• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم الله الرحمن الرحيم​

کتا ب کا نام

توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں


مصنف

حافظ صلاح الدین یوسف


نوٹ:

ازراہ کرم کتاب کی ٹائپنگ مکمل ہونے تک تبصرہ جات شامل نہ کریں۔ شکریہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
"لا الہ الا اللہ" معنی و مطلب اور مقام و فضیلت

لا الہ میں لا لائے نفی جنس ہے اور الہ اس کا اسم ہے اور خبر مخذوف ہے ،یعنی لا الہ حق (نہیں ہے کوئی معبود برحق)الا اللہ(مگر اللہ)یہ خبر (حق)سے استثناء ہے۔الہ کے معنی ہیں،وہ ذات جس کی عبادت میں دل و ارفتہ ہو ۔یعنی اس کی طرف دل مائل ہوں اور حصول نفع یا دفع ضر کے لئے اسی کی طرف رجوع اور رغبت کریں۔یہ کلمہ اثبات اور نفی دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔تمام مخلوقات سے الوہیت کی نفی اور اللہ کے لئے الوہیت کا اثبات۔یعنی اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہےاور اس کے سوا ،مشرکین نے جتنے بھی معبود بنا رکھے ہیں سب باطل ہیں۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ هُوَ ٱلْبَٰطِلُ وَأَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ ﴿62﴾
ترجمعہ: یہ اس لیے کہ حق الله ہی کی ہستی ہے اور جنہیں اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں اور بے شک الله ہی بلند مرتبہ بڑائی والا ہے (سورہ الحج،آیت 62)
یہ ترکیب جس میں پہلے نفی ہے پھر اثبات ،مثبت ترکیب اللہ الہ (اللہ معبود ہے)سے زیادہ بلیغ،موژر اور مفہوم کو زیادہ واضح کرنے والی ہے۔اس لئے کہ مثبت ترکیب اللہ کی الوہیت کا اثبات تو کرتی ہے لیکن ماسوا اللہ کی الوہیت کی نفی نہیں کرتی،جبکہ لا الہ الا اللہ کی ترکیب ،الوہیت کو صرف اللہ کے لئے خاص اور دوسروں کی الوہیت کی نفی کر دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ کی عبادت کا حکم ہے تو بالعموم ساتھ ہی غیروں کی عبادت کی نفی بھی ہے ۔جیسے فرمایا:
وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًۭا فَخُورًا﴿36﴾
ترجمعہ: اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا (سورہ النساء،آیت 36)
لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿256﴾
ترجمعہ: دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے پھر جو شخص شیطان کو نہ مانے اور الله پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیاجو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے (سورہ البقرہ،آیت 256)
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾
ترجمعہ: اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا (سورہ النحل،آیت 36)
طاغوت کیا ہے جس سے بچنے کا حکم ہے ؟اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت یا اطاعت کی جائے ،وہ طاغوت ہے۔یہ ضروری ہے کہ اللہ کی عبادت اور اطاعت کے ساتھ طاغوت کی عبادت سےانکار اور اجتناب کیا جائے۔اور حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے کہااللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سب کا اس نے انکار کیا تو اس کا مال اور جان محفوظ ہو گیا۔"(صحیح مسلم)
اور ہر پیغمبر نے بھی اپنی قوم کو یہی پیغام دیا:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ إِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ ﴿59﴾
ترجمعہ: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس اس نے کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں (سورہ الاعراف،آیت 59)
اور یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے کہا کہ "لا الہ الا اللہ" کا اقرار کر لو ،تو انہوں نے کہا:
أَجَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌۭ ﴿٥﴾
ترجمعہ: کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنایا ہے بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے (سورہ ص،آیت 5)
اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ اس کلمے کے اقرار کا مطلب ایک اللہ کی عبادت اور تمام بتوں کی عبادت کی نفی ہے۔اور یہ بات ان کو پسند نہیں تھی۔اس لیے اس کے اقرار سے انہوں نے گریز کیا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
"لا الہ الا اللہ" کا تقاضا

