محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
کیا مسلمانوں کو ان کے مشرکاہ عقائد کی وجہ سے مشرک نہیں کہا جا سکتا؟ایک مغالطے کی وضاحت
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو لوگ آستانوں اور قبروں پر جا کر استغاثہ واستمداد کرتے،حتی کہ ان کی قبروں کو سجدے تک کرتے ہیں ،انہیں مشرک نہیں کہا جا سکتا،یا انہیں مشرک نہیں کہنا چاہیے ،ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن نے مشرکین کی اصطلاح صرف اہل مکہ اور عرب کے دیگر مشرکین کے لیے استعمال کی ہے اور یہودونصاری کو اہل کتاب کہا ہے،حالانکہ ان کے عقیدے بھی مشرکانہ ہی تھے،لیکن ان کو قرآن مجید میں اللہ نے مشرک کے لفظ سے مخاطب نہیں فرمایا۔یہ استدلال علمی لحاظ سے اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا۔کیونکہ نزول قرآن کے وقت جو فرقے تھے،وہ ویسے تو سارے ہی کافر اور مشرک تھے ،اللہ تعالیٰ سب کے لیے کفار و مشرکین کے الفاظ استعمال فرما سکتا تھا اور واقعات کے اعتبار سے یہ صحیح ہوتا۔لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا۔کیوں؟کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودونصاری عقیدے کے لحاظ سے مشرک نہیں تھے؟اور صرف بتوں کے پجاری عرب ہی مشرکانہ عقیدوں کے حامل تھے؟یقینا یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔کیونکہ یہ یہودونصاری کے مشرکانہ عقیدوں کی وضاحت خود قرآن نے کی ہے۔کیا حضرت عیسی (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم کو الہ (معبود) ماننا مشرکانہ عقیدہ نہیں ہے؟کیا اللہ کی بابت یہ کہنا کہ وہ "تین ( اللہ ؤں) میں سے تیسرا ہے"مشرکانہ عقیدہ نہیں ہے؟حضرت عزیر اور حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دینا مشرکانہ عقیدہ نہیں ہے؟ اور کیا قرآن نے ان کے ان عقیدوں کو لفظ کفر سے تعبیر نہیں کیا ہے؟ اگر ان باتوں کا جواب اثبات میں ہے (اور یقینا اثبات میں ہے،کیونکہ یہ سب قرآن میں مذکور ہے) تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے مذکورہ عقیدوں کی وجہ سے یہودونصاری کو مشرک اور کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کافر کا لفظ تو ان کے لیے صراحۃَََ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔گویا اصل سوال رہ گیا ،انہیں مشرک کہا جا سکتاہے یا نہیں؟
ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ عقیدے مشرکانہ ہیں،اس لیے ان عقیدوں کے حاملین بھی یقینا اسی طرح مشرک ہیں ،جیسے لات و عزی کے پجاری مشرک تھے۔اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہہ پھر قرآن نے ان کو صراحت کے ساتھ مشرک کیوں نہیں کہا؟اور انہیں مشرکین عرب کے مقابلے میں اہل کتاب کے الفاظ سے کیوں مخاطب کیا؟ کیا ہمارے ناقص فہم کے مطابق اس کی اصل وجہ تمام موجود فرقوں کا امتیاز اور تشخص تھا،اگر سب کے لیے ایک ہی لفظ "مشرک" استعمال کیا جاتا،تو کسی بھی فرقے کا امتیاز باقی نہ رہتا،جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ان کے امتیاز کو باقی رکھنا تھا۔یہودونصاری کا امتیاز یہ تھا کہ وہ اللہ اور رسولوں کے ماننے والے تھے،انہیں آسمانی کتابوں سے بھی نوازا گیا تھا،لیکن اس کے باوجود وہ عمل و اعتقاد کی خرابیوں میں مبتلا ہو گئے۔انہیں بار بار اہل کتاب کے لفظ سے خطاب کرنے میں یہی حکمت تھی کہ انہیں ان کے جرم اور معصیت و طغیان کی شناعت و قباحت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کر کے دکھلایا جاتا اور وہ اسی طرح ہو سکتا تھا کہ انہیں یاد دلایا جاتا کہ تم لوگوں نے اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ یہ کیا اور اس اس قسم کے عقیدے گھڑ لیے،جو صریحا کفر ہیں۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے اندر شرک نہیں پایاجاتا تھااور اس اعتبار سےوہ مشرک نہیں تھے۔یقینا جس طرح وہ کافر تھے ،مشرک بھی تھے۔