• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اسماء و صفات از شیخ عبید اللہ باقی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:21
اسماء و صفات کے باب میں تعطیل اور اہل تعطیل .
• سابقہ قسطوں میں اسماء و صفات کے باب میں منہج اہل السنہ والجماعہ اور ان کے اصولوں پر تفصیلی ذکر گزر چکا ہے، اب یہاں سے فرق ضالہ کے اصول، اور ان کی تردید پر مفصل بحث کی جائے گی- ان شاء الله-، تاکہ حق و باطل کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔
• اسماء و صفات کے باب میں فِرق ضالہ کی تاریخ پر استقرائی جائزہ لینے سے چار بنیادی فِرقے سامنے آتے ہیں:
1- معطلہ۔
2- مشبہ۔
3- ملفقہ۔
4- مفوضہ۔
ان ہی چاروں فرقوں سے مختلف آراء، اور فرقے وجود میں آئے۔
¤ قبل اس کے کہ فرق ضالہ کے اصولوں پر مفصل بات کی جائے، یہاں تعطیل اور اہل تعطیل سے متعلق چند بنیادی باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے.
▪ تعطيل کی لغوی و اصطلاحی تعریف
¤ تعطیل کی لغوی تعریف :
" تعطیل" کا لغوی معنی: خالی کرنا، اور چھوڑ دینا ہے۔
ابن فارس نے کہا: عین، اور طاء، اور لال اصل صحیح جو خلو، اور فراغ پر دلالت کرتی ہے۔( معجم مقاييس اللغة،ص:787)

¤ اسماء و صفات میں تعطیل کا مطلب :
1- تمام نام و صفات یا ان میں سے بعض کی نفی کرنا۔۔۔۔
( الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي،ص:153)
2- اللہ کے تمام نام و صفات یا ان میں سے بعض کی نفی کرنا، یا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام صفات کا انکار کرنا۔
( شرح العقيدة الواسطية للهراس،ص:21، مقالة التعطيل للحمد،ص: 18-22)

¤ تعطیل کی صحیح تعریف : اس اتجاہ عقدی کا نام ہے جو چند ایسے عقلی و کلی اصولوں پر قائم ہوتا ہے جن کی وجہ سے ذات الہی سے قیامِ صفات و معانی کا انکار لازم آتا ہے۔
وجہ ترجیح :
1- تعطیل محض کوئی رائے نہیں ہے، بلکہ وہ متکامل فکرہ جو چند عقلی و کلی اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔
2- تعطیل کا اصل فکرہ ذات الہی کے ساتھ قیام صفات کے انکار کی طرف لوٹتا ہے۔
(دکتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد )۔

▪ باعتبار عموم تعطیل کی تین قسمیں ہیں :
1- خالق سے مخلوق کی تعطیل کرنا، جیسے: فلاسفہ کا یہ کہنا کہ:" دنیا قدیم ہے"۔
2- مخلوق سے خالق کی تعطیل کرنا، جیسے: معطلہ نے اللہ کے اسماء و صفات کا کرنا۔
3- عبادت سے معبود حقیقی ( اللہ) کی تعطیل کرنا، جیسے: معبودان باطلہ کے لئےمشرکین مکہ کا عبادت کرنا۔

▪ باعتبار متعَلَّق تعطیل کی تین قسمیں ہیں :
1- توحید ربوبیت میں تعطیل؛ اس سے مراد: وجود خالق تعالی کا انکار کرنا ہے، جیسے: ملحدین، اہل وحدت الوجود، اور فرعون کا شرک،
2- توحید الوہیت میں تعطیل؛ اس سے مراد: عبادت سے متعلق بندوں پر اللہ کا جو حق ہے اس کا انکار کرنا ہے،جیسے: مشرکین، اور غلاة صوفیہ کے اعمال و اعتقاد۔
3- توحید الأسماء والصفات میں تعطیل؛ اس سے مراد: اللہ کے نام و صفات کا انکار کرنا ہے، جیسے: اہل تعطیل کے اعمال و اعتقاد ۔
(مقالة التعطيل والجعد بن درهم،ص:21-22)

▪ جن لوگوں نے اسماء و صفات کے باب میں مذھب تعطیل کو اپنایا ہے ان کی دو اصل قسمیں ہیں :
قسم اول : فلاسفہ
اور ان کی دو قسمیں ہیں:
أ- خالص فسلفی۔
ب- باطنی فلسفی؛ ان میں دو قسم کے لوگ ہیں:
• رافضہ
• صوفیہ
قسم ثانی : اہل کلام ، جن کی پانچ قسمیں ہیں:
• جہمیہ
• معتزلہ
•کلابیہ
•اشاعرہ
•ماتریدیہ
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات، ص:63)

