• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ ﷺ کی سنت کو بدلنے والا : یزید، یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیادتی ثقہ


زیادتی ثقہ سے متعلق بحث کو محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے بہت طول دیا ہے جس سے موصوف کا مضمون کافی بوجھل ہوگیا ہے ، عام طور پریہ طرز عمل ان کا ہوتا ہے جن کے پاس دلائل نہیں ہوتے ہیں تو بلاوجہ غیرمتعلق تفصیلات پیش کرکے اپنے مضمون کو بوجھل کردیتے ہیں تاکہ قارئین اتنی مفصل تحریر دیکھ کرمرعوب ہوجائیں لیکن چونکہ ہمارے پاس اللہ کے فضل وکرم سے دلائل کی کمی نہیں ہے اس لئے ہم نے خواہ مخواہ اپنے اس مضمون کو بوجھل نہ کرتے ہوئے زیادثی ثقہ سے متعلق پوری تفصیل کو علیحدہ مضمون میں بعنوان ’’زیادتی ثقہ کے قبول و رد سے متعلق محدثین کا موقف‘‘ میں پیش کیا ہے قارئین اس بابت محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے اشکالات اور ان جوابات کے لے ہمارے اس علیحدہ مضمون کی طرف مراجعت فرمائیں ۔

اس مضمون کا لنک پیش خدمت ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
متن کی نکارت


۳) شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کا موضوع ہونا۔
ایسی روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ مردود ہوتی ہے، نیز محدثین کرام اسے صحیح نہیں بلکہ موضوع کہتے ہیں۔جبکہ أول یغیر سنتي والی روایت کے متن میں کوئی نکارت نہیں، سند بھی حسن لذاتہ یعنی صحیح ہے اور کسی محدث نے اسے ہر گز موضوع قرار نہیں دیا۔نبی ﷺ کا غیب کی خبریں بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی وحی سے تھا اور اس بات میں کسی قسم کی نکارت نہیں۔
عرض ہے کہ زیربحث روایت میں شدید نکارت بالکل واضح ہے اوروہ یہ کہ ایک جلیل القدرصحابی اوراسلامی فوج کے کمانڈر یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی اور اسی خاطر دوسرے مجاہد کی لونڈی غصب کرنے کی بے ہودہ تہمت لگائی گئی ہے ، یہ نکارت نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟
واضح رہے کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ’’اغتصبہا‘‘ کا ترجمہ جان بوجھ کر غلط کرکے نہ صرف یہ کہ اس نکارت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے بلکہ یہاں آکر اس نکارت کا یک قلم انکار بھی کردیا ۔ فیا للعجب !
اوراس پرمستزاد یہ ہے کہ زیربحث روایت میں یزید بن معاویہ سے متعلق جوغیبی خبر ہے اس سے نکارت کی نفی کرنے بیٹھ گئے ! حالانکہ یہاں پر نکارت کی بات ہم نے سرے سے کی ہی نہیں، بلکہ ہم نے نکارت کی بات تو روایت کے اس حصہ سے متعلق کی ہے جس میں جلیل القدر صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی اور اسی کی خاطر دوسرے مجاہد کی خوبصورت لونڈی غصب کرنے کی بے ہودہ تہمت ہے ۔

اغتصبہا کے ترجمہ پربحث

ہم نے اپنی پہلی تحریر میں کہا تھا:
اور مجلہ الحدیث کے محولہ صفحہ پر جو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’لونڈی قبضہ میں لے لی ‘‘ تو یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ، اورشاید مترجم کو بھی معلوم تھا کہ یہ درست ترجمہ نہیں ہے لیکن چونکہ صحیح ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک صحابی رسول کا بڑا گھناؤنا کردار سامنے آرہا تھا اس لئے مترجم اس کی جرات نہیں کرسکے، حالانکہ یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔
ہمیں اس کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا:

فاغتصبها کا جو ترجمہ کیا گیاہے وہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے اور یہ ترجمہ بالکل ویسا ہی ہےجیسے بعض صحابہ کا ایک دوسرے کے بارے میں کذب کے الفاظ کہنا اور مترجمین کا کذب کاترجمہ جھوٹ کی بجائے غلط کرنا۔

اس کے جواب میں ہم نے جو کچھ بھی کہا تھا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں بھی نقل کردیا جائے ، چنانچہ ہم نے کہاتھا:
یہاں لغت کی مستندکتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا اور بغیر حوالے کے ہم اس ترجمہ کو صحیح ماننے سے معذور ہیں ۔
خطاء پر کذب کا اطلاق عربی زبان میں معروف ہے لسان العرب میں ہے:

حَدِيثِ صلاةِ الوِتْرِ: كَذَبَ أَبو مُحَمَّدٍ
أَي أَخْطأَ؛ سَمَّاهُ كَذِباً، لأَنه يُشْبهه فِي كَوْنِهِ ضِدَّ الصَّوَابِ، كَمَا أَن الكَذِبَ ضدُّ الصِّدْقِ، وإِنِ افْتَرَقا مِنْ حَيْثُ النيةُ والقصدُ، لأَن الكاذبَ يَعْلَمُ أَن مَا يَقُولُهُ كَذِبٌ، والمُخْطِئُ لَا يَعْلَمُ، وَهَذَا الرَّجُلُ لَيْسَ بمُخْبِرٍ، وإِنما قَالَهُ بِاجْتِهَادٍ أَدَّاه إِلى أَن الْوَتْرَ وَاجِبٌ، وَالِاجْتِهَادُ لَا يَدْخُلُهُ الكذبُ، وإِنما يدخله الخطَأُ؛ وأَبو مُحَمَّدٍ صَحَابِيٌّ، وَاسْمُهُ مَسْعُودُ بْنُ زَيْدٍ؛ وَقَدِ اسْتَعْمَلَتِ العربُ الكذِبَ فِي مَوْضِعِ الخطإِ؛ وأَنشد بَيْتَ الأَخطل:
كَذَبَتْكَ عينُكَ أَم رأَيتَ بواسِطٍ
وَقَالَ ذُو الرُّمَّةِ:
وَمَا فِي سَمْعِهِ كَذِبُ
وَفِي حَدِيثِ
عُرْوَةَ، قِيلَ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِن النَّبِيَّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَبِثَ بِمَكَّةَ بِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَقَالَ: كَذَبَ
، أَي أَخْطَأَ. وَمِنْهُ
قَوْلُ عِمْرانَ لسَمُرَة حِينَ قَالَ: المُغْمَى عَلَيْهِ يُصَلِّي مَعَ كُلِّ صلاةٍ صَلَاةً حَتَّى يَقْضِيَها، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّهُ يُصَلِّيهن مَعًا
، أَي أَخْطَأْتَ

[لسان العرب:1/ 709 ]۔

لیکن کیا عربی زبان میں غصب کرنا قبضہ میں لینے کے معنی میں مستعمل ہے ؟؟ اگر ایسا ہے تو اولا اہل لغت و اہل عرب کی عبارات اورصحابہ کے استعمال سے متعلق صحیح احادیث سے اس کاثبوت پیش کیا جائے ، ثانیا زیربحث روایت کے سیاق وسباق سے ثابت کیاجائے کہ یہاں غصب اپنے عام معنی میں نہیں ہے ہم نے لکھا تھا:


ہم اب بھی کہتے ہیں کہ سیاق وسباق سے ایسے ترجمہ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے کیونکہ سیاق وسباق کے لحاظ سے صورت حال یہ ہے کہ:

  • لڑکی خوبصورت تھی ۔
  • پھرنعوذباللہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر ایک گھناؤنا الزام ہے ۔
  • پھرمظلوم شخص کسی اور کے پاس جاکر مدد طلب کرتاہے ۔
  • اس کے بعد ایک دوسرے صحابی انہیں سمجھاتے ہیں اور ایک خوفناک حدیث سناتے ہیں ۔
  • حدیث سن کو صحابی رسول رضی اللہ عنہ لڑکی واپس کردیتے ہیں ۔


یہ پورا سیاق پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ معاملہ قبضہ میں لینے کا نہیں بلکہ غصب کرنے کا ہے ، ورنہ روایت میں:

  • ایک لڑکی کی خوبصورتی کاحوالہ کیوں ؟
  • بات صرف قبضہ میں لینے کی تھی تو اس کی وجہ جو خوبصورتی بتائی گئی ہے اس کا قبضہ سے کیا تعلق؟؟
  • پھر مظلوم شخص نے ابو ذررضی اللہ عنہ سے فریاد کیوں کی ؟
  • پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک خوفناک حدیث کیوں سنائی ؟؟ ظاہر ہے کہ سامنے کوئی خوفناک بات ہوئی تھی تبھی تو !!


