• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کیا مسلمانوں کو ان کے مشرکاہ عقائد کی وجہ سے مشرک نہیں کہا جا سکتا؟ایک مغالطے کی وضاحت

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو لوگ آستانوں اور قبروں پر جا کر استغاثہ واستمداد کرتے،حتی کہ ان کی قبروں کو سجدے تک کرتے ہیں ،انہیں مشرک نہیں کہا جا سکتا،یا انہیں مشرک نہیں کہنا چاہیے ،ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن نے مشرکین کی اصطلاح صرف اہل مکہ اور عرب کے دیگر مشرکین کے لیے استعمال کی ہے اور یہودونصاری کو اہل کتاب کہا ہے،حالانکہ ان کے عقیدے بھی مشرکانہ ہی تھے،لیکن ان کو قرآن مجید میں اللہ نے مشرک کے لفظ سے مخاطب نہیں فرمایا۔یہ استدلال علمی لحاظ سے اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا۔کیونکہ نزول قرآن کے وقت جو فرقے تھے،وہ ویسے تو سارے ہی کافر اور مشرک تھے ،اللہ تعالیٰ سب کے لیے کفار و مشرکین کے الفاظ استعمال فرما سکتا تھا اور واقعات کے اعتبار سے یہ صحیح ہوتا۔لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا۔کیوں؟کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودونصاری عقیدے کے لحاظ سے مشرک نہیں تھے؟اور صرف بتوں کے پجاری عرب ہی مشرکانہ عقیدوں کے حامل تھے؟یقینا یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔کیونکہ یہ یہودونصاری کے مشرکانہ عقیدوں کی وضاحت خود قرآن نے کی ہے۔کیا حضرت عیسی (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم کو الہ (معبود) ماننا مشرکانہ عقیدہ نہیں ہے؟کیا اللہ کی بابت یہ کہنا کہ وہ "تین ( اللہ ؤں) میں سے تیسرا ہے"مشرکانہ عقیدہ نہیں ہے؟حضرت عزیر اور حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دینا مشرکانہ عقیدہ نہیں ہے؟ اور کیا قرآن نے ان کے ان عقیدوں کو لفظ کفر سے تعبیر نہیں کیا ہے؟ اگر ان باتوں کا جواب اثبات میں ہے (اور یقینا اثبات میں ہے،کیونکہ یہ سب قرآن میں مذکور ہے) تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے مذکورہ عقیدوں کی وجہ سے یہودونصاری کو مشرک اور کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کافر کا لفظ تو ان کے لیے صراحۃَََ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔گویا اصل سوال رہ گیا ،انہیں مشرک کہا جا سکتاہے یا نہیں؟
ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ عقیدے مشرکانہ ہیں،اس لیے ان عقیدوں کے حاملین بھی یقینا اسی طرح مشرک ہیں ،جیسے لات و عزی کے پجاری مشرک تھے۔اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہہ پھر قرآن نے ان کو صراحت کے ساتھ مشرک کیوں نہیں کہا؟اور انہیں مشرکین عرب کے مقابلے میں اہل کتاب کے الفاظ سے کیوں مخاطب کیا؟ کیا ہمارے ناقص فہم کے مطابق اس کی اصل وجہ تمام موجود فرقوں کا امتیاز اور تشخص تھا،اگر سب کے لیے ایک ہی لفظ "مشرک" استعمال کیا جاتا،تو کسی بھی فرقے کا امتیاز باقی نہ رہتا،جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ان کے امتیاز کو باقی رکھنا تھا۔یہودونصاری کا امتیاز یہ تھا کہ وہ اللہ اور رسولوں کے ماننے والے تھے،انہیں آسمانی کتابوں سے بھی نوازا گیا تھا،لیکن اس کے باوجود وہ عمل و اعتقاد کی خرابیوں میں مبتلا ہو گئے۔انہیں بار بار اہل کتاب کے لفظ سے خطاب کرنے میں یہی حکمت تھی کہ انہیں ان کے جرم اور معصیت و طغیان کی شناعت و قباحت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کر کے دکھلایا جاتا اور وہ اسی طرح ہو سکتا تھا کہ انہیں یاد دلایا جاتا کہ تم لوگوں نے اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ یہ کیا اور اس اس قسم کے عقیدے گھڑ لیے،جو صریحا کفر ہیں۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے اندر شرک نہیں پایاجاتا تھااور اس اعتبار سےوہ مشرک نہیں تھے۔یقینا جس طرح وہ کافر تھے ،مشرک بھی تھے۔انہیں اہل کتاب صرف عربوں سے ممتاز کرنے کے لیے کہا گیا ،جیسے عربوں کو قرآن نے اُمی بھی کہا،کیونکہ ان کی اکثریت ان پڑھ تھی،جب کہ اہل کتاب میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ قائم تھا، اس لیے انہیں اُمی نہیں کہا گیا،اس کی وہ اس معاملے میں دونوں کا اپنا اپنا امتیاز تھا ،عرب بالعموم ان پڑھ تھے اور اہل کتاب کی اکثریت پڑھی لکھی ۔اس لیے ایک کو اہل کتاب اور دوسرے کو اُمی کہا گیا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ عربوں میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہ تھا یا اہل کتاب میں کوئی ان پڑھ نہ تھا،یہ عمومی اعتبار سے ان کا ایک تشخص تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت و مصلحت کے تحت باقی رکھا۔اس سے قطعا یہ مہوھم اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اہل کتاب کو مشرک نہیں کہا جاسکتا۔اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھا جس سکتا ہے۔قرآن میں ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱلَّذِينَ هَادُوا۟ وَٱلصَّٰبِـِٔينَ وَٱلنَّصَٰرَىٰ وَٱلْمَجُوسَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ ﴿17﴾
