• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ کی شرعی حیثیت ( اہل تقلید کو تحقیق کی دعوت)

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
حلالہ کی شرعی حیثیت
( اہل تقلید کو تحقیق کی دعوت)



اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ تین طلاقیں تین مرتبہ اس طریقے سے دے کہ حالتِ طہر جس میں اس نے مجامعت نہیں کی، میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔

  • اگر خاوند دورانِ عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے
  • لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہے
  • اور اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہے
  • اور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو وہ بعد عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق ہے
  • اور عدت گزر جانے کے بعد اگر رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ہو گا۔
  • لیکن اگر تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہو گا نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔
  • اب اگر اس کا یہ خاوند بھی فوت ہو گیا یا اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اسے طلاق دے دی تو یہ عورت اگر دوبارہ شوہر اوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کا ذکر سورة البقرة میں فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے۔ پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھااور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کے بموجب ابتداء ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھااس صورتحال کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق (جس میں رجوع کی گنجائش ہو) زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد (امساک بمعروف)یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا (تسریح یا حسان)یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مرفوعاً مروی ہے اور ابنِ جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے تو (او تسریح یا حسان)سے مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتیٰ کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت کو بخود اس سے الگ ہو جائے۔(ابنِ جریر ، ابنِ کثیر)

''یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی طلاق کے بعد تین حیض کی مدت ختم ہو جائے گی تو اب عورت آزاد ہو گی۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد کو رجوع کا حق اب ختم ہو گیا۔ ہاں البتہ دونوں عدت کے ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے پھر ملنا چاہیں تو نیانکاح کر کے مل سکتے ہیں لیکن اب دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ صرف خاوند کی رضا مندی سے نیا نکاح نہ ہو سکے گا۔''

قرآن مجید میں سورة البقرة کے اندر موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (اگلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔(البقرۃ ۲۹۹)

اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ طلاق رجعی جو دو مرتبہ ہے، اس پیریڈ میں اگر عورت کی عدت مکمل ہو چکی ہو اور وہ مرد و عورت دوبارہ آپس میں رضا مندی کے ساتھ بسنا چاہیں تو انہیں نکاح کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔ اب اس آیت کریمہ کا شان نزول بھی ملاحظہ فرما لیں تا کہ آپ کی مزید تشفی ہو جائے

''سیدنا حسن بصری سے مروی ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی کے ساتھ کیا ۔ اس نے اسے ایک طلاق دے دی (عدت گزر گئی) تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن اس سے علیحدہ ہو گئی۔ پھر وہ پیغام نکاح لے کر آیا تو معقل نے انکار کیا اور کہا میں نے اپنی معزز بہن کا نکاح تجھے دیا تھا۔ تو نے اسے طلاق دے دی اب تو پھر پیغام نکاح لے کر آ گیا ہے۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے نکاح کر کے نہیں دوں گا اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن لوٹنا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت اتار دی: ''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو اپنے (پہلے ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔'' اس کے بعد معقل رضی اللہ عنہ نے کہا، ہا ں تجھے نکاح کر دیتا ہوں۔''

(بخاری۵۱۳۱، بیھقی ۱۳۸/۷، المعجم الکبیر للطبرانی۴۶۷/۲۰،الجزء الثالث والعشرین من حدیث ابی الطاسر القاضی محمد بن احمد الزسلی ص۲۹، رقم الحدیث۶۵واللفظ لہ)

مذکورہ بالا حدیث صحیح کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ

  • جب عورت کو اس کا شوہر ایک طلاق دے دیتا ہے اور خاوند عدت کے اندررجوع نہیں کرتا تو اختتام عدت کے بعد اگر وہ مرد اور عورت باہم رضامندی سے رہنا چاہتے ہوں تو تجدید نکاح سے دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں۔
  • اسی طرح دوسری مرتبہ کبھی زندگی میں تعلقات کی کشیدگی ہو گئی اور مرد نے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی تو پھر اسی طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے اور اختتام عدت کے بعد نئے نکاح سے جمع ہو سکتے ہیں۔
  • یہ دو حق رجعی اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن)میں ذکر کئے ہیں پھر (فان طللّقھا فلا تجل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا وغیرہ)میں تیسری مرتبہ طلاق کے بعد یہ حق ختم کر دیا گیا ہے۔

مفسرین نے اس سے اس بات کی توضیح کی کہ اکھٹی تین طلاقیں دینے سے تینوں واقعی نہیں ہوتیں بلکہ ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ کچھ حضرات جو اکھٹی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرتے ہیں اور پھر اگلی صورت میں جو حلالہ والی بتاتے ہیں ، یہ قابل غور ہے اور مطلوب ہے۔

تین طلاقوں کے بعد۔۔۔۔

قرآن مجید نے تین طلاقیں (وقفہ بعد وقفہ) واقع ہونے کے بعد جو بتایا ہے کہ اب وہ عورت کسی دوسرے مرد سے جب تک نکاح نہ کر لے ، وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی۔ اس کی تفسیر تمام مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ مقصد نکاح کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقل بسنے اور گھر کی آبادی کی نیت سے نکاح کیا تھا، اسی طرح دوسرے مرد سے بھی مستقل بسنے کی نیت سے نکاح ہو نہ کہ نکاح سے پہلے ہی یہ طے کر لیا جائے کہ ایک دو راتوں بعد اس خاوند نے مجھے طلاق دے دینی ہے۔

ہاں پھر وہ بھی اگر اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہو تو کر سکتی ہے۔ اس صورت کو حلالہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اسی طرح نکاح صحیح کہلائے گا جس طرح پہلے خاوند کے ساتھ نکاح تھا۔ موجودہ کچھ حضرات آج کل اپنے دوسرے طریقے سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے حلالہ قرار دے رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
(مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، ابودائود۲۰۷۶٠٧٦)

اسی طرح فرمایا :
حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے۔
(ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)

اس مُحلّل (حلالہ کرنے والے )کی تشریح ائمہ لغت اور شارحین حدیث رحمۃ اللہ علیہم کے حوالے سے ملاحظہ کیجئے اور اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حلالہ کس آفت و مصیبت کا نام ہے۔

  • حدیث کی لغت کی معروف کتاب الھایہ فی غریب الحدیث والاثر ۱/۴۳۱ پر مرقوم ہے:
حلالہ یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے۔ پھر دوسرا آدمی اس عورت کے ساتھ اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس کے ساتھ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تا کہ پہلے کے لئے حلال ہو جائے۔

  • فقہ کی فقہی اصطلاحات پر شائع شدہ کتاب القاموس الفقھی ص۱۰۰٠مطبوعہ ادارہ القرآن کراچی میں مُحلّل کی تعریف یہ لکھی ہے کہ
مُحلّل سے مراد حلالہ کرنے والا وہ شخص ہے جو مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ اس لئے نکاح کرے تا کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور حدیث شریف میں وارد ہے حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ان دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔

یہی معنی لغت کی مشہور کتب القامو س المحیط٣٧١٣ اور ا لمعجم الوسیط ص١٩٤ پر بھی موجود ہے۔

  • حلالہ کی تشریح احناف کے مشہور امام اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔ محمد بن حسن شیبانی اپنی کتاب الاثار رقم ٨٧٨ پر مُحلّل اورمُحلّل لہکی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
'مُحلّل (حلالہ کرنے والا) اور مُحلّل لہ(جس کے لئے حلالہ کیا جائے) کا بیان یہ ہے کہ ایک مرد اپنی عورت کو تین طلاقیں دے ۔ پھر چاہے کہ اس کا کسی دوسرے مرد سے نکاح کر دے تا کہ وہ اس کو اس کے لئے حلال کر دے۔ (ص۳۷۹،مترجم ابو الفتح عزیزی، مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی کراچی)

  • یہی معنی اور مفہوم شارح حدیث امام بغوی شرح السنہ ۱۰۱/۹، حافظ ابنِ حجر عسقلانی التلخیص الحبیر ۳/۱۷۱٣، امام ابنِ حزم المحلی، امام عبدالرحمن مبارکپوری تحفہ الاحوذی ۲/۱۸۵ اور علامہ معلّی یمانی سبل السلام میں تحریر فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے عبارات درج نہیں کر رہے۔

یہ ہے وہ حلالہ جسے فقہ میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے روا رکھا گیا۔کیا پہلے سے طلاق لینے کی فاسد شرط کے ساتھ نکاح جائز ہو سکتا ہے؟حلالہ کے متعلق۱۴ جنوری۱۹۹۶ء کے جنگ اخبار میں ایک مولوی محمد صدیق ہزاروی کا مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے امام ابو حنیفہ کا موقف یہ لکھا ہے کہ

