• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاھیے تقلید کے بارے¿¿

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چلئے میری بات غلط،آپ ہی فقہ حنفی یاشافعی یامالکی یاحنبلی میں کسی مستند عالم سے یہ ثابت کردیجئے کہ ان کے مسلک میں ہرمفتی بہ قول اس مسلک کے امام کا قول ہے۔ یہ آپ کبھی ثابت نہیں کرپائیں گے وادعوا شھدائکم،
جب یہ تسلیم کہ ہرمسلک میں اس مسلک کے امام کے قول سے ہٹ کر بھی فتوی دیاجاتاہے اور دیاگیاہے توصاف ظاہر ہے کہ یہ تقلید شخصی نہیں ہےکہ کسی ایک ہی فرد کے تمام اقوال کی تقلید کی جائے، بالخصوص فقہ حنفی میں تو دیگر مسالک سے زیادہ گنجائش ہے کیونکہ فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اورامام محمد تینوں کے اقوال کو فقہ حنفی شمار کیاجاتاہے۔
اس مسئلہ میں مقلدین کا آپس ميں اختلاف ہے، ایک مؤقف احمد رضا خان بریلوی صاحب کا ہے، زرولی خان صاحب نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے؛
احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ ''اجلي الاعلام ان الفتوي مطلقا علي قول الامام ''مطالعہ فرمائیں!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس مسئلہ میں مقلدین کا آپس ميں اختلاف ہے، ایک مؤقف احمد رضا خان بریلوی صاحب کا ہے، زرولی خان صاحب نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے؛
احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ ''اجلي الاعلام ان الفتوي مطلقا علي قول الامام ''مطالعہ فرمائیں!
لگتاہےکہ یہ کتاب مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب کی آپ نے پڑھی نہیں ہے، صرف عنوان پر ہی اکتفاکرلیاہے، ایک مرتبہ پڑھ کر دیکھئے،پھر اپنی بات سامنے رکھئے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
میراکہنا تو محض اس قدر ہے کہ جب نفس تقلید بقول میاں صاحب معیار الحق ثابت ہوگیا اور وہ بھی صحابہ کرام کے اجماع سے تواس کی فرع تقلید شخصی بھی ثابت ہوگی، تقلید شخصی کے استثناکیلئے الگ دلیل کی ضرورت پڑے گی،اور تقلید شخصی سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ کسی ایک ہی آدمی کے تمام اقوال کی پیروی کی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد مکتبہ فکر کی تقلید ہے ،جس کا انحصار ایک شخص پر نہیں ہوتا،لہذا تقلید شخصی کی جومذمت بعض بزرگان دین واکابرسلف سے منقول ہے ،وہ اس پر چسپاں نہیں ہوتا، ان کی مذمت اس شخص کیلئے ہے جو ایک ہی شخص کے تمام اقوال کی پیروی کو اپنے اوپر لازم جان لے ،جب کہ چاروں مسلک اورمذہب میں ایسانہیں ہے،وہاں ایسے اقوال کی خاصی تعداد ہے جس میں فتویٰ صاحب مذہب کےقول سے ہٹ کر دیاگیاہے، چاہے یہ عرف کے تغیر سےہو،زمانہ کے حالات بدل جانے سے ہو، دلائل کے قوت وضعف کالحاظ کرکے ہو یاکسی دوسری وجہ سے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لگتاہےکہ یہ کتاب مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب کی آپ نے پڑھی نہیں ہے، صرف عنوان پر ہی اکتفاکرلیاہے، ایک مرتبہ پڑھ کر دیکھئے،پھر اپنی بات سامنے رکھئے۔
آپ کو غلط لگتا ہے!
میراکہنا تو محض اس قدر ہے کہ جب نفس تقلید بقول میاں صاحب معیار الحق ثابت ہوگیا اور وہ بھی صحابہ کرام کے اجماع سے تواس کی فرع تقلید شخصی بھی ثابت ہوگی،
آپ کا کہنا درست نہیں!
تقلید شخصی کے استثناکیلئے الگ دلیل کی ضرورت پڑے گی،اور تقلید شخصی سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ کسی ایک ہی آدمی کے تمام اقوال کی پیروی کی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد مکتبہ فکر کی تقلید ہے ،جس کا انحصار ایک شخص پر نہیں ہوتا،لہذا تقلید شخصی کی جومذمت بعض بزرگان دین واکابرسلف سے منقول ہے ،وہ اس پر چسپاں نہیں ہوتا، ان کی مذمت اس شخص کیلئے ہے جو ایک ہی شخص کے تمام اقوال کی پیروی کو اپنے اوپر لازم جان لے ،جب کہ چاروں مسلک اورمذہب میں ایسانہیں ہے،وہاں ایسے اقوال کی خاصی تعداد ہے جس میں فتویٰ صاحب مذہب کےقول سے ہٹ کر دیاگیاہے، چاہے یہ عرف کے تغیر سےہو،زمانہ کے حالات بدل جانے سے ہو، دلائل کے قوت وضعف کالحاظ کرکے ہو یاکسی دوسری وجہ سے۔
