• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

راولپنڈی:ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی - انالله وانا اليه راجعون

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ ایک وکیل ساتھی کے کلمات ہیں ذرا پڑھیں صرف بغرض معلومات
ممتاز قادری کیس کی ججمنٹ:
آج ممتاز قادری کیس کی ججمنٹ پڑھی اور پڑھنے کے بعد کچھ باتیں معلوم ہوئیں جن سے میں پہلے واقف نہ تھا اور کافی حیرت بھی ہوئی یہ ججمنٹ پڑھ کر۔ یہ کیس سب سے پہلے ایک سپیشل ٹرائل کورٹ میں چلا جس نے ممتاز قادری کو 302 اور اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت سزائے موت سنائی جس کے خلاف جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو انہوں نے 302 کے تحت پھانسی کی سزا برقرار رکھی مگر انسدادِ دہشتگردی کی شق ہٹا دی پھر جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ کی بینچ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور 302 کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے تحت سزائے موت بھی بحال کر دی-
سب سے پہلے ججمنٹ میں کیس کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس کیس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ کیا بلاسفیمی کے ارتکاب کے نتیجے میں کوئی شخص کسی کو قتل کر سکتا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ "کیا کوئی شخص کسی پر بلاسفیمی کے شبے یا اپنی دانست میں کسی بات کو بلاسفیمی سمجھ کر کسی کو قتل کر سکتا ہے؟"
کیس میں ممتاز قادری کا ڈیفینس 2 نکات پر مشتمل تھا:
1) میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ اس نے بلاسفیمی کی تھی اور ایک ایسی عورت کو سپورٹ کیا تھا جس کو بلاسفیمی کے کیس میں سزا ہو چکی تھی-
2) میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں اسلئے حق بجانب تھا کیونکہ اس نے مجھے اشتعال دلایا جب وہ کوہسار مارکیٹ کے ریسٹورانٹ سے اپنے دوست کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ جنابِ والہ آپ نے گورنر ہوتے ہوئے بلاسفیمی لاء کو کالا قانون کہا ہے جو آپ کے شایانِ شان نہیں- جس پر سلمان تاثیر نے آگے سے کہا نہ صرف یہ کالا قانون ہے بلکہ اس نے اس قانون کو مزید برا بھلا کہا جس پر ممتاز قادری کو مبینہ طور پر اشتعال آیا اور اس نے گولیاں چلا دیں-
پہلے نکتے کو ثابت کرنے کے لئے ممتاز قادری نے عدالت میں 2 اخباری رپورٹیں جمع کروائیں جس میں سلمان تاثیر کے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس بتائے گئے تھے اُن میں سے ایک رپورٹ تو قتل ہو جانے کے بعد شائع ہوئی تھی- دوسری رپورٹ کے بارے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے اس رپورٹ کی تصدیق کی تھی کہ کس نے اسے رپورٹ کیا اور کیا واقعی یہ سلمان تاثیر کے الفاظ ہیں؟ تو ممتاز قادری کا جواب نفی میں تھا- جس پر عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ممتاز قادری نے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس براہ راست نہیں سنے بلکہ یہ Hearsay پر مبنی ہیں جن کو وہ اپنی دانست میں بلاسفیمی سمجھ بیٹھا-
دوسرے نکتے کو ٹرائل کورٹ میں تحریری طور پر کیس چلنے کے وقت جمع کروایا گیا تھا- اس بارے میں جب اس سے کہا گیا کہ وہ عدالت آ کر حلف اٹھا کر یہ بیان دے کہ سلمان تاثیر نے اس کے سامنے ایسی بات کہی تھی تو اس نے حلفیہ یہ بیان دینے سے انکار کر دیا- اس مبینہ گفتگو کے وقت تین ہی لوگ موجود تھے ایک سلمان تاثیر کا دوست شیخ وقاص دوسرا تاثیر اور تیسرا قادری- ایک انسان مارا جا چکا تھا- دوسرے کو انہوں نے عدالت میں طلب کرنے کی اپلیکیشن نہیں جمع کروائی اگر کرواتے تو یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس مٹیریل گواہ کو بلاتی اور اگر وہ نہ پیش ہوتا تو اس پر توہینِ عدالت لگ جاتی- لیکن اپیل کنندہ کی جانب سے ایسی کوئی اپلیکیشن ہی جمع نہیں کروائی گئی- خود اپیل کنندہ نے بھی حلف اٹھا کر یہ بات کہنے سے انکار کر دیا-