¤ یا یوں کہا جائے کہ اسماء و صفات کے باب میں تعطیل کی دو قسمیں ہیں:
1- تعطیل کلی ؛ جسے بطور منہج فلاسفہ، باطنیہ، اور جمہیہ نے اپنایا، لہذا انہوں نے اسماء و صفات کا سرے سے انکار کیا۔
2- تعطیل جزئی ؛ اور اس کی دو قسمیں ہیں:
أ- اسماء کو ثابت کرنا، اور صفات کی نفی کرنا، اس طریقے کو معتزلہ اور ان کے موافقین نے اپنایا۔
ب- اسماء اور بعض صفات کو ثابت کرنا، اور باقی تمام صفات کا انکار کرنا، اس منہج کو کلابیہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اپنایا ہے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:22
✍ عبيد الله الباقي
ایک نظر تاریخ تعطیل پر (1)
• یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ظہور بدعت کا سب سے اہم سبب سنت سے دوری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سابقین اولین کے یہاں بدعت کا کوئی نام و نشان نہ تھا، کیونکہ انہوں نے خواہشات نفسانی کو دلوں میں جگہ نہ دی، وحی الہی کے نور سے خود کو منور کرتے رہے، مگر جوں جوں زمانہ دراز ہوتا گیا، اور سنتوں سے رشتہ ٹوٹتا گیا، تو بدعتوں نے جنم لینا شروع کیا، یہاں تک خلفاء راشدین کے دور کے اخیر میں شیعہ، خوارج، قدریہ، مرجئہ کی بدعات وجود میں آئیں، اس کے باوجود یہ مبتدعہ نصوص شرعیہ کی تعظیم کرتے، ان سے استدلال کرتے، نقل کو عقل پر مقدم کرتے، ان کے پاس ایسے خود ساختہ عقلی اصول نہ تھے جن کے میزان پر مسائل شرعیہ کو رکھ کر تولتے.
• سابقہ تمام بدعتوں پر جائزہ لینے سے پتہ چلتا کہ تابعین کے دور کے اخیر تک قدریہ کو چھوڑ کر ان مبتدعہ میں سے کسی نے اللہ کی ذات پر بات نہیں کی تھی، ان کی بدعتوں کا تعلق ایمان و عمل سے تھا، مگر خلیفہ عمر بن عبدالعزیز- رحمہ اللہ - کی موت کے بعد تابعین کے دور کے اخیر میں جب جہمیہ نے سر اٹھایا تو ان کی بدعت اللہ کی ذات سے متعلق تھی۔
• یقینا جہمیہ کی بدعت سابقہ تمام بدعتوں سے زیادہ خطرناک تھی، جس کے چند اسباب ہیں:
1- جہمیہ ہی سب سے پہلا فرقہ ہے جس نے وحی الہی سے معارضہ کیا، اللہ کی ذات پر بات کرنے کی جرأت کی، اور خود ساختہ عقلی اصولوں کی بنیاد پر اللہ کے نام و صفات کا انکار کیا۔
2- جہمیہ کی بدعت ایمانیات میں سے سب سے عظیم باب، اور دین کا سب اہم مسئلہ؛ اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان رکھنےسے متعلق تھی۔
• سب سے پہلے جس نے تعطیل صفات کی بات کہی وہ جعد بن درھم ہے، مگر مذہب جمہی" جہم بن صفوان " کی طرف منسوب ہے، کیونکہ اسی نے خوب بسط و شرح کے ساتھ اس باطل مذہب کی ترویج کی ہے۔
جعد بن درھم نے فکرہ تعطیل ابان بن سمعان رافضی، اور ابان نے طالوت یہودی سے، اور طالوت نے لبید بن اعصم یہودی سے حاصل کیا تھا، اور یہ وہی لبید ہے جس نے نبی کریم - صلی اللہ علیہ وسلم - پر جادو کیا تھا۔
• فکرہ تعطیل جسے جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرھم نے اپنایا ہے، اس کے اصلی مصادر مندرجہ ذیل ہیں:
1- مقالات شیعہ۔
2- مقالات یہود۔
3- مقالات فلاسفہ مشرکین۔
4- مقالات گمراہ صائبین.
• فکرہ تعطیل سے کفر لازم آتا ہے، اسی لئے علماء سلف نے اس پر تین وجوہات کی بنا پر شدت برتی ہے:
1- فکرہ تعطیل کتاب وسنت اور اجماع امت کے مخالف ہے۔
2- فکرہ تعطیل سے خالق کی تعطیل و نفی لازم آتی ہے۔
3- یہ فکرہ ان امور کے مخالف ہے جن پر تمام ملت، اور فطرت سلیمہ متفق ہے۔
• چناچہ جب اس بدعت کی زہر دور دور تک پہونچی تو ابراہیم بن طھمان، خارجہ بن مصعب، عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، اور حماد بن زید جیسے علماء اہل السنہ و الحدیث - رحمہم اللہ - نے اس کی بھر پور تردید کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر ومراجع
1- مجموع الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية.
2-:الرد في المنطقيين.
3-الصفدية.
4- الحموية.
5-الاستقامة.
6- درء تعارض العقل والنقل.
7- منهاج السنة.
8- شرح الأصفهانية.
9- الصوعق المرسلة.
10- شرح العقيدة الواسطية.
11- مقالة التعطيل والجعد بن درهم.

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط: 23
✍ عبيد الله الباقي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نظر تاریخِ تعطیل پر (2).
سب سے پہلے جس نے تعطیل صفات کی بات کہی وہ جعد بن درہم تھا، تابعین کے دور میں اسے پذیرائی حاصل نہ ہوئی، یہ اور اس کے ہم نوا آئمہ سلف کی نگاہ میں مذموم و مقموع رہے، اور جب یہ بدعت مسلمانوں کے درمیان پھیلنے لگی تو امیر عراق خالد بن عبداللہ قسری نے جعد کو طلب کیا، اور سن 118 ھ میں اس کا خاتمہ کیا۔

¤ اس مذہب کو فروغ دینے میں جعد کا شاگرد جہم بن صفوان کا بڑا اہم کردار رہا ہے، دونوں کی ملاقات کوفہ میں ہوئی، جہم جعد سے کافی متاثر ہوا، اور پھر نہایت بسط و شرح کے ساتھ اس مذہب کی خدمت کی، اور یہی وجہ سے کہ یہ مذہب اس کی طرف منسوب ہے، سن 128 ھ میں سلم بن احوز کے ہاتھ یہ بھی مارا گیا۔

¤ اس درمیان فکرہ اعتزال کا ظہور ہوا، مؤسسِ مذهب واصل بن عطاء(ت131ھ)، اور عمروبن عبید(ت144ھ) اور ان کے اصحاب قدریہ سے متاثر ہوئے، جعد بن درھم بھی قضا و قدر کے باب میں قدری تھا، مگر اوائل معتزلہ اسماء وصفات کے باب میں جعد کے فکرہ تعطیل سے متاثر نہ ہوئے۔

¤ جعد بن درھم کے بعد جہم بن صفوان نے فکرہ تعطیل کو پھیلانے کا مہم جاری رکھا، مگر اس نے قضا و قدر کے باب میں اپنے استاد جعد کی مخالفت کرتے ہوئے " جبریہ " کا منہج اپنایا۔

¤ ادھر متاخرین معتزلہ قضا و قدر کے باب میں " قدریہ " کے منہج پر ضرور قائم رہے مگر اسماء وصفات کے باب میں جمہیہ سے متاثر ہو کر ان کے بعض اصولوں کو اخذ کیا، اور ان پر اپنے مذہب کی بنا کرتے ہوئے علمیت کے طور پر اسماء کو ثابت کیا ساتھ ہی تمام صفات کا انکار کیا، لہذا《 ہر معتزلی جہمی ہے، مگر ہر جہمی معتزلی نہیں ہے 》۔

¤ سرزمین عراق فکرہ اعتزال و تعطیل کی آبیاری کے لئے زرخیز ثابت ہوئی، چنانچہ متاخرین معتزلہ جیسے: عثمان الطویل، خالد بن صفوان، ابو ہذیل العلاف، جاحظ، أحمد بن دؤاد، ثمامہ بن اشرس، اور قاضی عبدالجبار وغیرھم نے فکرہ تعطیل کو خوب فروغ دیا، پھر تعطیل کی اس زہر سے ہر شہر مسموم ہوتا گیا۔

¤ تاریخ خلافت بنی امیہ پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ متقدمین خلفاء نے بدعتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور ان کے دور میں ہر ممکن بدعتیوں کی سرزنش کی گئی، چنانچہ جعد بن درھم اور جہم بن صفوان جیسے بدعتی اپنی بدعتوں کی وجہ سے مارے گئے، مگر امتداد زمانہ کے ساتھ بنی امیہ کے متاخرین خلفاء اہل بدعت کے ہمنوا بنے رہے، جس کی وجہ سے طرح طرح کی بدعتوں کو پنپنے کا موقع ملا، جن میں سے ایک یزید بن ولید ہے، جس نے 126 ہجری میں خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، قدریہ کا منہج اپنایا، اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دی، مگر اس کی خلافت تقریبا چھ ماہ ہی رہی۔

¤ سن 132 ھ ہجری میں خلافت بنی امیہ کا خاتمہ ہوا، خلافت بنی امیہ کا آخری خلیفہ مروان بن محمد جعد بن درھم(ت 118ھ) کا شاگر تھا؛ اس سے خلق قرآن اور انکار قدر جیسے افکار حاصل کئے، خلافت بنی امیہ کے خاتمے کے بعد بدعتیوں کے لئے راہیں ہموار ہوتی گئیں، پھر آہستہ آہستہ ہر چہار جانب ان کا غلبہ بڑھتا گیا.

