• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجاج بن یوسف رحمہ اللہ خدمات کا مختصر تعارف

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
حجاج بن یوسف کے خلاف صحیح مسلم کتاب الفضائل بابذكر كذاب ثقيف ومبيرها

میں حدیث موجود ہےکہ وہ سفاک تھا سیدہ اسماء نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے نسبت سفاک قرار دیا . اس لئے اسے رحمہ اللہ کہنے سے تو کم سے کم گریز کرنا چاہئے.
@ابو حمزہ بھائی، یہ ایک صحابیہ کا اپنا ایک قول تھا، حدیث مبارکہ میں آنحضرت ﷺ نے کسی آدمی کا صراحتا نام لے کر "سفاک" نہیں کہا تھا۔ اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے بھی اس قول کو اس وقت ادا کیا جب امیر حجاج نے انکے بیٹے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تھا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
حجاج بن یوسف کے خلاف صحیح مسلم کتاب الفضائل بابذكر كذاب ثقيف ومبيرها

میں حدیث موجود ہےکہ وہ سفاک تھا سیدہ اسماء نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے نسبت سفاک قرار دیا . اس لئے اسے رحمہ اللہ کہنے سے تو کم سے کم گریز کرنا چاہئے.
محترم -

جلد بازی سے کام نہ لیں - حمیر یوسف صاحب کی اس پوسٹ کا بھی اچھی طرح مطالعہ کرلیں -

پوسٹ نبر ٤٧ "حجاج بن یوسف رحمہ اللہ خدمات کا مختصر تعارف"

کافی پہلے میں نے اردو مجلس فورم پر ایک تھریڈ دیکھا تھا، اس میں سے کچھ چیدہ چیدہ پوائنٹس یہاں شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ اسمیں کچھ باتوں کا دھیان رکھا جائے۔ میں امیر حجاج کو ایک قطعی ایک فرشتہ نہیں کہتا، لیکن یہ بھی میری مراد نہیں کہ انکےکچھ انکے "اچھے" اقدامات کی تعریف نہیں کی جائے۔ ہمیں اہل سنت ہونے کے ناطے توازن کو برقرار رکھنا ہر حالت میں چاہئے اور کبھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہئے۔ اب ملاحظہ ہو امیر حجاج کے متعلق کچھ حقائق

نوٹ: یہاں ضروری نہیں کہ میری ان باتوں سے سبھی متفق ہوں، ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو انکو تسلیم کرلے یا رد کردے۔ میں اپنی رائے کبھی دوسروں پر تھوپنا پسند نہیں کرونگا۔

کتاب: صحیفہ ٹیپوسلطان (محمود خان بنگلوری) ۔ صفحہ 214

اسلام کی تاریخ پر اگر خلیفہ چہارم حضرت علی رضی الہ عنہ کے زمانے سے لیکر اس وقت تک گہری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے افتراق و زوال کا ذمہ دار تقریبا سو فیصد عجم ہے۔ اور یہی افتراق مسلمانوں کے زوال کا اصلی سبب ہے۔عجم کا سب سے بڑا حربہ "سازش" ہے۔ جس سے اس نے بہت بڑا فائدہ اٹھایا۔ اس سازش نے بنی امیہ، بنی عباس اور دوسری اسلامی سلطنتوں کا تختہ الٹ دیا۔ اسی لئے ایک مورخ کا یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ

"عجم ، گھن کا کیڑا تھا، جو عصائے اسلام کو اندر ہی سے کھا گیا"

عجم کے حربوں میں ایک "حربہ" امتیاز حسب و نسب اور رنگ و خون بھی ہے۔ اسلام نے اسکو عرب میں مٹا دیا ۔ عجم نے اسکو زندہ کیا۔ اور اس نظریہ کو ہندوستان میں پھیلانے والےوہ اہل "نوائط" ہیں جو عجم (کوفہ) سے ہندوستان آئے۔ ان اہل نوائط کے متعلق کرنل ولکوکس اپنی تاریخ میسور میں خود اہل نوائط کی تاریخ "سعادت نامہ" کے حوالے سے اور نوائط کے بہت سے افراد کی زبانی تصدیق کرکے اس طرح لکھتا ہے۔

"پہلی صدی ہجری کے آخر میں حجاج بن یوسف نے جو خلیفہ عبدالمالک بن مروان کی جانب سے عراق کا گورنر تھا۔ اور جو اپنے ظلم و ستم کے لئے مشہور ہے، چند معزز اور مالدار افراد بنی ہاشم کو اس قدر ستایا کہ وہ اپنا وطن کوفہ (جو اس زمانے کا مشہور شہر تھا اور جو حضرت علی رض کے مقبرے کے نزدیک اور دریائے فرات کے کنارے پر ہے)، چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور یہاں کے باشندوں کی مہربانیوں سے اپنےاہل عیال اور سامان وغیرہ ساتھ لیکر نکلے۔ اور خلیج فارس کے کنارے سے آکر جہازوں پر سوار ہوکر ہندوستان آئے۔

آگے آکر ولکوکس لکھتا ہے، "کوفہ سے نکل بنی ہاشم کا یہ خاندان ہندوستان کے اس حصے میں پناہ گزین ہوگیا، جسکو "دکن" کہا جاتا ہے، اور یہاں یہ "نوایت" کہلائے، جسکے معنی "نئے آنے والے" کے ہیں۔ یہ لفظ فارسی اور مرہٹی زبان کا مخلوط لفظ ہے۔ جسکے معنی فارسی لفظ "نو" سے لیا اور مرہٹی لفظ "آیت" سے آنے والا ہے۔ ان لوگوں نےاپنے حسب و نسب اور خون کو آمیزش سے پاک رکھنے کےلئے ، عام مسلمانوں کے بڑے بڑے خاندانوں میں شادی کرنے سے انکار کیا اور احتراز کیا۔ "