بس یہی وہ نکتہ تھا جس نے اس کیس کو سب سے زیادہ کمزور کر دیا اور عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا اور بلکل دُرست اخذ کیا کہ یہ بعد میں ایجاد کی گئی اپنا ڈیفینس بہتر کرنے کے لئے ایک کہانی ہے کیونکہ ٹرائل کورٹ سے پہلے تفتیشی افسر کے سامنے بھی ممتاز قادری نے قتل کے وقت ایسے کسی مکالمے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا- جس پر ممتاز قادری کے وکلاء نے کہا کہ مقتول کو گولیاں سامنے سے لگی تھیں جس سے پتا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ضرور کوئی مکالمہ ہوا ہوگا اور 28 گولیوں کے لگنے سے پتا لگتا ہے کہ ضرور ملزم اشتعال میں آیا ہوگا- جس پر عدالت نے کہا کہ یہ صرف قیاس آرائیاں ہیں ان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا-
ممتاز قادری کے وکلاء کی جانب سے یہ بات بھی ڈسکس کی گئی کہ بلاسفیمی کے قانون کو غلط کہنا بھی بلاسفیمی ہے اور اس بات کے حق میں ججمنٹ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے جو حوالے پیش کیے ان میں سے کوئی بھی Divine origin کا نہیں تھا بلکہ وہ کچھ سکالرز کی اس بارے میں صرف رائے تھی کہ بلاسفیمی قانون کو غلط کہنا بھی بلاسفیمی ہے- عدالت کا موقف یہ تھا کہ بلاسفیمی کیا ہے اُس کی تعریف 295 C میں موجود ہے- سلمان تاثیر کا بلاسفیمی قانون سے متعلق بیان کسی بھی صورت میں 295 C میں بیان کردہ بلاسفیمی کی تعریف میں نہیں آتا- اس ججمنٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ بلاسفیمی قانون میں پہلے بھی کئی بار ترمیم ہو چکی ہے- یہ سب سے پہلے 1866 میں انڈین پیینل کوڈ میں شامل ہوا پھر سب سے پہلی ترمیم اس میں 1927 میں ہوئی- پھر 1986 اور 1991 میں اس میں ترامیم ہوئیں- لہٰذا جس قانون میں پہلے ہی کئی بار ترامیم ہو چکی ہوں اس کا مطلب ہے وہ کوئی ساکت و جامد قانون نہیں ہے بلکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے لہٰذا اگر کسی نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس پر نظرِ ثانی کی جائے تو یہ مطالبہ کوئی غلط بات نہیں- پھر معزز جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک 2002 کے کیس کا ریفرنس دیا جس میں ججمنٹ دیتے وقت خود لاہور ہائی کورٹ نے اس قانون میں ترامیم کی کچھ سفارشات پیش کی تھیں کہ اس کے پروسیجر میں یہ یہ تبدیلیاں کی جائیں- اس کی انویسٹیگیشن کوئی عام ASI یا محرر نہ کرے بلکہ دو ایسے افسر کریں جن کو اس بارے میں مکمل علم ہو کہ بلاسفیمی کی تعریف کیا ہے اور کیا نہیں انکے ساتھ ایک غیر جانبدار مذہبی سکالر بھی ہو اور پوری تفتیش کے بعد کیس درج کیا جائے- عدالت نے ججمنٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی اس قانون میں تبدیلیاں کرنے کی سفارشات کو کسی بھی صورت بلاسفیمی کہا جا سکتا ہے؟ خود ہی اسکا جواب بھی دیا ہے کہ ہرگز نہیں-
جج صاحبان نے بلاسفیمی کیسز کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی فراہم کیے جن کے مطابق 1953 سے 2012 تک درج ہونے والے 434 بلاسفیمی کے مقدمات میں 258 خود مسلمانوں کے خلاف تھے- ظاہر ہے کوئی مسلمان تو بلاسفیمی کر نہیں سکتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اس قانون کا استعمال ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے کیا جاتا ہے لہٰذا اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے اس کا غلط استعمال روکا جائے تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی بلاسفیمی ہے-​
 