بہرحال "لا الہ الا اللہ" کا معنہ و مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور دوسرے تمام خودساختہ معبودوں کی نفی کی جائے۔چاہے وہ بتوں کی شکل میں ہوں یا شمس و قمر ہوں۔احجار و اشجار ہوں یا قبوں اور مزاروں کی شکل میں ڈھلی ہوئی قبریں ہوں ۔الہ واحد کی عبادت تب ہی متحقق ہو گی جب ان سب کی نفی ہو گی۔اس نفی اور انکار و تردید ہی میں توحید کا اثبات ہے۔اس سے ان لوگوں کی بھی تردید ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں ،کسی کی تردید نہ کرو،صرف مثبت انداز میں اپنا موقف و مسلک اور نقطہ نظر بیان کر دو۔کلمہ "لا الہ الا اللہ" ہمیں سبق دیتا ہے کہ صرف حق کا اثبات ہی کافی نہیں ہے بلکہ باطل کی تردید و تغلیط بھی ضروری ہے،اس کے بغیر حق نمایاں اور نکھر کر سامنے نہیں آتا ۔جیسے سورج کی روشنی تب ہی واضح ہوتی ہے جب رات کی ےتاریکی اپنا دامن سمیٹ لیتی ہے ۔رات کی تاریکی میں سورج اپنی تابناکیاں بکھیرنے سے قاصر رہتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
" لا الہ الا اللہ" کا مقام و مرتبہ

اس کلمہ طیبہ کے مقام و مرتبے کو واضح کرتے ہوئے امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"یہی کلمہ ہے جس کی وجہ سے آمان اور زمین قائم ہیں ،تمام مخلوق اسی کی وجہ سے پیدا کی گئی ہے،یہی پیغام دے کر اللہ نے اپنے تمام رسول بھیجے ،اپنی کتابیں نازل اور اپنی شریعتیں مقرر فرمائیں۔اس لیے قیام کے دن ترازو نصب ہوں گی۔اور رجسٹر (اعمال نامے)رکھے جائیں گے،اس کلمے کا نتیجہ جنت و دوزخ کا وجود ہے۔اسی کی وجہ سے مخلوق مومن اور کافردو حصوں میں بٹی ہوئی ہے،یہی خلق وامر الہ اور ثواب و عقاب کا منشاہے،اسی کی بابت سوال اور حساب ہو گااور اسی پر سوال و عقا ب ہو گا،اسی کی بنیاد پر قبلہ مقرر کیا گیا اور ملت کی تاسیس عمل میں آئی۔اسی کی خاطر میدان جہاد میں تلواریں میانوں سے باہر آئیں۔یہی تمام بندوں پر اللہ کا حق ہے،یہی کلمہ اسلام اور کلید دارالسلام(جنت) ہے۔اسی کی بابت اول و آخر تمام انسانوں سے باز پرس ہو گی۔اور کسی کو اللہ کے سامنے سے جنبش کرنے کی ہمت نہیں ہو گی جب تک دو باتوں کی باز پرس اس سے نہیں کر لی جائے گی۔
(۱)تم عبادت کس کی کرتے رہے؟
(۲)اور پیغمبروں کو تم نے کیا جواب دیا؟