اختلاف کی صورت میں یہ ہے کہ اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ دوسرا خاوند اسے طلاق دے دے گا تو کیا یہ نکاح ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ شرط بے کار ہو گی یا نکاح ہی نہیں ہو گا۔ اب اگر یہ نکاح صحیح قرار پائے تو طلاق کے بعد عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا اور اگر یہ نکاح صحیح قرار نہیں پاتا تو عورت پہلے خاوند کے لئے بدستور حرام رہے گی۔ سیدنا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو گا کیونکہ فاسد شرائط سے نکاح کے انعقاد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ عبارت من و عن ہم نے نقل کر دی ہے ۔ اب اس کی وضاحت ملاحظہ کیجئے۔ مولوی صدیق ہزاروی نے اس عبارت میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک حلت (عورت کو حلال کروانے ) کی شرط پر نکاح صحیح ہو گا اور یہی بات فقہ کی معتبر کتب کنزالدقائق ص۱۲۶، مع فتح القدیر ۴/۳۴'۳۵ اور دیگر کتب فقہ میں موجود ہے۔ یہ تو آپ نے پیچھے پڑھ لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن کے مطابق حلالہ کرنے والا اور کروانے والا ملعون ہیں اور حلالہ کرنے والا اُدھار سانڈ کی مانند ہے۔ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ہے۔

صاحب سبل السلام راقم ہیں:
مذکورہ حدیث حلالہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ لعنت کا اطلاق فعل حرام کے مرتکب پر ہی ہوتا ہے اور ہر حرام چیز پر شریعت میں نہی وارد ہے اور نہی فساد کا تقاضا ہے۔

لہٰذا جب حلالہ حرام اور منہی عنہ ہے ، اس لئے یہ نکاح فاسد قرار پاتا ہے ۔ یہی مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح حلالہ نکاح فاسد ہے ، زنا اور بدکاری ہے، نکاح صحیح نہیں ہے۔

سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے

''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''
مصنف عبدالرزاق ۲/۲۶۵، سن سعید بن منصور ۲/۴۹'۵۰ بیہقی۷/۲۰۸)

فتوے سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا ''یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہو۔'' (بیہقی۷/۲۰۸،۲۰۹)

اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ''کہ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں ، وہ زناہی کرتے رہیں گے۔'' (مغنی ابنِ قدامہ۱۰/۵۱)

مذکورہ بالا احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ صحیح نہیں بلکہ نکاح فاسد ، زنا اور بدکاری ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے منسوب یہ موقف کہ :
''شرط فاسد ہے لیکن نکاح صحیح ہے اور زوجِ اوّل کے لئے حلال ہو سکتی ہے''

حدیث کے خلاف ، غلط اور باطل ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی شرعی دلیل موجود نہیں۔ امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگردوں کا موقف بھی امام ابو حنیفہ کے خلاف ہے۔ صاحبین کے نزدیک حلالے والی عورت پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی۔

ایک عجیب دلیل:
مولوی صدیق ہزاروی نے امام ابو حنیفہ کا موقف صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ آیت کریمہ میں دوسرے کو مُحلّل قراردیا گیا ہے۔ اب اگر اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور پھر طلاق کی صورت میں عورت پہلے خاوند کے لئے حلال قرار نہ پائے تو اس کو مُحلّل کہنے کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ یہ نکاح صحیح ہو گا، البتہ یہ لوگ گنہگار ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ اندھی تقلید کی وجہ سے مقلد علماء جب حیلوں اور بہانوں کے دروازے کھولنے پر آتے ہیں تو پھر قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کا حلیہ بگاڑتے ہوئے خوف خدا کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جس آیت کریمہ کی طرف مولوی صدیق ہزاروی نے یہ بات منسوب کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں دوسرے آدمی کو مُحلّل کہاہے۔ اگر اس پر غور کریں تو اس صورت کا زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اورا پنے مضمون میں کئی مفسرین کی تفسیروں کے حوالے سے یہ بات درج کی ہے، وہ اس صورت میں قطعاً مختلف ہے ۔ قرآن مجید کی آیت میں اگر ان کے بقول بشرط تحلیل نکاح کو جائز رکھا گیا ہے تو میرے بھائیو کیا جائز کام کرنے پر لعنت مرتب ہوتی ہے اور انسان گنہگار ہوتا ہے جبکہ مولوی صاحب اقراری ہیں کہ نکاح صحیح ہے البتہ لوگ گنہگار ہوں گے۔

رہا حدیث میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسرے شخص کو مُحلّل قراردیا تو یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس کے ا س غلط فعل کرنے سے وہ عوت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کر سکتاہے بلکہ اس لئے مُحلّل کہاہے کہ اس نے عورت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کا قصد کیا ہے اور یہی وجہ ہے اسے مُحلّل کہنے کی۔یہی معنی اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ احادیث میں ہے۔

اس بات کو سمجھانے کے لئے میں قرآن کریم پیش کرتا ہوں۔ غور کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''مہینے کا آگے پیچھے کرنا کفر میں زیادتی ہے۔ کافر اس وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں ایک سال تو اس مہینہ میں لڑنا حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اس میں لڑنا حرام کرتے ہیں۔''(توبہ : ۳۷)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو (محلّون)اور(محرّمون)قرار دیا ہے تو کیا کفار کے یہ فعل کرنے سے واقعی حلت و حرمت ثابت ہو جاتی تھی یا کہ ان کے زعم باطل میں یہ حلال و حرام سمجھے جاتے تھے؟؟
جس طرح کفار کو حلال کرنے والے اور حرام کرنے والے کہنے سے کسی چیز کی حلت و حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ کفر کا غلط مقصد و ارادہ ہی مراد ہوتا ہے، اسی طرح حلالہ کرنے والے کو مُحلّل کہہ دینے سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی بلکہ اس بان پر اسے مُحلّل کہا کہ اس نے اسے حلال کرنے کا ارادہ قصد کیا ہے۔ یہی مفہوم ائمہ لغت اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے۔ النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ص٤٣١١ پر ہے کہ ''اس کو مُحلّل اس لئے کہا گیا کہ اس نے حلال کرنے کا قصد کیا ہے جیسا کہ سودا خریدنے والے کا ارادہ کرنے والے کو مشتری کہا جا تا ہے۔''

یہی معنی امام بغوی نے شرح السنہ۹/۱۰۱ پر لکھا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''جس شخص نے قرآن مجید کی حرام کردہ اشیاء کو حلال گردانا، وہ قرآن پر ایمان نہیں لایا۔'' (ترمذی باب فضائل قرآن)

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے والے کے لئے استحلّ کا لفظ استعمال کیا تو کیا اس کو مستحلّ کہہ دینے سے واقعی قرآن مجید کی حرام کردہ اشیاء حلال قرار پائیں گی؟؟؟



مندرجہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ کا بیان کیا گیا استدلال لفظ مُحلّل سے باطل ہے۔





مقلد حضرات نے حلالہ کو جائز رکھنے کے لئے طرح طرح کے حیلے اور بہانے بنا رکھے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے فقہ کی کتاب کبیر اور الکفایہ میں ہے:

تین طلاقوں کے بعد جب حلالہ کے لئے عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے کر دیا جائے اور عورت کو یہ ڈر ہو کہ دوسرا خاوند اسے طلاق نہیں دے گا تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ عورت کہے میں نے اپنے آپ کو تیرے نکاح میں اس شرط پر دیا کہ طلاق کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہو گا، جب بھی میں چاہوں گی تو مدر اس بات کو قبول کر لے تو جائز ہے اور معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوگا۔

مذکورہ بالا فقہی نکتہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مقلد حضرات کے ہاں جو مروجہ حلالہ ہے اسے یہ بالکل جائز سمجھتے ہیں اور اس بدکاری کو جاری رکھنے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں ان کے ہاں فقہ میں موجود ہیں۔ مقلد حضرات کے ہاں تو حلالہ اگر اس غرض سے کیا جائے کہ حلالہ کرنے والا یہ قصد کر لے کہ یہ عورت میرے پہلے بھائی کے لئے حلال ہو جائے تو اس کی اس نیت پر اسے اجر ملے گا۔

ملاحظہ کیجئے فتح القدیر شرح ہدایہ۴/۳۴، البحر الرائق شرح کنز الدقائق۴/۵۸، فتاویٰ شامی۲/۵۴۰، چلپی حاشیہ شرح وقایہ۲/۵۴۰ اردو دان حضرات ملاحظہ کریں نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ۲/۴۹ اور تقریری ترمذی اردو محمد تقی عثمانی۳/۳۹۹۔

مقلدوں کا حلالہ اور شیعوں کا متعہ

حلالہ اور متعہ تقریباً دونوں ایک ہی ہیں جیسا کہ امام بغوی نے شرح السنہ ١٠١٩ پر لکھا ہے اور قاضی ابو یوسف جو فقہ کے سرتاج ہیں ان کے نزدیک حلالہ وقتی نکاح ہے اور فاسد ہے ملاحظہ کیجئے الجو ہرة النیرہ شرح قدوری ١٢٩٢، فتح القدیر ٣٤٤، فتاویٰ شامی ٥٤٠٢ وغیرہ۔

فقہ جعفریہ کے نزدیک متعہ بڑی با برکت چیز ہے اور اس کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ شیعہ کی تفسیر منہج الصادقین اور برہان المتعہ میں مرقوم ہے کہ ایک بار متعہ کرنے والا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، دوبار کرنے والا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، تین بار متعہ کرنے والا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درجہ پر اور چار بار متعہ کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور مقلدوں کے نزدیک پہلے بھائی کے لئے حلال کرنے کی غرض سے یہ کام کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر پائے گا۔ متعہ اور حلالہ دونوں صورتوں مین طے شدہ مدت کے لئے نام نہاد نکاح کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں بدکاری کو خوب فروغ ملتا ہے۔



اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک اور جھوٹی تاویل
''لعنت سے مراد رحمت ہے''


ان حضرات کے حیلے اور بہانوں کے لئے حلالہ کی تاویل فاسد پر مبنی یہ حوالہ بھی مد نظر رکھئے۔ فقہ کی مشہور کتاب کنزالدقائق کی شرح مستخلص الحقائق صفحہ ١٢٦ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث :

''حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''

کی تاویل یہ لکھی ہے کہ اگر یہ حدیث بشرط تحلیل کے متعلق ہے تو اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کا لفظ بول کر رحمت مراد لی ہو۔

مقلد حضرات کی اس دیدہ دلیری پر غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کو رحمت میں بدل دیا یعنی حلالہ کرنے والا اور کروانے والا دونوں رحمت کے مستحق ہیں۔ اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر اور بھی بہت سے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔مثلاً حدیث میں آتا ہے:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سارے برابر ہیں۔''
سود خور حضرات کہہ سکتے ہیں کہ فقہ حنفی ہمیں سود کھانے کی اجازت دیتی ہے۔ ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت کا استعمال کیا ہو اور مراد رحمت لی ہو۔

اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہے:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس افراد پر لعنت کی ہے نچوڑنے والا، نچڑوانے والا، پینے والال، اس کو اٹھانے والا، جس کی طرف اسے اٹھایا جائے، شراب پلانے والا، بیچنے والا، اس کو خریدنے والاجس کے لئے اس کو خریدا جائے۔'' (ترمذی)

شرابی حضرات کے لئے نادر موقع ہے کہ کہہ دیں ، ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت ہی استعمال کیا ہو۔ مراد رحمت لی ہو اسی طرح دیگر امور ملعونہ کے بارے میں بھی اس طرح کے احتمالات پیدا کرکے جواز کی گنجائش نکالنے والے نکال سکتے ہیں۔ فقہ میں اس طرح کے بے شمار حیلے موجود ہیں جو مختلف امور محرمہ سر انجام دینے کے لئے بڑے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انکے متعلق کسی دوسرے موقع پر گفتگو کریں گے انشاء اللہ ۔

آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ مقلد علماء کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے ایک حرام چیز کو بھی تاویلیں کر کے حلال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی اندھی تقلید کا تقاضا ہے۔ مقلدوں نے اپنے اپنے اماموں کے ناموں پر فرقے کھڑے کر دیئے اور پھر اپنے امام کی ہر بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ مقام امتیوں کو دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خرافات میں ڈوب گئے ہیں اور انہی خرافات کی وجہ سے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر طعن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صرف کتاب و سنت کے راستے پر چلائے۔ آمین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
حلالے کی بابت صاحب'المنار' کی وضاحت

مضمون کی تکمیل کے بعد تفسیر 'المنار ' دیکھنے کااتفاق ہوا، یہ تفسیر الازہر (مصر) کے شیخ محمد عبدہ (مشہور مصری مُصلح) کے تفسیری افادات ہیں جو ان کے تلمیذ رشید علامہ رشید رِضا مصری، مدیر'المنار' نےمرتب کیے ہیں اور تفسیر'المنار' کےنام سے شائع ہوئے ہیں۔
اس تفسیر میں شیخ محمد عبدہ آیت ﴿ فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ؕ﴾ کے تحت لکھتے ہیں۔ ہم اختصار کےپیش نظر اس کا اُردو ترجمہ پیش کررہے ہیں:
''ہرمسلمان کو جاننا چاہیے کہ یہ آیت اس امر میں بالکل واضح ہے کہ وہ نکاح جس کے ذریعے سے مطلقۂ ثلاثہ (زوج اوّ ل کے لئے) حلال ہوتی ہے، وہ صحیح (باقاعدہ) نکاح ہے جو رغبت سےکیا جائے (نہ کہ شرط کرکے بہ جبر) او رجس سےنکاح کا وہ مقصود حاصل ہوجائے جو نکاح سے مطلوب ہوتا ہے۔ پس جس نے مطلقہ ٔ ثلاثہ عورت سے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ عورت زوج اوّل کے لئے حلال ہوجائے تو یہ نکاح صورتاً تو نکاح ہے لیکن غیر صحیح نکاح ہے اور اس سے وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی ،بلکہ یہ ایسی معصیت ہے جس کے مرتکب پر شارع نے لعنت فرمائی ہے اور شارع کسی ایسے فعل پر لعنت نہیں کرتا جو جائز (مشروع) ہو۔ بلکہ ایسے فعل پر بھی لعنت نہیں کرتے جو صرف مکروہ ہی ہو (حرام نہ ہو) جمہور علما کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ لعنت انہی گناہوں پر آئی ہے جو کبیرہ ہوں۔ اگر اس کا دوبارہ اعادہ کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص خون کو پیشاب سے پاک کرے حالانکہ وہ پلیدی پر پلیدی ہے (وہ پاک کس طرح ہوگا؟)
اما م مالک، امام احمد، امام ثوری﷭ ، اہل ظاہر او ران کے علاوہ ایک بڑی تعداد اہل حدیث واہل فقہ میں سے اسی موقف کی قائل ہے۔''
علامہ رشید رضا مصری مرتب ِافادات مزید لکھتے ہیں:
''الاستاذ الامام (شیخ عبدہ) نے فرمایا: حلالے والانکاح، نکاح متعہ سے بھی بدتر ہے اور فساد و عار کے اعتبار سےبھی بہت شدید ہے او رکچھ دوسرے فقہاء جو کہتے ہیں کہ یہ کراہت کے ساتھ جائز ہے جب تک اس میں شرط نہ ہو، اس لئے کہ فیصلہ ظاہر پرہوتا ہے، اس میں کار فرما مقاصد اور پوشیدہ باتوں کو نہیں دیکھا جاتا۔ تو ہم کہتے ہیں: ٹھیک ہے، لیکن دین قیم (اسلام) تو یہ ہے کہ ظاہر باطن کا آئینہ دار ہو، ورنہ وہ نفاق ہوگا۔علاوہ ازیں حلالے کی نیت سے نکاح کرنے والا وہ نکاح حقیقی نہیں کرتا جو اللہ نے مشروع کیا(حکم دیا) ہے اور اسے بیان کیا ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے خود انسان جس طرح چاہے کرلے اور نہ اس شخص کی مرضی پر ہے جوبغرض حلالہ یہ کام کرواتا ہے اور اس پر اس کےساتھ تعاون کرتا ہے۔ اگر قاضی لا علمی کی وجہ سے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ایسے نکاح کےنفاذ کا فیصلہ دیتا ہے، وہ تو معذور گردانا جاسکتا ہے، لیکن اس کا علم رکھنے والا او راس کا ارتکاب کرنے والا معذور قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حافظ ابن قیم نےاس حلالے پر ''اعلام الموقعین'' میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔''
اس کے بعد امام عبدہ نے لعنت والی حدیث اور کرائے کے سانڈ والی حدیث ذکر کرکے وہ آثارِ صحابہ نقل کیے ہیں جن میں اس فعلِ حرام کو زنا اور قابلِ رجم قرار دیاگیا ہےجن کو ہم نے بھی پہلی قسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
''حلالہ کی اس رذالت (کمینگی و خسامت) کے باوجود یہ فعل اُن اشرار میں عام ہے جنہوں نے طلاق کی اجازت کو ایک عادت اور مذاق بنا لیا ہے، بالخصوص اس فتویٰ اورحکم کی وجہ سے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینے سے تینوں ہی واقع ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے دین کو مذا ق اور تماشا بنا لیا ہے جس کی وجہ سے خود اسلام بدنام ہورہا ہے ،حالانکہ اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جواسلام کے نام پر اس کو عیب ناک کررہے ہیں۔
میں نےلبنان میں ایک عیسائی کو دیکھا جو اسلامی کتابوں وغیرہ کی خریداری او ران کے مطالعے کا بڑا شوقین تھا، بالآخر اس کو ہدایت نصیب ہوگئی اور وہ مسلمان ہوگیا تاہم تصوف کی طرف اس کارجحان رہا۔ مجھے اس نےکہا:اسلام میں مجھے تین عیبوں کے سوا اور کوئی عیب نظر نہیں آیا، او ریہ ممکن نہیں کہ یہ عیب اللہ کی طرف سے ہوں (یعنی لوگوں نے ان کو اسلام کے نام پر گھڑ لیا ہے، اللہ کے نازل کردہ دین اسلام میں یہ نہیں ہوسکتے۔)
تفسیر المنار:ج2، ص294
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
حلالہ کے موضوع پر دارالعلوم دیوبند کے چند فتاویٰ جات:
یہ فتاویٰ جات بالا مضمون کے ساتھ پیش کرنے کا ایک خاص مقصد ہے

