• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاھیے تقلید کے بارے¿¿

شمولیت
جنوری 19، 2017
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
40
بھائ صاحب تقلید شخصی نسے ہی ظاہر ھے کہ کسی ایک شخص کی تقلید کی جائے آپ سمجھ نہیں رہے اسی لیے میں نء آپ کے عپماء کے فتاوی کی روشنی میں تقلید شخصی کا مفہوم سمجھا دیا ھے
تقلید شخصی کی جومذمت بعض بزرگان دین واکابرسلف سے منقول ہے ،وہ اس پر چسپاں نہیں ہوتا، ان کی مذمت اس شخص کیلئے ہے جو ایک ہی شخص کے تمام اقوال کی پیروی کو اپنے اوپر لازم جان لے
جب بقول آپکے کوی بھی ایک شخص کا مقلد نہیں تو ان اسلاف نے تقلید شخصی کا رد کیوں کیا¿¿
انہوں نے رد اسی لیے کیا ھے کیونکہ مقلد صرف ایک ہی امام اور شخص کی تقلید کرتا ھے ورنہ اسلاف کو کیا ضرورت تھی بلاوجہ کسی ایسے مسئلہ کو بتانے کی جس کا کوی قائل نہ ہو¿¿
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
معنی تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہے کہ مان لینا اور عمل کر لینا ساتھ بلا دلیل اس شخص کے جس کا قول حجت شرعی نہ ہو تو بنا بر ہوگی اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہدوں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہوگی بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے
اگرعامیوں کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے تو پھرآپ حضرات ہمیں مقلد کیسے کہہ سکتے ہیں،آپ ہمیں عامی کہتے ہیں تسلیم ،ہم امام بوحنیفہ کی جانب کسی مسئلہ میں رجوع کرتے ہیں،ابھی اس بات کو چھوڑ دیجئے کہ ہرمسئلہ میں کرتے ہیں یاایک مسئلہ میں کرتے ہیں، اگرہم عامی ہیں اور ایک مسلم الثبوت مجتہد امام ابوحنیفہ کی جانب مسائل میں رجوع کرتے ہیں تو آپ کے بقول یہ تقلید نہیں ہوئی ،یہ اتباع ہوا،پھر آپ ہی کے اصول کی روسے ہم مقلد بھی ثابت نہیں ہوں گے اور ہم تقلید بھی نہیں کررہے ہیں بلکہ اتباع کررہے ہیں ،اس پر آپ حضرات کو خوشی ہونی چاہئے اورآج سے ہمیں مقلد کہنا چھوڑ کر متبع کہنا شروع کردیں(اگرچہ میری نگاہ میں تقلید اوراتباع مین کوئی جوہری فرق نہیں ہے)یہ محض آپ کے نقطہ نگاہ سے عرض کیاگیاہے۔
فالا قوی اجماع لصحابة یعنی کہ قرون اولی میں چنانچہ روایت 2،3،4،5،6،7،8،9،10،11،12 سے بوجہ بسیط پہلے معلوم ہوا پس جب کل صحابہ اور تمام مومنین کا قرون اولی میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی پھر
سوال یہ ہے کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید اورکبھی دوسرے مجتہد کی تقلید یہ اصطلاحی تھی یالغوی اور عرفی تھی؟،کیونکہ آپ نے جولغوی اور اصطلاحی تقلید میں فرق بیان کیاہے،اس میں کوئی جوہری فرق تونظرنہیں آرہاہے۔
پہلے ایک مقدمہ سن لینا چاہیئے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ معنی تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہے کہ مان لینا اور عمل کر لینا ساتھ بلا دلیل اس شخص کے جس کا قول حجت شرعی نہ ہو تو بنا بر ہوگی اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہدوں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہوگی بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے اور معنی تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی کے کسی اہل علم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اسی معنی عرفی سے مجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولا جاتا ہے۔
آپ اپنی لغوی اور اصطلاحی تقلید کی تعریف پر ایک مرتبہ خود غورکیجئے اوربتائیے کہ دونوں میں کیاجوہری فرق ہوا۔دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ لاعلمی کے وقت مجتہد کی بات تسلیم کی جاتی ہے،فرق اتنا ہے کہ لغوی میں فقہ سے گزر کر ہر علم میں صاحب علم کی بات تسلیم کرلینے کو تقلید کہیں گے یہی وجہ ہے کہ کلچر اور ثقافت میں بھی دوسرے قوم کی نقالی کو تقلید کہاجاتاہے، جب کہ اصطلاح میں صرف فقہی مسائل میں فقہاء ومجتہدین کی بات کو تسلیم کرلینا تقلید کہاجاتاہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
عتیق الرحمن صاحب! ایک ہی مرتبہ میں جوکچھ پڑھاہے، سبھی کو اگل دینا ضروری نہیں ، تھوڑا صبر رکھیں، اور کاپی پیسٹ کے بجائے کچھ اپنے فہم سےبھی کام لیاکریں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عتیق الرحمن صاحب! ایک ہی مرتبہ میں جوکچھ پڑھاہے، سبھی کو اگل دینا ضروری نہیں ، تھوڑا صبر رکھیں، اور کاپی پیسٹ کے بجائے کچھ اپنے فہم سےبھی کام لیاکریں۔
رحمانی صاحب! آپ کی یاد دہانی کے لئے آپ کا ہی کلام پیش کرتا ہوں!
دلیل اورلاجک کے ساتھ بحث کیجئے، کٹ حجتی سے پرہیز کیجئے، وقت قیمتی شئے ہے،اسے بیکار ضائع مت کیجئے
پھر اس معاملہ میں بھی جواب اور پھر جواب در جواب کا سلسلہ چل نکلے گا۔
اور موضوع بحث کنارے لگ جائے گا!
باقی آپ کی اس سے قبل کی تحریر کا جواب بعد میں عرض کرتا ہوں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگرعامیوں کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے تو پھرآپ حضرات ہمیں مقلد کیسے کہہ سکتے ہیں،آپ ہمیں عامی کہتے ہیں تسلیم ،
یہ اگر کیوں؟
میں دیگر کتب میں بیان شدہ تقلید کی تعریف کو پیش نہیں کرتا، بلکہ اسی کتاب میں فقہائے احناف کی بیان کردہ تعریف، جو دو حوالوں سے مذکور ہے، اور وہ یہاں پیش بھی کی گئی ہیں، اس کے باوجود ''اگر'' والی بات صرف اسی صورت ممکن ہے کہ آپ ان فقہائے احناف کی کی گئی تقلید کی تعرف کو قبول نہیں کرتے!
ملا حسن شرنبلالی حنفی عقد الفرید میں فرماتے ہیں:

