• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسم عثمانی اور قراء ات کے درمیان تعلق

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی فصل
اب ہم ان قرآنی کلمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جن میں دو قراء ات ہیں ایک اثبات یاء کے ساتھ، اور دوسری حذف یاء کے ساتھ لیکن رسم میں یاء کو حذف کرکے صرف کسرہ پر اکتفاء کیاگیا ہے تاکہ وہ کسرہ یاء محذوفۃ پر دلالت کرے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوجائے کہ بعض قراء ان کلمات میں وقفا بھی یاء کو حذف کرتے ہیں۔
(١) مثلاً: لفظ ’’ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۶)
اصل میں یہ لفظ ’الدَّاعِیْ ‘ہے اثبات یاء کے ساتھ۔
اس میں دو قراء ات ہیں:
(١) امام ورش﷫، امام ابوجعفر﷫ اور امام ابوعمرو﷫ کی قراء ت حالت وصل میں ’ الدَّاعِیْ ‘ ہے جبکہ وقفاً یہ قراء حذف یاء کے ساتھ پڑھتے ہیں (امام یعقوب دونوں حالتوں میں یا ء کو ثابت کرتے ہیں۔)
امام ابوزرعۃ﷫ اپنی کتاب ’الحجۃ‘ کے صفحہ نمبر ۱۲۶ میں فرماتے ہیں کہ یہ لفظ اصل میں یا ء کے ساتھ ہے کیونکہ یاء فعل کا لام کلمہ ہے۔ ان قراء نے بہت اچھا کیا ہے کیونکہ یہ حالت وصل ہے یاء یعنی فاء کلمہ کو ثابت کرتے ہیں جبکہ حالت وقف میں یاء کو حذف کرکے انہوں نے رسم عثمانی کی اتباع کی ہے جبکہ یاء کو حذف کرنے والے قراء نے رسم عثمانی کو دلیل بنایا ہے۔
(٢) باقی تمام قراء یاء کو وصل و وقف دونوں حالتوں میں حذف کرتے ہوئے ’الدَّاعِ‘ پڑھتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) مثلاً لفظ ’’ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ ‘‘ (القمر: ۶)
اس میں دو قراء ات ہیں:
(١) امام ورش، امام ابوعمرو بصری ، امام ابوجعفر﷭ یہ قراء حالت وصل میں اثبات یاء کے ساتھ ’الدَّاعِیْ ‘پڑھتے ہیں۔ (امام بزی﷫ و یعقوب﷫ دونوں حالتوں میں اثبات یاء کے ساتھ ’الدَّاعِیْ ‘پڑھتے ہیں۔)
(٢) باقی تمام قراء دونوں حالتوں میں حذف یاء کے ساتھ ’الدَّاعِ‘ پڑھتے ہیں۔
(٣) مثلاً : لفظ ’’ مُھْطِعِیْنَ اِلٰی الدَّاعِ‘‘ (القمر: ۸)
اس میں بھی دو قراء ات ہیں:
(١) امام نافع﷫، امام ابوعمرو﷫، امام ابوجعفر﷫ یہ قراء حالت وصل میں اثبات یاء کے ساتھ ’الدَّاعِی‘ پڑھتے ہیں۔ (امام ابن کثیر﷫، امام یعقوب﷫ دونوں حالتوں میں اثبات یاء کے ساتھ پڑھتے ہیں۔)
(٢) باقی تمام قراء دونوں حالتوں میں حذف یاء کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
امام ابوزرعۃ﷫ اپنی کتاب ( الحجۃکے صفحہ نمبر ۲۸۹) میں فرماتے ہیں :
سورۃ القمر کے ان دونوں کلمات میں یا ء کااثبات اصل کے مطابق ہے جبکہ یاء کا حذف بھی جائز ہے کیونکہ یاء محذوفۃ پر کسرہ دلالت کررہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) مثلاً : لفظ ’’ یَقُصُّ الْحَقَّ ‘‘ (الأنعام: ۵۷)