پہلے تو یہ سب کو معلوم ہی ہے کہ ہمارے برصغیر پاک و ہند کی عوام میں مروجہ حلالہ یا لفظ حلالہ سے مراد وہی حلالہ لیا جاتا ہے جس میں پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کی نیت سے عورت کے ساتھ وقتی نکاح کیا جائے۔ بلکہ یہ ایک طرح کا عرف بن چکا ہے۔ راہ چلتے کسی شخص سے پوچھئے ، آپ کو کم و بیش یہی جواب ملے گا۔
رہا شرعی حلالہ، تو شاید ہزاروں یا لاکھوں میں کوئی ایک یا دو کیسز ایسے ہوں گے، جن میں خاتون کو طلاق ہوئی ہو، اس نے گھر بسانے کی نیت سے دوسری شادی کی ، اور پھر اسے طلاق ہو گئی یا خاوند کی وفات ہو گئی اور پھر سے اس نے پہلے شوہر سے نکاح کر لیا ہو۔ شاید فورم پر موجود کسی شخص کے ذاتی مشاہدہ میں ایسا کوئی کیس نہیں آیا ہوگا، واللہ اعلم۔

اب یہ فتاویٰ جات ملاحظہ کیجئے، جن میں ایسے جوڑوں کو جو طلاق کے عمل سے گزر چکے ہیں، اور حلالہ کرانا چاہتے ہیں، مفتی صاحب نے کہیں پر بھی یہ نہیں کہا کہ ایسا کرنا شریعت کے خلاف ہے، حرام ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہوتی ہے اس نیت سے یا اس شرط سے ایسا کام کرنے والے پر۔ ہاں، آپ کو یہ اصطلاح ضرور ملے گی کہ یہ مکروہ تحریمی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی کہیں نہ کہیں، اس سے بھی بچنے کا کوئی حیلہ ہوگا، جس سے وہ مکروہ تحریمی بھی نہ رہے۔
آپ کو کہیں یہ نہیں ملے گا، کہ آپ نے جو حلالہ کی شرط سے نکاح کیا، یہ لعنتی فعل ہے۔ آپ زنا کے مرتکب ہوئے ، وغیرہ، ایسی کوئی بات نہیں ملےگی، الاما شاءاللہ کہ کسی فتوے میں اس کا کوئی ذکر ہو، میں نے دارالعلوم دیوبند کی فتویٰ سائٹ سے اس مسئلے پر کم و بیش سارے ہی فتوے چھان مارے مجھے تو ایسا کچھ نہیں ملا۔




آن لائن لنک

سوال: اکثر علماء کہتے ہیں کہ اسلام میں حلالہ جائز نہیں ہے، مطلب اگر کوئی عورت کے ساتھ نکاح اس نیت سے کرے کہ اس کے ساتھ ہمبستری کے بعد وہ اسے طلاق دیدے گا تاکہ وہ اپنے سابق شوہر کے واپس چلی جائے، تو یہ حرام ہے اور اس طرح سے نکاح نہیں ہوگا۔ جب کہ کچھ علماء کہتے ہںو اس نیت سے جائزہے ہاں نکاح کے وقت نیت کا اظہار نہ ہو۔ مگر اس نیت سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔ براہ کرم، مع حوالہ جواب دیں تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔
Oct 26,2011
Answer: 34981
فتوی(د): 1839=1155-11/1432
حلالہ کرنے کی شرط پر نکاح کرنا تو مکروہ تحریمی ہے اگرچہ بعد عدت ثانی زوج اول کے لیے جائز ہوجائے گی، اور اگر شرط نہیں لگائی بس نکاح کرلیا تو چاہے دل میں ایسا ارادہ ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے۔ لہٰذا دوسرے بعض علماء کا قول قرآن حدیث اور فقہ کے موافق ہے، قال في الدر وکرہ تحریمًا بشرط التحلیل وإن حلت للأول أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا لقصد الإصلاح (شامي: ۲/۵۸۷)واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

----------

آن لائن لنک
سوال: طلاق کے بعد حلالہ کروانا کیا ہے؟ اگر طلاق کے بعد حلالہ کروانے کے لیے نکاح کیا گیا اور یہ نکاح اس نیت سے کیا گیا کہ ایک یا دو دن بعد طلاق کرا دی جائے گی تو کیا یہ نکاح جائز ہے؟
May 05,2009
Answer: 12235
فتوی: 956=726/ھ
(۱) تین طلاق واقع ہوجانے کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، مرد کو نہ حق رجعت رہتا ہے نہ تجدید نکاح کا استحقاق رہتا ہے، عورت کو بعد انقضائے عدت حق ہوجاتا ہے کہ علاوہ اس شخص کے کہ جس نے طلاق مغلظہ دی ہے کسی سے بھی اپنا نکاح ثانی کرلے پھر دوسرا شوہر بعد جماع کے بقضائے خداوندی وفات پاجائے یا بعد جماع کے طلاق دیدے اور بہرصورت عدت گذرجائے تب اس کو اپنے نکاح جدید کا پھر حق حاصل ہوجاتا ہے اس وقت اگر وہ چاہے تو سابق شخص (تین طلاق دینے والے) سے بھی نکاح کرسکتی ہے، یہ حلالہ ہے، بخاری شریف: ۷۹۱ اور دیگر کتب حدیث، شروح حدیث میں مصرح ۔
(۲) نکاح جائز ہے اور یہ نیت لغو ہے اور شوہر ثانی کو بعد جماع طلاق دینے یا نہ دینے کا پورا اختیار ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ: یہاں جواب سے زیادہ سوال پر نظر رکھیں۔ سائل نے وضاحت سے پوچھا ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح کیا جا رہا ہے۔ مفتی صاحب نے جواب میں نکاح کو جائز قرار دیا، پورے عمل کو حدیث کی روشنی میں ایک طرح سے درست و جائز ثابت کیا۔ لیکن کہیں سائل کو یہ نہیں بتایا کہ تم گناہ گار ہوگے، یہ لعنتی فعل ہے، اور غیرت اور ایمان کے منافی عمل ہے۔۔! اب بتائیے، آپ سائل ہوتے تو اس سے کیا سمجھتے؟ اور یہ فتویٰ لے لینے کے بعد کیا کرتے؟


-----

آن لائن لنک

سوال: حلالہ کا کیا مطلب ہے؟
کیا ایسا کرنا درست ہے؟
May 10,2007
Answer: 420
(فتوى: 184/ل=184/ل)
حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔

حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی: وکرہ التزوج للثاني تحریما بشرط التحلیل وإن حلت للأول (شامي: 5/47 ط زکریا دیوبند) لیکن اگر حلالہ کی شرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا (شامي: 5/48، ط زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ: یہاں بھی واضح طور پر حلالہ کے فعل کے بارے میں سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا یہ فعل درست ہے۔ بجائے اس کے کہ اس فعل کی قباحت و شناعت سائل پر واضح کی جائے، اسے اول تو اصطلاحی معنوں میں مکروہ تحریمی قرار دیا ، جس کی شاید سائل کو ویسے ہی سمجھ نہ ہو، اور پھر اس مکروہ سے بچنے کا حیلہ بھی خود ہی بتا دیا کہ دل میں چھپا کر حلالہ کروا لو، تو مکروہ بھی نہیں ہوگا۔


------

آن لائن لنک
سوال: حلالہ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے، کیوں کہ میں نے ایک حدیث میں پڑھا ہے کہ حلالہ کرنے اورکروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے؟ (۲) اگر تین طلاقیں دی جائیں اوراسی مہینہ کے دوران شوہر رجوع کرلے ․․․․کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور ِ خلافت سے پہلے اکٹھی تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا؟ (۳)حلالہ اور متعہ میں کیا فرق ہے، اگر دونوں میں کچھ وقت کے لیے رشتہ ازدواج مقصود ہو اور اس رشتہ کے بعد میاں اوربیوی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں؟ از راہ مہربانی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
Nov 08,2008
Answer: 7794
فتوی: 1681/د= 99/ک
حدیث مذکور صحیح ہے، جب نکاح میں حلالہ کرنے کی شرط کردی جائے تو وہ نکاح موقت کے مشابہ ہوجاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے، اگر شرط لگاکر نکاح نہ کیا گیا ہو اگر چہ اس کی نیت ہو تو یہ مذموم نہیں ہے۔ لمعات شرح مشکاة میں لکھا ہے المکروہ اشتراط الزوج التحلیل في القول لا في النیعة بل قد قیل إنہ ماجور بالنیة لقصد الإصلاح (حاشیة مشکاة، ص:۲۸۴)
(۲) تین طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے اس لیے اسی مہینہ میں شوہر کا رجوع کرنا درست نہیں، ہے طلاق واقع ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تین طلاق تین ہی ہوتی تھی۔ عمدة الأثاث فی حکم الطلاق الثلاث کا مطالعہ فرمائیں۔
(۳) متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو کہ ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


تبصرہ: یہاں بھی سائل کا سوال مدنظر رکھئے۔ کہ کیا حلالہ کرنے کرانے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ جواب میں اس حدیث کو درست تسلیم کرنے کے باوجود، حیلہ خود ہی بتایا جا رہا ہے کہ شرط لگا کر نکاح نہ کیا جائے تو یہ مذموم بھی نہیں، کجا یہ کہ لعنتی فعل ہو۔ متعہ کے ساتھ مشابہت کا جواب بھی عجیب ہے۔ یعنی نیت کا تو گویا اعتبار ہی نہیں، بس نکاح نامہ پر اسے بطور شرط نہ لکھوایا جائے تو سب جائز و درست ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی نکاح متعہ کی نیت کرے، لیکن اس کو بطور شرط کاغذ پر نہ لکھوائے ، تو یہ دیوبندی حضرات کے نزدیک جائز و درست ہے۔ واللہ اعلم۔