یہ سارا سیاق صاف طور سے بتلارہا ہے کہ اغتصبھا مذکورہ روایت میں کس معنی میں مستعل ہے ؟؟ قطع نظر اس کے کہ اس لفظ کا قبضہ کے معنی میں مستعمل ہونا ثابت ہے یا نہیں۔

اس کے برخلاف احادیث میں جہاں کذب خطاء کے معنی میں ہے وہاں سیاق وسباق میں اس کی دلیل موجود ہوتی ہے مثلا لسان العرب میں جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اسے ہی دیکھتے ہیں مکمل حدیث یہ ہے:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصُّنَابِحِيّ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَقَالَ: عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ» [سنن ابي داؤد:1/ 361]۔

اب لسان العرب کے الفاظ ہیں:
حَدِيثِ صلاةِ الوِتْرِ: كَذَبَ أَبو مُحَمَّدٍ أَي أَخْطأَ؛ سَمَّاهُ كَذِباً، لأَنه يُشْبهه فِي كَوْنِهِ ضِدَّ الصَّوَابِ، كَمَا أَن الكَذِبَ ضدُّ الصِّدْقِ، وإِنِ افْتَرَقا مِنْ حَيْثُ النيةُ والقصدُ، لأَن الكاذبَ يَعْلَمُ أَن مَا يَقُولُهُ كَذِبٌ، والمُخْطِئُ لَا يَعْلَمُ،[لسان العرب:1/ 709 ]۔

اس کے بعد لسان العرب دیکھیں کہ کس طرح سیاق وسباق سے دلیل لی جارہی ہے کہ متعلقہ روایت میں کذب خطاء کے معنی میں مستعمل ہے ، ملاحظہ ہوں لسان العرب کے الفاظ:
وَهَذَا الرَّجُلُ لَيْسَ بمُخْبِرٍ، وإِنما قَالَهُ بِاجْتِهَادٍ أَدَّاه إِلى أَن الْوَتْرَ وَاجِبٌ، وَالِاجْتِهَادُ لَا يَدْخُلُهُ الكذبُ، وإِنما يدخله الخطَأُ۔[لسان العرب:1/ 709 ]۔

ہم کہتے ہیں کہ کیا اسی طرح کا معاملہ زیربحث روایت میں بھی ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ معاملہ برعکس ہے یعنی سیاق اس بات پر دال ہے کہ غصب اپنے حقیقی وعام معنی میں مستعمل ہے ۔
ہمارے اس جواب کے بعد الحمدللہ یہ دعوی غائب ہوگیا کہ ’’لفظ ’’اغتصبہا‘‘ کا ترجمہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے‘‘ مگر اس کی جگہ پر یہ کہا گیا کہ :
اگر کوئی کہے کہ آپ نے ’’ فاغتصبھا یزید‘‘ کا ترجمہ و مفہوم ’’قبضے میں لے لیا‘‘ کیوں کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ہمارا یہ منہج ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے آپ کو صحابہ کی تنقیص یا اشارۂ تنقیص سے بھی بچایا جائے اور ان شاء اللہ اسی منہج میں خیر ہے۔
عرض ہے کہ اگر صحابہ کرام سے عقیدت ومحبت کاثبوت دینا ہے اوراپنے آپ کو صحابہ کی تنقیص یا اشارہ تنقیص سے بچانا ہے تو اس بکواس روایت کو موضوع اور من گھڑت کہیں کیونکہ اس سے موضوع ومن گھڑت کہنا ناممکن نہیں ہے بالخصوص جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ جیسے عظیم محدث نے اس پرجرح کی ہے اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے موضوع اور من گھڑت کہا ہے۔

اس کے برعکس اگراس روایت کو صحیح باور کیا جائے اورترجمہ میں بکواس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے تو یہ قطعا بے سود ہے ۔
کیونکہ کوئی بھی ترجمہ کرنے کے لئے لغت نیز سیاق وسباق سے اس کی گنجائش ہونی چاہئے لیکن آن جناب جو ترجمہ کررہے ہیں اس کی نہ تو لغت سے کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی سیاق وسباق اس کی اجازت دیتا ہے جیساکہ ہم نے دوسری تحریر ہی میں واضح کیا تھا جسے اوپر نقل کیا گیا ہے ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی صحابی سے متعلق لوٹ مار کی تہمت والی روایت مل جائے تو اسے صحیح قرار دے کر لوٹ مار والے الفاظ کا ترجمہ صدقہ و خیرات سے کردیا جائے۔
بھائی کچھ بھی ترجمہ کرنے کے لئے لغت اور سیاق وسباق کے اعتبار سے گنجائش نکلنی چاہئے نیز آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں عربی جاننے والے دنیا میں بہت سے لوگ موجود ہیں آپ کی طرح سب تو یہ غلط ترجمہ نہیں کریں گے ان کا کیا بنے گا ؟ بالخصوص وہ لوگ جو صحابہ کے خلاف زبان درازیاں کرتے ہیں ، آپ انہیں جذباتی دلیل سے تو قائل نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو لغت اور سیاق وسباق سے دلائل طلب کریں گے ، اس طرح کسی رافضی نے اگر بطور الزام آپ کے خلاف یہ روایت پیش کردی تو آپ اسے کیسے قائل کریں گے ، اس کے سامنے غلط ترجمہ کرنے کا کیا جواز پیش کریں گے ؟ اپنے جذبات یا لغت و سیاق کے دلائل ؟؟
علاوہ بریں یہ کہ پوری دنیا میں سب کے سب صرف ترجمہ ہی پر تھوڑی گذارا کرتے بلکہ بہت سارے لوگوں کی مادری زبان ہی عربی ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ یہ روایت صحیح تو وہ اس بکواس والے حصہ کا کریں گے ؟؟

الغرض یہ کہ اس روایت میں شدید نکارت ہے ، غلط ترجمہ کرکے اسے چھپایا نہیں جاسکتا ، لہٰذا یہ نکارت بھی اس بات کا قرینہ ہے کی اس روایت کی وہی سند راجح ہے جس سے یہ مردود ثابت ہوتی ہے ۔

نیز محترم نے جو یہ کہا:
اور کسی محدث نے اسے ہر گز موضوع قرار نہیں دیا۔
عرض ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے واضح طورپر اسے موضوع اور من گھڑت کہا ہے ، چنانچہ:

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) نے کہا:
وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها
ابن عساکر رحمہ اللہ نے یزید بن معاویہ کی مذمت میں کئی احادیث نقل کی ہیں یہ سب کی سب موضوع اور من گھڑت ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں [البداية والنهاية: 8/ 231]
اورزیربحث روایت ابن عساکر ہی کی ہے جیساکہ خود ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی محولہ مقام پر کہا ہے۔

