تشریع عام کے مسئلےمیں؎ کچھ علماء کی اجتہادی خطا کو بنیاد بنا کر آج کے جدید خوارج جو اپنا نظریہ تراشتے ہیں اور فہم سلف صالحین کو نظر انداز کر دیتے ہیں انکے لئے ایک فکر آمیز دستاویز
مسئلہ تحکیم میں تشریع عام پر پیش کا کردہ دلائل کا علمی جائزہ:
پہلا گروہ
پہلے گروہ کا دعوی ہے کہ
۔
اس قول کی طرف شیخ محمد ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ گئےہیں۔اور انہی علماء کی اس اجتہادی خطا کو بنیاد بنا کر آج کے تکفیری و خارجی لوگ فم سلف سے انکار کر دیتے ہیں اور اس خطا پر اپنے منہج کی کمزور عمارت کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔آئیے ہم اب ان علماء کے اس موقف کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ انکی یہ رائے کیسے مبنی بر خطا ہے
دلیل نمبر ۱
قرآن و سنت میں ایسے حکمران کے کافر (کفر اکبر) ہونے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے اور ان علماء نے بھی صرف تعلیل بیان کی ہے دلیل نہیں ۔ اسے لئے جب شیخ صالح الفوزان نے کتاب التوحید میں شیخ محمد بن ابراہیم کا قول نقل کیا اس کے ساتھ دلیل بیان نہیں کی ۔ نہ شیخ محمد ابراہیم ؒنے اور نہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے دلیل بیان کی ۔
(اور جن عام آیات سےآپ نے استدلال کیا ہے ان کا جواب اس کے بعد ملاحظہ فرمائیں)
شیخ محمد ابراہیم اورشیخ صالح الفوزان کی تعلیل یہ ہے کہ ایسا حکمران جو پوری شریعت کے قوانین کو چھوڑ کر اپنے یا کسی اور کے قوانین کو نافذ کرتا ہے اور اپنے ما تحت سب پرلاگو کر دیتا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس نے ان قوانین کو اللہ تعالی کے فیصلے سے افضل اور بہتر سمجھا ہے یا اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے اچھے ہیں ۔
جواب
ان جلیل القدر واجب الاحترام فاضل علماء کی یہ تعلیل درست نہیں ہے مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔تکفیر کے اہم ضوابط میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ کافر صرف وہ ہے جس کے کفر پر کوئی دلیل موجود ہو قرآن سے یا سنت سے یا اجماع سے ۔ اور اس مسئلے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
۲۔
لازم سے کسی کے کافر ہونے کا استدلال کرنا بھی درست نہیں کیونکہ
لازم کا بھی بعض اوقات ثبوت نہیں ہوتا ،یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حکمران ایسا کرنے کے باوجود بھی ان قوانین کو شریعت کے قوانین سے افضل نہ سمجھتا ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘یہ
لازم نہیں ہے کہ اگر کوئی کہنے والا کچھ ایسا کہے جس سے اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعطیل مقصود ہو، کہ اس کے عقیدہ میں تعطیل ہے، بلکہ ایسا شخص اسماء وصفات کو ثابت کرنے کاعقیدہ رکھتا ہے لیکن اسے اس
لازم کا علم ہی نہیں۔’’
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر16 صفحہ نمبر461)
۳۔ اس
لازم کے مسئلہ میں شک ہے کہ اس کا ایسا عقیدہ ہے کہ نہیں ؟ اور جب شک ہوتا ہے تو شک کی بنیاد پر دلیل قائم نہیں ہوسکتی اور شریعت کی حدیں بھی ساقط ہو جاتی ہیں اوریہ تو تکفیر کا مسئلہ ہے جو حدود و تعزیرات سے زیادہ سنگین ہے۔اور اس مشہور قاعدہ کے بھی خلاف ہے ۔ کہ جب احتمال وارد ہوتا ہے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
۴۔یہ
لازم مشہور شرعی قاعدہ کے خلاف ہے
’’جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو جائے اسےمحض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر12صفحہ نمبر466)