جاری ہے
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
سوال: مفتی صاحب میں جاننا چاہتاہوں کہ اگر ایک لڑکا اور لڑکی دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں یعنی نکاح کر لیں اور ان کا آپس میں جھگڑا ہو جائے اور غصہ میں لڑکا تین بار طلا ق دے دے تو کیا حلالہ کے بعد وہ پھر سے آپس میں شادی کرسکتے ہیں؟ انھوں نے ایک بندے کو حلالہ کے لیے راضی کرلیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں او رغلط فہمی میں جھگڑے کی وجہ سے طلاق ہوئی۔ طلاق دئے ہوئے دس مہینہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور لڑکی اپنے والدین کے گھر ہی ہوتی ہے اور سوائے لڑکے کے دو دوستوں اورلڑکی کی بہن کے ان کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ پہلے ان کے گھر والے ان کے رشتہ کے لیے راضی نہیں تھے تبھی انھوں نے چھپ کر شادی کرلی اب ان کے گھر والے ان کی ضد کی وجہ سے ان کی شادی کے لیے مان گئے ہیں۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اب لڑکی کی عدت کا کیا ہوگا؟ کیا ا س کی عدت طلاق کے تین مہینوں بعد پوری ہوگئی تھی جب کہ وہ دونوں آپس میں اب تک ملتے رہے طلاق کے بعد بھی؟
Sep 02,2009
Answer: 15520
فتوی: 1581=1301/1430/د
تین طلاق کے بعد عورت حرام ہوجاتی ہے، البتہ حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، صورت مذکورہ میں شوہر بیوی کے ساتھ ملتا رہا تو اب عورت سے بالکلیہ متارکت اختیار کرلے۔ اور بعد متارکت تین ماہواری گذرجانے کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے اپنا نکاح کرلے، بعد نکاح شوہر ثانی ہمبستری کرے، پھر کسی وجہ سے طلاق دیدے تو عورت دوسری عدت گذارنے کے بعد اس لڑکے سے شادی کرسکتی ہے۔ ہکذا في فتاوی دار العلوم: ۱۰/۳۴۵، وفي الشامي وإذا وطئت المعتدة بشبہة ولو من المطلق وجب عدة أخری لتجدد السبب وتداخلتا (شامي)

تبصرہ:
سائل واضح طور پر بتا رہا ہے کہ وہ حلالہ کی نیت سے کسی شخص کو راضی کر چکا ہے۔ اب حلالہ کے بعد نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اور پورے جواب میں کہیں اس قسم کے فعل کو حرام، غلط، ناجائز، لعنتی نہیں قرار دیا گیا ۔ بلکہ سائل کو مطمئن کر دیا گیا ہے کہ اس نیت سے نکاح جائز و درست ہے ۔ پھر اس جواب میں "کسی وجہ سے" کے الفاظ بھی بہت خوب استعمال فرمائے۔ سائل نے واضح کر دیا کہ وہ حلالہ کی نیت سے نکاح کروانے لگا ہے، پھر مفتی صاحب کسی وجہ سے فرما کر خود ہر قسم کے فرض سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔


----
آن لائن لنک
سوال: اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کوطلاق مغلظہ دی ، اور اس کے بعد حلالہ کیا اور اس سے دوبارہ شادی کر لی۔ اب اگر وہ بیوی کو دوسری مرتبہ طلاق دیتا ہے تو کیاوہ دوسری مرتبہ حلالہ کرسکتا ہے؟
Oct 21,2009
Answer: 16721
فتوی(ل):1628=1292-10/1430
اگر وہ اپنی بیوی کو دوسری مرتبہ تین طلاق دیدیتا ہے تو تیسری بار نکاح کرنے کے لیے دوبارہ حلالہ شرعیہ ضروری ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
یہاں بھی ملاحظہ کیجئے کہ نہ تو پہلے حلالہ کو غلط قرار دیا گیا، نہ بعد میں ایسی سوچ رکھنے کو غلط کہا گیا۔ بلکہ دوبارہ حلالہ شرعیہ کی اجازت دے دی گئی۔

غور کیجئے کہ مسلمانوں کی چودہ صد سالہ تاریخ میں ایسا کتنی بار ہوا ہوگا کہ میاں نے بیوی کو طلاق دیں، خاتون نے کہیں اور نکاح کیا، وہاں سے طلاق یا خاوند فوت ہوا، پھر پہلے شوہر سے نکاح کر لیا۔ پھر اس نے طلاق دے دی، پھر خاتون نے کسی تیسرے سے نکاح کیا، پھر وہاں سے طلاق یا خاوند کی وفات ہوئی، اور اس نے پھر پہلے شوہر سے نکاح کر لیا۔ اگر نکاح کا مقصد واقعی گھر بسانے کی نیت سے نکاح لیا جائے تو شاید ایسا ایک بھی واقعہ نہ مل سکے۔
لیکن قرآن کے ظاہری الفاظ سے عوام کو گمراہ کرنے والے ان حضرات کے فتاویٰ سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے گڑیا گڈے کے درمیان نکاح و طلاق کروا رہے ہیں۔

-----
آن لائن لنک
سوال: فوزیہ کو انور نے ایک سانس میں تین بار طلاق، طلاق، طلاق، کہا۔ اس وقت فوزیہ اپنے پیٹ سے تھی اس کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا وہاں پر کوئی گواہ موجود نہیں تھا مگر انور صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اسے طلاق کہا (ان کا طلاق ہوا یا نہیں)؟ اب انور صاحب پھر سے فوزیہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اسے حلالہ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ میں بس انتا جاننا چاہتا ہوں کہ اگر غصہ میں گوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کہہ دے اور بعد میں اس کو ایسا لگے کہ نہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور میں پھر سے اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تو ان کو کیا کرنا چاہیے اورشریعت کے حساب سے ان کو کیا کرنا چاہیے (اب انور اور فوزیہ کو ساتھ میں رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے)؟ برائے کرم اس مسئلہ کا صحیح حل بتائیں۔
Dec 22,2009
Answer: 17900
فتوی(ب):384tb=2517-1/1431
جب انور نے صریح الفاظ میں اپنی بیوی کو تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ دیا تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہوکر مغلظہ ہوگئیں۔ کرر لفظ الطلاق وقع الکل (در مختار) طلاق حمل کی حالت میں بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اورغصہ کی حالت میں بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اب حلالہ شرعی کے بغیر بیوی کو اپنی زوجیت میں لانے کی کوئی اور صورت نہیں۔ حلالہ کے بعد اس کو اپنی زوجیت میں رکھ سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
ملاحظہ کیجئے، مفتی صاحب یہی کہتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہے کہ حلالہ کروا لو؟؟؟
اشماریہ
انصاف سے بات کیجئے گا۔

-------
آن لائن لنک
سوال: زید کے طلاق دینے کے بعد، سارہ (بیوی) اور لڑکی حیا زید کے والدین کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں میں رہتے ہیں۔جب کہ زید ایک دور کے شہر میں کام کرتا ہے اوروہیں رہتا ہے۔اب ان دونوں کواپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، اور لڑکی حیاء ، پر ان کی جدائی کے برے اثر کی وجہ سے حلالہ کرنا چاہتے ہیں (غیر منصوبہ بند طریقہ سے)۔ لیکن ان کے والدین ان کے خلاف ہیں۔ سارہ کے والدین کہتے ہیں کہ یہ شریعت کے مطابق جائز نہیں ہے۔ زید کے والدین کہتے ہیں کہ اگر چہ غیر منصوبہ بند طریقہ پر حلالہ شریعت میں جائز ہوسکتا ہے، لیکن دوسرے سماجی وجوہات کی بناء پر وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بڑی سماجی وجہ یہ ہے کہ اس حلالہ کا منفی اثر ان کی خاندان کی دوسری لڑکیوں کی شادی کی تجویز پر پڑے گا، نیز ان کی لڑکی حیاء کی نفسیات اور زندگی پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔لیکن دوسرے رشتہ داروں اور دوستوں سے بحث و مباحثہ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس طرح کے منفی سماجی اثر ظاہر نہیں ہوں گے اوریہ بہت اہم نہیں ہوں گے۔ خاص طور سے زید اورسارہ اپنی لڑکی حیاء کی خاطر حلالہ کرانا چاہتے ہیں۔ (۱) کیا شریعت اس طرح کی سماجی وجوہات کی بناء پر والدین کے راضی نہ ہونے کی وجہ سے حلالہ کرنے سے منع کرتی ہے؟ (۲) اگر زید اور سارہ والدین کی خواہش کے برخلاف حلالہ کراتے ہیں تو کیا زید اورسارہ شریعت کی رو سے والدین کی نافرمانی کا گناہ پائیں گے؟
Jul 15,2008
Answer: 4834
فتوی: 936/ د= 54/ ک
(۱) زید کی جانب سے سارہ کو طلاق مل جانے پر بعد عدت سارہ کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا وہ جس مرد سے نکاح کرنا چاہے کرسکتی ہے، بلا کسی شرط کے دوسرے شخص سے نکاح ہوجانے کے بعد اگر وہ بعد ہمبستری طلاق دیدیتا ہے تو سارہ اپنی عدت دوبارہ پوری کرکے زید سے بھی نکاح کرنے کی مجاز ہوجائے گی۔ سارہ کا اس طرح دوسری جگہ اپنا نکاح کرنا ذاتی حق ہے والدین کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
(۲) بربنائے ضرورت نافرمانی کا گناہ نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
غور کیجئے کہ سائل کو بھی اب معلوم ہے کہ غیرمنصوبہ بند طریقے سے حلالہ کروایا جا سکتا ہے یعنی شرط عائد کئے بغیر، اور وہ اسے شریعت میں جائز بھی سمجھ رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مفتی صاحب کے جواب میں کہیں حرام، گناہ، مکروہ تحریمی، وغیرہ جیسے الفاظ نہیں۔ بلکہ ان کے جواب سے خودبخود محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایک دن بعد طلاق کی نیت سے نکاح کرکے، پہلی بیوی کے لئے حلال کرنا بالکل جائز و درست بلکہ عین مطلوب و مقصود شریعت ہے۔
دوسری بات یہ دیکھئے کہ اس مقصد کے لئے لڑکی اپنے والدین کی نافرمانی کی گناہ گار بھی نہیں ہوگی۔!!!؟
یعنی نکاح متعہ کی طرح یہ بھی کوئی گویا مقدس فریضہ ہے، کہ جس کو انجام دینے کے لئے والدین کی نافرمانی بھی جائز و درست قرار پاتی ہے۔ گناہ گار ٹھہرانا تو رہی دور کی بات۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