تقلید شخصی سے مراد اصل فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہ کی تقلید ہی ہے، کہ بقول فقہائے احناف امام صاحب کے شاگر اصول میں امام ابو حنیفہ کی ہی تقلید کرتے ہیں، تو گویا ان کے اقوال پر عمل بھی امام ابو حنیفہ کی ہی تقلید ہے!
خیر اس مسئلہ میں بھی مقلدین کا اختلاف ہے، بعض علمائے احناف کے بقول ان کے شاگردوں نے اصول میں بھی امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
دلیل اورلاجک کے ساتھ بحث کیجئے، کٹ حجتی سے پرہیز کیجئے، وقت قیمتی شئے ہے،اسے بیکار ضائع مت کیجئے
جب تقلید مطلق پر بقول آپ کے میاں صاحب کے صحابہ کرام کا اجماع ہوچکاہے تواس کی ہی ایک فرع تقلید بھی جائز شمار ہوگی، تقلید شخصی کو اس سے الگ کرنے کیلئے علاحدہ دلیل کی ضرورت ہوگی۔اصول یہی ہے کہ جب اصل ثابت ہواتواس کی فرع بھی ثابت ہوگی،الا یہ کہ کوئی الگ دلیل تقلیداس فرع کی ممانعت کی ملے۔
میراکہنا درست نہ ہونے کو دلیل کے ساتھ ثابت کردیں،میں اپنی غلطی مان لوں گا۔
دوسری بات :آپ اس میں اختلاف اس میں اختلاف کی آڑ مت لیجئے، اپنی بات کیجئے کہ آپ کی تحقیق میں کیا صحیح اورکیاغلط ہے، ورنہ اختلاف توآپ کے علماء میں بھی کچھ کم نہیں ہےاصول سے لے کرفروع تک ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دلیل اورلاجک کے ساتھ بحث کیجئے، کٹ حجتی سے پرہیز کیجئے، وقت قیمتی شئے ہے،اسے بیکار ضائع مت کیجئے
جی جناب! آپ اس امر کا خیال رکھیئےگا، ہماری طرف سے بھی شکایت نہ ہوگی! ان شاء اللہ!
جب تقلید مطلق پر بقول آپ کے میاں صاحب کے صحابہ کرام کا اجماع ہوچکاہے
نہیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ میاں صاحب یعنی کہ میاں نذیر حسین دہلوی صاحب کے بقول اصطلاحی تقلید مطلق کے متعلق صحابہ کا اجماع ہو چکا ہے، بلکہ انہوں نے یہاں تقلید کے عرفی معنی مراد لئے ہیں!
میں اسی کتاب سے دو اقتباس پیش کرتا ہوں:
پہلے ایک مقدمہ سن لینا چاہیئے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ معنی تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہے کہ مان لینا اور عمل کر لینا ساتھ بلا دلیل اس شخص کے جس کا قول حجت شرعی نہ ہو تو بنا بر ہوگی اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہدوں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہوگی بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے اور معنی تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی کے کسی اہل علم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اسی معنی عرفی سے مجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولا جاتا ہے۔ چنانچہ ملا حسن شرنبلالی حنفی عقد الفرید میں فرماتے ہیں:
حقيقة التقليد العمل بقول من ليس قوله احدی الححج الاربعة الشرعية بلا حجة منها فليس الرجوع إلی النبيﷺ والإجماع من التقليد لان كلا منها حجة شرعية في الحجج الشرعية وعلی هذا اقتصر الكمال في تحريره وقال ابن امير الحاج وعلی هذا عمل العامي بقول المفتي وعمل القاضي بقول العدول لان كلا منها وان لم يكن أحدي الحجج فليس العمل به بلا حجة شرعية لايجاب النطر أخذ العامي بقول المفتي وأخذ القاضي بقول العدول انتهیٰ مافي العقد الفريد لبيان الراجح من الاختلاف في جواز التقليد.
''اصل تقلید کی ایسے شخص کے قول پر عمل کرنا جس کا قول چاروں حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو اور نہ اس کے قول پر عمل کرنے کی کوئی حجت شرعی ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ اور اجماع کی طرف تقلید نہیں ہے اس لئے کہ یہ دونوں حجتوں شرعیہ میں سے ہیں اور اسی پر بس کیا ہے کمال نے اپنی کتاب تحریر میں اور ابن امیر الحاج نے کہا ہے کہ سی نہج پر ہے عمل کرنا انجان کا مفتی کے قول پر اور عمل کرنا قاضی کا ثقہ کے قول پر کیونکہ یہ دونوں اگرچہ خود حجت نہیں ولیکن عمل ان پر بے حجت شرعی نہیں اس لئے کہ حکم کھلا ہوا۔ انجان کے لئے مفتی کے قول پر عمل کرنے کو اور قاضی کے لئے ثقہ کے مقولہ پر عمل درآمد کرنے کو شرع میں وارد ہوا ہے ہو چکی عبارت جو عقد الفرید میں ہے'' وہ عقد الفرید جس میں اختلاف جواز تقلید کے امر غالب کا بیان ہے۔''
اور فضل قندھاری مغتنم الحصول میں فرماتے ہیں:

التقليد العمل بقول من ليس قوله من الحجج الشرعية بلا حجة فرجوع إلی النبي ﷺ اؤ إلی الإجماع ليس منه هكذا رجوع العامي إلی المفتي والقاضی إلی العدول لوجوبة بالنص رجوع المجتهد اؤ العامي مثله لكن العرف علی أن العامي مقلد للمجتهد قال إمام الحرمين وعليه معظم الاصولين وقال الغزالي والآمدي وابن الحاجب ان سمی الرجوع إلی الرسول ﷺ وإلی الإجماع وإلی المفتي وإلی الشهود تقليد فلا مشاحة انتهیٰ.
"تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جسکا قول حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف تقلید نہ ٹھری اور اسی طرح رجوع کرنا انجان کا مفتی کے قول کی طرف اور رجوع کرنا قاضی کا ثقہ کے قول کی طرف تقلید نہیں ٹھرے گی کیونکہ رجوع بحکم شرع واجب ہے۔ بلکہ رجوع کرنا مجتہد یا انجان کا اپنے جیسے آدمی کی طرف تقلید نہیں لیکن مشہور یوں ہو گیاہے کہ انجان مجتہد کا مقلد ہے۔ امام الحرمین نے کہا ہے کہ اسی قول پر بڑے بڑے اصولی ہیں اور آمدی اور ابن رجب نے کہا ہے کہ رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع اور مفتی اور گواہوں کی طرف اگر تقلید قرار دیا جائے تو کچھ ہرج نہیں۔ "
پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کو اور مجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 72 - 73 معیار الحق فی تنقید تنویر الحق – سید نذیر حسین دہلوی – جامع تعلیم قرآن وحدیث