۵۔ عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتا ہے یعنی کسی شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے فلاں چیز کو فلاں سے بہتر سمجھا ہے تو اسکا دل سے تعلق ہے اور دل کے احوال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے جب تک کہ وہ شخص اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتا کہ اس نے غیر اللہ کے فیصلہ کو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے افضل سمجھا ہے اس پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔ اور اس مسئلہ کی دلیل حضرت اسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ) کا مشہور قصہ صحیح بخاری اور مسلم میں ضروری ہے ۔جب انہوں نے ایک کافر کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا :
کیا تو نے اس کا سینہ کھول کے دیکھا تھا کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا؟۔۔۔۔۔۔
(بخاری،ح6872، 4269،مسلم،273)
۶۔اس
لازم کے طریقے سے ایسے حکمران پر کفر اکبر کا فتوی لگانے سے دوسری
لازم بات نکلتی ہے جس کے کفراکبر نہ ہونے کا اهل السنة والجماعة کااجماع ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ،جو گھر کا سربراہ ہے اپنے گھر میں شراب خانہ کھول لیتا ہے اور اپنے ماتحت گھر والوں کو یہ کاروبار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور یہ شخص کسی کی نصیحت سننے کے لئے تیار بھی نہیں ہے تو ایسا شخص کافر (کفر اکبر) نہیں ہے بلکہ کافر (کفراصغر) اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔
علامہ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اہل السنة والجماعة ، (اہل فقہ اوراہل اثر دونوں کا) اتفاق ہے کسی شخص کو اس کا گناہ اسلام سے خارج نہیں کرتا ہے چاہے یہ گناہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔‘‘
(التمہید جلد نمبر16صفحہ نمبر315)
(نوٹ: ظاہر ہے کفر اورشرک اکبر کے علاوہ گناہ مقصود ہیں)
۷۔ یہ
لازم بات درست نہیں ہے اسی لیے
علامہ محمد بن صالح العثیمین (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
ان کا پہلا قول ،وہ فرماتے ہیں :
’’کیونکہ جس نے ایسا قانون نافذ کیا ،جو اسلامی شریعت کے خلاف ہے تو اس شخص نے صرف اس لئے ایسا کیا کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قانون جو اس نے نافذ کیا ،اسلام سے بہتر ہے اور لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے‘‘
(فتاوی ابن العثیمین جلد نمبر 2صفحہ نمبر143)
ان کا دوسرا قول کہ جس میں انہوں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کیا ،وہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی حکمران قانون نافذ کرے اور اسے دستور بنا دے جس پر لوگ چلتے رہیں اور اس کایہ عقیدہ ہے کہ وہ اس میں ظالم ہے اور حق تو قرآن وسنت میں ہے تو ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہہ سکتے کافر تو صرف وہ ہے جو غیر اللہ کے فیصلے کو بہتر سمجھے یا اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے۔‘‘
یہ فتوی( التحذیر فی مسئلہ التکفیر) کیسٹ میں موجود ہے اور اس فتوی کی تاریخ 22/03/1420ھ ہے جیسا کہ اس کیسٹ کےشروع میں بیان کیا گیاہے اورکتابی شکل میں بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔
دلیل نمبر ۲:
بعض علماء نے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا۔ارشاد باری تعالی ہے
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)
(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)
جواب:
یہ بات درست ہے کہ اس آیت کریمہ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس نے اللہ تعالی کے فیصلے کو چھوڑا ،وہ کافر ہے لیکن یہ ظاہر مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے درست نہیں۔