¤ سن 128ھ میں جہم بن صفوان کا خاتمہ ہوا تھا، جس سے متاخرین معتزلہ کافی متاثر ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ فکرہ تعطیل کسی نہ کسی شکل میں عام ہوتا گیا، مگر عرصہ دراز کے بعد بشر مریسی (ت218ھ)، اور احمد بن دؤاد (ت240ھ) نے اسے بعینہ دہرانا شروع کیا، اور اس کے فروغ کے لئے ہر ممکن کوششیں کیں.

¤ تیسری صدی ہجری کے شروع میں عبداللہ المامون نے کرسی خلافت سنبھالی، وہ مختلف علوم و فنون کا شیدائی تھا، اس کی مجلس متکلمین سے بھری رہتی تھی، اہل کلام سے کافی متاثر ہوا، جس کی وجہ کتب یونان و فلاسفہ کو عربی زبان میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، سن 212 ہجری میں لوگوں کو خلق قرآن کی طرف دعوت دی مگر کسی نے اس کی نہ سنی، بڑی کوششیں کیں، اور سن 218 ہجری میں خلق قرآن کا دھمکی آمیز پیغام جاری کیا، جس کی وجہ سے سات لوگوں کو چھوڑ کر سب نے اس کا اقرار کیا، ان سات میں سے پانچ نے اذیتوں کے سامنے ہمت ہار کر خود سپردگی کی راہ اختیار کی، ان میں سے دو ایسے مراد آہن، اور صاحب استقامت تھے جن کے پیروں میں کوئی تزلزل نہ آیا، وہ امام السنہ احمد بن حنبل، اور محمد بن نوح - رحمہما اللہ - تھے جنہوں نے اہل باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور ہر بار اہل باطل کو کتاب وسنت سے منہ توڑ جواب دیا۔

¤ مامون کے بعد واثق اور معتصم بھی اسی منہج پر قائم رہے، اور اس طریق پر فتنہ خلق قرآن کا سلسلہ 218 ہجری سے 234 ہجری تک چلتا رہا، فکرہ تعطیل کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، جمہیہ کو قوت ملی، اور ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا، اس درمیان احمد بن دؤاد کے ساتھ وہ سارے گروہ بھی جمع ہوگئے جو خلق قرآن کے قائل تھے، جن میں صرف جہمیہ نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ معتزلہ، نجاریہ، ضراریہ وغیرھم بھی شامل تھے، یہ سب امراء و حکماء سے قریب تھے، اور اسی وجہ سے فکرہ تعطیل کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے میں کامیاب رہے۔

¤ ادھر تقریبا 14 سالوں تک علماء اہل السنہ والجماعہ کو طرح طرح کی اذیتوں سے گزرنا پڑا، مختلف قسم کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ جب سن 232 ہجری میں متوکل مسند خلافت پر فائز ہوئے تو انہوں نے فتنہ خلق قرآن کا خاتمہ کیا، سنتوں کو زندہ کیا، بدعتوں کا قلع قمع کیا، اور پھر علماء اہل السنہ والجماعہ نے کتاب وسنت اور آثار سلف کی روشنی میں تعطیل اور اہل تعطیل کی خوب تردید کی، اور ضرورت پڑنے پر حق کو اجاگر کرنے کے لئے منطق و فلسفہ کا بھی سہارا لیا، جس سے حق و باطل میں واضح ہو گیا۔

• جن علماء کرام نے جہمیہ و معتزلہ کی تردید کی ہے، ان میں سے ایک ابو محمد عبداللہ بن سعید بن کلاب بھی ہیں۔

(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و مراجع
1- مجموع الفتاوی لشیخ الإسلام ابن تيمية.
2- منهاج السنة النبوية
3- سير أعلام النبلاء.
4- الرد على الزنادقة والجهمية.
5- شرح الأصفهانية.
6- البداية والنهاية.
7- مقالة التعطيل والجعد بن درهم.
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:24
✍ عبيد الله الباقي

ایک نظر تاریخِ تعطیل پر (٣)
¤ مامون، معتصم، اور اور واثق کا دور گزر چکا تھا؛ تقریبا یہ چودہ سال کا عرصہ علماء اہل السنہ والجماعہ لے لئے نہایت اذیت ناک، اور تکالیف سے پُر تھا، لیکن دور متوکل کی ابتداء کے ساتھ ہی ایک نئے دور کا آغاز ہوا، راہیں ہموار ہوئیں، اشاعت سنت، اور منہج سلف کو پھیلانے کا موقع میسر ہوا، تو آئمہ اہل السنہ والجماعہ نے جہمیہ اور معتزلہ کی خوب تردید کی۔

¤ منجملہ جن علماء کرام نے اہل تعطیل کی تردید کی ہے، ان میں ابو محمد عبداللہ بن سعید بن کلاب(متوفی243ھ) کا نام بھی شامل ہے، جنہوں نے تردید جہمیہ ومعتزلہ پر کئی کتابیں تصنیف کیں، ان کے اصولوں کو کمزور بتایا، مگر ان کے چند اصولوں کی توضیح میں راہ یاب نہ ہو سکے، چنانچہ دلیل حلول حوادث کے مسئلے میں اہل تعطیل کی موافقت کی، نصوص شرعیہ سے نظریات کلامیہ کو جوڑنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے " صفاتیہ " نامی ایک اور مذہب وجود میں آیا، ابن کلاب نے صفات خبریہ کو ضرور ثابت کیا، مگر صفات اختیاریہ کا انکار کیا۔

¤ جہمیہ اور معتزلہ کے بعد متکلمین کا سب سے پہلا فرقہ " کلابیہ " ہے، بطور فرقہ " کلابیہ" کا وجود ختم ہو تا گیا مگر بطور فکرہ ان کے سارے اصول اشاعرہ کے یہاں منتقل ہو گئے،اسی لئے ابن کلاب ہی اشاعرہ کے امامِ اول ہیں، وہ منہج سلف سے قریب تھے، مگر کچھ ایسے اصولوں کو اپنایا جو منہج سلف کے عین مخالف ہیں۔

¤ ابو الحسن اشعری، قلانسی، اور محاسبی وغیرھم نے ابن کلاب کے طریقے کو اپنایا، صفت علو و استوا سمیت تمام صفات خبریہ کو ثابت کیا مگر صفات اختیاریہ کا انکار کیا، کلابیہ اور متقدمین اشاعرہ کا منہج سلف و صالحین کے منہج سے کسی حد تک قریب تھا، مگر جوں جوں زمانہ طویل ہوتا گیا، وہ منہج سلف دور ہوتے گئے۔

¤ ابو الحسن اشعری چالیس سالوں تک مذہب اعتزال پر قائم رہے، پھر ابن کلاب کے طریقے کو اپناتے ہوئے جہمیہ و معتزلہ پر خوب تردید کی، صفات لازمہ کو ثابت کیا، مگر ابن کلاب کی طرح صفات اختیاریہ کا انکار کیا، اور اپنی عمر کے آخری مراحلے میں زکریا بن یحی الساجی سے ملاقات کی، اور ان سے اہل السنہ و الحدیث کے چند اصول حاصل کئے۔

¤ متقدمین اشاعرہ جیسے: ابو الحسن اشعری، باقلانی، اسفرائینی،ابن فورک وغیرھم نے منجملہ تمام صفات خبریہ کو ثابت کیا ہے، جبکہ متاخرین اشاعرہ جیسے: جوینی، رازی وغیرھم نے صرف صفات عقلیہ کو ثابت کیا، صفات اختیاریہ کا انکار کیا، اور صفات خبریہ سے متعلق ان کے درمیان کافی اختلاف رہا ہے، کسی نے نفی کی ہے، تو کسی نے توقف اختیار کیاہے، کسی نے تاویل کی ہے، تو کسی نے تفویض سے کام لیا ہے۔