آں جناب نے ابن کثیر رحمہ اللہ کے کی طرف سے موضوع اور من گھڑت کہے جانے والے اس قول سے متعلق کہا:
یہ قول بھی اپنے عموم کے لحاظ سے اُسی طرح غلط ہے، جیسا کہ ابن حزم نے وضو کے دوران میں داڑھی کے خلال کے بارے میں لکھا : ’’ و ھذا کلہ لا یصح منہ شئي.‘‘ (المحلیٰ ۲/ ۳۶ مسئلہ : ۱۹۰)
عرض ہے کہ اس قول کے غلط ہونے سے صرف یہ ثابت ہوا کہ ابن حزم کی بات غلط ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوا کہ ابن حزم نے ایسا کہا ہی نہیں ۔
یہ معاملہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول کا ہے اگربالفرض آپ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول کو غلط ثابت کردیں تو اس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہوگا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایسا کہاہی نہیں ، آپ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول سے لاکھ اختلاف کریں اور اسے غلط قرار دیں لیکن یہ سب کچھ صرف آپ ہی کا موقف رہے نہ کہ آپ کے اختلاف سے یہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا بھی موقف بن جائے گا۔

یہی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شدید ترین نکارت کے سبب بھی روایت کو موضوع کہا جاتا ہے گرچہ اس میں کذاب راوی نہ ہو ۔
ہم نے پہلی تحریر میں یہی بات کہی تھی لیکن اس پر ان الفاظ میں اعتراض کیا گیا تھا:

اس کے علاوہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ متن کی نکارت کی بنا پر بھی روایت موضوع ہو جاتی ہے جبکہ اس میں کوئی کذاب راوی نہ ہو؟
اس پر ہم نے کہاتھا:
ہم بھی سوال کرسکتے ہیں کہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ کسی روایت کی سند میں کذاب راوی ہو تو اس روایت کوموضوع کہتے ہیں ، اگر ایسا ہے تو ہمیں اصول حدیث کی کتب میں یہ مسئلہ دکھایا جائے اوربتایاجائے کہ کس کس محدث نے موضوع حدیث کی یہ تعریف کی ہے کہ جس حدیث میں کذاب راوی ہواسے موضوع کہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
ہمارے علم کی حدتک تو اصول حدیث کی کسی بھی کتاب میں موضوع حدیث کی یہ تعریف نہیں ملتی کہ موضوع حدیث وہ ہے جس کی سند میں کوئی کذاب راوی ہو ۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ محدثین کا یہ طرزعمل ہے کہ وہ ایسی احادیث کو موضوع قراردیتے ہیں جن کی اسناد میں کذاب راوی ہو ، اورٹھیک اسی طرح محدثین ایسی روایات کو بھی موضوع و باطل قرار دیتے ہیں جس کی سند ضعیف ہو اور متن میں ناممکن بات ہو اور اس کے لئے میں نے پہلے ہی ابن الجوزی اور حافظ ابن الحجر رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ہے کہ ان حضرات نے ترمذی کی ایک ایسی حدیث کو موضوع کہا ہے کہ جس کے سارے راوی نہ صرف ثقہ ہیں بلکہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع قراردیاہے۔
اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی متعدد ضعیف السند احادیث کے متن کو دیکھتے ہوئے اسے موضوع کہا ہے ۔
الغرض یہ کہ محدثین کاجس طرح یہ طرزعمل ملتاہے کہ وہ کذاب راوی سے مروی روایت کو موضوع کہتے ہیں اسی طرح محدثین کا یہ بھی طرزعمل رہا ہے کہ وہ ضعیف رواۃ کے ذریعہ منقول شدید نکارت یا ناممکن باتوں پرمشتمل روایت کو بھی موضوع قرار دیتے ۔
لیکن الحمدللہ یہاں جس اقتباس کا ہم جواب دے رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ شدید نکارت کے سبب بھی حدیث کو موضوع کہا جاتا ہے گرچہ سند میں کوئی کذاب نہ ہو ۔
البتہ یہ اعتراف کرتے ہوئے یہ قید لگائی گئی ہے کہ:
’’ایسی روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ مردود ہوتی ہے‘‘ ۔
عرض ہے کہ ہم نے کب اس کا انکار کیا ؟ یہاں بھی توہم یہی بات کہہ رہے کہ یہ روایت مردود ہے اور متن کے نکارت کے پیش نظر یہ موضوع اور من گھڑت ہے جیساکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا، والحمدللہ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابوالعالیہ کی طرف سے تصریح سماع


محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں ابو العالیہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا ارسال کا اعتراض بھی مردود ہے۔
اس حدیث کی سند ابو مسلم الجذمی تک متصل سند اور تصریحِ سماعات کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں درج سند سے ظاہر ہے، ابو مسلم الجذمی کا سماع سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور ان کا مدلس ہونا ثابت نہیں ، لہٰذا یہ روایت شروع سے آخر تک متصل ہے اور کسی قسم کے انقطاع کا نام و نشان تک نہیں۔


آں جناب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ابوالعالیہ نے اپنے استاذ ابومسلم سے سماع کی صراحت کردی ہے یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ میں نے یہ بات ابومسلم سے سنی ہے ۔تو جب انہوں نے یہ صراحت کردی کہ یہ بات انہوں نے ابومسلم سے سنی ہے تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس سند میں ابوالعالیہ کے استاذ کا نام ساقط ہے یعنی یہ سند منقطع ہے ۔

جوابا عرض ہے کہ سند کا موصول بیان کرنا ہی سرے سے محل نظر ہے قطع نظر اس کے کہ مقام انقطاع پر سماع کی صراحت ہے یا نہیں ۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ سند میں ایک راوی کا اضافہ غلط ہے تو اب یہ اضافہ عن کے ساتھ ہو یا سماع کی تصریح کے ساتھ بہر صورت مردود ہے کیونکہ مسئلہ سماع کی صراحت وعدم صراحت کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اضافہ کے گئے راوی کے وجود وعدم وجود کا ہے یعنی یہ راوی سند میں واقعۃ تھا ؟ یا کسی کی غلطی سے اس کا اضافہ ہوگیا ہے ؟
اب ظاہر ہے کہ جب غلطی سے کسی اور راوی کا اضافہ ہوگا تو یا تو عن کے صیغہ سے ہوگا یا سماع کے صیغہ سے ، دونوں میں سے کوئی نہ کوئی صورت تو ہوگی ۔ لہٰذا اس معاملہ میں سماع کی صراحت قطعا مفید نہیں۔

مزید تسلی کے لئے آئیے اس سلسلے محدثین کی تصریحات بھی دیکھتے چلیں:

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
فجمهور أهل العلم على أن عن وأن سواء وان الاعتبار ليس بالحروف وأنما هو باللقاء والمجالسة والسماع والمشاهدة فاذا كان سماع بعضهم من بعض صحيحا كان حديث بعضهم عن بعض أبدا بأي لفظ ورد محمولا على الاتصال حتى تتبين فيه علة الانقطاع
جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ’’عن‘‘ اور ’’ان‘‘ ایک ہی چیز ہے ، اور اعتبار حروف کا نہیں ہوگا بلکہ لقاء و مجالست اور مشاہدہ کا ہوگا ، پس جب بعض کا بعض سے سماع صحیح ہوگا تو ان سے ان کی روایات ہمیشہ صحیح ہوں گی اور یہاں پرکسی بھی لفظ سے روایت منقول ہو اسے سماع پرمحمول کیا جائے گا الایہ کہ اس میں انقطاع کی علت ثابت ہوجائے[التمهيد لابن عبد البر: 1/ 26]
غور کریں کہ امام ابن عبدالبررحمہ اللہ جمہور کے حوالہ سے کہہ رہے ہیں کہ اعتبار حروف اورصیغوں کا نہیں ہوگا بلکہ اصلا سماع کے ثبوت کا ہوگا یعنی اگر دو راویوں کے مابین سماع ثابت ہے تو وہ کسی بھی صیغہ سے روایت کریں سماع پر محمول کیا جائے گا۔آگے چل کر امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر انقطاع کا ثبوت مل جائے تو سماع ثابت نہ ہوگا یعنی گرچہ راوی نے سماع کا لفظ استعمال کیا ہو کیونکہ اعتبار حروف اورصیغوں کا نہیں گا۔

امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے صرف یہ بات کہی ہی نہیں بلکہ اس اصول پر عمل بھی کیا چنانچہ :

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے ایک مقام پر کہا:
فأما حديث ثوبان فإنه يرويه يحيى بن ابي كثير قال حدثنا أبو سلام عن أبي أسماء الرحي عن ثوبان ولم يسمعه يحيى بن أبي سلام ولا يصح
رہی ثوبان کی حدیث تو اسے یحیی بن ابی کثر روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’حدثنا‘‘ ہم سے ابوسلام نے بیان کیا انہوں نے ابواسماء الرحی سے نقل کیا اورانہوں نے ثوبان سے ۔ لیکن یحیی نے ابو سلام سے نہیں سنا اور یہ حدیث صحیح نہیں[التمهيد لابن عبد البر: 16/ 115]

امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795) فرماتے ہیں:
ولا يعتبر بمجرد ذكر السماع والتحديث في الأسانيد فقد ذكر ابن المديني أن شعبة وجدوا له غير شيء يذكر فيه الأخبار عن شيوخه ويكون منقطعا، وذكر أحمد أن ابن مهدي حدث بحديث عن هشيم أنا منصور بن زاذان قال أحمد ولم يسمعه هشيم من منصور
سندوں میں محض سماع اور تحدیث کی صراحت کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ ابن مدینی نے ذکر کیا کہ شعبہ سے محدثین کو بہت سی روایات ملیں جن میں وہ اپنے مشائخ سے روایات بیان کرتے ہیں لیکن وہ منقطع ہوتی ہیں ، نیز امام احمد رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ ابن مہدی نے ہشیم کی ایک روایت بیان کی کہ ہشیم نے کہا: ’’أنا منصور بن زاذان‘‘ ہم کو منصور بن زادان نے خبردی ، امام احمد رحمہ اللہ نے کہاکہ: اس روایت کو ہشیم نے منصور سے نہیں سنا[شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 59]۔

الغرض یہ کہ جب کسی سند میں انقطاع کا ثبوت مل جائے تو مقام انقطاع پر سماع کی صراحت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبدالوہاب ثقفی کا متکلم فیہ ہونا


محترم زبیرعلی حفظہ اللہ نے محمدبن عبدالوہاب کی توثیق پرلمبی چوڑی تفصیل پیش کی اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے ان کے ثقہ ہونے سے کب اختلاف کیا ؟؟
ہم بھی انہیں ثقہ مانتے ہیں لیکن چونکہ یہ متکلم فیہ ہیں ان پر ضعف اور اختلاط سے متعلق جرح ہوئی ہے لہذا جب زیادتی ثقہ کے معاملہ میں قرائن دیکھنے کی بات آئے گی تو ان کے متکلم فیہ ہونے کو پیش نظر رکھا جائے ۔

مثال کے طورپر یزیدبن خصیفہ یہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اورثقہ ہیں لیکن موصوف نے عہدفاروقی میں رکعات تراویح کی تعداد روایت کرتے ہے ہوئے ایک دوسرے ثقہ محمدبن یوسف کی مخالفت کی ہے تو ایسے موقع پر ان کی کی گئی جرح کا حوالہ دیا جاتاہے اور اس کے پیش نظر ان کی روایت کو ایسے ثقہ راوی کے بالمقابل رد کردیا جاتاہے جو متکلم فیہ نہیں ہیں جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی ہے دیکھئے ان کی کتاب صلاۃ التراویح۔

بلکہ خود محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’قیام رمضان ‘‘ کے صفحۃ 63 عہدفاروقی میں تراویح سے متعلق حکم فاروقی سے متعلق روایات کا جو جدل پیش کیا ہے اس میں محمدبن یوسف کو ثقہ بالاجماع لکھا ہے اور یزید بن خصیفہ کو ثقہ مختلف فیہ لکھا ہے۔

کیا ہم پوچھ سکتے ہیں جب دونوں ثقہ ہیں تو یزید بن خصیفہ کے بارے میں اختلاف کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟
ظاہر ہے کہ اسی بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ ثقہ مختلف فیہ نے ایسے راوی کےخلاف روایت بیان کی ہے جو بالاتفاق ثقہ ہے۔

نیز موصوف نے اسی کتاب کے صفحہ 77 پر بخاری کے راوی علی بن الجعد کو ثقہ علی الراجح کہنے کے باوجود بھی اس پر جرح نقل کی ہے۔

عرض ہے کہ ہم نے بھی عبدالوہاب ثقفی کو ثقہ ہی مانا ہے لیکن ترجیح کے وقت ان کے متکلم فیہ ہونے کی بات کہی ہے۔
کیونکہ انہوں نے جن لوگوں کے خلاف روایت بیان کی ہے ان میں بخاری ومسلم اورسن اربعہ کے راوی معاذ بن معاذ العنبري بھی ہیں اور زبردست ثقہ اور متقن ہیں ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله نے ان سے متعلق ناقدین کے اقوال کاخلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا:
معاذ بن معاذ بن نصر بن حسان العنبري أبو المثنى البصري القاضي ثقة متقن من كبار التاسعة ع
معاذبن معاذ نصر بن حسان عنبری ابومثنی بصری قاضی یہ ثقہ اور متقن ہیں اور نویں طبقہ کے کبار لوگوں میں سے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6740]۔
جبکہ عبدالوہاب ثقفی کے بارے میں ناقدین کے اقوال کاخلاصہ پیش کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين من الثامنة ع
عبدالوہاب بن عبدالمجیدبن صلت ثقفی ابو محمدبصری یہ ثقہ ہیں ان کی وفات سے تین سال قبل ان کے حافظہ میں تغیر واقع ہوگیا تھا یہ آٹھویں طبقہ کے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم4261]۔

معلوم ہوا کہ کتب ستہ کے راوی عبدالوہاب ثقہ متکلم فیہ نے کتب ستہ کے راوی معاذبن معاذ عنبری ثقہ متقن بالاتفاق کے خلاف روایت کیا ہے لہذا زیادتی ثقہ کے مسئلہ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ عبدالوہات کی روایت رد ہونی چاہئے۔

رہا ان کے ضعف اور اختلاط سے متعلق اہل فن کا کلام اور اس سے متعلق موصوف کی بحث تو اس کا مفصل جواب ہم زیادتی ثقہ والے مضمون ’’زیادتی ثقہ کے قبول و رد سے متعلق محدثین کا موقف‘‘ میں پیش کریں گے ، کیونکہ یہی وہ ثقہ ہیں جنہوں نے زیادتی کی ہے نیز زیادتی ثقہ سے متعلق محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے دیگر ضمنی اشکالات کے جوابات بھی اسی مضمون میں پیش کئے جائیں گے۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
معاصرین کے اعتراضات کے جوابات کا جائزہ