Last edited by a moderator:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کوئی بھی کلمہ گو مسلمان گناہ گار تو ہو سکتا ھے مگر توہین رسالت نہیں
(کنعان)
اس پہ میرا ایک سوال ہے کہ کیا سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین گستاخ رسول نہیں ہیں پیارے بھائی ہاں یا نہ میں جواب دے دیں جیسا کہ آپ کا مختصر جواب دینے کی عادت ہے بہت بہت شکریہ
(عبدہ)
عبدہ بھائی آپ نے یہاں غلباً ایک سال پہلے گرامر سکھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو کچھ دیر تک چلا اور پھر آپ کسی وجہ سے ایک عرصہ تک غیر حاضر رہے، اس لئے آپ کو سمجھنے میں چھوٹ نہیں ہونی چاہئے تھی۔

"ہو سکتا ھے" کا استعمال جہاں ہو گا وہ بات کنفرم نہیں، "نہیں بھی ہو سکتا" اور جہاں "نہیں بھی ہو سکتا" لکھا جائے گا یہ بھی کنفرم نہیں، ہو بھی سکتا ھے۔

میں نے اپنی مثبت سوچ سے مطالعہ کی روشنی میں لکھا "کوئی بھی کلمہ گو مسلمان گناہ گار تو ہو سکتا ھے مگر توہین رسالت نہیں"

چودہ سو سال سے اب تک کھربوں مسلمانوں کی گنتی پر اگر رشدی اور تسلیمہ جیسے چند ایک نام سامنے لائے جائیں تو یہ نیومیریسی کے ایک کلیہ کے مطابق کوئی "ایویج" بھی نہیں بنتی، اس لئے
کوئی بھی کلمہ گو مسلمان گناہ گار تو ہو سکتا ھے مگر توہین رسالت نہیں۔

تو اس پہ میں نے کہا تھا کہ کیا آپ کے نزدیک کلمہ گو تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی بھی گستاخی نہیں کر سکتے

اس کا انکار تو کوے کو سفید کہنے کے مترادف ہو گا میرے نزدیک کیونکہ انہوں نے تو واضح گستاخی کی ہے اور وہ کلمہ گو بھی ہیں پس ثابت ہوا کہ کلمہ گو بھی گستاخی کر سکتا ہے

کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔
17:36

میری جاب کے حوالہ کریمینل لاء کے مطابق ایسے بہت سے کیسیز گزرتے ہیں جس پر ہوتا کچھ ہے اور دکھتا کچھ ہے اس لئے سوال پوچھے گئے دونوں کیریکٹر پر کوئی رائے نہیں کہ ان کے ان اقدام کے پیچھے کیا مراسم ہو سکتے تھے، اس پر بہت سی مثالیں ہیں جن میں سے کچھ سمجھنے کے لئے میں درج کرتا ہوں اس میں کچھ ایسی ہیں جس پر آپ پر آپ کو نہ تو کوئی علم ھے اور نہ ہی آپ کا کوئی مطالعہ اس لئے آپکو سمجھنے میں مشکل ہو گی، جیسے