پہلی وجہ:
اہل السنة والجماعة کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت سے ظاہر مراد نہیں ہے اور اس آیت کے ظاہر سے خوارج اور معتزلہ، کفر اکبر کا استدلال کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ علامہ قرطبی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
‘‘اس آیت کے ظاہر سے وہ لوگ کفر اکبر کی حجت بیان کرتے ہیں جو گناہوں کی وجہ سے کفر اکبر کا فتوی لگاتے ہیں اور وہ خوارج ہیں۔ اور اس آیت میں انکی کوئی حجت نہیں۔’’
(المفہم جلد نمبر5صفحہ نمبر117)
۲۔ حافظ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
‘‘ اوراس باب میں اہل بدعة کی ایک جماعت گمراہ ہوئی ۔اس باب میں خوارج اور معتزلہ میں سے پس انہوں نے ان آثار سے حجت بیان کی کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کافر ہیں اور اللہ تعالی کی کتاب میں سے ایسی آیات کو حجت بنایا جن سے ظاہر مراد نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)‘‘
(التمہیدجلد نمبر16صفحہ نمبر312)
۳۔ امام آجری(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
’’اورحروری (خوارج) جن متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں ان میں سے یہ آیت بھی ہے‘‘
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(
)سورۃ مائدہ آیت نمبر44)
اور اس آیت کے ساتھ یہ آیت بھی بیان کرتے ہیں
(ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ(
)سورۃ انعام آیت نمبر1)
’’پس جب وہ کسی حکمران کو دیکھتے ہیں کہ وہ بغیر حق کے فیصلہ کرتا ہے ،کہتے ہیں یہ کافر ہے اور جس نے کفر کیا اس نے اپنے رب کے ساتھ شریک بنا لیا ، پس یہ حکمران مشرک ہیں ،پھریہ لوگ نکلتے ہیں اور وہ کرتے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں کیونکہ (وہ )اس آیت کی تاویل کرتے ہیں ۔‘‘
(الشریعہ صفحہ نمبر44)
دوسری وجہ:
[یہ] کہ اس آیت سے ظاہر مراد نہیں ہے۔ جس نے بھی گناہ کیا یا نافرمانی کی، تو اس نے بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کو چھوڑدیا۔
امام ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ ) (سورۃ مائدہ کی تینوں آیات 44،45،47) کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ‘‘تو معتزلہ پر لازم ہے کہ وہ ہر گناہ گار ظالم اور فاسق شخص کے کفر کی تصریح کریں کیونکہ جس نے نافرمانی کی اور معصیت کی، تو اس نے اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔’’
تیسری وجہ:
اس آیت کریمہ سے ظاہر مراد نہیں ہے کہ اگر کوئی حکمران یا کوئی اور شخص، صرف ایک یا دو شریعت کے مسائل کے خلاف فیصلہ کرے یا اپنے ماتحت عوام پر صرف دو یا تین مسائل میں شریعت کے قوانین کے خلاف فیصلہ کرے تو بھی کافر(کفراکبر) ہوگا کیونکہ اس آیت کے ظاہر سے یہی مراد ہے کہ جس نے بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کو چھوڑ دیا، اس کی مقدار معین نہیں کی ،کہ ایک فیصلہ ہے یا دو ہیں یا سارے کے سارے شریعت کے فیصلے مراد ہیں اور ایسے حکمران کے کفر کی نفی تو آپ بھی کرتے ہیں جیسے کہ شیخ محمد ابراہیم اور شیخ صالح الفوزان نے بیان کیا۔
چوتھی وجہ:
[یہ] کہ اس آیت کریمہ سے ظاہر مراد نہیں ہے یہ آیت ایسے حکمران کے کفر کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ اس آیت کریمہ میں کفر اکبر کی دلالت پر علماء کا اختلاف ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ تعالی عنہ)، حضرت عطاء اور حضرت طاؤس سے ثابت ہےکہ انہوں نے اس آیت کریمہ سے کفر دون کفر یعنی کفر اصغر ہی مراد لیا ہے اوریہ اختلاف ہر دور میں موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔اور قاعدہ کے مطابق
