محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَۃً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِيْۗـَٔتُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۸۱ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۸۲ۧ وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۰ۣ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۰ۭ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ۸۳
۱؎ خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لیے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے ناممکن ہے ۔ وہ انسان جو خدا پرست ہے ، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ الفت وشفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں اور یادرکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہوسکتا۔ گویا قرآن تقویٰ و صلاح کا معیار ظاہری رسومِ دین نہیں قرار دیتابلکہ اس کے نزدیک فلاح ونجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے۔ تم لوگوں کو محراب ومنبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد ورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہوسکتے ہیں۔ صحیح معیار گھر کی چاردیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بے حس ہے وہ معرفت الٰہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیوں کر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طورپر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں دنیا ودین میں ایک مضبوط ربط قائم کردیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں۔
{خَطِیْئَۃٌ} لغزش۔ گناہ۔ {اِحْسَانًا} حق واجبی سے زائد۔یعنی والدین کے احکام کی بجا آوری ہی کافی نہیں بلکہ حقوق سے بہت کچھ زیادہ از راہِ احسان ومحبت ان سے سلوک کیا جائے جو کسی طرح بھی معمولی نہ ہو{اَلْیَتٰمٰی} جمع یتیم۔ وہ بچہ جو شفقت مادری وپدری سے محروم ہوجائے ۔ وہ عورت جس کا خاوند نہ رہے {اَلْمَسٰکِیْنِ} جمع مسکین کی۔ سکون سے نکلا ہے ۔ وہ شخص جو بے بسی کے باعث کوئی حرکت نہ کرسکے یا جسے افلاس وناداری نے ہرطرح کی شوخی سے روک رکھا ہو۔
بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو، والدین اور دیگر اقربا ومساکین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھواور لوگوں کو اچھے الفاظ میں مخاطب کرو۔ نماز پڑھو اور زکوٰۃ دواور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں مگر وہ تھے کہ ان باتوں سے روگردان رہے۔ہاں جس نے بدی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا، وہی آگ میں رہنے والے ہیں اور وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔(۸۱) اور جو ایمان لائے اور نیک کام کیے، وہ لوگ بہشتی ہیں اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔(۸۲) جب ہم نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا کہ نہ بندگی کرنا مگر اللہ کی اور والدین۱؎ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں سے نیک سلوک رکھنا، لوگوں سے اچھی بات کہنااور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا۔پھرتم(اس اقرار سے) پھر گیے لیکن تھوڑے آدمی تم میں سے نہ پھرے۔ تم تو منہ پھیرنے والے ہو۔(۸۳)
۱؎ خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لیے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے ناممکن ہے ۔ وہ انسان جو خدا پرست ہے ، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ الفت وشفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں اور یادرکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہوسکتا۔ گویا قرآن تقویٰ و صلاح کا معیار ظاہری رسومِ دین نہیں قرار دیتابلکہ اس کے نزدیک فلاح ونجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے۔ تم لوگوں کو محراب ومنبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد ورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہوسکتے ہیں۔ صحیح معیار گھر کی چاردیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بے حس ہے وہ معرفت الٰہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیوں کر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طورپر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں دنیا ودین میں ایک مضبوط ربط قائم کردیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں۔
حل لغات