lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
یہ ایک بھائی نےفیس بک پر شیہر کیا ہے - کیا یہ صحیح ہے یا اس میں کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے - اہل علم حضرات کیا کہیں گے
دیوبندی مسلک میں دنیاوی قبر میں عذاب نہ ہونے کا عقیدہ بھی موجود ہے۔
موجودہ فرقوں کے علما کو اللہ تعالیٰ کے دین کے بنیادی اُصولوں میں سے یہ اصول اچھی طرح معلوم ہے کہ اصح الکتب قرآن ہے، اور قرآن کے سوا جو کچھ بھی ٹھوس علمی مواد ہے اس کا وہی مفہوم صحیح ہے جو قرآن کی کسی آیت سے بھی تصادم یا تضاد نہیں رکھتا ہو ، چاہے وہ مواد احادیث کی شکل میں ہو ، اقوالِ صحابہ (رضی اللہ عنھم) کی شکل میں ہو، تاریخ وسیرت کا معاملہ ہو، فقہا کی تحقیقات ہوں یا اور کچھ بھی ہو۔ اس کی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلا یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو اس کے الفاظ سے ظاہری طور پر لیا جاسکتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے’’۔ کوئی بھی اہل حدیث، بریلوی یا دیوبندی عالم اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں بتاتا کہ جنت (جس میں انبیا و شہدا اور دوسرے بے شمار مومنین کا مسکن ہے) کسی ماں کے پیروں کے نیچے کے مقام میں ہوتی ہے۔ یہ علما اس حدیث کا مفہوم اس کے الفاظ کے مطابق نہیں بلکہ قرآن کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ ‘‘ماں کی خدمت کرنے سے جنت ملتی ہے’’۔ لیکن بات جب ان کے فرقے کے کسی گمراہ کن عقیدے کی آتی ہے تو پھر اصول ان کے ہاں فضول ہو جاتے ہیں۔ یہ ظالم کتنا ہی زور لگالیں، کتنے ہی مناظرے کرلیں، کتنی ہی بحث کرلیں مگر اس حدیث کا صحیح مفہوم بیان کرنے کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ثابت کرسکتے کہ اگر کوئی شخص اس حدیث کا اس کے الفاظ کے عین مطابق عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ قرآن کی کئی آیات اور کئی احادیث کا منکر بن کر کافر قرار پائے گا۔ یہ اصول اتنی شدید اہمیت کا حامل ہے کہ اگر کسی صحیح حدیث کی قرآن کے مطابق تشریح ممکن نہ ہو تو حدیث کو حدیث ہی مانتے ہوئے اس کے مفہوم کے بارے میں اپنی لاعلمی تسلیم کی جائے گی لیکن حدیث سے کھیلتے ہوئے اس کا کچھ نا کچھ مفہوم ضرور اخذ کرنا ہرگز جائز نہ ہوگا۔
اس کی بھی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں مثلاَ صحیح مسلم، باب: مابین النفحتین کی ایک صحیح روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حدیث بیان کرتے ہیں کہ پہلی اور دوسری بار صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس کا وقفہ ہوگا۔ پوچھا گیا کہ کیا چالیس دن کا؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا۔ پوچھا گیا کہ کیا چالیس سال کا؟ انہوں نے پھر کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا ، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے کہ چالیس کا وقفہ ہوگا۔ یہ تھا حدیث پر مطلوبہ معیار کا ایمان۔ یہ تھی حدیث کی قدردانی۔ اور یہ تھی اصول کی پاسداری۔ یہ مسلک پرست تو قرآن وحدیث کی تعلیمات کو Edit کرتے کرتے اب تباہی وبربادی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اب ایک ہی روز میں ان پر لوہے کے ٹینک چڑھا کر ہزاروں کو ملیامیٹ کرلیا جاتا ہے لیکن کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں۔