جواب: اس حدیث کی سند ابو مسلم الجذمی تک متصل سند اور تصریحِ سماعات کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں درج سند سے ظاہر ہے، ابو مسلم الجذمی کا سماع سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور ان کا مدلس ہونا ثابت نہیں ، لہٰذا یہ روایت شروع سے آخر تک متصل ہے اور کسی قسم کے انقطاع کا نام و نشان تک نہیں۔
اس کا جواب ’’ابوالعالیہ کی طرف سے تصریح سماع‘‘ کے عنوان کے تحت دیا جاچکاہے۔

’’کچھ رواۃ متکلم فیہ ‘‘کا اگر یہ مطلب ہے کہ کچھ راوی ضعیف ہیں تو یہ بات غلط ہے، جیسا کہ اس مضمون میں راویوں کی مفصل تحقیق کر کے ثابت کر دیا گیا ہے ۔ اگر مجرد کلام کا تذکرہ ہے تو عرض ہے کہ جمہور محدثین کی توثیق کے بعد متکلم فیہ ہونا چنداں مضر نہیں ہوتا۔
صحیحین (یا ان دونوں میں سے کسی ایک) کے کئی مرکزی راوی مثلاً فلیح بن سلیمان ، یحییٰ بن سلیم الطائفی اور عکرمہ مولیٰ بن عباس وغیرہم بھی تو ’’ متکلم فیہ ‘‘ ہیں لیکن جمہور کی توثیق کی وجہ سے اُن پر جرح مردود ہے اور اہل حدیث اُن کی بیان کردہ احادیث کو صحیح سمجھتے ہیں۔تفصیل کے لئے ’’ الامر المبرم لا بطال الکلام المحکم‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کا جواب بھی ’’عبدالوہاب ثقفی کا متکلم فیہ ہونا ‘‘ کے تحت دیا جاچکاہے۔

اس حسن لذاتہ متصل روایت کو باطل یا موضوع قرار دینا ظلم ہے اور اس کے ثقہ و صدوق راویوں میں سے کسی کو سبائی درندہ قرار دینا تو ظلم عظیم ہے، جس کا حساب ایسے الفاظ کہنے والے کو اللہ کی عدالت میں دینا پڑے گا۔ ان شاء اللہ
الحمدللہ ہمیں اللہ کے یہاں حساب دینے کی فکر آپ سے زیادہ ہے اسی لئے تو ایک جلیل القدر صحابی سے متعلق حسن پرستی اور اس کی خاطر کسی اور کی لونڈی زبردستی غصب کرنے کی بے ہودہ تہمت کی تصدیق نہیں کرتے کیونکہ ہمیں اللہ کے یہاں اس کا جواب دینا پڑے گا۔

رہی بات متصل روایت کو باطل کہنے کی تو ہم نے متصل روایت کوباطل نہیں کہا کیونکہ ہم اسے متصل مانتے ہیں نہیں ، متصل تو آپ مانتے ہیں ، اور آپ کیا مانتے ہیں کیا نہیں مانتے ہیں اس سے ہمیں کیا غرض ؟ ہم تو اپنے موقف کے مطابق ہی فیصلہ کریں گے اور ہماری نزدیک یہ روایت منقطع ہے جیساکہ تفصیل پیش کی گئی ۔

رہی بات کسی ثقہ وصدوق راوی کو سبائی درندہ قراردے کر ظلم عظیم کرنا تو یہ ظلم مجھ غریب سے سرزد ہوا ہی نہیں کیونکہ ہم نے کسی بھی ثقہ یا صدوق راوی کو سبائی درندہ نہیں کہا بلکہ ہم نے اس شخص کو سبائی درندہ کہا ہے جو زیربحث روایت کی سند سے ساقط ہے اور اس کی جگہ غلط طور پر ’’ابومسلم ‘‘ کا نام آگیا ہے ۔ یہاں پر ابومسلم راوی نہیں ہے کیونکہ اصل سند ابومسلم کے بغیر ہے یعنی منقطع ہے اور مقام انقطاع پر کون راوی ہے یہ معلوم نہیں ہم نے اسی نامعلوم راوی کو سبائی درندہ کہاہے، ظاہری سند میں مذکور رواۃ میں سے کسی کو سبائی قطعا نہیں کہا جیساکہ موصوف باور کرارہے ہیں ۔

اورحیرت ہے کہ ہم نے دوسری تحریر میں پوری صراحت کردی تھی کہ ہم سبائی درندہ وکذاب کس کو کہہ رہے ہیں اس کے باوجود بھی موصوف نے ہم پر غلط الزام لگادیا ، چنانچہ ہم نے پوری وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا:

ہم نے کب کہا کہ زیربحث روایت کا کوئی راوی ضعیف یا کذاب ہے ؟ لیکن کیا سند کے تمام رواۃ کا ثقہ ہونا سند کی صحت کے لئے کافی ہے؟؟؟؟؟؟
اگرکافی ہے تو خود حافظ موصوف نے یزیدبن خصیفہ کےطریق سے مروی بیس رکعات تراویح والی روایت کو ضعیف کیوں کہا ؟؟ کیا اس سند میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے؟؟
اسی طرح رفع الیدین کے مسئلہ میں معانی الآثار للطحاوی کی حصین عن مجاہد والی روایت جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے صرف ایک بار رفع الیدین کرنے سے متعلق ہے اسے ضعیف کیوں کہا گیا؟؟ کیا اس میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے ؟؟
نیز ہم نے کہا تھا:
ہم نے زیربحث روایت کو مردو قرار دیا تو اس لئے نہیں کہ اس کی سند میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے بلکہ اس لئے کہ اس کی سند منقطع ہے ، اور عبدالوھاب والی سند منکر ہے کیونکہ عبدالوھاب پر جرح ہوئی ہے اور اس نے دیگرثقہ رواۃ کے خلاف اس حدیث کو موصول بیان کردیا، اسی طرح ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کو بھی بنیاد بنیایا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا کیا مقام ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم نے یہ بھی کہاتھا:
فائدہ:ہم نے زیربحث حدیث کے کسی راوی کو ضعیف یا کذاب تو نہیں کہا بلکہ عبدالوھاب کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس سے حدیث کو موصول بیان کرنے میں غلطی ہوئی لیکن اگر کوئی اس بات کوتسلیم نہ کرے تو اس کے اصول سے اس روایت کی سند میں موجود ابو مسلم کا کذاب ہونا ثابت ہوتا کیونکہ یہ یہ روایت ابومسلم ہی کی بیان کردہ ہے اور یہ بے چارہ جس جگہ دو صحابہ کی ملاقات دکھلا رہا ہے وہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق ان دونوں صحابہ کی ملاقات قطعا نہیں ہوسکتی ، لہٰذا عبدالوھاب کے بیان کو درست مان لیا جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ کی تصریح کی روشنی میں ابومسلم کا کذاب ودجال ہوناثابت ہوتاہے ۔
ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ زیربحث روایت کی سند سے ایک راوی ساقط ہے اور یہ نامعلوم ہے اس نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی روشنی میں ناممکن بات بیان کی ہے لہٰذا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اسی کسی دجال و کذاب سبائی نے گھڑا ہے ۔
یاد رہے کہ عدم سماع و عدم لقاء کی صراحت کرنے میں نقاد محدثین کو اتھارٹی حاصل ہوتی ہے اور ان کا قول حجت ہوتا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا نقد وعلل میں کیا مقام تھا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔
ہم حیران ہیں کہ ہماری اس قدر وضاحتوں کے باوجود بھی محترم نے سبائی والی بات کہا فٹ کردیا اور اس کے بعد محاسبہ کو خوف بھی دلا دیا ۔

نیز یہ کہنا بھی بالکل باطل ہے کہ ’’ جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کو روشنی میں یہ کہنا بالکل حق ہے تفصیل گذرچکی ہے۔