حقيقة التقليد العمل بقول من ليس قوله احدی الححج الاربعة الشرعية بلا حجة منها فليس الرجوع إلی النبيﷺ والإجماع من التقليد لان كلا منها حجة شرعية في الحجج الشرعية وعلی هذا اقتصر الكمال في تحريره وقال ابن امير الحاج وعلی هذا عمل العامي بقول المفتي وعمل القاضي بقول العدول لان كلا منها وان لم يكن أحدي الحجج فليس العمل به بلا حجة شرعية لايجاب النطر أخذ العامي بقول المفتي وأخذ القاضي بقول العدول انتهیٰ مافي العقد الفريد لبيان الراجح من الاختلاف في جواز التقليد.
''اصل تقلید کی ایسے شخص کے قول پر عمل کرنا جس کا قول چاروں حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو اور نہ اس کے قول پر عمل کرنے کی کوئی حجت شرعی ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ اور اجماع کی طرف تقلید نہیں ہے اس لئے کہ یہ دونوں حجتوں شرعیہ میں سے ہیں اور اسی پر بس کیا ہے کمال نے اپنی کتاب تحریر میں اور ابن امیر الحاج نے کہا ہے کہ اسی نہج پر ہے عمل کرنا انجان کا مفتی کے قول پر اور عمل کرنا قاضی کا ثقہ کے قول پر کیونکہ یہ دونوں اگرچہ خود حجت نہیں ولیکن عمل ان پر بے حجت شرعی نہیں اس لئے کہ حکم کھلا ہوا۔ انجان کے لئے مفتی کے قول پر عمل کرنے کو اور قاضی کے لئے ثقہ کے مقولہ پر عمل درآمد کرنے کو شرع میں وارد ہوا ہے ہو چکی عبارت جو عقد الفرید میں ہے'' وہ عقد الفرید جس میں اختلاف جواز تقلید کے امر غالب کا بیان ہے۔''
اور فضل قندھاری مغتنم الحصول میں فرماتے ہیں:

التقليد العمل بقول من ليس قوله من الحجج الشرعية بلا حجة فرجوع إلی النبي ﷺ اؤ إلی الإجماع ليس منه هكذا رجوع العامي إلی المفتي والقاضی إلی العدول لوجوبة بالنص رجوع المجتهد اؤ العامي مثله لكن العرف علی أن العامي مقلد للمجتهد قال إمام الحرمين وعليه معظم الاصولين وقال الغزالي والآمدي وابن الحاجب ان سمی الرجوع إلی الرسول ﷺ وإلی الإجماع وإلی المفتي وإلی الشهود تقليد فلا مشاحة انتهیٰ.
"تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف تقلید نہ ٹھری اور اسی طرح رجوع کرنا انجان کا مفتی کے قول کی طرف اور رجوع کرنا قاضی کا ثقہ کے قول کی طرف تقلید نہیں ٹھرے گی کیونکہ رجوع بحکم شرع واجب ہے۔ بلکہ رجوع کرنا مجتہد یا انجان کا اپنے جیسے آدمی کی طرف تقلید نہیں لیکن مشہور یوں ہو گیاہے کہ انجان مجتہد کا مقلد ہے۔ امام الحرمین نے کہا ہے کہ اسی قول پر بڑے بڑے اصولی ہیں اور آمدی اور ابن رجب نے کہا ہے کہ رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع اور مفتی اور گواہوں کی طرف اگر تقلید قرار دیا جائے تو کچھ ہرج نہیں۔ "
پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کو اور مجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 72 - 73 معیار الحق فی تنقید تنویر الحق – سید نذیر حسین دہلوی – جامع تعلیم قرآن وحدیث

اگر قبول ہے، تو یہ اگر نہیں ہونا چاہئے!
آ پ اپنا مؤقف بتلادیں کہ آیا آپ کو فقہائے احناف کی بیان کردہ تقلید کی تعریف قبول ہے یا نہیں!
دوسری بات کہ آپ مقلد کیوں ہوئے؟
وہ یوں کہ آپ امام ابوحنیفہ امام ابوحنیفہ کے قول کو خود پر لازم قرار دیتے ہو ، اور یہی تقلید کی اصطلاحی تعریف میں ہے۔
اصطلاح میں تقلید کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
ملا حسن شرنبلالی حنفی عقد الفرید میں فرماتے ہیں:

حقيقة التقليد العمل بقول من ليس قوله احدی الححج الاربعة الشرعية بلا حجة منها
اصل تقلید کی ایسے شخص کے قول پر عمل کرنا جس کا قول چاروں حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو
اور فضل قندھاری مغتنم الحصول میں فرماتے ہیں:

التقليد العمل بقول من ليس قوله من الحجج الشرعية بلا حجة
تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو
اور مقلدین حنفیہ محض قول امام پر عمل کے قائل ہیں!

وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 01 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العمية

اس لئے کہ مقلد کے لئے یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ قرآن و حدیث اور اجماع وقیاس شرعی کا حکم کیا ہے، بلکہ اس کے لئے اس کے مُقَلَدْ کا قول ہی ہے! لہٰذا یہ اصطلاح میں تقلید ہے!
اس کی ایک نظیر پیش خدمت ہے:

شيخ الهند محمود حسن ديوبندي فرماتے ہیں:
فالحاصل أن مسئلة الخيار من مهمات المسائل، وخالف أبو حنيفة فيه الجمهور، وكثيرا من الناس من المتقدمين، والمتأخرين صنفوا رسائل في ترديد مذهبه في هذه المسئلة، ورجح مولانا الشاه ولي الله المحدث الدهلوي قدس سره في رسائل مذهب الشافعي من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مدظله، يترجح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسئلة، ونحن مقلدون، يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة، والله أعلم.
پس اس کا حاصل(بحث کا خلاصہ ) یہ ہے کہ مسئلہ خیار مہمات المسائل میں سے ہے، اور امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہور کی مخالفت کی ہے، اور متقدمین و متاخریں میں سے بہت سے لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے مسئلہ کی تردید میں رسائل لکھے ہیں، اور مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے رسائل میں امام شافعی کے مذہب کو احادیث و نصوص کی وجہ سے راجح قرار دیا ہے، اور اسی طرح ہمارے شیخ مد ظلہ(محمود حسن دیوبندی) نے بھی کہا کہ ترجیح امام شافعی کے مذہب کو ہے، اور کہا کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح ہے، اور ہم مقلد ہیں، ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 84 جلد 01 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – الطاف ايند سنز
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 49 جلد 01 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – مكتبه رحمانيه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 35 - 36 جلد 01 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – قديمي كتب خانه

مزید آپ کا یہ کہنا کہ ہم آپ کو عامی کہتے ہیں، اور آپ کو یہ تسلیم ہے، تو میرے بھائی! یہ آپ غلط سمجھے ہیں۔
اہل الحدیث میں بھی عامی ہیں، اور مقلدین میں بھی عامی ہیں، لیکن ہر اہل الحدیث عامی نہیں، بلکہ ان میں علماء اہل الحدیث بھی ہیں، اور اسی طرح مقلدین میں بھی علمائے مقلدین ہیں!
لہٰذا یہ بات مدّنظر رکھی جائے کہ جب کسی مسئلہ میں بحث ہوتی ہے، تو عامی کا نکتہ نظر، مؤقف وعمل نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس طبقہ کے علماء کا دیکھا جاتا ہے!
اب جب علمائے مقلدین حنفیہ خود اپنے پر امام ابو حنیفہ کو حجت قرار دے کر جو کہ شرعی دلائل اربعہ میں سے نہیں، محض ان کے قول کو خود پر حجت قرار دے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ یا علاوہ دیگر مجتہدین کی ایک مسئلہ میں یا ایک سے زائد مسائل میں، یا تمام مسائل میں رجوع کریں وہ تقلید کہلائے گی!
جبکہ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں، کہ یہ شرعی دلائل اربعہ میں سے نہیں، بلکہ ایک پانچوین حجت از خود اپنے پر لازم کی ہے!
ہم امام بوحنیفہ کی جانب کسی مسئلہ میں رجوع کرتے ہیں،ابھی اس بات کو چھوڑ دیجئے کہ ہرمسئلہ میں کرتے ہیں یاایک مسئلہ میں کرتے ہیں، اگرہم عامی ہیں اور ایک مسلم الثبوت مجتہد امام ابوحنیفہ کی جانب مسائل میں رجوع کرتے ہیں تو آپ کے بقول یہ تقلید نہیں ہوئی ،
اول تو عامی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جانب رجوع نہیں کرتا وہ کسی موجودہ زندہ عالم سے رجوع کرتا ہے۔ اب یہ عالم گر حنفی مقلد ہے تو اس اصطلاحی تقلید کے تحت مسئلہ بتلاتا ہے!
وہ عامی بیچارہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم نے قرآن و حدیث سے مسئلہ بتلایا ہے، عامی بیچارے کو کیا معلوم کہ جس سے اس نے مسئلہ دریافت کیا ہے، وہ خود مقلد ہے اور قرآن و حدیث تعلق اس مقلد عالم سے نہیں، بلکہ یہ تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و فقہ حنفی سے مسئلہ بتلا رہا ہے!
رہی بات مقلدین علماء کی تو مقلدین علماء ہی اصل ميں دانستہ تقلید کرتے ہیں!
محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
اس کے بعد یہ عرض ہے کہ جب تقیر مرقمۂ بالا سے یہ بات محقق ہو چکی کہ نکاح محارم بوجہ فراہمی جملہ ضروریاتِ نکاح دراصل نکاح تام ہوگا، ہاں اس کا اشد حرام ومذموم ہونا مسلَّم، مگر فقط اس امر سے اس کا بطلان لازم نہیں آتا، تو بروے انصاف اب ہم کو کسی اور دلیل کی، ثبوت مدّعا کے لئے احتجاج نہیں، ہاں اگر قول امام اس کے مخالف ہو تو پھر بے شک ہمارا کہنا از قبیل
توجيه الكلام بما لا يرضیٰ به القائل سمجھا جائے گا، لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 459 ایضاح الادلہ (مع حاشیہ جدیدہ) – محمود الحسن دیوبندی – شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم، دیوبند

اگر آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو لازم قرار نہ دیں اور خود ان کی تقلید کا بھرم نہ بھریں، تو یہ تقلید نہ ہوگی!
مگر علمائے مقلدین ایسا نہیں کرتے!

