• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حروف سبعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھا گروہ:
ان کی رائے یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد عرب لغات میں سے سات لغات ہیں۔اس کی وضاحت میں ان کے متعدد اقوال ہیں۔

قول اول:
لغات عرب میں سے یہ سات لغات ہیں قرآن انہی میں نازل ہوا۔ یعنی قرآن کے الفاظ ان سات لغات میں ہی محصور ہیں جو ان تمام لغات میں فصیح ترین ہیں۔ان کے اکثر الفاظ لغت قریش میں سے ہیں۔کچھ لغت ہذیل ، ثقیف، ہوازن، کنانہ ، تیم اور یمن کی لغات میں سے بھی ہیں۔ابوعبید القاسم لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک حرف کی سات صورتیں ہیں یہ تو آپ ﷺ سے بھی نہیں سنی گئیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ یہ ساتوں لغات قرآن مجید میں منتشر کردی گئی ہیں کچھ لغت قریش میں سے ہیں ، کچھ لغت ہذیل میں سے ، کچھ ہوازن میں سے، کچھ اہل یمن کی لغت میں سے۔ اسی طرح دیگر لغات میں مستعمل الفاظ اور ان کے معانی سبھی ایک ہی ہیں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے جب چار افراد کو مصحف لکھنے کا حکم دیا تو انہیں فرمایا:
إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی عَرَبِیَْۃٍ مِنْ عَرَبِیَْۃِ الْقُرآن، فَاکْتُبُوْہُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ فَإِنَّ الْقُرآنَ أُنْزِلَ بِلِسَانِہِمْ۔
جب تم اور زید بن ثابت قرآن کریم کی کسی عربی میں اختلاف کرو تو اسے پھر لسان قریش میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ تفسیر القرطبی۱؍۴۳)

یہ دلیل ہے کہ قرآن پاک کا زیادہ تر حصہ لغت قریش میں نازل ہوا۔اور اس میں دیگر باقی لغات بھی ہیں۔اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا باب بھی یوں باندھا ہے:

بَابُ نَزَلَ القرآنُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ وَالعَرَبِ قُرآناً عَرَبِیا بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِیْنٍ۔


اعتراضات:
اس قول پر بھی یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سیدنا عمر وہشام دنوں قریشی ہیں ان کی زبان ایک ہی ہے اگر احرف سے مراد لغت ہی ہوتی تو پھر ان دونوں کے درمیان اختلاف نہ ہوتا؟۔
نیزایسی تاویل میں پھر حکمت تو ثابت نہیں ہورہی اور نہ ہی قاری کا کسی حرف کو چننے کا کوئی اختیار باقی رہتا ہے۔ بلکہ اس کے لئے تو تمام حروف میں پڑھنا لازمی ہوجاتا ہے کہ ایک آیت وہ ایک لغت میں پڑھے اور دوسری دوسری لغت میں؟
اورہر قاری پر مشقت کا اضافہ ہی اس مفہوم میں نظر آتا ہے کہ وہ ان تمام لغات کو قرآن پڑھنے سے پہلے سیکھ لے۔ اگر ایک حرف میں قراءت ہوتی تو کم از کم آسانی تو ہوتی؟۔
پھریہ علماء خود ان لغات کی تعیین وتحدیدمیں باہم مختلف ہیں۔اگر ان احرف سے مراد یہی لغات ہوتیں تو یہ صحابہ اور تابعین وغیرہ کے درمیان ضرور مشتہر ہوجاتیں؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قول ثانی:
اس قول کے قائل بہت سے علماء ہیں۔ جن میں امام سفیانؒ، ابن وہبؒ، ابنؒ جریر طبری، اور امام طحاویؒ وغیرہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سبعہ احرف سے مراد عربوں کی وہ سات لغات ہیں جو ایک ہی معنی دے رہی ہوں۔وہ اس طرح کہ جب لغت عرب کسی ایک لفظ میں اختلاف کرے تو قرآن کریم ان سات لغات میں سے اسی لفظ کو پیش کردیتا ہے۔یہ سات لغات کون سی ہیں؟ ان کے بارے میں :

٭…کچھ علماء قریش، ہذیل، تمیم، ہوازن، کنانہ، ثقیف اور یمن کی لغات کے قائل ہیں اور
٭…کچھ آخری تین کی بجائے ازد، ربیعہ اور سعدبن بکر کی لغات مراد لیتے ہیں۔