سعادت نامہ کی اس روایت کو جسکی خود نوائط نے تصدیق کی ہے، تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ البتہ تاریخی نقطہ نظر سے دیکھنا یہ ہےکہ جو لوگ کوفہ سے نکل کر ہندوستان آئے وہ بنی ہاشم تھے یا کوئی اور؟ اہل نوائط کی اس روایت میں کہا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف کے ظلم سے بچنے کے لئے یہ لوگ ہندوستان میں آئے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ حجاج بن یوسف کا زمانہ 73ھ کا ہے۔ یعنی حضرت حسین رض کی شہادت کے گیارہ سال کے بعد۔

حضرت حسین رض (جو خاندان بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے) کی شہادت 61ھ میں ہوئی تھی۔ اسکے بعد اہل بیت کو امیر یزید نے بہ اعزاز و اکرام حجاز میں بھیج دیا۔ امیر یزید کا انتقال 64ھ میں ہوا تھا۔ اسکے بعدمعاویہ بن یزید نے چند دن کےک حکومت سے دست برداری حاصل کرلی تھی۔ اسی سال ذی الحجہ میں مروان بن حکم خلیفہ ہوا۔ اور رمضان 65ھ میں اسکی وفات پر عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوا۔

یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مکہ معظمہ میں حضرت حسین رض کی شہادت کے بعد ، حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے خلافت کا دعویٰ کیا۔ تو دوسری جانب کوفہ میں مختار ثقفی قاتلان حسین سے بدلہ لینے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ اور بنی ہاشم سے ساز باز شروع کردی۔ اس کام کے لئے اس نے اپنے ایجنٹوں کو مکہ روانہ کیا۔ اب بنی ہاشم کے رویہ کا دیکھ کر اس خاندان کے معزز افراد یا سوار مندرجہ زیل اصحاب تھے (1) حضرت علی بن حسین (زین العابدین) (2) حضرت ابن عباس رض (3) حضرت محمد بن الحنفیہ

ان تینوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رض کی بیعت نہیں کی۔ بلکہ بالکل غیر جانبدار رہے۔ 73 ھ زیقدہ میں عبدالملک نے حجاج بن یوسف کو حضرت ابن زبیر رض کے مقابلہ پر روانہ کیا۔ اس نے کعبہ پر آتش زنی اور سنگ باری کی، یہاں تک حضرت عبداللہ بن زبیر رض شہید ہوگئے۔ اس وقت حضرت زین العابدین، حضرت محمد بن الحنفیہ اور حضرت ابن عباس رض مکہ ہی میں مقیم رہے۔ اس لئے حجاج بن یوسف پر یہ الزام کہ اس نے بنی ہاشم پر مظالم کئے، بالکل بے بنیاد ہے۔ اب دوسرا واقعہ مختار ثقفی کا دیکھئے۔

مختار کے ایجنٹ نے جب مکہ آکر قاتلان حسین سے بدلہ لینے کے لئے بنی ہاشم کی مدد چاہی۔ تو حضرت زین العابدین نے اسکی درخواست قبول نہیں کی بلکہ اسکی مخالفت کی۔ مختار ثقفی نے یہ تحریک اپنی خاص سیاسی مصلحتوں کے مدنظر رکھ کر شروع کی تھی، کوفی اسکے ساتھ مل گئے تھے جو تمام تر عجمی تھے۔ (سیر الصحابہ ، جلد ششم صفحہ 270)

ان مندرجہ بالا تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے بنی ہاشم ، مکہ یا مدینہ چھوڑ کر باہر نہیں گئے تھے اور اس سلوک ، جو ابھی گیارہ سال پہلے ان کوفیوں نے حضرت حسین رض اور اہل بیت سے کیا تھا (انکی شہادت میں سب سے بڑا ہاتھ، ان کوفیوں ہی کا تھا) دیکھتے ہوئے قیاس میں بھی نہیں آسکتا کہ بنی ہاشم پھر کوفہ جائیں۔ لہذہ یہ روایت قطعا غلط ہے کہ حجاز میں حجاج بن یوسف کے مظالم سے تنگ آکر بنی ہاشم کوفہ آگئے ہوں۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہاں بھی جب حجاج کے مظالم شروع ہوئے تو یہ ہندوستان آگئے تھے۔

اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ بنی ہاشم حجاز چھوڑ کر باہر نکلے ہی نہیں تھے، نیز یہ حجاج نے پر کوئی ظلم ہی نہیں کیا تھا، کیونکہ ان لوگوں نے اس وقت عبداللہ بن زبیر یا مختار ثقفی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ہاں اسمیں شک نہیں کہ حجاج نے ابن زبیر کے معاملے سے فارغ ہوکر کوفہ کی گورنری سنبھالی تھی، اور یہاں ان لوگوں سے انتقام لیا، جو مختار ثقفی کے حلیف تھے۔ یہ لکھا جاچکا ہے کہ مختار کا ساتھ دینے والے تمام عجمی کوفی تھے۔ حجاج نے ان سے انتقام لیا۔ (حضرت حسین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ کوفی پہلے تو حضرت حسین کے طرفدار تھے، انہوں نے حضرت حسین رض کا کوفہ بلایا، لیکن جب امیر یزید کے گورنر،عبیداللہ بن زیاد نے سیم و زر کی تھیلیاں پیش کی اور ڈرایا دھمکایا۔ تو انہوں نے ہوا کا رخ دیکھ کر حضرت مسلم ، جو حضرت حسین کےسفیر تھے، شہید کردیا۔ اور بعد میں انہی لوگوں نے حضرت حسین کو بھی شہید کردیا۔ اس واقعہ کے چند سال بعد جب بنی امیہ کے خلاف مختار ثقفی نے قاتلان حسین سے انتقام لینے کا دعویٰ کیا، تو سوائے چند کوفیوں کے جنکو مختار نے قتل کیا تھا، باقی قاتلان حسین ، اسکے ساتھ مل گئے۔ اور یہی وہ کوفی تھے جنکو امیر حجاج نے قتل کروایا تھا اور ان سے انتقام لیا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو لوگ کوفہ سے بھاگ گئے تھے وہ یہی باقی ماندہ قاتلان حسین تھے ۔ (سیر الصحابہ جلد ششم، صفحہ 233)