پہلے سوال ا جواب "لا الہ الا اللہ" کا اقرار و اعتراف اور اسی کے مطابق صرف اسی کی عبادت اور اطاعت و انقیاد ہے اور دوسرے سوال کا جواب "محمد رسول اللہ"کی معرفت اس کا اقرار اور اس کے مطابق عمل ہے۔(زادالمعاد،1/34)
یہی کلمہ کفر اور اسلام کے درمیان فرق کرنے والا ہے ۔جو " لا الہ الا اللہ" کا اقرار و اعتراف کر لیتا ہے ،وہ مسلمان اور جو اس کا اقرار نہیں کرتا ہ کافر ہے،اور جو مسلمان ہے اس کی جان و مال قابل احترام ہے،اور جو کافر ہے اس کی جان و مال باطل ہے یعنی لڑائی کے موقعے پر مسلمانوں کے لیے اس کی دونوں چیزیں حلال ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کلمے کی خاطر انسانوں اور جنوں کو پیدا فرمایا۔جیسے قرآن میں ہے:
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾
ترجمعہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے (سورہ الذاریات،آیت 56)
اور "لا الہ الا اللہ" اسی مقصد تخلیق کا سرنامہ اور عنوان ہے۔تمام رسولوں کی بعثت کا مقصد اور غایت اولیٰ بھی یہی کلمہ طیبہ ہے۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ ﴿25﴾
ترجمعہ: اور ہم نے تم سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سومیری ہی عبادت کرو (سورہ الانبیاء،آیت 25)
اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ دین میں اور حیات انسانی میں اس کلمے کی کتنی اہمیت ہے۔یہی بندوں کے ذمے پہلا فرض ہے،اسی لیے یہی وہ بنیاد ہے جس پر تمام اعمال کی عمارت استوار ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
"لا الہ الا اللہ "کی فضیلت

اس کلمے کی فضیلت حسب ذیل احادیث سے واضح ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افضل ذکر "لا الہ الا اللہ" ہے اور افضل دعا "الحمدللہ" ہے۔(جامع الترمذی)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے اور بہترین بات جو میں نے اور مجھ سے پہلے پیغمبروں نے کہی وہ "لا الہ الا اللہ" ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(جامع الترمذی)
تیسری حدیث جس کا تعلق قیامت کے دن حساب کتاب سے ہے اس سے بھی اس کلمہ طیبہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے ایک امتی کو برسر خلائق نجات عطا فرمائے گا ۔اللہ ننانوے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا ہر رجسٹر کا طول و عرض حد نگاہ تک ہو گا۔پھر اللہ تعالیٰ کہے گا!کیا تو اس میں درج باتوں میں سے کسی کا انکار کرتا ہے ؟یا تیرے خیال میں میرے لکھنے والے محافظین نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟وہ امتی کہے گا!نہیں،اے میرے رب!اللہ فرمائے گا :کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟وہ کہے گا:نہیں،اے میرے رب!اللہ تعالیٰ فرمائے گا :کیوں نہیں،ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے بلاشبہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر یہ درج ہو گا۔میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ کہے گا:دونوں کا وزن کیا جاتا ہے،تو دیکھ!امتی کہے گا:اے میرے رب!اس ٹکڑے کی ان رجسٹروں کے سامنے کیا حیثیت ہے؟اللہ فرمائے گا!تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔پس سارے رجسٹر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور کلمہ شہاد ت والا کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔لیکن قطعہ کاغذ والا پلڑا بھاری اور رجسٹروں والا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔(اس لیے کہ )اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی۔(ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دو باتوں کی وصیت فرمائی ،ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں تجھے "لا الہ الا اللہ" کا حکم دیتا ہوں۔پھر اس کی درج ذیل فضیلت بیان فرمائی:
"ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اگر ایک پلڑے میں اور "لا الہ الا اللہ" دوسرے پلڑے میں رکھا جائے ،تو یہ دوسرا پلڑا اس کلمے کی وجہ سے بھاری ہو جائے گااور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک بند حلقہ ہوں تو "لا الہ الا اللہ" ان کو توڑ دے گا۔(مسند احمد 2/170و سلسلہ احادیث الصحیحۃ للبانی :1/259،ح134)
مذکورہ احادیث سے کلمہ "لا الہ الا اللہ" کی فضیلت واضح ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
"لا الہ الا اللہ"کے فائدہ مند ہونے کی شرائط

