- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اب سنئے اور اپنے عفریت بریلویت احمد رضا کو جھوٹا اور میلاد کا دشمن تسلیم کیجئے چنانچہ وہ لکھتا ہے ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاول شریف یوم دو شنبہ کو ہے اور اس میں وفات شریف ہے،، ۔(ملفوظات احمد رضا بریلوی حصہ دوم ص:۲۲۰)
احمد رضا جھوٹا اور دشمن میلاد بن گیا سعیدی کی بات سے
آج سے تقریباً تیس چالیس سال پہلے تک ۱۲ربیع الاول کو پاک و ہند کی جنتریوں میں ۱۲ربیع الاول کی تاریخ پر ۱۲وفات لکھا جاتا تھا۔ پھر اس تاریخ کو ۱۲میلاد مشہور کر دیا گیا جیسا کہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا ہندوستانی مؤلف و مصنف مولوی محبوب عالم لکھتا ہے’’بارہ وفات،، بارہ سے مراد ربیع الاول کی بارھویں تاریخ اور وفات سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے عام مشہور بارہویں تاریخ ربیع الاول ہے یہ دن تمام اسلامی ممالک میں قابل عزت شمار ہوتا ہے۔ مدارس اور محکمہ جات میں تعطیل کی جاتی ہے مسجدوں میں اور گھروں میں میلاد شریف کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات مبارک سنا کر لوگوں کو حب نبی کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور پردرد اور مؤثر نعتوں سے اس محبت میں جوش پیدا کیا جاتا ہے مگر وہابی لوگ اس قسم کی کاروائیوں کو خلاف سنت اور بدعت بتاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ بھی ۱۲ربیع الاول ہے گویا مسلمانوں کا تہوار ۱۲ربیع الاول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات دونوں واقعات کی یادگار ہے مگر مسلمانان ہند وغیرہ نے وفات کی ہیئت کو غالب رکھ کر نام بارہ وفات رکھ لیا۔ ۱۳۲۷میں ملک شام و عرب میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس دن کو عید المولود النبوی الانور کے نام سے تمام اسلامی تہواروں سے زیادہ شاندار تہوار بنایا جائے۔ اس تحریک کی گونج ہندوستان اور دیگر ممالک اسلام میں بھی پہنچی اور مسلمانان ہند نے ۱۳۲۸میں مختلف شہروں میں اس روز عید منائی ، نو تعلیم یافتہ حضرات اور قدامت پسند بزرگوں نے متفقہ جلسے کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس لائف پر پر زور سپیچیں دی گئیں اور اس تہوار کا نام بارہ وفات کے بجائے عید میلاد مشہور کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض اخبارات نے اس عید کی خوشی میں رنگین اور زبردست مضامین شائع کئے الخ (ص:۱۳۱) گویا ۱۳۲۸ھ (آج ۱۴۲۶سے ٹھیک۱۰۰سال پہلے) ہندوستان (پاکستان و ہندوستان بنگلہ دیش کشمیر) میں پہلی بار عید میلاد ۱۲ربیع الاول کو منائی گئی۔ پہلے ہندوستان میں ۱۲ربیع الاول کو عید میلاد منانے کا رواج نہیں تھا بلکہ یہ تاریخ جنتریوں اخباروں میں بارہ وفات کے نام سے مشہور تھی پھر رفتہ رفتہ کام اور نام بڑھتا گیا تا آخر بارہ وفات کے بجائے بارہ میلاد طے کر لیا گیا اور بارہ میلاد نام رکھ دیا گیا اور بارہ وفات کا نام جنتریوں سے ختم کر دیا گیا۔ اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب مدظلہ العالی نے آج سے تقریباً چالیس سال پہلے تقریباً ۱۹۶۵ اگست میں ایک مضمون ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’جشن ولادت یا دین و مذہب سے مذاق،، اس میں انہوں نے لکھا تھا: کہ آنکھوں دیکھی بات ہے چند سال قبل ولادت کی یہ رسم برائے نام ’’بارہ وفات،، کے نام پر محدود پیمانے پر گھروں کی چار دیواری میں بطور ’،حلوہ پختن و خوردن،، کی صورت میں منائی جاتی تھی پھر رفتہ رفتہ اس کے بال و پر نکالے اور کہیں کہیں بعض گھروں میں معمولی سی روشنی بھی نظر آنے لگی، بریلوی علماء نے اس کو آب و دانا ڈالا جس سے اس میں طاقت پرواز آئی اور اس نے ہمہ گیر سیلاب کی صورت اختیار کر لی الخ (مروجہ عید میلاد کی تاریخی و شرعی حیثیت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ ص:۴۷) اور یہی مولوی محبوب عالم صاحب دوسری جگہ لکھتا ہے سن ولادت باسعادت آپ دو شنبہ کے دن بارھویں ربیع الاول ۴۲کسروی کو دنیا میں ظہور فرما ہوئے الخ (اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص:۶۵۶) اور آگے جا کر لکھتے ہیں ’’تاریخ ویوم و سن وفات شریف، آپ نے بعمر ۶۳سال ۱۲ربیع الاول یوم دو شنبہ ۱۱ھ کو انتقال فرمایا (ص:۶۶۱) اور امام سھیلی کی تحقیق کے متعلق تحقیق آگے آتی ہے۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