اسطرح یہ بات پایہ ثبوت کہ پہنچ جاتی ہے کہ امیر حجاج بن یوسف کے وہ قتل و غارتگری کے افسانے ، افسانے ہی ہیں جسمیں اسکو ایک ظالم درندہ ثابت کیا گیا ہے۔جس نے اہل بیت ، شیعوں اور عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ امیر حجاج نے صرف ان لوگوں سے انتقام لیا اور انکو قتل و غیرہ کیا جو شورش اور بغاوت میں عملی کردار ادا کررہے تھے اور بدقماش اور بدفطرت ٹائپ کےلوگ تھے۔ حکومت وقت کے لئے ایک خطرہ وپریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اس لئے حجاج نے نہ صرف انہی لوگوں کو تہہ تیغ کیا جو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پرامن لوگوں اور بے گناہ لوگوں پر کبھی اس نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کے ظم و ستم سے عاجز آکر لوگ عرب چھوڑ کر ہندوستان چلے آئےتھے۔

حجاج جب کوفہ کا گورنر ہوا تو اس نے کوفہ والوں سے بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ ان عجمیوں سے بدلہ لیا جو مختار کے ساتھ تھے اور بنی امیہ کے مخالف تھے۔ سعادت نامہ کی روایت کو بے اضافہ لکھا جائے اور اوپر دئے ہوئے تاریخی واقعات کو دیکھیں تو بلامبالغہ معلوم ہوگا کہ یہ بنی ہاشم نہیں ہیں جو ہندوستان بھاگ کر آئے تھے۔ بلکہ کوفی اور عجمی تھے۔ اب رہا نسب نامہ، تو یہ ولکس کے قول کے مطابق ہمیشہ سے دستور رہا ہے، کہ مسلمانوں میں جو شخص مالدار ہوا، نسب نامہ تیار کرنے لگا۔ اس لحاظ سے بنی ہاشم سے،قریش سے یا کسی اور سے نسب کو جوڑنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ اور یہ کام آج بھی جاری ہے۔

ماخذ: عجمی مجوس اور انکی تباہ کاریاں
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
چونکہ پوسٹ کا عنوان ہے امیر حجاج کی خدمات، اسی لئے پوسٹ کی ہی مناسبت سے کچھ مزید امیر حجاج کی خدمات و قابل تحسین اقدامات ملاحظہ ہوں، جو ویب گردی کے دوران مجھے ایک ایک ویب سائٹ سے میسر ہوئے۔ جن حضرات کو امیر حجاج کے مبینہ مظالم کے بارے میں کچھ لکھنا ہے، وہ بقول فیض الابرار بھائی کے کوئی اور تھریڈ بناکر وہاں یہ باتیں پوسٹ کرسکتے ہیں۔ جو مندرجہ بالا تھریڈ کا عنوان ہے، کوشش یہ کرنا چاہئے کہ اپنی شئیرنگ عنوان کے مناسبت سے ہی ہو۔اس پوسٹ میں بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے میں بھی متفق نہیں، لیکن جو باتیں میں انڈرلائن کرونگا، اس پر کوئی صاحب دل اور تحمل مزاجی سے سوچ رکھنے والا بندہ غور کرے۔ جزکم اللہ خیرا
----------------------------------------------------------------------------
ماخذ: حجاج بن یوسف اور اس کی عراق آمد
حجاج بن یوسف 40 ہجری میں طائف میں پیدا ہوئے۔ عام طور اور تاریخ میں متعدد مقامات پر حجاج کو ایک سخت گیر، ظالم اور سفاک حاکم کے طور پر یاد کیا جا تا ہے۔ حجاج کے مظالم کی دستان بلا شبہ درست ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حجاج کو حجاز کی گورنری ملی تو اس نے مختلف افراد جن میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ بھی شامل تھے کے ساتھ زیادتیاں کیں ان کے جسم اور گردنوں کو داغا گیا اور ان کو ذلیل و رسوا کیا گیا ۔ حجاج بن یوسف وہی شخص تھا جس نے خانہ کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے اور جس کی آنکھوں میں حضرت عبد اللہ بن زبیر کو قتل کرتے وقت کسی قسم کا کوئی رحم نظر نہیں آیا۔اموی دورِ خلافت کے استحکام میں حجاج کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ خاندانِ مروان سے اس کو ایک خاص انسیت تھی۔ اس کی پہلے وفا داریاں عبد الملک بن مروان کے ساتھ رہیں اور ان کی وفات کے بعد حجاج نے خلیفہ ولید بن عبد الملک کے لئے کام کیا۔