یہ رائے امام القاسم بن ثابت کی ہے جو توجیہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی محترم کو مبعوث فرمایا تو عرب ایک دوسرے سے دوردور جگہوں پر رہتے تھے۔بہت سے الفاظ ولہجات میں وہ ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ہر آبادی کی اپنی لغت تھی ان کی زبانیں بآسانی اسے اپنا لیتیں۔ایک عام چلن تھا جس میں بوڑھا اور خالص بدو بھی شامل تھا۔اور اگر کسی کو اس کی عادت اور زبان کے چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا تو اسے خاصی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اور مسلسل محنت وریاضت کے بعد وہ اسے اختیار کرپاتا۔اللہ تعالی نے ان سے یہ محنت بھی ساقط کردی۔پھر لکھتے ہیں: سبعہ احرف کا معنی ۔۔واللہ اعلم۔۔ عربوں کی سات شعوب کی یا ان کے عوام کے یا ان کی آبادی کی لغات ہیں۔امام ابوجعفر طحاویؒ یہ لکھتے ہیں:
لوگوں کے لئے یہ سات حروف تھے کیونکہ قرآن کے علاوہ وہ کسی اور سے یہ حروف لینے میں عاجز تھے۔ مزید یہ کہ وہ امی تھے ۔ ان میں چند ایک ہی لکھنا جانتے تھے اس لئے ہر ایک کے لئے یہ مشکل تھا کہ اپنی زبان کے ساتھ دوسری زبان کو اختیار کرے ۔ اس لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے یہ آسانی پیدا کردی کہ وہ الفاظ مختلف استعمال کرلیں جب ان کامعنی ایک ہو۔

امام سفیانؒ بن عیینہ سے مدنی اور عراقی قراءت کے اختلاف کے بارے پوچھا گیا کہ کیا یہ سبعہ حروف میں داخل ہیں؟ فرمایا : نہیں! سبعہ حروف تو عربوں کے اس قول کی مانند ہے جیسے وہ کہیں: ہلم، تعال، یا أقبل۔ ان میں سے جو بھی تم استعمال کرو اور کہو وہ کافی ہوگا۔(الوجیزاز ابوشامہ:۱۲۸)

مزید ثبوت ودلائل یہ بھی دئے گئے کہ صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا آپﷺ نے دونوں کی قراءت کو صحیح فرمایا۔نیز حدیث ابوبکرہؓ میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا:
کُلُّہَا کَافٍ شَافٍ۔ اسی میں یہ بھی ہے : کَقَوْلَکَ ہَلّمَّ وَتَعَالَ۔ اس حدیث سے یہ وضاح ہوتا ہے کہ اختلاف الفاظ میں تھا نہ کہ معانی میں۔سیدنا ابنؓ مسعود کی روایت میں یہ بھی ہے: مَنُْ قَرَأَ عَلَی حَرْفٍ فَلَا یَتَحَوَّلَنَّ مِنْہُ إِلٰی غَیْرِِہِ۔جس نے ایک حرف پر پڑھ لیا وہ پھر دوسرے حرف کی طرف وعدہ ووعید وغیرہ میں مت جائے۔

اس قول پر علماء نے جو اعتراضات کئے ان میں ایک یہ ہے:
احرف سبعہ سے اگر قبا ئل کی لغات مراد ہیں تو متفاوت الفاظ کے باوجود معنی تو ایک ہوگا مگر ہیئت نطق مختلف ہوجائے گی جب کہ نطق بھی ان لغات میں شامل ہے۔مگر اس تعریف ووضاحت میں نطق کو احرف سبعہ سے نکال دیا گیا ہے۔مزید یہ کہ یہ قول اپنی محدود تعریف کے ساتھ مختلف قراء ات کا دروازہ بند کررہا ہے ۔نہ ہی ان قراء ا ت کے وجود کاکوئی سبب یا اختلاف بتاتا ہے۔