(اذا وجد الاحتمال بطل الاستدلال)
’’اس آیت سے استدلال باطل ہے‘‘
دلیل نمبر ۳
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کوبطور دلیل پیش کیا ارشاد باری تعالی ہے
(أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ(
)سورۃ مائدہ آیت نمبر50)
جواب:
اس آیت کریمہ میں اس حکمران کے کافر ہونے کی واضح دلیل ہے جو اللہ تعالی کے فیصلوں سے دوسرے قوانین کو احسن اور افضل سمجھتا ہے اور اس مسئلے کو تفضیل کہتے ہیں ۔اور ایسے حکمران کے کافر ہونے میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن یہ آیت کریمہ ایسے حکمران کے کفر کی دلیل نہیں بن سکتی جو اللہ تعالی کی شریعت کو چھوڑ کر دوسرے قوانین نافذ کرے جب تک وہ ان قوانین کے بہتر اور افضل ہونے کی تصریح نہ کر دے۔
دلیل نمبر ۴:
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کو بطور دلیل پیش کیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے
(فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(
)سورۃ نساء آیت نمبر65)
جواب:
اس آیت کریمہ سے کفر اکبر مراد نہیں ہے بلکہ ایمان کامل کی نفی مقصود ہے یعنی ایمان ناقص ہے وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
پہلی وجہ:
یہ آیت انصاری بدری صحابی کے بارے میں نازل ہوئی جن کا حضرت زبیر بن عوام (رضی اللہ تعالی عنہ) سے جھگڑا ہوا اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فیصلہ سنا دیا ،تو اس انصاری صحابی نے کہا : یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ نے اس لئے حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فیصلہ کیا کیونکہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔
(بخاری حدیث نمبر 2059اورحدیث نمبر2362 اورمسلم حدیث نمبر6065)
تو کیا نعوذ باللہ یہ بدری صحابی کافر ہیں؟؟
دوسری وجہ:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور یہ وہ آیت ہے جسے خوارج ایسےحکمرانوں کی تکفیرکے لئے بطور حجت پیش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلوں کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
(منہاج السنہ جلد نمبر5صفحہ نمبر131)
اوراس آیت کریمہ پر شیخ بن باز(رحمۃ اللہ علیہ)کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں۔
(فتاوی ابن بازجلد نمبر6،صفحہ نمبر249)
دلیل نمبر ۵:
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کو بطور دلیل پیش کیا۔ارشادباری تعالی ہے
(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (
(سورۃ نساء آیت نمبر60)
جواب:
یہ آیت کریمہ کفر اکبر کی دلیل نہیں بن سکتی ،وجہ ملاحظہ فرمائیں:
اس آیت کریمہ سے منافقین مراد ہیں اوران کے نفاق کی دووجوہات ہوسکتی ہیں:
۱۔ ان کاشروع ہی سے ایمان نہیں بلکہ محض دعوی ہے ۔
۲۔ وہ اس لئے منافق ہیں کہ وہ طاغوت کے فیصلوں پر راضی ہوئے۔ اور جب کسی چیز میں احتمال ہوتا ہے تواستدلال درست نہیں ہوتا ،اس آیت کریمہ میں انہوں نے طاغوت کے فیصلے کو بہتر سمجھا ہے اوراس پر راضی ہوئے ،اسی لئے وہ کافرہیں۔
علامہ ابن جریرطبری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’(يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا)(وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ کروائیں) یعنی اپنے جھگڑوں میں(إِلَى الطَّاغُوتِ) یعنی جن کی وہ تعظیم کرتے ہیں اور ان کے اقوال کو صادر کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر راضی ہوتے ہیں اللہ تعالی کے فیصلوں کوچھوڑکر۔(وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ)یعنی اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ وہ ہر اس چیز کو جھٹلا دیں جو طاغوت لے کر آتا ہے اور جس کی طرف وہ فیصلے کرتے ہیں۔پس انہوں نے اللہ تعالی کے حکم کو چھوڑ دیا اورشیطان کی پیروی کی ‘‘۔