تیسری دلیل اجماع صحابہ کا جو قرافی نے نقل کیا ہے۔

واجمع اصحاب علی ان استفتی ابا بكر وعمر قلدهما فله ان يستفتی ابا هريرة ومعاذ بن جبل ۔
''اور جمع ہوگئے صحابہ اس پر کہ جو شخص ابو بکر اور عمر ﷠ سے فتوی پوچھ کر ان کے قول پر عمل کرے اسے روا ہے کہ فتوی پوچھ لے ابو ھریرہ اور معاذ بن جبل ﷠ سے۔''
چنانچہ صاحب مسلم الثبوت نے حاشیہ منہیی میں نقل کیا ہے، اور فاضل قندھاری نے ناقلاً عن التقریر مغتنم الحصول ميں نقل کیا ہے اور مولانا عبد العی نے شرح مسلم (مسلم الثبوت) میں نقل کرکے اس پر تفریعات کیں ہیں اور عبد الوہاب شعرانی نے میزان ميں نقل کیا ہے اور تمام کتب اصول میں مذکور ہے فالا قوی اجماع لصحابة یعنی کہ قرون اولی میں چنانچہ روایت 2،3،4،5،6،7،8،9،10،11،12 سے بوجہ بسیط پہلے معلوم ہوا پس جب کل صحابہ اور تمام مومنین کا قرون اولی میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی پھر اب ایک ہی مذہب کا التزام کرنا اور اس کو واجب جاننا اور تارک اس التزام کے کو گمراہ جاننا اور لامذہب نام رکھنا اور لائق ےتعزیر کے جان کر تعزیر دینی اور مردود اشتہادۃ کہنا پھر بہ نسبت ایسے عقیدے والے کی بدعت ضلالۃ اور ھرام نہیں تو پھر کیا ہے اور معتقد ایسے عقیدہ اور عمل کا مصداق آیۃ کریمہ
﴿واتبع غير سبيل المومنیں﴾ کا کیونکر نہ کوگا اور مصداق من شذ شذ في النار کا اس حدیث کا اتبعوا اسواد الاعظم ومن شذ شذ في النار کس طرح نہ ہوگا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 142 – 143 معیار الحق فی تنقید تنویر الحق – سید نذیر حسین دہلوی – جامع تعلیم قرآن وحدیث
تواس کی ہی ایک فرع تقلید بھی جائز شمار ہوگی،
اول: کہ جب اصطلاحی تقلید کا جواز ہی ثابت نہیں ہوا، تو اس کی فرع کا جائز شمار ہونا بھی ثابت نہیں !
دوم: آپ کے کلام کے مطابق تقلید مطلق اصل ہے اور تقلید اس کی فرع!
یہ بات معقول معلوم نہیں ہوتی! بلکہ یوں درست ہے کہ تقلید اصل ہے، اور تقلید مطلق اس کی فرع!
یا شاید آپ تقلید شخصی لکھنا چاہتے ہیں اور لکھنے میں خطا ہو گئی!
تقلید شخصی کو اس سے الگ کرنے کیلئے علاحدہ دلیل کی ضرورت ہوگی۔اصول یہی ہے کہ جب اصل ثابت ہواتواس کی فرع بھی ثابت ہوگی،الا یہ کہ کوئی الگ دلیل تقلیداس فرع کی ممانعت کی ملے۔
تقلید شخصی کو تقلید مطلق کی فرع قرار دینا بھی درست نہیں!
کیونک کہ فرع کے وجود سے اصل کی نفی نہیں ہوتی، اور اگر جس کے وجود سے اصل کی نفی ہو جائے، وہ اس کی فرع نہیں ہوتی!
معلوم ہونا چاہیئے کہ تقلید شخصی کے وجود سے تقلید مطلق کی نفی لازم ہے، یعنی کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک شخص تقلید شخصی کرے اور تقلید مطلق پر بھی گامزن رہے!
اگر غور سے دیکھیں، اسی بات پر میاں نذیر حسین دہلوی نے مدعا قائم کیا ہے، کہ جب کوئی شخص تقلید شخصی کو لازم قرار دے گا، تو لامحالہ صحابہ کے مذکورہ اجماع کو چھوڑنا پڑے گا! کہ ایسی صورت میں وہ دوسرے مفتیان و مجتہد کے طرف رجوع نہیں کرسکتا!
میراکہنا درست نہ ہونے کو دلیل کے ساتھ ثابت کردیں،میں اپنی غلطی مان لوں گا۔
اللہ ہمیں توفیق دے!
دوسری بات :آپ اس میں اختلاف اس میں اختلاف کی آڑ مت لیجئے، اپنی بات کیجئے کہ آپ کی تحقیق میں کیا صحیح اورکیاغلط ہے، ورنہ اختلاف توآپ کے علماء میں بھی کچھ کم نہیں ہےاصول سے لے کرفروع تک ۔
بلکل جناب! ہمارے ہاں اختلاف ہے!
اور میں نے ایسی کوئی''آڑ'' نہیں لی، محض مقلدین حنفیہ کے مختلف مؤقف کا ذکر کیا تھا!
 
Last edited:
شمولیت
جنوری 19، 2017
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
40
تقلید شخصی سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ کسی ایک ہی آدمی کے تمام اقوال کی پیروی کی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد مکتبہ فکر کی تقلید ہے ،جس کا انحصار ایک شخص پر نہیں ہوتا،لہذا تقلید شخصی کی جومذمت بعض بزرگان دین واکابرسلف سے منقول ہے ،وہ اس پر چسپاں نہیں ہوتا، ان کی مذمت اس شخص کیلئے ہے جو ایک ہی شخص کے تمام اقوال کی پیروی کو اپنے اوپر لازم جان لے ،جب کہ چاروں مسلک اورمذہب میں ایسانہیں ہے،وہاں ایسے اقوال کی خاصی تعداد ہے جس میں فتویٰ صاحب مذہب کےقول سے ہٹ کر دیاگیاہ
سرفراز صفدر نے مزید لکھا ہے:
" اور تقلید شخصی کا یہی معنی ہے کہ ایک ہی ہستی اور ذات کو اپنے پیش نظر رکھ کر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا دم بھرا جائے۔" (الکلام المفید ص 82)
محمد تقی عثمانی دیوبندی نے لکھا ہے:
"اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر ایک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے "تقلید شخصی" کہا جاتا ہے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 15)
 