حجاج اس وقت میں اٹھ کھڑا ہوا تھا جب مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگیاں عروج پر تھیں۔باغیوں اور دشمنوں پر حجاج صاعقہ بن کر کوندا تھا اور اس کی تلوار نے بے شمار افراد کی گردنیں ان کے جسموں سے الگ کی تھیں لیکن جہاں ہم حجاج کے یہ سفاکانہ مظالم دیکھتے ہیں وہیں ہمارے سامنے حجاج کی زندگی کا ایک ایسا باب بھی ہے جو اسے ایک اسلام دوست کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔بلا شبہ ان مظالم نے حجاج کو بدنام کیا لیکن یہ بات بھی تاریخ میں ملتی ہے کہ اگر حجاج اس وقت اٹھ کھڑا نہ ہوتا تو مسلمان شاید اسی دور میں آپس میں لڑ کر جدا ہو گئے ہوتے۔ساتھ ہی ساتھ خلیفہ ولید کا دور وہ دور ہے جس میں مسلمان ایک بار پھر ایک ایک جگہ جمع ہو کر پوری دنیا میں پھیل رہے تھے۔

تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جہاں حجاج کی زندگی کا آدھا حصہ مسلمانوں اور بالخصوص صحابہ کرام پر مظالم کرتے گزر گیا وہیں اس کی باقی آدھی زندگی ان اسلامی فتوحات کی راہیں ہموار کرنے میں گزر گئی جنہوں نے بعد ازاں اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ اندلس، افریقہ، بلخ، بخارا، سمر قند، سندھ اور ملتان جیسے اہم ترین شہر جنہوں نے عرب سے نکل کر یورپ، افریقہ اور بر صغیر میں اشاعتِ اسلام کے نئے باب کھولے بلا شبہ ایسے کارنامے ہیں جو ایک ایسے ظالم کے حصے میں آئے جس کی آنکھیں رسول اللہ کے ساتھیوں پر ظلم ہوتے دیکھ کر نم نہ ہوئیں۔ یہی وہ آنکھیں تھیں جو اس وقت نم ہو گئیں جب دیبل کے قید خانے سے ایک مظلوم لڑکی کا خط اس کے ہاتھ میں تھا۔خانہ کعبہ کی تعمیر (حجاج کی مکہ آمد پر) حجاج ہی نے کروائی اور عمارت کو دوبارہ اسی شکل میں ڈھالا جس میں پہلے تھی۔


قرآن پر اعراب لگوانے کا کارنامہ ، تا کہ غیر عربی بھی قرآن کو با آسانی پڑھ سکیں حجاج ہی کے حکم سے انجام پایا تھا۔ حجاج کی تقریر جو کہ اس نے کوفہ آمد پر کی ہمیں اس وقت کے حالات کے بارے میں سمجھنے میں آسانی دیتی ہے ساتھ ہی ہمیں حجاج کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ حجاج، عبد الملک کے حکم پر کوفہ پہنچا اور چونکے اس کی آمد کے متعلق کسی کو کوئی خبر نہ تھی اس لئے لوگوں نے اس کو خارجی سجھ کر ہتھیار سنبھالنا چاہے۔ اس وقت حجاج نے چہرے پر ایک باریک سرخ کپڑا ڈھانپ رکھا تھا جسے اس نے یہ اشعار کہتے ہوئے اتارا: “میں وہ آفتاب ہوں جو پردہ ظلمت کو چاک کر دیتا ہے۔ میں گھاٹیوں پر چڑھنے والا ہوں، جب میں اپنا عمامہ اتاروں گا تب تم مجھے پہچان لو گے۔”اس کے بعد وہ مسجد میں گیا اور منبر پر چڑھ کر لوگوں کو جمع کر کے یہ تقریر کی:

بخدا میں شر کو اس کے کجاوہ میں لاد دیتا ہوں اور جو جیسا کرتا ہے اس کو ویسا ہی بدلہ دیتا ہوں۔میں بہت سے سروں کو دیکھ رہا ہوں جو پک گئے ہیں اور ان کے توڑنے کا وقت قریب آگیا ہے اور میں عماموں اور داڑھیوں کو خون سے زعفرانی دیکھ رہا ہوں۔اے عراق کے لوگو! جان لو کہ میں انجیر کی طرح دبایا نہیں جا سکتا اور نہ پوشیدہ خشک مشک سے ڈرایا جا سکتا ہوں۔میرا تقرر بڑی دانائی سے کیا گیا ہے اور مجھے بہت اہم فرائض انجام دینے ہیں۔امیر المومنین نے اپنے ترکش سے تمام تیر نکالے اور سب کو اپنے دانتوں سے کاٹا اور مجھے ہی سب سے سخت اور مضبوط پایا، اسی لئے انہوں نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے کیونکہ عرصہ دراز سے فتنہ و فساد تمہارا شیوہ ہو گیا ہے اور بغاوت تمہارا دستور العمل۔ مگر سمجھ لو کہ میں تمہاری اس طرح کھال ادھیڑوں گا جس طرح لکڑی سے چھال اتاری جاتی ہے۔ اور اس طرح قطع کر ڈالوں گا جس طرح خشک خار دار ببول کا درخت اور اس طرح تمہیں ماروں گا جیسے ایک اجنبی اونٹ پیٹا جاتا ہے۔بخدا میں وعدہ کرتا ہوں اور اسے وفا کرتا ہوں اور جو کام کرنے کا ارادہ کرتا ہوں اسے پورا کرتا ہوں۔ اس لئے مجھ سے اور ان جماعتوں سے ڈرو اور قیل و قال سے بچو اور جن کاموں میں تم نے خود کو ڈالا ہوا ہے ان سے نکلو۔یا تو تم لوگ خود کو ٹھیک کر لو ورنہ یاد رکھو مہلب کی فوج سے جو لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ تین دن بعد یہاں نظر آئے تو ان کو قتل کر دوں گا اور ان کی جائداد ضبط کر لوں گا۔بہتر ہے کہ تم اپنی حالت درست کر لو ورنہ تمہیں ایسی ذلت کا مزہ چکھاؤں گا کہ تم باز آجاؤ گے۔میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یا تو تم لوگ میرے ہاتھ سے انصاف قبول کر لو فتنہ و فساد اور جھوٹی افواہوں سے باز آجاؤ اور ورنہ معمولی قتل و غارت کیا شے ہے میں تلوار سے تمہارے ایسی قطع و برید کروں گا کہ تمہاری عورتیں بیوہ اور تمہارے بچے یتیم ہو جائیں گے۔یاد رکھو اگر تم اپنی یہ حرکتیں ترک نہ کرو گے تو میں ہوں اور یہ جماعتیں ہیں۔ مجھے اس بات کی خبر ملی ہے کہ تم لوگ فوج سے منہ موڑ کر واپس اپنے گھروں کو آگئے ہو، اگر آج سے تین دن کے بعد مجھے تم میں کوئی نظر آیا تو میں اسے قتل کر دوں گا۔”