¤ مذہب اشاعرہ کئے ایک مراحل سے گزرا، پہلے مرحلہ میں مادہ کلام داخل کیا گیا، تو دوسرے مرحلہ میں مادہ اعتزال شامل کیا گیا، پھر تیسرے مرحلہ میں مادہ فلاسفہ، اور چوتھے مرحلہ میں مادہ تجہم کو اپنایا گیا، یہاں تک کہ متاخرین اشاعرہ اشعری و اہل السنہ والجماعہ کے منہج سے پوری طرح ہٹ گئے، چنانچہ باقلانی کی تالیفات میں مادہ کلام کا غلبہ ہے، تو جوینی کی تصنیفات میں مادہ اعتزال کی کثرت ہے، جبکہ رازی، غزالی، اور ابن خطیب بغدادی کی کتابوں میں مادہ فلاسفہ کی آمیزش ہے، اور اس طرح سے مذہب اشاعرہ کے انحرافات میں اضافہ ہوتا گیا.

¤ اشاعرہ نے ابن کلاب اور ابو الحسن اشعری سے مندرجہ مسائل میں اختلاف کیا ہے:
1- ابن کلاب ابو الحسن اشعری " دلیل الأعراض و حدوث الأجسام " کو صحیح دلائل اور اصول الدین میں سے نہیں مانتے ہیں، جبکہ اشاعرہ اسے اصول دین کی ایک اہم اصل تصور کرتے ہیں۔
2- ابن کلاب اور ابو الحسن اشعری صفت علو کو ثابت کرتے ہیں، جبکہ اشاعرہ اس کا انکار کرتے ہیں۔
3- ابن کلاب اور ابو الحسن اشعری بعض صفات ذاتیہ جیسے: چہرہ، ہاتھ، اور آنکھ کو ثابت کرتے ہیں، مگر اشاعرہ صفات ذاتیہ کا انکار کرتے ہیں۔

▪مذہب اشاعرہ کا دائرہ وسیع ہونے میں چند اہم عوامل کارفرما رہے ہیں :
1- بغداد میں مذہب اشاعرہ نے جنم لیا، بغداد ان دنوں خلافت عباسیہ کا دار السلطنت تھا، علم وہنر کا مرکز، اور علماء و دانشوروں کا گہوارہ تھا، جس کی وجہ سے مذہب اشاعرہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
2- منہج اہل السنہ والجماعہ اور منہج اشاعرہ میں کسی حد تک تقارب ہے، اگر ان کا حال معتزلہ جیسا ہی ہوتا تو انجام بھی وہی ہوتا جو معتزلہ کا ہوا تھا، لہذا اس تقارب کی بنیاد پر مذہب اشاعرہ کا دائرہ وسعت اختیار کر گیا۔
3- چند بڑے امراء اور وزراء نے اس مذہب کو اپنایا، اور اس کی طرف اپنی نسبت کی، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1- وزیر نظام الملک ( متوفی 520ھ):
¤ سلاطینِ سلاجقہ کے عہد میں نظام الملک تقریبا 30 سالوں تک منصب وزارت پر فائز رہے، ان کے دور میں بصرہ، اصفہان، بلخ، ہراة، مرو، موصل، نیساپور، اور بغداد جیسے شہروں میں مدراس قائم کئے گئے، جو مدارس نظامیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
¤ نظام الملک صوفیہ اور اشاعرہ کے بڑے قدردان تھے، کیونکہ یہی علماء ان کے مدارس میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے تھے، لہذا عقیدہ اشعریہ کو فروغ دینے میں ان مدارس کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔
2- مہدي بن تومرت (متوفی524ھ):
¤ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن تومرت پانچویں صدی ہجری کے شروع میں مغرب کے علاقے میں ظاہر ہوا، بلاد عراق کی طرف سفر کیا، کچھ علم حاصل کیا، پھر مغرب واپس ہوا، اور پہاڑی علاقے کے جاہل بربروں کی طرف رخ کیا، انہیں شرائع اسلام کے چند بنیادی باتیں سکھایا، پھر کچھ انوکھی چیزوں کو دکھا کر " مہدی " ہونے کا دعوی کیا، اس کے بعد مالکی مغربیوں پر " مشبہہ و مجسمہ " ہونے کا الزام لگایا، اور بربروں کے ساتھ مل کر اپنے فلسفی و اشعری اعتقاد کی بنیاد پر ہزاروں مالکی مغربیوں کا قتل عام کیا جو در اصل اہل السنہ والجماعہ کے اعتقاد پر قائم تھے، اس طرح سے بلاد مغرب جو عقیدہ سلفیہ کا گہوارہ تھا اس شخص کی وجہ سے عقیدہ اشعریہ سے بھر گیا۔
3- صلاح الدین ایوبی (متوفی 589ھ):
¤ اشاعرہ کے ایک بڑے عالم قطب الدین ابو المعالی مسعود بن محمد بن مسعود نیساپوری نے عقیدہ اشعریہ پر ایک کتاب تالیف کی تھی جسے بچپن ہی میں صلاح الدین ایوبی نے حفظ کیا تھا، اسے اپنی اولاد کو بھی یاد کراتے، خود ان کی اور ان کی اولاد کی نشأ و نما اشعری عقیدہ پر ہی ہوئی تھی، اسی لئے تمام لوگوں کو ابو الحسن اشعری کے عقیدہ پر ابھارتے، نتیجتا بنی ایوب کے تمام ملوک، اور ملوکِ اتراک کے دور میں اشعری عقیدہ ہی كا غلغلہ رہا۔
¤ لہذا دنیا کے ہر چہار جانب اشعری عقیدہ کو پھیلانے میں صلاح الدین ایوبی کا بڑا ہاتھ رہا ہے، خصوصا مصر جو ایوبی حکومت کا دار السلطنت، علم ہنر کا مرکز، اور علماء و حکماء کا محور تھا، لہذا یہاں سے بھی اشعری عقیدہ کا خوب پھیلا۔
¤ جامعہ ازہر کی تاسیس سن 359ھ میں فاطمی حکومت میں رکھی گئی، اس زمانے کا یہی سب سے بڑا دینی ادارہ تھا، ایوبی حکومت کے قیام کے بعد یہاں سے شیعی غلبے کو ختم کیا گیا، اور اشعری عقیدہ کی بنیاد پر علوم اسلامیہ کو فروغ دینے کا فریضہ انجام دیا جانے لگا، اس طریق پر اشعری عقیدہ کو پھیلانے میں جامعہ ازہر کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور آج بھی ہے۔