ترجمہ: بے شک الله مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اورمجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا بےشک ہر چیز الله کے سامنے ہے (سورۃ الحج،آیت 17)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان تمام گروہوں کا الگ الگ نام لیا،جونزول قرآن کے وقت عرب یا اس کے قرب و جوار میں تھے اور امتیازی ناموں سے معروف تھے،ان میں اہل ایمان اور اور یہودونصاری کے علاوہ صابئین اور مجوس کا نام بھی ہے،صابئین ،فرشتوں اور ستاروں کے پجاری تھے۔مجوس، سورج پرست اور آتش پرست تھے ،بلکہ مجوس دو خالق مانتے تھے،ایک نور اور خیر کا خالق اور دوسرا ظلمت اور شر کا خالق اور یہ دنیا کا واحد فرقہ ہے جو ذات کے اعتبار سے تعدد الہ کا قائل ہے۔ورنہ دیگر تمام مشرکین ذات کے اعتبار سے ایک ہی الہ کے قائل رہے ہیں،وہ صرف صفات کے اعتبار سے دوسروں کو اللہ ئی اختیارات کا حامل سمجھتے تھے ،جیسے آج کل کے قبر پرست ہیں۔گویا دنیا میں اصل اور سب سے بڑے مشرک مجوس تھے اور ہیں،لیکن قرآن نے ان کا ذکر مشرکوں کے ساتھ نہیں کیا،بلکہ ان کے امتیازی نام سے ان کا ذکر کیا،صابئین کا بھی ان کے امتیازی نام سے ذکر کیا اوران سب کا نام لینے کے بعد فرمایا (وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟) "اور وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا" یعنی بُتوں کے پجاریوں کو الگ مشرکین کے لفظ سے یاد کیا،جب کہ صابئین بھی ستارہ پرست اور مجوس بھی سورج پرست و آتش پرست تھےاور اس اعتبار ےسے یقینا یہ بھی پکے مشرک تھے۔لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا۔کیا اس سے یہ استدلال صحیح ہو گا کہ صابئین اور مجوس مشرک نہیں ہیں یا انہیں مشرک نہیں کہا جا سکتا،کیونکہ قرآن نے ان کے لیے مشرکین کی اصطلاح استعمال نہیں کی؟
اگر صابئین اور مجوس اپنے عقیدوں کے اعتبار سے مشرک ہیں اور انہیں مشرک کہا جا سکتا ہے ،حالانکہ قرآن نے انہیں مشرک نہیں کہا،بلکہ مشرکین سے الگ ان کا ذکر کیا ہے۔تو یقینا یہودونصاری کو بھی ان کے عقیدوں کی بنا پر مشرک کہا جا سکتا ہے،گو قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا ہے۔کیونکہ امتیاز کے لیے الگ الگ نام لینا ضروری تھا۔اسی طرح جو نام نہاد مسلمان مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں،وہ مسلمانوں میں شمار ہونے کے باوجود مشرک کیوں نہیں ہو سکتے۔؟یا نہیں مشرک کیوں نہیں کہا جا سکتا؟
یہ ساری گفتگو ہم نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کی ہے کہ قرآن نے یہودونصاری کو مشرک نہیں کہا ہے۔لیکن ہمارے خیال میں یہ دعوی بھی مکمل طور پر صحیح نہیں ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ صراحتا انہیں مشرک نہیں کہا گیا ،لیکن قرآن نے ان کے مشرک ہونے کی طرف واضح اشارہ ضرور کیا ہے۔دیکھئے قرآن نے کہا:
لَقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ ٱلْمَسِيحُ يَٰبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍۢ﴿72﴾
ترجمہ: وہ لوگ بےشبہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مریم کے بیٹے (عیسیٰ) مسیح اللہ ہیں حالانکہ مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی (اور جان رکھو کہ) جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (سورۃ المائدہ،آیت72)
قرآن کریم کی اس آیت کا سیاق واضح کر رہا ہے کہ مسیحوں کا عقیدہ ابنیت میسح جیسے کفر ہے ،وہ شرک بھی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کفر کے لیے صریح لفظ استعمال کیا گیا ہے جب کہ شرک کے لیے تعریض و کنایہ کا انداز اپنایا گیا ہے ۔اگر ابنیت مسیح کا عقیدہ شرک نہ ہوتا یا کم از کم یہ کہ جائے کہ قرآن نے اسے شرک سے تعبیر نہیں کیا ہے،تو یہاں (مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ) کہنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔یہ عقیدہ شرک ہے ،تب ہی تو اللہ نے اس عقیدے کو کفر سے تعبیر کر کے شرک کی سزا بیان فرمائی ہے،ورنہ یہ کہا جاتا (ومن یکفر باللہ) کی جگہ (مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ) کہہ کر واضح کر دیا گیا کہ کسی کا امتیازی نام کچھ بھی ہو،لیکن اگر اس کے عقیدہ و عمل میں شرک کی آمیزیش پائی جائے تو اس کے عقیدے کو شرک اور خود اس ک مشرک کہا جس سکتاہے،اسی لیے قرآن نے اس کو ظالم سے بھی تعبیر کیا ہے جو یہاں یقینا مشرک ہی کے معنی میں ہے۔اسی طرح قرآن کریم کی دوسری آیت ہے:
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًۭا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹےکو بھی حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے (سورۃ التوبہ،آیت 31)
