• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی کانٹے سے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمااور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
لوگوں میں داڑهی سےمتعلق ایک مٹھی سے زیادہ کٹوانے والا عمل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کااختلاف کا باعث بناہوا ہے ، کئی لوگوں نے اس سے متعلق پوچھا ۔ اس لئے درج ذیل سطور میں مختصرا اس کی وضاحت کی جاتی ہے ۔

(1) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل : وكان ابنُ عمرَ : إذا حجَّ أو اعتمر قبض على لحيتِه ، فما فضل أخذَه(صحيح البخاري: 5892)
ترجمہ: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ جب حج کرتے یا عمرہ کرتے تو مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ لیتے تھے ۔

(2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ كا عمل: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ(المصنف:13/ 112)
٭ اس کی سند صحیح ہے ۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت اس طرح مروی ہے :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يأخذُ من لحيتِهِ من عرضِها وطولِها(الترمذی)
ترجمہ : نبی ﷺ اپنی داڑھی کے طول وعرض سے کاٹ لیا کرتے تھے۔
٭ اسے البانی ؒ نے موضوع قرار دیا ہے ۔ (ضعيف الترمذي:2762)
اس لئے اس حدیث سے حجت ہی نہیں پکڑ سکتے ہیں ۔

گویاصحیح احادیث کی روشنی میں دو جلیل القدر صحابی کا عمل ملتا ہے کہ وہ اپنی داڑھی کو مٹھی سے زائد کاٹ لیتے تھے ۔

اسلام میں اس عمل کی حیثیت جاننے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ داڑھی کے متعلق آپ ﷺ کا عمل کیا تھا؟۔
چنانچہ ان دونوں صحابہ یعنی حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہما سے بلند پایہ کتب حدیث صحیحین میں مروی ہے کہ نبی ﷺ داڑھی مبارک نہیں کاٹتے بلکہ بڑھاتے اور اپنے حال پہ چھوڑتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت :
خالفوا المشركين : وفروا اللحى ، وأحفوا الشواربَ (صحيح البخاري:5892 و صحيح مسلم : 295)
ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت :
جُزُّوا الشَّواربَ وأرخوا اللِّحَى . خالِفوا المجوسَ(صحيح مسلم: 260)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

ان احادیث کے علاوہ بے شمار روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی داڑھی مبارک بڑھاتے تھے ، کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے داڑھی کٹائی ہو۔
داڑھی سے متعلق احادیث میں یہ کلمہ سب وارد ہیں۔
«واعفوا -اوفوا-ارخوا-ارجوا-وفروا»ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں ۔
ومعناه كلها :تركها علي حالها هذا هو الظاهر من الحديث الذي تقتضيه الفاظه۔(3/151)
ترجمہ : ان تمام الفا ظ کا مفہوم یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو حدیث کے ظاہر ی الفاظ کا تقاضہ یہی ہے ۔
اس لئے ایک مسلم کو نبی ﷺ کی زندگی کو اپنا نمونہ مانتے ہوئے آپ کی اقتداء میں داڑھی اپنے حال پہ چھوڑ دینا چاہئے ۔
یہاں ہمیں جاننا یہ ہےکہ جب آپ ﷺ کا عمل داڑھی نہ کٹانا تھا تو پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمااور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق عمل کا کیا جواب ہے ؟

صحابی رسول ﷺ کے عمل کے متعلق مندرجہ ذیل چند جوابات دئے جاتے ہیں ۔
پہلاجواب
: اللہ تعالی نے ہمیں قرآن و حدیث میں وحی (جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے) اسی کی پیروی کا حکم دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (الاعراف: 3)
ترجمہ :
جو تمهاری طرف تمهارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اسکی اتباع کرو اور اسکے علاوه دیگر اولیاء کی اتباع نہ کرو، تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
اس معنی کی بہت ساری آیات واحادیث ہیں جو ہمیں یہ بتلاتی ہیں کہ ہمیں وحی کی پیروی کرنی ہے اور کسی صحابی کا عمل وحی الہی نہیں ہے ۔