(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:25
✍ عبيد الله الباقي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ تعطیل پر ایک نظر (٤)
¤ عباسی خلیفہ متوکل کے دور میں سمرقند کے علاقے میں ایک اور فرقہ وجود میں آچکا تھا، اس فرقہ کی بنیاد بھی عقلی و کلامی دلائل پر رکھی گئی، فرقہ ماتریدیہ ابو منصور محمد بن محمد بن محمود بن محمد ماتریدی (متوفی333ھ)کی طرف منسوب ہے، یہ صفات کے باب میں جہمیہ اور ابن کلاب سے کافی متاثر ہوئے، اللہ کے ناموں کو ثابت کیا، مگر باب اخبار و باب اسماء میں فرق نہیں کیا، چنانچہ صانع، قدیم، ذات، شئی، یہاں تک کہ لفظ " ھو " کو بھی اللہ کے ناموں میں شمار کیا، حالانکہ باب اخبار باب صفات سے کافی وسیع ہے،لہذا دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے، واضح رہے کہ باب اخبار اجتہادی ہے، جبکہ باب اسماء توقیفی ہے.
جہاں تک صفات کی بات ہے تو صرف آٹھ صفات" علم، قدرة، إرادة، حياة، سمع، بصر، كلام، اور تکوین " کو ثابت کیا ہے، باقی تمام صفات کا انکار کیا ہے۔

¤ ابو الحسن اشعری- رحمہ اللہ - سے ابو منصور ماتریدی کی ملاقات نہ ہوئی، اس کے باوجود اشعریہ اور ماتریدیہ کے درمیان اس قدر اتفاق ہے کہ کئی بار یہ لگتا ہے کہ دونوں ایک ہی ہے، اس کے چند اسباب ہیں:
1- دونوں فرقے - اپنے زعم کے مطابق- خود کو اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں۔
2- دونوں کے حریف " معتزلہ " ہیں، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اہل السنہ والجماعہ- اہل الحدیث- بھی ان کے حریف ہیں۔
3- منہج تلقی دونوں کے ایک ہی ہیں، لہذا نقل پر عقل کو مقدم کرنا، مجاز، حدیث آحاد کی تردید، اور تفویض جیسے امور ان کے اصولوں میں داخل ہیں۔
4- دونوں کا اصل مرجع " کلابیہ " ہے۔
یہ چند ایسے اسباب ہیں جن کی بنیاد پر دونوں فرقوں کے اصول ایک جیسے ہیں۔

¤ ماتریدیہ کو اپنے زمانے میں معتزلہ اور اشعریہ کی طرح پذیرائی حاصل نہ ہوئی، اس کے چند اسباب ہیں :
1- ابو منصور ماتریدی مرکز خلافت سے کافی دور تھے۔
2- جس طرح معتزلہ کو خلافت عباسیہ کے کچھ فترے میں مدد ملی، اور اشعریہ کو دولہ ایوبیہ، دولہ سلاجقہ، اور دولہ موحدین میں فروغ ملا اس طرح کسی خاص حکومت کی طرف سے ماتریدیہ کو مدد یا پشت پناہی حاصل نہ ہو سکی۔
3- عالم اسلامی کے علمی مراکز جیسے: مکہ المکرمہ، مدینہ المنورہ، بغداد، دمشق وغیرہ کی طرف ابو منصور ماتریدی نے سفر نہیں کیا، یہاں کے علماء کرام کے ساتھ ملاقات نہ کی، اور نہ ہی ا ن کے ساتھ مناظرے کی نوبت آئی، جس کی وجہ سے وہ گمنامِ زمانہ ہی رہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ علماء تاریخ جیسے: اشعری، ابن حزم، بغدادی، شہرستانی، ابن اثیر، ابن کثیر، اور ذھبی وغیرھم میں سے کسی نے ان کے بارے میں قلم نہیں اٹھایا ہے۔

¤ ابو منصور ماتریدی کے زمانے میں " ماتریدیہ " کا تعارف اس نام سے نہیں ہوا، مگر امتداد زمانہ کے ساتھ یہ فرقہ کئے ایک ادوار سے گزرا، پھر باقاعدہ یہ فرقہ کی شکل اختیار کر گیا، ماتریدیہ کے چند اہم ادوار مندرجہ ذیل ہیں:
1- دورِ تأسيسی (258ھ-333ھ):
یہ ابو منصور ماتریدی کا دور ہے، جس میں اس مذہب کی بنیاد رکھی گئی، اور انہوں نے معتزلہ کے خلاف کئے ایک کتابیں تصنیف کیں۔

2- دور تکوینی (333ھ 700ھ):
اس مرحلہ میں ابو منصور ماتریدی کے تلامذہ نے ان کے افکار کی نشر، اور ان کے دفاع میں کثرت سے کتابیں تالیف کیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
1- ابو القاسم اسحاق بن محمد سمرقندی(ت342ھ)۔
2- ابو محمد عبد الکریم بزدوی(ت390ھ)۔

3- دور بزدوی (400ھ-500ھ)۔
یہ ابو منصور ماتریدی کے تلامذہ کے تلامذہ کا دور ہے، جس میں عقیدہ ماتریدیہ کو خوب بسط و شرح کے ساتھ بیان کیا گیا، اس پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں، جو لوگ اس میں پیش پیش رہے ان میں سے چند یہ ہیں:
1- ابو الیسر محمد بن محمد بزدوی(ت493ھ)۔
2- محمد بن الفصل بلخی(ت419ھ)۔

4- دور نسفی (500ھ-700ھ)۔
اس دور میں سابقہ ادوار کی بنسبت عقیدہ ماتریدیہ پر زیادہ کتابیں لکھی گئیں، اس کے دلائل ہر اعتبار سے جمع کئے گئے، اس دور کے چند اہم اور فعّال شخصیات مندرجہ ذیل ہیں:
1- ابو معین نسفی(508ھ)۔
2- نجم الدین نسفی(537ھ)۔

5- دور عثمانی (700ھ-1300ھ)۔
یہ دور فرقہ ماتریدیہ کے لئے سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ اسی دور میں اسے دولہ عثمانیہ کی طرف سے کافی مدد ملی، چنانچہ اس کی بھرپور پذیرائی ہوئی، اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔
اس دور میں سب سے اہم جن کا کردار رہا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
1- سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی(792ھ)۔
2- ابو الحسن علی بن محمد جرجانی(816ھ)۔
3- کمال الدین محمد بن عبد الواحد - ابن الھمام-(861ھ)۔

6- دور دیوبندی (1283ھ۔۔۔۔)۔
یہ دور دار العلوم دیوبند (ہند) کی طرف منسوب ہے، عقیدہ ماتریدیہ کی نشر میں اس ادراہ کا بڑا اہم کردار رہا ہے، جس کے دور اہم شعبے ہیں:
أ- تعليم وتدريس ؛ جس کا فریضہ ہند، پاکستان، بنگلہ دیش، اور افغانستان کے مدارس دیوبندیہ میں انجام دیا جاتا رہا ہے، اور عصر حاضر میں عقیدہ ماتریدیہ کا یہی اصل مراکز ہیں۔
ب- دعوت و تبلیغ ؛ جس کا فریضہ " جماعت تبلیغ " انجام دے رہی ہے، یہ جماعت صوفیہ آراء و افکار اور ماتریدی عقائد کے حامل ہے، جنہیں یہ بڑی خوش اسلوبی اور پوشدگی کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے میں سعی پیہم کرتی رہی ہے۔