1- یورپئین ممالک میں مکمل سکونت اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو مذھبی اسائلم کا کیس کرواتے ہیں جس سے انہیں رفیوجی سٹیٹس آسانی سے مل جاتا ھے، اس کام پر انہیں مشورہ وکلاء ہی دیتے ہیں کہ ہو تو تم مسلمان ہی موت سے پہلے تک توبہ کا دروزہ کھلا ہے۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس پر وہ خود کو وہی ثابت کرنے کے لئے جس بھی ملک سے وہ آئے ہوں ان ممالک کے اخبارات میں خود کو وہی ثابت کرنے کے خبریں بھی لگواتے ہیں اپنے کسی عزیز کی مدد سے اور ایک پلان کے مطابق ان خبروں سے ان کا وانٹ بھی نکلتے ہیں جس پر ایک مکمل فائل تیار ہوتی ھے اور اس کی کاپی انہیں اخباری تراشوں کے ساتھ یہاں بھیج دی جاتی ہے، کیس جیت جاتے ہیں سٹیٹس مل جاتا ھے اپنی مساجد میں ہی نماز اور جمعہ پڑھتے دیکھے جاتے ہیں۔

2۔ ملالہ ایک پاکستانی لڑکی ہے، اس کا بات نہ جانے کس طرح بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ بنا جس پر اس نے اپنی بیٹی کا استعمال کیا، اس وقت بھی وہ جو اتنی چھوٹی عمر میں بڑی بڑی باتیں لکھتی تھی اس کا رائٹر کون تھا؟ وہ یا کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔
پھر انٹرنیشنل پروگرام میں اس نے ایک تقریر کی جو سامنے لکھی ہوئی تھی جسے وہ پڑھ رہی تھی، وہ کس نے لکھی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟
اب اس کے نام سے ایک کتاب سامنے آئی اس پر ڈاکٹر دانش کے ایک پروگرام میں بہت سے انکشافات کئے گئے کہ یہ الفاظ کس کے ہیں۔۔۔۔۔۔ کتاب میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو ناموس دین ہیں اور اس پر بھی بات ہوئی اس کے بعد ڈاکٹر دانش بین کر دئے جاتے ہیں۔

3۔ ایسے ہی پاکستان سے میڈیا اور اس کے علاوہ بہت سے اداروں کے لوگ جن سے بیرونی طاقتیں کام لے سکتی ہیں انہوں نے انہیں ہائر کیا ہوا ھے، جو اپنی خوشی سے ان کے لئے کام نہیں کرتے مجبوری ہے۔۔۔۔۔۔ اس پر ایک مثال سے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ھے خطیب توصیف الرحمان راشدی کی ہی لے لیں، اس نے داعش کی مخالفت میں ایک تقریر کی جو یہاں سے سنی جا سکتی ہے، ان کے کسی عقیدت مند قاھر الارجاء الخوارج ممبر نے لکھا کہ اسے اس کی بھتیجے یا بھانجے سے معلوم ہوا کہ وہ کس دباؤ میں اس سے کروائی گئی ہے۔ اب ایسے لوگ بھی دباؤ میں آ کر کام کر سکتے ہیں تو پھر ایک عام مسلمان پر کیا رائے دی جا سکتی ہے؟ یہاں مجھے یہ پوسٹ نہیں ملی مگر کچھ ممبران اس بات پر گواہ ہونگے جنہوں نے یہ پوسٹ پڑھی ہو گی۔

کتابوں کے حوالہ سے تاریخ گواہ ہے دین پر کام کرنے والی اعلی شخصیات پر ایک دوسرے کی جانب سے کفر کے فتوے لگے ان کے دل میں کیا تھا واللہ اعلم، یقیناً یہ دینا سے کلمہ گو مسلمان ہی رخصت ہوئے ہونگے۔