کسی مسئلے کے بارے میں اس مسئلے سے متعلقہ تمام آیات اور احادیث میں سے صرف چند ہی آیات اور احادیث کو زیرغور لانے سے وہ مسئلہ کبھی بھی صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آسکتا بلکہ اصول ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں تمام آیات اور احادیثِ صحیحہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اور ان سب کو ہی زیرِغور لاکر ایسا عقیدہ یا مسئلہ اخذ کیا جائے کہ جس سے ان دلائل (آیات واحادیث) میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہ ہو۔ اس طرح سے جو عقیدہ اخذ ہوگا وہ شک وشبہے اور تضادات سے پاک اور پُراثر ہوگا بشرطیکہ اخذ ہونے والے نتیجے پر کسی ضعیف روایت، شخصی قول یا نام نہاد اجماعِ امت کومسلط نہ کیاجائے۔ اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو ضرور کسی نہ کسی آیت یا حدیث کے انکار کا ارتکاب ہوگا اورجوعقیدہ اخذ ہوگا اسے ثابت کرنے کی کوشش میں مزید آیات اوراحادیث کا انکار ہوتا چلا جائے گا اور وہ عقیدہ تضادات سے پاک اور پُراثر بھی نہ ہوگا جیسا کہ ان فرقوں کے ہاں عقیدۂ عذاب قبرایک مذاق اورپہیلی بن چکا ہے اوریہ عقیدہ ان کے اخلاق پر کوئی اثرنہیں ڈالتا، اگریہ عذابِ قبرسے ڈرتے تومسلک اورفرقے ہرگزنہ بناتے ، کفروشرک اور کافروں اورمشرکوں کا دفاع ہرگز نہ کرتے۔
عذابِ قبر سے متعلقہ بعض احادیث کے بارے میں بھی یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ان سے یہ مُراد لی جائے گی کہ دنیاوی قبروں میں ہی مُردے کو عذاب ہوتا ہے تو یہ عقیدہ ان تمام آیات اور احادیث سے متضاد ہو گا جو مُردے کو قیامت تک مُردہ یعنی ہر طرح کے شعور و احساس سے عاری ثابت کرتی ہیں اور یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ دفنایا جانے والا مُردہ جلد یا بدیر مٹی میں ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان کا اس حقیقت کو جاننے کا ایک ثبوت دیوبندیوں کے ایک بڑے رہنما اور ان کے ہاں ‘‘حکیم الامت’’ کا لقب پانے والے اشرف علی تھانوی صاحب نے یوں دیا ہے :
‘‘اور عالم مثال کا اثبات کرتا ہوں ۔ سو سمجھ لیجئے کہ یہ ثابت ہے اشارات ِنصوص سے ۔ اور اشارات تو میں نے احتیاطاَ کہہ دیا ہے ورنہ وہ اشارات بمنزلہ صراحت کے ہیں تو گویا بالتصریح یہ بات ثابت ہے کہ علاوہ شہادت یعنی دنیا کے اور عالم غیب یعنی آخرت کے ان دونوں کے درمیان میں ایک اور بھی عالم ہے جس کو عالم مثال کہتے ہیں جو من وجہ مشابہ ہے عالم شہادت کے اور من وجہ مشابہ ہے عالم غیب کے یعنی وہ برزخ ہے درمیان دنیا اور آخرت کے اور اس عالم کے ماننے سے ہزاروں اشکالات قرآن وحدیث کے حل ہو جاتے ہیں۔
مثلاَحدیث میں ہے اور یہ کام کی بات ہے ۔ حدیث میں وارد ہے کہ قبر میں اس طرح سے عذاب ہو گا یا ثواب ہو گا مثلا عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہو گی کہ زمین مل جائے گی اور صاحب ِ قبر کو دبا لے گی ۔ اسپر اشکال وارد ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جتنا فصل لاش اور قبر کی دیواروں میں مُردہ کو رکھتے وقت ہوتا ہے وہی باقی رہتا ہے لاش دبتی دباتی کچھ بھی نہیں ویسی کی ویسی رکھی رہتی ہے ۔ تو یہ صورت عذاب قبر کی جو حدیث میں آئی ہے ظاہر ہے کہ دنیا کے متعلق تو ہے نہیں کیونکہ مشاہدہ اس کی تکذیب کرتا ہے ۔
یہ اشکال اس وجہ سے اور بھی قوی ہوگیا کہ لوگوں نے اس کو دنیا ہی کے متعلق سمجھ لیا ہے حالانکہ اگر دنیا کے متعلق ہوتا تو اس کے آثار کا نظر آنا بھی ضروری تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی طرح حدیث شریف میں جو ہے القبر روضہ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفرات النار یعنی قبر یا جنت کا ٹکڑا ہوتی ہے یا دوزخ کا گڑھا۔ تو وہ لوگ اسپر کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبر میں کہ یہاں نہ تو پھول ہیں جنت کے نہ آگ ہے دوزخ کی پھراپنے ظاہری معنوں پر قبر دوزخ کا گڑھا یا جنت کا ٹکڑا کیونکر ہو سکتی ہے ۔ غرض یہاں قبر کی جنت و دوزخ میں تو یہ اشکال ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہرحال یہ اشکال حل نہیں ہو سکتا جب تک تیسرے عالم کے قائل نہ ہوں ۔ یعنی عالم برزخ کے ، جس کو عالم مثال بھی کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو جس وقت انسان مرتا ہے پہلے اس عالم مثال ہی میں جاتا ہے ۔ وہاں ایک آسمان بھی ہے مشابہ دنیا کے آسمان کے اور ایک زمین بھی ہے مشابہ دنیا کی زمین کے ۔ اور ایک جسم بھی ہے مشابہ اس جسم کے لیکن وہ بھی ہے جسم ہی ۔ تو مرنے کے بعد روح کے لئے ایک جسم مثال ہو گا اور آخرت میں جو جسم ہو گا وہ یہی ہو گا جو دنیا میں ہے ۔