اور جب آپ تمام مسائل میں امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفی کی طرف رجوع کرنے کے قائل ہیں، تو اس حقیقت کو چھوڑ کا ایک فرضی بحث کرنا چہ معنی دارد؟
یہ اتباع ہوا،پھر آپ ہی کے اصول کی روسے ہم مقلد بھی ثابت نہیں ہوں گے اور ہم تقلید بھی نہیں کررہے ہیں بلکہ اتباع کررہے ہیں،
مگر آپ ایساکرتے نہیں، تو خواہ مخواہ یہ تخیلاتی بحث کیوں!
اور میرے بھائی! یہ جو تقلید کی اصطلاحی تعریف بتلائی گئی ہے، اور بتلایا گیا ہے کہ عرف میں اور کسے تقلید کہہ دیا جاتا ہے، یہ ہماری نہیں بلکہ مقلدین حنفیہ کی کتب سے ہی پیش کی گئیں ہیں!
آپ اسے ہمارے اصول کے مطابق کہنے پر کیوں مصر ہیں!
اس پر آپ حضرات کو خوشی ہونی چاہئے اورآج سے ہمیں مقلد کہنا چھوڑ کر متبع کہنا شروع کردیں(اگرچہ میری نگاہ میں تقلید اوراتباع مین کوئی جوہری فرق نہیں ہے)یہ محض آپ کے نقطہ نگاہ سے عرض کیاگیاہے۔
ہم بلکل خوش ہوں گے اگر مقلدین تقلید چھوڑ دیں اور اتباع کو اختیار کریں!
مگر صرف یہ کہہ دینے سے کہ آپ اسی امر کو کہ جو تقلید ہے اتباع سمجھ لیا جائے، ہم یہ فریب کھانے کو تیار نہیں!
آپ کی نگاہ میں کوئی جوہری فرق نہ ہونے سے فرق ختم نہیں ہو جائے گا، تقلد او اتباع کا فرق تو فقہائے احناف نے بھی ذکر کیا ہے۔
آسان لفظوں میں کہ فقہی اصطلاح میں دلائل شرعیہ کی پیروی اتباع ہے، اور دلائل شرعیہ کے علاوہ کسی قول کی پیروی تقلید ہے!
اور اب اس میں بھی فرق نظر نہ آنے کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے!
سوال یہ ہے کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید اورکبھی دوسرے مجتہد کی تقلید یہ اصطلاحی تھی یالغوی اور عرفی تھی؟
میاں نذیر حسین دہلوی نے لغوی اصطلاحی تقلید مراد لیا ہے۔ یہ بات متعدد بار بحوالہ بتلائی گئی ہے!
کیونکہ آپ نے جولغوی اور اصطلاحی تقلید میں فرق بیان کیاہے،اس میں کوئی جوہری فرق تونظرنہیں آرہاہے۔
مگر فرق تو بہت ہے، ایک جائز و حلال ، بلکہ اس عمل پر اللہ تعالیٰ کا حکم موجود ہے!
دوسرا ناجائز و حرام، جس عمل پر قرآن و حدیث میں ممانعت وارد ہے!
لغوی اور عرفی تقلید میں دلائل اربع کے علاوہ کسی اور کے قول خود پر لازم نہیں سمجھا جاتا، اور نہ کیا جاتا ہے! بلکہ کسی کے قول کو دلائل اربعہ کے تحت قبول و رد کرنے کا اعتقاد رکھا جاتا ہے، اور اسی طرح قبول و رد کیا جاتا ہے!
جبکہ اصطلاحی تقلید میں کسی کے قول کو قبول دلائل اربعہ کے تحت قبول و رد کرنے کا اعتقاد نہیں رکھا جاتا، بلکہ خود کو قرآن و حدیث سے لا تعلق رکھتے ہوئے، اپنے مُقَلَدْ کے قول کو خود پر حجت سمجھتا ہے۔
آپ اپنی لغوی اور اصطلاحی تقلید کی تعریف پر ایک مرتبہ خود غورکیجئے اوربتائیے کہ دونوں میں کیاجوہری فرق ہوا۔
فرق ابھی اوپر بیان ہوا! یہ جوہری فرق ایک بار پھر بیان کردیتے ہیں:
آسان لفظوں میں کہ فقہی اصطلاح میں دلائل شرعیہ کی پیروی اتباع ہے، اور دلائل شرعیہ کے علاوہ کسی کے قول کی پیروی تقلید ہے!
دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ لاعلمی کے وقت مجتہد کی بات تسلیم کی جاتی ہے،
بلکل، لا علمی کے وقت مجتہد کی بات تسلیم کرنا دونوں میں مشترک ہے، لیکن اصطلاحی تقلید میں مجتہد کے قول کو بلادلیل قبول کرنا ہے، جبکہ عرف میں دلائل اربعہ کے تحت مجتہد کے قول کو قبول کرنا ہے!
جیسا کہ التلویح علی التوضیح کا حوالہ پیش کیا گیا!
ایک نظیر پیش کرتا ہوں:
سوال: از سید سلیمان۔ حیدرآباد دکن۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین یہاں پر ماہ رمضان شریف میں ایک حافظ صاحب کو بلوایا گیا ہے۔ حافظ صاحب کی عمر 12 – 13 سال ہے تراویح وتر اور فرض نمازیں بڑھاتے ہیں۔ آپ سے دریافت طلب یہ ہے کہ اس عمر میں کیا حافظ صاحب کی امامت درست ہے؟ اگر ہے تو حدیث رسول ﷺ سے جواب دیں۔
جواب: پندرہ سال سے کم عمر لا لڑکا نابالغ سمجھا جائیگا الّا یہ کہ کسی فیصلہ کن علامت سے اس کا بلوغ ثابت ہو جائے۔ فرض نمازوں میں نابالغ کی امامت بالغوں کے حق میں درست نہیں ہوتی لہٰذا اس کی نماز کا درجہ نفل کا ہے اور نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والوں کی نماز احناف کے نزدیک نہیں ہوتی۔
البتہ تراویح نابالغ حافظ کے پیچھے ہوجاتے ہے۔
یہ تو جواب ہوا۔ اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہہ دیں جو آپ نے سوال کے اختتام پر سرقلم کیا ہے یعنی:۔
''حدیث رسول ﷺ سے جواب دیں''
اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں۔ یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث وقرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ وفقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ہے۔ حدیث و قرآن تو جملہ قوانین شرعیہ کا ماخذ اور سرچشمہ ہی۔ ان کے معانی ومطالب اور غوامص واسرار پر غور کرنا اونچے درجے کے فقہاء ومجتہدین کا کام ہے نہ کہ عوام کا۔ عوام کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کے جواب پر اطمنان کریں جنھیں وہ مستند خیال کرتے ہوں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 46 – 47 ماہنامہ رسالہ تجلی دیوبند، جلد نمبر 19، شمارہ نمبر ۱۱، ماہ جنوری فروری 1968ء