---------
آن لائن لنک
سوال: حلالہ کے بارے میں بتائیں۔ اگر کوئی (محلل) کنڈوم کے ساتھ عورت سے ہمبستری کرتاہے تو کیا اس سے حلالہ صحیح ہوجائے گا؟کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ?حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ? أوکما قال۔ براہ کرم، باحوالہ جواب دیں۔
Apr 03,2008
Answer: 3287
فتوی: 358/ ب= 321/ ب
بہتر تو یہی ہے کہ شوہر ثانی کنڈوم کے بغیر صحبت کرے اور اگر کنڈوم کے ساتھ ہمبستری کی تو بھی حلالہ صحیح ہوجائے گا، کیوں کہ اس میں صرف ادخال کافی ہے، منی کا نکلنا شرط نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
لیجئے اب حلالہ کے احکام بھی ملاحظہ فرما لیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والوں میں کچھ درجات ہوتے ہیں، جو افضل درجے کا حلالہ کرنا چاہتے ہوں ان کے لئے بہتر ہے کہ کنڈم کا استعمال نہ کریں، جنہیں ثواب سے زیادہ غرض نہیں ہے، تو وہ کنڈم استعمال کر لیں تب بھی حلالہ جائز اور صحیح ہو جائے گا۔ استغفراللہ۔


جاری ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آن لائن لنک
ایک مرد نے اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق کہا او روہ لوگ ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور بارہ سال گزر چکاہے۔ کیا یہ طلاق ایک شمار کی جائے گی؟اس وقت وہ شرابی تھا لیکن اب اس نے توبہ کرلیا ہے اور اس وقت وہ پابند ی سے پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے۔
Oct 27,2009
Answer: 16823
فتوی(م):1591=1591-10/1430
اگر مرد اقرار کرتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق تین مرتبہ کہا ہے یا اس پر شرعی گواہ موجود ہیں تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں پڑگئیں، اور بیوی اس کے لیے بالکلیہ حرام ہوگئی، تین طلاق کے بعد شرعی حلالہ کے بغیر ایک ساتھ رہنا حرام وناجائز اور سخت گناہ ہے، درمختار میں ہے: لو کرر لفظ الطلاق وقع الکل إلخ مرد کو چاہیے کہ فوری بیوی سے علاحدگی اختیا رکرے اور گناہوں سے میاں بیوی دونوں توبہ واستغفار کریں، اور آئندہ اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو حلالہ کے بعد نکاح جدید کرکے رہ سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
فتویٰ کے آخری جملہ پر غور کیجئے۔ کہیں سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ قرآن کے بیان کردہ شرعی حلالہ کی بات ہے۔ جب مفتی خود سائل کو کہہ رہا ہے کہ آئندہ اگر اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حلالہ کے بعد نکاح جدید کر کے رہ سکتے ہو، تو سائل اگر ایسا کرتا ہے اور شریعت کی اجازت سمجھ کر کرتا ہے، تو اس کا کیا قصور؟ اور مفتی صاحب نے یہاں بھی بالآخر اشماریہ صاحب کی زبان میں خود اقرار نہیں کیا کہ "حلالہ کروا لو"۔۔۔اب اور کس طرح سے اقرار ہوتا ہے بھلا؟

-------
آن لائن لنک
میرے ابو او ربہنوئی وہابی (غیر مقلدین) گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے بہنوئی نے میری بہن کی لڑائی جھگڑے کے دوران کہا کہ: (۱)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (۲)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (۳)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)۔ پھر چند دن بعد یہ کہہ کر رجوع کرلیا کہ ہمارے یہاں مجلس واحد میں تین طلاق ایک گنی جاتی ہے۔ چونکہ میرے ابو بھی اسی گروپ کے تھے لہذا انھوں نے میری بہن کو واپس بہنوئی کے پاس بھیج دیا۔ اس واقعہ کے بعد ان کے یہاں دو بچے اور ہوئے اور وہ دونوں آج تک ساتھ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ فقہ حنفی کے مطابق جواب دیں کہ کیا وہ دونوں میاں بیوی ہیں او راگر نہیں تو ان کے ساتھ میں میل جول رکھوں یا ترک کردوں اور اگر میاں بیوی ہیں تو شرعی دلیل اس کی روانہ کریں؟
Jun 09,2009
Answer: 13283
فتوی: 820=637/ل
ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مذہب یہ ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت مغلظہ بائنہ ہوکر شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور بغیر حلالہ شرعی وہ شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی، قرآن شریف، احادیث، ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلَف وخلَف کے اقوال سے یہی ثابت ہے، تین طلاق کے بعد آپ کی بہن اور بہنوئی کے درمیان رشتہ زوجیت ختم ہوگیا اور بغیر حلالہ شرعی کے ان دونوں کا حسب سابق مثل زوجین رہنا غلط اور گناہ کبیرہ ہے، ان دونوں کے درمیان تفریق ضروری ہے، اگر دونوں تفریق پر راضی نہ ہوں تو ان سے قطع تعلق کرنا جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


------------

آن لائن لنک
سوال: اگر کسی عورت کے تین بچے ہیں اور اس کے شوہر نے صاف الفاظ میں خط کے ذریعہ تین طلاق لکھ کر بھیج دیا ہو ، لیکن بعد میں وہ اسے اپنی غلطی بتاکر کہ میں نے غصہ کی حالت میں طلاق دی تھی ، پھر سے مطلقہ کو دوبارہ رجوع ہونے کا آفر کرتاہوں۔ دوسری جانب بیوی اپنے والدین کی نصیحتوں کو ٹھکرا کر اپنی مرضی سے گھر سے باہر جا کر اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کرکے رجوع کرلیتی ہے تو اس عورت کے بارے میں شریعت کاکیا حکم ہے؟کیا اس عورت سے والدین اور بھائی بہن سب تعلق رکھ سکتے ہیں یا پھر قطع تعلق کرلینا چاہئے؟بغیر حلالہ کیئے ہوئے اس شوہر سے نکاح کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟براہ کرم، اس بارے میں تفصیلی جواب دیں ۔
Mar 03,2011
Answer: 30515
فتوی(ب):345=314-3/1432
تین طلاقیں لکھنے کے بعد طلاق مغلظہ ہوگئی، اس میں حلالہ شرعی کے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں جاسکتی۔ عورت نے جو کچھ کیا وہ ناجائز وحرام کام کیا اور قرآن کے خلاف کام کیا۔ قرآن میں دو طلاقوں کے دینے کے بعد مذکورہے کہ ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ یعنی تین طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کیے بغیر پہلے شوہر کے یہاں عورت نہیں رہ سکتی۔ یہ حرام کام ہوگا۔ دونوں کو فوراً علاحدہ ہونا چاہیے، اگر نہ مانیں تو ان دونوں سے تعلق قطع کرنا درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند



تبصرہ: درج بالا تینوں فتاویٰ جات میں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ حلالہ کئے بغیر مطلقہ خاتون کو پہلے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دینا، جبکہ تین طلاق بھی بدعی طریقہ سے دی گئی ہوں، مسند افتاء کے گدی نشینوں کے لئے کس قدر تکلیف کا ذریعہ بنی ہیں، کہ فتویٰ میں جگہ جگہ حرام، فوری علیحدگی کا حکم ، قطع تعلق کی تلقین، ناجائز و غلط، قرآن کے خلاف، الفاظ استعمال کئے ہیں۔
جبکہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے پر امت کا ایک بڑا طبقہ قائل بھی رہا ہے۔

دوسری جانب گزشتہ پوسٹس میں حلالہ سے متعلق جن فتاویٰ جات کی نشاندہی کی گئی ہے، وہاں آپ کو ایسی سختی کہیں نظر نہیں آتی۔ بلکہ مفتی کا انداز بیان ایسا ہوتا ہے کہ جس سے عام سائل خود بخود اس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ حلالہ کروانا بالکل درست و جائز فعل ہے اور اس کے حرام، لعنتی، کبیرہ گناہ کا شائبہ تک نہیں گزرتا۔ نہ مفتی ہی ایسے لعنتی فعل میں ملوث ہونے والوں سے قطع تعلق کی کوئی بات کرتے ہیں، نہ آئندہ اس سے بچنے کے لئے کوئی نصیحت دیتے ہیں۔۔۔!


