• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ جیسے لعنتی فعل پر آپکو سمجھانے کے لئے،،، انتہائی ضروری بات،،

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لگتا ہےآپ قرآن سے حلالہ ثابت کروا کر ہی دم لیں گے اور پھر شائد آپ کے " عشقِ حلالہ" کو تسکین پہنچے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں اللہ کے لیے قرآن سے مت کھیلو۔ میں نے قرآن کی روشنی میں یہ ثابت کردیا ہے کہ جس آیت کو " حلالہ " کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے وہ حلالہ کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہے۔ اگر آپ کا یہی رویہ رہا تو مجھے اندیشہ ہے ایک دن آپ کہیں قرآن ہی سے بے نیاز نہ ہو جائیں اور اپنی " عقلی گھوڑے" کی کسوٹی پر ایک الگ " شریعت " کی بنیاد ڈال دیں۔
اور آپ کا یہ کہنا کہ:-
" البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے "
اس کی تین ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:-
1) طلاق دینے والا ذہنی مریض ہو۔
2) طلاق حلالہ کی نیت سے دی گئی ہو۔
3) ناموافقت کی بنا پر طلاق ہو۔ ( یہ معقول وجہ ہے )
کیونکہ طلاق دینے والا کسی وجہ ہی سے طلاق دیتا ہے ایسے ہی بلاوجہ طلاق نہیں دیتا۔
میں آپ کو ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میرے مضمون کو غور سے پڑھیں۔
میں نے پڑھ لیا ہے۔ جو میں نے کہا ہے اس کا رد کیجیے۔
آپ کی تفصیل سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔ میں نے اس کے بارے میں ایک جملہ لکھا بھی ہے، وہ پڑھ لیجیے۔
پہلے بھی ایک تھریڈ میں آپ مجھے قرآن فہمی کی ہدایت دیتے رہے ہیں۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ کسی حد تک میں قرآن کو سمجھ ہی لیتا ہوں۔ باقی آپ سمجھا دیجیے۔

محترم اشماریہ صاحب -

آپ قرآن کے ظاہری معنی سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ ایک عورت 'حلالہ ' کے لعنتی فعل کے ذریے حلال ہو جائے گی -

قرآن میں بہت سے احکمامت ایسے ہیں کہ اگر ان کو صرف ظاہری معنی پر محلول کر لیا جائے تو وہ عمل قابل قبول یا قابل حجت نہیں ہوتا -

مثال کے طور پر نماز قصر سے متعلق آیت ملاحظه ہو :

"وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿١٠١﴾"
" اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کردو اگر تمہیں کفار کے حملہ کردینے کا خوف ہے کہ کفار تمہارے لئے کھلے ہوئے دشمن ہیں (101)


مندرجہ بالا آیت کے ظاہری الفاظ سے پتا لگتا ہے کہ نماز قصر کا مسئلہ دشمن کے خطرے کے ساتھ مشروط ہے جبکہ احادیث نبوی کی رو سے نماز قصر ایک عمومی حکم ہے اور اس میں پر خطر اور پر امن سفروں میں کوئی فرق نہیں -نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ "الله نے تم پر صدقہ کر دیا ہے کہ سفر میں تم جس حالت میں ہو چاہے خوف یا امن نماز کو قصر کر لو -

نما حرم علیکم المیتة .......تم پر تو حرام کیا گیا ہے مردہ (سورہ بقرة آیت 173)

قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ مردہ (یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مرجائے )حرام ہے ۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے ۔ لیکن حدیث میں ہے :
''ھو االطور ماء ہ والحل میتتہ ''۔
''سمند ر کا پانی پاک ہے اور اس کا ''مردہ''(مچھلی )حلال ہے''۔

اس طرح خرید و فروخت اور تجارت کے متعلق قرآن میں حکم ہے :



يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ سوره البقرہ ٢٨٢
اے ایمان والو! جب تم کسی وقت مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیئے کہ تمہارے درمیان لکھنے والے انصاف سے لکھے-


اب سوال ہے کہ کیا لین دین کے ہر معاملے میں لکھنا ضرروی ہے؟؟ قرآن تو که رہا ہے کہ ہر معاملے میں لکھ لیا کرو لیکن بہت سے لین دین کے معاملات ایسے ہیں کہ جن میں نبی کریم نے یہ حکم نہی دیا کہ اپنے معاملات کی لکھت پڑھت ضروری ہے - لیکن قرآن کے ظاہری معنی یہی بتاتے ہیں کہ ہر معاملے میں لکھنا ضروری ہے اور لکھنے والا انصاف سے کام لے وغیرہ-