فرق اتنا ہے کہ لغوی میں فقہ سے گزر کر ہر علم میں صاحب علم کی بات تسلیم کرلینے کو تقلید کہیں گے یہی وجہ ہے کہ کلچر اور ثقافت میں بھی دوسرے قوم کی نقالی کو تقلید کہاجاتاہے، جب کہ اصطلاح میں صرف فقہی مسائل میں فقہاء ومجتہدین کی بات کو تسلیم کرلینا تقلید کہاجاتاہے۔
نہیں، آپ نے یہاں لغوی عرفی معنی کے اطلاق کے وسیع الاطلاق ہونے اور فقہی اصلاحی معنی کا اطلاق شریعت میں ہونے کے اعتبار سے بیان کیا ہے!
جبکہ شریعت کے امور میں ہی تقلید کے لغوی عرفی معنی اور اصطلاحی معنی کا بیان کیا گیا ہے!
یعنی کہ شرعی امور میں ہی عرف میں تقلید کسے کہا گیا ہے، اور اصطلاح میں کسے!
جب عرف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ، اجماع اور عامی کا مفتی کا قول پر عمل تقلید کہلاتا ہے، اور اصطلاح میں یہ تقلید نہیں، تو یہاں فرق اسی شرعی امور کے معاملہ میں بیان ہوا ہے!
 

اٹیچمنٹس

Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
حقيقة التقليد العمل بقول من ليس قوله احدی الححج الاربعة الشرعية بلا حجة منها
التقليد العمل بقول من ليس قوله من الحجج الشرعية بلا حجة
دوسری بات کہ آپ مقلد کیوں ہوئے؟
آپ کوخوب پتہ ہے کہ تقلید کی تعریف میں اختلاف ہے،آپ کی ذکرکردہ تعریف کے علاوہ بھی تقلید کی دوسری تعریف کتب فقہ احناف میں ہی موجود ہے اورآپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں، ہم اس کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ وہ دوسری تعریفات آپ کو کیوں نہیں بھاتیں،اسی تعریف پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
’’بلاحجۃ‘‘سے کیامراد ہے؟اس کو آپ کو واضح کرناچاہئے،

بلاحجۃ کاایک مطلب تویہ ہے کہ مجتہد کے قول پرکوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی ۔

دوسری مراد ہے ’’بلاطلب حجۃ ‘‘یعنی شرعی دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مقلد مجتہد سے اس شرعی دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا ،جیسے ڈاکٹر کے مریض کیلئے تجویز کردہ علاج پر دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مریض اس سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا کہ تم نے فلاں دوا کیوں دی ہے، مریض کا مطالبہ نہ کرنا اس بات کی نفی نہیں ہے کہ ڈاکٹر نے مریض کیلئے جو علاج تجویز کیاہے اس کیلئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