ہر عمل کے کچھ آداب و شرائط ہوتے ہیں،جب تک ان کو ملحوظ نہ رکھا جائے ،وہ عمل نتیجہ خیز اور ثمر آور نہیں ہوتا۔اسی طرح "لا الہ الا اللہ" کی بڑی فضیلت ہے ،لیکن دنیا و آخرت میں اس کے فائدہ مند ہونے کے لیے بھی کچھ شرطیں ہیں۔جب تک وہ شرطیں بھی پوری نہیں ہوں گی اسکے وہ فضائل و فوائد بھی حاصل نہیں ہوں گےجو قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔یہ شرائط حسب ذیل ہیں:
1)اس کا جو مطلب و معنی ہے اور اس کا جو مثبت اور منفی مفہوم ہے ،پڑھنے والے کو اس کا علم ہو تاکہ وہ اس کے تقاضوں پرعمل کر سکے۔
2)پڑھنے والے کو یقین ہو،وہ شک میں مبتلا نہ ہو۔
3)وہ مخلص ہو،یعنی اس کو پڑھنے والا ہر کام اللہ ہی کی رضا کے لیے کرے ،اس میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔
4)اس کے اقرار و اعتراف میں وہ سچا اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے والا ہو۔منافقین ک طرح محض زبان سے اظہار ہو نہ جہالت کی وجہ سے اس کے تقاضوں سے انحراف ہو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
"لا الہ الا اللہ"کے ثمرات و برکات