یہاں بھی قرآن کے سیاق سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ یہودونصاری کا اپنے علماء کو رب بنا لینا اور (عیسائیوں) کا مسیح بن مریم کو رب بنا لینا شرک ہے،اس شرک سے اللہ تعالیٰ پاک ہے اور جب ان کا یہ عقیدہ شرک ہے جس سے اللہ تعالیٰ براءت کا اظہار فرما رہا ہے تو یہودونصاری یقینا مشرک ہوئے۔اس لیے جب بھی ان کے فاسد عقیدہ کی بات ہو گی تو ان کےفاسد عقیدے کو شرک اور خود ان کو مشرک کہا جائے گا،گو اصطلاح یا امتیاز کے طور پر انہیں بالعموم اہل کتاب ہی کے الفاظ سے موسوم کیا جائے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بدکاری کے مرتکب کو زانی،چوری کرنے والے کو چور،ڈاکہ مارنے والے کو ڈاکر کہا جاتا ہے اور کہا جائے گا،چاہے وہ کوئی بھی ہو،دنیا کے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔اسی طرح جو بھی مشرکانہ عقیدہ و عمل کا حامل اور مرتکب ہو گا،اس کے عقیدہ و عمل کو شرک اور خود اسے مشرک کہا جائے گا چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔
باقی رہا مسئلہ کہ جہالت یا نا سمجھی کی وجہ سے اسے کچھ رعایت مل سکتی ہے یا نہیں؟ اس کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے،یہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے،جس کا فیصلہ وہ روز قیامت ہی فرمائے گا۔علماء کی ذمہ داری بلاغ مبین (کھول کر بیان کر دینا) ہے اور اس بلاغ مبین میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو عقیدہ یا عمل جیسا ہے،قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ،اس پر تاویلات کا پردہ نہ ڈالیں اور نہ مصلحت کا نقاب۔وہ حلال ہے یا حرام،سنت ہے یا بدعت،شرک ہے یا توحید؟ہر عمل کی وضاحت علماء کا منصبی فریضہ ہے ،تاکہ لوگ حلال کو اختیار کریں ،حرام سے بچیں،سنت پر عمل کریں۔بدعت سے گریز کریں اور شرک سے بچیں اور توحید کا راستہ اپنائیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کیا اُمت مسلمہ شرک کا ارتکاب نہیں کرے گی؟
ایک اور مغالطے کی وضاحت

ایک اور بات یہ کہی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ" مجھے تم سے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے،البتہ یہ اندیشہ ضرور ہے کہ تم دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلے پر رغبت کرو گے۔"(مفہوم حدیث)
جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (جس کا مفہوم ہے) میرے بعد میری اُمت کے شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں،تو اس کا مطلب ہے کہ مسلمان مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہی نہیں ہوں گے،پھر انہیں مشرک کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
جہاں تک اس فرمان رسول کا تعلق ہے ،بلاشبہ صحیح ہے۔اس حدیث کی صحت میں کوئی شک نہیں۔لیکن اس حدیث کا مطلب یہ قطعا ہرگز نہیں ہے کہ امت محمدیہ کا کوئی فرد بھی کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کرے گا۔کیونکہ دوسری متعدد احادیث میں آپ نے اپنی امت کے افراد کے بھی شرک میں ملوث ہونے کی پیشن گوئی فرمائی ہے،سند کے لحاظ سے یہ روایات بھی صحیح ہیں۔اب یا تو ان دونوں روایات میں تعارض تسلیم کیا جائے؟ یا پھر ان کا مطلب ایسا لیا جائے کہ ان کے مابین تعارض نظر نہ آئے۔ہمارے نزدیک یہ دوسرا نقطہ نظر ہی صحیح ہے،کیونکہ دو صحیح حدیثوں میں حقیقی تعارض ہو ہی نہیں سکتا ،جو ظاہری تعارض نظر آتا ہے،وہ اپنی ہی کم فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے،حقیقت میں تعارض نہیں ہوتا اور محدثین ان میں ایسی تطبیق دے لیتے ہیں کہ دونوں روایات اپنے اپنے محل میں ٹھیک بیٹھ جاتی ہیں۔
اول الذکر حدیث کی بابت بھی محدثین نے وضاحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان صحابہ کرام کے متعلق ہے، یہ آپ نے اپنی ساری اُمت کی بابت نہیں بلکہ صرف صحابہ کی بابت فرمایا ہے کہ مجھے ان سے شرک کا اندیشہ نہیں۔ضمیر خطاب میں خطاب صحابہ سے ہے،ساری امت سے نہیں اور اگر اسے ساری امت سے متعلق مانا جائے تو مطلب ہو گا کہ ساری امت شرک میں مبتلا نہیں ہو گی، بلکہ اگر کچھ لوگ شرک کریں گے تو ایک گروہ ضرور توحید پر قائم رہے گا اور اس کی طرف دعوت دے گا۔چنانچہ اہل توحید و اہل سنت کا ایک گروہ ایسا چلا آ رہا ہے اور اب بھی ہے کہ وہ مشرکانہ عقائد و اعمال سے پاک اور توحید و سنت پر قائم ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
دیگر ارشادات رسول کی روشنی میں زیر بحث نکتے کی وضاحت:

علاوہ ازیں سدباب کے طور پر نبی کریمﷺنے اپنی امت کو بہت سی ایسی تنبیہات فرمائی ہیں جن کا مقصد امت کو شرک سے بچانا اور توحید کی حفاظت کرنا ہے۔اگر امت مسلمہ کو شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی نہ ہوتا تو ان تنبیہات اور انسدادی احکام کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔نبی کریمﷺکے ان تنبیہی احکامات سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہےکہ انسانی کمزوریوں اور سابقہ امتوں کے طرز عمل کے پیش نظر یقینا آپ کے سامنے یہ اندیشہ رہا کہ آپ کی امت بھی شرک کی دلدل میں پھنس سکتی ہے۔چنانچہ اس سے بچنے کے لیے آپ نے حسب ذیل باتوں کی خاص تاکید فرمائی۔
