• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خارجیت

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دوسری جگہ ایک تھریڈ (لنک یہ ہے) میں محترم ابو محمد بھائی نے کچھ پوچھا تھا جس کے حوالے سے یہاں کچھ وضاحت کرنی ہے

محترم سلفی منہج نے پوسٹ نمبر 35 میں کہا ہے کہ
اس میں جہمیت اس جگہ پر ہے :
مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’کافر تب ہوگا جب وہ مرتد ہو کر یا کفر کو پسند کر کے اسلام کو چھوڑ کر نکلے تو کافر ہوگا۔‘‘
جماعۃ الدعوۃ کے مفتی مبشر احمد ربانی کی تقریر ”فتنہ تکفیر“ملاحظہ کریں
جوابا محترم طالب نور بھائی نے پوسٹ نمبر 37 میں کہا ہے کہ
میرا آپ سے سوال ہے کہ آپ کے نزدیک کفر کو پسند کر کے چھوڑ کر نکلنا کیا ہے؟ اگر آپ کے نزدیک ایسا کرنے والا کافر نہیں تو اس قول سے تو خود آپ کافر ہو جائیں گے۔۔۔۔؟ اور اگر تو ایسا کرنے والا کافر ہے تو یہی بات ربانی صاحب نے کہی ہے جسے آپ نے جہمیت بنا دیا ہے۔ اب آئی بات کچھ سمجھ شریف میں کہ نہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ صرف اتنے قول میں اس بات کی صراحت نہیں جس کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ایک بات کا اقرار دوسری بات کی نفی ہرگز نہیں ہوتا۔
میرے خیال میں یہاں لفظ تب حصر پیدا کر رہا ہے یعنی کافر تب ہو گا جب پسند کر کے اس میں داخل ہو ورنہ نہیں ہو گا جو ایک غلط بات ہے پس مرجیئۃ ہمارے شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ کے اس قول سے دلیل پکڑ سکتے ہیں جس کا شیخ کو خیال نہیں رہا حالانکہ وہ خود عمل کو ایمان میں داخل کرتے ہیں اور اس پر انکی کتاب کلمہ گو مشرک اور انکی باقی تقاریر اور زندگی گواہ ہے واللہ اعلم
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم @ابومحمد بھائی آپ کی فرمائش پر اوپر پوسٹ نمبر 50 میں وضاحت کر دی ہے جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
عبدہ بھائی جو بات طالب نور بھائی نے کہی یے ویسے اس کو بھی دھیان سے پڑھین کہ عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
عبدہ بھائی جو بات طالب نور بھائی نے کہی یے ویسے اس کو بھی دھیان سے پڑھین کہ عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں ہے
محترم بھائی اللہ کے لئے میری آپ سے اور آپ کی مجھ سے محبت ہے جو عقیدہ توحید کی بنیاد پر ہے اسی محبت کی وجہ سے میں نے پوسٹ نمبر 50 میں وضاحت کی ہے کہ محترم طالب نور بھائی کی پوسٹ نمبر 37 مین لفظ تب حصر پیدا کر رہا ہے اب آپ نے مجھے دوبارہ پڑھنے کا کہا تو آپ کے کہنے پر میں نے دوبارہ بھی پڑھا ہے اصل میں میرے خیال میں آپ کو میں درست طریقے سے سمجھا نہیں سکا کیونکہ میں نے بس سرسری جواب دیا تھا اب تفصیل سے سمجھا دیتا ہوں

واقعی مجھے وہاں لکھا ہوا ملا ہے کہ
عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں
مگر محترم بھائی یہ قاعدہ اس وقت ہوتا ہے جب حصر نہ ہو کیونکہ
حصر کا فائدہ ہی غیر مذکور کے عدم وجود پر دلالت کرنا ہے

حصر کے لئے اردو میں مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن میں ایک لفظ تب بھی ہے
پس جب اوپر لفظ تب سے جملہ میں حصر پیدا کر دیا گیا تو یہ ثابت ہو گیا کہ اس کے علاوہ مسلمان کافر نہیں ہو سکتا

اسکو ایک سادہ مثال سے بھی سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مثال کو نمبر وار لکھتا ہوں
1-سلمان رشدی یا مرزائی ہمارے ہاں متفق علیہ کافر ہے جسکو کافر نہ سمجھنے والا بھی کافر ہو سکتا ہے
2-اب ایک عالم کسی مرزائی یا سلمان رشدی بارے کہتا ہے کہ وہ تب کافر ہو گا جب میں سورج مغرب سے طلوع ہو گا
3-میں نے اسکو جواب دیا کہ چونکہ تم متفق علیہ کافر کو کافر نہیں کہ رہے پس یہ ناقض اسلام میں آ سکتا ہے
4-وہ کہتا ہے کہ میں نے کب اسکے کافر ہونے کا انکار کیا ہے اور وہ مجھے یہی الفاظ دکھاتا ہے کہ
میرے اوپر الفاظ کو دھیان سے پڑھین کہ عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں ہے

محترم بھائی اگر سمجھانے میں کمی ہو تو دوبارہ کوشش کر لوں گا اللہ تعالی ہم سب سے راضی ہو امین
 
Last edited:
Top