جب "لا الہ الا اللہ"کے سب قائلین اس کے معنی ومفہوم کو پورے طور پر سمجھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو برائے کار لائیں گے ،تو وہ سب ایک ہی معبود کے پرستار اور ایک ہی مطاع کے اطاعت گزار ہوں گے۔عقیدہ و عمل کی یہ وحدانیت،توحید کا سب سے بڑا ثمرہ اور فائدہ ہے۔اس سے سب مسلمان ایک کلمے پر مجتمع،تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے او ردشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے دست و بازو اور معاون ہوں گے۔جیسے قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
عقیدہ توحید کو اپنائے بغیرقرآن کے اس حکم پر عمل ممکن نہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس عقیدے کو صحیح معنوں میں اپنایا تو وہ ایک ہو گئے،جب کہ پہلے وہ جدا جدا تھے،وہ بھائی بھائی بن گئے جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ،وہ ایک دوسرے پر رحم و کرم کرنے والے بن گئے ،جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اس باہمی الفت و محبت کے بارے میں فرمایا:
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًۭا مَّآ أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُۥ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿63﴾
ترجمعہ: اور ان کے دلو ں میں الفت ڈال دی جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن الله نے ان میں الفت ڈال دی بے شک الله غالب حکمت والا ہے (سورہ الانفال،آیت 63)
اللہ نے یہ الفت کس طرح ڈالی ؟اس عقیدہ توحید کے ذریعے سے۔اس نے انہیں اس عقیدے کو اپنانے کی توفیق دیاور یہ کلمہ توحید ان کی وحدت اور باہمی الفت کا ذریعہ بن گیا۔قرآن کریم میں اللہ نے اپنے اس احسان اور حقیقت کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
اللہ نے ایک اور مقام پر ان کی باہمی الفت اور رحم دلی کی گواہی یوں دی:
مُّحَمَّدٌۭ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَىٰهُمْ رُكَّعًۭا سُجَّدًۭا يَبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًۭا ۖ سِيمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ ٱلسُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْهُۥ فَازَرَهُۥ فَٱسْتَغْلَظَ فَٱسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِۦ يُعْجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةًۭ وَأَجْرًا عَظِيمًۢا ﴿29﴾
ترجمعہ: محمد الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں الله کا فضل اوراس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے قوی کر دیا پھر موٹی ہوگئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ الله ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے الله ان میں سے ایمان داروں اورنیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے (سورہ الفتح ،آیت 29)
آج مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کیوں نہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ "لا الہ الا اللہ"کے مقتضیات سے انحراف اور وحدت عقیدہ کا فقدان ہے۔حالانکہ اللہ نے اس تفریق کی سختی سے مذمت بیان فرمائی تھی۔اللہ نے اپنے پیغمبر سے خطاب کر کے فرمایا:
إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًۭا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ ۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿159﴾
ترجمعہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا (سورہ الانعام،آیت 159)
ایسے تفریق بازوں کے لیے اللہ نے فرمایا:
فَتَقَطَّعُوٓا۟ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًۭا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿53﴾
ترجمعہ: پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پو جو ان کے پاس ہے خوش ہونے والے ہیں (سورہ المومون،آیت 53)
یہ تفریق دین یا تفریق کلمہ ،الہ واحد کی وبوبیت و الوہیت سے انحراف ہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔چنانچہ اس آیت سے پہلے اللہ نے فرمایا:
وَإِنَّ هَٰذِهِۦ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ ﴿52﴾
ترجمعہ: اور بے شک یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو (سورہ المومون،آیت 52)
