ہے".
( شرح الأصول الخمسة،ص: 88)
2- جوینی نے کہا:" جب کوئی دلیل سمعی کسی عقلی مسئلہ کے مخالف ہو تو وہ بالکل مردود ہے"۔
(الإرشاد،ص: 259-26ج)
3- رازی نے کہا:" جب کسی چیز کے ثبوت پر عقلی دلائل قائم ہوں، پھر ہم نقلی دلائل کو ان کے برخلاف پاتے ہیں تو عقلی دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نقلی دلائل یا تو صحیح نہیں ہیں، اور اگر صحیح ہیں تو ان کا معنی مراد غیر ظاہر ہے"۔
(أساس التقديس،ص:210

☆ اس اصل کے چند مقتضیات :
1- یہ ضروری ہے کہ نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے صفات کے باب کو اکمل طریقے سے بیان کیا ہو، بلکہ فطری تقاضا بھی یہی ہے کہ اس باب کی توضیح اکمل طریقے سے کی گئی ہو، کیونکہ اس کا تعلق اللہ عزوجل کی ذات کے ساتھ ہے، اور لوگ دیگر مسائل سے زیادہ اسی کے ضرورت مند ہیں۔
2- چونکہ صفات کا باب توقیفی ہے تو ان کی بنا نصوصِ کتاب وسنت پر ہی ہوگی، عقل کا اس باب میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
3- دیگر ابوب توقیفیہ کے جو شروط ہیں وہی اس باب کے بھی شروط ہیں، اس باب کے لئے کوئی دوسرے شروط نہیں ہیں۔
4- اسماء و صفات کے باب میں نصوص شرعیہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے۔
5- صفات کا باب جب توقیفی ہے تو نصوص کتاب وسنت ہی ہمارے لئے کافی ہیں۔
(یہ مقتضیات دکتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد ہیں)

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:10
✍ عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی دوسری اصل : ذات وصفت دونوں کا ایک ہی حکم ہے
• ہر ذات کی صفت اس کے لائق اور مناسب ہوتی ہے، اس کی صفت ہی اس کی اصل پہچان ہوتی ہے، اور اسی لئے بعض صفات نام میں مشترک ہوتی ہیں، مگر ان کی حقیقت مختلف ہوتی ہے، جو کہ ہر ذی عقل انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
• وجود الہی کا اعتراف ہر فرقہ کسی نہ کسی طریقے سے ضرورکرتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ ہر وجود صفت کو مستلزم ہے، مگر اہل تشبیہ و تعطیل نے دعوی تنتزیہ و اثبات کمال سے صفات الہیہ کا انکار کیا، جبکہ اہل السنہ والجماعہ نے ذات و صفت کے حکم کو ایک ہی خانے میں رکھ کر اللہ کے لائق صفات کو بلا تحریف و تعطیل، اور بلا تکییف و تمثیل ثابت کیا۔
• صفات کے باب میں یہ ایک ایسی اصل ہے جس کے ذریعہ منہج اہل السنہ والجماعہ اور منہج اہل تمثیل و تعطیل کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے، اور اسی بنیادی اصل کے ذریعہ آئمہ سلف نے معطلہ کی خوب ترید کی ہے۔
• شیخ الإسلام ابن تيمية- رحمہ اللہ- نے سب پہلی بار اس اصل کو تردید معطلہ کے لئے استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ ان سے پہلے بہت سارے آئمہ سلف نے اپنی کتابوں میں اسے ذکر کیا ہے، جن میں سے چند آئمہ کرام کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں:
1- امام عبد العزیز الكناني ( متوفی240ھ) نے کہا:" ۔۔۔۔۔۔ وكلامه خارج عن الأشياء المخلوقة، كما أن نفسه خارجة عن الأنفس الميتة " اور جس طرح اس کا کلام تخلیق شدہ چیزوں سے خارج ہے، ایسے ہی اس کا نفس مرنے والے نفوس سے خارج ہے"۔
(الحيدة والاعتذار في الرد على من قال بخلق القرآن،ص:53-54)

2- امام خطابی (متوفی388ھ) نے کہا:" أن الكلام في الصفات فرع على الكلام في الذات " صفات میں بات کرنا ذات میں بات کرنے کے مانند ہے.
(تفصيل كے لیے رجوع کریں مجموع الفتاوی لابن تیمیة؛3/167)

3- امام ابونصر سجزی ( متوفی444ھ) نےکہا:" ومنكر الصفة كمنكر الذات "اور منکرِ صفت كا حكم منكرِ ذات ہے.
(رسالةالسجزي إلى أهل زبيد في الرد على أنكر الحرف والصوت،ص:153)

4- امام ابو عثمان صابونی (متوفی 449ھ) نے کہا:" أن صفات الله سبحانه لا تشبه صفات الخلق، كما أن ذاته لا تشبه ذوات الخلق " جس طرح اللہ سبحانہ کی صفات مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں، اسی طرح اس کی ذات بھی ذواتِ مخلوقات کے مشابہ نہیں ہے۔
(عقيدة السلف و أصحاب الحديث،ص:48)