دوسرا جواب : قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اگر تمہارے درمیان اختلاف ہوجائے تو اختلاف کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو۔
اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً(النساء: 59)
ترجمہ : اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام میں جب بھی اختلاف ہوجاتا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹ جاتے تھے ۔ اس کی بے شمار دلیلیں ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب نبی ﷺ کی وفات کے متعلق صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس موقع سے منبر رسول ﷺ پہ قرآن کی آیت تلاوت کی ۔
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ [الزمر : 30]
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ [آل عمران : 144]
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [الأنبياء : 34]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی نبی کی وفات کے قائل نہ تھے لیکن ابوبکررضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالاآیات سنی اور اپنی بات سے رجوع کرلئے اور کہنے لگے یہ آیات میرے ذہن میں تھیں ہی نہیں ,لگتا ہے یہ ابھی ابھی نازل ہوئی ہیں ۔
اس لئے ہمیں بھی داڑھی سے متعلق اس اختلاف کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا چاہئے ، اس طرح آپ ﷺ کا عمل ہی ہمارے لئے قابل اتباع نظر آتا ہے۔

تیسرا جواب : محدثین اور علمائے کرام نے یہاں اصول حدیث کا قاعدہ ذکر کرکے ایک جواب دیا ہے ۔
چنانچہ ترمذی کے شارح عبدالرحمٰن مبارکپوری بھی لکھتے ہیں :

وأما قول من قال : إنه إذا زاد على القبضة يؤخذ الزائد ، واستدل بآثار ابن عمر وعمر وأبي هريرة رضي الله عنهم فهو ضعيف ; لأن أحاديث الإعفاء المرفوعة الصحيحة تنفي هذه الآثار .
فهذه الآثار لا تصلح للاستدلال بها مع وجود هذه الأحاديث المرفوعة الصحيحة ، فأسلم الأقوال هو قول من قال بظاهر أحاديث الإعفاء وكره أن يؤخذ شيء من طول اللحية وعرضها ، والله تعالى أعلم . (تحفة الأحوذي: 8/39)

ترجمہ : رہا ان لوگوں کا قول جو قبضہ سے زائد کو کاٹنے کہتے ہیں تو وہ ابن عمر ، عمر اور ابوھریرہ (رضی اللہ عنہم) کے آثار سے استدلال کرتے ہیں۔ تو یہ استدلال ضعیف ہے کیونکہ مرفوع اور صحیح احادیث جو کہ داڑھی کو معاف کرنے پر دلالت کرتی ہیں ان موقوف آثار کی نفی کرتی ہیں۔
چنانچہ ان آثار کو مرفوع اور صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے حجت بنانا صحیح نہیں۔پس سب سے درست قول اسی کا ہے جس نے ظاہر حدیث کو دیکھ کر داڑھی بڑھانے(معاف کرنے) کو کہا اور طول وعرض سے کچھ بھی کاٹنا مکروہ جانا ۔ واللہ تعالی اعلم
گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ صریح صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے آثار سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔

چوتھا جواب : اوپر دونوں صحابی کا عمل بھی پیش کیا گیا اور ان دونوں صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی ﷺ داڑھی نہیں کاٹتے تھے ۔ اس لئے ان صحابہ سے وہ روایت قبول کی جائے گی جو نبی ﷺ کی داڑھی کے متعلق ہے اور نبی کے عمل کو راوی کے ذاتی عمل پہ ترجیح دی جائے گی ۔ اس سے متعلق شیخ ابن باز ؒ نے بڑی اچھی بات کہی ہے جو قابل ذکر ہے ۔
آپ رحمہ اللہ كہتے ہيں: جس نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل سے دليل پكڑى ہے كہ وہ حج ميں مٹھى سے زيادہ داڑھى كاٹ ديا كرتے تھے، تو اس ميں اس كے ليے كوئى حجت اور دليل نہيں، كيونكہ يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا اجتہاد تھا، جبكہ دليل اور حجت تو ا نكى روايت ميں ہے نہ كہ اجتہاد ميں.
علمائےكرام نے صراحت سے بيان كيا ہے كہ صحابہ كرام اور ان كے بعد ميں سے راوى كى روايت جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہى حجت ہے، اور جب رائے اس كى مخالف ہو تو روايت رائے پر مقدم ہو گى (فتاوى و مقالات شيخ ابن باز 8 / 370 ).