والسلام
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی بات کی گئی ہے
محترم شیخ میرے خیال میں اختلاف ہی یہی لگ رہا ہے کہ میں نے شرط لگائی تھی کہ اگر یہ ثابت ہو کہ سلمان تاثیر نے واضح گستاخی کی ہے اور حکومت نے اسکے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اسکے خلاف کروائی سے انکار کر دیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر قانون کو ہاتھ میں لینے کا معاملہ اسکا درست تھا ورنہ نہیں اگر اآپ اس میں مجھ سے اتفاق رکھتے ہیں تو پھر تو اختلاف واقعی نہیں لیکن اگر اس میں اختلاف ہے تو پھر نیچے آپ کے باتوں میں مجھے جو اشکالات نظر آ رہے ہیں وہ لکھ دیتا ہوں شاید کہ آپ کے علم و تجربہ سے مجھے شرح صدر ہو جائے جزاکم اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
غازی علم دین نے جب یہ کام کیا تھا اس وقت حکومت کافر تھی اور جج بھی کافر تھے سو فیصد لہذا اس کا حکم الگ ہے اور ممتاز قادری کے کیس کو اس سے ملانا ہی غلط ہے صرف اس بنیاد پر کہ دونوں نے پھانسی دی لہذا ایک ہی معاملہ ہے یہ محل نظر ہے اس پر غور کریں
محترم بھائی آپ نے نیچے خود یہ مانا ہے کہ گستاخ رسول کی حد کے لئے اسلامی حکومت کا ہونا لازمی نہیں ہے پس
1۔جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں گستاخ رسول کی صرف حد اسلامی حکومت نافذ کرے گی
2۔جہاں اسلامی حکومت نہ ہو وہاں حد دوسرا نافذ کر سکتا ہے
اب میں ایک تیسری صورت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ
3۔ جہاں اسلامی حکومت ہو مگر وہ حد نافذ کرنے سے منع کر دے یا نہ کرے تو گستاخ رسول کی حد قائم کرنے میں وہاں دوسرا اسی طرح حد کیوں نہیں نافذ کر سکتا جس طرح کہ غیر اسلامی حکومت میں یہ ذمہ داری اسکی طرف منتقل ہو جاتی ہے
اگر یہ حد نافذ کرنا ایک اسلامی ریاست میں ایک مسلمان کی ذمہ داری نہیں ہے تو پھر غیر اسلامی ریاست میں اسکی ذمہ داری کیوں بن جاتی ہے یہ ذمہ داری اسی وجہ سے اسکی طرف منتقل ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست وہ کام نہیں کر سکتی کیونکہ وہ ہے ہی نہیں تو جب موجود ہو اور پھر بھی نہ کر سکتی ہو تو پھر کیوں نہیں منتقل ہو سکتی

البتہ جہاں تک یہ بات کہ اگر اسلامی ریاست وہ حد قائم کرنے والی ہو اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے والی ہو یا پھر گستاخی براہ راست نہ ہوئی ہو بلکہ پروسیجرل لاء کو یعنی قانون کو غلط کہا گیا ہو تو پھر گستاخی نہیں بنتی پھر تو حکومت کو بھی حق نہیں ہے اسی لئے میں نے دو مفروضوں سے یہ ساری بات کی ہے کہ گستاخی براہ راست اور واضح ہو اور دوسری کہ حکومت حد میں رکاوٹ ڈالنے والی نہ ہو

اب میں آپ کو وہ بات بتاتا ہوں اور اللہ کے رسول کی وہ حدیث بھی یاد دلاتا ہوں جو کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بارے ہے کہ عبداللہ بن ھشام کہتے ہیں
کنا مع النبی ﷺ وھو اخذ بید عمر ابن الخطاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والذی نفسی بیدہ حتی اکون احب الیک من نفسک۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکو سامنے رکھ کر ایک گواہی دیں کہ بہت سے اسلامی ممالک کے سربراہان نے فرانس کے ملعون چارلی کے قتل پہ اسکے ساتھ کھڑا ہو کر یکجہتی کی تھی اگر وہی چارلی انکے ملک میں ہوتا تو کیا وہ وہاں اسکے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کرتے اب فرض کریں کہ چارلی اس اسلامی ملک میں ہی ریمنڈ ڈیوس کی طرح رہ رہا ہوتا اور وہ گستاخی کرتا اور وہ ملک اسکا اس طرح تحفظ کرتا جس طرح ہم نے ریمنڈ ڈیوس کا کیا اور اس وقت کوئی اسکو قتل کرتا تو اس وقت اس اسلامی ملک کے اندر ہونے والے اس قتل کے بارے آپ کیا کہتے ان ارید الا الاصلاح ما استطعت
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں نے یہ نہیں کہا کہ اسلامی حکومت ہی سزا دے سکتی ہے وگرنہ سزا والا عمل ہی معطل ہو جائے گا کیونکہ ہمارا عدالتی نظام جیسا ہے اسے آپ بھی بہتر جانتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں کہا کہ ہر کوئی اپنے ہاتھ میں اس امر کو لے لے اگر ایسا ہی ہے تو پھر شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ کے خلاف توہین رسالت کا کیس درج کروایا گیا تھا بریلویوں کی طرف سے اگر کیس کروانے والا براہ راست کوئی عملہ قدم اٹھا لیتا تو پھر آپ کیا کہتے ؟
محترم بھائی میں نے پہلے جو دو شرطیں لگائی ہیں یہ ان شرائط کے مطابق نہیں پس میں اسکو کیسے درست کہ سکتا ہوں یہ غلط ہو گا