غرض یہ ایمان ہے ہمارا کہ حشر روحانی بھی ہے اور جسمانی بھی یعنی یہی جسم جو ہم اب لئے بیٹھے ہیں اور جو گل سڑ کر خاک ہو جائے گااسی کو حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے پھر تازہ بنا کر محشور فرمائیں گے۔ لیکن وہاں اس جسم کی خاصیت بدل جائے گی یعنی اب تو یہ خاصیت ہے کہ جو ہم کھاتے پیتے ہیں اس کا پیشاب پاخانہ بنتا ہے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں یہاں تک کہ ایک دن مرکر فنا ہوجانا ہے وہاں گویا ابدی اور خالد ہو جائے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بس اس عالم مثال ہی کا نام قبر ہے ۔ اب سب اشکال رفع ہو گئے ۔ کیا معنیٰ کہ قبر سے مراد یہ محسوس گڑھا نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی کو بھیڑیا کھا گیا یا کوئی سمندر میں غرق ہو گیا تو اس صورت میں چونکہ وہ زمین میں دفن نہیں ہوا اسلئے اس کو چاہئیے کہ قبر کا عذاب ہی نہ ہو ۔ لیکن اب اشکال ہی نہ رہا ۔ کیونکہ وہ عالم مثال ہے وہیں اس کو عذاب قبر بھی ہو جائے گا۔ اشکال تو جب ہوتا جب قبر سے مراد یہ گڑھا ہوتا جس میں لاش دفن کی جاتی ہے حالانکہ شریعت میں قبر گڑھے کو کہتے ہی نہیں بلکہ عالم مثال کو کہتے ہیں قبر اور وہاں پہنچنا کسی حال میں منتفی نہیں ، خواہ مردہ دفن ہو یا نہ ہو ۔ اور اس عالم مثال کے نہ جاننے ہی کی وجہ سے یہ بھی کہتے ہیں ، عوام کی قبر ذرا بڑی رکھنی چاہیئے تاکہ مردہ کو بیٹھنے میں تکلیف نہ ہو ، تو معلوم ہوتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسی قبر کے اندر مردہ کو بٹھایا جاتا ہوگا۔ تو بس پھر کیا ہے اگر اپنے دشمن کو ستانا ہو تو اس کی قبر ذرا تنگ بنادی جاوے تاکہ ہرگز بھی اسے دشمن کے لئے تمنا کرتے ہیں کہ مر کر بھی مصیبت سے نہ بچے تو اچھا ہے حضرت یہ جو وسیع قبر شریعت نے تجویز کی ہے یہ اس بنا پر تھوڑا ہی ہے کہ اس کے اندر مردہ کو بٹھایا جائے گا۔۔۔۔’’
(اشرف الجواب ۔ حصہ چہارم ۔ صفحہ ۶۰۶ تا ۶۱۰ ۔ ناشر : مکتبہ تھانوی دیوبند ، ضلع سہارنپور ، انڈیا)
(یاد رہے کہ عالم برزخ کو عالم مثال کہنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں بلکہ یہ بے بنیاد اصطلاح صوفیوں کے ہاں رائج ہے اور جن روایات میں مردے کو زمین کا دبالینا بیان ہوا ہے وہ موضوع ہیں۔ تھانوی صاحب دنیاوی قبر میں عذاب کی تردید کرتے ہوئے اتنے بے قابو ہو گئے کہ انہوں نے عالم برزخ کے مقام کے علاوہ کسی دوسرے مقام کو قبر کا نام دینے سے انکار کر دیا حالانکہ دنیاوی قبر کو بھی قرآن و حدیث میں قبر کہا گیا ہے۔ حق کے ساتھ باطل کو بھی ملانے کی ‘‘ذمہ داری’’ادا کرنے کے لئے انہی اشرف علی صاحب نے دوسری جگہوں پر دنیاوی قبر میں بھی مردے تک عذاب کا اثر پہنچنے کا جھوٹا عقیدہ اختیار کیا تھا )
ان کے درج بالا بیان سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عذاب قبر کا تعلق دنیاوی قبروں سے نہیں بلکہ عالم برزخ سے ہے اور یہ بھی کہ عذاب قبر سے متعلقہ احادیث میں قبر سے مراد یہ زمینی گڑھا ہرگز نہیں ہے بلکہ برزخی مقام مراد ہے۔ اور یہ بھی کہ مرنے والے کو عالم برزخ میں ایک نیا جسم ملتا ہے۔ ان باتوں پر ان کے علما مثلا یہی اشرف علی تھانوی صاحب تو ‘‘ہدایت کے سورج’’ اور ‘‘حکیم الامت’’ قرار پاتے ہیں لیکن انہی باتوں کی دعوت جب دوسرے لوگ دیتے ہیں تو یہ علما ان لوگوں پر عذاب قبر کے انکاری ہونے، کافر ہونے ، منکرحدیث ہونے اور کسی نئے دین کے پیروکار ہونے کے جھوٹے فتوے لگاتے ہیں! ان کے اس فعل کی وجوہات سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہیں کہ یہ علما بے انصاف ، حق کو چھپانے والے اور فرقہ پرستی کا دفاع کرنے والے طاغوت ہیں۔ جن سے بیزاری ایمان کا لازمی حصہ ہے۔