یہی وہ حجاج تھا اور یہی اس کے الفاظ جنہوں نے بعد میں افواجِ اسلام کے لئے نئی راہیں ہموار کیں اور جن کی بدولت اسلامی لشکر نئی راہوں کو پیروں تلے روند کر تاریخِ عالم میں نئے ابواب کا اضافہ کر رہا تھا۔
---------------------------------------------------------------------------
 
Last edited:

fareedchohan56

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2015
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
سلام عليكم ورحمة الله وبركاته میرے بہائیو مجھکو نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری خطبہ چاہیے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
بڑے بڑے بزرگ اس بحث میں موجود ہیں ، کسی کو بھی نصیحت کرنے کی اہلیت نہیں ، گزارش ہے کہ موضوع پر رہیں ، اور موضوع متعین کرنے کا حق محترم فیض الابرار صاحب کو دیں کیونکہ وہ اس لڑی کو شروع کرنے والے ہیں ، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی اور موضوع ہونا چاہیے تو الگ سے شروع کیاجاسکتا ہے ۔
بحث و مباحثہ میں ہلکی پھلکی تلخی بھی آجاتی ہے ، کوئی حرج نہیں ، اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ، لیکن موضوع سے نہ ہٹیں ، بحث علمی و مفید ہی رہنی چاہیے ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
مجھے حرف اخیر کے طور پر یہ کہنا ہے کہ جس ساتھی کو حجاج بن یوسف کا ظلم و ستم بیان کرنا ہے اور اس پر لعنت والا موقف اور اس پر دلائل بیان کرنا چاہتا ہے وہ الگ سے تھریڈ قائم کر لے اور وہاں یہ سارے دلائل پوسٹ کیے جائیں صرف حافظ ذہبی کے ایک قول کو مسلسل بیان کیے جانا جس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں یہ علمی انداز بیان نہیں
جزاکم اللہ خیرا
اب اگر کسی ساتھی نے موضوع کی مناسبت سے کوئی تبصرہ کیا یا رد کیا تو میں جواب دوں گا ورنہ فی امان اللہ
ٹھیک ھے ۔ میں حجاج بن یوسف کے مظالم والے واقعات کا تذکرہ نہیں کرتا ۔ آپ نے جو موضوع کا عنوان رکھا ہے اسی پر بات کرتا ھوں
ہمارے اسلاف میں سے کسی نے حجاج بن یوسف کی تعریف کی ہے کہ ہم اس کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ لگا سکیں ۔ اگر کسی نے تعریف کی ہے تو حوالہ درکار ہے
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
@ابو حمزہ بھائی، یہ ایک صحابیہ کا اپنا ایک قول تھا، حدیث مبارکہ میں آنحضرت ﷺ نے کسی آدمی کا صراحتا نام لے کر "سفاک" نہیں کہا تھا۔ اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے بھی اس قول کو اس وقت ادا کیا جب امیر حجاج نے انکے بیٹے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تھا۔
السلام علیکم ، بھائی ہمارے لئے تو کم سے کم یہ دلیل ہی کافی ہے ۔۔ آپ غالبن یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ اس نے سیدہ اسماء رضہ کے بیٹے کو شہید کیا تھا اس لئے انہوں جذبات میں آکر اسے اس قول کی نسبت دی، لیکن ایسا نہین ان نے واقعی میں بہت زیادہ ظلم کیا اور سیدہ نے بجا طور پر اس کو سفاک کہا۔۔۔یہاں مظلوم صحابیہ کی عدالت کو چیلینج مت کریں وہ صحابیہ تھیں۔۔۔۔۔نہ ہی وہ کسی کے متعلق محض جذبات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کی نسبت کرتی ہیں ۔آپ کو معلوم ہے کہ کسی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذمتی قول پیش کرنے کا کیا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔ میں شاید اپ کو کافی عرصہ سے جانتا ہوں آپ یقنن مختار کے رد میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں -- پھر تو مختار بھی چھوٹ جاتا ہے
دوسری بات یہ سیدہ رضہ کی تشریع کو امت نے تواتر کے ساتھ ہی قبول کیا ہے میرہ خیال ہے حجاج سفاک ہی تھا قول حضور علیہ السلام کی روشنی میں
تیسری بات
آپ اس حدیث کا مصداق کسے مانتے ہیں ؟ کیااب تک ثقیف مختار جیسا کذاب اور حجاج جیسا ظالم پیدا ہوا ہے ،، اپ کو علم ہے تو ہمیں آگاہ کریں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ٹھیک ھے ۔ میں حجاج بن یوسف کے مظالم والے واقعات کا تذکرہ نہیں کرتا ۔ آپ نے جو موضوع کا عنوان رکھا ہے اسی پر بات کرتا ھوں
ہمارے اسلاف میں سے کسی نے حجاج بن یوسف کی تعریف کی ہے کہ ہم اس کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ لگا سکیں ۔ اگر کسی نے تعریف کی ہے تو حوالہ درکار ہے
آپ کا سوال بہت زبردست ہے کہ کیا اس کی مذکورہ بالا حسنات اس قابل ہیں کہ اس کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ لگایا جا سکے ؟
اور یہ کہ اگر کسی نے آج تک حجاج بن یوسف کو رحمہ اللہ نہیں کہا تو کیا کوئی اس کے لیے دعائیہ کلمات کا استعمال کر سکتا ہے یا نہیں ؟
میں اس پر آپ کو جلد ہی جواب دوں گا بفضل اللہ تعالی
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