معلوم ہوا کہ وحدت امت کی بنیاد وحدت عقیدہ یعنی رب واحد ہی سے ڈرنا اور اسی کی عبادت و اطاعت کرنا ہے۔جب سب ایک ہی رب کے پجاری اور ایک ہی رب کے فرمانبردار ہوں گے تو عقیدے کی اس وحدت سے زندگی کے ہر شعبے میں وحدت کی جلوہ گری ہو گی۔ان کی عبادت کا طریقہ ایک ہو گا،ان کااخلاق و کردار ایک ہو گا،ان کے حلال و حرام کے پیمانے ایک ہوں گے،ان کا دشمن ایک ہو گا یعنی صرف وہ جو الہ واحد کی عبادت و اطاعت سے انکار کرنے والا اور دوسرے معبودوں کا پرستار ہو گا۔اس طرح عقیدہ توحید سے انسانی معاشرہ امن اخوت کی عطر بیز ہواؤں سے معمور اور باہم ظلم و عدوان سے مامون(پاک )ہو گا۔اس باہم اتفاق و اتحاد ہی سے دشمن بھی لرزاں و ترساں ہو گا اور یہ اجتماعی قوت ہی،جس کے ساتھ اللہ کی تائید اور نصرت بھی ہو،دنیا میں عزت و سرفرازی کی اور اختیار و اقتدار سے سے بہرہ ور ہونے کی بنیاد ہے۔جیسے اللہ نے فرمایا:
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًۭا ۚ يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِى شَيْا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ ﴿٥٥﴾
ترجمعہ: الله نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جواس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے (سورہ النور،آیت 55)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ اسلام کے قرون اولیٰ میں پورا فرمایا۔کیونکہ اس دور کے مسلمانوں نے اس شرط کو پورا کر دکھایا ،انہوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی بھی اختیار کی اور صرف الہ واحد کی عبادت کا اہتمام بھی کیا ،شرک کے تمام مظاہر کو انہوں نے اکھاڑ پھینکا۔اللہ نے ان کو اس کے ببدلے میں دنیا و آخرت کی سعادتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔آج مسلمان اپنے عہد رفتہ کی سی عظمت و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہی نسخہ کیمیاء ہے جو صحابہ و تابعین نے استعمال کیا تھا۔ایمان اور عمل والی زندگی اور بے غبار عقیدہ توحید اور اس کے مقتضیات پر عمل۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے نوازے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محض زبان سے کلمہ پڑھنا کافی نہیں،اس کے تقاضوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے
گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ محض زبان سے "لا الہ الا اللہ"کہہ دیناکوئی معنی نہیں رکھتا۔جب تک کہنے والا اس کے معنی ومفہوم کو نہیں سمجھتا اور اس کے تقاضوں کو بروکار نہیں لاتا۔اس وقت تک اس کا فائدہ دنیا میں حاصل ہوتا ہے نہ آخرت ہی میں اس کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔لیکن بعض لوگوں کو بعض احادیث کے ظاہری الفاظ سے یہ مغالطہ لگتا ہے کہ زبان سے "لا الہ الا اللہ" پڑھ لینا ہی کافی ہے،اس کے مقتضیات پر عمل ضروری نہیں ۔جیسے پہلے ایک حدیث گزری ہے جس کا مفہوم ہےکہ "ایک شخص کی حد نگاہ تک اس کی برائیوں کے رجسٹر ہی رجسٹر ہوں گے اور اس کے مقابلے میں ایک پرچی "لا الہ الا اللہ" کی گواہی کی ہو گی۔تو یہ پرچی تمام رجسٹروں پر بھاری رہے گی۔اس طرح بعض روایات میں ہے کہ "لا الہ الا اللہ"پڑھنے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔یہ روایات اپنی جگہ صحیح ہیں ،لیکن یہ روایات صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خلوص دل سے کفر و شرک سے تائب ہو جائیں،لیکن توبہ کے ساتھ ہی انہیں موت آ جائے ،عمل کا انہیں موقع ہی نہ ملے۔مگر چونکہ ان کی توبہ خالص تھی اللہ کی وحدانیت کو انہوں نے دل کی گہرائیوں سے قبول کرلیا تھا ،اللہ کی محبت سے ان کا دل لبریز اور کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانیوں سے ان کا دل سخت متنفر ہو گیا تھا،تو ان کا یہ کمال یقین و اخلاص ،محبت الہی اور ترک معصیت کا عزم بالجزم ،عمل کے قاءم مقام ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں اس کلمہ طیبہ کی بدولت جنت میں داخل فرما دے گا۔تاہم جن کو یہ کلمہ پڑھنے کے بعد یہ موقع ملے کہ وہ اپنے عمل کے ذریعے سے اس سچائی کو واضح اور ثابت کریں ،لیکن وہ اس کے مقتضیات پر عمل کر کے اپنی سچائی کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں گے،تو ایسے لوگوں کا محض زبان سے "لا الہ الا اللہ"کہہ دینا عنداللہ کافی نہیں ہو گا۔چنانچہ دوسری روایات سے یہ بات بھی ثابت ہے۔جیسے حدیث میں ہے کہ ایک مرحلے پر جہنم سے " لا الہ الا اللہ" کہنے والوں کو نکالا جائے گا۔اسی طرح یہ بھی حدیث میں ہے کہ "ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے سجدے والی جگہوں پرجہنم کی آگ حرام فرما دے گا "گویا ان کا سارا جسم جہنم میں جلے اور سڑے گا لیکن اعضائے سجود محفوظ رہیں گے۔اسی طرح دونوں قسم کی روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے اور ان کے مابین منافات نہیں رہتی اور عقل بھی مذکورہ دونوں قسم کے افراد کے درمیان فرق کو تسلیم کرتی ہے۔گویا عقل اور نقل دونوں اعتبار سے یہ موقف صحیح ہے۔جس کی صراحت مذکورہ سطور میں کی گئی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ایک اور شبہ اور اس کا ازالہ

ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر جہاد کے لیے بھیجا،وہاں فتح یابی کے بعد ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ شکست خوردہ کافر قبیلے کا ایک شخص ان کو ملا،اس نے "لا الہ الا اللہ" پڑھا ،لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ شخص جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہےچنانچہ انہوں نے اس کا اعتبار نہیں کیا اور اسے قتل کر دیا۔جب یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اسامہ سے فرمایا:"(اقتلتہ بعد ما قال لا الہ الا اللہ)"تو نے اسے " لا الہ الا اللہ" پڑھنے کے بعد قتل کر دیا؟حضرت اسامہ نے کہا:اللہ کے رسول !اس نے جان بچانے کے لیے ہی کلمہ پڑھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم قالھا ام لا)"تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تجھے معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دلی یقین کے ساتھ)کلمہ پڑھا ہے یا نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے۔(صحیح مسلم)
اس کے پیش کرنے سے ان کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ زبانی اقرارا کی بھی بڑی اہمیت ہے اور جو شخص زبان سے "لا الہ الا اللہ"پڑھتا ہو ،چاہے وہ اس کے مقتضیات پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو،اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکتی،نہ اس کی تکفیر ہی کی جا سکتی ہے۔لیکن اس واقعے اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اسلام کا اظہار کرتا ہے اور کلمہ پڑھتا ہے تواس کے خلاف فوری کاروائی نہ کی جائے۔اس کلمے کے پڑھنے سے اس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا ہے۔اس اکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اس طرح کا اظہار کرنے والے اپنے عمل سے مسلسل اس کے خلاف ثبوت پیش کر رہے ہیں تب بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔یا ان کا عقیدہ و عمل "لا الہ الا اللہ" کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کے خلاف ہو ،تب بھی ان کی تکفیر جائز نہ ہو۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایک طرف یہ فرمایا کہ:کیا تو نے اسے "لا الہ الا اللہ"کہنے کے بعد قتل کر دیا؟اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
"مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگ جب تک "لا الہ الا اللہ"کا اقرار نہ کریں،میں ان سے قتال کروں۔"(صحیح بخاری)
اس کا مطلب یہ ہے کہ "لا الہ الا اللہ" کا اقرار کر لینے کے بعد کوئی کاروائی کرنی جائز نہیں۔لیکن دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کی بابت فرمایا کہ یہ ایک گروہ پیدا ہو گا،جو قرآن اور نماز پڑھے گا،ایمان کا اظہار کر گا،لیکن یہ تینوں چیزیں ان کے گلوں سے نہیں اتریں گی،وہ بڑے عبادت گزار ہوں گے،ان کی نمازوں روزوں اور قرأت کے مقابلے میں تمہیں اپنی نمازیں ،تلاو ت وغیرہ حقیر معلوم ہوں گے۔لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بابت فرمایا :
"جہاں بھی تم انہیں ملو،انہیں قتل کر دو۔(سنن ابی داؤد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
"اللہ کی قسم!اگر میں نے انہیں پا لیا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا۔"
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بعد میں اس پر عمل کیا اور ان سے قتال کیا۔
یہاں دیکھ لیجئے !خوارج کو "لا الہ الا اللہ"کہنے کا کوئی فائدہ حاصل ہوا نہ کثرت عبادت کا۔کیوں؟اس لئے کہ انہوں نے زبان سے تو "لا الہ الا اللہ"کہہ دیا،لیکن ان کا عمل اس کے خلاف تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے بھی اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا،باقی اسلام پر وہ عمل کر رہے تھے۔لیکن اس کے باوجود خیلفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کرنے کے عزم کا اظہار فرمایا،اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیااور کہا آپ ان سے قتال کریں گے جو "لا الہ الا اللہ" کا اقرار کرتے ہیں؟جبکہ ایسے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم میں ان سے قتال ضرور کروں گاجو نماز زاور زکوۃ کے درمیان فرق کر رہے ہیں۔اس لیے کہ (جیسے نماز اللہ کا حق ہے اسی طرح)زکوۃ مال کا حق ہے(جو اللہ نے بندوں کے مال میں رکھا ہے)اللہ کی قسم!اگر وہ ایک بکری کا بچہ بھی مجھے دینے سے انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (زکوۃ میں)ادا کرتے تھے تو میں اس کے بھی روک لینے پران سے لڑوں گا۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ کی قسم!(جب میں نے ابوبکر کے موقف پر غور کیا تو)میں نے یہی دیکھا کہ اللہ نے ان لوگوں سے قتال کے لیے ابوبکرکا سینہ کھول دیا ہےاور میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے۔(صحیح بخاری)
اس سے معلوم ہوا کہ پہلے صحابہ کرام نے یہی سمجھا کہ جو زبان سے "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار کرتا ہے ،تو مجرد اقررا ہی اس کے لیے کافی ہے کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے،اس لیے انہوں نے مانعین زکوۃ سے قتال میں توقف کیا۔لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں۔محض زبان سے اقرارا کر لینا کافی نہیں،بلکہ اس کلمے کے حقوق اور اس کے مقتضیات کی ادائیگی بھی ضروری ہے،جب تک ایسا نہیں ہو گا مجرد اقرار سے کچھ نہیں ہو گا اور وہ قتال میں مانع نہیں۔ہمارے دور میں اس کی مثال مرزائی حضرات ہیں ۔یہ لوگ بھی "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار کرتے ہیں۔لیکن چونکہ ان کا عقیدہ و عمل اس کلمے کے مقتضیات کے خلاف ہے۔اس لیے علمائے امت نے ان کے اس اقرار کو کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں بالاتفاق کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
بالکل اسی طرح جو شخص "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار تو کرتا ہے لیکن اس کا عقیدہ و عمل اس کے مقتضیات کے خلاف ہے یعنی مشرکانہ ہے یا اس کی عقیدت و محبت اور اطاعت کا محور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مسلمان کس طرح رہ سکتا ہے۔حضرت حسن بصری سے کہا گیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں ،جس نے "لا الہ الا للہ" پڑھ لیا وہ جنتی ہے۔حضرت حسن بصری نے فرمایا:
"جس نے "لا الہ الا للہ" کہا پھر اس نے اس کا حق اور فرض بھی ادا کیا،تو وہ جنتی ہے ۔"
حضرت وہب بن منبہ(تلمیذ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ)سے بھی کسی نے سوال کیا:
کیا "لا الہ الا اللہ" جنت کی چابی نہیں ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:
"کیوں نہیں۔(یقینا یہ جنت کی چابی ہے)لیکن کوئی چابی دندانوں کے بغیر نہیں ہوتی ،اگر تو دندانوں والی چابی لے کر آئے گا ،تو تیرے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا ،بصور ت دیگر یہ دروازہ تیرے لیے نہیں کھولا جائے گا۔(محاضرات فی العقیدۃوالدعوۃ للشیخ صالح بن فوزان)
یہ دندانے کیا ہیں؟"لا الہ الا اللہ" کے تقاضوں پر پورا عمل۔اور اگر عمل اس کے تقاضوں کے خلاف ہوا تو اس کی مثال بغیر دندانوں والی چابی کی سی ہےجس سے تالا نہیں کھلتا۔جنت کا تالا بھی محض زبانی کلمہ کی چابی سے نہیں کھلے گا ۔جب تک اس کے تقاضوں کے مطابق عمل بھی نہیں ہو گا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب دوم
توحید کی حقیقت ،قسمیں اور تقاضے