1:آپ نے اپنی شان اور مدحت وتعریف میں غلو کرنے سے منع فرمایا،کیونکہ یہ چیز عقیدت مندوں کو ممدوح کی عبادت کرنے تک پہنچا دیتی ہے،جیسے عیسائیوں کے ہاں ہوا انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم کی شان میں غلو کیا،اس کا نتیجہ ہوا کہ یہ دونوں عبد سے معبود بن گئے۔اس لیے نبی کریمﷺنے فرمایا:
((لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ))(صحیح البخاری،الاحادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ''واذکر فی الکتاب مریم''،ح:3445)
''تم مجھے میری حد سے اس طرح نہ بڑھانا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم(حضرت عیسیٰ) کو بڑھا دیا،پس میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں،تو تم مجھے اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہی کہنا''
2:
نبی کریمﷺنے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارتیں بنانے وغیرہ سے منع فرمایا:

((أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ))(صحیح مسلم،الجنائز،باب النھی عن تجصیص القبر۔۔۔۔،ح:970)
''رسول اللہﷺنے قبروں کو چونہ گچ(پختہ ) کرنے سے،ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے''
اسی طرح قبر پر نام لکھنے سے بھی آپ نے منع فرمایا ہے۔ان چیزوں سے منع کرنے میں یہی حکمت ہےکہ لوگ شرک سے دور رہیں۔کیونکہ قبروں کو پختہ کرنا یا ان پر قبے وغیرہ بنانا یا ان کے ناموں کی تختی لگانا یہ صالحین کی یا ان کی قبروں کی تعظیم میں غلو کرنے ہی کا نتیجہ ہے،جو مفضی الیٰ الشرک ہے۔

3:
قبروں پر بیٹھنے اور ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے
:

((لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ، وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا)) (صحیح مسلم،الجنائز،باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ،ح:971)
''تم قبروں کی طرف نماز پڑھو اورنہ ان پر بیٹھو''
قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے میں بھی اندیشہ شرک پایا جاتا ہے،اسی طرح اگر بیٹھنے سے مراد مجاور بن کر بیٹھنا مراد لی لیا جائے(کیونکہ یہ بھی بیٹھنے میں آجا تا ہے) تو یہ تعظیم قبر میں غلو کی شکل ہے،جو نہایت خطرناک ہے۔

4:پچھلی امتوں(یہود ونصاری) نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کے ساتھ یہی غلو کیا اور انہوں نے قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا،جس پر وہ لعنت کے مستحق قرار پائے۔
چنانچہ نبی کریمﷺنےاپنے مرض الموت میں فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ
''اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر لعنت فرمائے،انہوں نے اپنی انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا''
اس کی راویہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث مذکور بیان کرکے فرماتی ہیں:
لَوْلَا ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ أَوْ خُشِيَ أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا(صحیح البخاری،الجنائز،باب ماجا فی القبر النبیﷺ وابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما،ح؛1390))
''اگر مذکورہ اندیشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک ظاہر کردی جاتی(یعنی اسی کسی کھلی جگہ پر بنایا جاتا)مگر آپ نے اندیشہ محسوس کیا کہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنهاكم عن ذلك . ) (صحيح مسلم' المساجد' باب النهي عن بناء المساجد علي القبر ... ' ح: 532)
"خبردار! تم سے پہلے جو لوگ تھے، وہ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیتے تھے، سنو! تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔"
ایک اور روایت میں ہےکہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حبشے میں ایک گرجا دیکھا، جس میں تصویریں تھیں، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا:
(ان اولئك اذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا علي قبره مسجدا وصوره فيه تلك الصور' فاولئك شرار الخلق عندالله يوم القيامة) (صحيح البخاري' الصلاة' باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد' ح: 427)
"یہ لوگ، جب ان میں نیک آدمی مر جاتا، تو اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنا لیتے اور اس میں اس کی تصویرین رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ عزوجل کے نزدیک مخلوق میں سب سے بدترین ہوں گے۔"
(5)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کے بارے میں خاص طور پر حکم دیا:
(لا تجعلوا قبري عيدا) (سنن ابي داود' المناسك' باب زيارة القبور' ح: 2042)
"میری قبر کو عید (میلے کی جگہ) نہ بنانا۔"