آخری بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ جن علماء نے داڑھی کاٹنے کے جوازکا فتوی دیا ہے انکی اکثریت بھی ترک لحیہ کو ہی افضل قرار دیاہے ۔ بنابریں صحیح اور درست موقف یہی ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پہ چھوڑدینا ہے ، اس کی تراش خراش نہیں کرنی ہے جو کہ اللہ کے محبوب ﷺ کا عمل ہے اور متعدد صحابہ کرام بشمول حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے ۔

واللہ اعلم
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پانے والے انبیا کرام تھے۔ ان کی رہنمائی کے بغیر وحی الٰہی کو سمجھنے کی کوشش انسان کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیتی ہے جیسا کہ موجودہ دور کے اہلِ قرآن کہلانے والوں کا عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کو سمجھنے والے صحابہ کرام تھے۔ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت بہت اچھے طریقہ سے کی کیوں کہ اسی نرسری سے آگے دینِ اسلام پھیلنا تھا۔
صحابہ کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی وضاحت کرتا ہے۔ ہاں جہاں کہیں کسے صحابی سے کوئی غلطی ہوئی دوسرے صحابہ اس کی اصلاح فرمادیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے داڑھی کو بڑھانے اور مونچھوں کو کتروانے کا واضح حکم ہے۔ صحابہ کرام کے عمل سے اس بات کا جواز ملتا ہے کہ ایک مشت سے زائد کاٹی جاسکتی ہے اس سے کم کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پابندی جتنی صحابہ کرام کرتے تھے اس قدر بعد والوں سے ممکن نہیں۔ صحابی کے کسی فعل کو زبردستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالف قرار دینا یہ روافض کا شیوہ ہے اہلِ سنت کا نہیں۔
صحیح بخاری کی مذکورہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے خلاف نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وضاحت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
صحابہ کرام کے عمل سے اس بات کا جواز ملتا ہے کہ ایک مشت سے زائد کاٹی جاسکتی ہے اس سے کم کرنا جائز نہیں۔
آپ کی اپنی بات میں تضاد ہے :
1۔ داڑھی رکھنا فرض ہے ۔
2۔ ایک مشت تک کاٹنا جائز ہے ۔
اگر فعل صحابی یہاں وضاحت ہے فرمان رسول ’’ وفروا اللحی ‘‘ کی ، تو پھر اس وضاحت کا بھی وہی حکم ہونا چاہیے جو اصل کا ہے ۔
یعنی ایک بالشت سے زائد کاٹنا واجب ہونا چاہیے ، نہ کہ جائز ۔
صحابی کے کسی فعل کو زبردستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالف قرار دینا یہ روافض کا شیوہ ہے اہلِ سنت کا نہیں۔
لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ کتب فقہ میں بھرمار ہے ، ایک ہی مسئلے میں دو تین اقوال ہوتے ہیں ، اور ہر طرف صحابہ کرام کے نام ذکر کیے جاتے ہیں ، کیا یہ فقہاء صحابہ کو زبردستی مخالف رسول ثابت کر رہے ہوتے ہیں ؟!
یہاں بھی ذرا یہ ملاحظہ کریں :
شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)
جب کسی صحابی ، تابعی یا بعد والے کسی امام کے قول یا فعل پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو فہم شریعت میں ان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ باقی سب چیزوں کا ادب و احترام ، اور عزت و حرمت تو ہے ، لیکن احادیث رسول کی کوئی اہمیت نہیں سب کا ادب و احترام کریں سلف کے متفقہ فہم کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھیں ، جہاں اختلاف ہو تو ظاہر کسی ایک کے قول کو چھوڑنا ہی پڑے گا ،
دنیا میں اِحترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی کے بعد​
صلی اللہ علیہ وسلم
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
1۔ داڑھی رکھنا فرض ہے ۔
یعنی ایک بالشت سے زائد کاٹنا واجب ہونا چاہیے ، نہ کہ جائز ۔
لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔
محترم! اپنے ان فقرات پر غور فرمائیں۔ آپ نے لکھا کہ داڑھی رکھنا فرض ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ؛