5- امام ابو یعلی حنبلی ( متوفی 457) نے کہا:" أن الكلام في الصفات فرع الكلام في الذات " صفات میں بات کرنا ذات میں بات کرنا جیسا ہے۔
( طبقات حنابلہ:2/208)

6- امام خطیب بغدادی (متوفی 463ھ) نے کہا:" أن الكلام في الصفات فرع على الكلام في الذات " صفات میں بات کرنے کا حکم در اصل ذات میں بات کرنے کا حکم ہے۔
( العرش:2/457-458)

7- امام بغوی (متوفی 516ھ) نے کہا:" أن الباري سبحانه و تعالى لا يشبه شيء من صفاته صفات الخلق، كما لا تشبه ذاته ذوات الخلق ".جس طرح باری سبحانہ وتعالی کی کوئی بھی صفت مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہو سکتی ہے، اس طرح اس کی ذات بھی ذواتِ مخلوقات کے مشابہ نہیں ہو سکتی ہے۔
(شرح السنة :1/171-172)

8- امام اسماعیل بن محمد اصبہانی ( متوفی535ھ) نے کہا:" أن الكلام في الصفات فرع على الكلام في الذات " صفات و ذات میں بات کرنے کا حکم ایک ہی ہے۔
(الحجة في بيان المحجة:1/188-190)

9- شیخ الإسلام ابن تيمية ( متوفی728ھ) نے کہا:" القول في الصفات كالقول في الذات " صفات و ذات میں بات کرنے کا حکم ایک ہی درجے کا ہے۔
(مجموع الفتاوى لابن تيمية:3/25)

10- امام ابن القیم ( متوفی751ھ) نے کہا: أن الصفات حكمها حكم الذات " جو حکم صفات کا ہے وہی حکم ذات کا بھی ہے۔
( الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة:1/229)

☆ اس اصل میں اہل السنہ والجماعہ کا موقف :
• اس اصل کے تحت آئمہ سلف نے یہ ثابت کیا ہے کہ اثبات صفات میں وہی حکم نافذ کیا جائے گا جو حکم اثبات ذات میں نافذ ہوتا ہے، کیونکہ اللہ عزوجل اپنی ذات، صفات، افعال، اسماء ہر چیز میں اکیلا تنہا ہے، اس کا کوئی مثیل و نظیر نہیں، لہذا جس طرح ذات الہی کسی مخلوق کے مشابہ نہیں ہو سکتی ہے، اسی طرح خالق کی صفات اور مخلوق کی صفات میں بھی فرق ہے، ہر ایک کی صفات اس کے لائق اور مناسب ہیں، بعض صفات نام میں ضرور مشترک ہیں مگر نوعیت و حقیقت میں مختلف ہیں۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں أصول الإيمان في ضوء الكتاب والسنة،ص:91)

☆ اس اصل میں اہل تمثیل و تعطیل کا موقف
•اہل تمثیل و تعطیل نے اس اصل کی مخالفت کی، ان کے یہاں صفت اور ذات دونوں متغایر شئ ہیں، لہذا ذات و صفت کے حکم میں فرق کیا، اور " دلیل تعدد قدماء، دلیل تشبیہ، دلیل تجسیم، اور دلیل حلول حوادث " جیسے خود ساختہ عقلی دلائل سے صفات الہیہ کا انکار کیا۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں شرح الأصول الخمسة،ص:195، والإرشاد،ص:150، والاقتصاد في الاعتقاد،ص:30،و الغنية في أصول الدين،ص:81)

☆ اس اصل کے چند مستلزمات :
1-اللہ کے اسماء حسنی و صفات علیا قدیم اور غیر مخلوق ہیں، کیونکہ اللہ ازل سے اپنے اسماء حسنی سے مسمی، اور صفات علیا سے موصوف ہے، اور ہمیشہ رہے گا.
2- صفات الہیہ کی کیفیات کا ادراک ممکن نہیں ہے، لہذا وہ معنی کے اعتبار سے معلوم ہیں، مگر کیفیت کے اعتبار سے مجہول ہیں.
3- خالق کی صفات اور مخلوق کی صفات میں تماثل محال ہے، کیونکہ خالق ذات، صفات، افعال، اور اسماء غرضیکہ ہر چیز میں اکیلا اور منفرد ہے، اس کا کو کوئی بھی مثیل و شبیہ نہیں ہے .
4-صفات کا حکم ذات کی طرف لوٹتا ہے، کیونکہ صفت ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہے، اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، لہذا جو حکم ذات کا ہوگا، وہی حکم صفت کا بھی ہوگا.
( یہ مستلزمات دکتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد ہیں)

جاری ہے
 
Top