عید، کے لفظی معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنا۔ مسلمانوں کے دو ملی تہوار ہیں عید الاضحیٰ اور عید الفطر۔ ان کو بھی عید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تہوار بھی ہر سال لوٹ لوٹ کر آتے ہیں۔ مطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ جس طرح مشرکین اپنے بتوں کے سالانہ میلے مناتے ہیں، اسی طرح تم میری قبر پر میلہ نہ لگانا کہ تم ہر سال اس میلے کے نام پر میری قبر پر آؤ اور بعض شارحین نے اس کے معنی کئے ہیں۔
"میری قبر پر زیارت کے لئے اجتماع نہ کرنا جیسے عید پر اجتماع کرتے ہو۔" (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، 2/171، طبع قدیم)
اس کا مطلب بھی وہی میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کرنا ہے۔ اس سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ اس سے بھی شرک ہی کی راہ ہموار ہوتی ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
(هذا اشارة الي سد مدخل التحريف كما فعل اليهود والنصاري بقبور انبيائهم وجعلوا عيدا وموسما بمنزلة الحج) (حجة الله البالغة: 2/77 طبع مصر)
"اس فرمان سے دین میں تحریف کے دروازے کو بند کرنا مطلوب ہے کہ کہیں یہ امت بھی یہود و نصاریٰ کی طرز پر اپنے بزرگون کی قبروں کو حج کی طرح موسم اور عید ہی نہ بان ڈالے۔"
اس لیے آپ نے اپنی امت کو مذکورہ حکم دینے کے ساتھ ساتھ ارگاہ الہی میں بھی دعا فرمائی:
(اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد) (مسند احمد: 2/246' والمصنف لابن ابي شيبة: 3/345)
"اے اللہ میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے"
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو خاص قابل تعظیم سمجھنا، بار بار اس کی زیارت کے لئے آنا، یا حاجت بر آری کے لئے وہاں حاضری دینا، اس قبر کو بت بنا دینے اور سمجھنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ بہت سی قبروں کا یہی حال ہم دیکھ رہے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
(وقول النبي صلي الله عليه وسلم: اللهم لا تجعل "الحديث" دليل علي ان القبور قد تجعل اوثانا وهو صلي الله عليه وسلم خاف من ذلك فدعا الله ان لا يفعله بقبر واستجاب الله دعاءه رغم النف المشركين الضالين الذين يشبهون قبر غيره بقبره) (كتاب الرد علي الاخنائي علي هامش "الرد علي البكري" ص: 234)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے ڈر گئے تھے کہ کہیں میری قبر بھی بت نہ بن جائے اور آپ نے اللہ سے دعا کی کہ میری قبر کے ساتھ ایسا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے گم کردہ راہ مشرکین کی خواہش کے علی الرغم، جو دوسرے کی قبر کو آپ کی قبر کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں، آپ کی دعا کو قبول فرما لیا۔"
ایک اور مقام پر امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(وهم دفنوه صلي الله عليه وسلم في حجرة عائشة رضي الله عنها خلاف ما اعتادوه من الدفن في الصحراء لئلا يصلي احد عند قبره ويتخذه مسجدا فيتخذ قبره وثنا) (العقود الدرية' ص: 338)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خلاف معمول کسی کھلی جگہ میں دفن کرنے کی بجائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے (چار دیواری) میں اسی لئے دفن کیا گیا تاکہ کوئی شخص آ کر وہاں نماز نہ پڑھے اور اسے مسجد نہ بنا لے کہ اس طرح آپ کی قبر بت بن جاتی۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(6)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم ومسجد الأقصى‏"‏‏. ) (صحیح البخاری، فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، ح: 1189)
"تین مسجدوں، مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔۔ کے سوا کسی بھی جگہ کی طرف (بغرض ثواب و تقرب الہی) سفر نہ کیا جائے۔"
اس حدیث کی رو سے ان تمام مزارات، مقابر و مشاہد، آستانوں اور درگاہوں کی طرف سفر کرنا ممنوع ہے جہاں لوگ تقرب اور ثواب کی نیت سے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ بنتا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(كان اهل الجاهلية يقصدون مواضع معظمة بزعمهم ويزورونها ويتبركون بها وفيه من التحريف والفساد مالا يخفي فسد النبي صلي الله عليه وسلم الفساد لئلا يلتحق غير الشعائر بالشعائر ولئلا يصير ذريعة لعبادة غيرالله والحق عندي ان القبر ومحل عبادة ولي من اولياء الله والطور كل ذلك سواء في النهي) (حجة الله البالغة: 1/192)
"یعنی زمانہ جاہلیت کے لوگ ایسے مقامات پر جاتے تھے جو ان کے گمان میں قابل احترام ہوتے تھے، وہ وہاں ان کی تعظیم و زیارت اور حصول برکت کے لئے جاتے۔ اس میں چونکہ غیر اللہ کی عبادت کا دروازہ کھلتا ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بگاڑ کی اس جڑ کو (حکما) بند کر دیا اور میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ قبر، کسی ولی کی عبادت گاہ اور کوہ طور ، حکم ممانعت میں سب برابر ہیں (یعنی سب کی طرف تقربی سفر ممنوع ہے۔)"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(7)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی جگہ نذر کا جانور ذبح کرنے سے منع فرمایا، جہاں پہلے غیراللہ کے نام کے جانور ذبح ہوتے رہے ہوں یا وہاں کوئی میلہ منایا جاتا رہا ہو، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا "میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ جگہ میں اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ نے پوچھا، کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟ لوگوں نے بتالایا، نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کہ وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں مناتی جاتی تھی؟ لوگوں نے اس کی بھی نفی کی۔ تو آپ نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔" (ابوداود، الایمان والنذور،باب ما یومر بہ من وفاء النذر، ح: 3313)