جب اس سند میں کوئی کذاب وضاع راوی نہیں بلکہ تمام راوی ثقہ یا صدوق ہیں تو گھڑنے یا مکذوب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، بلکہ یہ تو صحیح حدیث کی تکذیب ہے جو کہ اہل حدیث کا منہج ہر گز نہیں۔
صحیح حدیث کی تعریف میں رواۃ کے ثقہ اور سند کے متصل ہونے کے ساتھ ساتھ عدم شذوذ اورنفی علت کی بھی شرط لگائی جاتی ہے یہ اصول حدیث کا ہر طالب علم جانتاہے ۔
کیا ہم آں جناب سے پوچھ سکتے ہیں اگرصحیح حدیث کے لئے رواۃ کی عدالت اور اتصال کرشرط لگادی گئی تو مزید تو دو شرطوں کا کیوں اضافہ کیا گیا؟؟
جب اتصال سند اوررواۃ کی ثقاہت کے بعد ’’ گھڑنے یا مکذوب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘‘ تو بلاوجہ شذوذ اور علت جیسی دوشرطوں کا کیوں اضافہ کیا گیا؟؟
کیا عدم شذوذ اور نفی علت کی شرط لگانا صحیح حدیث کی تکذیب ہے اور اہل حدیث کا منہج نہیں ہے؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تدلیس کی تہمت

۲) ایک شخص نے امام عبد الوہاب الثقفی (ثقہ) کی روایت کو باطل یا موضوع ثابت کرنے کے لئے پانچ روایات پیش کیں اور بعد میں لکھا :
’’ مؤخر الذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے‘‘
عرض ہے کہ جب تین روایتیں مردود ہیں تو انھیں پیش کرنے اور تدلیس سے کام لینے کی کیا ضرورت تھی؟
جب صرف دو روایات ہیں تو یہی ظاہر ہے کہ دو راوی ابو مسلم الجذمی کا واسطہ بیان نہیں کرتے اور ایک راوی بیان کرتے ہیں ۔ زیادتِ ثقہ مقبولہ کے اصول کی رُو سے ابو مسلم کے اضافے والی بات مقبول ہے اور ہمارے اس مضمون میں صحیح بخاری (۲۵۸۵) میں امام بخاری کے عمل سے ، نیز دوسرے دلائل سے بھی یہی ثابت کر دیا گیا ہے۔
۲) ایک شخص نے امام عبد الوہاب الثقفی (ثقہ) کی روایت کو باطل یا موضوع ثابت کرنے کے لئے
عبدالواہاب نے سند میں جو ایک راوی کا اضافہ کیا ہے اسے غلط ثابت کرنے کے لئے۔
اورسند سے جو راوی ساقط ہے اس کی روایت کو باطل ثابت کرنے کے لئے۔

پانچ روایات پیش کیں اور بعد میں لکھا :
’’ مؤخر الذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے‘‘
عرض ہے کہ جب تین روایتیں مردود ہیں تو انھیں پیش کرنے اور تدلیس سے کام لینے کی کیا ضرورت تھی؟
آپ ہماری پوری بات نقل کردیتے تو تدلیس والی تہمت خود بخود باطل ثابت ہوجاتی ، یہ لیں ہم اپنی پوری بات نقل کئے دیتے ہیں:

مؤخرالذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے پھر ان دونوں کے ساتھ مل کر بقیہ رواۃ کا بیان بھی درست ثابت ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ابن عساکر کی زیر نظر روایت میں رویانی کے شیخ عبدالوہاب سے سند بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے منقطع روایت کو موصول بیان کردیا ہے ۔
ہم نے آگے چل کر وضاحت کردی کہ مؤخرالذکر رواۃ کی تائید ثقہ رواۃ سے ثابت ہے لہٰذا ان کا بیان بھی معتبر ہے ۔
بخاری رقم 2311 کی حدیث کے مطابق شیطان کذاب کی بات کو بھی سچ کہاگیا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تصدیق کردی ۔
توجب تصدیق ملنے پر شیطان کی بات بھی معتبر ہوجاتی ہے تو انسان وہ بھی مسلمان کتنابھی براہو شیطان سے تو بہترہے۔

نیز اگر اس طرزعمل کا نام تدلیس ہے تو آپ نے بھی تو اپنی کتاب ’’نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اورمقام ‘‘ ص 16 پر سینہ پر ہاتھ باندھنے سے متعلق ابن خزیمہ کی روایت کو پیش کیا اور پھر خود ہی ص 20 پر اسے ضعیف بھی کہا ۔
کیا یہ بھی تدلیس ہے ؟؟ فمان کان جوابکم فھو جوابنا۔

جب صرف دو روایات ہیں تو یہی ظاہر ہے کہ دو راوی ابو مسلم الجذمی کا واسطہ بیان نہیں کرتے اور ایک راوی بیان کرتے ہیں ۔ زیادتِ ثقہ مقبولہ کے اصول کی رُو سے ابو مسلم کے اضافے والی بات مقبول ہے اور ہمارے اس مضمون میں صحیح بخاری (۲۵۸۵) میں امام بخاری کے عمل سے ، نیز دوسرے دلائل سے بھی یہی ثابت کر دیا گیا ہے۔
زیاتی ثقہ کے بارے میں الگ سے دوسرے مضمون میں تفصیل پیش کی گئی ہے۔
یادرہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ زیادتی ثقہ کو علی الاطلاق قبول کرنے والے موقف سے بری ہیں ، والحمدللہ ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیادتی ثقہ کے مردود ہونے کی طرف اشارہ

۳)اعتراض : ’’ بہت سارے محدثین نے اس زیر بحث روایت کو منقطع قرار دیا ہے۔ ‘‘
جواب: معترض نے ابن عساکر ، بیہقی ، ابن کثیر اور کسی ابن طولون کے حوالے پیش کئے۔
* جس حدیث کو اس مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے ، اُس پر ابن عساکر نے اس مقام پر کوئی جرح نہیں کی اور تاریخ دمشق (۱۸/ ۱۶۰) میں جب ابو العالیہ رحمہ اللہ کی روایت:
’’ کنا بالشام مع أبي ذر ‘‘ لکھی تو فرمایا کہ الثقفی نے اسے أبو العالیة عن أبي مسلم عن أبي ذر کی زیادت کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ حدیث یزید بن ابی سفیان کے تذکرے میں آ رہی ہے۔
حافظ ابن عساکر نے ابو مسلم کی بیان کردہ حدیث کو ہر گز منقطع نہیں کہا، بلکہ ’’زاد‘‘ کے لفظ کے ساتھ زیادتِ مذکورہ کا اشارہ کیا اور یہ معلوم ہے کہ زیادتِ ثقہ مقبول ہوتی ہے۔
حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام (۵/ ۲۷۳) میں ابو مسلم کی اس حدیث کو منقطع یا ضعیف نہیں کہا بلکہ یہ بتایا کہ دوسری سند میں ابو مسلم کا واسطہ موجود نہیں ، اور حافظ ذہبی کی اس بات سے کسے انکار ہے؟!
* بیہقی نے دلائل النبوۃ (۶/ ۴۶۶۔ ۴۶۷) میں ابو مسلم الجذمی کی روایت بیان ہی نہیں کی بلکہ ابو العالیہ کی ابو مسلم کے بغیر روایت بیان کی اور فرمایا:
اس سند میں ابو العالیہ اور ابو ذر کے درمیان ارسال ہے۔
مضمون کے شروع میں جہاں اس روایت کو مردود قرار دینے والو کی فہرست پیش کی گئی ہے اوروہاں وضاحت کردی گئی ہے کہ محدثین کبھی کبھی صراحت کے ضعیف نہیں کہتے لیکن اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں تفصیل کے لئے مضمون کا شروع حصہ دوبارہ دیکھیں۔