(تفسیرطبری جلد نمبر5صفحہ نمبر96)
دلیل نمبر ۶:
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4415 جس میں یہودیوں کا تورات کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ کرنے اور زانی کو رجم کی سزا کو چھوڑ کر اس کا منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا دینااور اس قانون کو اپنے ماتحت سب یہودیوں کے لئے لازم کردینے کاقصہ بیان کیا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
جواب:
یہ حدیث صحیح ہے اور یہودی بھی کافر (کفر اکبر) ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ لیکن جس مسئلے میں ہمارا اختلاف ہے یہ حدیث اس مسئلے کی دلیل نہیں بن سکتی اور ایسا حکمران جو اپنی طرف سے قانون بناتا ہے اور اپنے ماتحت لوگوں پر لازم کر دیتا ہے ،یہودیوں کی طرح کافر نہیں ہے ۔
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ یہودیوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کا انکار کیا جو زانی محصن کے لئے تھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4556 ،جب نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ان سے سوال کیا کہ کیا رجم تورات میں موجود نہیں ہے؟ا نہوں نے جواب دیا تورات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ تو اس طریقے سے انہوں نے انکار کیا اور انکار کرنے والا تو کافر ہی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
۲۔ یہودیوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے فیصلے کو تبدیل بھی کیا ،جیسا کہ صحیح بخاری 3635میں واضح ہے جب نبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ان سے سوال کیا تم لوگ تورات میں رجم کے بارے میں کے بارے میں کیا جانتے ہو؟انہوں نے کہا ہم ان کو بدنام کرتے ہیں اور کوڑے مارتے ہیں۔ اسے تبدیل کہتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کیا اور اس نئے فیصلے کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کر دیا۔ اور ایسا کرنا کفر اکبر ہے اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔
لیکن کیا اس حکمران نے ایسا کیا جو اپنی طرف سے قوانین بناتا اور لوگوں پر لازم کرتا ہے؟
جواب واضح ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اس نے نہ تو اللہ تعالی کے فیصلے کا انکار کیا اور نہ ہی اسے شریعت کی طرف منسوب کیا اور اس صورت کو استبدال کہتے ہیں اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے اور یہ کفر اصغر ثابت ہوا۔ اور تبدیل اور استبدال میں فرق واضح ہے کہ تبدیل کرنے والا نیا قانون ،شریعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور استبدال کرنے والا ایسا نہیں کرتا۔ یہ عمل ظلم فسق اور معصیت ضرور ہے لیکن کفر اکبر نہیں۔
حافظ ابن عبد البر(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
’’اوراس حدیث میں بھی دلیل ہے کہ یہود اپنی تورات پرجھوٹ باندھتے تھے اور اپنے جھوٹ کو اپنے رب کی طرف منسوب کرتے اور اپنی کتاب کی طرف بھی منسوب کرتے تھے۔‘‘
(التہمیدجلد نمبر 14صفحہ نمبر9)
اس سے ثابت ہوا کہ دونوں مسائل ایک جیسے نہیں ہیں اور دونوں پر ایک ہی حکم ،کفر اکبر کا نافذ کرنا بھی درست نہیں۔
دلیل نمبر ۷:
بعض علماء حافظ ابن کثیر (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ ) نے جب تاتاریوں کے قوانین کی کتاب الیاسق پر تبصرہ کیا تو ان کے کافر ہونے کا اجماع نقل کیا
(البدایہ والنھایہ جلدنمبر13صفحہ نمبر128)