ایسی جگہوں پر نذر کے جانور ذبح کرنے سے روکنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسی جگہوں کا یا باطل معبودوں کا کوئی تقدس لوگوں کے ذہنوں میں راسخ نہ ہو، کیونکہ ایسا تقدس بھی شرک کا ذریعہ بنتا ہے۔
(8)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے جن میں اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان برابری کا تصور یا شائبہ ہو۔ جیسے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا تقولوا: ماشاءالله وشاء فلان' ولكن قولوا: ماشاءالله ثم شاء فلان) (سنن ابي داؤد' الادب'باب (بعد باب لا يقال خبثت نفسي) ح: 4980 وصحه الالباني في تعليقات المشكوة: 3/1349)
"اس طرح مت کہو (وہ ہو گا) جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، بلکہ یہ کہو، جو اللہ چاہے، پھر فلاں چاہے۔"
یعنی ہر کام صرف اللہ کی مشیت ہی سے ہوتا ہے، اس کی مشیت میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اس لیے اس کی مشیت میں کسی کو شرک مت کرو۔ (اس میں شرک یا شائبہ شرک ہے) البتہ اللہ کی مشیت کے بعد پھر کسی دوسرے کی مشیت کا اظہار کرنا جائز ہے، کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہ دوسری مشیت، اللہ کی مشیت کے تابع ہے، جب کہ پہلی صورت میں اللہ کی مشیت اور بندے کی مشیت میں برابری پائی جاتی ہے۔ جیسے لوگ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں: "اللہ نبی وارث"یہ شرکیہ کلمہ ہے، کیونکہ اس میں بھی نبی کو اللہ کے ساتھ برابری کی سطح پر ملا دیا ہے۔ حالانکہ اللہ کی میراث کی صراحت تو قرآن مجید میں مذکور ہے۔
( وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (آل عمران 3/180)
"اور اللہ ہی کے لئے ہے میراث آسمانوں اور زمین کی۔"
کیا مطلب؟ اس کا مطلب ہے آسمان اور زمین کی ہرچیز فنا ہو جائے گی اور باقی صرف اللہ رہ جائے گا جو ان سب کا وارث ہے۔ جیسے مرنے والا مر جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کے وارث وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس کی اولاد میں سے یا قریبی رشتے داروں میں سے باقی (زندہ) ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے جب ایک شخص کہتا ہے، اللہ وارث ہے۔ تو اس کا مطلب، اللہ کی بقاء اور اس کے دوام کا اظہار ہے، جو ایک صحیح بات اور صحیح جملہ ہے۔ لیکن جب یہ کہا جائے کہ اللہ نبی وارث ہے۔ تو اس میں عقیدے کا فساد شامل ہو جاتا ہے، اس کا مطلب ، اللہ کے ساتھ اللہ کے نبی کا بھی دوام اور بقا ہے۔ جو یکسر غلط ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو مخلوق ہیں اور آپ موت سے ہم کنار ہو کر اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ اب آپ کو ہمیشہ کے لئے اللہ تعالٰی کی طرح زندہ اور باقی رہنے والا ماننا، شرک ہے۔ بقاء اور دوام صرف اللہ کی صفت ہے، یہ کسی مخلوق کی صفت نہیں ہو سکتی۔
(كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾) (الرحمن: 55/26-27)
قرآن کریم کی ان دونوں آیات کا مطلب یہی ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے، بقاء اور دوام صرف اللہ کو حاصل ہے اور اس اعتبار سے ہر چیز کا وارث اور مالک صرف اللہ ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی وارث اور مالک نہیں۔ سب کی وراثت اور ملکیت عارضی اور فانی ہے، مرنے کے بعد کوئی وارث ہے نہ مالک۔ اللہ کے لئے موت اور فنا نہیں، اسی لیے وہ سب کا وارث اور مالک ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
(لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج) (سنن ابي داود' الايمان والنذور' باب في زيارة النساء القبور' ح: 3236)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کے اوپر مسجدیں بنانے والوں پر اور ان پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی اپنی امت کو شرکیہ امور سے بچانے ہی کے لیے ہے۔ عورتوں کا کثرت سے قبروں پر جانا، اسی طرح قبروں پر مسجدیں بنانا اور قبروں پر چراغ جلانا، یہ سارے کام انہی لوگوں میں رائج ہیں جو مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں، اسی لیے وہ مذکورہ حدیث کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس میں مذکورہ کاموں کو لعنتی قرار دیا گیا ہے۔ جن کاموں کے مرتکبین پر اللہ کے رسول لعنت فرمائیں ان کی شناعت و قباحت ، محتاج وضاحت نہیں رہتی۔ لیکن اس امت کی ڈھٹائی اور بے شرمی بھی قابل تعجب ہے کہ وہ مذکورہ تمام کام بڑے فخر سے کرتی ہے۔ فنعوذباللہ من ھذا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(10)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذا طلع حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتي تبرز واذا غاب حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتي تغيب) (صحيح البخاري' بدء الخلق' باب صفة ابليس وجونده' ح: 3272)