اس میں دو قراء ات ہیں:
(١) امام نافع﷫، ابن کثیر مکی﷫، امام عاصم﷫، ابوجعفر﷫ کی قراء ’یَقُصُّ الْحَقَّ‘ہے۔
(٢) باقی تمام قراء کی قراء ات ’یَقْضِ الْحَقَّ‘ ہے۔
مصاحف عثمانیہ میں یہ لفظ ’ ٹفص‘ لکھا گیا ہے۔ مصاحف عثمانیہ میں نقطے اور اعراب نہ ہونے کی وجہ سے دونوں قراء ات کا احتمال موجود ہے۔ اس لفظ کو صرف امام یعقوب﷫حالت وقف میں یاء کے اثبات کے ساتھ ’یَقْضِیْ‘ پڑھتے ہیں۔
معنوی اعتبار سے ’یَقُصُّ‘ بمعنی بیان کرنا ہے۔ جس طرح قرآن میں ہے : ’’نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ‘‘ (یوسف:۳) جبکہ ’یَقْضِ‘ کا معنی ہے ’فیصلہ کرنا‘ جس طرح (الغافر:۲۰) میں ہے: ’’وَاﷲُ یَقْضِیْ بِالْحَقِّ‘‘
پورے قرآن میں ایسے کلمات کی تعداد اکیس ہے جن میں رسماً یاء حذف ہے مثلاً ’’ نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْن ‘‘ (یونس:۱۰۳) ’’یَوْمَ یَأْتِ لاَ تَکَلَّمُ‘‘ ( ھود: ۱۰۵)، ’’وَ مَا أَنْتَ بِھٰدِ الْعُمْیِ‘‘ (الروم: ۵۳)
ان مثالوں سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اگر ان کلمات میں رسماً یاء لکھ دی جاتی تو حذف یاء والی قراء ت نکالنا مشکل ہوجاتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانچویں فصل
اَب ہم ان قرآنی کلمات کا ذکر کرتے ہیں کہ:جن میں تمام مصاحف عثمانیہ میں واؤ کو حذف کرکے صرف ضمہ پر اکتفاء کیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوکہ تمام قراء وقفاًو وصلاً واؤ کو حذف کرتے ہیں۔
قرآن میں اس طرح کی چار مثالیں ہیں۔
(١) مثلاً : لفظ ’’ وَیَدْعُ الْاِنْسٰنُ بِالشَّرِّ دُعَآئَ ہٗ بِالْخَیْرِ ‘‘ (الإسراء: ۱۱)
یہ لفظ اصل میں ’یَدْعُوْ‘واؤ کے ساتھ ہے۔ لیکن تمام مصاحف عثمانیہ بالاتفاق اس کو واؤ کے حذف کے ساتھ لکھتے ہیں۔ (نثرالمرجان: ۴ ؍۱۴)
٭ علامہ زرکشی﷫ (البرھان في علوم القرآن: ۱ /۳۹۸) میں فرماتے ہیں :
واؤ کے حذف سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انسان بُرائی کو اختیار کرنے میں جلدی کرتا ہے۔لیکن نیکی کے حصول میں جلدی نظر نہیں آتی۔
(٢) مثلاً : لفظ ’’ وَیَمْحُ اﷲُ البٰطِلَ‘‘ (الشوری: ۲۴)
اس لفظ میں واؤ کو بغیر کسی صرفی، نحوی وجہ کے حذف کردیا گیا ہے۔ تلفظ بھی واؤ کے بغیر ہے حالانکہ یہ اصل میں ’یَمْحُوْ‘ تھا۔ (نثرالمرجان: ۶؍۳۶۲)
اس طرح دو کلمات اور ہیں۔
(٣) مثلاً: لفظ ’’ یَدْعُ الدَّاعِ ‘‘ (القمر: ۶)
اس میں بھی لفظ’ یَدْعُ‘ اصل میں ’یَدْعُوْا‘ تھا۔
(٤) مثلاً : لفظ ’’ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ ‘‘ (العلق: ۱۸)
اس میں لفظ’سَنَدْعُ ‘اصل میں ’سَنَدْعُوْا‘ تھا۔