ترجیح:
یہ بحث وتمحیص ابھی تک جاری ہے۔ علماء اپنی کاوشوں سے سیر نہیں ہوئے۔ ابنؒ الجزری تیس سال تک اس حدیث کے معنی ومفہوم پر غور وفکر کرتے رہے اور بالآخر فرماتے ہیں:
حَتَّی فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیَّ بِمَایُمْکِنُ أَنْ یَّکُونَ صَوَاباً إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔
حتی کہ اللہ تعالی نے مجھ پر اس کے مفاہیم جو بھی ممکن تھے وہ کھول دئے۔إن شاء اللہ۔ (النشر فی القراء ات العشر ۱؍۲۶)
مشہور معاصر مفسر صاحب شیخ امین الشنقیطیؒ أضواء البیان سے دریافت کیا گیا کہ اس حدیث کے متعدد معانی میں ترجیحی معنی کیا ہوسکتا ہے؟ فرمانے لگے: اَلَّذِیْ تَرَجَّحَ لَدَیَّ أَنِّی لاَ أَعْرِفُ مَعْنَاہُ
جو شے میرے نزدیک راجح ہے وہ یہ کہ میں اس کا معنی نہیں جانتا۔
اس سب کچھ کے باوجود اس بات پر سبھی علماء متفق ہیں کہ احرف سبعہ کے دو فوائد ضرور ہیں:

۱۔احرف سبعہ کا تعلق قراء ت سے ہے نہ کہ معانی سے۔
۲۔ حکمت اس میں یہی تھی کہ امت پر تخفیف وآسانی ہو جو رحمت رب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآنی علوم کو اگر ہم کھنگالیں تو ممکن ہے اس حدیث کے چھپے راز مزید کھل جائیں۔ فصل ووصل کا باب ہو یا وقف واعراب کا یا دیگر ابواب قراء ت ان میں مزید تحقیق اس حدیث کے مفاہیم کے کئی سربستہ راز کھول سکتے ہیں۔آخر کلام اللہ میں بھی تو ایسی بہت سی آیات ہیں جن کے معانی ابھی تک علماء تفسیر پر مخفی ہیں اور تحقیق طلب ہیں۔

اس حدیث پر چیں بچیں ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے ہاں کے مختلف لہجات جیسے سرائیکی، پنجابی ، پوٹھوہاری یقیناً ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر کیا کسی ایک لہجے پر سبھی کو مجبور کرنا کہ سبھی سرائیکی پنجابی، اورپوٹھوہاری ایک ہی لہجہ اختیار کریں اور اسی میں پڑھیں حالانکہ سبھی کا تعلق سرزمین پنجاب سے ہے۔ یہی حال سرزمین عرب کا تھا۔ مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد قبائل کی آبادیاں اور حرم کعبہ میں ان کی آمد ورفت نے جہاں قریشی لہجہ کو عام کیا وہاں یہ لہجہ متأثر بھی ہوا ۔ نیز مدینہ منورہ میں بھی قریشی لہجے کا غلبہ نہیں تھا اوس وخزرج کے قبائل اپنا خالص عربی لہجہ رکھتے تھے۔ مگر قرآن کریم جب خالص قریشی لہجہ میں اترا تو بہت سے قریشی حضرات کو اپنے لہجے کی درستگی کا میزان تلاوت رسول محترم کی صورت میں ضرور مل گیا ۔ ایسی صورت میں قریشی خود بھی متأثرین میں سے تھے۔ اس لئے ان لہجات کی اصلاح ہونا ناممکن ہی نہیں بلکہ بہت مشکل امرہے۔ الا یہ کہ سیکھنے سکھانے کا اگر کوئی بندوبست کردیا جائے۔اللہ تعالیٰ کی یہ ایک خاص عنایت تھی کہ قرآن مجید کو ہر قبیلہ یا قوم کے لئے پڑھنا آسان بنادیا ۔جتنا قرآن مجید آپ ﷺپر اترچکا ہوتا جبرائیل امین اس کا دور آپﷺ کے ساتھ ہر رمضان میں کیا کرتے تھے تاکہ قریشی لہجہ قرار پکڑلے اورحروف کی قراء ت میں اگر اختلاف ہو تو بات قریشی لہجہ پر آکر رک جائے۔ نیز دھیرے دھیرے ہر عرب قبیلے میں یہ لہجہ سرایت کرجائے اور وہ اس سے مانوس بھی ہوجائے۔القصہ ان قبائل کے لہجات کو دیکھئے اور اس مشکل کا اندازہ لگائیے کہ کیا ایسے لوگوں کو رخصت دینے میں خیر وآسانی تھی یا غلط تھا۔مثلاً:

بنوہذیل کا فرد لفظ لیسجننہ حتّٰی حین کو عتّٰی عین پڑھتا۔اور بنواسد والے تَعْلَمُ یا تَعْلَمُوْن کو تِعْلَم یا تِعْلَمون پڑھتے اور تَسْودُ کو تِسْوَدُّ اور ألم أعھد کو ألم إعھد پڑھتے۔ جبکہ تمیمی کا تمتمہ بھی اس کی مجبوری تھی۔ وہ الناس کو والنات پڑھتے۔قیس قبیلہ کا کشکشہ معروف تھا۔ وہ {قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیّاً } (مریم:۲۴) کو قد جعل ربش تحتش سریا پڑھتے۔

ان قبائل کی مجبوریوں کے پیش نظر اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ وہ اپنی لغت چھوڑ کر قرآن مجید کو قریش کی لہجہ ولغت میں پڑھیں اولاً تو ایسا کرنا ان کے لئے مشکل تھا جس کے لئے انہیں سخت محنت درکار تھی۔جو شاید بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے لئے تو ممکن ہی نہ تھا۔ اپنی عادت اور لہجہ سے دوسرے لہجے کو اپنانے میں جہاں ان کا وقت الگ لگتا وہاں وہ شاید اس قریشی لہجہ کو قبول کرنے سے انکار بھی کردیتے اور اسے تعصب گردانتے۔ اس لئے بطور رحمت یہ سب اجازت دی گئی تا کہ سب کے لئے اس کا پڑھنا اور مستفید ہونا آسان تر ہو جائے۔ (تاویل مشکل القرآن: ۳۶،۳۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنت رسول بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے قبائلی افراد کو مجبور نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ مکمل ہمدردی اور کھلے ذہن کا مظاہرہ کیا جس سے وہ قریشی لہجہ سے محبت کرنے لگے۔ آپ ﷺ کے پاس ایسے قبیلہ کے لوگ آئے جو الف لام تعریف کی بجائے م بولتے۔ انہوں نے سوال کیا:
أَمِنَ امْبِرٍّ امْصِیِامِ فِی امْسَفَرِ؟ آپ ﷺ نے بھی انہیں انہی کے لہجے میں جواب دیا:
لَیْسَ مِنَ امْبِرِّ امْصِیَامُ فِی امْسَفَرِ۔
جس سے نہ وہ صرف محظوظ ومطمئن ہوئے بلکہ ایسی وسعت قلبی کے وہ بھی قائل ہوگئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی: أَنْتَ أَفْصَحُ الْعَرَبِ۔
آپ ﷺ نے بھی فرمایا:
رُبِّیْتُ فِی قُرَیْشٍ وَرُضِعْتُ فِی بَنِی سَعْدٍ وَلَا فَخْرَ۔
قریشیوں میں میری تربیت ہوئی اور بنو سعد کا میں نے دودھ پیا اور اس میں فخر کی کوئی بات نہیں۔

اسی وجہ سے سیدنا ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں:
قَدْ نَظَرْتُ إِلَی الْقُرَّائِ، فَرَأَیْتُ قِرَائَتَہُمْ مُتَقَارِبَۃً وَإِنَّمَا ہُوَ کَقَوْلِ أَحَدِکُمْ: أَقْبِلْ، ہَلُمَّ، تَعَالَ۔ فَاقْرَؤُوا کَمَا عَلِمْتُمُ أَو کَمَا قَالَ۔
میں نے قراء کی قراءت میں غور کیا تو مجھے ان کی قراءت ایک دوسرے کے قریب نظر آئیں بلکہ وہ ایسی لگیں جیسے تم کسی کو یہ کہو: آگے بڑھو، آؤ، یا سامنے آؤ۔ لہذا تم جیسی قراءت جانتے ہو وہی پڑھا کرو۔

یعنی وہ حروف ایسے ہوتے تھے جیسے ہم میں سے کوئی مختلف الفاظ استعمال کرے مگر ان سب کا معنی ایک ہی ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کا معنی کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ مگر دونوں معنی پھر بھی درست ہوں ۔ اس صورت میں یہ اختلاف تنوع اور تغایر کا ہوگا نہ کہ تناقض اور تضاد کا۔ جیسا کہ{ مَلِکِ} کو {مَالِکِ} پڑھنا ۔ یا {نَادٰیھَا مِن تَحْتِہَا }کو{ مَن} پڑھنا۔معنی بدل بھی گیا اور درست بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فوائد:
ان احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ سبعہ حروف پر قراء ت مدینہ منورہ میں ہی تھی کیونکہ ہشام بن حکیم فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔ ان کی قراء ت وہی ہو گی جو خود رسالتمآب ﷺ اپنے آخری مدنی دور میں کیاکرتے تھے۔ اس کی مزید شہادت جناب جبرئیل ؑ کا آپ کے پاس بنو غفار کے پنگھٹ کے پاس آ کر سبعہ احرف پر مزید تاکید کرنا ہے۔