ابن عمررضی اللہ عنہ جب حج کرتے یا عمرہ کرتے تو مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ لیتے تھے ۔
محترم!ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فعل آپ کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ”مخالفت“ ٹھہری۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں تاکہ آپ کے اس شعر کی صحیح سمجھ آسکے؛
دنیا میں اِحترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفی کے بعد​
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
صحابی کے عمل کی حدیث سے ظاہری طور پر مخالف ہونے کی دو صورت ہیں
پہلی صورت
حدیث کو روایت کرنے والا کوئی اور صحابی ہے اور کسی دوسرے صحابی کا عمل بظاہر اس حدیث کے خلاف ہے ۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ غالبا دوسرے صحابی کے پاس مذکورہ حدیث نہ پہنچی ہو گی
دوسری صورت
حدیث کو روایت کرنے والا جو صحابی ہے اس صحابی کا اپنا عمل یا فتوی بظاہر اس حدیث کے خلاف ہے ۔ یہاں ہم یہ نہیں کہ سکتے ہیں کہ غالبا صحابی کے پاس مذکورہ حدیث نہ پہنچی ہو گی ۔ کیوں کہ حدیث کو روایت کرنے والا وہ خودی ہیں
اس دوسری صورت میں اہل حدیث حضرات کا کیا موقف ہے مجھے وہ جاننا ہے
میرا موقف یہ ہے کہ صحابی جس نے حدیث روایت کی وہ حدیث کے مطلب کو صحیح سمجھتا ھے ۔ مثلا حدیث میں داڑھی چھوڑنے کا حکم ہے لیکن صحابی کا عمل ایک مشت سے زائد کاٹنے کا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا حدیث میں جو داڑھی چھوڑنے کا حکم ہے اس کی حد کی وضاحت حدیث میں نہیں۔ اس کی وضاحت اس حدیث کے راوی نے اپنے عمل سے کردی کہ اگر کوئی ایک مشت سے زائد بال کاٹتا ہے تو جائز ہے
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
میرا موقف یہ ہے کہ صحابی جس نے حدیث روایت کی وہ حدیث کے مطلب کو صحیح سمجھتا ھے ۔ مثلا حدیث میں داڑھی چھوڑنے کا حکم ہے لیکن صحابی کا عمل ایک مشت سے زائد کاٹنے کا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا حدیث میں جو داڑھی چھوڑنے کا حکم ہے اس کی حد کی وضاحت حدیث میں نہیں۔ اس کی وضاحت اس حدیث کے راوی نے اپنے عمل سے کردی کہ اگر کوئی ایک مشت سے زائد بال کاٹتا ہے تو جائز ہے
متفق
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(1) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل : وكان ابنُ عمرَ : إذا حجَّ أو اعتمر قبض على لحيتِه ، فما فضل أخذَه(صحيح البخاري: 5892)
ترجمہ: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ جب حج کرتے یا عمرہ کرتے تو مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ لیتے تھے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس اثر کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔۔
میرا احناف سے ایک سوال ہے:
کیا احناف یہ عمل حج و عمرہ کی ادائیگی پر کرتے ہیں یا ساری عمر؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
آخر یہ بحث کیوں؟؟؟؟
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی داڑھی کاٹی؟
اگر کاٹی تو آپ بھی کاٹیں. اگر نہیں کاٹی تو آپ بھی نا کاٹیں.
اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنایۓ. کیونکہ نجات حقیقتاً اسی میں ھے.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
میرا احناف سے ایک سوال ہے:
کیا احناف یہ عمل حج و عمرہ کی ادائیگی پر کرتے ہیں یا ساری عمر؟
محترم! آپ اس کو امت کے لئے فرض و واجب ہونا ثابت کردیں؟
محترم! میں اسے ”جائز“ سمجھتا ہوں اور جائز پر عمل ”فرض و واجب“ نہیں ہوتا۔ اگر یہ جائز نہیں تو اس کے دلائل درکار ہیں کہ اس کی ”زَدّ“ میں کوئی صحابی نہ آئے جن کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی داڑھی کاٹی؟
اگر کاٹی تو آپ بھی کاٹیں. اگر نہیں کاٹی تو آپ بھی نا کاٹیں.
اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنایۓ. کیونکہ نجات حقیقتاً اسی میں ھے.
اسوۂ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ کون عامل ہوسکتا ہے؟
 
Top