اب ان تمام فتاویٰ جات کو سامنے رکھیں اور محترم اشماریہ صاحب کا یہ تعلی آمیز دعویٰ دوسری جانب رکھیں کہ:

کسی ایک کا بھی تحریر کردہ فتوی دکھائیں کہ حلالہ کروادو۔
ورنہ یاد رکھیں کہ حلالہ کی شرط سے نکاح احناف کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے اور حرام کام ہے۔
غلط کام کرنے والے ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم تحریر شدہ فتوی مانگتے ہیں۔ اسے حنفیوں کی مس گائیڈنگ کیوں کہتے ہیں؟
آپ ایک کام کریں ایسے کسی عالم کے پاس جائیں اور جب وہ کہے کہ حلالہ کروا لو تو اسے کہیں کہ بعینہ یہی الفاظ "حلالہ کروا لو" مجھے آپ تحریرا دے دیں۔ وہ کبھی نہیں دے گا۔ کچھ اور لکھے گا مثلا اگر حلالہ ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن اگر دیدے تو مجھے بتائیے گا۔ میں آپ کو ملک کے مختلف دار الافتاء بتاؤں گا۔ وہاں جمع کروا دیجیے گا۔ رد آ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگر حلالہ ایک قبیح اور لعنتی فعل ہے۔ تو خو دعلمائے دیوبند اپنے فتاویٰ جات میں کیوں سائلین کو اسی کی تلقین کرتے ہیں؟ کیوں اس کی قباحت و شناعت سے لوگوں کو آگاہ نہیں کرتے۔ کیوں لوگوں کو حیلہ بازیاں سکھا کر کہ چھپا کر حلالہ کر لو تو مکروہ بھی نہیں ، لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں؟؟؟

فقہ حنفی میں اکثر مقامات پر جہاں اس قسم کے شرمناک مسائل ہیں۔جو حرمت مصاہرت سے متعلقہ ہیں، یا حدود اور غسل وغیرہ کے عجیب و غریب مسائل ہیں۔ انہیں جب عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو احناف کا سب سے بڑا دفاعی پوائنٹ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایسا نہیں کہتے کہ یوں کرنا چاہئے، ہم تو فقط یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کر لے تو کیا حکم ہوگا۔۔!

کچھ یہی معاملہ حلالہ کے بارے میں بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اشماریہ بھائی کی پوسٹس سے واضح ہے کہ مفتی یہ نہیں کہے گا کہ حلالہ کروا لو، کچھ اور لکھے گا کہ مثلا حلالہ ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ اب بالا پوسٹس میں درج فتاویٰ کو ملاحظہ کیا جائے تو اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ احناف اس معاملے میں حلالہ جیسے لعنتی فعل کی ترویج کے لئے مختلف حیلوں ، بہانوں سے عوام کو مائل کر رہے ہیں۔ نہ تو عوام پر اس فعل کی قباحت و شناعت کو واضح کیا جاتا ہے ، جیسا کہ مجلس واحد کی طلاق ثلاثہ کے بعد رجوع والے فتاویٰ میں ہم نے دیکھا۔ بلکہ خود سائلین کو اس راہ کی جانب رہنمائی کی جاتی ہے کہ وہ خود اس قبیح اور گھناؤنے فعل میں ملوث ہو جائیں اور اسے عین تقاضائے شریعت بھی سمجھیں۔ اس سے بڑھ کراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی توہین اور بے ادبی اور کیا ہوگی، کہ جس شے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام و ناجائز بتلائیں، اس پر لعنت کریں، عین وہی فعل ایک حیلہ کی مدد سے آج ہمارے معاشرے میں عین مطلوب و مقصود شریعت سمجھ کر کیا جا رہا ہے، اور اس کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ آئی ہے جو خود کو اہل حق قرار دیتے نہیں تھکتے۔

تھا جو "ناخوب" بتدریج وہی " خوب" ہوا۔۔۔!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آن لائن لنک
ایک مرد نے اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق کہا او روہ لوگ ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور بارہ سال گزر چکاہے۔ کیا یہ طلاق ایک شمار کی جائے گی؟اس وقت وہ شرابی تھا لیکن اب اس نے توبہ کرلیا ہے اور اس وقت وہ پابند ی سے پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے۔
Oct 27,2009
Answer: 16823
فتوی(م):1591=1591-10/1430
اگر مرد اقرار کرتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق تین مرتبہ کہا ہے یا اس پر شرعی گواہ موجود ہیں تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں پڑگئیں، اور بیوی اس کے لیے بالکلیہ حرام ہوگئی، تین طلاق کے بعد شرعی حلالہ کے بغیر ایک ساتھ رہنا حرام وناجائز اور سخت گناہ ہے، درمختار میں ہے: لو کرر لفظ الطلاق وقع الکل إلخ مرد کو چاہیے کہ فوری بیوی سے علاحدگی اختیا رکرے اور گناہوں سے میاں بیوی دونوں توبہ واستغفار کریں، اور آئندہ اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو حلالہ کے بعد نکاح جدید کرکے رہ سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
فتویٰ کے آخری جملہ پر غور کیجئے۔ کہیں سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ قرآن کے بیان کردہ شرعی حلالہ کی بات ہے۔ جب مفتی خود سائل کو کہہ رہا ہے کہ آئندہ اگر اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حلالہ کے بعد نکاح جدید کر کے رہ سکتے ہو، تو سائل اگر ایسا کرتا ہے اور شریعت کی اجازت سمجھ کر کرتا ہے، تو اس کا کیا قصور؟ اور مفتی صاحب نے یہاں بھی بالآخر اشماریہ صاحب کی زبان میں خود اقرار نہیں کیا کہ "حلالہ کروا لو"۔۔۔اب اور کس طرح سے اقرار ہوتا ہے بھلا؟

-------
آن لائن لنک
میرے ابو او ربہنوئی وہابی (غیر مقلدین) گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے بہنوئی نے میری بہن کی لڑائی جھگڑے کے دوران کہا کہ: (۱)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (۲)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (۳)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)۔ پھر چند دن بعد یہ کہہ کر رجوع کرلیا کہ ہمارے یہاں مجلس واحد میں تین طلاق ایک گنی جاتی ہے۔ چونکہ میرے ابو بھی اسی گروپ کے تھے لہذا انھوں نے میری بہن کو واپس بہنوئی کے پاس بھیج دیا۔ اس واقعہ کے بعد ان کے یہاں دو بچے اور ہوئے اور وہ دونوں آج تک ساتھ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ فقہ حنفی کے مطابق جواب دیں کہ کیا وہ دونوں میاں بیوی ہیں او راگر نہیں تو ان کے ساتھ میں میل جول رکھوں یا ترک کردوں اور اگر میاں بیوی ہیں تو شرعی دلیل اس کی روانہ کریں؟
Jun 09,2009
Answer: 13283
فتوی: 820=637/ل
ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مذہب یہ ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت مغلظہ بائنہ ہوکر شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور بغیر حلالہ شرعی وہ شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی، قرآن شریف، احادیث، ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلَف وخلَف کے اقوال سے یہی ثابت ہے، تین طلاق کے بعد آپ کی بہن اور بہنوئی کے درمیان رشتہ زوجیت ختم ہوگیا اور بغیر حلالہ شرعی کے ان دونوں کا حسب سابق مثل زوجین رہنا غلط اور گناہ کبیرہ ہے، ان دونوں کے درمیان تفریق ضروری ہے، اگر دونوں تفریق پر راضی نہ ہوں تو ان سے قطع تعلق کرنا جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


------------

آن لائن لنک
سوال: اگر کسی عورت کے تین بچے ہیں اور اس کے شوہر نے صاف الفاظ میں خط کے ذریعہ تین طلاق لکھ کر بھیج دیا ہو ، لیکن بعد میں وہ اسے اپنی غلطی بتاکر کہ میں نے غصہ کی حالت میں طلاق دی تھی ، پھر سے مطلقہ کو دوبارہ رجوع ہونے کا آفر کرتاہوں۔ دوسری جانب بیوی اپنے والدین کی نصیحتوں کو ٹھکرا کر اپنی مرضی سے گھر سے باہر جا کر اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کرکے رجوع کرلیتی ہے تو اس عورت کے بارے میں شریعت کاکیا حکم ہے؟کیا اس عورت سے والدین اور بھائی بہن سب تعلق رکھ سکتے ہیں یا پھر قطع تعلق کرلینا چاہئے؟بغیر حلالہ کیئے ہوئے اس شوہر سے نکاح کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟براہ کرم، اس بارے میں تفصیلی جواب دیں ۔
Mar 03,2011
Answer: 30515
فتوی(ب):345=314-3/1432
تین طلاقیں لکھنے کے بعد طلاق مغلظہ ہوگئی، اس میں حلالہ شرعی کے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں جاسکتی۔ عورت نے جو کچھ کیا وہ ناجائز وحرام کام کیا اور قرآن کے خلاف کام کیا۔ قرآن میں دو طلاقوں کے دینے کے بعد مذکورہے کہ ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ یعنی تین طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کیے بغیر پہلے شوہر کے یہاں عورت نہیں رہ سکتی۔ یہ حرام کام ہوگا۔ دونوں کو فوراً علاحدہ ہونا چاہیے، اگر نہ مانیں تو ان دونوں سے تعلق قطع کرنا درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند



تبصرہ: درج بالا تینوں فتاویٰ جات میں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ حلالہ کئے بغیر مطلقہ خاتون کو پہلے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دینا، جبکہ تین طلاق بھی بدعی طریقہ سے دی گئی ہوں، مسند افتاء کے گدی نشینوں کے لئے کس قدر تکلیف کا ذریعہ بنی ہیں، کہ فتویٰ میں جگہ جگہ حرام، فوری علیحدگی کا حکم ، قطع تعلق کی تلقین، ناجائز و غلط، قرآن کے خلاف، الفاظ استعمال کئے ہیں۔
جبکہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے پر امت کا ایک بڑا طبقہ قائل بھی رہا ہے۔

دوسری جانب گزشتہ پوسٹس میں حلالہ سے متعلق جن فتاویٰ جات کی نشاندہی کی گئی ہے، وہاں آپ کو ایسی سختی کہیں نظر نہیں آتی۔ بلکہ مفتی کا انداز بیان ایسا ہوتا ہے کہ جس سے عام سائل خود بخود اس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ حلالہ کروانا بالکل درست و جائز فعل ہے اور اس کے حرام، لعنتی، کبیرہ گناہ کا شائبہ تک نہیں گزرتا۔ نہ مفتی ہی ایسے لعنتی فعل میں ملوث ہونے والوں سے قطع تعلق کی کوئی بات کرتے ہیں، نہ آئندہ اس سے بچنے کے لئے کوئی نصیحت دیتے ہیں۔۔۔!


اب ان تمام فتاویٰ جات کو سامنے رکھیں اور محترم اشماریہ صاحب کا یہ تعلی آمیز دعویٰ دوسری جانب رکھیں کہ:







سوال یہ ہے کہ اگر حلالہ ایک قبیح اور لعنتی فعل ہے۔ تو خو دعلمائے دیوبند اپنے فتاویٰ جات میں کیوں سائلین کو اسی کی تلقین کرتے ہیں؟ کیوں اس کی قباحت و شناعت سے لوگوں کو آگاہ نہیں کرتے۔ کیوں لوگوں کو حیلہ بازیاں سکھا کر کہ چھپا کر حلالہ کر لو تو مکروہ بھی نہیں ، لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں؟؟؟

فقہ حنفی میں اکثر مقامات پر جہاں اس قسم کے شرمناک مسائل ہیں۔جو حرمت مصاہرت سے متعلقہ ہیں، یا حدود اور غسل وغیرہ کے عجیب و غریب مسائل ہیں۔ انہیں جب عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو احناف کا سب سے بڑا دفاعی پوائنٹ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایسا نہیں کہتے کہ یوں کرنا چاہئے، ہم تو فقط یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کر لے تو کیا حکم ہوگا۔۔!

کچھ یہی معاملہ حلالہ کے بارے میں بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اشماریہ بھائی کی پوسٹس سے واضح ہے کہ مفتی یہ نہیں کہے گا کہ حلالہ کروا لو، کچھ اور لکھے گا کہ مثلا حلالہ ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ اب بالا پوسٹس میں درج فتاویٰ کو ملاحظہ کیا جائے تو اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ احناف اس معاملے میں حلالہ جیسے لعنتی فعل کی ترویج کے لئے مختلف حیلوں ، بہانوں سے عوام کو مائل کر رہے ہیں۔ نہ تو عوام پر اس فعل کی قباحت و شناعت کو واضح کیا جاتا ہے ، جیسا کہ مجلس واحد کی طلاق ثلاثہ کے بعد رجوع والے فتاویٰ میں ہم نے دیکھا۔ بلکہ خود سائلین کو اس راہ کی جانب رہنمائی کی جاتی ہے کہ وہ خود اس قبیح اور گھناؤنے فعل میں ملوث ہو جائیں اور اسے عین تقاضائے شریعت بھی سمجھیں۔ اس سے بڑھ کراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی توہین اور بے ادبی اور کیا ہوگی، کہ جس شے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام و ناجائز بتلائیں، اس پر لعنت کریں، عین وہی فعل ایک حیلہ کی مدد سے آج ہمارے معاشرے میں عین مطلوب و مقصود شریعت سمجھ کر کیا جا رہا ہے، اور اس کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ آئی ہے جو خود کو اہل حق قرار دیتے نہیں تھکتے۔

تھا جو "ناخوب" بتدریج وہی " خوب" ہوا۔۔۔!
اتنی لمبی پوسٹ؟؟؟؟؟
بھائی اتنا فارغ نہیں ہوں۔
یہاں صورت بتائی گئی ہے کہ حلالہ کے بعد رہ سکتی ہے۔ یعنی اگر کسی بھی صورت میں ہو جائے تو۔ یہ نہیں کہا گیا کہ لاؤ میں حلالہ کرتا ہوں یا اس لڑکی کا حلالہ کروا دو۔
یہ تو قرآن نے بھی بتایا ہے۔ اگرچہ قرآن نے اپنے مخصوص بلیغ انداز میں مختصر الفاظ بیان کیے ہیں لیکن بات واضح ہے۔
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ
وہاں بھی اعتراض کریں گے؟

کوئی علمی اشکال ہو تو بیان فرمائیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اتنی لمبی پوسٹ؟؟؟؟؟
بھائی اتنا فارغ نہیں ہوں۔
یہاں صورت بتائی گئی ہے کہ حلالہ کے بعد رہ سکتی ہے۔ یعنی اگر کسی بھی صورت میں ہو جائے تو۔ یہ نہیں کہا گیا کہ لاؤ میں حلالہ کرتا ہوں یا اس لڑکی کا حلالہ کروا دو۔
یہ تو قرآن نے بھی بتایا ہے۔ اگرچہ قرآن نے اپنے مخصوص بلیغ انداز میں مختصر الفاظ بیان کیے ہیں لیکن بات واضح ہے۔
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ
وہاں بھی اعتراض کریں گے؟

کوئی علمی اشکال ہو تو بیان فرمائیں۔
پتہ نہیں یہ "علمی اشکال" کیا بلا ہے، ہر اعتراض آپ کے نزدیک عوامی اور جاہلانہ ہی ہے۔
آپ اگر سکون سے اس موضوع کا مطالعہ کر لیتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ یہاں وہ فتاویٰ جمع کئے گئے ہیں، جن میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی حضرات نے عوام الناس کو مروجہ حلالہ کی جانب راغب کیا ہے۔ اور یہ فرمایا ہے کہ دل میں چھپا کر حلالہ کروا لیا جائے تو کچھ گناہ بھی نہیں۔
اس دھاگے کی پہلی پوسٹ میں اس موضوع پر احناف کے مؤقف کی "علمی تردید" شامل ہے۔ اس پر اگر کوئی "علمی اشکال" ہو تو وہ بھی بتائیں۔ تاکہ حلالہ کے موضوع پر جو اتنے دھاگوں میں پھیلی ہوئی گفتگو ہےاسے کسی پوائنٹ پر سمیٹا جا سکے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
آپ کو بنیادی طورپر اعتراض فقہ حنفی کے نکاح محلل کےمسئلہ پر ہے تواس پربات کریں، خواہ مخواہ اتنی لمبی تمہید باندھنے سے فائدہ’’تمنامختصراورتمہیدطولانی‘‘۔آپ کوجوبات کہنی تھی وہ ماقبل پوسٹ میں کہہ چکے،اب اپنے اعتراض کو مختصرابیان کردیجئے تاکہ اس کا جواب دیاجاسکے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
طلاق کے معاملہ میں حنفی عوام میں حلالہ کے متعلق غلط رحجانات آگئے ہیں جن کا تدارک ضروری ہے مگر طلاق معاملہ میں غیر مقلدین شدید غلط کام کرتے ہیں اس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں؛
اگر کسی نے ایک مجلس میں تین طلاق دے دیں (اگروہ ایک تھی تو بھی) وہ عورت عدت گذارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کر لے تو یہ جائز ہے کسی کے ہاں بھی ناجائز یا گناہ نہیں۔ اس پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ظلم ہؤا کہ ان کو رجوع نہیں کرنے دیا گیا۔
اگر کسی نے ایک مجلس میں تین طلاق دے دیں (ان کو ایک قرار دے کر) اس عورت کو نکاح یا نکاح کے بغیر پہلے خاوند کی طرف لوٹا دیا تو یہ دونوں زناکار ہوں گے اور ہونے والی اولاد حرامی۔
گو ظلم کوئی اچھی چیز نہیں مگر زنا کاری شدید عمل ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
والسلام
 
Top