جاری ہے۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابوالعالیہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے بیچ واسطہ

امام بیہقی سے پہلے امام یحییٰ بن معین نے اس سوال ’’ کیا ابو العالیہ نے ابو ذر سے سنا‘‘ کا جواب دیا: ’’ لا ، إنما یروي أبو العالیۃ عن أبي مسلم عن أبي ذر .‘‘
نہیں ۔ ابو العالیہ تو صرف ابو مسلم عن ابی ذر (کی سند) سے روایت کرتے ہیں ۔(تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری : ۳۴۶۷)
اس ارشاد میں امام ابن معین نے سمجھا دیا کہ ابو العالیہ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو مسلم الجذمی کا واسطہ ہے۔
امام ابن معین رحمہ اللہ کی عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے لفظ ’’صرف‘‘ کا اضافہ باطل وغلط ومردودہے۔
یہ اضافہ کرکے محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابوذرضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ابوالعالیہ نے جو بھی روایت نقل کی ہے وہ سب ابومسلم کے واسطہ سے ہے ۔
حالانکہ ابن معین رحمہ اللہ نے فقط یہ بتایا ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کی احادیث کو ابوالعالیہ نے براہ راست نہیں سنا ہے بلکہ ابومسلم کے واسطے سے سنا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ ابوالعالیہ کی ہرحدیث کا یہی معاملہ ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ کے کلام میں حصر کی دلیل نہیں لہذا ’’صرف‘‘ کے ذریعہ حصر کے معنی میں ترجمہ کرنا باطل ہے ۔

اور اس کے بطلان کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ صحیح مسلم میں ابوالعالیہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت نقل کیا لیکن ابو مسلم کے واسطہ سے نہیں بلکہ عَبْدِ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ کے حوالہ سے چنانچہ :

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُدَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَضَرَبَ فَخِذِي: «كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا؟» قَالَ: قَالَ: مَا تَأْمُرُ؟ قَالَ: «صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِكَ، فَإِنْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ» [صحيح مسلم: 1/ 448 رقم 648]۔

محترم زبیرعلی زئی امام ابن معین رحمہ اللہ کے کلام سے جو مطلب اخذ کررہے ہیں اس کے بطلان پر صحیح مسلم کی یہ روایت زبردست دلیل ہے کیونکہ اس میں ابوالعالیہ رحمہ اللہ عَبْدِ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ کے واسطہ سے ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے نہ کہ ابومسلم کے واسطے سے ۔
اس لئے یہ کہنا کہ ابوالعالیہ نے جہاں بھی ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی وہاں ابومسلم کا واسطہ ہے باطل ومردودہے۔

واضح رہے کہ اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جہاں ابوالعالیہ نے ابومسلم کے علاوہ دیگر رواۃ کے واسطہ سے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابوالعالیہ کا ابوذر رضی اللہ عنہ سماع ؟؟

دوسری طرف ابن عساکر نے ابو العالیہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’ وفد الشام مجاھدًا و سمع بھا أبا ذر و قیل : إنہ و فد علٰی عمر بن عبد العزیز .‘‘وہ جہاد کرنے کے لئے شام آئے اور شام میں ابو ذر سے سنا، اور یہ کہا گیا ہے کہ وہ عمر بن عبد العزیز کے پاس بطورِ وفد آتے تھے۔ (تاریخ دمشق ۱۸/ ۱۵۹)
ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ’’ بصري أدرک الجاھلیة ‘‘(الجرح والتعدیل ۳/ ۵۱۰ ت ۲۳۱۲)
ابو العالیہ نے فرمایا: ’’ دخلت علٰی أبي بکر ..‘‘ میں ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس گیا۔ (التاریخ الاوسط ۱/ ۳۶۹ ح ۸۱۷ وسندہ حسن، دوسرا نسخہ ۳/ ۳۲ ح ۵۲ ، الربیع بن انس وثقہ الجمہور)
ابو العالیہ کبار تابعین (من الثانیہ) میں سے تھے اور ان کے استاد ابو مسلم کو ’’ من الثالثہ‘‘ کہنا محلِ نظر ہے۔
یہاں پرموصوف نے ابوالعالیہ کا ابوذررضی اللہ عنہ سے سماع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اوراس ضمن میں دوباتیں پیش کی ہیں:
  • ابن عساکر کا قول
  • ابوالعالیہ کا ابوذررضی اللہ عنہ کا معاصرہونا

اب ہم ان دونوں باتوں کی حقیت واضح کرتے ہیں:

ابن عساکر کا قول :
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
وقدم الشام مجاهدا وسمع بها أبا ذر وقيل إنه وفد على عمر بن عبد العزيز
اوریہ جہاد کرنے کے لئے شام آئے اوروہاں ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا اور یہ بھی کہا گیا کہ عمربن عبدالعزیز کے پاس آئے[تاريخ دمشق لابن عساكر 18/ 159]

اولا:
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ ابن عساکر رحمہ اللہ کی بے سند بات موصوف کی نظرمیں حجت ہوگئی حالانکہ امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس بات کو معروف بھی نہیں کہا۔ اور اس کے برعکس ائمہ فن کی شہادتین بھی موجود ہیں۔ مثلا خود موصوف نے اس قبل ابن معین سے نقل کیا کہ وہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع کا انکار کررہے ہیں ۔
اب کتنی عجیب بات ہے کہ امام العلل امام بخاری رحمہ اللہ معروف کہہ کر کوئی بات کہیں تو اسے قصہ کہانی کے مشابہ قرار دے کر یکسر رد کردیا ئے اور امام ابن عساکر رحمہ اللہ بے سند بات کہیں اور دیگر ائمہ فن اس کا انکار کریں اس کے باوجود بھی ابن عساکر کا قول موصوف کی نظر میں حجت وبرہان کی حیثیت رکھتا ہو ! یہ معمہ ہماری سمجھ سے باہرہے !!

ثانیا:
جمہور اہل فن نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع کا انکار کیا ہے اس لئے تنہا ابن عساکر کی بات غیرمسموع ہے ۔
انکار کرنے والوں میں ابن معین رحمہ اللہ کا حوالہ تو خود آں جناب نے پیش فرمادیا ہے اس کے علاوہ امام بیہقی کا حوالہ بھی گذشتہ سطور میں گذرچکا ہے نیز ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی یہی بات دھرائی ہے ۔


معاصرت:
معاصرت بلاشبہ کافی ہے لیکن جب متعدد اہل فن صراحت کے ساتھ سماع کا انکار کردیں تو معاصرت کے ثبوت سے سماع پر استدال کرنا باطل ہے۔
بلکہ معاصرت تو دور کی بات اگر لقاء ثابت ہو اور اس کے ساتھ محدثین صراحت کریں کہ سماع ثابت نہیں ہے تو محض لقاء کو سماع کی دلیل کے لئے کافی نہیں سمجھا جائے گا۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
وإذا روى عمن عاصره ولم يثبت لقيه له شيئا بصيغة محتملة فهو الارسال الخفي
جب کوئی راوی کسی معاصر سے محتمل صیغہ سے روایت کرے اور اس سے اس کی ملاقات ثابت نہ تو یہ ارسال خفی ہے[طبقات المدلسين ص: 16]۔
لہٰذا صرف معاصرت سماع کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے۔
بطور فائدہ عرض ہے کہ محترم زبیرعلی زئی نے رمضاں کی طاق راتوں بطور خاص پڑھی جانے والی دعا ’’اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ:
اسنادہ ضعیف عبداللہ بن بریدہ لم یسمع من عائشہ کما قال الدارقطنی (السنن233/3،ح3517) والبیہقی (118/7) ودفاع ابن الترکمانی باطل لان الخاص مقدم علی العام۔وللحدیث شاھد ضعیف عندالنسائی فی الکبری (10714) فیہ سفیان الثوری مدلس وعنعن۔وشاھد آخر موقوف عندہ (10707) وسندہ ضعیف، فیہ ۔۔۔۔۔ عبداللہ بن جبیر وفیہ نظر ویقال: حنین ویقال:حسن۔! [ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ مع الادلة،ص297 ]۔
حالانکہ ابن بریدہ کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی معاصرت حاصل ہے ۔
واضح رہے کہ مذکورہ دعاء ہماری نظر میں ثابت ہے کیونکہ انکار سماع میں امام دارقطنی منفرد ہیں اور جمہور ان کے برخلاف سماع کے قائل ہیں لہٰذا جمہور کے فیصلہ کی روشنی میں امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول غیرمسموع ہے ، لیکن یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے اس لئے ہمیں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