انہیں اہل کتاب صرف عربوں سے ممتاز کرنے کے لیے کہا گیا ،جیسے عربوں کو قرآن نے اُمی بھی کہا،کیونکہ ان کی اکثریت ان پڑھ تھی،جب کہ اہل کتاب میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ قائم تھا، اس لیے انہیں اُمی نہیں کہا گیا،اس کی وہ اس معاملے میں دونوں کا اپنا اپنا امتیاز تھا ،عرب بالعموم ان پڑھ تھے اور اہل کتاب کی اکثریت پڑھی لکھی ۔اس لیے ایک کو اہل کتاب اور دوسرے کو اُمی کہا گیا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ عربوں میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہ تھا یا اہل کتاب میں کوئی ان پڑھ نہ تھا،یہ عمومی اعتبار سے ان کا ایک تشخص تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت و مصلحت کے تحت باقی رکھا۔اس سے قطعا یہ مہوھم اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اہل کتاب کو مشرک نہیں کہا جاسکتا۔اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھا جس سکتا ہے۔قرآن میں ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱلَّذِينَ هَادُوا۟ وَٱلصَّٰبِـِٔينَ وَٱلنَّصَٰرَىٰ وَٱلْمَجُوسَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ ﴿17﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان تمام گروہوں کا الگ الگ نام لیا،جونزول قرآن کے وقت عرب یا اس کے قرب و جوار میں تھے اور امتیازی ناموں سے معروف تھے،ان میں اہل ایمان اور اور یہودونصاری کے علاوہ صابئین اور مجوس کا نام بھی ہے،صابئین ،فرشتوں اور ستاروں کے پجاری تھے۔مجوس، سورج پرست اور آتش پرست تھے ،بلکہ مجوس دو خالق مانتے تھے،ایک نور اور خیر کا خالق اور دوسرا ظلمت اور شر کا خالق اور یہ دنیا کا واحد فرقہ ہے جو ذات کے اعتبار سے تعدد الہ کا قائل ہے۔ورنہ دیگر تمام مشرکین ذات کے اعتبار سے ایک ہی الہ کے قائل رہے ہیں،وہ صرف صفات کے اعتبار سے دوسروں کو اللہ ئی اختیارات کا حامل سمجھتے تھے ،جیسے آج کل کے قبر پرست ہیں۔گویا دنیا میں اصل اور سب سے بڑے مشرک مجوس تھے اور ہیں،لیکن قرآن نے ان کا ذکر مشرکوں کے ساتھ نہیں کیا،بلکہ ان کے امتیازی نام سے ان کا ذکر کیا،صابئین کا بھی ان کے امتیازی نام سے ذکر کیا اوران سب کا نام لینے کے بعد فرمایا (وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟) "اور وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا" یعنی بُتوں کے پجاریوں کو الگ مشرکین کے لفظ سے یاد کیا،جب کہ صابئین بھی ستارہ پرست اور مجوس بھی سورج پرست و آتش پرست تھےاور اس اعتبار ےسے یقینا یہ بھی پکے مشرک تھے۔لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا۔کیا اس سے یہ استدلال صحیح ہو گا کہ صابئین اور مجوس مشرک نہیں ہیں یا انہیں مشرک نہیں کہا جا سکتا،کیونکہ قرآن نے ان کے لیے مشرکین کی اصطلاح استعمال نہیں کی؟ترجمہ: بے شک الله مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اورمجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا بےشک ہر چیز الله کے سامنے ہے (سورۃ الحج،آیت 17)
اگر صابئین اور مجوس اپنے عقیدوں کے اعتبار سے مشرک ہیں اور انہیں مشرک کہا جا سکتا ہے ،حالانکہ قرآن نے انہیں مشرک نہیں کہا،بلکہ مشرکین سے الگ ان کا ذکر کیا ہے۔تو یقینا یہودونصاری کو بھی ان کے عقیدوں کی بنا پر مشرک کہا جا سکتا ہے،گو قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا ہے۔کیونکہ امتیاز کے لیے الگ الگ نام لینا ضروری تھا۔اسی طرح جو نام نہاد مسلمان مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں،وہ مسلمانوں میں شمار ہونے کے باوجود مشرک کیوں نہیں ہو سکتے۔؟یا نہیں مشرک کیوں نہیں کہا جا سکتا؟
یہ ساری گفتگو ہم نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کی ہے کہ قرآن نے یہودونصاری کو مشرک نہیں کہا ہے۔لیکن ہمارے خیال میں یہ دعوی بھی مکمل طور پر صحیح نہیں ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ صراحتا انہیں مشرک نہیں کہا گیا ،لیکن قرآن نے ان کے مشرک ہونے کی طرف واضح اشارہ ضرور کیا ہے۔دیکھئے قرآن نے کہا:
لَقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ ٱلْمَسِيحُ يَٰبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍۢ﴿72﴾
قرآن کریم کی اس آیت کا سیاق واضح کر رہا ہے کہ مسیحوں کا عقیدہ ابنیت میسح جیسے کفر ہے ،وہ شرک بھی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کفر کے لیے صریح لفظ استعمال کیا گیا ہے جب کہ شرک کے لیے تعریض و کنایہ کا انداز اپنایا گیا ہے ۔اگر ابنیت مسیح کا عقیدہ شرک نہ ہوتا یا کم از کم یہ کہ جائے کہ قرآن نے اسے شرک سے تعبیر نہیں کیا ہے،تو یہاں (مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ) کہنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔یہ عقیدہ شرک ہے ،تب ہی تو اللہ نے اس عقیدے کو کفر سے تعبیر کر کے شرک کی سزا بیان فرمائی ہے،ورنہ یہ کہا جاتا (ومن یکفر باللہ) کی جگہ (مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ) کہہ کر واضح کر دیا گیا کہ کسی کا امتیازی نام کچھ بھی ہو،لیکن اگر اس کے عقیدہ و عمل میں شرک کی آمیزیش پائی جائے تو اس کے عقیدے کو شرک اور خود اس ک مشرک کہا جس سکتاہے،اسی لیے قرآن نے اس کو ظالم سے بھی تعبیر کیا ہے جو یہاں یقینا مشرک ہی کے معنی میں ہے۔اسی طرح قرآن کریم کی دوسری آیت ہے:ترجمہ: وہ لوگ بےشبہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مریم کے بیٹے (عیسیٰ) مسیح اللہ ہیں حالانکہ مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی (اور جان رکھو کہ) جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (سورۃ المائدہ،آیت72)
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًۭا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿31﴾
یہاں بھی قرآن کے سیاق سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ یہودونصاری کا اپنے علماء کو رب بنا لینا اور (عیسائیوں) کا مسیح بن مریم کو رب بنا لینا شرک ہے،اس شرک سے اللہ تعالیٰ پاک ہے اور جب ان کا یہ عقیدہ شرک ہے جس سے اللہ تعالیٰ براءت کا اظہار فرما رہا ہے تو یہودونصاری یقینا مشرک ہوئے۔اس لیے جب بھی ان کے فاسد عقیدہ کی بات ہو گی تو ان کےفاسد عقیدے کو شرک اور خود ان کو مشرک کہا جائے گا،گو اصطلاح یا امتیاز کے طور پر انہیں بالعموم اہل کتاب ہی کے الفاظ سے موسوم کیا جائے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بدکاری کے مرتکب کو زانی،چوری کرنے والے کو چور،ڈاکہ مارنے والے کو ڈاکر کہا جاتا ہے اور کہا جائے گا،چاہے وہ کوئی بھی ہو،دنیا کے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔اسی طرح جو بھی مشرکانہ عقیدہ و عمل کا حامل اور مرتکب ہو گا،اس کے عقیدہ و عمل کو شرک اور خود اسے مشرک کہا جائے گا چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔ترجمہ: انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹےکو بھی حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے (سورۃ التوبہ،آیت 31)
باقی رہا مسئلہ کہ جہالت یا نا سمجھی کی وجہ سے اسے کچھ رعایت مل سکتی ہے یا نہیں؟ اس کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے،یہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے،جس کا فیصلہ وہ روز قیامت ہی فرمائے گا۔علماء کی ذمہ داری بلاغ مبین (کھول کر بیان کر دینا) ہے اور اس بلاغ مبین میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو عقیدہ یا عمل جیسا ہے،قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ،اس پر تاویلات کا پردہ نہ ڈالیں اور نہ مصلحت کا نقاب۔وہ حلال ہے یا حرام،سنت ہے یا بدعت،شرک ہے یا توحید؟ہر عمل کی وضاحت علماء کا منصبی فریضہ ہے ،تاکہ لوگ حلال کو اختیار کریں ،حرام سے بچیں،سنت پر عمل کریں۔بدعت سے گریز کریں اور شرک سے بچیں اور توحید کا راستہ اپنائیں۔