السلام علیکم ، بھائی ہمارے لئے تو کم سے کم یہ دلیل ہی کافی ہے
وعلیکم السلام بھائی، ٹھیک ہے آپ کے لئے یہی دلیل کافی ہے، لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ امیر حجاج کو اس قدر قتل و
غارتگری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اسکی اس مبینہ سفاکی کا نشانہ کون لوگ بنے؟ اسکے لئے میں نے اپنی گزشتہ دو پوسٹوں میں کچھ نکات بھی تحریر کئے تھے، شائد محترم بھائی نے اس پر توجہ نہیں ڈالی۔ خیر میں دوبارہ سے یہاں نمبر وار تحریر کردیتا ہوں۔
  1. بلا شبہ ان مظالم نے حجاج کو بدنام کیا لیکن یہ بات بھی تاریخ میں ملتی ہے کہ اگر حجاج اس وقت اٹھ کھڑا نہ ہوتا تو مسلمان شاید اسی دور میں آپس میں لڑ کر جدا ہو گئے ہوتے
  2. حجاج کی تقریر جو کہ اس نے کوفہ آمد پر کی ہمیں اس وقت کے حالات کے بارے میں سمجھنے میں آسانی دیتی ہے ساتھ ہی ہمیں حجاج کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
  3. بخدا میں شر کو اس کے کجاوہ میں لاد دیتا ہوں اور جو جیسا کرتا ہے اس کو ویسا ہی بدلہ دیتا ہوں۔(حجاج کی تقریر کا حصہ)
  4. میرا تقرر بڑی دانائی سے کیا گیا ہے اور مجھے بہت اہم فرائض انجام دینے ہیں۔ (حجاج کی تقریر کا حصہ)
  5. امیر المومنین نے اپنے ترکش سے تمام تیر نکالے اور سب کو اپنے دانتوں سے کاٹا اور مجھے ہی سب سے سخت اور مضبوط پایا، اسی لئے انہوں نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے کیونکہ عرصہ دراز سے فتنہ و فساد تمہارا شیوہ ہو گیا ہے اور بغاوت تمہارا دستور العمل (حجاج کی تقریر کا حصہ)
  6. جن کاموں میں تم نے خود کو ڈالا ہوا ہے ان سے نکلو۔یا تو تم لوگ خود کو ٹھیک کر لو ورنہ یاد رکھو مہلب کی فوج سے جو لوگ بھاگ کر آئے ہیں وہ تین دن بعد یہاں نظر آئے تو ان کو قتل کر دوں گا اور ان کی جائداد ضبط کر لوں گا (حجاج کی تقریر کا حصہ)
  7. یا تو تم لوگ میرے ہاتھ سے انصاف قبول کر لو فتنہ و فساد اور جھوٹی افواہوں سے باز آجاؤ (حجاج کی تقریر کا حصہ)
  8. اس وقت حضرت زین العابدین، حضرت محمد بن الحنفیہ اور حضرت ابن عباس رض مکہ ہی میں مقیم رہے۔ اس لئے حجاج بن یوسف پر یہ الزام کہ اس نے بنی ہاشم پر مظالم کئے، بالکل بے بنیاد ہے (کعبہ جہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رض پناہ لئے ہوئے تھے، اس پر سنگ باری اور حملہ کے باوجود اہل مکہ جہاں بنی ہاشم اور دیگر مسلمان موجود تھے، انکو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچانا، جسکا ثبوت اوپر تینوں حضرات کا مکہ میں موجودگی کے باوجود صحیح سلامت رہنا)
  9. مختار ثقفی نے یہ تحریک اپنی خاص سیاسی مصلحتوں کے مدنظر رکھ کر شروع کی تھی، کوفی اسکے ساتھ مل گئے تھے جو تمام تر عجمی تھے۔ (سیر الصحابہ ، جلد ششم صفحہ 270)
  10. حجاج نے ابن زبیر کے معاملے سے فارغ ہوکر کوفہ کی گورنری سنبھالی تھی، اور یہاں ان لوگوں سے انتقام لیا، جو مختار ثقفی کے حلیف تھے
  11. جب بنی امیہ کے خلاف مختار ثقفی نے قاتلان حسین سے انتقام لینے کا دعویٰ کیا، تو سوائے چند کوفیوں کے جنکو مختار نے قتل کیا تھا، باقی قاتلان حسین ، اسکے ساتھ مل گئے۔ اور یہی وہ کوفی تھے جنکو امیر حجاج نے قتل کروایا تھا اور ان سے انتقام لیا۔
  12. امیر حجاج بن یوسف کے وہ قتل و غارتگری کے افسانے ، افسانے ہی ہیں جسمیں اسکو ایک ظالم درندہ ثابت کیا گیا ہے۔جس نے اہل بیت ، شیعوں اور عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ امیر حجاج نے صرف ان لوگوں سے انتقام لیا اور انکو قتل و غیرہ کیا جو شورش اور بغاوت میں عملی کردار ادا کررہے تھے اور بدقماش اور بدفطرت ٹائپ کےلوگ تھے۔ حکومت وقت کے لئے ایک خطرہ وپریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اس لئے حجاج نے نہ صرف انہی لوگوں کو تہہ تیغ کیا جو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پرامن لوگوں اور بے گناہ لوگوں پر کبھی اس نے ہاتھ نہیں اٹھایا
جی تو محترم بھائی اب آئی آپ کوکچھ سمجھ کہ امیر حجاج پر یہ جو بے انتہاء قتل غارتگری و سفاکیت (اسمیں بھی مبالغہ آمیزی زیادہ ہے) اسکی حقیقت کیا ہے؟ ایمانداری سے بتائے کہ اگر آپ امیر حجاج کی جگہ ہوتے، اور آپکو انہی حالات سے واسطہ پڑتا جس سے امیر حجاج کا پڑا تھا، تو آپکا رویہ کیا ہوتا؟ کیا آپ اپنی حکومت کے چند بدمعاشوں، چوروں، قاتلوں، بدفطرت، اوباشوں کو کیا کھلا کھیل کھیلنے دیتے؟ کیا آپکی حکومت ایک جگہ مستحکم ہو، اور اس میں کوئی رخنے ڈالنے کی کوشش کرے، آپ اسکو کیا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے تحت نظارے کرتا دیکھو گے یا اسکے خلاف عملی اقدامات بھی کروگے؟ بالکل ایمانداری سے اگر آپ ان مناظر کو سوچوں گے تو آپ کو یہ چیز آسانی سے سمجھ آجائے گی جو میں آپکو سمجھانا چاہ رہا ہوں۔