تو آج کے حکمرانوں نے تو وہی راستہ اختیار کیا ہے یہ بھی تاتاریوں کی طرح قوانین نافذ کرتے ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں تو اگر تاتاریوں کے کفر اکبر پر اجماع ہے تو آج کے حکمران کس طرح مسلمان ہو سکتے ہیں۔؟
جواب :
حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) نے تاتاریوں کے کفر پر جو اجماع بیان کیا وہ درست ہے اور تاتاری کافر تھے۔ کیونکہ وہ اپنے ایجاد کردہ قوانین کو حلال سمجھتے اور شریعت کے قوانین سے افضل سمجھتے تھے اور حلال سمجھنا استحلال ہے اوربہتر سمجھنا تفضیل ہے یہ دونوں صورتیں کفر اکبر کی ہیں جیسا کہ پہلے بیان کر چکے ہیں۔ وہ حلال سمجھتے تھے۔
اسکی دلیل شیخ ابن الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) جو تاتاریوں اور حافظ ابن کثیر کے ہم سفر تھے فرماتے ہیں
’’تاتاری دین اسلام کو یہود و نصاری کے دین کی طرح سمجھتے تھے کہ یہ سب دین اللہ تعالی کی طرف راستے ہیں جیسے امت میں چار مذاہب ہیں یہ ادیان بھی ایسے ہی ہیں پھر ان میں سے کوئی یہودیوں کے دین کو ترجیح دیتا ہے اور کوئی نصاری کے دین کو ترجیح دیتا ہے اورکوئی دین اسلام کو۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر28صفحہ نمبر523)
اور تاتاری اپنے قوانین ’’الیاسق‘‘ کو شریعت کے قوانین سے بہتر اور افضل سمجھتے تھے اس کی دلیل حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) نے خودبیان کی، فرماتے ہیں:
’’الیاسق ایک کتاب ہے جس میں احکام کا مجموعہ ہے جو اس نے مختلف شرائع سے لیا ہے ۔یہودیت ،نصرانیت، اوراسلام سے ،اور اس میں اکثر احکام چنگیز خان نے صرف اپنی ہوائے نفس کی بنیا دپر رکھے ہیں جو اس کے بعد میں آنے والوں کے لیے قابل اتباع شریعت بن گئی جسے وہ اللہ تعالی کی کتاب اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت کے فیصلوں سے آگے کرتے تھے ۔ جس نے ان میں سے ایسا کیا وہ کافر ہے اس کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے جب تک وہ اللہ تعالی کے حکم اوررسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے حکم کی طرف واپس نہ آئے ‘‘ ۔
(تفسیرابن کثیرجلد نمبر 2 صفحہ نمبر 88 سورۃ مائدہ آیت نمبر 50 کی تفسیر)
انہوں نے’ یقدمونها‘ کا لفظ استعمال کیا یعنی اسے آگے کرتے ہیں اور آگے کرنا تفضیل ہوتا ہے اور ایسا کرنے والا تو کافر ہی ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے حکمران بھی تاتاریوں کی طرح اپنے قوانین کو شریعت کے قوانین پر فضلیت دیتے ہیں یا انہیں جائز سمجھتے ہیں ؟ یقینی طور پر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ یہ باطنی امر ہے اس کا تعلق ہے اور دل سے جب تک وہ صراحت سےیہ جواز یا فضلیت بیان نہ کریں جیسا کہ تاتاریوں نے کیا تھا اس لئے ان پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔
دلیل نمبر ۸:
بعض علماء شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )فرماتے ہیں:
’’ایسے حکمران کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی شخص اللہ تعالی یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یا قرآن کی تعظیم تو دل سے کرتا ہے لیکن اللہ تعالی کو یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے (نعوذباللہ) تو ایسے شخص کیلئے ضروری نہیں کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اس کایہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے وہ کافر ہی ہے اس پر اجماع ہے لیکن کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) ہر حکمران پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں جس نے تشریع عام کونافذ کیا؟
نہیں۔!