شمولیت
جنوری 19، 2017
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
40
تقی عثمانی صاحب نے مزید لکھا ہے:
"۔۔انہوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت "تقلید" کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف "تقلید شخصی" کو عمل کے لئے اختیار فرما لیا، اور یہ فتویٰ دے دیا کہ اب لوگوں کو صرف "تقلید شخصی" پر عمل کرنا چاہئے۔ اور کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد کو معین کر کے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہئے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 61-62)
رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے لکھا ہے:
"پہلی صورت کو تقلید شخصی کہتے ہیں کہ ایک شخص واحد کا مقلد ہو کر سب ضروریات ِ دین اس سے ہی حل کرے۔" (تالیفات رشیدیہ ص 518)
محمد قاسم نانوتوی دیوبندی نے کہا:
"دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں، اس لئے میرے مقابلہ میں آپ جو قول بھی بطور معارضہ پیش کریں وہ امام ہی کا ہونا چاہئے۔ یہ بات مجھ پر حجت نہ ہوگی کہ شامی نے یہ لکھا ہے اور صاحب در مختار نے یہ فرمایا ہے، میں ان کا مقلد نہیں۔" (سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 22)
اوکاڑوی نے کہا:
"ہم امام ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں نہ کہ شاہ ولی اللہ کے۔" (فتوحات صفدر جلد 2 صفحہ 133)
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے :
" پس اس خودرائی کا ایک ہی علاج تھا کہ نفس کو کسی ایک ماہر شریعت کے فتوی پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے اور اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔" (اختلاف امت اور صراط مستقیم حصہ اول ص 23، دوسرا نسخہ حصہ اول ص 34، اضافہ و ترمیم شدہ جدید ایڈیشن)
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
"۔۔اورجو شخص جس امام کا مقلد ہو تو وہ یہ نہ کرے کہ کسی مسئلہ میں کسی ایک امام کی تقلید کرے اور کسی میں کسی کی کیونکہ یہ کاروائی دین کو کھلونا بنا دے گی۔" (الکلام المفید ص 174)
مزید دیکھئے، اطمینان القلوب (ص16) اور تجلیات صفدر (2/51)

زرولی خان دیوبندی نے لکھا ہے:
"ہم ابو حنیفہ کے قول کا اعتبار کریں گے کیونکہ ہم حنفی ہیں نہ کہ یوسفی ۔" (احسن المقال ص 53)
محمود حسن صاحب نے بھی لکھا ہے:
" لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔" (ایضاح الادلہ ص 276، دوسرا نسخہ ص 489)
محمود حسن دیوبندی نے دوسری جگہ لکھا ہے:
" ہم امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد ہیں، تمام حنفیہ کے مقلد نہیں" (ایضاح الادلہ ص 488)
ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے :
"ہم مسائل منصوصہ میں قال رسول اللہ کذا اور مسائل اجتہادیہ میں قال ابو حنیفہ کذا کہتے ہیں۔" (تجلیات صفدر ج 6 صفحہ 153)
 
شمولیت
جنوری 19، 2017
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
40
بھائ صاحب تقلید شخصی نسے ہی ظاہر ھے کہ کسی ایک شخص کی تقلید کی جائے آپ سمجھ نہیں رہے اسی لیے میں نء آپ کے عپماء کے فتاوی کی روشنی میں تقلید شخصی کا مفہوم سمجھا دیا ھے
تقلید شخصی کی جومذمت بعض بزرگان دین واکابرسلف سے منقول ہے ،وہ اس پر چسپاں نہیں ہوتا، ان کی مذمت اس شخص کیلئے ہے جو ایک ہی شخص کے تمام اقوال کی پیروی کو اپنے اوپر لازم جان لے
جب بقول آپکے کوی بھی ایک شخص کا مقلد نہیں تو ان اسلاف نے تقلید شخصی کا رد کیوں کیا¿¿
انہوں نے رد اسی لیے کیا ھے کیونکہ مقلد صرف ایک ہی امام اور شخص کی تقلید کرتا ھے ورنہ اسلاف کو کیا ضرورت تھی بلاوجہ کسی ایسے مسئلہ کو بتانے کی جس کا کوی قائل نہ ہو¿¿
 
Top