تیسری مراد ہے’’بلامعرفۃ حجۃ‘‘یعنی مجتہد مسائل شرعیہ پر اپنی دلیل بتلابھی دے تو مقلد اس کی معرفت کا فہم نہیں رکھتا،پھر وہی ڈاکٹر کی مثال دوں تو شاید قند مکرر نہ ہو(ابتسامہ)اس لئے وکیل کی مثال دے رہاہوں،ایک جاہل شخص یاعامی کسی حد تک پڑھالکھاکسی وکیل سے کوئی اہم قانونی نکتہ پوچھتاہے،وکیل کے جواب پر وہ اس کی دلیل پوچھتاہے،وکیل اس کے جواب میں قانون کی بنیادیں ،عدالتوں کے نظائر اور دیگر بہت کچھ بیان کرتاہے لیکن اگر اس کا قانون کےفن سے تعلق نہیں ہے تواس کی سمجھ میں کیاخاک آئے گا؟
آپ کو یہ واضح کرناچاہئے کہ بلاحجۃ سے آپ تینوں میں سے کون سی شق مراد لے رہے ہیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کتب اصول فقہ کی شروحات میں فقہائے احناف نے بلاحجۃ کی شرح کہیں بلامعرفۃ دلیلہ اور کہیں بلاطلب حجۃ سے کی ہے، آپ اس کو ظاہر نہیں کرناچاہتے،ہم اس کوبھی نظرانداز کرتے ہیں،لیکن قارئین بھی نظرانداز کریں گے،اس کی ذمہ داری نہیں لیتا(ابتسامہ)
پہلی شق قطعاًمراد نہیں ہوسکتی ،اس کی دلیل کیاہے یہ آپ کے مطالبہ پر بتائوں گا، ویسے اگرآپ غورکریں گے توخود بھی اس نکتے پر پہنچ جائیں گے ۔
اوردوسری اورتیسری شق میں کوئی اعتراض ہی نہیں بنتاہے۔
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
اس عبارت میں آپ کو اعتراض کیانظرآیا،میری سمجھ سے توباہر ہے،دلائل سے مسائل کا استنباط مجتہد کا کام ہے، مقلد کا کام نہیں ہے،آپ مقلد کی جگہ عامی ،کم پڑھے لکھے، اوسط درجے کی لیاقت والے کردیجئے، توکیاایسے لوگ اجتہاد کریں گے، ویسے برانہ مانئے گاتو تو گول مول نہیں صاف سیدھے جواب میں اپنی مسلک کی چند زندہ مجتہد شخصیات کا تعارف کرادیجئےاوریہ بھی بتادیجئے کہ آپ ہی کے مسلک کے کن حضرات نے ان کومجتہد تسلیم کیاہے،کیونکہ دعویٰ کے ساتھ دلیل ضروری ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ بعض امور میں آپ حضرات کے یہاں خلط مبحث بہت زیادہ ہے، دلیل کا جاننا اور دلیل سے مسائل کااستنباط کرنا دونوں میں اگرچہ زمین وآسمان کا فرق ہے لیکن آپ حضرات دونوں کو ایک شمار کردیتے ہیں، ماضی قریب وبعید میں بہت سے متبحر عالم ہوئے ہیں لیکن وہ مسائل کا استنباط نہیں کرتے ہیں وہ ان مسائل کے دلائل کی پرکھ رکھتے تھے جن دلائل سے مجتہدین نے استنباط کیاہے۔
دوسرا خلط مبحث آپ کےفرقہ میں یہ ہے کہ دلیل کا پڑھنا اور جاننا اور دلیل کا سمجھنا دونوں ایک شمار کرلیاگیاہے، ایک عامی کو اگرہم کسی مسئلہ میں دس دلیلیں قرآن وحدیث کی بتادیں لیکن اگر اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ احادیث کے قوت وضعف کا معیارکیاہے، کتب حدیث کی اپنی درجہ بندی کیاہے، راویوں کی روایت کب مقبول اورکب مردود ہوتی ہے تواس کو دس حدیثیں سنانے سے کیافائدہ ہوا۔
یہ ویسے ہی ہے جیسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ایک جاہل مجرم عدالت اوروکیل کی تمام جرحیں سنتاہے، قانونی موشگافیاں اس کے کانوں تک پہنچتی ہے، لیکن اس سے پوچھئے توکہ اس نے سمجھاکیاہے۔
امید ہے کہ اس بحث میں اس خلط مبحث سے اپنے کو دور رکھئے گا۔
اہل الحدیث میں بھی عامی ہیں، اور مقلدین میں بھی عامی ہیں، لیکن ہر اہل الحدیث عامی نہیں، بلکہ ان میں علماء اہل الحدیث بھی ہیں، اور اسی طرح مقلدین میں بھی علمائے اہل الحدیث ہیں!
یہ پتہ نہیں ٹائپنگ کی غلطی ہے، یاکچھ اورجب دونوں میں عامی ہیں، اورجب دونوں میں علماء اہل الحدیث ہیں تو فرق کیابچا،یحیی گوندلوی صاحب کی طرح یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ احناف اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس تاویل کو درکنار کردیجئے جو صلاح الدین یوسف یامقبول نے کی ہے۔
اب جب علمائے مقلدین حنفیہ خود اپنے پر امام ابو حنیفہ کو حجت قرار دے کر جو کہ شرعی دلائل اربعہ میں سے نہیں، محض ان کے قول کو خود پر حجت قرار دے کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ یا علاوہ دیگر مجتہدین کی ایک مسئلہ میں یا ایک سے زائد مسائل میں، یا تمام مسائل میں رجوع کریں وہ تقلید کہلائے گی!
اس کی دلیل کیاہے،آپ سے ماقبل کس بزرگ نے یہ بات لکھی ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ اگر کیوں؟
میں دیگر کتب میں بیان شدہ تقلید کی تعریف کو پیش نہیں کرتا، بلکہ اسی کتاب میں فقہائے احناف کی بیان کردہ تعریف، جو دو حوالوں سے مذکور ہے، اور وہ یہاں پیش بھی کی گئی ہیں، اس کے باوجود ''اگر'' والی بات صرف اسی صورت ممکن ہے کہ آپ ان فقہائے احناف کی کی گئی تقلید کی تعرف کو قبول نہیں کرتے!
اگر قبول ہے، تو یہ اگر نہیں ہونا چاہئے!
آ پ اپنا مؤقف بتلادیں کہ آیا آپ کو فقہائے احناف کی بیان کردہ تقلید کی تعریف قبول ہے یا نہیں!
اس کا جواب مطلوب ہے، پھر بات آگے بڑھاتے ہیں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91

اول تو عامی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جانب رجوع نہیں کرتا وہ کسی موجودہ زندہ عالم سے رجوع کرتا ہے۔ اب یہ عالم گر حنفی مقلد ہے تو اس اصطلاحی تقلید کے تحت مسئلہ بتلاتا ہے!
آپ کی اس بات پر شیعوں کی یاد آرہی ہے جن کے نزدیک انتقال شدہ مجتہد کی تقلید حرام ہوتی ہے، اس لئے ان کے یہاں ایک سرٹیفکیٹ یاعلمی درجہ مجتہد کا بھی ہوتاہے،آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل سنت کا یہ موقف نہیں ہے ان کے یہاں مجتہد کے اجتہاد سےاستفادہ کرنے میں زندہ مردہ کی کوئی شرط نہیں ہے،جس عالم سے اس عامی نے رجوع کیاہے، ظاہرسی بات ہے کہ وہ بذاتہ خود مجتہد نہیں ہے لہذا وہ امام ابوحنیفہ کے اجتہاد کوپیش کرتاہے،اس میں کیافرق پڑگیااگر وہ امام ابوحنیفہ سے براہ راست پوچھتا،یااس عالم کے واسطہ سے پوچھ رہاہے، میرے نزدیک توکوئی فرق نہیں ہے، اگرآپ کے نزدیک فاسئلو اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون میں واسطہ کے ہونے نہ ہونے کو کوئی دخل ہے تو دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔
جیسے کوئی عامی امام ابوحنیفہ سے براہ راست کوئی مسئلہ پوچھتا اوریہ تقلیدنہیں بلکہ بقول آپ کے اتباع ہوتی ،اسی طرح اس عالم کے واسطہ سےبھی پوچھناآپ حضرات کےنزدیک اتباع ہی ہوناچاہئے،تقلید نہیں ،کیونکہ فرق کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اور جو آپ نے’’ اصلاحی تقلید کے تحت مسئلہ بتاتاہے کا لفظ استعمال کیاہے‘‘ وہ بے معنی اورلایعنی ہے۔