ان نے واقعی میں بہت زیادہ ظلم کیا اور سیدہ نے بجا طور پر اس کو سفاک کہا۔۔۔یہاں مظلوم صحابیہ کی عدالت کو چیلینج مت کریں وہ صحابیہ تھیں
نہیں جی میں سیدہ مظلوم کی عدالت کو چیلنچ نہیں کررہا (ویسے آپکی یہ بات پڑھتے ہوئے مجھے نہ جانے کو دسویں محرم کے شیعہ ذاکر یاد آگئے، کہ وہ بھی اسی قسم کی جذباتی باتوں کا سہارا لیکر سیدنا حسین رض کے خون کی دہائی دے کر امیر یزید رحمہ اللہ کو بہت لتاڑتے ہیں) بے شک سیدہ صاحبہ کے ساتھ غلط ہی ہوا۔ اور انکے بیٹے کو شہید کیا گیا، لیکن بھائی وہ صحابیہ ہونے کے ساتھ ایک ماں بھی تھیں، جو اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر شائد اپنے جذبات کو قابو نہ رکھ سکیں اور انکی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات ادا ہوگئے۔ صحابی بے شک انسان ہی ہوتے ہیں، اور جسطرح ہر انسان ایک بہت ہی صدمے اور تاسف والی کیفیت میں اپنے جذبات کو مشکل سے قابو رکھتا ہے، اسی طرح کا معاملہ ہم ایک صحابی کے متعلق سوچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ صحابی کو معصوم عندالخطاء یا سپر ہیومن ماننے جیسا نہیں ہے، کہ وہ ہر قسم کی کمزوری اور بشری تقاضوں سے بالکل ہی مبراء ہوں۔

آپ کو معلوم ہے کہ کسی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذمتی قول پیش کرنے کا کیا مطلب ہے
جی مجھے معلوم ہے، جب آنحضرت ﷺ کسی کے حق میں کوئ مذمتی بات کہتے تھے تو
اللَّهُمَّ إِنِّي أَتَّخِذُ عِنْدَكَ عَهْدًا لَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ شَتَمْتُهُ لَعَنْتُهُ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَزَكَاةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔۔۔ صحیح مسلم
اے اللہ! میں آپ سے عہد لیتا ہوں کہ میں انسان ہوں۔ اگر میں نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی ہو کہ اس پر برا کہا ہو، لعنت کی ہو، اسے کوڑے لگائے ہوں تو اسے اس کیلئے رحمت، تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔۔۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، اس کا کافروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نبی کریمﷺ ان پر لعنت یا بد دُعا فرمادیں تو وہ ان کے لئے وبال بن جاتی ہے۔

اب بتائیے کہ کہ امیر حجاج کے حق میں یہ آنحضرت ﷺ کی بات کسقدر مفید ہوئی؟ وہ بنوامیہ کا سب سے کامیاب گورنر بن گیا، جسکے عہد میں اسلام کا دائرہ کار یورپ، ہندوستان اور وسطی ایشیا اور افریقہ تک پھیل گیا۔ اور ایک اہم نقطہ، جس پر شائد ہی کسی کی توجہ پڑے کہ اسی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کی رو سے "رحمت اللہ علیہ" کا بھی حقدار بن گیا۔ باقی رہا مختار والی بات، تو اس کو جواب میں نیچے اطیمنان سے دونگا، تب تک اس چیز کو آپ سمجھیں۔