بات صرف یہ ہے کہ غازی علم دین نے جب یہ کام کیا اس وقت برطانوی حکومت تھی جج بھی عیسائی تھے لہذا اس حوالے سے مجھے یہ بتائیں کہ کیا کسی عالم دین نے یہ کہا ہو کہ غازی علم دین نے غلط کیا اسے یہ معاملہ حکومت کے سپرد کرنا چاہیے تھا مجھے کسی ایک عالم دین کا قول بتائیں جس نے اس طرح سوالات اٹھائے ہوں جس طرح ممتاز قادری پر اٹھائے جا رہے ہیں دونوں کیسز میں زمین آسمان کا فرق ہے میرے بھائی ہیں تو دونوں توہین رسالت کے لیکن حالات اور نوعیت میں فرق ہے یہ فرق نہیں ملحوط خاطر رکھے جائیں گے تو یہ ابہام باقی رہے گا
یہ فرق میں نے اوپر بتا دیا ہے کہ اسلامی حکومت کا نہ ہونا اور اسلامی حکومت کا گستاخ رسول کی حد میں رکاوٹ ڈالنا کیا ایک جیسے ہیں یا مختلف حالات ہیں

اللہ جزائے خیر عطا فرمائے آپ نے تو خود ہی معاملہ حل کر دیا ذرا غور کریں اپنے کلمات پر اور پھر دوبارہ جائزہ لیں اپنے سوالات کا کہ موجودہ حکومت کافر نہیں برطانوی حکومت کافر تھی اور ابھی ممتاز قادری کے اس فعل پر کیا اہل حدیث کیا دیو بندی اور کیا بریلوی خود کوئی متفق علمی اختیار نہیں کر سکے اور میں پھر کہوں گا کہ ممتاز قادری نے یہ کام ایمانی غیرت میں آ کر کر دیا یا اس سے کروایا گیا اس پر تو کوئی بحث ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس امر پر کوئی اختلاف ہے کہ حکومت نے سزا غلط دی
ممتاز قادری کی سزا میں ہو سکتا ہے کہ کوئی اختلاف نہ ہو کہ شاید سلمان تثیر کی گستاخی کچھ لوگوں کو ہاں مکمل ثابت نہ ہو پھر میرے اپنے اوپر بیان کردہ دو شرائط کے مطابق یہ ممتاز قادری کی سزا درست ہو گی ورنہ میرے نزدیک درست نہ ہو گی جب وہ دو شرطیں پوری نہ ہو البتہ یہ میری رائے ہے جو درست اور غلط بھی ہو سکتی ہے واللہ اعلم جزاکم اللہ خیرا یا شیخ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جہاں اسلامی حکومت ہو مگر وہ حد نافذ کرنے سے منع کر دے یا نہ کرے تو گستاخ رسول کی حد قائم کرنے میں وہاں دوسرا اسی طرح حد کیوں نہیں نافذ کر سکتا جس طرح کہ غیر اسلامی حکومت میں یہ ذمہ داری اسکی طرف منتقل ہو جاتی ہے
زبردست
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
ممتاز قادری بریلوی ہے تو غازی علم دین بھی بریلوی ہی کہا جاتا ہے ۔
علم دین نے اس وقت گستاخ رسول کا کام تمام کیا جب عدالتیں خاموش ہوگئیں ۔ ( اگر عدالت کوئی کردار ادا کرتی تو سلمان تاثیر یوں ایک محافظ کے ہاتھوں نہ مرتا )
سلمان تاثیر کی گواہی میں میڈیا بولا کہ یہ مراد نہیں وہ مراد تھی ، اگر اس زمانے میں یہ فضولیات ہوتیں تو یقینا ’’ رنگیلا رسول ‘‘ والے ملعون کی ’’ سیرت رسول ‘‘ پر بھی کتاب چھپ چکی ہوتی ۔