وہ عامی بیچارہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم نے قرآن و حدیث سے مسئلہ بتلایا ہے، عامی بیچارے کو کیا معلوم کہ جس سے اس نے مسئلہ دریافت کیا ہے، وہ خود مقلد ہے اور قرآن و حدیث تعلق اس مقلد عالم سے نہیں، بلکہ یہ تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و فقہ حنفی سے مسئلہ بتلا رہا ہے!
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ عامی نے جس عالم سےرجوع کیاہے، اس کے بارے میں بھی وہ خود یہ نہیں سمجھتاکہ یہ براہ راست قرآن وحدیث سے اجتہاد کرتے ہیں اور نہ ہی عالم کو یہ دعویٰ ہے کہ میں براہ راست قرآن وحدیث سے اجتہاد واستنباط کرکے مسئلہ بتاتاہوں، عالم چاہے حنفی ہو، یاشافعی،مالکی ہویاحنبلی ،ہرایک یہی کہتااورکرتاہے کہ وہ مسائل کے جواب میں اس رائے کو پیش کردیتاہے جو اس مسلک کے ائمہ نے قرآن وحدیث سے اخذ کیاہے اور آپ کا یہ کہناکہ’ فقہ حنفی سے مسئلہ بتاتاہے،قرآن وحدیث سے تعلق نہیں‘، بیمار ذہن کی دلیل ہے،یعنی دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھادی گئی ہے کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کےعلاوہ ہے، امام ابوحنیفہ بڑے مقام ومرتبہ کے مجتہد ہیں اور مجتہد اسی کو کہتے ہیں جو قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط کرے، لہذا فقہ حنفی کو پیش کرنا بھی قرآن وحدیث سے ہی جواب ہے، فرق یہ ہےکہ بخاری ومسلم کی روایت بیان نہیں کی جاتی، اس کوایک مثال سے سمجھاؤں،ایک آدمی سے مسئلہ دریافت کیاگیاکہ رات کو سوکر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھوناچاہئے یانہیں،ایک اہل حدیث عالم ہے وہ حدیث پیش کردیتاہے لایدری این باتت یدہ اور کوئی حنفی یاشافعی ہے،وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ یاامام شافعی کا وہ قول پیش کردیتاہے جو انہوں نے اس حدیث کی رائے میں اختیار کی ہے یاہدایہ یامنہاج الطالبین کی عبارت پیش کردیتاہے تو کیافرق ہوا۔
اگرآپ کا خیال یہ ہے کہ مجتہدین حضرات کے اجتہادات قرآن وسنت کے خلاف ہوتے تھے تو اپنی بات کی وضاحت کردیں تو آگے کے عرض ومعروض کی راہ ہموار ہو ۔
اگر آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو لازم قرار نہ دیں اور خود ان کی تقلید کا بھرم نہ بھریں، تو یہ تقلید نہ ہوگی!مگر علمائے مقلدین ایسا نہیں کرتے!
اور جب آپ تمام مسائل میں امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفی کی طرف رجوع کرنے کے قائل ہیں، تو اس حقیقت کو چھوڑ کا ایک فرضی بحث کرنا چہ معنی دارد؟
ابھی تک تقلید پر بات ہی ہورہی ہے، آپ کے نزدیک جو اتباع ہے، وہ ہمارے نزدیک تقلید ہی ہے، یہ اور بات ہے کہ آپ نےنام اتباع کا رکھ لیاہے، لیکن حقیقتاًوہ تقلید ہی ہے،اس سے بڑھ کرکچھ نہین اور آپ جوفقہ حنفی کی اصول کی کتابوں سے عبارت پیش کرتے ہیں کہ مجتہدکی پیروی اور عامی کا مفتی سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے، کبھی شروحات کو بھی دیکھ لیاکریں، ابن امیر الحاج بہت بہتر وضاحت کی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں آپ حضرات ایسے مقام سے بڑی خاموشی سے گزرجاتے ہیں اورزبیر علی زئی بھی ’دین میں تقلید کا مسئلہ‘نامی کتاب میں ابن امیر الحاج کی اتنی ہی عبارت استعمال کی ہے جو مفید مطلب تھا ،جومفید مطلب نہ تھا،اس پر بڑی خاموشی سے گذرگئے۔
آسان لفظوں میں کہ فقہی اصطلاح میں دلائل شرعیہ کی پیروی اتباع ہے، اور دلائل شرعیہ کے علاوہ کسی قول کی پیروی تقلید ہے!
یہ کس کتاب میں پڑھ لیا!
بریلوی حضرات پڑھتے نہیں ہیں ،آپ حضرات پڑھتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں ہیں، دلائل شرعیہ چار ہیں، کتاب ،سنت،اجماع ،قیاس،اگر مجتہد نے کتاب وسنت اوراجماع سے مسئلہ بتایاہے تو کوئی اختلاف نہیں ،لیکن جب مجتہد کے پاس یہ نہیں ہوتا تو وہ دیگرنظائر قرآن وحدیث پر قیاس کرتاہے اور یہ قیاس بھی بذات خود شرعی حجت ہے، اب یہ کہنا کہ دلائل شرعیہ کے علاوہ کسی قول کی پیروی تقلید ہے، یہ اسی مضحکہ خیز قول کا جڑواں بھائی ہے جس میں دعویٰ کیاجاتاہے کہ خلاف شریعت بات ماننے کا نام تقلید ہے،تقلید کی الٹی سیدھی تعریفات اوراس سے من مانے نتائج اخذ کرتے وقت ایک مرتبہ یہ تو دیکھ لیں کہ ماقبل کے علماء نے کیاکہاہے اور کیاجس نتیجے تک آپ پہنچے ہیں، کسی اورنے بھی آپ کی موافقت کی ہے یانہیں ؟
میاں نذیر حسین دہلوی نے لغوی اصطلاحی تقلید مراد لیا ہے۔ یہ بات متعدد بار بحوالہ بتلائی گئی ہے!
میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کی عبارت میں اختلاف اورتناقض بذات خود موجود ہے ،غورسے پڑھیں گے تویہ اس اختلاف کی نشاندہی مشکل نہیں ہوگی ۔
مگر فرق تو بہت ہے، ایک جائز و حلال ، بلکہ اس عمل پر اللہ تعالیٰ کا حکم موجود ہے!دوسرا ناجائز و حرام، جس عمل پر قرآن و حدیث میں ممانعت وارد ہے!
قرآن سے تقلید کی ممانعت ثابت کردیجئے، اس تقلید کی ممانعت جو ائمہ اربعہ کے پیروکار یامقلدین کرتے ہیں!غورسے دیکھئے گاقرآن نے اتباع کرنے اور اتباع نہ کرنے کا ہی حکم دیاہے، شیطان کی پیروی کیلئے بھی اتباع کا ہی لفظ مستعمل ہے۔
جبکہ اصطلاحی تقلید میں کسی کے قول کو قبول دلائل اربعہ کے تحت قبول و رد کرنے کا اعتقاد نہیں رکھا جاتا، بلکہ خود کو قرآن و حدیث سے لا تعلق رکھتے ہوئے، اپنے مُقَلَدْ کے قول کو خود پر حجت سمجھتا ہے۔
یہ بھی بے خبری اورجہالت کی بات ہے، جس آدمی نے مجتہدین کے طبقات کے بارے میں پڑھ رکھاہے،وہ ایسی لایعنی بات کیسے قبول کرلے گا، آپ نے دوسروں کو بھی اپنا ہم مسلک سمجھ رکھاہے کہ کچھ بھی لکھ دو ،مان لیں گے۔
آسان لفظوں میں کہ فقہی اصطلاح میں دلائل شرعیہ کی پیروی اتباع ہے، اور دلائل شرعیہ کے علاوہ کسی کے قول کی پیروی تقلید ہے!
اس کا جواب ہوچکا۔
بلکل، لا علمی کے وقت مجتہد کی بات تسلیم کرنا دونوں میں مشترک ہے، لیکن اصطلاحی تقلید میں مجتہد کے قول کو بلادلیل قبول کرنا ہے، جبکہ عرف میں دلائل اربعہ کے تحت مجتہد کے قول کو قبول کرنا ہے!
بلادلیل پر ماقبل میں تفصیلی وضاحت کردی گئی ہے۔
سوال: از سید سلیمان۔ حیدرآباد دکن۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین یہاں پر ماہ رمضان شریف میں
آپ ذرا وہ کتابیں کھولئے جہاں صحابہ کرام اورتابعین عظام کے فتاویٰ ہیں اور بتائیے کہ کتنے سائلین کے جواب میں صحابہ وتابعین نے قرآن وحدیث سے جواب دیاہے اور کتنے سائلین قرآن وحدیث سے جواب چاہئے کا مطالبہ کرتے تھے، سوال کرتے تھے، جواب ملتاتھا،لوٹ جاتے تھے،عامیوں کیلئے یہی طریقہ ہے اور ہرفن میں اسی کو اختیار کیاجاتاہے، آج تک کس عامی نے ڈاکٹر اوروکیل سے دلیل کا مطالبہ کیاہے؟اگرایک جاہل نہیں کم علم ہی کے سامنے آپ نے دوحدیثیں پیش کردیں اور لکھ دیاکہ سندہ صحیح،اس سے اس کو کیافائدہ ہوگا، اس کو کیامعلوم کہ سند کسے کہتے ہیں، یہ کس طرح صحیح اور ضعیف ہوتی ہے، سند کو صحیح اور ضعیف قر اردینے کا معیار کیاہے، محدثین کرام کی درجہ بندی کیاہے، راویوں پر صحت وضعف کا حکم کیسے لگایاجاتاہے، روایت کے متابعات وشواہد کیاہیں، میں نے پہلے بھی عرض کیاہے کہ دلیل پڑھنے اور دلیل سمجھنے میں جو آسمان زمین کا فرق ہے وہ برقرار رہیں ،ایک فارغ شدہ عالم اور ایک مجتہد کو ایک ہی مقام پر لاکرنہ بٹھادیں۔
جب عرف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ، اجماع اور عامی کا مفتی کا قول پر عمل تقلید کہلاتا ہے، اور اصطلاح میں یہ تقلید نہیں، تو یہاں فرق اسی شرعی امور کے معاملہ میں بیان ہوا ہے!