7- دور کوثری (1296ھ۔۔۔۔)۔
یہ دور محمد بن زاہد کوثری (ت1371ھ) کی طرف منسوب ہے، اس شخص نے عقیدہ ماتریدیہ کو خوب فروغ دیا، اہل السنہ والجماعہ کو گالیاں دیں، یہاں تک کہ انہیں مشرک، کافر، مجسمہ، اور مشبہہ تک کہا، عقیدہ کے باب میں کتب سلف کو : کتب وثنیہ، شرکیہ، اور کفریہ کہا، اور سلف صالحین کی اس عظیم وراثت کو تشبیہ و تجسیم سے پر بتایا 《 وإنهم لبراء عما يقول هذا الكذاب براءة الذئب عن دم يوسف- عليه السلام- 》
اس بندے نے توسل کی آڑ میں عبادت قبور، اور قبروں پر قبے، اور مزارات بنانے کی دعوت دی۔
عصر حاضر میں یقینا یہ کوثری دور بھی فرقہ ماتریدیہ کی ایک اہم کڑی ثابت ہوئی ہے۔

¤ اس طرح سے جس تعطیل کی بات سب سے پہلے جعد نے کہی تھی، وہ جہم، مریسی، ابن ابی دؤاد سے گزرتے ہوئے کوثری تک آ پہونچی، لہذا عصر حاضر میں ان جیسے لوگوں کے افکار سے حاملین عقیدہ سلف کو ہر ممکن باخبر، اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم خود کی اور اپنے مسلک کی حفاظت کر سکیں .
الله مولنا وهو نعم المولى ونعم النصير.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :26
✍ عبيد الله الباقي
........................................
توحید الأسماء والصفات کے باب میں فرق ضالہ-جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

▪ جہمیہ سے مراد :
جہم بن صفوان سمرقندی کے متبعین ہیں؛ جس نے اپنے معتقدات جعد بن درہم سے حاصل کئے.
▪ معتزلہ سے مراد:
واصل بن عطاء اور عمرو بن عبید کے متبعین ہیں.
▪ اشعریہ سے مراد:
ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری - رحمہ اللہ- کے متبعین ہیں؛ جب وہ اعتقاد میں ابن کلاب کے طریقے پر قائم تھے.
▪ ماتریدیہ سے مراد:
ابو المنصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی کے متبعین ہیں.

¤ منجملہ وہ بنیادی اصول جن پر توحید الأسماء والصفات کے باب میں مناھج فرق ضالہ کی بنا ہے :
1- اثبات صفات سے خالق و مخلوق کے درمیان تشبیہ و تمثیل لازم آئے گی.
2- اثبات صفات سے تعدد قدماء لازم آئے گا.
3- اثبات صفات سے اللہ کی ذات میں حلول حوادث لازم آئے گا.
4- اثبات صفات سے اللہ کے لئے جسمیت لازم ائے گی.
منجملہ ان اصولوں کی بنا پر فرق ضالہ نے اسماء وصفات کا انکار کیا ہے.

¤ توحید الأ سماء الصفات کے باب میں جہمیہ کی أصل الأصول .

صفات خالق کے اثبات سے تشبیہ لازم آتی ہے .
لہذا ہر وہ اسم وصفت جس کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے،اس کا اطلاق اللہ پر نہ درست ہے اور نہ ہی جائز ہو سکتا ہے، کیوں اس سے مخلوق کے ساتھ خالق کی تشبیہ لازم آتی ہے.
( تفصیل کے لیے رجوع کریں:النفي في صفات الله عز وجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة للدكتور أبي محمد أرزقي،ص:527).
• امام احمد بن حنبل -رحمہ اللہ- نے فرمایا:"........اور اس-جہم- نے گمان کیا کہ جس نے اللہ کو اس کے بیان کردہ اوصاف یا اس کے رسول کے بیان کردہ اوصاف کے ساتھ متصف کیا وہ کافر ہے، اور وہ مشبہ میں سے ہے". (الرد على الجهمية والزنادقة،ص:27-28).
• امام ابوالحسن اشعری -رحمہ اللہ- نے کہا کہ:"...-جہم- کہتا تھا کہ: میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اللہ شئی ہے،کیوں اس سے -متعدد- اشیاء کے ساتھ تشبیہ لازم آئے گی". (مقالات الإسلامين للأشعري:1/338).
• امام شہرستانی-رحمہ اللہ- نے کہا کہ: وہ-جہم- کہتا تھا کہ:" اللہ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف قرار دینا جائز نہیں، جس سے کوئی مخلوق موصوف ہو، کیوں کہ یہ تشبیہ کا متقاضی ہے...."(الملل والنحلل للشهرستاني،ص:86).
• امام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- نے. جہمیہ کے بارے میں کہا کہ:"...ان کا گمام ہے کہ اثبات صفات منافی توحید ہے؛اور خود کو وہ موحدین سمجھتے ہیں؛ جس نے صفات کو ثابت کیا وہ مشبہ ہے، وہ موحد نہیں ہو سکتا ہے..."(بیان تلبیس الجهمية،لابن تيمية:3/94).

◇ جہمیہ نے اسماء وصفات سے متعلق کتاب وسنت کے ظاہری نصوص کی تردید کی، جس نے بھی ثابت کیا اسے: مجسم و مشبہ گردانا، یہاں تک کہ انبیاء کرام - علیہم الصلاة والسلام- كو بھی نہیں بخشا، چانچہ ثمامہ بن اشرس نے کہا کہ:" تین انبیاء کرام مجسمہ و مشبہ ہیں؛ موسی جس نے کہا:{رب أرني أنظر إليك}[سورة الأعراف:155]، اور عيسى جس نے کہا:{تعلم ما في نفسي ولا أعلم ما في نفسك}[سورة المائدة:116]، اور محمد جس نے کہا:《ينزل ربنا............》(صحيح البخاري -1155-، وصحيح مسلم - 1808-).
(مجموع الفتاوى لابن تيمية:5/110).

▪مذکورہ تمام اقوال ائمہ سلف سے واضح ہوتا ہے کہ توحید الأسماء والصفات کے باب میں جہمیہ کی اصل الأصول《 تنزيه الله تعالى عن التشبيه 》ہے، جس کی آڑ میں انہوں نے اپنے من گھڑت اور بے بنیاد عقلی و فلسفی دلائل کی وجہ سے اسماء وصفات کے صریح و ظاہری نصوص کا انکار کیا، تشبیہ سے بچنے کے لئے تردید نصوص و تاویل کی راہ اختیار کی، مگر اس سے بڑی تشبیہ و ضلالت " ممتنعات و معدومات " کے بھنور میں پھنس گئے.