علم دین اور ممتاز قادری میں فرق یہ ہے کہ اس وقت چاہے جو مرضی تھا ، قائد اعظم اور اقبال جیسے آزاد خیال لوگ بھی حرمت رسول کے مسئلے میں آج کے بعض اسلام پسندوں سے سےزیادہ غیرتمند واقعے ہوئے تھے ۔
پرویز رشید نے جو بکواس کی ہے ، اس پر ابھی تک اسے کوئی سزا یا سرزنش نہیں ہوئی ، بلکہ تاثیر کی طرح اس نے الٹا بکواس کی کہ میں ان مولویوں اور ان کے فتووں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ، اب کوئی ممتاز قادری اپنا کام کر گیا تو وہی لوگ جنہوں نے اس پرویز کی ہرزہ سرائی ، جو درحقیقت معاشرے میں انتشار کا باعث بنی ہے ، کا نوٹس لینے کی ضرورت نہیں سمجھی ، قادری کا ناطقہ بند کرنے پر پورا زور صرف کردیں گے کہ یہی در حقیقت فساد کی جڑ ہے ۔ إنا للہ و انا الیہ رجعون ۔
یہ اور کچھ نہیں ’’ غیور مسلمانوں ‘‘ سے ’’ غیرت کشید ‘‘ کرنے کے ہتھکنڈے ہیں ، تاکہ ہر کتا بلا جو مرضی ’’ بھونکتا ‘‘ رہے ، کوئی مسلمان اٹھا کر اسے پتھر مارنے کی بھی ہمت نہ کرسکے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ممتاز قادری بریلوی ہے تو غازی علم دین بھی بریلوی ہی کہا جاتا ہے ۔
علم دین نے اس وقت گستاخ رسول کا کام تمام کیا جب عدالتیں خاموش ہوگئیں ۔ ( اگر عدالت کوئی کردار ادا کرتی تو سلمان تاثیر یوں ایک محافظ کے ہاتھوں نہ مرتا )
سلمان تاثیر کی گواہی میں میڈیا بولا کہ یہ مراد نہیں وہ مراد تھی ، اگر اس زمانے میں یہ فضولیات ہوتیں تو یقینا ’’ رنگیلا رسول ‘‘ والے ملعون کی ’’ سیرت رسول ‘‘ پر بھی کتاب چھپ چکی ہوتی ۔
علم دین اور ممتاز قادری میں فرق یہ ہے کہ اس وقت چاہے جو مرضی تھا ، قائد اعظم اور اقبال جیسے آزاد خیال لوگ بھی حرمت رسول کے مسئلے میں آج کے بعض اسلام پسندوں سے سےزیادہ غیرتمند واقعے ہوئے تھے ۔
پرویز رشید نے جو بکواس کی ہے ، اس پر ابھی تک اسے کوئی سزا یا سرزنش نہیں ہوئی ، بلکہ تاثیر کی طرح اس نے الٹا بکواس کی کہ میں ان مولویوں اور ان کے فتووں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ، اب کوئی ممتاز قادری اپنا کام کر گیا تو وہی لوگ جنہوں نے اس پرویز کی ہرزہ سرائی ، جو درحقیقت معاشرے میں انتشار کا باعث بنی ہے ، کا نوٹس لینے کی ضرورت نہیں سمجھی ، قادری کا ناطقہ بند کرنے پر پورا زور صرف کردیں گے کہ یہی در حقیقت فساد کی جڑ ہے ۔ إنا للہ و انا الیہ رجعون ۔
یہ اور کچھ نہیں ’’ غیور مسلمانوں ‘‘ سے ’’ غیرت کشید ‘‘ کرنے کے ہتھکنڈے ہیں ، تاکہ ہر کتا بلا جو مرضی ’’ بھونکتا ‘‘ رہے ، کوئی مسلمان اٹھا کر اسے پتھر مارنے کی بھی ہمت نہ کرسکے ۔