آگے الله فرماتا ہے کہ: وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ سوره البقرہ ٢٨٢
جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے
-
کیا قرآن کی اس آیت کی رو سے ہر مرتبہ خرید و فروخت میں گواہ بنانا ضروری ہے ؟؟

یہ چند مثالیں ہیں جو اس بات کو بیان کرتی ہیں ہیں کہ ضروری نہیں کہ قرآن کی آیت سے جو ظاہری الفاظ آپ اخذ کر رہے ہیں وہی اس کے حکم پر عمل کو ثابت کرتے ہیں- احادیث کی رو سے بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ قرآن کے ان الفاظ جن میں احکامات کا ذکر ہے احادیث نبوی میں ان کے اصل معنی و مفہوم کیا ہیں -

جب ایک چیز نا جائز ہے تو اس کا ذریے کسی دوسرے عمل کو جائز کہنا قرآن و احادیث کے ساتھ ایک مذاق ہے -

الله ہم کو اپنی دین کا صحیح علم و فہم عطا کرے (آمین)-
یہ ایک اصول فقہ کا اختلاف ہے کہ "کیا کسی حرام فعل کا حلال نتیجہ متحقق ہو سکتا ہے یا نہیں؟"۔ احناف کے نزدیک متحقق ہو سکتا ہے اور اس کے اپنے دلائل ہیں۔
اس پر بات کرنا چاہتے ہیں تو براہ کرم الگ تھریڈ بنا لیجیے۔

باقی ان آیات سے مستثنیات صراحت سے ثابت ہو رہی ہیں۔ آپ حلالہ والے نکاح نہ ہونے کی صراحت دکھائیے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
باقی ان آیات سے مستثنیات صراحت سے ثابت ہو رہی ہیں۔ آپ حلالہ والے نکاح نہ ہونے کی صراحت دکھائیے۔
آپ اس آیت کا استثناء صراحت سے ثابت کیجئے:

وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ سوره البقرہ ٢٨٢
جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے -

حلالہ والے نکاح نہ ہونے کی صراحت متعدد احادیث میں مذکور ہے:

''حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''۔
(مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، ابودائود۲۰۷۶٠٧٦)

حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے۔ (ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)

یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ہے۔ صاحب سبل السلام راقم ہیں:
"مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔''
لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔

نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نکاح حلالہ کو فاسد سمجھتے تھے:

''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔

اس کے بالمقابل آپ قرآن سے اپنے استدلال کے بجائے کوئی ایک صریح حدیث پیش کر دیجئے کہ نکاح حلالہ منعقد ہو جاتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ اس آیت کا استثناء صراحت سے ثابت کیجئے:

وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ سوره البقرہ ٢٨٢
جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے -

حلالہ والے نکاح نہ ہونے کی صراحت متعدد احادیث میں مذکور ہے:

''حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''۔
(مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، ابودائود۲۰۷۶٠٧٦)

حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے۔ (ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)

یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ہے۔ صاحب سبل السلام راقم ہیں:
"مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔''
لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔

نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نکاح حلالہ کو فاسد سمجھتے تھے:

''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔

اس کے بالمقابل آپ قرآن سے اپنے استدلال کے بجائے کوئی ایک صریح حدیث پیش کر دیجئے کہ نکاح حلالہ منعقد ہو جاتا ہے۔
آیت کا استثنا جن بھائی نے دعوی کیا ہے ان سے طلب فرمائیے۔

ان احادیث سے اس نکاح کا فاسد ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ طرز استدلال بتائیے۔
یہ صحابہ کرام نہیں صرف عبد اللہ بن عمر رض کا فتوی ہے جو ممکن ہے ان کے اجتہاد کی بنا پر ہو۔ احناف کا اجتہاد اس سے ہٹ کر ہے۔ اسی طرح امیر صنعانی، صاحب سبل السلام نے بھی اجتہاد کیا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کس بنا پر وہ صریح آیت کو چھوڑ کر یہ اجتہاد کر رہے ہیں۔
صریح اگر حدیث خبر واحد ہو تب بھی وہ کتاب اللہ کی صراحت کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے اور یہاں تو حدیث میں صراحت ہی نہیں ہے۔