(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :27
✍ عبيد الله الباقي
........................................
توحید الأسماء والصفات کے باب میں فرق ضالہ-جهمیہ، معتزلہ،اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

¤ " اثبات صفات سے خالق اور مخلوق کے درمیان تشبیہ لازم آتی ہے "
جہمیہ کا یہ دعوی ہے، اور اسماء و صفات کے باب میں یہی ان کی اصل الأصول ہے، خالق اور مخلوق کی صفات میں فرق نہیں کیا، مسئلہ" قدر مشترک " کو سمجھ نہ سکے، جس کی پاداش میں دین کا یہ اہم ترین باب ان پر مشتبہ ہو گیا، چانچہ انہوں نے《 تنزيه الله عزوجل عن التشبيه 》كو دلیل بنا کر اللہ کے اسماء حسنی و تمام صفات علیا کا انکار کیا، جس سے نصوص کتاب وسنت، اور طریقہ سلف صالحین کی صریح مخالفت ہوتی ہے، جہمیہ کا طریقہ چند اسباب کی بنا پر باطل ہے:
1- اللہ تعالی کی تمام صفات کو ظاہری طور پر ثابت کیا جائے گا،ان میں تحریف و تعطیل، اور تکییف و تمثیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں خود ثابت کیا ہے، یا اس کے رسول-صلی اللہ علیہ وسلم- نے ثابت کیا ہے.
2- ہر موصوف کی صفات اسی کے لائق ہوتی ہیں، لہذا اللہ تعالی کی صفات اس کی ذات کے عین مطابق ہیں، جبکہ مخلوقات کی صفات ان کے مناسب ہیں۔
3- ایک ہی نام کی کسی صفت سے دو موصوف کے درمیان "قدر مشترک" پائی جاتی ہے، لہذا اللہ تعالی نے اپنے لئے ہاتھ کو ثابت کیا ہے، اور انسان کے بھی ہاتھ ہیں، خالق اور مخلوق کے ہاتھ میں" قدر مشترک " ہے جسے ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے۔
4- نام کی مماثلت سے حقیقت میں مماثلت لازم نہیں آتی ہے، لہذا اللہ کی آنکھ اور اور انسان کی آنکھ دونوں کا نام ایک ہی ہے مگر حقیقت مختلف ہے.
5- ہر فرقہ اللہ کی ذات کا کسی نہ کسی طریقے سے اقرار کرتا ہے، اور ذات و صفات دونوں لازم ملزوم ہیں، اور یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات، صفات، افعال، اسماء، بلکہ ہر چیز میں اکیلا، تنہا، اور یکتا ہے{ قل هو الله أحد}[ سورة الإخلاص:1]، اس کا کوئی مثیل اور شبیہ نہیں{ ليس كمثله شيء وهو السميع البصير}[سورة الشورى:11]، لہذا یہ واجب و ضروری ہے کہ خالق کی تمثیل کسی مخلوق سے نہ دی جائے{فلاتضربوا لله الأمثال}[سورة النحل:74].

(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :28
✍ عبيد الله الباقي
.....................................
توحید الأسماء والصفات كے باب میں فرق ضالہ- جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

¤ توحید الأسماء والصفات کے باب میں معتزلہ کے دو بینادی اصول ہیں :

• شبہ تعدد قدماء .
• دلیل الأعراض وحدوث الأجسام .

▪ شبہ تعدد قدماء :
• معتزلہ کے نزدیک اللہ تعالٰی کی سب سے خاص صفت" صفت قدم " ہے، جس میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی اور صفت اللہ تعالٰی کے لئے ثابت کی جا سکتی ہے.
(تفصیل کے لئے رجوع کریں: شرح الأصول الخمسة لعبد الجبار،ص:277-278).
• جب صرف " صفت قدم " ہی اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے تو وہ اکیلا قدیم ہے، لہذا - معتزلة کے گمان کےطابق- دیگر صفات قدیمہ کے اثبات سے تعدد قدماء لازم آتا ہے.
• ان کا کہنا ہے کہ اگر اللہ تعالی کے لئے کئی ایک صفات قدیمہ ثابت ہوں تو قدیم کی تعداد ایک سے زائد ہوگی، اور اگر یہ صفات اللہ تعالٰی کے ساتھ" صفت قدم " میں شریک ہوں؛ تو الوہیت میں بھی شریک ہوں گی، لہذا جس نے بھی صفات کو ثابت کیا، اس نے تعدد إلہ کو ثابت کیا.(تفصیل کے لئے رجوع کریں: منهاج السنة النبوية لابن تيمية:2/482، الصفدية:2/227-228).
• واضح رہے کہ معتزلہ کے نزدیک " تعدد قدماء " کی نفی سے مراد تعدد ذوات کی نفی نہیں ہے بلکہ تعدد صفات کی نفی مراد ہے، کیونکہ ذات الہی سے متعلق ان کا تصور ہے کہ اللہ تعالٰی واحد ہے، اور اس کی یہ وحدانیت مطلق ہے، جو محض ایک ذہنی تصور ہے، بنا بریں دیگر صفات قدیمہ کا اثبات وحدانیت کا منافی ہے.( تفصیل کے لیے رجوع کریں:المواقف في علم الكلام للإيجي،ص:278، شرح الأصول الخمسة،ص:195).

¤ شبہ "تعدد قدماء" پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تین اہم مقدمات پر قائم ہے :
1- صفت موصوف سے الگ ہے.
2- جو اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ قائم ہے وہ قدیم ہے.
3- اللہ کے علاوہ کوئی قدیم نہیں ہو سکتا ہے.
نتیجہ : اللہ عزوجل کا صفات کے ساتھ متصف ہونا محال ہے.
اسی شبہ تعدد قدماء کی بنا پر معتزلہ نے تمام صفات ملازمہ یا صفات ثبوتیہ کا انکار کیا ہے.
ساتھ ہی جس نے بھی اللہ تعالی کے لئے کسی صفت قدیمہ کو ثابت کیا ہے اسے 《 ممثل 》گردانا ہے.(تفصیل کے لئے رجوع کریں:التدمرية،ص:117، درء تعارض العقل والنقل:5/46، المغني في أبواب التوحيد لعبد الجبار:4/341).

▪ شبہ "تعدد قدماء" چند اسباب کی وجہ سے باطل ہے :
1- وجود الہی کا اعتراف اثبات صفات إلہیہ کا متقاضی ہے، کیونکہ صفات کے بغیر کسی بھی ذات کا تصور ممکن نہیں.
2- ذات وصفات کا حکم ایک ہی ہے، کیونکہ صفات ہی در اصل ذات کی اصل پہچان ہوتی ہیں، لہذا صفات کو ذات سے الگ کرنا خلاف شرع اور عقل کے منافی ہے.
3- شبہ " تعدد قدماء " کی بنا پر معتزلہ جن صفات کا انکار کرتے ہیں؛ وہ کتاب وسنت میں مذکور ہیں، اس کے بعد بھی کوئی ان صفات کا انکار کرے تو یہ صریح کفر ہے.
4- کائنات اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یقینا ان کا کوئی خالق حقیقی ہے، جو کامل الصفات ہے، جس کی ذات میں کسی قسم کا نقص و عیب نہیں ہے.
5- شبہ" تعدد قدماء " در اصل فلاسفہ کی " دلیل الترکیب " سے ماخوذ ہے؛ جو محض عقلی دلائل، اور اوھام وخیالات پر مبنی ہے، جس کی بنیاد پر فلاسفہ و معتزلہ اللہ تعالٰی کی ذات کو صفات سے خالی تصور کرتے ہیں.
¤ مذکورہ تمام اسباب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شبہ" تعدد قدماء " کی اصل صرف خیالی، اور بے بنیاد ہے، صحیح اور صریح طریقہ قرآن و سنت کا طریقہ ہے، جو دین کے تمام گوشے کو شامل ہے، اسے اپنا محور ومرکز بنانا ایک مسلمان کی اصل پہچان ہے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :29
✍ عبيد الله الباقي
.....................................
توحید الأسماء والصفات كے باب میں فرق ضالہ- جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

¤ توحید الأسماء والصفات کے باب میں معتزلہ کے دو بینادی اصول ہیں :
• شبہ تعدد قدماء .
• دلیل الأعرض وحدوث الأجسام .
¤ گذشتہ قسط میں شبہ تعدد قدماء کے بارے میں تفصیل گزر چکی ہے، اس قسط میں معتزلہ کی دوسری اصل الأصول" دلیل الأعراض وحدوث الأجسام " کے بارے میں چند بنیادی باتیں عرض کی جائیں گے،ان شاء الله.