اس بارے میں ماقبل میں عرض کرچکاہوں کہ دوبارہ سے کتب فقہ احناف کو دیکھئے کہ عامی کا مفتی کے قول پر عمل اصطلاحی اعتبار سے بھی تقلید ہی ہے اصولیین فقہائے احناف نے اس کی وضاحت کی ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ!
میں اپنا سوال دہراتا ہوں، اس کا جواب عنایت فرمادیں!
یہ اگر کیوں؟
میں دیگر کتب میں بیان شدہ تقلید کی تعریف کو پیش نہیں کرتا، بلکہ اسی کتاب میں فقہائے احناف کی بیان کردہ تعریف، جو دو حوالوں سے مذکور ہے، اور وہ یہاں پیش بھی کی گئی ہیں، اس کے باوجود ''اگر'' والی بات صرف اسی صورت ممکن ہے کہ آپ ان فقہائے احناف کی کی گئی تقلید کی تعرف کو قبول نہیں کرتے!
اگر قبول ہے، تو یہ اگر نہیں ہونا چاہئے!
آ پ اپنا مؤقف بتلادیں کہ آیا آپ کو فقہائے احناف کی بیان کردہ تقلید کی تعریف قبول ہے یا نہیں!
اس کا جواب مطلوب ہے، پھر بات آگے بڑھاتے ہیں۔
 
Top