"جب سورج کی ٹکیہ کا کنارہ طلوع ہونے لگے تو نماز چھوڑ دو، یہاں تک کہ وہ ظاہر (بلند) ہو جائے اور جب سورج کی ٹکیہ کا کنارہ غائب (غروب) ہونے لگے تو نماز چھوڑ دو، یہاں تک کہ وہ (اچھی طرح) غائب ہو جائے۔"
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ کیوں؟ اس کی وجہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے:
(فانها تطلع بين قرني شيطان) (المصدر السابق' ح: 3273)
"اس لیے کہ وہ (سورج) شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔"
اس کا مطلب شارحین نے یہی بیان کیا ہے کہ جب سورج طلوع ہونے لگتا ہے تو شیطان اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے تاکہ سورج اس کے منہ کے سامنے سے نکلے اور غروب شمس کے وقت بھی وہ ایسا ہی کرتا ہے تاکہ غروب بھی اس کے منہ کے سامنے ہو۔ شیطان ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس لیے کہ ان دونوں اوقات میں سورج کے پجاری سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور جب شیطان ان دونوں اوقات میں اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو سجدہ بھی اسی شیطان کو ہوتا ہے۔ یوں سورج کے پجاری شیطان کو سجدہ کرتے ہیں۔ (فتح الباری، باب مذکور)
گویا سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے دونوں اوقات، سورج کے پجاریوں کے اوقاتِ عبادت ہیں، ان اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے منع فرما دیا، حالانکہ مسلمان تو نماز صرف اللہ کے لئے پڑھتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان اوقات میں نماز پڑھنے میں سورج کے پجاریوں کے ساتھ مشابہت ہے، اس لیے ان اوقات میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے ہی سے روک دیا گیا۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو شرک سے بچانے کے لیے کتنے دور دور تک بند باندھے گئے ہیں۔ لیکن نام کے مسلمانوں نے مذکورہ تعلیمات و ہدایات کا کیا حشر کیا؟ وہ بھی ملاحطہ فرما لیں۔
مذکورہ تعلیمات کے مقابلے میں فاسد العقیدہ لوگوں کا طرزِ عمل: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شان میں حد سے زیادہ غلو اور عیسائیوں کی طرح افراطِ محبت سے روکا۔ لیکن فاسد العقیدہ لوگوں نے ایک تو عیسائیوں کے عقیدے، مسیح ابن اللہ کے مقابلے میں نور من نور اللہ کا عقیدہ گھڑ لیا اور اس کے اثبات کے لئے ایک حدیث بھی گھڑ لی جو حدیث جابر کے نام سے مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے نور میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے عرش و قلم اور کائنات کی ہر چیز پیدا کی (نعوذباللہ من ذلک) حالانکہ کسی حدیث کی کتاب میں یہ حدیث نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ذیل کے اشعار سے بھی ان کا فسادِ عقیدہ اور غلو محبت واضح ہے، ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر ملاحظہ فرمائیے!
وہی جو مستوی عرش تھا خڈا ہو کر
اتر پڑا مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر
شریعت کا ڈر ہے نہیں صاف کہہ دوں
حبیب خدا خود خدا بن کے آیا
ہمارا نبی تو بشر ہی نہیں
خدا ہے، تجھے کیا خبر ہی نہیں
مقام اس نبی کا عرش بریں ہے
خدا نہ کہے جو، وہ کافر لعیں ہے
کیا فرق ہے عزیزو حضرت میں اور خدا میں
وہ بھی الہ ہے یارو، یہ بھی الہ ہے یارو​
اور یہ غلو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے بارے میں نہیں کیا گیا، بلکہ اس سے بڑھ کر بہت سے فوت شدہ بزرگوں کے بارے میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ بھی ملاحظہ ہوں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے بارے میں کہا گیا۔
اول محی الدین آخر محی الدین
ظاہر محی الدین باطن محی الدین
انت شافی انت کافی فی مہمات الامور
انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یاغوث اعظم بہرخدا سن عرض میں بدکار دی
تدھ باجھ میرا کون ہے لے سار جو بیمار دی
المدد یا غوث اعظم المدد یا دست گیر
تیری نگاہ درکار رہے پیرانِ پیر​
صدر الدین سجادہ نشین ملتان کے بارے میں
برائے چمش بینا از مدینہ برسر ملتان
بہ شکل صدرالدین خود رحمۃ للعالمین آمد​
خواجہ غلام فرید مٹھن کوٹ کے فرزند نازک کے بارے میں:
طالب خدا گواہ کہ نازک بہ چشم من
عین محمد است کہ عربی شنیدہ​
اور خود خواجہ غلام فرید کے بارے میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میری لاکھ جانیں قربان اس پر