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور انسان جب بھی حرام چیز کو ،جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو ،حلال کر دے یا حلال چیز جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو، اسے حرام کر دے یا اس شریعت کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو، تو وہ کافر اور مرتد ہے اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر267)
آگے فرماتے ہیں:
’’اور شرع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت) وہ ہے جس میں اللہ تعالی پر اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگو ں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے اور یہ کھلا ظلم ہےپس جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں سے ہے تو وہ بلا نزاع کے کافر ہے ۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)
تو اس سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) اس حکمران کے کافر ہونے کے قائل ہیں جو تشریع عام کو اللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے تبدیل کہتے ہیں جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ کفر اکبر ہے اور اس پر اجماع ہے۔
۲۔ جن چیزوں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے استدلال کیا ہے یعنی اللہ تعالی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کو یا دین اسلام کو گالی دینا ،کہ یہ کفر اکبر ہے ایسے شخص کے کافر ہونے پر اجماع ہے تو اس صورت میں ایسے حکمران کے کافر ہونے پر کیسے مشابہ ہوسکتی ہے جس کے کفر پراجماع ہی نہیں ہے بلکہ قوی اختلاف ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں بھی آپ ذرا غور کریں جب اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو بیان کیا تو تین مختلف احکام کے ساتھ بیان کیا۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ]
یہ کفر ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ]
یہ کفر نہیں بلکہ فسق ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ]
یہ بھی کفر نہیں بلکہ ظلم ہے۔
اوراگر ان آیات کریمہ سے ظاہر بھی لیا جائے تو پہلا کفر اکبر ہوگیا اور باقی دو کفر اصغر ہیں۔
توجب یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں تو ان کاحکم بھی مختلف ہے۔ تو اس سے ثابت ہوا شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ ) کا اشارہ اس حکمران کی طرف ہے جس کے کفر پرعلماء کا اجماع ہے اور ان چھ صورتوں میں تشریع عام شامل نہیں ہے۔ پہلے گروہ کے یہ آٹھ دلائل سب سے زیادہ قوی تھے جن کی تفیصل اور جواب بیان کیا گیا ہے ان کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں جوان سے زیادہ کمزور ہیں ۔
دوسراگروہ
تشریع عام کفر اصغر ہے کفر اکبر نہیں ،اس قول کی طرف شیخ بن باز، شیخ بن عثمین اور علامہ البانی (رحمۃاللہ علیہم اجمعین) گئے ہیں۔ ان کی دلیل اس صورت میں حکمران کے کافر ،کفر اکبر ہونے کی دلیل ہے ہی نہیں بلکہ ایسا حکمران ظالم ،فاسق اور گناہ گار ضرور ہے اور کفر اصغر کا مرتکب ہے اور بغیر دلیل کے کسی مسلمان پر کفر اکبر کا فتوی لگانا جائز نہیں اور بنیادی طور پر ہر مسلمان غلط عقیدہ اور کفر سے پاک ہے جب تک کہ اس سے کوئی ایسا قول یا عمل نہ ہو جائے جس سے یقینی طور پر وہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو جائے۔ اور ان علماء کے باقی دلائل بیان کر چکے ہیں جو دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اور ہماری امت کو ہر فتنے کے شر سے محفوظ فرمائے اور شرک ،بدعات اورخرافات سے ہماری امت کو پاک کر دے اور ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو شریعت کے احکام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو حق کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر چلنے کی آسانی پیداکردے۔(آمین)
اللهم أرنا الحق حقا و أرزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابه وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآله واصحابه اجمعین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ علماء کا احترام ہر حال میں کرنا واجب ہے مگر یہ احترام جب تقلید کی شکل اختیار کرے تو اجتناب لازم ہے۔
الشیخ محمد رح اور الشیخ صالح الفوزان قابل احترام اور معزز علماء ہیں مگر بشر ہیں۔ اور الحمد اللہ مرتبہ اجتہاد پر بھی فائز ہیں ۔۔
تو ان کی اس اجتہادی (خطا) ، جو کہ منہج سلف صالحین سے مطابقت نہیں رکھتی، کو بطور منہج لینا اور اس کی ترویج کرنا درست نہیں بلکہ ایک ظلم ہے (ذاتی تبصرہ)