ان مثالوں سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ اگر ان کلمات کو واؤ کے ساتھ لکھا جاتا تو قراء ت کی مخالفت ہوجاتی۔ کیونکہ تمام قراء وقفا وصلاً اس واؤ کو حذف کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چھٹی فصل
اب ہم ان قرآنی کلمات کا ذکر کرتے ہیں کہ: جن کلمات میں اصلاً ھاء ثانیت (تاء مدورۃ) ہے۔ لیکن بعض قرائات کی موافقت کی وجہ سے ان کو تاء تانیث (لمبی تا) کے ساتھ لکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر سالم محیسن اپنی کتاب ( الفتح الرباني کے صفحہ نمبر ۲۶۵) میں فرماتے ہیں:
’’کہ ھاء تانیث جب فعل میں ہو تو تاء تانیث (لمبی تا) کے ساتھ لکھی جاتی ہے اور تمام قراء اسی تاء تانیث پر وقف کرتے ہیں مثلاً ’’ وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ ‘‘ (طہ: ۱۱۱) اور یہ ھاء تانیث اسموں میں ہو تو اس کو ھاء تانیث کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے اور تمام قراء اس پر وقف بالھا کرتے ہیں مثلاً ’ رِسَالَۃٌ‘
اصل قاعدہ یہ ہے لیکن چند ایک کلمات میں اس سے مختلف صورت حال ہے کہ ان کو لکھا تو تاء تانیث کے ساتھ جاتا ہے لیکن ان پر وقف ھاء تانیث کے ساتھ بالھا کیا جاتاہے۔
شیخ علی القاری اپنی کتاب (المنح الفکریۃ شرح الجزري،کے صفحہ نمبر ۳۲۵) میں فرماتے ہیں کہ ’ھاء تانیث‘ کی دو قسمیں ہیں:
(١) وہ کلمات قرآنیہ جن میں ھاء تانیث کو ھاء تانیث کی صورت میں ہی لکھا جاتا ہے۔ تمام قراء کا اتفاق ہے کہ ان پر وقف بالھاء ہی ہوگا اور یہ ویسے بھی عربی کتابت کے عین مطابق ہے۔
(٢) وہ کلمات قرآنیہ جن میں ھاء تانیث کو تاء تانیث کی صورت میں لکھا گیا ہے۔ ان میں وقفاً قراء کا اختلاف ہے۔ امام ابن کثیر﷫، ابوعمرو﷫ اور امام کسائی﷫ ان کلمات میں لغت قریش کے مطابق وقف ھا کے ساتھ کرتے ہیں پھر اسی کے مطابق کسائی کا وقفاً اِمالہ، اور روم و اِشمام وغیرہ کے مسائل ہوں گے۔ لیکن باقی تمام قراء لغت طی کے مطابق ان کلمات میں تاء تانیث کے ساتھ وقف کرتے ہیں۔لہٰذا پڑھنے والے کو چاہئے کہ ہر کلمہ قرآنی میں تاء اور ھاء کی پہچان کرے تاکہ صحیح طور پروا کیا جاسکا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حافظ ابن الجزری﷫ فرماتے ہیں :
لفظ ’رحمت‘ پورے قرآن میں سات جگہ آیا ہے۔ وہ سات جگہ یہ ہیں۔ سورۃ البقرہ، سورۃ الاعراف، سورۃ ھود، سورۃ مریم، سورۃ الروم اور سورۃ الزخرف میں دو جگہ۔ مثلاً سورۃ البقرہ میں ہے: ’’أُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اﷲِ‘‘ (البقرۃ: ۲۱۸) تمام مصاحف میں بالاتفاق اس لفظ کو تاء تانیث کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ لیکن وقفاً اس میں اختلاف ہے۔ امام نافع﷫، امام ابن عامر﷫، امام عاصم﷫، امام حمزہ﷫، امام ابوجعفر﷫ اور امام خلف﷫ اس کو وقفاًتاء پڑھتے ہیں۔ تاکہ رسم قراء ات کے ساتھ متفق رہے۔ لیکن باقی تمام قراو اس لفظ کو وقفاً ھا پڑھتے ہیں۔ جس طرح ’فاطمۃ، قائمۃ‘ وغیرہ جیسے کلمات کو وقفاً ھا کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