یہ بات تو محقق اور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور عرش پر مستوی ہے ،اس بات پر سب مسلمانوں ک ایمان ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ حقیقیت ہے کہ ایمان باللہ کے تقاضوں سے مسلمانوں کی اکثریت ناآشنا ہے،اس لیے وہ توحید کی حقیقت،اس کی قسموں اور تقاضوں سے غافل اور مشرکانہ عقیدوں میں مبتلا ہیں۔بنا بریں ضروری ہے کہ پہلے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب اور اس کے تقاضوں کو سمجھا جائے ،تاکہ توحید کی صحیح حقیقت سمجھ میں آ جائے ۔
اللہ کے ماننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ ہر چیز کا رب اور مالک ہے ،وہی ہر چیز کا مالک اور اپنی مخلوق کا مدبر و منتظم ہے۔وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائےاور اس میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔نماز،روزہ،دعا و استغاثہ،خوف و رجاء اور ذلت و عاجزی سب اسی کا حق ہے۔نہ کسی کے لیے نماز پڑھی جائے ،نہ روزہ رکھا جائے،نہ کسی سے دعا و فریاد کی جائے ،نہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کا خوف رکھا جائے ،نہ امید کسی سے وابستہ کی جائے ۔اسی کے سامنے ذلت و عاجزی کا اظہار کیا جائے ۔اس کے علاوہ ایسی کوئی ذات نہیں کہ جس کے سامنے عبودیت وبندگی والی ذلت و عاجزی کا مظاہرہ کیا جائے۔وہ تمام صفات کمال سےمتصف اور ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔
اس اعتراب سے اللہ کے ماننے میں توحید کی تین قسمیں آ جاتی ہیں ۔
توحید ربوبیت
توحید الوہیت
توحید اسماء و صفات

اس کی مختصر تفصیل آئندہ صفحات میں درج ہے۔
 
Top