جو یثرب سے چاچڑ نشیں بن کے آیا
چاچڑ وانگ مدینہ دسے کوٹ مٹھن بیت اللہ
ظاہر دے وچ پیر فریدن باطن دے وچ اللہ
جو مشتاق نظارہ ہو، میرے خواجہ کو آ دیکھے
عیاں نشانِ خدائی ہے، فقط پر وہ ہے انسان کا​
ایک اور صاحب اپنے پیر و مرشد کے بارے میں کہتے ہیں۔
اٹھا پھر درد سینے میں مگر اس کی دوا تم ہو
نہ ہوتا ڈر قیامت کا تو کہہ دیتا خدا تم ہو​
یہ سب اشعار ہم نے مولانا محمد رفیق خاں پسروری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "حمایت توحید" (مطبوعہ 1970ء) سے نقل کئے ہیں۔
ان اشعار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غلو جس سے پچھلی قومیں گمراہ ہوئیں اور ان کے اندر توحید کی جگہ شرک آیا، کیا وہ غلو اس امت کے اندر نہیں آیا اور وہی مشرکانہ خیالات و عقائد ان کے اندر بھی پیدا نہیں ہوئے؟
(2)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن مذکورہ قسم کے لوگوں نے نہ صرف قبروں کو پختہ کیا، بلکہ ان پر شاندار عمارتیں اور قبے تعمیر کئے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے اور انہیں سجدہ گاہ بنانے سے روکا اور ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی۔ لیکن ان لوگوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر چھوڑا۔ چنانچہ لوگ وہاں سجدے بھی کرتے ہیں، قبروں پر دست بستہ قیام بھی کرتے ہیں، قبروں کا طواف بھی کرتے ہیں، قبر میں مدفون شخص سے امید و استغاثہ بھی کرتے ہیں، خانہ کعبہ کی طرح قبروں کو عرق گلاب سے دھوتے اور ان کی دھوون کو اکسیر اور مقدس جانتے ہیں، قبروں پر غلاف چڑھاتے اور ان کے نام کی نذرو نیاز دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کام عبادات ہیں۔
(4) قبروں کو عید (یعنی میلے ٹھیلے کی جگہ) بنانے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، لیکن لوگ قبروں پر عرس کے نام سے سالانہ میلے لگاتے ہیں، جہاں شرک و بدعت کی گرم بازاری بھی ہوتی ہے اور حیا باختگی اور فحاشی کی بھی۔
(5) ان عرسوں پر لوگ دور دراز سے شد رحال کر کے آتے ہیں اور ان میں شرکت کو اجر و ثواب اور تقرب کا باعث سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی اور جگہ بغرض تقرب، شد رحال (سفر اختیار کرنے) سے منع فرمایا ہے۔
(6)کئی جگہ ان قبروں کا طواف تک کیا جاتا ہے اور کئی جگہ ان قبروں پر اجتماع کو حج کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
(7)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبہ (نام لکھ کر) لگانے سے منع فرمایا ہے، لیکن لوگ ان قبروں پر نہ صرف ناموں کے بڑے بڑے بورڈ لگاتے ہیں بلکہ ان میں ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں جو اطراء (بے حد مدحت و تعریف) میں آتے ہیں جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے۔
(8) ان قبروں پر نذر و نیاز کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہوتا ہے اور اس کا مقصد ان فوت شدہ لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا اور اپنی حاجات ان سے پوری کروانا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایسی عبادت ہے جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔ اسی لیے اللہ کے سوا کسی کے نام کی نذر و نیاز دینا جائز نہیں۔
(9)ان قبروں پر چراغ جلانے کو بڑی سعادت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے۔
الغرض ان قبروں پر تمام مذکورہ کاموں کے ذریعے سے، جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا، لات و منات کا کاروبار فروغ پذیر ہے۔ اقبال نے سچ کہا تھا
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
مذکورہ امور کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ امت ، شرکیہ عقائد و اعمال سے پاک ہے؟ یا مذکورہ امور مشرکانہ نہیں ہیں؟ آخر ان میں سے کون سی بات صحیح ہے؟ دونوں ہی باتیں صحیح نہیں ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو شرک سے بچانے کے لئے جو احتیاطی تدابیر بیان فرمائی تھیں اور جو جو بند تعمیر کئے تھے۔ اس امت نے ان تدابیر کو کوئی اہمیت دی ہے نہ ان بندوں ہی کی حفاظت کی ہے۔ بلکہ ان سب احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کر کے اور سب حفاظتی بندوں کو توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو پورا کر دیا ہے:
(‏ لتتبعن سنن من كان قبلكم شبرا شبرا وذراعا بذراع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى لو دخلوا جحر ضب تبعتموهم ‏"‏‏.‏ قلنا يا رسول الله اليهود والنصارى قال ‏"‏ فمن ‏"‏‏.‏) (صحيح البخاري' احاديث الانبياء' ما ذكر عن نبي اسرائيل' ح: 3456)
"تم ضرور پچھلے لوگوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے، حتی کہ وہ اگر سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہو گے۔ ہم (صحابہ) نے کہا: اللہ کے رسول! پچھلے لوگوں سے آپ کی مراد، یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: اور کون؟ (یعنی یہود و نصاریٰ ہی مراد ہیں۔) "
 
Top