اسی طرح بہت سارے کلمات ہیں مثلاً لفظ ’نعمت‘ یہ قرآن میں گیارہ مرتبہ آیا ہے۔ اسی طرح ’’سنت، امرأت، کلمت، لعنت، معصیت‘‘ ان کلمات کی تفصیل مقدمۃ الجزریۃ للشیخ ابن الجزری﷫ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اگر ان مثالوں میں رسم قیاسی کے مطابق ھا لکھی جاتی تو تا کے ساتھ وقف کرنے والے قراء کی قراء ات کیسے نکل سکتی تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ساتویں فصل
اَب ہم ان قرآنی کلمات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کو ملا کر لکھا گیا ہے۔اس کے باوجود کہ وہ دو مستقل کلمات ہیں۔لیکن بعض جگہ ان دونوں کو کاٹ کربھی لکھا گیا ہے۔ یہ اصل کے مطابق ہے۔
مثلاً : لفظ ’’أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلَّا اﷲُ ‘‘ ( ھود:۲)
یہ دو الگ الگ کلمات ہیں ’أَنْ‘ الگ کلمہ ہے اور ’لا‘ الگ کلمہ ہے۔ مگر ان کو ملا کر ’أَ لَّـا‘ لکھا گیا ہے۔ اب تمام قراء کا اتفاق ہے کہ ان کو کاٹ کر پہلے لفظ پروقف کرنا یا وصل میں کاٹ کر پڑھنا دونوںصورتیں غلط ہیں کیونکہ اب یہ ایک کلمہ بن چکا ہے۔ لیکن سورۃ ھود ہی میں یہی ’’أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلَّا اﷲُ‘‘ آیت نمبر ۲۶ میں بھی ہے۔ اس آیت میں اس لفظ کو کاٹ کر ’’ أَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا ‘‘ لکھا گیا ہے۔
اسی وجہ سے امام شاطبی﷫ ’العقیلۃ‘ شعر نمبر ۲۳۹ میں فرماتے ہیں:
واقطع بھودَ بأن لا تعبُدُوا الثانِ مع یاسین لا حصرا
یعنی سورۃ ہود کے دوسرے ’ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْا ‘کو کاٹ کر لکھا ۔
اسی رسم کے مطابق تمام قراء کے لیے ان پر ضرورت ہو تو وقف جائز ہے۔اسی طرح لفظ ’’مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ‘‘ جیسے کلمات میں ’مِنْ‘ جارہ کو’ما ‘ موصولہ کے ساتھ ملاکر لکھا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان مثالوں سے یہ بات بخوبی سمجھ آتی ہے کہ : سورۃ ھود کے دوسرے لفظ کوکاٹ کر اسی لیے لکھا گیا ہے تاکہ لفظ ’أَنْ‘ پروقف کا جواز رسم سے ثابت ہوجائے اور اس کے علاوہ باقی تمام کلمات میں کاٹ کر پڑھنا قطعاً غلط ہے۔ اگر سورۃ ھود والے دوسرے’ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْا ‘کو پہلے کے مطابق ملاکرلکھ دیا جاتا تو ’أَنْ ‘پر وقف والی قراء ت کیسے سمجھ آتی۔ تمت بالخیر

٭_____٭_____٭
 
Top