احمد رضا جھوٹا اور دشمن میلاد بن گیا سعیدی کی بات سے
آج سے تقریباً تیس چالیس سال پہلے تک ۱۲ربیع الاول کو پاک و ہند کی جنتریوں میں ۱۲ربیع الاول کی تاریخ پر ۱۲وفات لکھا جاتا تھا۔ پھر اس تاریخ کو ۱۲میلاد مشہور کر دیا گیا جیسا کہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا ہندوستانی مؤلف و مصنف مولوی محبوب عالم لکھتا ہے’’بارہ وفات،، بارہ سے مراد ربیع الاول کی بارھویں تاریخ اور وفات سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے عام مشہور بارہویں تاریخ ربیع الاول ہے یہ دن تمام اسلامی ممالک میں قابل عزت شمار ہوتا ہے۔ مدارس اور محکمہ جات میں تعطیل کی جاتی ہے مسجدوں میں اور گھروں میں میلاد شریف کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات مبارک سنا کر لوگوں کو حب نبی کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور پردرد اور مؤثر نعتوں سے اس محبت میں جوش پیدا کیا جاتا ہے مگر وہابی لوگ اس قسم کی کاروائیوں کو خلاف سنت اور بدعت بتاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ بھی ۱۲ربیع الاول ہے گویا مسلمانوں کا تہوار ۱۲ربیع الاول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات دونوں واقعات کی یادگار ہے مگر مسلمانان ہند وغیرہ نے وفات کی ہیئت کو غالب رکھ کر نام بارہ وفات رکھ لیا۔ ۱۳۲۷میں ملک شام و عرب میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس دن کو عید المولود النبوی الانور کے نام سے تمام اسلامی تہواروں سے زیادہ شاندار تہوار بنایا جائے۔ اس تحریک کی گونج ہندوستان اور دیگر ممالک اسلام میں بھی پہنچی اور مسلمانان ہند نے ۱۳۲۸میں مختلف شہروں میں اس روز عید منائی ، نو تعلیم یافتہ حضرات اور قدامت پسند بزرگوں نے متفقہ جلسے کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس لائف پر پر زور سپیچیں دی گئیں اور اس تہوار کا نام بارہ وفات کے بجائے عید میلاد مشہور کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض اخبارات نے اس عید کی خوشی میں رنگین اور زبردست مضامین شائع کئے الخ (ص:۱۳۱) گویا ۱۳۲۸ھ (آج ۱۴۲۶سے ٹھیک۱۰۰سال پہلے) ہندوستان (پاکستان و ہندوستان بنگلہ دیش کشمیر) میں پہلی بار عید میلاد ۱۲ربیع الاول کو منائی گئی۔ پہلے ہندوستان میں ۱۲ربیع الاول کو عید میلاد منانے کا رواج نہیں تھا بلکہ یہ تاریخ جنتریوں اخباروں میں بارہ وفات کے نام سے مشہور تھی پھر رفتہ رفتہ کام اور نام بڑھتا گیا تا آخر بارہ وفات کے بجائے بارہ میلاد طے کر لیا گیا اور بارہ میلاد نام رکھ دیا گیا اور بارہ وفات کا نام جنتریوں سے ختم کر دیا گیا۔ اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب مدظلہ العالی نے آج سے تقریباً چالیس سال پہلے تقریباً ۱۹۶۵ اگست میں ایک مضمون ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’جشن ولادت یا دین و مذہب سے مذاق،، اس میں انہوں نے لکھا تھا: کہ آنکھوں دیکھی بات ہے چند سال قبل ولادت کی یہ رسم برائے نام ’’بارہ وفات،، کے نام پر محدود پیمانے پر گھروں کی چار دیواری میں بطور ’،حلوہ پختن و خوردن،، کی صورت میں منائی جاتی تھی پھر رفتہ رفتہ اس کے بال و پر نکالے اور کہیں کہیں بعض گھروں میں معمولی سی روشنی بھی نظر آنے لگی، بریلوی علماء نے اس کو آب و دانا ڈالا جس سے اس میں طاقت پرواز آئی اور اس نے ہمہ گیر سیلاب کی صورت اختیار کر لی الخ (مروجہ عید میلاد کی تاریخی و شرعی حیثیت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ ص:۴۷) اور یہی مولوی محبوب عالم صاحب دوسری جگہ لکھتا ہے سن ولادت باسعادت آپ دو شنبہ کے دن بارھویں ربیع الاول ۴۲کسروی کو دنیا میں ظہور فرما ہوئے الخ (اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص:۶۵۶) اور آگے جا کر لکھتے ہیں ’’تاریخ ویوم و سن وفات شریف، آپ نے بعمر ۶۳سال ۱۲ربیع الاول یوم دو شنبہ ۱۱ھ کو انتقال فرمایا (ص:۶۶۱) اور امام سھیلی کی تحقیق کے متعلق تحقیق آگے آتی ہے۔