۲۔ مختلف قبائل نے اسلام جب قبول کیا تو اس وقت سبعہ حروف کا حکم آیا۔ کیونکہ قرآن تو لغت قریش پر اترا تھا۔نیز سب حروف کا انحصار بھی حرف قریش پر ہی تھا۔جس کی دلیل سیدنا عمر ؓ کا ہشام ؓ سے دوسری قراء ت سن کر جلال میں آ نا ہے۔

۳۔ سبعہ احرف کی اجازت محض عربوں کے لئے ایک تخفیف و سہولت تھی تاکہ قراءت میں پیش آنے والی دشواری ، آسان محسوس ہو۔پھر عرب اس وقت خالص امی تھے جن کی عورتیں، بچے اور بوڑھے آسانی سے اپنے لہجے کو تبدیل نہیں کرسکتے تھے۔ہاں تعلیم و تربیت اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر ان کے لہجات کو بدلنا ممکن تھا۔

۴۔ حروف سبعہ کا مسئلہ اجتہادی مسئلہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺپر ایک اتارا ہوا حکم تھا۔ جس کی دلیل حدیث رسول ؐ میں لفظ "أنزل"ہے اور جبرئیل ؑ کا یہ ارشاد ہے:(إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُکَ الْقُرآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)اور اسی طرح ان کا یہ ارشاد (وَکَذَلِکَ أُنْزِلَت۔۔۔۔) ہے۔

۵۔ جن احرف پر قرآن اترا ہے اس کی تعداد میں کمی وبیشی نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ "سبعہ"کا لفظ یہاں کثرت کے معنی میں ہے نہ کہ حصر مراد ہے۔اس لئے کہ اسی تعداد و لہجات کی حدود میں اہل عرب کے لہجات تھے۔

حروف سبعہ اب بھی موجود ہیں یا نہیں؟ : علماء اس بارے میں مختلف ہیں کہ سبعہ حروف اب بھی موجود ہیں یا نہیں۔ اور آیا مصاحف عثمانیہ حروف سبعہ پر مشتمل تھے یا نہیں؟ حافظ ابن جریر اور ان کے متبعین کا قول یہ ہے : "مصاحف عثمانیہ صرف ایک حرف پر مشتمل تھے اور باقی چھ حروف اب محفوظ نہیں"۔ (تفسیر ابن جریر ۱؍۲۲)

٭…دوسرا قول امام طحاویؒ کا ہے جن کے مطابق سبعہ حروف سے مراد مرادفات ہیں۔جن کی اجازت ابتداء میں مسلمانوں کی آسانی کے لئے دی گئی تھی۔ لیکن بعد میں یہ مرادفات منسوخ ہو گئے۔(مشکل الآثار ۴؍۱۸۷) لیکن یہ دونوں قول درست نہیں ہیں اور ان پر مختلف اعتراضات لگائے گئے اور متعدد علماء نے ان پر تنقید کی۔

٭…سب سے راجح قول ابن الجزری رحمہ اللہ کا ہے کہ مصاحف عثمانیہ میںوہ حروف موجود ہیں جو اس کے رسم الخط میں سما سکتے تھے۔ اور یہ مصحف اس آخری دور ہ قرآن پرمشتمل ہے جو نبی اکرمﷺ نے جبرائیل ؑ سے کیا تھا اور جس کا کوئی حرف نہیں چھوڑا گیا۔(النشر فی القرا ء ت العشر: ۳۱) نیزاس میں سبعہ حروف کی رخصت کی بات نہیں تھی۔ اگر سبعہ حروف کا مسئلہ عزیمت کا ہوتا تو قرآن مجید ضرور ہر حرف میں لکھا جاتا۔ابن الجزریؒ یہ بھی فرماتے ہیں: سلف و خلف کے علماء کی اکثریت یہی کہتی ہے کہ عثمانی مصاحف ان حروف پر مشتمل ہیں جوان کے رسم الخط میں سما گئے۔(النشر فی القراء ت العشر ۱؍۱۶)