یہ کیسا عجیب مطالبہ ہے کہ قرآن کو چھوڑ دوں اور حدیث کو ڈھونڈوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ قرآن کا مرتبہ سب سے پہلا ہے؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
آخرت کا ہی خوف کر لیں اشماریہ بھائی۔
کتنی اور کس کس جگہ پر آپ تاویلیں پیش کرتے رہیں گے ، یہ تاویل ہم تو سن اور پڑھ لیتے ہیں ، لیکن یہ اللہ تعالی کے سامنے نہیں چلیں گی!!!
کیسی زبردستی ہے کہ کوئی چیز واضح ہو اور اسے تاویل میں پڑ کر حق سے دور کر دیتے ہیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لگتا ہے کہ فقہ شریف کا دفاع کرتے کرتے اشماریہ بھائی قرآن اور صحیح احادیث کو بہت پیچھے چھوڑ آ ے ہیں -

جب ان کے لیے فقہ اتنی ہی ضروری ہے تو ان کو قرآن اور احادیث کی ضرورت ہی کیا -


اب میرا ایک سخت سوال جو یہاں ضروری ہے​
کیا اشماریہ بھائی اگر آپ کی بہن کو طلاق ھو جا ے اور دوبارہ اس کا خاوند اس سے رجوح کرنا چاہے تو کیا آپ ایک رات کے لیے اس کا کسی اور سے حلالہ کروا لیں گے اور دوبارہ پہلے کے لیے اپنی بہن کو حلال کر دیں گے​
امید ہے کہ کوئی ناراض نہیں ھو گا ۔​
کیوں کہ اشماریہ بھائی خود کہ چکے ہیں کہ​
محترم
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو اپنے مطلب کی بات ہی کیوں نظر آتی ہے؟
محترمی میں نے یہ بھی کہا تھا:۔
اس بات سے قطع نظر کہ حلالہ کی بحث کیا ہے اور کیا درست اور کیا غلط ہے، جو مسئلہ پوچھا گیا ہے اس کا جواب دے رہا ہوں۔
حلالہ کی خاطر جس شخص سے شادی کروائی گئی ہے اگرچہ اس شرط کے ساتھ شادی انتہائی قبیح فعل ہے لیکن شادی عام شادی کی طرح ہوگی اور اس کو ختم کرنے کا نہ کسی کے پاس اختیار ہے اور نہ ہی کوئی زبردستی کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ شریعت نکاح سے ابقاء عقد چاہتی ہے نہ کہ ایک رات کی ہمبستری۔ البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم

اب اس کو غائب کر کے باقی دکھا کر میری بہن کے حوالے سے جو سوال آپ نے کیا ہے کیا میں اس کے مطابق الفاظ استعمال کر لوں؟ کیا میں اب اس طرح کی ایک اور مثال میں "کسی اور" کو شامل کر لوں؟
؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

بہر حال۔ اگر میری بہن کو طلاق ہو جائے تو چوں کہ یہ ایک لعنتی اور قبیح فعل ہے اس لیے میں نہیں کروں گا۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو جاتا ہے تو بہن سابق شوہر کے لیے شادی کے واسطے حلال ہوگی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آخرت کا ہی خوف کر لیں اشماریہ بھائی۔
کتنی اور کس کس جگہ پر آپ تاویلیں پیش کرتے رہیں گے ، یہ تاویل ہم تو سن اور پڑھ لیتے ہیں ، لیکن یہ اللہ تعالی کے سامنے نہیں چلیں گی!!!
کیسی زبردستی ہے کہ کوئی چیز واضح ہو اور اسے تاویل میں پڑ کر حق سے دور کر دیتے ہیں!
بہنا!
آپ لوگ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ایک نص سے جو آپ سمجھ رہے ہیں وہی دوسرے بھی سمجھیں؟
آخرت کا خوف تو آپ کریں جو قرآن کی ایک واضح آیت میں تاویل کرنا گوارا کر رہے ہیں لیکن اپنے موقف کو چھوڑنا پسند نہیں۔
پھر بھی میں یہ کہتا ہوں کہ ہم سب اپنی اپنی فہم کے مکلف ہیں۔ اور اسی کا ہم سے سوال ہوگا۔ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں تو یہ آپ کے نزدیک درست ہے اور ہم کچھ اور سمجھتے ہیں تو ہمارے نزدیک وہ درست ہے۔
باقی دماغ نہ آپ لوگوں کا خراب ہے نہ ہمارا اور نہ ہی ابو حنیفہ کا خراب تھا۔
 