میں شاید اپ کو کافی عرصہ سے جانتا ہوں
برادر لیکن میں تو آپ کو پہلے نہیں جانتا تھا، اس پوسٹ کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کو میں نے کچھ رپلائی دئے ہوں، نیز اس فورم پر بھی میری موجودگی زیادہ پرانی نہیں ہے، ابھی پچھلے سال ہی میں اس فورم پر رجسٹر ہوا تھا، اور بہت کم یہاں میری شراکتیں ہیں

آپ یقنن مختار کے رد میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں -- پھر تو مختار بھی چھوٹ جاتا ہے
مختار ایک کذاب تھا، اس کی اس حدیث سے بچنے کی راہ اس طرح بالکل نہیں ہے کہ وہ تو نبوت کا دعویٰ بھی رکھتا تھا۔ وہ کیسے چھوٹ سکتا تھا؟ مختار ثقفی (۲۷ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔حضرت مصعب بن زبیر رحمۃ اﷲ علیہ سے جنگ میں مارا گیا ۔
6 - Mukhtar Bin Abu Obaid Sakfi.png

اب بتائیے مجھے کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعوے دار ہو، کیا وہ حضور اکرم ﷺ کی رحمت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ وہ تو مسلمان بھی نہیں رہا، چئےجائکہ کسی معاملے میں اسکو چھوٹ دی جائے؟ ایک کافر کے حق میں رسول اکرم ﷺ کی بددعا یقینی مہلک ہے، یہ بات تو میں اوپر ہی لکھ چکا ہوں۔

دوسری بات یہ سیدہ رضہ کی تشریع کو امت نے تواتر کے ساتھ ہی قبول کیا ہے
بھائی اگر امت سے اس قول کو قبول کرنے کی غلطی ہوہی گئی تو کیا یہ قبولیت جائز ہوگئی؟ امت نے تو بہت سارے شرکیہ افعال بھی قبول کرلئے ہیں وہ بھی تواتر کے ساتھ، یہ فورم بھرا پڑا ہے ان کے حالات سے، تو کیا ان اب سارے شرکیہ افعال و اعمال کو بالکل جائز مانا جائے کہ چونکہ یہ امت کرتی چلی آئی ہے اس لئے اب انکی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یاد رکھئے گا، ایک صحیح چیز صحیح ہوتی ہے، اور ایک غلط چیز غلط ہوتی ہے۔ تحقیق میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ تو میں اپنی گزشتہ دو تین پوسٹوں میں بدلائل ثابت کرچکا ہوں کہ امیر حجاج کے و قتل و غارتگری کے افسانوں کی حقیقت کیا ہے۔ تو اگر امیر حجاج سے ایک غلط قول منسوب ہوچکا ہے، اور اسکو بقول آپکے "امت نے تواتر کے ساتھ قبول" بھی کرلیا ہے، تو کیا وہ بالکل اتھنٹک ہی مانا جائے؟ ذرا حقیقت سے کام لیں، اور تحقیقی اور کھلا ذہن رکھ کر سوچیں۔ اس قول کو بھی آپ ایک اہل حدیث ہونے کے ناطے اچھی طرح جانتے ہیں کہ
مالک رحمه الله نے فرمايا : ہم ميں سے ہر ايک کا قول قابل رد ہے سواۓ اس صاحب قبر کے ، اور اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کيا

میرہ خیال ہے حجاج سفاک ہی تھا قول حضور علیہ السلام کی روشنی میں
آپ اپنے خیال کو ایک طرف رکھ دیں، اور ذرا بالکل کھلے دل سے ان تمام میری گزشتہ باتوں کو دوبارہ سے پڑھ لیں اور مجھ کو بتائیں کے کیا یہ قول جو سرکار دو عالم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کی رو سے امیر حجاج سے صحیح منسوب ہوا ہے یا غلط؟

مآپ اس حدیث کا مصداق کسے مانتے ہیں ؟ کیااب تک ثقیف مختار جیسا کذاب اور حجاج جیسا ظالم پیدا ہوا ہے ،، اپ کو علم ہے تو ہمیں آگاہ کریں۔
مختار ثقفی جیسے کذاب کے متعلق تو مجھے پورا پورا یقین ہے کہ وہ ہی اس قول کا پورا پورا حقدار ہے، البتہ امیر حجاج کے متعلق میں یہ قول نہیں مانتا۔ جتنا مبالغہ آرائی امیر حجاج کے لئے کی گئی ہے، اس سے تو کئی گنا زیادہ ظالم ، سفاک اور شفی المزاج لوگ اسلامی تاریخ میں گزرے ہیں، چند کے متعلق آپ میں آگاہ کردیتا ہوں، انکے بارے میں آپ تحقیق کرکے مجھے بتائیے کہ ان لوگوں نے کتنے بے گناہوں کو مروایا تھا۔ تیمور لنگ، قرامطہ، صاحب الزنج، ۳۱۸ھ میں قرامطہ نے حج کے دوران حاجیوں کو قتل کیا اور خانۂ کعبہ کے اندر بھی قتل و غارتگری کی۔کعبہ کی محرابوں کو توڑنے کی کوشش کی اور پہلے توسنگ اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا پھر مقدس حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اٹھا لیا اور اسے بحرین لے گئے جہاں ان کی حکومت تھی۔ بیس سال تک یہ مقدس پتھر بیت اللہ سے دور رہا۔ مزید بھی چند نام پتہ ہیں، جنکے بارے میں یہ یقینا کہا جاسکتا ہے کہ انہوں اس سے کہیں زیادہ قتل و غارتگری دکھائی تھی جتنی غالبا امیر حجاج سے منسوب کی جاتی ہے۔
 
Last edited:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top