نوٹ: اس مقام پر مذکور موصوف کی بعض باتوں کا جواب پہلے گذشتہ سطور میں متعلقہ مواقع پر دیا جاچکاہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
الزامی جواب

۴)اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے خود اعمش کی ایک معنعن روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جس سے ایک صحابی کا منافق ہونا ’’ثابت‘‘ ہوتا ہے یعنی صحابی کی عدالت (صحابیت) ہی ساقط ہو جاتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت صرف اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور یہ روایت عن سے ہے۔
اگر کسی شخص کو اس روایت میں تصریح سماع مل گئی ہے تو حوالہ پیش کرے، ورنہ یہ روایت ضعیف و مردود ہی ہے۔
رہا استاذ محترم محب اللہ شاہ رحمہ اللہ کو راقم الحروف کا جواب تو وہ دوسرے نمبر پر بطورِ الزام پیش کیا گیا ہے، کیونکہ وہ ابو صالح سے اعمش کی روایت کو سماع پر محمول یعنی صحیح سمجھتے تھے۔
شاید تمام قارئین ان الفاظ کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم نے آں جناب کی تحقیق کو مردود ثابت کرتے ہوئے اس روایت کی نکارت کا حوالہ دیا تھا اس پر یہ کہا گیا کہ:
نیز کیا ایسی تمام صحیح روایات صرف اس وجہ سے ردّ کر دینے کے قابل ہیں کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتا ہے؟ مثلاً حضرت ماعز المزنی رضی اللہ عنہ کا زنا کا واقعہ، صحابی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کی اجازت طلب کرنا،حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کا شراب کی خرید و فروخت کو جائز سمجھنا وغیرہ۔ لیکن ہمارا مقصد چونکہ صحابہ کی تنقیص کرنا ہر گز نہیں سو یہ چنداشارے صرف مسئلے کی وضاحت کے لیے لکھے گئے ہیں۔
تو ہم نے یہ جواب دیا کہ :
واللہ ہم نے صرف اس وجہ سے صحیح روایات رد کرنے کی بات نہیں کی ہے کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتاہے ! بلکہ ہم نے زیربحث روایت میں موجود سند کے عیب کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی ہے؟؟ ہمارا مقصود تو یہ ہے کہ سند میں مذکورہ عیب ہے اور اس کے ساتھ ایک جلیل القدر صحابی پر بڑا گھناؤنا الزام ہے ، اس دوسری بات کو ہم نے پہلی بات کی تائید میں پیش کیا ہے ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اعمش کی تدلیس سے متعلق کہا:
اگراعمش کی ابووائل شقیق سے معنعن روایت کو مطلقا سماع پر محمول کیا جائے تو ایک جلیل القدرصحابی رضی اللہ عنہ کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے (دیکھئے کتاب المعرفۃ والتحقیق الامام یعقوب الفاسی ج 4ص 771 وسیراعلام النبلاء ج 2ص 393 ، 394 ) جو کہ مسلمین (اہل السنہ والجماعہ) کے صحیح عقیدہ کے لحاظ سے باطل ہے ، لہٰذا حافظ ذھبی کا دعوی صحیح نہیں ہے [الاعتصام اگست 1999ص 18 بحوالہ مقالات راشدیہ:ج1ص 339 ] ۔
اب کیا حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے ان الفاظ سے ہم نتیجہ نکالتے ہوئے یہی الفاظ دہرا دیں کہ:
کیا ایسی تمام صحیح روایات صرف اس وجہ سے ردّ کر دینے کے قابل ہیں کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتا ہے؟
ہم تو حافظ موصوف کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں آں موصوف نے (نفاق والی روایت کی ) سندکے اصل عیب اعمش کے عنعنہ کو سامنے رکھا ہے اور اس کے ساتھ ایک جلیل القدر صحابی پر جو ایک خطرناک الزام ہے ، اس دوسری بات کو پہلی بات کی تائید میں پیش کیا ہے ، یہ ہے ہمارا حسن ظن اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بھی حسن ظن کا مستحق سمجھا جائے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اعمش کے عنعنہ کو غیرمعتبرقرار دیتے ہوئے بطورتائید یہ بات بھی کہی ہے ان کا عنعنہ معتبرماننے کی صورت میں ایک جلیل القدرصحابی رضی اللہ عنہ کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے ۔
تو ہم نے سند کے ضعف کی تائید میں متن کی نکارت کو پیش کیا تھا ورنہ متن کی نکارت مرکزی علت نہیں ہے۔ اسی لئے ہم نے اسے بطور قرینہ وتائید پیش کیاہے نہ کی مرکزی دلیل کے طورپر۔

اورہم نے اعمش کے عنعنہ سے متعلق بھی یہی سمجھا تھا کہ موصوف نفاق والی بات کو بطور تائید پیش کررہے ہیں کیونکہ خاص محولہ الفاظ میں آں جناب علامہ راشدی رحمہ اللہ نہیں بلکہ امام ذہبی پر رد کررہے ہیں لہٰذا ان کے اسلوب سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ موصوف اپنے موقف کی تائید میں پیش کررہے ہیں ۔
لیکن چلیں حالیہ وضاحت سے یہ بات صاف ہوگئی کہ تدلیس کے مسئلہ میں نفاق والی بات موصوف کے یکسر غیرمفید اوران کے موقف کی غیرمؤید ہے اور موصوف اس کا حوالہ صرف بطور الزام پیش کرتے ہیں ۔

اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہم بھی بطور الزام آپ سے کہتے ہیں کہ زیربحث روایت کو صحیح مان لینے کی صورت میں ایک جلیل القدر صحابی یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے ، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟
یادرہے کہ آپ کے ترجمہ بدل دینے سے کام نہیں چلے گا۔
اور اگرترجمہ ہی بدل کر کام چلانا تھا تو نفاق والی بات کا بھی ترجمہ بدل دیتے ، اسے بطور الزام کیوں پیش کیا؟؟؟

٥) اگر کوئی کہے کہ ’’ کیا سند کے تمام رواۃ کا ثقہ ہونا سند کی صحت کے لئے کافی ہے؟ ‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سند متصل ہو ، شاذ یا معلول نہ ہو تو اس سند کے راویوں کا ثقہ و صدوق ہونا صحت کے لئے کافی ہے اور اسی پر اہل حدیث کا عمل ہے۔
یاد رہے کہ ہماری روایت مذکورہ کا معلول (یعنی معلل) ہونا ثابت نہیں۔
اور ہم نے اس مضمون میں ثابت کردیا ہے کہ یہ روایت معلول ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top