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی ہم ذرا غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ مشرک کے اوپر وہ حد نہیں جو گستاخ رسول پہ حد ہے اسی لئے غالبا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ذمی کے اوپر یہ سزا خلاف قیاس لگتی ہو گی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس پہ تمام مسلمان دیندار طبقہ مرنے پہ تیار ہو جاتا ہے
واللہ اگر کوئی بھی اسلامی ملک ہو اور اوپر والی میری دو شرائط پوری ہو جائیں کہ واضح گستاخی بھی کی جائے اور حکومت بھی عدالت میں کیس نہ لے تو میں بخدا اگر موقع پاؤں گا تو الحمد للہ اسکو قانون کے خلاف قتل کر دوں گا کیونکہ میری نظر میں اس قانون کی کوئی وقعت نہیں جو ہمارے نبی ﷺ کی حرمت کو ہی نہیں بچا سکتا چاہے مجھے ہزار بار پھانسی لگا دی جائے یا خالی اس لکھنے پہ ہی میرے اوپر توہین عدالت کا مقدمہ کر دیا جائے
اور میں یہ بھی یقین سے کہ سکتا ہوں کہ لبرل کو چھوڑ کر ہر فاسق و فاجر قسم کا اور مشرک قسم کا مسلمان بھی (شرط یہ ہے کہ وہ لبرل نہ ہوں) یہی پسند کرے گا چاہے وہ بریلوی ہو یا دیوبندی یا اہل حدیث سوائے انکے کے کہ ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم والا معاملہ ہو تو ان میں محبت کی کمی ہو سکتی ہے اور یہ لبرل اور کفار اسی چیز کو ہی ہمارے اندر سے ختم کرنا چاہتے ہیں
دیکھیں کہ کفار توحید کے خلاف تو وہ میڈیا کے ذریعے کامیاب ہو چکے ہیں اور اکثریت کو شرک میں لگا چکے ہیں مگر اب وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک چیز یعنی رسول سے بھی انکو علیحدہ اگر کر دیا جائے تو پھر ہم مکمل کامیاب ہو جائیں گے اور وہ اب اسی وجہ سے بار بار خود بھی گستاخیاں کر رہے ہیں اور ہم سے بھی کروا رہے ہیں کہ مسلمانوں کا اسلام سے جڑا رہنے کا جو ایک ذریعہ کچھ نہ کچھ بچا ہے وہ بھی ختم ہو جئے تو پھر واللہ لبرل بننے میں ذر برابر دیر نہیں لگے گی
لہذا واللہ مجھے تو یہی سمجھ آ رہی ہے ہے کہ اگر یہ ہمیں ہمارے رسول کی عزت پہ کمپرومائیز کروانے اور ہمارے جذبہ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر اس بہاو میں ہمیں روکے والی کوئی چیز نہ ہو گی پس مجھے یہ لبرل اور دیندار طبقہ کی جنگ نظر آتی ہے واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
مجھے یہ لبرل اور دیندار طبقہ کی جنگ نظر آتی ہے واللہ اعلم
اللہ آپ کا بھلا کرے ۔ یہی سمجھنے والی بات ہے ۔
جس طرح قادری کیس ’’ توہین رسالت ‘‘ پس منظر میں دیکھنے کی بجائے ایک قتل کیس کے طور پر دیکھا گیا ہے ، اسی طرح بعض لوگ ان معاملات پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے انہیں لبرل از م بمقابلہ اسلام کی درست سمت سے نہیں دیکھ پاتے ۔ و اللہ المستعان ۔
 
Top