٭…اس قول کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں ملتے جلتے لہجوں اورالفاظ کے استعمال کی اجازت دی گئی ۔جب لوگ لغت قرآن سے مانوس ہو گئے تو یہ اجازت او ررخصت رفتہ رفتہ ختم کر دی گئی۔ اور آپ ﷺ کی وفات سے پہلے آخری رمضان میں حضرت جبرائیل ؑ نے جب آپ ﷺ سے قرآن کا دو مرتبہ دور فرمایا۔ اس وقت یہی متشابہ الفاظ منسوخ کر دیئے گئے۔ ان منسوخ شدہ الفاظ کو سیدنا عثمان ؓ نے اپنے مصاحف میں درج نہیں فرمایا۔اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ احرف سبعہ میں سے وہ حروف جو مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط میں سما سکتے تھے وہ اب بھی موجود ہیں۔ جبکہ باقی حروف منسوخ ہو گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قراء ت اور حروف میں فرق:

٭… علماء کہتے ہیں کہ حرف میں لفظ ایک ہوتا ہے مگر اس کے پڑھنے یعنی قراء ت کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں۔

٭…رسول اللہ ﷺ کی قراء ت رب کریم کے حکم کے مطابق تھی جو کچھ نازل ہوتا آپ ﷺاسے صحابہ کو پڑھ کر سناتے۔ کبھی کبھی وحی کے الفاظ کو متعدد صورتوں میں بولتے اور اداء فرماتے۔ جن کا تعلق اعراب کی مختلف جائز صورتوں سے ہوتا یا مد اور قصر سے ہوتا یا کہیں تخفیف اور کہیں تثقیل سے ہوتا یا نقل و ابدال سے ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی ہوتا کہ کتابت کی ایک ہی صورت ہومگر نطق واداء میں مختلف ہو۔ آپ ﷺ صحابہ کرام کو اجازت بھی مرحمت فرماتے کہ وہ ان صورتوں میں جو بھی چاہیں پڑھ لیں۔قراء ت کی یہ تمام صورتیں صرف سات یا دس پر منحصر نہ تھیں بلکہ ان کی مجموعی صورتیں اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہیں۔

٭…قرآن کریم میں قراءت کا اعتماد صرف تلقی(to aquire) اور حفظ پر ہے جو ثقہ از ثقہ اور امام از امام بہ سند رسول اکرم ﷺ تک جاپہنچے۔ اس اعتماد کی وجہ یہ ہے کہ مصحف کی کتابت میں غلطی کا امکان ہے جیسا کہ اس کی طباعت میں ہوجاتا ہے اور اصل قرآن نقطوں میں ہے نہ اعراب میں ۔ اس شرط کا فائدہ یہ ہے کہ قراء ت میں وسعت ہو اور لوگ کسی ماہر امام سے قراء ت کو اخذ کرسکیں۔

٭…اصحاب رسول نے آپﷺسے قرآن کریم ایک حرف میں بھی سیکھااور دوحرف یا دو سے زائد میں بھی۔بعد میں یہی صحابہ رسول مختلف علاقوں میں پھیل گئے جن سے تابعین نے سیکھا۔ نتیجۃً یہ روایت وکوشش علم قراء ت کی شکل میں سامنے آگئی۔

٭…سیدنا عثمان ؓنے جو مصاحف لکھوا کر متعدد صوبوں اور شہروںمیں بھیجے تھے تو ان کے ساتھ پڑھانے والے بھی ایسے بھیجے جن کی قراء ت اس قرآن کے موافق تھی۔ان میں سیدناعلیؓ، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ، ابن مسعود ؓاور ابوالدرداء ؓ تھے۔ انہی کو خود سیدنا عثمانؓ نے مصاحف دے کر مختلف آفاق میں روانہ کیا۔چنانچہ یہ قرا ء ت ہر علاقے میں اپنے معلم اور مصحف کی وجہ سے مختلف انداز میں پھیل گئی تھی۔ جبکہ تابعین میں معلم قرآن حضرات سعید بن مسیبؒ، عروہؒ، سالمؒ، عمر بن عبد العزیزؒ، سلیمان بن یسار ؒ اور ان کے بھائی عطاء ؒو دیگرحضرات تھے۔


 
Last edited:
Top