شمولیت
مئی 01، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
58
السلام علیکم
میرا سوال اشماریہ صاحب سے یہ ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح حرام ، قبیح اور لعنتی فعل ہے تو کیا حلالہ کی نیت سے طلاق حلال، مستحسن یا جائز فعل ہے؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بھائیوں اور بہنوں ! اشماریہ صاحب پر ” عشقِ حلالہ “ ہی نہیں بلکہ ” عشقِ حنفیت “ بھی مسلط ہے۔ اور جب انسان ” تقلید “ کی قسم کھا لیتا ہے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں نے کس طرح صرف قرآن کی روشنی میں بغیر تاویل کے ثابت کیا ہے کہ ” حلالہ “ ناجائز ہے اور اشماریہ صاحب ( معذرت کےساتھ ) اپنی بہن کے لیے بھی اس فعل کو پسند نہیں کرتے مگر ” تقلید “ کا جادو ہوتا ہی ایسا ہے کہ اس سے انسان کو قرآن و سنت سے بے نیاز ہونا ہی پڑتا ہے۔مزید یہ کہ اشماریہ صاحب نے دوسری آیات کو بھی بغور نہیں پڑھا کہ ان میں نکاح کا مقصد کیا ہے۔ اس لیے محض ” عقلی گھوڑے “ دوڑا رہے ہیں۔ اور یہ بھی اشماریہ صاحب کا وہم ہے کہ ہم قرآن کی آیت کی تاویل کر رہے ہیں۔ جب اشماریہ صاحب کو ” حلالہ “ پر اعتراض نہیں تو ان کو ” متعہ “ پر بھی اعتراض نہیں ہو گا۔ میری نظر میں ”حلالہ“ ”متعہ“ سے بھی بدتر ہے کیونکہ دورِ نبویﷺ میں مخصوص حالات میں ” متعہ “ کی اجازت تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی مگر ” حلالہ“ کو کسی بھی صورت گوارہ نہیں کیا گیا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
قرآن کریم نے کہا ہے حتی تنکح زوجا غیرہ
تنکح سے مراد جماع یا ہمبستری ہے۔
قرآن نے کہا ہے:۔
"وہ عورت اس مرد کے لیےاس کے بعد حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے ہمبستری کر لے۔"
قرآن خود بتا رہا ہے کہ دوسرے شوہر سے ہمبستری سے حلال ہو جائے گی تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
اب اس پر عقلی گھوڑے دوڑائے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ "نہیں یہ تو لعنتی فعل ہے اور لعنتی فعل سے تو عورت حلال نہیں ہو سکتی" تو اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم قرآن کریم کی بات میں تخصیص کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کا حتی تنکح کہنا اس نکاح کے بارے میں ہے جس میں اتفاق سے طلاق ہو جائے؟ حالاں کہ نہ یہ تخصیص قرآن نے خود کی ہے اور نہ کسی اور دلیل سے ہو رہی ہے۔ صرف ایک عقلی پچ ہے کہ لعنتی کام کا نتیجہ درست نہیں ہونا چاہیے۔
اشماریہ صاحب کے نزدیک کل دلیل یہ ہے کہ حتى تنكح میں نکاح سے مراد ہمبستری (جماع) ہے اور وہ اسے قرآن کا حکم باور کرا رہے ہیں اور اسے نہ ماننے والوں پر طعن کر رہے ہیں کہ وہ قرآن کے حکم کو نہیں مان رہے۔

حالانکہ یہاں نکاح سے مراد ہمبستری نہیں بلکہ عقدِ نکاح (صحیح وشرعی) مراد ہے اور امراۃ رفاعہ قرظی والی حدیث مبارکہ سے صراحت ہو جاتی ہے کہ اس صحیح وشرعی نکاح کے بعد ہمبستری ضروری ہے ورنہ عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہو سکتی۔
اگر بالفرض یہاں تنکح سے ہمبستری بھی مراد لی جائے تو وہ شرعی نکاح کے بعد اپنے خاوند سے جائز ہمبستری مراد ہوگی نہ کہ ناجائز جنسی تعلّق، کیونکہ یہاں 'زوج' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے (حتى تنكح زوجا غيره) اور حلالہ شرعی نکاح ہے ہی نہیں، اس میں جنسی تعلق قائم کرنے والا شوہر نہیں بلکہ زانی ہوتا ہے۔

اگر اشماریہ صاحب کے نزدیک نکاح کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ صرف جنسی تعلق کافی ہے تو کیا ان کے نزدیک اگر ایک عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں تو وہ متعہ یا زنا کے بعد پہلے شوہر کیلئے حلال ہوجائے گی؟؟؟

اگر نہیں تو پھر حلالہ کے بعد کیوں حلال ہوگی؟؟؟ کیونکہ حلالہ شرعی نکاح ہے ہی نہیں وہ تو زنا ہے۔ متعہ اور اس میں کیا فرق ہے؟؟؟

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top