▪ حدوث الأجسام
• تعدد قدماء کی بحث میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ معتزلہ کے نزدیک اللہ تعالٰی کی سب سے خاص صفت" قدم " ہے، اس بنا پر وہ قدیم ہے، اس کے علاوہ دنیا اور اس میں پائے جانے والے تمام اجسام حادث ہیں، کیونکہ ان میں تغیر وتبدل پایا جاتا ہے، اور کسی بھی چیز کا تغیر اس کے حادث ہونے پر دلالت کرتا ہے،گویا حدوث مخلوقات کا خاصہ ہے، اور اللہ تعالٰی حوادث سے منزہ ہے( تفصیل کے لئے رجوع کریں:الأصول الخمسة لعبد الجبار،ص:130-131).

¤ معتزلہ کے نزدیک اعراض(صفات) اجسام کے خاصہ ہیں، اور اجسام حادث ہیں، بلکہ جو محل حوداث ہے، وہ بھی حادث ہے، اور چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے، لہذا وہ نہ تو جسم ہو سکتی ہے کیونکہ جسم محل حوادث ہے، اور نہ اس کے ساتھ کوئی صفت قائم ہو سکتی ہے کیونکہ صفت خود ہی حادث ہے( تفصیل کے لئے رجوع کریں: منہاج السنة لابن تيمية:3/361، درء تعارض العقل والنقل:1/305).

¤ حدوث الأجسام سے متعلق معتزلہ کا شبہ تین مقدمات پر قائم ہے:
1-اعراض (صفات) حادث ہیں.
2- اجسام اعراض ( صفات) سے الگ نہیں ہو سکتے ہیں.
3- جو محل حوادث ہوتا ہے، وہ بھی حادث ہے.
☆ نتیجہ : اجسام حادث ہیں.
¤ اس طریق پر جب اللہ تعالٰی جسم نہیں ہے، تو ذات الہی کے ساتھ صفات قائم نہیں ہو سکتی ہیں.

¤ اسی لئے ابوھذیل العلاف نے کہا ہے کہ:" اجسام حوادث سے نہ تو الگ ہو سکتے ہیں، اور نہ ان سے مقدم ہوسکتے ہیں، اور جو محدث سے الگ نہ ہو سکے، اور نہ اس سے مقدم ہو سکے وہ خود اسی جیسا محدث ہے"(تفصیل کے لئے رجوع کریں: الأصول الخمسة،ص:95).

▪ دلیل الأعراض
¤ دلیل " حدوث الأجسام " سے یہ واضح ہوا کہ اجسام متماثلہ حادثہ ہیں، اور اعراض (صفات) اجسام کے بغیر قائم نہیں ہوسکتے ہیں، اور نہ ان سے الگ ہو سکتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالٰی جسم نہیں ہے، لہذا ذات الہی کے ساتھ صفات قائم نہیں ہو سکتی ہیں(تفصیل کے لئے رجوع کریں: النفي في صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:570-573).

¤ دلیل الأعراض کے بارے میں قاضی عبد الجبار نے کہا ہے کہ:" عرض معدم ہو سکتا ہے، مگر قدیم معدوم نہیں ہو سکتا ہے،اور عرض قدیم نہیں ہو سکتا ہے، اور جو قدیم نہیں ہو سکتا ہے وہ ضرور محدث ہے"(الأصول الخمسة،ص:104).

¤ قاضی کے مذکورہ کلام سے واضح ہے کہ اللہ تعالٰی قدیم ہے جو کبھی معدم نہیں ہو سکتا، مگر عرض ( صفت) معدوم ہو سکتا ہے، لہذا اللہ تعالٰی کے ساتھ صفات قائم نہیں ہو سکتی ہیں.

¤ دلیل الأعراض سے متعلق معتزلہ کا شبہ دو مقدمے پر قائم ہے :
1- اعراض(صفات) میں تغیر وتبدل پایا جاتا ہے.
2- تغیر وتبدل حدوث پر دلالت کرتا ہے.
☆ نتیجہ :اعراض (صفات) حادث ہیں.
¤ اور اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے، جو حوادث سے منزہ ہے، اس لئے اس کے ساتھ صفات قائم نہیں ہو سکتی ہیں.
(تفصیل کے لئے رجوع کریں:الأصول التي بنى عليها المبتدعة مذهبهم في الصفات والرد عليها من كلام شيخ الإسلام ابن تيمية:1/347-373).

¤ دلیل الأعراض وحدوث الأجسام كی بنیاد پر معتزلہ نے صفات فعلیہ کا انکار کیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک فعل حدوث پر دلالت کرتا ہے، اور اگر صفات فعلیہ کو اللہ کے لئے ثابت کیا جائے تو اس سے اللہ کی ذات میں حدوث لازم آئے گا، جس سے اللہ تعالٰی منزہ ہے، لہذا انہوں نے تمام صفات ثبوتیہ کے ساتھ صفات فعلیہ کا بھی انکار کر دیا.

(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :30
✍ عبيد الله الباقي
.....................................
توحید الأسماء والصفات كے باب میں فرق ضالہ- جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

▪" دلیل الأعراض وحدوث الأجسام " کی تردید.

¤ تعطیل صفات کے لئے " دلیل الأعراض وحدوث الأجسام " معتزلہ کے نزدیک نہایت اہم اصل ہے، جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے، وہ محض خیالی، عقلی اور بے بیناد دلائل پر مبنی ہے.
چند وجوہات کی بنا پر شبہ" دلیل الأعراض وحدوث الأجسام " باطل ہے:
1- اس طریقے کے اندر ایسی تفصیل و تقسیم ہے، جس سے مقصود بآسانی حاصل نہیں ہو سکتا ہے، جو نہایت پیچیدہ، اور حد درجہ الجھا ہوا ہے، اسے دین کی اصل اور ایمان کی اساس کیسے بنایا جاسکتا ہے؟.
2- یہ طریقہ کوئی شرعی طریقہ نہیں ہے، کیونکہ ہر شرعی طریقہ نہاہت سہل، اور بے حد یقینی ہوتا ہے، اور بدقسمتی سے اس کے اندر ان دونوں ہی وصف مفقود ہیں.
3- سلف صالحین نے اس " دلیل الأعراض و حدوث الأجسام " کی سخت مذمت کی ہے.
4- شریعت مطہرہ کے اندر ایسے بے شمار طریقے ہیں جن سے وجود الہی، اور اس کی صفات، افعال، و اسماء ثابت ہوتے ہیں، لہذا ایسے بے تکے طریقوں کو بیساکھی بناکر وجود الہی کو ثابت کرنا عقل و شرع کا خلاف ہے.
5- ایسے خود ساختہ طریقوں کو اپنانا در اصل" عقل کو نقل پر مقدم کرنا ہے "، جس پر سلف نے سخت نکیر ہے.
6- " دلیل الأعراض وحدوث الأجسام " جیسے شبہات سے تعطیل صفات لازم آتی ہے، لہذا ان سے دور رہنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے.
 
Top